غیر مسلموں کی عبادت گاہیں اور مسلم تاریخ

محمد عمار خان ناصر

آیا صوفیہ سے متعلق ترکی کی عدالت کے حالیہ فیصلے   کے تناظر میں مذہبی رواداری کے حوالے سے مسلمانوں کے تاریخی طرز عمل کے بارے میں بہت بنیادی نوعیت کے سوال گزشتہ دنوں زیر بحث رہے۔ آیا صوفیہ کا گرجا چونکہ قسطنطنیہ کی فتح کے موقع پر   نے مسلمانوں نے بطور مسجد اپنے تصرف میں لے لیا تھا، اس لیے  اہم ترین سوال جو  اس بحث میں توجہ کا مرکز رہا، وہ یہی ہے کہ ایسا کرنا اسلام کی اصولی تعلیمات کی رو سے کیسا تھا؟

ہمارے نقطہ نظر سے اس پوری بحث کی درست تفہیم کے لیے جو چند بنیادی پہلو پیش نظر رکھے جانے چاہییں، وہ حسب ذیل ہیں:

۱۔ کسی معاملے سے متعلق مذہبی حکم کی تعیین کا بنیادی اصول یہ ہے کہ شرعی نصوص میں اس حوالے سے مسلمانوں کو کس چیز کا پابند کیا گیا ہے۔ بین المذاہب پرامن تعلقات، مذہبی رواداری یا دیگر دینی وسیاسی مصالح اس حوالے سے اصل بنیاد نہیں ہیں، بلکہ درحقیقت ان سب پہلووں کی رعایت اس لیے شرعی جواز کی حامل ہے کہ شرعی احکام وہدایات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طرز عمل سے ان کی رعایت کرنا ثابت ہے۔ یہ بنیادی نکتہ ذہن میں رہے تو سیرت نبوی اور سیرت صحابہ میں مختلف معاملات میں اختیار کیے گئے مختلف طرز عمل سے پیدا ہونے والی ظاہری الجھن دور ہو سکتی ہے اور ہر معاملے کے اپنے مخصوص سیاق میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہاں شریعت کی ترجیح کیا رہی ہے۔

۲۔ اسلامی شریعت میں دوسرے مذاہب کے ساتھ معاملہ کرنے کے تعلق سے بیک وقت دو طرح کے اصولوں اور مصلحتوں کی رعایت کی گئی ہے جن کے تقاضے کئی صورتوں میں متصادم ہوتے ہیں اور ان میں ترجیح قائم کرنا پڑتی ہے۔ یہ ترجیح شرعی نصوص اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں میں بھی دکھائی دیتی ہے اور عہد صحابہ اور بعد کے خلفاء کے فیصلوں میں بھی، اور بہت سی صورتوں میں کسی ایک یا دوسری مصلحت کی ترجیح کے حوالے سے اجتہادی اختلاف بھی پیدا ہو سکتا ہے اور پیدا ہوتا رہا ہے۔

شرعی احکام اور اسوہ نبوی واسوہ صحابہ میں جن اصولوں کی روشنی میں غیر مسلموں کے ساتھ معاملہ کیا گیا ہے، ان میں سے ایک اصول تو اتمام حجت کا ہے، یعنی یہ کہ پیغمبر کے ذریعے سے کسی قوم پر حق واضح کر دیے جانے کے بعد اس کے دنیوی انجام کے متعلق خدا کی طرف سے کوئی فیصلہ صادر کر دیا جائے۔

دوسرا اصول مذہبی واعتقادی تناظر میں اسلام کو بالادست اور غالب رکھنے کا ہے، یعنی جہاں مسلمانوں کی سیاسی حاکمیت مذہبی بنیاد پر قائم کی گئی ہو، وہاں حق اور باطل مذاہب سماجی وسیاسی recognition کے لحاظ سے یکساں نہ ہوں، بلکہ اسلام اور اسلامی شعائر غالب اور بالادست نظر آئیں۔

تیسرا اصول یہ ہے کہ اتمام حجت کے اصول کے تحت آنے والی قوم کے علاوہ، ایک عمومی اصول کے طور پر عقیدہ ومذہب کے معاملے میں جبر اور زبردستی درست نہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کے علاوہ دیگر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو بھی پورا حق حاصل ہے کہ وہ مستقل مذہبی گروہوں کی حیثیت سے دنیا میں موجود رہیں، اپنی مذہبی عبادت گاہوں کو آباد اور محفوظ رکھیں اور آزادی کے ساتھ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اپنی معاشرتی زندگی کو منظم کریں۔

