ایک ضروری تمہید
یہ کائنات اسلامی ایمانیات کی ایک نہایت محکم ومکمل دلیل ہے اور اسلامی دعوت وپیغام کی صداقت وحقانیت کے ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کرتی ہے، نیز جب کسی فرد پر کائنات کی یہ گواہی منکشف ہوتی ہے تو کائنات کا ہر ایک ذرہ اور ہر ایک رنگ اس کے لیے ایمان کی تقویت کا زبردست ذریعہ بنتا ہے، ہمارا مقصود اپنی اس تحریر میں اسی موضوع کے حوالہ سے کچھ معروضات پیش کرنا ہے۔ تاہم اس حقیقت کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ کہ کائنات کی اس شہادت کو پورا پورا سمجھنے کی توفیق انسان کو عموما انبیاء کی دعوت سننے اور تدبرِ کائنات کا صحیح منہج انہی سے سیکھ لینے کے بعدملتی ہے۔ نبی کے لب ہلتے ہیں اور کائنات سے استنباط کا منہجِ صحیح وہ بیان کرتا ہے تو یکایک ایک جہان انسان کے سامنے روشن ہوجاتا ہے اور کائنات کے جلووں میں چمکتا ہوا اللہ کا نور انسان کے ظاہر وباطن کو خیرہ کردیتا ہے، جبکہ نبوی دعوت کو سنے بغیر اگر کائنات میں تدبر کیا جائے تو بہت دفعہ انسان ایک اچھا طبیب یا سائنس دان تو بن جاتا ہے، مگر کائنات کے ان مقناطیسی انوارات تک مکمل رسائی پانے سے محروم رہتا ہے جو انسان کو اس کے رب سے ہم کنار کرتے ہیں، اس کی عظمت وجلال کا نقش دل میں بٹھاتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں حاضری کا احساس دل میں پیدا کرتے، نیز پیغمبرانِ خدا کے دامنِ فیض سے وابستہ کرتے ہیں۔
تاہم یہ بھی ہوسکتا ہےکہ کسی بادیہ نشین کو اللہ پاک کسی رسول کی دعوت سنے بغیر ہی اس کی صدقِ طلب اور صفاءِ باطن کی بناء پر براہِ راست کائنات میں تدبر کرنے سے ان ایمانیات تک رسائی عطا فرمادیں جن کی دعوت دے کر اللہ پاک انبیاء کو مبعوث فرماتے ہیں۔ ایسا ممکن ہے اور بلاشبہ ممکن ہے، مگر یہ عمومی ضابطہ نہیں۔ عام طور پر انسانوں کو کائنات کی شہادت کا ادراک پیغمبر کے لب ہلنے اور اس کی دعوت سننے کے بعد ہی ہوتا ہے، چنانچہ اللہ رب العزت نے اسی وجہ سے قرآن کریم میں جہاں جابجا کائناتی نشانیوں کی طرف متوجہ کیا ہے، وہیں ایک سے زیادہ مقامات پر یہ ارشاد بھی فرمایا ہے کہ رسول بھیجے بغیر کسی قوم کو پکڑنا ہمارا طریقہ نہیں۔ مثلا ایک جگہ ارشاد ہے:
”وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُھْلِكَ الْقُرَى حَتّیٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّھَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْھِمْ آيَاتِنَا“ (القصص: 59)
یعنی ”تمہارا رب بستیوں کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ ان کے مرکزی مقام میں کوئی رسول مبعوث نہیں فرما لیتا جو ان کو ہماری آیات اور نشانیاں پڑھ کر سنائے۔“
”مرکزی مقام“ کا ذکر اس لیے فرمایا کیونکہ یہاں سے نبی کا پیغام بآسانی اطراف واکناف تک پہنچ جاتا ہے اور طلب گاروں کے لیے نبی تک پہنچنا آسان ہوتا ہے، اس ارشاد سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگرچہ نبی پہل کرتے ہوئے خود ہی چل کر بے طلبوں کے پاس جاتا ہے اور اس انتظار میں نہیں رہتا کہ کوئی ضرورت مند خود چل کر آئے گا تو اس کو پیغام سنادوں گا، مگر خود نبی کا ایک ایک آدمی کے دروازے پر چل کر آنا بہرحال ضروری نہیں، بلکہ نبی کا کسی مرکزی مقام میں مبعوث ہوجانا اور اطراف واکناف تک اس کے پیغام کا پہنچ جانا خود ان اطراف کے لوگوں کو بھی ذمہ دار بناتا ہے کہ وہ خود آگے بڑھ کر مزید خبرگیری کریں اور خدا کے اس منادی کے حوالہ سے صحیح معلومات حاصل کریں۔
خیر، یہاں پر عرض صرف یہ کرنا مقصود ہے کہ کائنات ایک محکم ومکمل دلیل ہے دینِ الہی کے مبنی برحق ہونے کی، مگر انسان کے حواس اور دل ودماغ پر پڑے غفلت کے دبیز پردے عموما اس کو نہ تو کائنات میں کسی اعلی مقصد کے لیے تدبر کرنے دیتے ہیں اور نہ ہی استنباط کرکے صحیح نتائج تک پہنچنے دیتے ہیں، عام طور یہ حجابات انبیاء کے دعوت وپیغام کو سننے کے بعد ہی دور ہوتے ہیں اور انبیاء ہی کے طریقہء استنباط کو سن کر انسان کو یہ توفیق ہوتی ہے کہ وہ اس کائنات کو کسی اعلی مقصد کے لیے دیکھے اور ایک عظیم الشان طریقہء استنباط کے ساتھ اس سے صحیح نتائج اخذ کرے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے انسان کی راہ نمائی کے لیے صرف کائنات نہیں بنائی، بلکہ اس بات کا اعلان بھی کیا کہ پیغمبر بھیجے بغیر گرفت کرنا ہمارا طریقہ نہیں اور بتایا کہ ہر قوم میں ایک سمجھانے والا گذر چکا ہے۔(فاطر: 24)
ہم نے یہاں پر کائنات کی شہادتوں کے حوالہ سے اپنے طور پر کچھ کہنے کی بجائے، آخری آسمانی صحیفہ ”قرآن“ ہی کے اسلوبِ دلیل وطریقہء استنباط کے حوالہ سے کچھ توضیحات عرض کرنے پر اکتفاء کیا ہے کہ قرآن اور اس کی اتباع میں صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی ایمانیات کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے کس طرح کائناتی حوالوں کا مسلسل ذکر کرتے ہیں اور کس طرح کائنات کے یہ حوالہ جات بنجر دلوں کو سرسبزی وشادابی عطا کرتے ہیں، اس سے قاری کے سامنے انبیاء کی پیش کردہ مشترکہ اسلامی دعوت کا خلاصہ بھی آجائے گا اور کائنات سے صحیح نتائج اخذ کرنے کا وہ طریقہء استنباط بھی جو عموما انبیاءِ کرام اللہ تعالی کے حکم سے بنی نوع انسان کے سامنے پیش کرتے ہیں، آئیے دیکھتے ہیں۔
تدبرِ کائنات کی فیصلہ کن اہمیت
