جنوری 2020 کے آخری دنوں کی بات ہے، ایک دن کلاسز سے فارغ ہونے کے بعد محترم رفیق ِ کار میاں انعام الرحمن حسب ِ معمول میرے پاس اسلامک ڈیپارٹمنٹ میں تشریف لائے اور معمول کی گپ شپ شروع ہوئی۔باتوں باتوں میں بات ملک کے معروف دانش ور ،صوفی،فلسفی اور ادیب محترم جناب احمد جاوید صاحب کے بارے میں چل پڑی ۔اسی گفتگو کے اختتام پر یہ طے پایا کہ ان سے ملاقات کی کوئی سبیل نکالی جائے ۔میاں انعام صاحب کا غائبانہ تعارف ان سے الشریعہ میں وقتا فوقتا چھپنے والے مضامین کے توسط سے ہو چکاتھا ۔چنانچہ میاں انعام صاحب کے نہایت نفیس دوست عمران مرزا صاحب سے گزارش کی گئی کہ وہ احمد جاوید صاحب سے کسی دن کاکوئی مناسب وقت لے کر مطلع فرمائیں۔ 8 فروری 2020 بروز اتوار بعداز ظہر کا وقت عنایت ہوا۔ ڈاکٹر پروفیسر محمد اکرم ور ک ، میاں انعام الرحمٰن، ڈاکٹر سلطان شمس الحق فاروقی اورراقم الحروف مقررہ وقت پر ان سے ملاقات سے شرف یاب ہوئے ۔یہ ایک غیر رسمی ملاقات تھی ، اس لئے کسی متعین موضوع کی بجائے مختلف موضوعات پر ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی۔ بنیادی مقصد ان کی زیارت کرنا اور ان کی صحبت میں چند لمحے گزارناتھا۔ ڈاکٹر شمس الحق فاروقی کا نہایت شکر گزار ہوں کہ ان کی ریکارڈنگ کی بدولت یہ ملاقات صفحہ قرطا س پر منتقل کی جاسکی ۔رودادِ ملاقات ملاحظہ کیجیے۔
مطیع مشہدی: مولانا ایوب دہلوی صاحب سے آپ کی باقاعدہ ملاقات رہی ہے؟
احمد جاوید صاحب: تقریبا دوسال کے لگ بھگ میں ان کی صحبت میں رہا ۔میر ی عمر اس وقت کم تھی ۔یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ شاگر د تھا ۔خادم تھا ،پان لا کے دے دیا، وغیرہ ۔
میاں انعام الرحمان: ہمارا ان سے تعارف ان کی چھوٹی سی کتاب " فتنہ انکار ِ حدیث " سے ہوا۔بہت اچھا لکھا ہے، بہت مختصر اور جامع ۔ جب اس کا عنوا ن دیکھا تو میں نہیں لے رہا تھا کہ پتہ نہیں کیا ہو گا ،لیکن جب اس کے صفحے الٹے تو دلچسپ لگی، لے آیا۔اس سے ان کاتعارف ہوا،پھر ان کی مزید کتابیں ڈھونڈیں تو سوشل میڈیا پر ایک صاحب نے بتایا کہ ان کے پاس " مقالات دہلوی " کی فوٹو کاپی ہے،وہ اتنے ہزار کی ہے۔ خاصی مہنگی تھی۔پھر میں نےاس کی پی ڈی ایف ڈھونڈ لی ۔
احمد جاوید صاحب: اصل کام ان کا وہی ہے مقالات ِدہلوی، جو ان کی تقریریں ہیں ۔یہ جو انکار ِ حدیث ہے، یہ انہوں نے اپنے قلم سے لکھا ہے ۔حالانکہ لکھنے کی مشق بالکل نہیں تھی۔تین رسالے انہوں نے اپنے قلم سے لکھے ہیں،مسئلہ جبر و قدر ،ختم ِ نبوت اور فتنہ انکار ِ حدیث،۔جس میں انہوں نے سوال جواب قائم کر کے مدرسانہ انداز میں لکھا ہے ۔ان کو لکھنے سے بالکل مناسبت نہیں تھی ۔ بولنے پر تھی ۔ وہ عجیب عالم تھے ،ان کو دیکھنے کے بعد کوئی شخص عالم نہیں معلو م ہوتا۔ سب سطحی باتیں، ناقل ہیں، عالم نہیں ہیں ۔یہ مسئلہ یہ ہے ،یہ فلاں کتاب میں لکھاہے ۔عالم جو ہوتا ہے علم والا، مطلب تاثر ہے ،ہوں گے ظاہر ہے بڑ ے بڑے عالم ،لیکن ان کو جس نے بھی دیکھ لیا نا، وہ بیچارہ بعد میں پریشان ہی رہا ۔وہ ہر ایک میں انہیں ڈھونڈنے لگتا ہے ۔کر دار اور علم دونوں اپنی منتہی ٰ پر تھے۔اور علم متوسط نہیں، منتہی۔کر دار میں بھی اور علم میں بھی۔ان کی سپیشیلٹی معقولات میں تھی ۔ان کی للہیت کا کیا عالَم ہو گا کہ فلسفہ پڑھا رہے ہیں اور لوگ رورہے ہیں ۔
ڈاکٹر محمد اکرم ورک: شاید وہ اس لیے رو رہے ہوں کہ انہیں سمجھ نہیں آرہاہوتا تھا ۔
ایک قہقہہ بلند ہو ا۔
احمد جاوید صاحب: بیچ بیچ میں کوئی فقرہ ایسا کہہ دیتے تھے ۔ اس وقت آڈیئنس (Audience)اچھی تھی۔ان کی مجلس میں زیادہ تر علما ہوتے تھے ،طالب علم یا علما۔
مطیع مشہدی: پاکستان میں آپ فارسی کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں ؟
احمد جاوید صاحب: فارسی تو ختم ہو گئی ہے ۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کبھی نصاب میں اس کو دوبارہ کوئی حیثیت مل جائے یا اس کی کوئی دنیاوی افادیت نکل آئے ،پھر شاید ہو سکے ۔
ڈاکٹر محمد اکرم ورک: آپ کی تصوف اور فلسفہ دونوں میں دلچسپی ہے ،آپ کے خیال میں ان دونوں میں فرق کیا ہے؟لگتا تو ایسے ہے کہ جیسے صوفی بھی اچھا خاصا فلسفی ہوتا ہے ۔
احمد جاوید صاحب: فلسفہ عقل کی خود مختاری ہے اور تصوف دل کی بے اختیار ی ہے ۔جو اس بات کو نہیں سمجھ پا یا، وہ ان کے مابین فرق کو نہیں سمجھ پائے گا ۔
مطیع مشہدی: کیا یہ دونوں چیزیں کسی ایک شخصیت میں اکٹھی ہو سکتی ہیں ؟
احمد جاوید صاحب: ہاں لوگوں میں ہوئی ہیں ، کم ہو سکتی ہیں کیوں کہ قلب عقل کے گر د Boundaries کھینچ دیتا ہے،اس میں عقل کی خو دمختاری مثبت ہوتی ہے ،کارآمد ہوتی ہے ۔ بے اختیاری کا دائرہ جو ہے وہ اختیار سے بہت بڑا ہے۔ ہمارا سارااختیار بے اختیاری کے دائرےمیں ہے ۔صوفی اس بات کو سمجھتا ہے۔
مطیع مشہدی: فارسی شاعری میں آپ سب سے زیادہ کس سے متاثر ہوئے ؟
احمد جاوید صاحب: دیوانِ شمس سے ،مولانا روم کی غزلوں کےمجموعے سے ،پھر حافظ شیرازی سے ،لیکن ایک ہوتا ہے شعر کو فن کے طور پر پڑھنا ، اس میں فردوسی اور نظامی ۔