اس تیسرے اصول سے مذہبی رواداری کا طرز عمل جواز حاصل کرتا ہے جس کی بنیادی روح یہ ہے کہ مذہبی اختلاف کی جو گنجائش خود اللہ نے انسانوں کو دی ہے، مسلمان اس کو پامال کر کے شریعت کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہ کریں۔ جو نکتہ خاص طور پر واضح رہنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ اسلامی تصور میں مذہبی رواداری نہ تو حق کے ساتھ باطل کو یکساں سطح پر recognize کرنے پر مبنی ہے اور نہ اس کا بنیادی منبع بین المذاہب تعلقات کو خوشگوار اور پرامن بنیادوں پر قائم کرنے کا اصول ہے۔ یہ چیز اثرات اور نتائج کے طور پر تو حاصل ہوتی ہے، لیکن رواداری کا بنیادی ماخذ ’’حدود اللہ کی پابندی“کا تصور اور یہ احساس ہے کہ مسلمان، خدا کی مقرر کردہ حدود سے الگ، اپنے طور پر دینی حمیت وحمایت کے معیارات وضع کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔

مذکورہ اصولوں کے تناظر میں اسلامی تاریخ کے بڑے اور نمایاں واقعات کا ایک عمومی جائزہ لیا جائے تو ہمارے سامنے یہ تصویر بنتی ہے:

۱۔ جزیرہ عرب کے مشرکین، ان کی عبادت گاہوں اور بیت اللہ پر ان کے تصرف وتولیت کے متعلق پہلے دو اصولوں یعنی اتمام حجت اور اظہار دین کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ بیت اللہ سے ان کا ہر قسم کا تعلق ختم کر کے اسے مسلمانوں کی تولیت میں دے دیا جائے، مشرکین کی تمام دیگر عبادت گاہوں اور استھانوں کو منہدم کر دیا جائے، اور مشرکین کو وارننگ دے دی جائے کہ وہ یا تو کفر وشرک سے تائب ہو کر اسلام قبول کر لیں اور یا تہہ تیغ ہونے کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہ فیصلہ اتمام حجت کے اصول کا بھی تقاضا تھا اور توحید کے تصور پر کھڑی کی جانے والی نئی امت کے سیاسی ودینی مصالح کا مطالبہ بھی یہی تھا کہ بیت اللہ اور اس کے اردگرد کی پوری سرزمین کو صرف مسلمانوں کے لیے خاص کر دیا جائے۔ یہاں مذہبی رواداری یا پرامن بین المذاہب تعلقات کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور نہ ایسے کسی بھی اصول پر ان تمام اقدامات کی کوئی توجیہ ممکن ہے۔ ان کی واحد نظری واعتقادی بنیاد خدا کا یہ حکم تھا کہ اس سرزمین سے شرک کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس حکم کو رو بہ عمل کرنے کا واحد ذریعہ جہاد وقتال تھا جسے اسی مقصد کے لیے مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا تھا۔

۲۔ جزیرہ عرب سے باہر مسلمانوں کی فتوحات کے نتیجے میں جو اسلامی سلطنت قائم ہوئی، اس میں مسلمان خلفاء اور فقہاء نے مذہبی رواداری کے اصول، اسلامی سلطنت کے سیاسی ودینی مصالح اور صلح وجنگ کے عرفی واخلاقی ضابطوں کی روشنی میں درج ذیل ضابطے متعین کیے اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے معاملے میں انھی کی پابندی کو لازم قرار دیا گیا:

پہلا یہ کہ جو علاقے صلح کے معاہدے کے تحت اسلامی سلطنت کا حصہ بنیں گے، ان کے ساتھ معاہدے میں جو بھی شرائط کی گئی ہوں، ان کی پابندی لازم ہوگی۔ اس نوعیت کے معاہدات میں معاہدین کے جان ومال، مذہبی آزادی اور عبادت گاہوں کا تحفظ بنیادی شرائط کے طور پر شامل ہوتا تھا اور اس کی مثالیں عہد نبوی اور عہد صحابہ، دونوں کے معاہدات میں موجود ہیں۔

دوسرا یہ کہ جن علاقوں میں غیر مسلم پہلے سے آباد ہیں، وہاں انھیں معاہدے کے مطابق پہلے کی طرح مذہبی ومعاشرتی آزادیاں حاصل رہیں گی، لیکن مسلمان اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت جو نئے علاقے آباد کریں گے، وہ بنیادی طور پر انھی کے لیے خاص ہوں گے اور وہاں غیر مسلم معاہدین کو عبادت گاہیں بنانے یا مذہبی شعائر وغیرہ کے اظہار کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

