تصوف اسلام کی روحانی تعبیراور (dimension) کا نام ہے۔جس نے اسلامی تہذیب و تمدن کے دامن کو نہ صرف وسیع کیا ہے بلکہ علوم و فنون کے اک لا متناہی سلسلے کو جنم دیا ہے۔ صوفیانہ فکر و فن نے صدیوں سے تاریخ اسلام میں بڑے اعلیٰ قلوب و اذہان کو متاثر کیا ہے جن میں رومیؒ، غزالیؒ، ابن عربیؒ، شیخ احمد سرہندیؒ،شاہ ولی اللہ ؒ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔صدیوں تک صوفیانہ طرز فکر نے نہ صرف علمی و فکری منظرنامے پر بلکہ مسلم ازہان و قلوب پر بھی حکمرانی کی ہے۔مگر جب سے مغربی افکار و نظریات نے ہمیں اپنے تہذیبی ورثے کا تنقیدی جائزہ لینے اور اپنے زوال کا تجزیہ کرنے کی راہ سجھائی ہے، تب سے انکار تصوف جدید تعلیم یافتہ روشن خیال علماءکے لئے ایک علمی شوق اور فیشن ایبل مشغلہ بن چکا ہے۔جس طرح سوشلزم اور کمیونزم کی نظر میں ہر روحانی وا خلاقی رجحان ذہنی افیون اور superstructureکہلایا اسی طرح جدیدروایتی مسلم مذہبی فکر میں تصوف کو مطعون کرکے ہدفِ تنقید بنایا گیا۔
ہماری علمی تاریخ میں تصوف کے شدید ناقدین جیسے علامہ ابن تیمیہؒ، علامہ ابن القیم ؒ اور علامہ ابن جوزیؒ بھی محمود و مذموم اور اسلامی و غیر اسلامی تصوف کے درمیان حد فاصل کھینچتے ہیں مگر بد قسمتی سے موجودہ دور کے کچھ ناقدین اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ تصوف کو ’ایک متوازی دین‘ اور ’اجنبی پودا‘ قرار دے کر اس کی بنیادیں ہی کھودنے میں لگے ہوئے ہیں۔تصوف پر یلغار موڈرن کہلانے والے مغربی افکار کے غلاموں میں ایک عام سی بات ہو چلی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی مسلسل سفر ہے، زندگی پیہم رواں دواں ہے، زندگی جہدِ مسلسل ہے اور تصوف زندگی کو مفلوج کر دیتا ہے، عائلی اور معاشرتی پرورش سے اجتناب کی تعلیم دیتا ہے، عصری تقاضوں سے گریزاں ہے، فکری مرض ہے، نفسیاتی نشہ ہے اور قلبی سفسطہ۔اور ظاہر ہے کہ ان مذموم افکار کی تعین میں بے سند کتابوں کے غیر معروف واقعات اور جاہل صوفیاءکا ہاتھ ہے۔ اگر ہمارے محققین ، علماءاور دانشوران نے تصوف کے رموز و نکات، مضمرات، اہمیت و ضرورت، حرکیت و فعالیت اور شرعی حدود پر وافر تعداد میں کتابیں لکھی ہوتیں تو شاید نہ اہل خانقاہ تصوف کے نام پر کاروبار کرتے اور نہ ہی زندگی کے باالمقابل تصوف پر جمود اور تعطل کا الزام عائد کیا جاتا، مگر ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تصوف پر لکھنے والے ہمارے مصنفین کا قلمی دائرہ شخصیات اور ان کی کرامتوں سے آگے نہیں بڑھتا۔اس سنگین صورت حال میں علامہ احمد جاوید جیسی کثیر الجہات شخصیات کسی نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں جو بیک وقت مذہبیات، فلسفہ اور ادب پر حیرت انگیز درجے کا ید طولیٰ رکھتے ہیں۔جو نہ صرف تصوف اور جدید علوم کے مردِ میدان ہیں بلکہ ذاتی رجحانات میں بہنے کے بجائے ایک تنقیدی شعور سے مختلف نظامہائے فکر کا جائزہ لیتے ہیں۔ احمد جاوید صاحب نے اپنی معلوماتی و تجزیاتی قلمی نگارشات سے صوفیانہ افکار و نظریات کو دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی محققانہ اور مدلل کاوشیں کی ہیں۔