مطیع مشہدی: قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ و لکل قوم ھاد اور ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ۔لیکن ہم ہندوستا ن کی تاریخ میں پانچ ہزار سال بھی پیچھے چلے جائیں، تب بھی ہمیں کوئی موہوم سا رسالت کا تصور بھی نہیں ملتا جس طرح کا تصور ہماری سامی ادیان کی روایت میں ملتا ہے ۔ پھر بر اعظم امریکہ تقریبا پانچ سو بر س پہلے دریافت ہوتاہے اور جب ہم ان کی مذہبی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں جو ہزاروں سال پرانی ہے ،تو وہاں بھی کوئی اس طرح کا رسالت کا تصور نہیں ملتا ،جبکہ جن علاقوں میں سامی ادیان کی روایت پائی جاتی ہے وہاں پے در پے پیغمبر آتے گئے تو کیا اس خطے کے انسانوں کو ہدایت کی زیادہ ضرورت تھی ؟ہندوستان یا امریکہ یا آسٹریلیا وغیرہ میں پائی جانے والی انسانیت ہدایت سے بے نیاز تھی ؟ ان کے ہاں دور دور تک پیغمبروں کا نام و نشان نظر نہیں آتا ۔
احمد جاوید صاحب: میرے خیال میں ہندوستا ن میں جو شروتی ہوتے تھے یا اوتار ہوتے تھے ،یہ پیغمبر ہی ہوتے تھے۔ جیسےچودہ اوتار ہیں ، تیرہ اوتار ہیں ۔اس طرح بے شمار شرتی تھے۔ ـشرتی کہتے ہیں جس نے سنا ،یعنی جس پر وحی اتریـ، وہ ہوتے تھے ۔پھر حکمت والے ہوتے تھے،انہیں گیانی کہتے تھے۔ یہ زیادہ تر نظام ہندوستان میں تھا ،مطلب آپ اس سے نبوت برآمد کر سکتے ہیں بغیر کوئی تکلف کیے۔اور جو قدیم تہذیبیں دوسرے خطوں کی،یعنی غیر سامی تہذیبیں ہیں،ان میں بھی افراد مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ۔اب شامانزم ہے ،جو جنوبی امریکہ یا شمالی امریکی کی پرانی تہذیب ہے ،جو سات ہزار سال پرانی ٹریس(Trace) ہو گئی ہے ،تو اس میں شامانزم (Shamanism) یا کوئی اور، وہ سب ایک ایک فرد کے گر د بننے والے دائرے ہیں تو اس فرد کو قیا س کیا جا سکتاہے کہ وہ ہادی یا نبی ہو سکتاہے۔اسی طرح اس طرف چلے جائیں میسو پوٹیمیا(Mesopotamia) یا یونانی تہذیبیں ، یہ بھی پانچ سات ہزار سال قدیم ٹریس ہو چکی ہیں ،تو ان میں بھی یہی ملتا ہے "معلم "۔یونانیوں میں معلم اور مربی دونوں ملتے ہیں ۔اور میسوپوٹیمیا میں اللہ کی طرف بلانے والے کثرت سے ملتے ہیں ،توحید کی طرف بلانے والے ۔پھر میسوپوٹیمیا ہی کی توسیع ایرانی تہذیب ہے سینڑل ایشیین آرین وغیرہ ،ان کے ہاں بھی توحید ، توحید کی دعوت اور مربوط دعوت Text کی صورت میں ہے ۔اس میں دورجحانات ہیں ،ایک زروایسٹرین(Zoroastrianism) ہے، ایک آرین ہے جیسے ویدانتی ۔ان میں ایک میں تشبیہ کا غلبہ ہے اور دوسرے میں تنزیہ کا،لیکن ان سب کا Principal Content توحید ہے ۔ ہر تہذیب میں شر ک اور توحید کی لڑائی کا ماحول رہا ہے ۔ شرک اور وحدانیت لگتا ہے، ہم عمر ہیں ۔تو کہہ سکتے ہیں کہ نبی یا دوسری اصطلاح میں ہادی ہر قوم میں بھیجے گئے۔البتہ اس سلسلہ نبوت کی قانونی تشکیل کا عمل یعنی نبوت کو شریعت دینے والے ادارے بنانے کی روایت، وہ سامی ہے ۔