تیسرا یہ کہ جن علاقوں کے باشندے صلح کا معاہدہ کرنے کے بجائے مزاحمت اور جنگ کا طریقہ اختیار کریں گے اور میدان جنگ میں شکست کھا کر اپنا علاقہ مفتوحہ سرزمین کے طور پر مسلمانوں کے سپرد کریں گے، جنگ کے عرفی اصول کے تحت ان کا اپنے علاقے پر کوئی حق باقی نہیں رہے گا اور مسلم فاتحین کو انھیں وہاں رہنے کی اجازت دینے یا جلا وطن کر دینے اور اس پورے علاقے کی عمارتوں کے متعلق حسب مصلحت کوئی بھی فیصلہ کرنے کا اختیار ہوگا۔


اخلاقی وقانونی اصولوں کے مذکورہ فریم ورک سے واضح ہے کہ خلفاء اور فقہاء کے سامنے کوئی ایک ہی بے لچک بنیاد، یعنی مذہبی رواداری نہیں تھی جس پر وہ فقہی موقف اور سیاسی پالیسی کا مبنی ہونا لازم سمجھتے ہوں۔ ان کے پیش نظر اظہار دین اور مسلمان امت کے سیاسی ودینی مصالح کا سوال بھی تھا اور صحیح تر دینی واخلاقی موقف متعین کرتے ہوئے وہ ان سبھی پہلووں کو توازن کے ساتھ ملحوظ رکھنا، اور جہاں تعارض ہو، وہاں صورت حال کے لحاظ سے ایک یا دوسرے پہلو کو ترجیح دینا ضروری سمجھتے تھے۔

اس کے لیے مثال کے طور پر دمشق اور بیت المقدس کی فتح  کے واقعات کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔  یہ دونوں شہر سیدنا عمر کے عہد میں فتح ہوئے۔ دمشق زیادہ معتبر روایات کے مطابق چودہ ہجری میں، جبکہ بیت المقدس سولہ ہجری میں فتح ہوا۔ بیت المقدس صلحا فتح ہوا تھا اور سیدنا عمر کے ساتھ معاہدے معاہدے میں عبادت گاہوں کی حفاظت کی شرط تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ تسلیم کی گئی تھی۔ یہاں مذہبی رواداری کی نوعیت یہ تھی کہ مقامی مسیحی راہنما کی معیت میں شہر کا دورہ کرتے ہوئے کنیسہ قمامہ میں اتفاقا ظہر کی نماز کا وقت آ گیا تو سیدنا عمر نے گرجے کے اندر نماز ادا نہیں کی، بلکہ باہر نکل کر سیڑِھیوں پر ادا کی اور مسیحی راہنما کے استفسار پر فرمایا کہ گرجے کے اندر نماز ادا کرنے سے یہ خدشہ تھا کہ بعد میں کبھی مسلمان اس بنیاد پر گرجے پر دعوی نہ کر دیں کہ ہمارے خلیفہ نے یہاں نماز ادا کی تھی۔ پھر تاریخی روایت کے مطابق انھیں یہ تحریر بھی لکھ کر دی کہ مسلمان اس گرجے کی سیڑھیوں پر بھی نماز ادا نہیں کریں گے اور نہ یہاں اذان دیں گے۔

نہ صرف مسیحی عبادت گاہوں کے متعلق، بلکہ یہودیوں کی عبادت گاہ ہیکل سلیمانی کے متعلق بھی سیدنا عمر نے جو طرز عمل اختیار کیا، اس کی حکمت یہی معلوم ہوتی ہے۔ سیدنا عمر نے ہیکل کے مرکزی مقام پر (جہاں بعد میں اموی خلیفہ نے قبۃ الصخرۃ تعمیر کروایا تھا) نماز ادا نہیں کی، بلکہ احاطے کے جنوبی حصے میں ایک کونے میں نماز ادا کرنے کو ترجیح دی جہاں موجودہ مسجد اقصی ٰ موجود ہے۔ (اس بحث کی مزید تفصیل مسجد اقصی ٰ کی تولیت سے متعلق ہمارے تفصیلی مقالے میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے جو ’’براہین “ میں شامل ہے)۔