علامہ احمد جاوید
برصغیرپاک و ہند کی معاصر اسلامی تاریخ میں علم و عمل اور احوال و اخلاق کے اعتبار سے کچھ ہی گنی چنی دینی شخصیات ہیں جن میں علوم معقول و منقول کے اعتبار سے زبردست جامعیت پائی جاتی ہے اور ان میں بلا شک و شبہ علامہ احمد جاوید کی شخصیت سر فہرست ہے ۔آپ ملک پاکستان کے ممتاز ترین دانشور، شاعر، صوفی اور مربی ہیں ۔ علمیت،وسعتِ مطالعہ ،تدبر و تفکر، علمی موضوعات پر نکتہ سنجی، فلسفہ، مذہب، تصوف اور ادب و تنقید میں آپ اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔دین و مذہب سے احمد جاوید کی رغبت و محبت ان کے خمیر میں رچی بسی تھی۔اسلامی تاریخ ، اسلامی فلسفہ ، منطق، علم کلام، تصوف وغیرہ پر ان کے علم اور بصیرت پر حیرت ہی کی جاسکتی ہے۔
آپ نے شعور کی آنکھ اپنے استاد سلیم احمد کی فکری آغوش میں کھولی۔ ایک انٹریو میں احمد جاوید خود بیان کرتے ہیں کہ کیسے ان کے استاد نے کلیاتِ میر، وِل ڈیوراں کی The History of Philosophy، محمد حسن عسکری کی تمام کتب پر مشتمل ایک نصاب مرتب کیا اور یوں مذہبیات اور شاعری کے ساتھ ان کا غیر معمولی ربط استوار ہوگیا۔اردو، عربی، فارسی اور انگریزی شاعری میں آپ کو ید طولیٰ حاصل ہے اورروحانی اور ما بعد طبعییاتی افکار و نظریات ان کا محبوب مشغلہ ہیں۔رومی،ابن عربی، غزالی، سعدی، میر، غالب اور اقبال کے اثرات آپ کی شخصیت اور فکر میں صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔1980میں لاہور منتقلی اوراقبال اکادمی کے ساتھ وابستگی سے آپ کو اپنی علمی و فکری صلاحیتوں کو نکھارنے کا بہترین موقع ملا۔اقبال اکادمی سے آپ 2015میں بہ حیثیت ڈائریکٹر ریٹائرہوئے۔
علمی ، ادبی اور مذہبی حلقوں میں آپ کو یکساں مقبولیت حاصل ہے۔فلسفہ، اخلاقیات، تصوف، اقبالیات، ادبی تنقید اور اسلام کے مختلف پہلووں پر آپ نے بہت کچھ لکھا ہے اور ان موضوعات پر آپ نے متعدد لیکچر دیے ہیں۔ ان کی پانچ کتابیں اب تک چھپ چکی ہیں، جبکہ تیس کے قریب کتابیں زیرِ طبع ہیں۔ علاوہ ازیں موصوف باقاعدگی سے مختلف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر دور حاضر کے فکری و اخلاقی مسائل پر نپی تلی اور متوازن گفتگو کرتے ہیں۔اس تعلق سے کافی ویڈیوز یوٹیوب اور کئی ویب سائٹوں پر دستیاب ہیں جن سے ہم اس تحریر میں استفادہ کریں گے اور تصوف کے بارے میں ان کی آراءکا تجزیہ کرنے کوشش کریں گے۔
جہاں تک تصوف کا تعلق ہے، علامہ احمد جاوید بذات خودراہِ سلوک سے علمی و عملی وابستگی رکھتے ہیں۔روزنامہ دنیا میں چھپے آپ کے ایک انٹریو کے مطابق، ’تصوف کی طرف مائل ہوئے توآخر ایک افغان صوفی بزرگ حضرت اخوند زادہ سیف الرحمان کے، جو طریقت میں مقام بلند اور نہایت مضبوط توجہ کے حامل تھے، دست حق پرست پر مشرف بہ بیعت ہوئے۔اس کے بعد ہی ان کی زندگی میں نمایاں تغیرات کے لامتناہی سلسلے کا آغاز ہوا‘(۱)
اپنے ایک مضمون ’استعانت، انسان دوستی اور وبا کا دور ‘ میں آپ لکھتے ہیں:
”مجھے صحیح پتا نہیں، غالباً دس سال سے، میں طبعاً، ازروئے تربیت،ازروئے تعلیم، از روئے مزاج صوفی ہوں۔میری تربیت، یعنی دیندار بننے میں ، اللہ مجھے معاف کرے دیندارہم کہاں کے، لیکن ویسے کہہ رہا ہوں کہ دین سے قریب لانے میں ساری جو تربیت اور کنٹریبیوشن (contribution)ہے، وہ تصوف کا ہے اور طبعاً اور مزاجاً میں جیسے تصوف سے مناسبت رکھتا ہوں اور تین سلسلوں کا تفصیلی سلوک ، کلاسیکل سلوک کر رکھا ہے، محنت کے ساتھ، توجہ کے ساتھ ،ذوق کے ساتھ اور ایثار کے ساتھ اور اپنے بڑوں سے یعنی بڑوں سے مراد جنہیں دیکھا، ان سے بھی، جنہیں نہیں دیکھا، جن کے بارے میں مستند ذرائع سے سنا، ان اسلاف سے بھی، یعنی صحابہ سے لے کر اپنے اساتذہ و مشائخ تک، یعنی دینی معنوں میں ، بڑائی کے عارفانہ معنوں میںعظمت کے جو مظاہر تھے، ان سب سے والہانہ محبت ہے۔“ (۲)
آپ کے مجموعی تاثرات کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف آپ نے اپنے اساتذہ سے ذوقِ تصوف اخذ کیا تو دوسری طرف آپ نے اپنی فطری استعداد سے نظام تصوف پر تنقیدی نگاہ ڈال کرقرآن و سنت کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا۔
تصوف کے بارے میں احمد جاوید صاحب اپنے مختلف دروس میں افراط و تفریط کے درمیان ایک متوازن راہ اختیار کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔ وہ تصوف کی حقیقت اور اس پر کیے جانے والے اعتراضات کا ایک علمی و فکری محاکمہ کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ معترضین کے اشکالات کو رفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں تودوسری طرف تصوف کے نام پر بے اعتدالیوں کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر بعض مواقع پر ناقدانہ معلوم ہوتا ہے اور بعض جگہ مصلحانہ ہے۔ کبھی تنقیدِ تصوف میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ اسے اسلام کے لئے بے حد مضر اور بے معنی قرار دینے میں نہیں جھجکتے لیکن ساتھ ہی اس کی افادیت سے بھی چشم پوشی نہیں کرتے۔ایک طرف سے آپ ابن عربیؒ، رومیؒ، بیدلؒ، حافظؒ ، دردؒ، شاہ ولی اللہؒ جیسے صوفیاءکے صوفیانہ افکار و نظریات سے حد درجہ شغف رکھتے ہیں اور دور حاضر میں ان کے بہترین شارح قرار دیے جاسکتے ہیں، دوسری طرف آپ ان کے کئی نظریات پر شدید تنقید سے بھی دامن نہیں بچاتے ہیں۔دین کے بنیادی اصول و ضوابط سے متصادم افکار و نظریات کو یک جنبش لب و قلم رد کردیتے ہیں۔
تصوف:حقیقت و اہمیت
احمد جاوید کی نظر میں اسلام کے نظام تزکیہ و تصفیہ پر عمل کرتے ہوئے مقام احسان تک پہنچنے کا ہی نام تصوف معروف ہوا ۔اپنی کتاب’ تزکیہ نفس‘ میں تصوف کی حقیقت پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”احسان تزکیہ و تصوف کا متبادل لفظ ہے۔ احسان ایک حال دید ہے، دید کے بغیر۔ احسان کا مطلب ہے دید کا حال جو دید کا دعویٰ کرنے کی اجازت نہ دے۔ حال دید تین ہی نتائج مرتب کرے گا۔ ایک مزاج کے لئے محبت کو بڑھا دے گا۔دوسرے مزاج کے لئے خشیت کو بڑھا دے گا۔تیسرے مزاج کے لئے معرفت کا سبب بنے گا۔ تو اصل چیز احسان ہے اللہ کے حضور میں رہنا اور اللہ کو استحضار میں رکھنا۔“ (ص۱۵)