دلیل دینے کے معاملہ میں قرآنِ کریم کا ایک نہایت اہم، توجہ طلب اور تقریبا ہر سورہ میں مکرر سہ کرر ذکر ہونے والا اسلوب یہ ہے کہ یہ طالبِ ہدایت کو بار بار تدبرِ کائنات کی اور کائناتی نقشہ کو جستجوئے حق کے جذبہ سے دیکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ یہ ایک آزمودہ حقیقت اور خدا کے لاکھوں کروڑوں صالح بندوں کا عملی تجربہ ہے کہ اسلامی ایمانیات کا جو پرکیف اور قطعیت سے بھر پور تجربہ انسان کو کائناتی نقشہ بچشمِ خود دیکھنے سے حاصل ہوتا ہے اور خصوصا خالق کے اسلامی تعارف کا جو بدیہی یا نیم بدیہی تیقن انسان کو اس راہ سے حاصل ہوتا ہے، وہ محض کتابیں پڑھنے اور لفظی دلائل کے سن لینے سے ممکن نہیں۔ جدید انسان کا المیہ یہ ہے کہ یہ بند کمروں میں بیٹھ کر فکری بوکاٹے لڑا نے سے ہی سب کچھ حاصل کرلینا چاہتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے خود ساختہ مصنوعی تفکرات نے اس سے بصیرت کی وہ روشنی سلب کر لی ہے جو زمین وآسمان کے ہوش ربا آثار وتغیرات کو بہ چشمِ خود دیکھنے سے انسان کو حاصل ہوتی ہے۔
جو آدمی قرآن فہمی کا دعوی کرتاہے اور قرآن کے مطالعہ کے ساتھ کائنات کے مطالعہ کو اس نے اپنی زندگی میں شامل نہیں کررکھا تو اس کا دعوائے قرآن فہمی درست نہیں۔ جدید دور کے انسان کے ساتھ یہ بڑا ہی درد ناک المیہ پیش آیا ہے کہ یہ کائناتی نظاروں کے عملی مشاہدہ سے محروم ہوچکا ہے اور انفس وآفاق میں موجود خدا کی عظیم نشانیوں کو بہ چشمِ تدبر دیکھنے کے لیے تیار نہیں، زیادہ سے زیادہ وہ اس سلسلہ میں تفریحی انداز کے اندر چند ایسی کتابیں پڑھ لینا یا ویڈیوز کو دیکھ لینا ہی کافی سمجھتا ہے جن کے اندر بعض مناظرِ کائنات کی نقشہ کشی کی گئی ہوتی ہے یا پھر جو لوگ عملا دیکھتے بھی ہیں تو وہ جتنا اس کائنات کو مادی اغراض ومقاصد کے لیے دیکھنے میں ترقی یافتہ ہیں اور تدبرِ کائنات کے نام پر جتنی ہوش ربا ترقی انہوں نے اس حوالہ سے کی ہے، موٹے حروف میں لکھے ہوئے اور روحِ کائنات کی نشان دہی کرنے والے کائناتی اوراق کو پڑھنے میں وہ اتنے ہی بدو اور نااہل واقع ہوئے ہیں۔
قرآنی مطالبہ ”تدبرِ کائنات“کالازمی تقاضا ایک تو یہ ہے کہ آدمی اس کائنات کو عملا کھلی آنکھ کے ساتھ بہ چشمِ خود دیکھے، دوسرا یہ کہ طالبِ حق بن کر یہ سب کچھ بہ چشمِ تدبر دیکھے۔ کائناتی مناظر کی نقشہ کشی کو صرف پڑھنا یا ویڈیوز میں دیکھنا، انہیں عملا کھلی آنکھ کے ساتھ بہ چشمِ تدبر طالبِ حق بن کر دیکھنے کا قائم مقام کبھی نہیں ہوسکتا،ان دونوں کے اثرات میں زمین وآسمان کا فرق ہے اور قرآن کا مطالبہ اپنے قاری سے بنفسِ نفیس تدبر کرنے کاہے، نہ کہ کتابوں میں کائناتی معلومات پڑھنے کا اور سچ کہوں تو نرا کتابی انہماک سرے سے انسان کی اس حس کو ہی مار دیتا ہے جو کائنات کے جلووں میں کوئی ولولہ محسوس کرتی ہے۔ بالفاظِ اقبال
کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا کہ
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ
جدید انسان نے الحاد کے من پسند رنگ کی ایک عینک چڑھا کر، لیبارٹریوں میں جاکے اس کائنات کو صرف اپنے مادی مفادات اور مادی اغراض کے لیے ہی دیکھا ہے، جبکہ غیر جانب دارانہ نگاہ سے اس کائنات کو دیکھنے اور اس میں موجود موٹے حروف سے لکھے ہوئے معرفتِ الہی کے اوراق کا سامنا کرکے انہیں اپنے من میں اتارنے میں یہ اتنا ہی پست اور پس ماندہ واقع ہوا ہے۔ سو ظاہر ہے کہ جب ہم لوگ اسلامی مبادیات کی فکری پختگی کو ملاحظہ کرنے کے لیے اس کائنات کو بچشمِ خود اس زاویہ سے دیکھیں گے نہیں جس زاویہ سے رب العلمین اس کائنات کو دیکھنے کی بنی نوع انسان کو تلقین کرتا ہے تو آپ ہی بتائیے کہ ہم کائنات کی گواہی کو محسوس کیسےکریں گے اور عملا تدبرِ کائنات کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے ایقان وعرفان کی برکات کیسے حاصل کرسکیں گے، ورنہ جو لوگ اس کائنات کو بچشمِ خود اس زاویہ سے دیکھتے ہیں تو وہ اس گواہی کو محسوس بھی کرتے ہیں اور اثباتِ مدعا کے لیے کافی وافی بھی سمجھتے ہیں۔
تدبرِ کائنات اور جملہ اسلامی ایمانیات
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کائنات زیادہ سے زیادہ صرف وجودِ باری تعالی کی دلیل ہے، مگر یہ درست نہیں۔قرآن کریم میں نہ صرف وجودِ باری تعالی یا توحید، بلکہ رسالت اور آخرت جیسے امور کے احقاق کے لیے بھی انسان کو کائناتی نظام کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اور کائنات ہی کے ایک حوالہ کو جملہ ایمانی بنیادوں کے اثبات کے لیے کام میں لایا گیا ہے۔ قرآنیات کے ایک محقق عالم امام جصاصؒ نے لکھا ہے کہ قرآن جب یہ کہتا ہے کہ کائنات میں انسان کی نصیحت اور سبق آموزی کے لیے آیات (بصیغہ جمع) ہیں تو اس کا معنی ہوتا ہے کہ کائنات میں انسان کے لیے صرف ایک ہی قسم کی ایمانی راہ نمائی نہیں، بلکہ کئی طرح کی ایمانی راہ نمائیاں موجود ہیں۔(احکام القرآن، ابوبکر الجصاص، جلد2، صفحہ66۔ ط: قدیمی کتب خانہ، کراچی) اس امر کی وضاحت کے لیے ہم چند اشارات یہاں عرض کرتے ہیں جس سے ان شاء اللہ بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ قرآن کے استندلالات اس حوالہ سے کتنے نکتہ رس اور مبہوت کن ہیں۔
خدا کا اسلامی تعارف اور تدبرِ کائنات
قرآن کا مطالبہ خدا کو صرف موجود مان لینے کا نہیں، بلکہ دل ودماغ پر اس خدا کی ہیبت طاری کرنے، حقائق کے مطابق اپنے رویے اس رب کے حوالہ سے درست کرنے اور تعظیم ومحبت کا تعلق اس سے قائم کرنے کا بھی ہے اور اسی کا نام ”ایمان باللہ“ ہے۔ نیز جس طرح یہ کائنات وجودِ باری تعالی کا اثبات ہمارے سامنے کرتی ہے، ویسے ہی اس رب سے تعظیم وتوقیر کا تعلق قائم کرنے کی تلقین بھی ہمیں کرتی ہے۔ چنانچہ قرآن عام طور پر نہ صرف خدا کے وجود کو ماننے کے لیے، بلکہ اس کی عزت وتوقیر کی لامتناہی حدوں کو سمجھنے کے لیے بھی کائنات میں تدبر کرتے رہنے کی برابر تلقین کرتا ہے۔ وہ سب آیات جن میں کائناتی ڈیزائن کی طرف اشارہ کرکے خدا کی طرف متوجہ کیا گیا ہے، وہ صرف وجودِ باری تعالی کا ہی اثبات نہیں کرتیں، بلکہ خدا کے اسلامی تعارف کا اثبات بھی کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ وہ کن کن صفات کا حامل ہے، کیونکر تعظیم وتوقیر کے لائق ہے، اس کے ساتھ کیسا معاملہ رکھنا ہمارے لیے ضروری ہے، اس کے بارہ میں کون سے رویے خطرناک ہیں اور یہ کہ وہ کوئی مشینی خدا نہیں ، بلکہ ایک زندہ وجاوید، متصرف خود مختار اور علیم وخبیر رب ہے۔