مطیع مشہدی: صرف اس روایت میں ہے ؟
احمد جاوید صاحب: ہاں اس روایت میں ہے، لیکن ہندوں میں بھی شریعت ہے ۔
مطیع مشہدی: سائنس اور قرآن کی جو دو دنیائیں ہیں ،اور ان کا جو ایک طرح کا کلیش(Clash) دکھایا جاتا ہے، اس میں بہت ساری پوزیشنز لی جاتی ہیں ۔کچھ پوزیشنز یوں لی جاتی ہیں کہ جو جدید تحقیق سامنے آتی ہے ،اسے قرآن سے ثابت کر نے کی کوشش کی جاتی ہے ، ایک پوزیشن یہ لی جاتی ہے کہ یہ دو الگ دائرے ہیں ،ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ، ایک مابعد الطبیعاتی ہے اور دوسری مادی دنیا سے متعلق ۔آپ کس پوزیشن کو آج کے دورمیں زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ؟
احمد جاوید صاحب: میرے خیال میں ان میں انٹر ڈیپنڈینس(Interdependence) نہیں ہے ۔ظاہر ہے کہ انسانی ذہن میں جو دو چیزیں آجائیں تو ان میں تعلق تو لازماََپیدا ہوجاتاہے ۔اگر علم کی اصطلاح میں دیکھیں تو اس میں بنیادی فرق ہے۔جس علم کا مقصود ہدایت دینا یا حاصل کرنا ہو ،وہ Falsifiable نہیں ہوتا ۔اور جس علم کا مقصد دنیا اور اس کے مکینکس ، سائنس یا کوئی اور مطالعہ ہو، ان کو Falsifiable ماننا ضروری ہے،ورنہ دنیاوی علم میں ترقی نہیں ہو سکے گی۔یہ دوبہت بنیادی فرق ہیں وہ۔ بالکل الگ Episteme ہیں، یہ بالکل مختلف Episteme میں ہے ۔اور ہمیں چاہیے یہی تھا کہ ہم Falsifiable علم میں کوئی کر دار ادا کرتے ،لیکن ہمارے ذہن اس طرح بنا دیے گئے کہ ہمارے ہاں تمام معلومات عقیدے کی طرح اٹل ہونی چاہییں۔اس سے ہم نے بڑا نقصان اٹھایا ہے ۔ دنیا کا علم صحیح ہو یا غلط، مجھے کوئی نقصان نہیں ہے ۔اور دینی علوم کو اتنی تفصیل دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ دینی علم Perspective ہے،چیزوں کو دیکھنے کا مستقل Perspective ہے ،اس علم سے صرف فقہ پیداہوتی ہے ۔صرف فقہ جائز دینی علم ہے ۔اس کو دینی علم کہیں گے Falsifiability کے ساتھ،کیوں کہ عقل جہاں بھی Active ہوگی، وہاں وہ Falsifiable ہے ۔جہاں Passive ہے، وہاں Falsifiable نہیں ہے ۔صرف خبر Falsifiable نہیں ہے نبی کی خبر،باقی تو سب Falsifiable ہے ۔ہم نے عجیب طرح سے دین کو فلسفے کی بنیاد بنانا شروع کردیا ۔اس میں پھر ہمیں بہت زیادہ جھوٹ بولنا پڑتا ہےکہ ہم فلسفہ بھی جانتے ہیں ۔بھائی ایمان کا Perspective قائم رکھ کے پرانے متقدمین کی طرح فلسفیوں سے کوئی رعایت کیے بغیر ،ایک مشترکہ منطق اور ایک مشترکہ اصطلاحات کے نظام میں گفتگو کرکے دکھاؤ۔
مطیع مشہدی: کیا عقل کی Form Purified کو وحی کہہ سکتے ہیں ؟