اللہ نے انسان کی تخلیق اپنی عبادت کے لئے کی اور عبادت اس طرح کرنے کا حکم آیا ہے کہ گویا بندہ اللہ کو دیکھ رہا ہو۔حدیث جبریل کے مطابق اسلام دین کے ارکان ظاہری ، ایمان ارکانِ باطنی اور احسان ظاہر و باطن کی تحسین کا نام ہے جس کے نتیجے میں اللہ کو دیکھنے والی کیفیت حاصل ہو جاتی ہے۔ جس طرح مسائل شرعیہ کے لئے علم فقہ اور مسائل اعتقادیہ کے لئے علم کلام مدون ہوااسی طرح درجہ احسان تک پہنچنے، اخلاق رذیلہ کو دور کرنے اور اخلاق حمیدہ سے مزین ہونے کے لئے صوفیہ کے احوال و مقامات اور واقعات کی شکل میں فن تصوف مدون ہوا۔
تصوف پر جیو ٹی وی کے ایک علمی مباحثے میں احمد جاوید کہتے ہیں: ہر دین میں تصوف جیسا institution ضرور موجود ہوتا ہے حتیٰ کہ یہودیت جیسے ٹھیٹھ قانونی دین میں بھی یہ پیدا ہوا۔تصوف مذہبی شعور کے زیادہ گہرے اور بامعنی اور زیادہ مستقل حصوں کے دینی versionکا نام ہے۔اس کو نظر انداز کرکے ہم بعض باتوں میں اگر ہم ایک قانونی تحکم کے ساتھ غور کریں گے، دین کی تعبیرات کے کسی generalتسلسل کو اس پر حکم بنائیں گے تو ہم بہت زیادہ درست نتائج تک اس کی تائید یا تردید میں نہیں پہنچ پائیں گے۔ صوفی نظام العمل (episteme) میں معنی حضور کا نام ہے۔ یعنی کسی بیان کا معنی شعور میں حضور پیدا کرتا ہے جبکہ غیر صوفی نظام العمل (non- Sufi episteme) فہم (understanding) پیدا کرتا ہے۔ غیر صوفی نظام العمل میں آدمی نامعلوم پر قانع ہوجاتا ہے۔صوفیاءکا ذہن(understanding) پر قانع نہیں ہوتا، یہ غیب کو اصولی طور پر محفوظ رکھ کر اس کے غیاب میں بھی حضوری (presence)پیدا کر لیتا ہے۔غیب میں اس حضوری پیدا کرنے کو صوفیاءاپنی اصطلاح میں اعتبار کہتے ہیں۔ (۴)
فلاسفہ اور متکلمین کے مقابلے میں صوفی discourse کو علامہ احمد جاویدزیادہ بہتر و برتر قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں ایک غیر معمولی جمالیاتی تاثیر پائی جاتی ہے جو مذہب کو تشکیک اور خشک مذہبیت سے بچانے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے:
”صوفیانہ discourseسے زیادہ مکمل ڈسکورس کسی بھی دینی روایت میں کبھی تخلیق نہیں ہوا اور یہی وجہ ہے کہ یہ پرانا نہیں ہوتا۔ سینٹ آگسٹائن کے City of God پر پندرہ سو برس گزر چکے ہیں مگر وہ آج بھی تازہ ہے۔۔۔ابن عربی کی فتوحات و فصوص کے متعلقہ حصے سینکڑوں سال گزار کر بھی تازہ دم ہیں۔۔۔ان کے مرتبہ علم الوجود کے اصول و مبادی آج بھی اتنے محکم ہیں کہ ان پر آج تک نہ کوئی اضافہ ہوا نہ ترمیم ۔اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔جب کہ دوسری طرف فلاسفہ و متکلمین کا بیشتر سرمایہ ازکار رفتہ ہو چکا ہے۔تو یہ کس وجہ سے ہے؟ یہ اس وجہ سے ہے کہ صوفی ڈسکورس کی تشکیل میں شعور کی جمالیاتی قوت بھی پوری طرح صرف ہوئی ہے۔۔۔اس شعور کا مذہبی مصرف نہ نکالنے کا یہ نتیجہ ہے کہ آج مذہب پر تقریباً تمام اہمdisciplines of knowledgeکی طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے اور مذہبی ذہن بالکل ماوف ہوکر گوشہ ہزیمت پکڑے بیٹھا ہے۔اسے کوئی دفاع نہیں سوجھ رہا۔ یہ میں ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ یہ نوبت اس لئے آئی ہے کہ ہم نے اپنے ایمان کی ناگزیر عقلی، اخلاقی، اور جمالیاتی تاثیرکو کند کر رکھا ہے، ہم نے ایمان کے جمالیاتی لوازم کو معطل کیا ہوا ہے۔“ (۵)