صلحا فتح ہونے والے شہر کی عبادت گاہوں کے معاملے میں رواداری کے اس اظہار کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ عنوۃ یعنی جنگ کے ذریعے سے مفتوح ہونے والے علاقوں میں کئی مواقع پر مسلمان فاتحین نے جنگی عرف کی روشنی میں دوسرے اصول یعنی اظہار دین کو ترجیح دینا زیادہ مناسب سمجھا۔ اس کی ایک نمایاں مثال دمشق کا کنیسہ یوحنا ہے جہاں اس وقت جامع اموی قائم ہے۔ فتح دمشق کا معاملہ اس لحاظ سے ایک پیچیدہ معاملہ بن گیا تھا کہ اس پر مسلمان دو اطراف سے حملہ آور ہوئے تھے۔ ایک لشکر کے سامنے اہل شہر نے ہتھیار ڈال کر صلح کر لی تھی، جبکہ دوسرے لشکر نے جنگجووں کو شکست دے کر شہر پر قبضہ کیا تھا۔ یوں جب دونوں لشکر شہر کے وسط میں اکٹھے ہوئے تو یہ بحث پیدا ہو گئی کہ شہر پر کون سے احکام لاگو کیے جائیں۔ یہاں روایات میں اور مورخین کے تجزیے میں اختلاف ہے۔ بہت سی تاریخی  روایات کہتی ہیں کہ صحابہ نے مجموعی حیثیت سے شہر کو صلحا مفتوح قرار دیا اور جو حصہ جنگ سے فتح ہوا تھا، اس کو بھی صلح کے حکم میں شمار کر لیا، جبکہ بعض مورخین کی رائے میں آدھے شہر پر صلح کے اور آدھے پر عنوۃ کے احکام جاری کیے گئے۔

اس اختلاف سے قطع نظر، روایات سے یہ بہرحال ثابت ہے کہ شہر کے وسط میں واقع ایک مرکزی اور  تاریخی عبادت گاہ کنیسہ یوحنا کا ایک حصہ مسلمانوں نے بطور مسجد استعمال کرنا شروع کر دیا تھا اور علامہ ابن کثیر کا یہ تجزیہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ آدھا شہر صلحا اور آدھا جنگ سے فتح ہوا تھا، اس لیے کنیسہ کا نصف حصہ بطور عبادت گاہ مسلمانوں کے تصرف میں لے لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ابن عساکر نے بھی اپنی تحقیق کا خلاصہ یہی بتایا ہے کہ کنیسہ یوحنا کا نصف حصہ فتح دمشق کے بعد مسلمانوں نے بطور مسجد اپنے تصرف میں لے لیا تھا۔ اس بندوبست کے مطابق کافی عرصہ تک دونوں گروہ اپنے اپنے زیر تصرف حصے میں عبادت کرتے رہے۔ پھر ولید بن عبد الملک نے مسجد میں توسیع کی ضرورت کے پیش نظر اپنے دور میں مسیحیوں کو پیش کش کی کہ وہ گرجے کا باقی حصہ بھی مسلمانوں کو دے دیں اور اس کی جگہ ایک دوسرے مقام پر زمین لے کر گرجا تعمیر کر لیں۔ جب مسیحی نہیں مانے تو ولید نے فتح دمشق کے موقع پر کیے گئے تحریری معاہدے کی روشنی میں مسیحیوں سے کہا کہ اس معاہدے کے مطابق فلاں اور فلاں گرجے جو اس وقت تمھارے پاس ہیں، وہ مسلمانوں کی ملکیت تسلیم کیے گئے تھے، اس لیے اگر تم کنیسہ یوحنا سے دستبردار نہیں ہوتے تو یہ گرجے تم سے واپس لے لیے جائیں گے۔ اس پر مسیحی رضامند ہو گئے اور پورے کنیسہ یوحنا کو مسجد میں شامل کر لیا گیا۔ تاہم ولید کا یہ اقدام چونکہ سیاسی دباو پر مبنی تھا، اس لیے عمر بن عبد العزیز کے دور میں مسیحیوں نے ان کے سامنے شکایت کی اور انھوں نے ولید کے اقدام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مسجد کا وہ حصہ مسیحیوں کو واپس کرنے کا حکم دے دیا۔ بلاذری کی روایت کے مطابق، اس موقع پر عام مسلمانوں نے دوبارہ مسیحیوں کے ساتھ مذاکرات کر کے انھیں راضی کیا کہ وہ اس کے متبادل ایک دوسری جگہ لے لیں اور وہاں اپنا گرجا بنا لیں۔