توحید اور تدبرِ کائنات
نیز توحیدی حرارت اپنے اندر پیدا کرنے کےلیے بھی قرآن میں انسان کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ کائنات کو دیکھے اور بتائے کہ کیا اس کا ئنات میں خدا کے سوا کسی اور کا کوئی تصرف نظر آتا ہے؟ کیا کوئی ہے جس نے خدا کی دی ہوئی قوتِ تسخیر اور خدا کے تخلیق کردہ میٹیریل کے بغیر کوئی ایک مکھی ہی اپنی طرف سےبنائی ہو؟ جب ظاہر ہے کہ نہیں اور مشرکین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات میں حقیقی، بالذات اور اولین تصرف صرف ایک ہی ذات کا ہے اور اگر کوئی دوسرا صاحبِ تصرف ہے بھی تو وہ خود اپنے وجود وبقاء میں اس حقیقی متصرف کا محتاج ہے، جب ایسا ہے تو پھر کسی کو اس عظیم وجلیل رب کے برابر لا بٹھانے، حاجتوں کے لیے اس کو پکارنے، اس کے سامنے تعظیم وادب کی انتہاء پر چلے جانے، اپنی مشکل برآری کا مالک ومختار سمجھنے اور جو اپنے وجود وبقاء میں ہر آن کسی اور کا محتاج اور اپنی اصل میں بالکل صفر کی طرح ہے، اسے اس حی وقیوم کی صف میں لاکھڑا کرنے کی آخر کیا تُک ہے جو اس کائنات کا اول وآخر اور ظاہر وباطن ہے؟ ایک چھوٹے کو ایک بڑے کے برابر لاکھڑا کرکے اور اس پہ اصرار کرکےکیا ہم اس بڑے کی اہانت کے مرتکب نہیں ہوتے؟ اگر انسانوں کے مابین معاملہ کرتے ہوئے ہم حفظِ مراتب کے اس اصول سے کام لیتے ہیں جبکہ نفسِ انسانیت میں وہ سب برابر ہوتے ہیں تو ایک خدا اور اس کی مخلوق کو برابر لاکھڑا کرتے ہوئے ہمیں یہ اصول اور بڑے کی تعظیم وتکریم کا خیال کیوں عجیب لگتا ہے جبکہ ان دونوں میں درجہ اور رتبہ کے اعتبار سے کوئی چیز بھی مشترک نہیں اور نہ ہی آپس میں کوئی تقابل بنتا ہے؟
ایمان بالآخرۃ اور تدبرِ کائنات
اس کے بعد آئیے عقیدہ آخرت کی طرف۔ اس حوالہ سے قرآنِ کریم میں ہمیں کئی طرح کے استدلالات ملتے ہیں۔
استدلال نمبر 1
انسان اس عظیم الشان اور ناقابل یقین وسعتوں کی حامل کائنات کو دیکھنے اور اس کے خالق کی عظمت کا نقش دل میں محسوس کرنے کے بعد جب اس دنیا میں انسانوں کے دو طرفہ رنگ اور ان کی دو طرفہ دوڑ دیکھتا ہے کہ ایک طرف رب کے وفا شعار، اس کے آگے رکوع وسجود کرنے والے، اس کی نعمتوں کا شکر کرنے، اس کی آزمائشوں پر صبر کرنے، اس کی مخلوق کے کام آنے والے اور رب کے ساتھ اپنے رشتہ کے مقابلہ میں ہر رشتہ کو چھوٹا سمجھنے والے اور رب کے نام پر جان دینے کا شوق رکھنے والے ہیں جو اس راہ پر پوری قوت سے دوڑے چلے جارہے ہیں، جبکہ دوسری طرف اسی رب کے کچھ باغی، اس کے خلاف زبان درازی کرنے والے، نعمتوں کو ڈکارکر ان کا انکار کرنے والے، ذرا سا سرد وگرم آنے پر ناشکریوں کے پل باندھنے والے، آزمائش کے پہلو کا مذاق اڑانے والے، غفلت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر اسی کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھانے والے، راشی افسروں کی خوشامد کو تہذیب اور خداوندِ کریم کے رو برو رکوع وسجود کو خلافِ تہذیب سمجھنے والے اور کائناتی نظام کو اندھا نظام کہہ کر اس عظیم الشان کائنات کا مذاق اڑانے والے ہیں جو دوسروں کو بھی خدا پرستی کی راہ سے روکنے کے لیے جتن کر رہے ہیں اور اس راہِ بغاوت پر سرپٹ دوڑے چلے جارہے ہیں۔
جب ایک سوچنے سمجھنے والا انسان انسانوں کی یہ دوطرفہ دوڑ اور یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھتا ہے تو اس کا حساس اور بیدار دل کبھی اس بات پر یقین نہیں کرتاہے کہ جو اس کائنات کا پر جلال، ذی وقار، سمیع وبصیر، علیم وخبیر اور علی شیء قدیر رب ہے، وہ ان دونوں فریقوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکے گا، اس کے ہاں سیاہ وسفید کی کوئی تمیز نہ ہوگی اور اس نے یہ جہان اور اِس جہاں کے دولہا میاں انسان کو بس یوں ہی فنا کے گھاٹ اتارنے کے لیے دنیا کا خلیفہ بنایا ہوگا، اس کے لیے نعمتوں اور رحمتوں کا سمندر بس یوں ہی بہا دیا ہوگا، سرد وگرم کا ایک سلسلہ بس یوں ہی چلاکر بھول گیا ہوگا، ضروری ہے کہ قیامت کا وہ دن واقع ہو کر رہےجس کی خبر اس کے سچے نبی دیتے ہیں، جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا، یہ کائنات کے رب کی صفاتِ عطمت وجلال کا تقاضا ہے۔ کیا کوئی بھی عزتِ نفس رکھنے والا ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو اس نے تخلیق وتدبیر کا ایک عظیم الشان نظام قائم کر رکھا ہو جو ہر دیکھنے والے کی نگاہ کو اس خالق کے عظمت وجلال کے احساس سے آشنا کرتا ہو، جبکہ اس کے ہاں خود اپنے ہی باغیوں اور وفاداروں کا کوئی فرق نہ ہو، بس سب کو ایک ہی طرح کا صلہ دیا جاتا ہو کہ موت کے گھاٹ اتار کر قصہ مُکا دیا جاتا ہو؟ کیا کوئی عقل والا ہے جو اس بات سے اتفاق کرے؟
انسان کی حیثیت اس دنیا میں باقی جان داروں سے بہت مختلف ہے، یہ اس دنیا کا بادشاہ ہے، دنیا کی رونق اسی کےدم سے ہے، جس ٹھاٹھ اور باٹھ سے دنیا میں یہ رہتا ہے، کھاتا پیتا ہے، سوتا جاگتا ہے، سردی گرمی کے الگ الگ لباس زیبِ تن کرتا ہے، غیر معمولی گھر تیار کرتا ہے، صبح شام اپنے پیٹ کو بھرنے کے لیے پانی، پیاز، ٹماٹر، مرچ، نمک، گوشت، سبزی کے آمیزے آگ پہ چڑھا تا ہے، ضیافتوں میں شریک ہوکر خوش گپیاں کرتا ہے، شادیوں اور جنازوں کی تقریبات کرتا ہے، بازاروں کو آبادتا ہے، اپنے وجود کو تھکانے کی بجائے سواریوں پہ سوار ہوکر لمبے لمبے سفر کرتا ہے، علم وفن کے کمالات دکھاتا ہے، صنعت وحرفت کے جوہر آزماتا ہے، بحر وبر کے خزانوں پر کمندیں ڈالتا ہے، لوہے کو موم اور موم کو پتھر کرتا ہے، کیا کوئی اور مخلوق ہے جو اس شان کے ساتھ ہمیں اس دنیا میں نظر آتی ہو؟ انسان کا معاملہ باقی ذی روحوں سے بالکل الگ ہے اور دنیا میں اس کی شاہانہ حیثیت موجودہ سائنسی دور میں تو کچھ زیادہ ہی کھل کر نظر آرہی ہے، اس کو عقل صرف کھانے کے نت نئے ذاتقے تیار کرنے کے لیے یا خلابازی کے کرتب دکھانے کے لیےہی نہیں دی گئی، یہ عقل اپنے رب کے معاملہ میں بھی استعمال کرنی ہے، خدانے اگر انسان کو اس کرہ ارض کا خلیفہ اور بادشاہ بنایا ہے تو ضرور اس کے پیچھے کوئی خاص مقصد بھی ہے، اگر شاکر وکافر کا کوئی فرق نہ ہو، صالح اور فاسق کا کوئی فرق نہ ہو، ظالم اور عادل کا کوئی فرق نہ ہو، ساجد اور باغی کا کوئی فرق نہ ہو، تعظیم وتمسخر میں کوئی فرق نہ ہو، رحم اور فساد میں کوئی فرق نہ ہو، بس سب نے ایک ہی طرح اس دنیا کا سرد وگرم سہہ کر پیوندِ خاک ہونا ہو تو اس انسان کی خلافتِ ارضی بے مقصد ٹھہرتی ہے اور ایسا تصور اختیار کرنا خود خدا سےبدگمانی اور بہت بڑی بد گمانی کے مترادف ہے۔ قرآن میں ہے:
”أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ ۔ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ“ (القلم: 35، 36)
یعنی ”کیا ہم فرماں برداروں کو مجرموں کی طرح کردیں گے، تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کیسی بہکی باتیں کہتے ہو؟“
استدلال نمبر 2
خدا کے ہاں اچھے برے کی تمیز کا یہ عالم ہے کہ وہ ہم انسانوں کے ضمیر اور خمیر میں رحم وعدل کی فطری تحسین اور ظلم وبے ہودگی کی فطری کراہیت پیدا کرکے ہمیں زمین پہ اتارتا ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس رب کے ہاں اچھے بری کی تمیز اتنی ضروری ہے اور وہ اس حوالہ سے ہمیں صاحبِ تمیز دیکھنا چاہتا ہے، کیا وہ کبھی نامہ سیاہوں اور روشن پیشانیوں کو ایک لاٹھی سے ہانک سکتا ہے اور یہ کہ ایسا سوچنا کیا اس رب کی بے توقیری اور بے تعظیمی کے مترادف نہیں ہے؟ اس استدلال کا اشارہ ہمیں قرآن میں سورہ القیامہ کی پہلی دو آیات کے اندر اور سورہ الشمس کی آیات 7۔10 میں مل سکتا ہے، اگرچہ ان مقامات پر کہی گئی بات کا مقصود صرف اسی استدلال پر روشنی ڈالنا نہیں، بلکہ اور بھی بہت کچھ وہاں مضمر ہے۔
استدلال نمبر 3
نیز یہ جہان ، اس میں انسان کی شاہانہ زندگی کا سامان، اس کی خدمت میں مصروف ایک ناقابلِ یقین اور عظیم الشان خواب ناک نظام اور خدا کے حوالہ سے سوچنے پر مجبور کردینے والے زمین وآسمان کسی بھی ذی شعور انسان کو یہ سوچنے پر حقیقتا مجبور کردیتے ہیں کہ خدا نے یہ سب ہمیں اپنی ذات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے بنایا، وہ ان کائناتی نشانیوں کے ذریعہ ہمیں اپنی ذات کا تعارف کرانا چاہتا ہے، اپنی ذات وصفات کی وحدانیت پر دلائل قائم کرکے انسانوں کے رویوں کو آزمانا چاہتا ہے، اپنی عظمت وجلال کا نقش ہمارے دل میں بٹھانا چاہتا ہے، ہمیں اپنی بندگی کا پیکر بنانا چاہتا ہے اور اگر انسان کے کفر وشکر یا خدا کے معاملہ سے بالکل لاتعلق رہنے کے رویہ کا اس کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑنا ہوتا تو خدا سرے سے اس جہان کو ہی نہ بناتا، نہ انسان کو سوچنے سمجھنے والا دماغ دیتا، نہ اپنی یاد میں تسکین کا سامان رکھتا اور نہ ہی ہماری آنکھوں کے سامنے اپنی نشانیوں کا ایک ناپیدا کنار جہان کھڑا کرتا۔ ضرور خدا ہمیں اپنی ذات کے حوالہ سے بیدار، حساس اور محتاط دیکھنا چاہتا ہے اور اسی لیے اس نے یہ سب کچھ کیا ہے۔ استدلال کی اس صنف کو ایک جگہ قرآن میں مومنوں کے دل کے احساس کی صورت میں بیان کیا گیا ہے:
”رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ“ (آل عمران: 191)
یعنی ”اے ہمارے رب! تو نے یہ سب بے کار اور بے مقصد پیدا نہیں کیا، تو پاک ہے اس سے (بلکہ تونے ضرور یہ سب ہمیں اپنا تعارف کرانے کے لیے بنایا ہے)۔“
نیز ایک اور جگہ ارشاد ہے:
”وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَھُمَا بَاطِلًا ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ ۔ أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ ۔ كِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِہٖ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ“ (ص: 27-29)
یعنی ”ہم نے آسمان وزمین کو اور ان کے مابین کو بے مقصد پیدا نہیں کیا ( بلکہ اس سے مقصود اپنی ذات کی توحید وتعارف پر دلائل قائم کرنا اور انسانوں کو اپنی عبادت ومعرفت کی طرف متوجہ کرنا ہے، سو جو شخص اب بھی ہماری راہ سے اعراض کرے گا اور کائنات کے عظیم الشان نظام کو بے مقصد ٹھہرائے گا تو اس پر ہمارا عذاب واجب ہوگا)، کائنات کو بے مقصد سمجھنا اور اس کی سبق آموزی سے انکار کرنا اہل کفر کا خیال اور گمان ہے اور ہماری نسبت ایسے گھٹیا خیالات رکھنے والے اہلِ کفر کے لیے ہلاکت خیز جہنم تیار ہے۔ کیا ہم ایمان اور اعمالِ صالحہ کی زندگی گذارنے والوں کو ان کی طرح کردیں گے جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں؟ یا کیا ہم بچ بچا کر احتیاط سے زندگی گذارنے والوں کو بد دیانتوں کی طرح کردیں گے؟ (اے نبی!) یہ بابرکت کتاب ہم نے تمہاری طرف اس لیے نازل کی ہے کہ لوگ اس کی آیات میں غور کریں اور اصحابِ عقل اس سے سبق حاصل کرسکیں۔“
اس طرح کی آیات جن میں کائنات کی مقصدیت اور انسان کی مقصدیت کی بات کہی گئی ہے، قرآن میں جابجا بکھری ہوئی ہیں، جن کا خلاصہ یہی ہے کہ ہم نے نہ تو کائنات کے عظیم الشان نظام کو پیدا کرکے انسان کے سامنے بے مقصد لاکھڑا کیا ہے اور نہ ہی ہم اپنے وفاداروں وباغیوں کو ایک لاٹھی سے ہانکیں گے، یہ کائنات ایک حق مقصد کے ساتھ پیدا کی گئی ہے اور وہ یہی ہے جس کی طرف کائنات اصحابِ تدبر کو چیخ چیخ کر متوجہ کرتی ہے، یعنی میرا ایک خالق ومالک ہے، وہ عظمت وجلال اور رحم وکرم کا پیکر ہے، سمیع وبصیر اور علیم وخبیر ہے، کائنات اس کے حکم میں بندھی ہوئی ہے، اس کو جانو اور مانو اور ویسے مانو جیسے ماننے کا حق ہے یا پھر اس کے حق میں کوتاہی کے مرتکب ہوکر ایک دہشت ناک انجام کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اس مضمون کا اشارہ قرآن میں سورہ الانعام کی آیت 73 میں، سورہ یونس کی آیت 3، 4، 5 میں، سورہ زمر کی آیت 5-7 میں، سورہ انبیاء کی آیت 16-18 میں، سورہ حجر کی آیت 85، 86 میں، سورہ دخان کی آیت 38-42 میں، سورہ ص کی آیت 27-29 میں، سورہ آلِ عمران کی آیت 190، 191 میں، سورہ جاثیہ کی آیت 21، 22 میں، المومنون کی 115-118 میں اور سورہ قیامہ کی آیت 36-40 میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ کائنات کی مقصدیت کے اس ایک حوالہ سے غور وفکر کرنے کی سنجیدہ حس اگر انسان میں بیدار ہوجائے اور وہ اپنے اندر حق کی سچی طلب پیدا کرلے تو دنیا کی کوئی رکاوٹ اس کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی، وہ بتائیدِ الہی دینِ حق تک پہنچ کر ہی رہے گا، ان شاء اللہ۔