احمد جاوید کے مطابق صوفیانہ بیانیہ مذہبی سطحیت کا بہترین تریاق ہے۔اس سلسلے میں وہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
”میرے خیال میں جب مذہبی علم سطحیت کا شکار ہوا، تو شعور کی مذہبی کارفرمائی کے مظاہر پر اعتراضات کی بنیاد پڑی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ غزالیؒ، یا ابن عربی وغیرہ کے تمام مباحث اور سارے معارک ہمارے themeکے ، ہمارے علمی مزاج کے محکم نمائندے ہیں۔ لیکن اتنی بات بہرحال ملحوظ رہنی چاہئے کہ ان حضرات نے شعور بلکہ وجود کے بہترین جوہر کو دینی حقائق کی قبولیت میں جس طرح صرف کرکے دکھایا ہے، وہ ان کے معترضین کے بس سے باہر ہے۔“ ( ۶ )
تنقیدی جائزہ
علامہ احمد جاوید کے مطابق تصوف کے منہج تزکیہ و علم کا justified ہونا یہ لازم نہیں کرتا کہ اسے تصحیح و تغلیط کے معروف معیارات سے ماورا مان لیا جائے ، کچھ لوگ تصوف کی ہر بات کو تسلیم کرلیتے ہیں، خواہ صحیح ہو یا غلط اور کچھ اس کی کلیتہً نفی کرتے ہیں، خواہ اس کا کوئی حصہ صحیح ہی کیوں نہ ہوجبکہ تصوف یا کسی اور نظریے کے بارے میں صحیح رویہ یہ ہے کہ جو بات قرآن و سنت کے مطابق ہو اسے تسلیم کیا جائے اور جومتصادم ہواسے رد کیا جائے۔
تصوف پر آپ کے ایک اہم مضمون” تصوف کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں“ میں آپ دین اسلام میں تصوف کی حیثیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”تصوف ایسا نہیں ہے کہ فلاں حضرت نے ایجاد کر لیا۔ تصوف جو ہے قرآن کے(Substance) ، سنت میں manifested substance کی روایت کے تسلسل کا ایک نام ہے۔ یعنی رسول اللہﷺ کے شعورِ بندگی اور ذوقِ بندگی کے تسلسل کے لیے جو روایت چل رہی ہے، اس روایت کا ایک عنوان تصوف ہی ہے، چاہے اسے تصوف کہو یا نہ کہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ تصوف کا لفظ قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہے تو یہ لفظ بائنڈنگ نہیں ہے۔ تو صوفیا نے اس ماخذِ دین کو اس ٹوٹل پرسپیکٹو کے ساتھ اختیار کیا اور اسے مسلسل رکھنے کا سامان کیا۔ اس کے تسلسل کا اہتمام کیا۔
تصوف نے گویا خود اپنے اوپر ایک چیک لگا رکھا ہے کہ وہ حقیقتِ بندگی کی اور مقاصدِ بندگی کو عملی، فعلی اور زندہ حالت میں رکھنے والی روایت ہے۔ تو جہاں تک وہ اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرے گا، وہاں تک وہ ہماری اصطلاح کے مطابق تصوف ہونا کوالیفائی (qualify) کرتا ہے۔ لیکن جہاں وہ اپنی اس بیسک (basic)اور پرنسپل (principal) اور فنڈامینٹل(fundamental) ذمہ داری سے روگردانی کر رہا ہے، ان کی طرف نظر ڈالنے میں کوتاہی کا مظاہرہ کر رہا ہے، اس کو اپنی نظام کی واحد آپریٹو(operative) بنیاد بنانے میں ناکامی کا شکار ہے تو ہم اُس فیض کو یا اُس حصے کو یا اُس دائرے کو نہایت آسانی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ تصوف نہیں ہے، یہ تصوف میں بگاڑ پیدا کر دینے والی کچھ صورتیں ہیں۔ تو تصوف کا عروج بھی اسی معیار سے پرکھا جائے گا جو معیار صوفیوں نے خود بنایا نہیں ہے قرآن اور قرآن لانے والے نے اُن پر امپوز (impose)کیا ہے تو تصوف اسی بنیاد پر اپنا جواز رکھتا ہے اور اس بنیاد میں سے جتنا وہ ہٹتا جائے گا اتنا وہ اپنے آپ کو ڈسکوالیفائی (disqualify)اور ریجیکٹبل(rejectable) بناتا چلا جائے گا... حقیقت کو اس کی کُلّیت کے ساتھ امت میں پیدا ہوانے والے جن ڈسپلنز (disciplines)نے قبول کیا ہے، اُن میں تصوف میں جامعیت زیادہ ہے۔ اس کی معراج تو ظاہر ہے قرآن و سنت ہی ہے۔ تو تصوف کوئی خدا نہیں ہے کہ وہ جس سر پہ رکھی ہو اُسے مانا جائے گا۔ جس سر پہ نہیں ہے اُسے نہیں مانا جائے گا۔ یہ کوئی مستقل عنوان نہیں ہے۔ اگر کوئی آدمی اس میں سہولت محسوس کرتا ہے کہ وہ تصوف کا نام ترک کر کے مقاصد کی طرف متوجہ رہے تو وہ بھی صوفی ہے وہ بھی کامل ہے۔“ (۷)
احمد جاوید کے مطابق دین کے کئی ڈسپلنز (disciplines)ہیں مگر نفسِ انسانی کی پہچان صوفیوں کو دیگر ڈسپلنز کے علماءسے زیادہ ہے لہذا یہ ڈسپلن زیادہ کامیاب ہے ۔ دین کا مقصد کسی ایک ڈسپلن میں محدود نہیں بلکہ سارے ڈسپلنز (disciplines)اپنا رول ادا کرتے ہوئے مل کر انسانی فطرت کے مختلف تقاضے پورے کرتے ہیں۔مگر اس کا بالکل یہ مطلب نہیں کہ اہل تصوف دیگر ڈسپلنز سے خود کو بہتر اور ماورا سمجھیں کیونکہ عام طور پر ان میں دیگر طبقات سے زیادہ بے اعتدالیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔کیونکہ جن باطنی قرآنی حقائق کو جاننے کاوہ دعویٰ کرتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ دور رسالت یا اس سے متصل عہد میں وہ ظاہر ہونے سے رہ گئے ہوں۔ ساتھ ہی دیکھا جائے تو صوفیاءاخذ معنی ٰ کے عمل کو داخلی(subjective)قرار دیتے ہیں، حالانکہ مذہب میں textکا معنیٰ ہمیشہ عام ہوتا ہے، privateنہیں، لہذا معلوم ہوتا ہے کہ صوفیاءنے اخذ معنیٰ کے لئے مستند طریقہ لاگو نہیں کیا ہے جس سے کافی مغالطے اور الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔صوفیاءکے یہاں بیان سے حقیقت ِبیان تک پہنچنے کا عمل سادہ ہونا چاہئے تھا مگر وہ پیچیدہ ہے اور technicalitiesرکھتا ہے۔
صدیوں کے بگاڑ کے نتیجے میں تصوف میں شخصیت پرستی بڑی حد تک سرایت کرگئی ہے۔ پیروں اور سلسلوں کو لازم قرار دے کر کافی حد تک غلو سے کام لیا گیا جو قرآن و سنت کی تعلیمات سے متصادم ہے۔احمد جاوید اکابرینِ تصوف کوادب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسلامی تاریخ میں ان کے غیر معمولی کردار سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ ان کو لغزشوں سے پاک نہیں سمجھتے بلکہ کئی مواقع پر ان کے کچھ نظریات کو رد بھی کرتے ہیں۔ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
”تصوف کی روایت اسی کنڈیشنر (conditioner)کے احیا کی روایت ہے۔ جو بھی دین سے تعلق رکھنے والے انسٹی ٹیوشنز(institutions) ہیں، وہ سارے اسی تک و دو میں ہیں لیکن اُس کا ہر قیمت پر دفاع نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف نبیﷺ کا قول و فعل ہے جس کا دفاع ہر قیمت پر کرنا ہے۔ نبی کے بعد کسی بھی شخصیت، چاہے وہ صحابہ ہوں اہلِ بیت ہوں، تابعین ہوں، تبع تابعین ہوں، کسی کے قول و فعل کا غیر مشروط دفاع (درست) نہیں ہے۔ یہ صرف نبیﷺ کا حق ہے۔“(۸)