ان دونوں مواقع پر مسیحیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہوں کے متعلق جو طرز عمل اختیار کیا گیا، اس کی قانونی بنیاد تو یہی فرق تھا کہ دمشق  صلح اور جنگ کے ملاپ سے فتح ہوا، جبکہ بیت المقدس مکمل طور پر صلح کے معاہدے کے تحت مسلمانوں کے قبضے میں آیا ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دونوں موقعوں پر سیاسی مصالح بھی بہت مختلف تھے۔

دمشق، شام کا ایک مرکزی شہر تھا اور اس وقت تک مختلف چھوٹے شہر فتح کر چکنے کے باوجود مسلمانوں کے پاس علاقے میں مستقل قیام کے لیے کوئی مرکزی جگہ نہیں تھی، جبکہ بدیہی طور پر یہ سلطنت کی ایک بنیادی ضرورت تھی۔ مسلمانوں کی نظر ابتدا ہی سے اس مقصد کے لیے دمشق پر تھی اور یہی وجہ ہے کہ خود مسلمانوں کی طرف سے اہل شہر کو یہ پیش کش کی گئی تھی کہ وہ ’’مشاطرہ “ کر لیں، یعنی اس شرط پر صلح کر لیں کہ آدھا شہر مسلمانوں کی ملکیت ہوگا۔ گویا اس فتح میں بنیادی ترجیح ہی سلطنت کی ایک بنیادی سیاسی ضرورت کو پورا کرنا تھا جو صلح وجنگ کے مروج عرفی قوانین کی رو سے اخلاقی طور پر بالکل جائز تھی، لہذا یہاں مذہبی رواداری کی اہمیت ثانوی اور سیاسی مصلحت کے تابع تھی۔

بیت المقدس کی نوعیت اس سے بالکل مختلف تھی۔ اس کو فتح کرنے کی اہمیت عسکری وانتظامی پہلو سے کم اور علامتی لحاظ سے زیادہ تھی۔ یہ ایک ایسا شہر تھا جو یہودیوں اور مسیحیوں کے مذہبی جذبات کا مرکز تو تھا ہی، مسلمانوں کی نظر میں بھی اس کی دینی اہمیت غیر معمولی تھی۔ چنانچہ یہاں صلح کا ایسا معاہدہ کرنا ہی بہترین سیاسی حکمت عملی تھی جس میں مذہبی رواداری اور ابراہیمی مذاہب کے باہمی احترام کا پیغام نمایاں ہو اور بازنطینی سلطنت کے اس حصے میں بسنے والے اہل کتاب کے تمام گروہ مسلمانوں کی سیاسی طاقت سے متعلق ایک مثبت فضا میں اپنا رویہ متعین کر سکیں۔

جیسا کہ واضح ہے، سیاسی طاقت کا استحکام اور مذہبی رواداری، دونوں اصول اہم تھے، لیکن کون سے اقدام کے ذریعے سے کون سا مقصد حاصل کیا جائے، اس کا تعلق سیاسی بصیرت اور سیاسی حکمت عملی سے تھا۔ جو موقع جنگ کے عرفی قوانین کے تحت سیاسی مصالح کی حفاظت کا تھا، وہاں مذہبی رواداری کو ترجیح دینا غیر دانش مندی ہوتی، اور جو موقع مذہبی رواداری کے پیغام کی اشاعت کا تھا، وہاں سخت گیر رویہ اختیار کرنا اسلام اور اسلامی سلطنت کی غلط ترجمانی کا ذریعہ بن جاتا۔

ان دو مثالوں سے  بہت اچھی طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلامی تاریخ کے اس دور میں مسلمان فقہاء اور خلفاء مذہبی رواداری اور مسلمانوں کے دینی وسیاسی مصالح کو کس طرح ایک پیچیدہ معاملے کے طور پر دیکھتے تھے اور ہر طرح کی صورت حال کو ایک ہی نظر سے دیکھنے اور ایک ہی اصول کا سادگی کے ساتھ ہر جگہ اطلاق کرنے کے بجائے تمام متعلقہ اصولوں اور مصالح کو توازن کے ساتھ ملحوظ رکھنے اور حسب موقع ان کے مابین ترجیح قائم کرنے کا انداز اختیار کرتے تھے۔