استدلال نمبر 4
جو لوگ عقیدہ آخرت پہ گفت وشنید کرتے ہیں، ان کا ایک بڑا اشکال یہ ہوتا ہے کہ آخر موت کے بعد زندگی کیسے ممکن ہے؟ انہیں یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ جنت وجہنم کا جہان کیسے وجود میں آئے گا؟ مرے ہوؤں میں پھر سے زندگی کا رشتہ کیسے جڑے گا؟ جو مر کے مٹی میں مل گئے، جن کی خاک کو ہوا نے اڑا کے کہیں سے کہیں بکھیر دیا، جن کی ہڈیاں بھی پیوندِ خاک ہوگئیں، ان کا جب تخم ہی ملنے کا نہیں تو ان میں نئی زندگی کا بلب کیسے روشن ہوگا؟ عرب کے مشرک اور جاہل بدو ہی نہیں، آج کے عقل پرست ملحد بھی عقیدہ آخرت پہ اس طرح کا اشکال کرتے ہوئے پائے گئےہیں اور ان کے بڑے بڑے ”ذہینوں“ کی سوئی بعض اوقات اسی سوال پہ اٹکی ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن نے بہت دفعہ عقیدہءِ آخرت کے اثبات کے لیے اور اس حوالہ سے لوگوں کے دماغ میں پیدا ہونے والے جالے کی صفائی کے لیے فقط قدرتِ خداوندی ہی کو بیان کرنے پر اکتفاء کیا ہے کہ دیکھو! اک نیا جہان کسی نتھو خیرے نے نہیں، اسی اللہ نے بنانا ہے جس نے یہ سارا ناپیدا کنار جہان سجایا ہے، پھر اس کی تخلیق پہ اعتراض کیسا اور اشکا ل کیسا؟
کیا جس نے یہ سارا جہان پیدا فرمایا، رنگ وبو کا فرش بچھایا، کسی کو اڑنا کسی کو پھدکنا سکھایا، آنکھوں کو چمکنا اور کانوں کو بجنے والا بنایا، کائنات کے نظاروں سے انسانی نگاہوں کو خیرہ فرمایا، کیا وہ یہ سب بنانے کے بعد اب خالی ہاتھ ہوگیا ہے، کیا نئے سرے سے ایک اور جہان کھڑا کردینا اس کے لیے مشکل ہوگیا ہے؟ اگر کسی کو یہ رویہ علم وعقل کا نتیجہ لگتا ہے تو اس کے دماغی افلاس اور ذہنی دیوالیہ پن پر جتنا بھی افسوس کیا جائے، کم ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ نیا جہان بھی اسی نے بنانا ہے جس نے یہ جہان بنایا، پھر اشکال کس بات کا اور الجھن کس بات کی؟ایک جگہ ارشاد ہے: ”قُلْ يُحْيِيھَا الَّذِي أَنشَأَھَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَھُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ“ (یس: 79) یعنی آخرت کا جہان اسی نے بنانا ہے جس نے یہ نظر آنے والا جہان بنایا۔ باقی کائنات صرف خدا کی قدرت کا نہیں، بلکہ آخرت کے فی الواقع اثبات کا بھی سامان اپنے اندر رکھتی ہے اور اس حوالہ سے چند اشارات ہم عرض کرچکے ہیں۔
ایمان بالرسالہ اور تدبرِ کائنات
اب آتے ہیں رسالت کی طرف، اللہ کی ذات کا یقین سارے ایمان کی جان اور بنیاد ہے اور یہ یقین جتنا کائنات کو دیکھنے سے حاصل ہوتا ہے، اتنا کسی اور ذریعہ سے قطعا ممکن نہیں ہے۔ کائنات کو دیکھنے سے نہ صرف اللہ کی ذات کا یقین حاصل ہوتا ہے، بلکہ اللہ کی صفات (حکیم، خبیر، قدیر، علیم، عظیم، جلیل، حلیم، حی وقیوم، رحمن ورحیم، جبار وقہار، سمیع وبصیر وغیرہ) کا علم بھی حاصل ہوتا ہےاور اللہ کی ذات کا رعب دل میں پیدا ہوتا ہے، پھر یہی رعب انسان کو اس رب کے حوالہ سے اپنے رویے درست کرنے اور غلط رویوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر اکساتا ہے، کائنات کے خالق ومالک اور رب کے حوالہ سے محتاط اور حساس بناتا ہے، اسی احتیاط اور حساسیت کے تحت جب کوئی آواز سنائی دے کہ میں اللہ کا پیغمبر ہوں تو وہ اس پر چونک اٹھتا ہے، صاحبِ آواز کی صدق وسچائی اگر غیر مشتبہ ہو تو وہی ربِ کائنات کا رعب اس کو اس صاحبِ آواز کا حلقہ بگوش بناتا ہے۔ اس کی نظر میں اس بات کے اندر کوئی عقلی استحالہ نہیں ہوتا کہ ربِ کائنات غیب کے پردوں کو چیرتے ہوئے اپنے کسی بندہ پر اپنا پیغام نازل کرے۔ یوں اس رب کی اپنی تمام تر صفات کے ساتھ موجودگی کا یقین، اس کی ہی ناراضگی کا خوف، اس کے عتاب سے بچنے کی لگن اور اس کے ”علی کل شیء قدیر“ ہونے کا احساس اسے انبیاء کے دامن سے وابستہ کرتا ہے، یہی طرزِ فکر پہلے بھی نیک بخت روحوں کو انبیاء کا حلقہ بگوش بنا کر رب العلمین کے رنگ میں رنگتا تھا اور یہی طرزِ فکر آج بھی انسان کو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے درِ فیض تک پہنچا کر اس میں ربانیت کی شان پیدا کرسکتا ہے۔
”ایمان بالرسالۃ“ اور تدبرِ کائنات کے باہمی تعلق کی یہ بات ہم یوں بھی بیان کرسکتے ہیں کہ قرآن کا مطالبہ ہے کہ انسان ”تقوی“ اختیار کریں، ”تقوی“ کا لغوی معنی ہے: ”بچنا اور بچاؤ کرنا“، جبکہ اس کا مفہوم اورمعنی مرادی ہے: ”اپنے اندر احتیاط اور حساسیت کا رویہ پیدا کرنا۔“ اب سوال یہ ہے کہ یہ تقوی، احتیاط اور حساسیت کا رویہ کس کے بارہ میں اختیار کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے تو جواب ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ اللہ کی ذات کے حوالہ سے ہے کہ رب العلمین کے حوالہ سے ہمارا معاملہ صرف عقلی اثبات کی حد تک محدود نہ ہو بلکہ اس حوالہ سے ہمارے اندر ایک گرمیء احساس بھی ہو، رب کی عظیم الشان صفات کا ادراک ہو اور اس کے حوالہ سے رعب وہیبت کا ایک نقش ہمارے دل میں پایا جاتا ہو، اس کے حوالہ سے ہم کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند نہ رکھیں، وہ زندہ وجاوید رب موجود ہے، ہماری ہر حرکت اس کے نوٹس میں ہے، ہم اپنے تحفظ کا سامان کر لیں اور اس کے حوالہ سے حساس بن کر زندگی گذاریں۔ اس کیفیت کا نام ”تقوی“ ہے۔
