’’الوفاء باسماء النساء‘‘ (محدّثات انسائیکلوپیڈیا) / ” تین طلاق :ایک سماجی المیہ“

ادارہ

علمی حلقوں میں یہ خبر بہت خوشی و مسرّت کے ساتھ سنی جائے گی کہ ڈاکٹر محمد اکرم ندوی(ولادت 1964) کی محدّثات انسائیکلوپیڈیا ، جس کا چرچا تقریباً 15 برس سے تھا ، منظرِ عام پر آگئی ہے۔  اسے دار المنھاج ، جدّہ ، سعودی عرب نے'الوفاء بأسماء النساء' کے نام سے 43 جلدوں میں شائع کیا ہے ۔

ڈاکٹر اکرم ندوی نے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے 1981 میں عالمیت اور 1983 میں فضلیت کی ہے ۔  مجھے ان کے ساتھ 5 برس ہم درس رہنے کی سعادت حاصل رہی ہے۔  بعد میں انھوں نے لکھنؤ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ۔  ندوہ سے فراغت کے بعد انھوں نے ندوہ ہی میں چند برس تدریسی خدمت انجام دی ، پھر مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی ہدایت پر برطانیہ چلے گئے اور آکسفورڈ سینٹر آف اسلامک اسٹڈیز کے فیلو بن گئے تھے ۔  چند برس قبل انھوں نے وہاں سے علیٰحدگی اختیار کرلی ہے۔  ان دنوں وہ السلام انسٹی ٹیوٹ کے پرنسپل اور کیمبرج اسلامک کالج کے ڈین ہیں۔  حدیث ، فقہ ، سوانح ، سفرنامہ اور دیگر موضوعات پر عربی ، اردو اور انگریزی میں ان کی تقریباً 3 درجن تصانیف اور تراجم ہیں ۔

زیرِ تذکرہ کتاب ان کا غیر معمولی کارنامہ ہے  _ اس میں عہدِ نبوی سے موجودہ دور تک کی دس ہزار ایسی خواتین کا تذکرہ ہے جنھوں نے کسی نہ کسی پہلو سے حدیثِ نبوی کی خدمت انجام دی ہے۔ مثلاً علمِ حدیث حاصل کرنے کے لیے دور دراز کا سفر کیا ہے ، حدیث کی روایت کی ہے ، حدیث کی تعلیم و تدریس کی خدمت انجام دی ہے ، احادیث حفظ کی ہیں ، حدیث کے مجموعے تیار کیے ہیں ، حدیث کے موضوع پر تصنیف و تالیف کا کام کیا ہے ، کتبِ حدیث کی شرح کی ہے ، حدیث کی تعلیم کے ادارے قائم کیے ہیں ، وغیرہ ۔ انھوں نے یہ کام 15 برس قبل کرلیا تھا ، پھر اس میں اضافے کرتے رہے  ۔ اس کے مقدمہ کا انھوں نے خود ہی انگریزی ترجمہ کرلیا تھا ، جو   UK سے Al_Muhaddithat : The women Scholars in Islam  کے نام سے 2007 میں شائع ہوگیا تھا ۔ (یہ انگریزی کتاب انٹرنیٹ پر موجود ہے )

اصل عربی کتاب کو طبع کرانے کی کوششیں اسی وقت سے جاری تھیں ۔عالم عرب کے کئی ناشروں سے بات ہوئی تھی ، لیکن بہت زیادہ ضخیم ہونے اور خطیر مصارف کی وجہ سے کوئی ناشر اسے چھاپنے کی ہمّت نہیں کرپارہا تھا ۔ بالآخر جدّہ کے دار المنہاج نے اس کا حوصلہ دکھایا اور اس کی دل چسپی سے مکمل انسائیکلوپیڈیا زیورِ طبع سے آراستہ ہوگئی ہے۔

بھائی اکرم ندوی اس عظیم علمی خدمت پر تحسین و ستائش کے مستحق ہیں ۔ پوری ندوی برادری کو ان پر ناز ہے ۔ انھوں نے یورپ میں بیٹھ کر ان مستشرقین کے الزام کا منھ توڑ جواب دیا ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو گھر کی چہار دیواری میں بند کرکے تحصیلِ علم سے  محروم رکھا ہے ۔

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

” تین طلاق :ایک سماجی المیہ“

قرآن کریم میں انسان کی عائلی زندگی سے متعلق جن معاملات کے بارے میں تفصیل سے اصولی ہدایات دی گئی ہیں ان میں نکاح و طلاق کے مسائل سرِ فہرست ہیں۔ نکاح کے مقاصد، نکاح میں مذہب کی اہمیت، تعددِ ازدواج، نکاح کے بعد کی زندگی میں خانگی ذمہ داریاں، میاں بیوی کے در میان ناچاقی و تنازعات کا حل اور دیگر امور کے بارے میں تفصیلی ہدایات موجود ہیں۔ اسی طرح اگر میاں بیوی کے در میان باہم نباه ممکن نہ رہے تو اس عقد کو ختم کرنے کا طریقہ کار بھی طلاق کی صورت میں بتایا گیا ہے۔ تاہم نکاح و طلاق کا انعقاد کیسے ہوگا، اس کی تفصیلات سے قرآن کریم میں تعرض نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان مسائل میں ایک سے زائد آراء اور طریق کار کی گنجائش پیدا ہو گئی۔ چنانچہ ائمہ مجتہدین نے اپنے ماحول اور عرف و رواج کے مطابق ان آیات کی تعبیر و تشریح کی۔