یہاں صحابہ کے اس طرز عمل پر ایک اہم اشکال سامنے آتا ہے جس سے تعرض ضروری ہے۔  وہ یہ کہ خلفائے راشدین، خصوصا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے  جنگی اخلاقیات سے متعلق جو ہدایات منقول ہیں، ان  میں اہل کتاب کے معبدوں اور خانقاہوں کو گرانے  اور ان کے راہبوں اور پادریوں کو ان کی مذہبی  خدمات  سے معزول کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ خود قرآن مجید میں سورۃ الحج کی آیت ۴٠  میں  اہل کتاب کی عبادت گاہوں کا ذکر  ان مقامات کے ضمن میں کیا گیا ہے جہاں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے اور  جہاد کے مشروع ہونے کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے  کہ یاد الہی کے ان مقامات کو منہدم اور مسمار نہ کر دیا جائے۔  اسی طرح سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۱۴میں  یہود ونصاری ٰ کی مذمت کی گئی ہے  جو ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو  ویران  اور بے آباد کر دیتے تھے۔  اگر عبادت گاہوں سے متعلق اسلام کی  اخلاقی تعلیم یہ ہے تو اس کے ہوتے ہوئے  صحابہ  نے مفتوحہ علاقوں  کی بعض عبادت گاہوں کو   اہل  کتاب سے لے کر   مسجد میں کیوں تبدیل کر دیا جو  گویا انھیں وہاں عبادت سے روکنے یا   ان کی عبادت گاہ کو منہدم کر دینے کے مترادف ہے؟

ذرا غور کرنے سے واضح  ہوگا کہ یہ اشکال  درست نہیں۔  قرآن مجید میں  جس چیز کی مذمت کی گئی ہے،   وہ یہ ہے کہ ایک گروہ  مذہبی مخاصمت کی وجہ سے  دوسرے گروہ کی عبادت گاہوں کو ڈھا دے یا انھیں بے آباد اور ویران کر دینے کی سعی کرے جس کا نتیجہ  یہ نکلے کہ   وہاں اللہ کو یاد کرنے کا جو سلسلہ جاری تھا، وہ مذہبی منافرت کی بھینٹ چڑھ کر  ختم ہو جائے۔  جنگی اخلاقیات کے ضمن میں جو ہدایات دی گئیں، ان کا مدعا بھی یہی تھا کہ دوران جنگ  میں   ایسے مذہبی مقامات اور وہاں  خدمات انجام دینے والوں سے تعرض نہ کیا جائے جن کا جنگ سے کچھ لینا دینا نہیں اور وہ   ان معاملات سے الگ رہ کر    اپنے معبدوں میں  یاد الہی میں مشغول ہیں۔  یہ دونوں ہدایات اپنی نوعیت کے لحاظ سے اس صورت حال سے متعلق نہیں ہیں جب  جنگ کے نتیجے میں پورا علاقہ  مسلمانوں کے قبضے اور ملکیت میں آ جائے  اور انھیں یہ  اختیار حاصل ہو جائے کہ  وہ شہر کے باشندوں، ان کے اموال اور  اس پورے علاقے کی  زمین اور عمارتوں کے متعلق   اپنے سیاسی مصالح کے لحاظ سے  جو فیصلہ مناسب سمجھیں، کر لیں۔ 

دوسرے لفظوں میں، یہاں خاص طور پر عبادت گاہیں موضوع ہی نہیں ہیں اور نہ کسی مذہبی مخاصمت کی  بنیاد پر  کی انھیں ویران یا منہدم کر دینے  کی کوئی صورت حال پائی جاتی ہے۔  اس دور کے جنگی عرف کے مطابق فاتحین کو  پورے علاقے کی ملکیت حاصل ہو جاتی تھی جس میں ضمنا عبادت گاہیں بھی شامل ہوتی تھیں اور  ان کے متعلق  کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار، اسی عمومی اختیار کا ایک  حصہ ہوتا تھا جس کی رو سے  فاتحین   باقی تمام عمارتوں کے متعلق   حسب صوابدید کوئی فیصلہ کر سکتے تھے۔   جنگ میں شکست کھانے کے بعد قانونی لحاظ سے مفتوحین کی یہ حیثیت باقی ہی نہیں رہتی تھی  کہ وہ اس شہر  اور اس کی املاک کے مالک ہیں۔  پورے علاقے کی ملکیت  فاتحین کو منتقل ہو جاتی تھی، اس لیے  ان کی طرف سے کسی بھی عمارت کو  اپنے تصرف   میں لینے کے فیصلے کی یہ تعبیر ہی درست نہیں   کہ اس کے اصل مالکوں سے اس کی ملکیت چھین لی گئی۔ یہ ملکیت جنگ میں مفتوح ہونے کے نتیجے میں  خود بخود ختم  ہو جاتی تھی  اور فاتحین  جو بھی تصرف  کرنے کا فیصلہ کرتے، وہ جنگی قانون کی رو سے اپنی ملکیت میں کرتے تھے نہ کہ  مفتوحین کی ملکیت میں۔  اس لیے  اصل اعتراض اگر بنتا ہے تو  اس پر بنتا ہے کہ مفتوحہ علاقے کی ملکیت فاتحین  کو منتقل ہو جانے کا   اصول درست نہیں تھا،  بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اصل اعتراض  یہ بنتا ہےکہ جنگ کے ذریعے سے کسی قوم کو مفتوح کرنے  کا عمل ہی درست نہیں تھا۔  اگر جنگ کا جواز مان لیا جائے اور  اس کے لازمی نتیجے کے طور پر مفتوحہ علاقے کی ملکیت کا اصول  فاتحین کو منتقل ہو جانے کا اصول بھی  تسلیم کر لیا جائے تو پھر صرف عبادت گاہوں کے متعلق   اس اعتراض کی  کوئی قانونی یا  اخلاقی بنیاد  نہیں بنتی اور نہ اس بحث کو اس سوال کے ساتھ خلط ملط کرنا درست ہے کہ  اسلام نے تو اہل کتاب کی عبادت گاہوں کے احترام اور حفاظت کی تعلیم دی ہے۔