یہ کیفیت جس انسان کے اندر بھی ہوگی تو اس کا ضمیر اپنے رب کے حوالہ سے متحرک رہے گا، اس حوالہ سے غلط اور صحیح کی راہ نمائی اس کو دیتا رہے گا اور جب کسی منادی کی آواز سنائی دے گی کہ میں خدا کا رسول ہوں، تم سے دنیا کی کوئی متاع نہیں چاہتا ہوں، بس خدا ہی کے حوالہ سے تمہاری راہ نمائی کرنے کے لیے اور تمہارے اندر عبدیت اور ربانیت کی شان پیدا کرنے کے لیے مبعوث ہوا ہوں تو ممکن ہی نہیں کہ یہ ضمیر انسان کو اس آواز سے لاتعلق رہنے دے۔ خلاصہ معروض یہ ہے کہ خدا کے حوالہ سے تقوی، احتیاط اور حساسیت کی کیفیات انسان کے اندر خود منادیء رسالت کے حوالہ سے بھی حساسیت کی کیفیات پیدا کرتی ہیں، اب خدا کے حوالہ سے انسان کے اندر تقوی کی کیفیت پیدا ہوجائےاور مردہ احساسات میں زندگی کی حرارت پیدا ہوجائے، اس کے لیے تدبرِ کائنات بہترین ”ٹانک“ ہے کیونکہ تقوی کی یہ کیفیت جڑی ہوئی ہے اس نقشِ عظمت کے ساتھ جو انسان کے دل میں ربِ کائنات کے حوالہ سے پایا جاتا ہے، یہ نقش جتنا مضبوط ہوگا، تقوی کی کیفیت بھی اتنی ہی قوی ہوگی اور ہم بتا چکے ہیں کہ خدا کی عظمت کا نقش دل میں پختہ کرنے کے لیے خود قرآن اور صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سب سے زیادہ اور سب سے بڑا حوالہ کائنات کا دیا گیا ہے۔ اب اس تقوی کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ انسان منادیء رسالت کی آواز پر کان دھرے، اس کی نداء کو ”سنی ان سنی“ نہ کرے اور اس کے بارہ میں خبر گیری کرکے ایمان لے آئے، جبکہ ”ایمان بالرسالۃ“ کے بعد اسی تقوی کی کیفیت میں ترقی کی ایسی ایسی راہیں کھلتی ہیں کہ انسان ربانیت کا پیکر اور بذاتِ خود اللہ کی ایک برہان بن جاتا ہے۔ اس تقوی کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن میں درجنوں اور بیسیوں بار مختلف الفاظ میں اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
مثلا سورہ نساء کے آغاز پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ”اے انسانو! اپنے اس رب سے بچ بچا کر چلو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ۔۔۔“ یا ”سورہ یس“ میں ارشاد ہے کہ ”آگے اور پیچھے سے اپنا بچاؤ کرتے ہوئے زندگی بسر کرو تاکہ تم مستحقِ رحمت بن سکو“تو نادان لوگ یقینا ”بچ بچا کر چلنے“ کی اس ہدایت کا یقینا کوئی عجیب وغریب مفہوم ہی تراشیں گے مگرایک سلیم الطبع انسان کی نظر میں اس کا مفہوم بالکل واضح ہے اور وہ وہی ہے جو ہم عرض کرچکے ہیں کہ اپنے اندر خدا کے حوالہ سے حساسیت پیدا کرو، اس کے بارہ میں زندہ ضمیری کا ثبوت دو، ایسے افعال اور رویوں سے اپنی حفاظت کرو جن میں ربِ عظیم کی بے توقیری کا پہلو پایا جاتا ہو اور جن کے نتیجہ میں تمہیں ربِ کائنات کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑے۔ حکم ہے کہ اس دنیا میں چونکہ اللہ کی بے توقیری کی مختلف شکلوں کا ایک جنگل اگا ہوا ہے، سو اس جنگل کے اندر تم اپنی آنکھیں اپنے رب کے حوالہ سے کھلی رکھو اور ساری زندگی ایسی حساسیت اور احتیاط (تقوی) کے ساتھ گذارو جیسے کوئی آدمی خار دار جھاڑیوں کے پاس سے گذرتے ہوئے خود کو آگے اور پیچھے سے بچاتے ہوئے چلتا ہے یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ جس طرح ایک باخبر اور بارعب ریاست کا عام شہری حاکمِ وقت کے رعب اور ہیبت کی وجہ سے ملکی قوانین کو بائی پاس کرنے کا تصور نہیں کرسکتا یا جب کبھی حاکمِ وقت کے سامنے موجود ہو تو خصوصیت کے ساتھ ایسی سب حرکتوں سے اجتناب کرتا ہے جو اس بارگاہ کی نزاکتوں کے خلاف ہوں۔
اب سوچئے کہ جو آدمی واقعتا رب کو رب سمجھے گا، کائنات کو اور کائنات میں اپنی موجودگی کو اسی رب کے حوالہ سے دیکھے گا، اس کے حوالہ سے واقعی بچ بچا کر احتیاط سے چلے گا، اس کے معاملہ میں کوئی رویہ اختیار کرتے ہوئے واقعی حساسیت سے کام لے گا تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ خدا کے منادیوں کی آواز کو خاطر میں نہ لائے، ان کی آواز کو سنی ان سنی کردے اور ان کے حوالہ سے کوئی خبر گیری ہی نہ کرے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک آدمی کے دل میں قانون اور ریاست کی تعظیم بھی ہو، لیکن جب اسی قانون اور ریاست کا کوئی نمائندہ اس کے پاس آئے تو وہ اس کی آواز کو سنی ان سنی کردے، اس کو دروازہ سے ہی دھتکار دے اور اس کے بارہ میں یہ تک خبر گیری نہ کرے کہ کہیں اپنے بارہ میں ریاستی نمائندہ ہونے کا اس کا دعوی مبنی بر حقیقت تو نہیں تھا تاکہ پھر حسبِ حال اس کے ساتھ سلوک کیا جاتا۔ ظاہر ہے ایسی حرکت کوئی ایسا آدمی ہی کرسکتا ہے جس کے دل میں ریاست اور قانون ہی کی کوئی تعظیم نہیں ہے۔ سو رسولوں کا معاملہ خدا سے الگ نہیں ہے، اگر ایک آدمی خدا کی تعظیم پر یقین رکھتا ہے تو ممکن ہی نہیں کہ وہ خدا کے منادیوں کی آواز کو سنی ان سنی کردے اور ان کے حوالہ سے اس خبر گیری تک کی ضرورت محسوس نہ کرے کہ کیا یہ منادی اپنے دعوی میں سچا ہے یا جھوٹا۔ لاتعلقی کا یہ انداز کوئی ایسا آدمی ہی اختیار کرسکتا ہے جو خود خدا سے ہی لاتعلق ہے۔
تاہم خدا کی تعظیم کا یہ معنی نہیں کہ اب ہر مدعیء رسالت کے سامنے ادب سے سر جھکا دیا جائے، بلکہ خداوند ہی کی تعظیم کے احساس کے ساتھ جس طرح کسی مدعیء رسالت کی صداقت واضح ہوجانے کے بعد خود کو اس سے وابستہ کرنا ضروری ہے، بعینہ اسی طرح اگر کسی مدعیء رسالت کا جھوٹ اس حوالہ سے ثابت ہوتا ہے تو اسی خداوند ہی کی تعظیم کے احساس کے تحت خدا کا ایک مومن بندہ اپنے آپ کو اس سے دور رکھے گا، اس کے دھوکہ پر لوگوں کو متنبہ کرے گا۔ خدا جب کسی انسان کو اپنا پیغمبر بناتا ہے تو اس کو صداقت کے عام فہم دلائل بھی دیتا ہے اور جب کوئی جھوٹا خود کو اس کا رسول بتاتا ہے تو خدا لوگوں کو اس کے شر سے بچانے کے لیے اس کے جھوٹ کا پول بھی ضرور کھولتا ہے اور یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ درج بالا کلام کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن میں دیگر ایمانی رویوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ، خود رسولوں کی نداء پر لبیک کہنے اور ان کے معاملہ کو اپنے سے متعلق سمجھنے کا احساس پیدا کرنے کے لیے بھی کائنات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