احمد جاوید صاحب: یہ کچھ لوگوں نے کہا ہے، لیکن بڑی خطر ناک بات ہے ۔وحی خارج میں ہونے والا ایک عمل ہے۔ اس کی تخلیق کا یعنی اس کے وجود میں آنے کا کوئی ایک سبب بھی عقل میں نہیں ہے ۔عقل اس کے سامنے محض Passive ہے۔اوریہ بات کہنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہے کیونکہ عقل کا مطالعہ کرنے والے کلینیکل علوم میں، ذہن کا مطالعہ کرنے والے جن لوگوں نے بہت مطالعہ کیا ہے ، کلینکل مطالعہ،تو وہ سب جانتے ہیں کہ ذہن کا بڑاحصہ جو ذہن کا گورننگ (Governing)حصہ ہوتا ہے ،وہ Passiveہوتا ہے ،وہ مسلمات کو نافذ کرتا ہے عقل کی Activity پر۔توہمیں کیا اس میں گھبر انے کی ضرورت ہے۔وحی عقل کی Passivity کا بہترین مصرف ہے اور عقل اپنے Passive مسلمات کو اپنی Activities پر حاکم رکھتی ہے ۔کوئی عقل نہیں ہے جو ٹائم اور سپیس کے آرڈر سے باہر کام کرے ۔ٹائم (Time)اور سپیس(Space) کوئی چیز نہیں ہیں، یہ عقلی تصورات ہیں۔ وحی اس آرڈ ر کو میٹا فزیکلائز(Metaphysicalize) کرتی ہے اور گاڈ سنٹرڈ(God Centered) بناتی ہے۔خداکو ماننا ہر چیزکو ڈیفاین (Define)کر دیتا ہے ۔بس یہ بات ہمیں اعتماد کے ساتھ کہنی چاہیے بغیر غصے میں آئے ۔
مطیع مشہدی: قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ اپنی صفت و قدر ت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تمہاری تصویر کشی کرتے ہیں جس طرح ہم چاہتے ہیں ۔اب جینیٹک انجینئر نگ (Genetic Engineering)میں سائنس اس پوزیش میں آچکی ہے کہ وہ خود طے کر سکتی ہے کہ کسی نئے آنے والے بچے کا قد کاٹھ کیسا ہو،رنگ و روپ کس طرح کا ہو ،وغیرہ وغیرہ ۔تو سوال کیا جاتا ہے کہ جب انسان کو ان چیزوں کا علم نہیں تھا تو وہ ایک بڑی ہستی کے ذمے لگا دیتا تھا کہ وہ یہ سب کرتی ہے۔لیکن اب تو انسان نے خود یہ کر لیا ہے ۔اب قرآن کا یہ بیانیہ کیا خدا کی قدر ت کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے ؟
احمد جاوید صاحب: جینیٹک انجینئر نگ (Genetic Engineering)علم کے طورپر بعد میں ہے ،انجینئرڈ جینیٹکس (Engineered Genetics)تو پہلے سے موجود ہے۔وہ اللہ کی بنائی ہوئی ہے ۔وجود ہمیشہ علم سے پہلے ہے ،اگر وجود ایسا تھا جو آج میں نے دریا فت کیا ہے تو یہ اللہ کے علم میں جب سے ہے،جب سے ہے ۔پھر اللہ اور بندے کے علم میں Objectسے نتائج مشترک بھی ہو ں تو علم کی ساخت کا فرق انہیں ایک کہنے کی اجازت نہیں دیتا۔یعنی Object جس Consciousness میں ہے، جس Order Conscious میں ہے،بہت زیادہ Significant ہے۔ یہ بات کہ ایک لفظ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں لیکن بہت زیادہ فرق ہو گا،آپ بہت زیادہ جانتے ہوں گے اور میں بہت کم جانتا ہوں گا۔مطلب کئی پہلو ہیں۔علم کی الوہی ساخت اپنے Contentsکو انسانی علم کے Contents حتما َمطلقا ممتاز رکھتی ہے۔یعنی معلومات ِ الٰہیہ کا بعد میں کہیں انکشاف بھی ہوتا ہے تو وہ انکشاف ہمیشہ جزوی ہوگا ۔اور وجود خالق ِ وجود کا معلوم ہے، کیا اس میں فرق نہیں پڑے گا ۔ہمار ا علم ناظرِ وجودکا علم ہے ،وہ خالقِ وجو دکا علم ہے ۔