سابقہ سطور میں عبادت گاہوں سے متعلق مسلم فاتحین کے طرز عمل پر گفتگو قصدا عہد صحابہ کی بعض مثالوں تک محدود رکھی گئی ہے، کیونکہ مقصد صلح وجنگ کے مخصوص عرف اور اس پر مبنی ضابطوں کی وضاحت ہے جو اسلامی تاریخ کی درست تفہیم کے لیے ضروری ہے۔ اس کی اصولی وضاحت کے لیے عہد صحابہ کے فیصلے ہی زیادہ موزوں ہیں۔  اس مجموعی تناظر سے سیاسی حکمت عملی کے جو معیارات سامنے آتے ہیں، ان کی روشنی میں مورخین دیکھ سکتے ہیں کہ بعد کے ادوار میں مختلف مواقع پر مسلمان فاتحین نے جو طرز عمل اختیار کیا، وہ کتنا متوازن اور سلطنت کے دینی وسیاسی مصالح کے لیے ناگزیر تھا اور کتنا بے اعتدالی یا غیر دانش مندی کا مظہر یا مابعد تاریخ میں منفی نتائج پیدا کرنے کا موجب تھا۔ دوسرے لفظوں میں عہد صحابہ میں  وضع کیے گئے  معیارات کی روشنی میں تو بعد کی تاریخ میں مسلم فاتحین کے طرز عمل کے مناسب یا نامناسب ہونے پر گفتگو ہو سکتی ہے، لیکن اس کے برعکس بعد کے واقعات کی تفصیلات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی عمومی حکم متعین کرنا اور پھر ساری اسلامی تاریخ پر اس کا اطلاق کرنا ہمارے نزدیک غیر تاریخی اور غیر منطقی طرز فکر ہے۔


کلاسیکی اسلامی قانون اور اسلامی تاریخ کی تفہیم کی آج ہمارے لیے کیا اہمیت ہے؟ بعض حضرات کا خیال ہے کہ ان بحثوں میں الجھنا وقت کا ضیاع ہے اور ان کو چھوڑ کر ساری توجہ ان مسائل پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو آج مسلمانوں کو درپیش ہے۔ ہمیں اس رائے سے اتفاق نہیں، اس لیے کہ کوئی بھی قوم خود اپنی تاریخ کے بارے میں کوئی تصور رکھے بغیر نہ تو اپنا تہذیبی وجود برقرار رکھ سکتی ہے اور نہ اپنے تہذیبی کردار کا تعین کر سکتی ہے۔ اپنی تاریخ کی تفہیم کو غیر ضروری اور غیر اہم سمجھنا اگر شعوری طور پر ہو تو یہ دراصل اپنے تشخص سے دستبردار ہونے کی دعوت ہے، اور اگر غیر شعوری طور پر ہو تو تاریخ کی پیچیدگیوں کے سامنے ذہن اور فکر کے ہتھیار ڈالنے کے ہم معنی ہے۔ اپنی تاریخ کی تفہیم، اس کا تجزیہ اور اس کے اچھے اور برے پہلووں پر ایک موقف رکھنا ہرزندہ قوم کی ضرورت ہے، اور مسلمان اس دور میں تاریخی شعور کے حوالے سے جس بحران کا شکار ہیں، اس میں اس نوعیت کی بحثوں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