قرآنی ورلڈ ویو کی اہمیت وافادیت
چونکہ قرآن خدا کی طرف سےسائنسی اور غیر سائنسی دونوں طرح کے ادوار وافراد کے لیے آخری پیامِ ہدایت بن کر آیا ہے اس لیے اس میں کائناتی جلووں میں سے عموما صرف اس جہان کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور جس تک رسائی پانے کے لیے انسانی نگاہ کو نہ خورد بین کی ضرورت ہے، نہ ہی دور بین کی، نہ خلائی شٹل کی اور نہ ہی اس کے بھاری بھرکم اخراجات کی، تاکہ ہر کس وناکس اس سے فائدہ اٹھا سکےاور کسی کو بھی اس سے استفادہ کرنے میں کوئی مانع پیش نہ آئے۔ نیز اس وجہ سے بھی کہ انسان کی ہدایت کے لیے خود سائنٹفک دور میں بھی صرف اس کھلی آنکھ سے نظر آنے والی کائنات کا مطالعہ کافی شافی ہوگا بشرطیکہ آدمی ہدایت کا طالب ہو، ورنہ خلاو پاتال کے غوطے بھی اس کو فائدہ نہیں دیں گے۔ دور بین ایجاد ہوجانے کے بعد نہ تو یہ جہان انسان کے لیے بے قیمت ہوگیا ہے اور نہ ہی قرآن کی پیش کردہ تصویرِ کائنات نے اپنی قیمت کھوئی ہے۔
جدید انسان کو ایک ہوس لگی ہوئی ہے کائنات کی پنہائیوں میں جھانکنے کی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جتنا کچھ اللہ نے ہمارے سامنے رکھا ہے اس کا پورا سبق ہم پڑھنے کے لیے تیار نہیں۔ معاش کی تگ ودو سے کچھ وقت نکالئے،انکارِ مذہب کے فیشن کو چھوڑیے اور ہدایت کی طلب کے ساتھ اللہ کی طرف قدم بڑھائیے، دھوپ اور چھاؤں کی طرح آپ کو شکر وکفر کا فرق بھی اسی زمین پر سمجھ آجائے گا اور اللہ خود بڑھ کر آپ سے آملے گا۔ آسمان ، تاروں، جھلملاتی کہکشاؤں، چمکتے اجالوں، بہتے نالوں، فلک بوس پہاڑوں، سرسبز گلستانوں، سرد وگرم ہواؤں، بادل سے ابلتے فواروں، سنہری دھوپ اور خنک چھاؤں، خزاؤں وبہاروں، ہوا میں تیرتے بادل کے سائبانوں، ست رنگی چہکاروں، چڑھتے اترتے سورج اور گھٹتے بڑھتے چاند کےایمان پرورنظاروں، سمندر کی بے قابو امواجوں، ابلتی آبشاروں، خاک سے نکلتے سبزی، اناج اور پھلوں کے رنگ برنگی خزانوں میں آج بھی حیرت واستعجاب کی ایک دنیا موجود ہے، بس جدید انسان کے مزاج میں خلل آگیا ہے جو یہ موبائل نامی آلہ پر تو حیران ہوتا ہے لیکن کان اور زبان کی تخلیق پر نہیں، دور بین پر حیران ہوتا ہے اور خود اپنی آنکھ پر نہیں، سائنسی کھلونوں پر حیران ہوتا ہے اور انسانی دماغ کی تخلیق پر نہیں، نہ اس عظیم خالق پر جس نے اربوں کی تعداد میں انسانی دماغ بنائے اور ان میں کرشمہ سازی کی صنعت لگائی۔ بند کمروں، مصنوعی روشنیوں اور جدید تہذیب کی افسوں کاریوں میں پھنسا ہوا انسان اس کائنات کو بچشمِ خود کسی اعلی مقصد کے لیے دیکھنے کو تیار نہیں۔
راہ روانِ سائنس کی زندگی بہت گاڑھے اور عمیق تدبر کے باوجود کنوئیں کے مینڈک کی طرح ہے جو اپنے کنوئیں سے باہر جھانکنے کو تیار نہیں۔ چنانچہ کہنے کو تو اس وقت انسان کی دریافت کافی ”پَرِے“ تک پھیل چکی ہے، لیکن اگر ہدایت کا طالب بن کر صرف چاند سورج تک پھیلی ہوئی کائنات کو ہی دیکھ لیا جائے تو یہ انسان کی بصیرت کے لیے نہ صرف کل کافی تھا بلکہ آج بھی کافی ہے۔ سائنس کی غیر معمولی ترقی کے باوجود انسان کی نگاہ مادے سے آگے نہیں جارہی اور اس ترقی کے پیچھے جن لوگوں کا سرمایہ لگا ہوا ہے، انہی کے اغراض ومقاصد اور انہی کےمشن کی تکمیل ہی پیشِ نظر ہے۔ طلبِ ہدایت کے ساتھ اگر وہ صرف کھلی آنکھ سے نظر آنے والی اس کائنات کو ہی دیکھ لیں تو ان کی ہدایت کا سفر آسان ہوسکتا ہے اور یہ کائنات انہیں اسلام کی حقانیت تک پہنچا سکتی ہے۔ لیکن جب کسی کی اغراض مادیت اور معاشی مقاصد سے آگے بڑھتی ہی نہیں ہیں، انکارِ مذہب کو ایک فیشن بنالیا گیا ہے اور کوئی مذہب خواہ کتنا ہی سائنٹفک ہو، اس کی پیروی کو بالعموم دوسری نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے تو ذرا سوچئے کہ اس رویہ کے ساتھ ہدایت کا سفر کیسے آگے بڑھ سکتا ہے۔
یہ کائنات سرچشمہء نصیحت ہے، اس کے لیے وقت نکالئے اور اللہ کی دی ہوئی آنکھوں کے ساتھ کبھی کبھی تنہائی میں رہ کر صرف عارفانہ نگاہ سے اس کو دیکھئے، دین ومذہب کے بارہ میں آپ کے بہت سے سوالات خود بخود آپ کی جان چھوڑ جائیں گے۔ کائناتی نقشوں میں جب ایک بار آپ خدا کی صناعی کے جلوے دیکھنے کے عادی ہوگئے تو پھر سائنس کی مصنوعی روشنیاں بھی آپ کے لیے حجاب نہیں بنیں گی، ان روشنیوں میں بھی خدا ہی کا وجود دِکھے گا، جو سائنسی کھلونوں کا خمار آج سر پہ سوار ہے وہ اتر جائے گا اور یہ سائنس سے قبل سائنس دانوں کے خالق ورب کی ہی یاد دلائیں گے، اس کے بارہ میں سوچنے کی اہمیت کا احساس دلائیں گے اور اس کے معاملہ کو خود سے غیر متعلق سمجھنے کے جدید فیشن پر آپ کو چوکنا کریں گے۔
اگر عارفانہ نگاہ کے ساتھ اس کائنات کو دیکھنے کی حس انسان میں بیدا ہوجائے (جو بدقسمتی سے مصنوعی طرزِ زندگی کی وجہ سے بے ہوش ہوئی پڑی ہے) توچُلو بھر پانی بھی انسان کی آنکھوں کو جکڑ لیتا ہے، کائنات کے وہ چھوٹے چھوٹے رنگ جنہیں ہم معمولی سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں وہ انسان کو اپنی گرفت اور ٹرانس میں لے لیتے ہیں، دو چار دن تک اگر آدمی آسمان کو ، سورج کو اور اڑتی پھدکتی زندگی کے رنگوں کو درس وعبرت کی نگاہ سے نہ دیکھ پائے تو اس کو اپنے اندر ایک خلا محسوس ہوتا ہے، دیکھ لے تو گذرا ہوا وقت یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی قفس میں گذرا ہو اور اس راہ سے اسلامی ایمانیات کا تیقن حاصل ہونے کے بعد آدمی کو محسوس ہوتا ہے کہ اسلام اور خدا کے اسلامی تعارف کی حقانیت اتنی پیچیدہ اور مبہم نہیں جتنی کہ ہم نے سمجھ رکھی ہے اور یہ کہ اس کا ادراک کرنے کے لیے تو بس ہوش وحواس کی سلامتی درکار ہے۔