مناکحات کے باب میں جو مسئلہ قرنِ اوّل سے معرکہ آراء رہا وہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ہیں۔ حضرات صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کے ہاں بھی ایک مجلس کی طلاق ثلاثہ کے بارے میں ایک سے زائد آراء موجود تھیں۔ اسی طرح تابعین اور بعد کے ادوار میں ہر زمانے میں فقہائے کرام کے ہاں یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا۔ ائمہ اربعہ نے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کے بعد اجماعی مسئلے کے طور پر دیکھا جبکہ بعض دیگر کبار ائمہ اور بعد کے ادوار میں خود ائمہ اربعہ کے پیروکاروں میں نامور فقہائے کرام نے اسے ایک ایسے اجتہادی مسئلے کے طور پر لیا جس میں تعددِ آراء کی گنجائش موجود ہے۔

طلاق کا مسئلہ شرعی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خالص سماجی مسئلہ بھی ہے۔ سماج پر اس کے منفی یا ناخوشگوار اثرات بہر صورت مرتّب ہوتے ہیں۔ اس لیے اس حوالے سے کوئی نقطۂ نظر اختیار کرتے وقت مسئلے کے سماجی پہلو کو ملحوظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے اس مسئلے کے حوالے سے افراط و تفریط کی صورتِ حال ہے۔ ایک طرف ایقاعِ طلاق میں بے احتیاطی ہے اور دوسری طرف وقوعِ طلاق میں شدّت کا رویّہ ہے۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسئلے کو سماجی تناظر میں دیکھا جائے اور خاندان کو توڑنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

عزیزم محمد تہامی بشر علوی نوجوان محقق ہیں۔ انہوں نے طلاقِ ثلاثہ کے مسئلے کو سماجی تناظر میں دیکھنے کی کو شش کی ہے۔ بیک وقت تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دینے کی حمایت میں مضبوط دلائل دیے ہیں۔ یکبارگی کی تین طلاقوں کے نتیجے میں حلالہ کی صورت میں جو شریعت کی روح کے خلاف حیلے اختیار کیے جاتے ہیں ان کی شرعی حیثیت بھی واضح کی ہے۔ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے بارے میں متقدمین فقہاء اور معاصر اہل علم کے نقطہ ہائے نظر کو جمع کر کے مسئلے کے اجماعی پہلو پر بھی بحث کی ہے۔ علاوہ ازیں مسئلے کے ضمنی متعلقات یعنی حدودِ تقلید اور فقہی توسیع پر بھی عمده گفتگو کی ہے۔ مؤلف کے بقول اس کتاب کی تحریر کا محرک بیک وقت تین طلاقوں کی وجہ سے سماجی طور پر جنم لینے والے المیے ہیں کہ کس طرح تین طلاقوں کی وجہ سے آناًفاناً ایک ہنستا بستا گھر اجڑ کر رہ جاتا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے بیک وقت تین طلاقوں کو تعزیری جرم قرار دینے کی سفارش کی ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ آئے دن تین طلاقوں کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ پھر جب غلطی پر ندامت کا احساس ہوتا ہے تو علماء سے رجوع کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب اس حوالے سے علمی ضرورت پوری کرتی نظر آتی ہے۔ امید ہے علمائے کرام اس سے مستفید ہوں گے۔

کتاب کی زبان رواں اور اسلوبِ نگارش علمی و تحقیقی ہے۔ یکبارگی کی تین طلاقوں کے حوالے سے اس کتاب نے چبھتے ہوئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علمی حلقے اس مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اسے اَز سرِ نو زیر غور لائیں اور ایک اجماعی موقف تشکیل دینے کی کوشش کی جائے۔ میرے خیال میں یہ کتاب اس اعتبار سے بھی لائق تحسین ہے کہ نوجوان اہل علم میں بھی احکامِ شرع کو سماج کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کا ذوق پروان چڑھنے لگا ہے۔ دعا ہے کہ الله تعالىٰ اس ذوق میں اضافہ فرمائے اور مستقبل قریب میں ہمیں اس حوالے سے مزید علمی تحقیقات دیکھنا نصیب ہوں۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان

‎کتاب بذریعہ ڈاک منگوانے کے لیے حافظ طاہر صاحب سے رابطہ کریں:  923066426001

تعارف و تبصرہ

(فروری ۲۰۲۱ء)

تلاش

Flag Counter