تاریخ، تہذیب اور فکر کے باہمی تعلق کی تفہیم کو اہم نہ سمجھنے کے بے شمار اثرات کا اندازہ کرنا ہو تو صرف اس ایک الجھاو کو دیکھ لینا چاہیے جس نے زیر بحث سوال کے حوالے سے ہمیں بحیثیت مجموعی گرفت میں لے رکھا ہے۔

ایک طبقے کے نزدیک اسلامی تاریخ اور اسلامی سلطنتوں کے کردار کے بارے میں کوئی موقف رکھنے کا معیار جدید دور کے مختلف قانونی اور اخلاقی تصورات ہیں۔ اس رویے کا شعوری یا غیر شعوری محرک یہ ہے کہ تاریخ کی تفہیم اس کی اپنی شرائط پر نہیں، بلکہ اس زاویے سے کی جانی چاہیے جس سے آج ہم فکری سوالات کا سامنا کرنے سے بچ سکیں یا ان میں حتی الامکان تخفیف کی جا سکے۔ دوسرے طبقے کے نزدیک اسلامی سلطنت کے سیاق میں ہمارے اسلاف نے جو تاریخی وقانونی مواقف اختیار کیے اور اپنے تاریخی حالات کے تناظر میں جو تہذیبی حل وضع کیے، ان کا بعینہ اطلاق کرنا جدید دور کے مسلمان معاشروں میں بھی ضروری ہے اور وہ جدید قومی ریاستوں کے معاملات کو بھی دار الاسلام اور دار الحرب وغیرہ کے فکری سانچے میں دیکھتے ہیں۔

پہلے گروہ کی نظر میں اگر غیر مسلموں کی عبادت گاہوں سے متعلق کلاسیکی فقہی وریاستی پالیسیوں پر جدید قانونی وسیاسی تصورات کی روشنی میں حکم لگانا ضروری ہے تو اس دوسرے گروہ کے نزدیک قومی ریاستوں میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کا حکم بھی فقہاء کے بیان کردہ ضابطوں کی روشنی میں طے ہوگا کہ اہل ذمہ کو کب اور کہاں عبادت گاہیں بنانے یا ان کی مرمت اور تعمیر نو وغیرہ کی اجازت دی جا سکتی ہے اور کہاں نہیں دی جا سکتی۔ یعنی دونوں طبقے ماضی اور حال کے فرق کو ذہنی طور پر قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ ایک کا اصرار ہے کہ ہم ماضی کو حال کی عینک سے دیکھیں، اور دوسرے کی ضد ہے کہ حال کی لگام بھی ماضی کے ہاتھ میں دے دیں۔

تاریخی شعور کی افزائش اور مشکل فکری سوالات کا سامنا کیے بغیر اس نوعیت کی الجھنوں سے نکلنا ممکن نہیں ہے اور اسی وجہ سے تفہیم تاریخ کی بحثوں کو زیادہ سنجیدگی سے موضوع بنانا ہماری ایک ناگزیر تہذیبی ضرورت ہے۔ فکری سوالات کا چیلنج، اس میں شبہ نہیں کہ واقعی بہت بڑا ہے اور اقبال جیسے تہذیبی خود اعتمادی رکھنے والے مفکر کو بھی مجبور کر دیتا ہے کہ وہ اسلامی تاریخ کی کسی مثبت تفہیم کی ذمہ داری سے ہاتھ کھڑے کر دے۔ لیکن یہ طرز فکر نہ تو معروضی ہے اور نہ فکری واخلاقی جرات کا غماز ہے۔ ہمیں اپنی تاریخ کو اس کے محاسن وقبائح کے ساتھ قبول کرنا، اس کی تفہیم اس کی اپنی شرائط پر کرنے کی ذمہ داری اٹھانا اور اس کے متعلق ایک مجموعی موقف طے کرنا لازم ہے۔ تاریخی فیصلوں اور واقعات پر، تاریخ کی شرائط کے لحاظ سے، کوئی حکم لگانا اور اس پر بحث ومباحثہ بھی اسی عمل کا حصہ ہے۔ اس سے گھبرانا نہیں چاہیے اور نہ عجلت میں حتمی اور قطعی مواقف طے کر لینے چاہییں۔

ہذا ما عندی واللہ اعلم


عالم اسلام اور مغرب

(اگست ۲۰۲۰ء)

تلاش

Flag Counter