ہم لوگ چونکہ بچپن سے اس کائنات کو سرسری نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہیں اس لیے بڑے ہوکر بھی اسے بس سرسری نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں اور ایمان ومعرفت کی معراجی کیفیات کا ہمیں تجربہ نہیں ہوتا، ورنہ یہ جیتا جاگتا جہان جو ہمارے سامنے موجود ہے، ایک عظیم الشان مشاہدہ کا سامان اپنے اندر رکھتا ہے۔ اگر ہم حقیقت پسندی کی آنکھ کھولیں اور ذرا سنجیدگی سے اس کو دیکھتے رہا کریں تو رفتہ رفتہ منظر صاف ہوگا، آنکھیں ماحول سے مانوس ہوں گی اور ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہم آج تک کتنی بڑی حقیقت اور کتنے حیران کن مشاہدہ سے محروم رہے۔
گذشتہ گفتگو سے ہمارا یہ مقصود قطعا نہیں ہے کہ سائنس فی اصلہ اسلام کی حریف ہے یا اسلام سائنس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، اگر کسی کو یہ تاثر ملا ہے تو اس کے لیے دعائے خیر ہی کی جاسکتی ہے۔ ہمارا مقصود فقط یہ رہاہے کہ جدید انسان کو مصنوعی روشنیوں کی تنگ ناؤ سے نکل کر اس وسیع وعریض کا ئنات کے رنگوں کو خود اپنے حواس کے ذریعہ سے محسوس کرنا چاہئے، اس سے بصیرت میں بے پناہ اضافہ ہوگا اور دوسرا یہ کہ اسلام اپنی صداقت کے اثبات کے لیے جدید سائنسی حوالوں کا محتاج نہیں، اگر چہ خود ان کی وجہ سےبھی اسلام کے ہی موقف کو مزید تقویت ملتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں، تاہم جو طاقت بچشمِ خود اور بچشمِ تدبر کائنات کو دیکھنے میں ہے، اس کا کوئی بدل نہیں۔ گذشتہ گفتگو سے مقصود صرف یہی ہے۔
آخری بات
کائنات کا حوالہ جو قرآن میں ایک تسلسل کے ساتھ دیا جاتا ہے، وہ ایمان باللہ، ایمان بالرسول اور ایمان بالآخرہ سمیت انسان کے تمام تر ایمانی رویوں کی اصلاح کے لیے گویا بیک وقت مفید ہے اور یہ سب ایمانی حقائق نہایت موٹے حروف کے اندر کائناتی اوراق پر لکھے ہوئے ہیں۔ مندرجہ بالا سطور میں ہم نے اس تدبر کے منہج کو قرآنِ کریم کی روشنی میں واضح کیا ہے اور اس کے نتائج کو عقلی ولفظی ضابطوں کی شکل میں بیان کیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ان ضابطوں کے بیان میں کوئی جھول رہ گیا ہو، قاری کو یہ جھول ڈھونڈنے اور ان پر تنقید کے نشتر تیز کرنے کی بجائے عملا تدبرِ کائنات کی طرف قدم بڑھانا چاہئے۔ تدبر کی تاثیر کا صحیح اندازہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب آدمی عملا تدبر کرے اور اسے اپنے روز مرہ وظائف میں شامل کرے۔
ہم نے یہاں وجودِ باری تعالی، توحید، رسالت اور آخرت کے بارہ میں تدبر کے مختلف مناہج الگ الگ بیان کیے ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید تدبر کی ان تمام انواع کے لیے الگ الگ بساط بچھانے کی ضرورت ہے، مگر فی الواقع یہ جدا جدا نہیں ، بلکہ ایک ہی شجر کے برگ وبار ہیں، طالبِ حق کا تدبر آہستہ آہستہ اس کے دل کی سیاہی کو دور کرتا ہے اور الوہی نظام کے حوالہ سے قرآنی منہج کے مطابق کیا گیا اس کا تدبر اسے مذکورہ تمام اسلامی ایمانیات کے حوالہ سے ایک زبردست تجربہ سے روشناس کراتا ہے۔ مذکور الصدر ضابطے شاید کسی کو پڑھنے میں کچھ مشکل محسوس ہوئے ہوں، مگر کائناتی تدبر اور اس کے نتائج بالکل سہل الحصول اور نیم بدیہی شان کے حامل ہیں، عملا تدبر کی راہ پر چلنے والا شخص خواہ کوئی بدو ہو یا بہت بڑا مفکر، اسلامی ایمانیات کو صرف عقلی اثبات کی صورت میں نہیں، بلکہ ایک نیم بدیہی احساس کی صورت میں اپنے اندر موج زن پاتا ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ جس خدا نے مجھے پیدا کیا اور یہ سب کچھ پیدا کیا ہے، پیدا کرکے ست رنگی نعمتوں کے جھولے میں ڈالا ہے، کیا اس کا حق نہیں کہ اس کے نبیوں کی صداقت اگر الم نشرح ہوجائے تو میں ان کی طرف گوش بر آواز ہوجاؤں، کائناتی حقیقت، انسان کی حیثیت اور خدا کے معاملہ کی سائنٹفک نوعیت کے حوالہ سے جو وہ ہمیشہ ارشادات فرماتے رہے ہیں، انہیں دل کی کھڑکی کھول کر سن لوں، کائنات کا خالق ومالک یقین کرتے ہوئے اس کی وسعت علمی اور وسعت ِ اختیاری پر ایمان لے آؤں، اس کی عزت وعظمت کے معاملہ کی حساسیت کو سمجھ لوں، اس کے ارحم الراحمینی کے مناظر دیکھنے کے لیے منفی طرزِ نگاہ کی عینک اپنی آنکھوں سے اتار لوں، اس کے بے نیازی وکرم نوازی اور عزت ورحمت کے دونوں معاملے سمجھ لوں، اس کے خلاف زبان درازی کرنے، اس کے معاملہ کو خود سے غیر متعلق سمجھنے، اس کی قدرت وعظمت پر سوالیہ نشان لگانے، صداقت سے مسلح اس کے سچے نبیوں کے انکار کی روش اختیار کرکےاس کی غیرت وعزت کو للکارنے اور اپنی اوقات کو بھول جانے کے طرز سے بچ جاؤں؟؟
جس نے بن مانگے اتنا کچھ دیا ہے، نعمتوں کی ناقدری کے باوجود ان کا باب بند نہیں فرمایا، ہماری تمام تر بے وقعتی اور اپنی تمام تر عظمت وقدرت کے باوجود ہماری ناقدریوں کی وجہ سے اس نے ہمارے اوپر شب وروزکا سلسلہ بند نہیں فرمایا، زندگی کی راہیں کھولتا گیا اور سوچنے سمجھنے کے مواقع دیتا گیا، اگر ہم اس کے وفا شعار بن جائیں تو وہ حلیم وصبور ہمیں کیا کچھ نہ دے گا؟ اگر یہ سچ ہے تو پھر نبیوں کی دعوت کو جھٹلانے کا آخر کیا جواز ہے؟ نبیوں نے آکر یہی کچھ تو فرمایا ہے، خدا کو راضی کرنے کا طریقہ بتلایا ہے، اس سے وفا کا قرینہ سکھا یاہے، اس کی بندگی خود کرکے دکھایا ہے اور بالکل سائنٹفک انداز میں اس کے ثابت شدہ تعارف پر ایمان لانے اور اس کی ذات کو ناپختہ اندازوں کی مشق گاہ بنانے کی حساسیت سے آگاہ فرمایا ہے۔ سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون، وسلام علی المرسلین، والحمد للہ رب العلمین۔