ان کے مطابق کچھ اکابر صوفیاء(جیسے شاہ ولی اللہ ؒ وغیرہ) کی کتب میں کئی ایسی شطحیات ملتی ہیں جن کی تاویل کرنا بھی درست نہیں، اور ایسی چیزوں کو ان کی باطنی کجی قرار دیا جانا چاہئے۔
احمد جاوید کے مطابق تصوف کا علمی و عملی پہلو دن بہ دن زوال کا شکار ہورہا ہے اور اس کی جگہ رسم پرستی اور superficialityنے لے لی ہے۔مذکورہ بالا مضمون میں وہ لکھتے ہیں:
”زوال ہوتا ہے دینی روایتوں میں کہ فارمز (forms)پر اصرار کرنا اُن کی اوریجنل پیوریٹی (original purity) کو چھوڑ کر اور معنی کو نظر انداز کر دینا بس (اس سے) سارا سٹرکچر (structure) گر جاتا ہے۔ تو اب جیسے تصوف کا زوال ہے کہ فارم پر انحصار ہے اشغال پر۔ اور اُن کا مطلوب کیا ہے، مقصود کیا ہے، اُن کی حقیقت کیا ہے، اُس سے مکمل بے خبری ہے۔ اور پھر فارمز کو بھی اُن کی پیوریٹی اور آتھن ٹیسٹی(purity and authenticity) کے ساتھ نہیں اختیار کیا گیا۔“ (۹)
اسی لئے وہ تصوف کے موجودہ اداروں اور قصباتی تصوف پر شدید تنقید کرتے ہیں۔مزارات پر ہونے والی غیر شرعی حرکات کے متعلق ایک سوال کے جواب میں وہ لکھتے ہیں:
”تصوف اپنے موجودہ institutions میں اور اپنے حاضر و مظاہر میں ایک خطرناک روایت بن چکا ہے، جو بے معنی اور مضر بھی ہے۔جس قصباتی تصوف سے ہمیں واسطہ ہے، اس کا جلد از جلد فنا ہونا ہی اسلام اور مسلمانوں کے لئے بہتر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تصوف کو defendکرنے میں بڑی دشواری پیش آتی ہے ۔۔۔کیونکہ اپنے موجودہ مظاہر میں تصوف بڑی حد تک الا ماشاء اللہ سنت کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے اور بڑی حد تک دینی ذوق کی آبیاری کو روکنے والا ادارہ بن چکا ہے۔میں بھی اس وحشت میں شریک ہوں اور چاہتا ہوں کہ یہ روایت اپنے تمام موجود مظاہر کے ساتھ ایک ایک کرکے ختم ہو جائے، تاکہ تزکیہ نفس کا عمل ان نام نہاد ٹھیکے داروں کے ہاتھ سے نکل کر مسنون فضا میں داخل ہوسکے۔“ (۱٠)
تصوف پر ہونے والی تنقید کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
”میں تصوف کی تردید میں بننے والے ڈسکورس کے اکثر حصوں کو غلط سمجھتا ہوں لیکن اُن لوگوں(یعنی ناقدینِ تصوف) کی نیت وغیرہ پہ کوئی شبہ نہیں کرتا ،ممکن ہے وہ صوفیوں سے زیادہ اللہ والے ہوں۔ تصوف پر ہونے والی اکثر تنقیدیں اس ذہن کے لئے بے اثر ہیں، جو تصوف کو قدرے سمجھتا ہے۔اس وجہ سے کبھی ان تنقیدوں کا نتیجہ یہ نہیں نکلا کہ کوئی صوفی حلقہ ٹوٹ گیا ہو۔ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ بہت اچھی طرح بنا کے ، تراش خراش کے ساتھ ساتھ، جو اصولی بات اس میں آگئی ہے، اس کو دیکھ لیں۔اس میں جو بات سمجھ میں آئے، اس کو قبول کریں۔ جو نہ سمجھ میں آئیں، اس کی وجہ بتائیں۔ایک اصول ہے، جب اس کو کھولیں گے تو امید ہے کہ آپ کو یہ اصول زیادہ برا نہیں لگے گا۔ وہ اصول یہ ہے:
مذہبی حقائق کا ادراک مذہبی علم تک محدود نہیں ہے۔
تو یہ اصول ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جو اس کو نہیں جانتا، وہ علم سے مس نہیں رکھتا۔ ٹھیک ہے، اس اصول کو میں انشاءاللہ کسی وقت کھولوں گا۔ تصوف پر ہونے والی تنقیدوںمیں اکثر یہ غلطی کارفرما ہوتی ہے۔دیکھیں غلطیاں دو قسم کی ہوتی ہیں کسی بھی disciplineمیں۔ ایک واقعاتی، جزوی، جیسے دس اینٹوں میں ایک اینٹ خراب لگی ہوئی ہے، اور اس کی خرابی بالکل واقعاتی اور سامنے کی ہے۔ آپ پچاس چیزیں نکال کر دکھادیں ہم کہیں گے ٹھیک ہے، یہ سب غلط ہیں۔لیکن ایک ہوتی ہے کہ اس عمارت ہی کو نہیں بننا چاہئے۔پھر اس پر آپ کو بھی کچھ tough timeاٹھانا چاہئے اور وہ ابھی آپ لوگوں کو ملا نہیں ہے۔ تو ہم جہاں سے چیزوں کو دیکھنا شروع کرتے ہیں ، وہ اس یقین کے ساتھ کرتے ہیں کہ قرآن مجید بھی اپنے معلوم ہونے کے تمام راستے خود نہیں کھولتا۔ “ (۱۱)
کل ملا کر دیکھا جائے تو علامہ احمد جاوید خود ان اعتراضات کو کسی نہ کسی طرح اپنی تحریروں اور بیانوں میں address کرتے ہیں اور خُذ ما صفا وَدَع مَا کَدِر کے مصداق وہ تصوف سے ا ن چیزوں کو لینے میں عارمحسوس نہیں کرتے جو شریعتِ اسلامیہ کے مزاج سے ہم آہنگ ہوں اور ساتھ ہی ان چیزوں کو رد کرنے میں بھی تامل نہیں کرتے جو خلافِ شرع ہوں۔ قرآن و سنت کو حکم بنانے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
”حضرتِ جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ ہم اپنے ہر وارد کو، اپنی ہر بات کو ،اپنے ہر حال کو ،اپنے ہر مکاشفے کو دو گواہوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ وہ دونوں تصدیق کرتے ہیں تو اُسے قبول کرتے ہیں ورنہ رد کر دیتے ہیں۔ وہ دو گواہ ہیں قرآن وسنت ۔قرآن ایسینس (essence)ہے اور سنت اُس کی سٹینڈرڈ فارم (standard form)ہے۔“(۱۲)
احمد جاوید اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ تصوف کے نظام العقائد اور اعمال کی فوری اصلاح کی جائے اور ان کی نظر میں تب تک چین سے بیٹھنا اہل علم و عرفان کے لئے مناسب نہیں جب تک اسے شریعت کے سانچے میں نہ ڈھالا جائے۔ اس ضمن میں ان کے دروس کا ایک سلسلہ Tasawuf: A Revivalist Approachکے عنوان سے یو ٹیوب پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے کئی اور قابل توجہ امور کی نشاندہی کی ہے۔ (۱۳)
المختصر تصوف اسلام کا روحانی پہلو ہے، لہذا اس سے الجھنا یا اس کا انکار کرنا ،اسلامی شریعت کے سرچشموں کو اور روحانی پہلووں کو خشک کرنا ہے مگراسے صاف و شفاف رکھنے کے لئے قرآن و سنت کے احکامات کی پاسداری لازمی ہے۔
حوالہ جات
۱۔ روزنامہ دنیا: انٹریو: احمد جاوید
۲۔ استعانت، انسان دوستی اور وبا کا دور :احمد جاوید: http://daanish.pk/40459
۳۔تزکیہ نفس: احمد جاوید: ص۵۱
۴۔https://youtu.be/k95B1I6St20
۵۔اسباق:احمد جاوید: ص: ۴۱،۵۱
۶۔اسباق:احمد جاوید: ص۱۴
۷۔ تصوف کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں:احمد جاوید: http://daanish.pk/40459
۸۔ تصوف کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں:احمد جاوید: (ایضاً)
۹۔ تصوف کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں:احمد جاوید: (ایضاً)
۰۱۔تزکیہ نفس: احمد جاوید: ص۵۱
۱۱۔اسباق:احمد جاوید :ص۶۰۲، ۷۰۲
۲۱۔ تصوف کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں:احمد جاوید: (www.daanish.pk)
۳۱۔https://youtu.be/wxQHupHyz8U