مطیع مشہدی: جو تہذیبوں کا باہمی تعامل(Civilizational Encounter) ہوتا ہے جیسا کہ آج مغربی تہذیب اور ہم، تو اس تعامل میں ہم کن دوائر میں مجبور ِ محض ہیں کن دوائر میں ہم بااختیار ہیں ،اپنی مرضی کر سکتے ہیں ۔
احمد جاوید صاحب: ہم سے مراد اگر مسلمان ہیں ، تو ایمان اور ایمان سے بننے والے نفسیاتی Structure سے،ان دائروں میں ہم مجبور ہیں کہ ان پہ آنچ نہ آنے پائے ،باقی میں آزادی ہے ۔
مطیع مشہدی: باقی کے اثرات اس ڈھانچے پر نہیں پڑیں گے ؟
احمد جاوید صاحب: جی،بشرطیکہ ہم نے انہیں رغبت سے اختیار کیا یا مغلوبیت سے اختیار کیا ،یعنی By Choiceنہ ہوا۔
مطیع مشہدی: میرے والد صاحب علامہ اقبال کے حوالے سے اکثر فرماتے ہیں کہ یہ جو اقبال نے ایک ولی اللہ کے بارے میں کہا ہے کہ مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا ،اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ اقبال یہ کیا کہنا چاہتے ہیں ۔
احمد جاوید صاحب: یہ اتنی بڑی غلطی ہے کہ اس کے بعد یہ نہیں پو چھا جائے گا کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں ۔بہت بڑی غلطی کی ہے۔ان کی یہ نوجوانی کی نظم ہے ۔جب انگلینڈ پڑھنے جا رہے تھے توحضرت نظام الدین اولیا کے مزارپہ گئے، وہاں انہوں نے یہ نظم پڑھی تھی،اس وقت نوجوانی ہی تھی ۔
تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی
مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا
(نعوذ باللہ ) اس زمانے میں تھوڑا سا قادیانیت کے زیر اثر یا مزاج میں قادیانیت کے اثرات بھی تھے ۔ مسیح و خضر ان کے مذہب میں تو تختہ مشق ہی بنے رہتے ہیں ۔
مطیع مشہدی: آخر وقت تک انہوں نے اسے بدلا بھی نہیں۔
احمد جاوید صاحب: میرا خیال ہے کسی نے متوجہ نہیں کر وایا، ورنہ وہ ایسے آدمی نہیں تھے ،بڑے منکسر المزا ج آدمی تھے۔لیکن یہ Poetic License ہم نے دے رکھاہے جس کی چاہے جو کرو۔اب ہمارے بڑے بڑے شاعروں نے عیسی ٰ موسیٰ اور جبریل علیہم السلام کے ساتھ جیسا سلوک رکھا ہے ۔
بگذر مسیح از سر ِ ما کشتگانِ عشق
یک زندہ کر دن ِ تو بصد جاں برابر است
اب حضرت عیسیؑ ملیں گے تو پوچھیں گے ان سے۔شاعری میں ایک طرح کی یہ نحوست آگئی ہے بعض اثرات کی وجہ سے۔کیوں کہ شاعری کا خمیر تہذیب ہوتی ہے ۔ہماری شاعری کا خمیر جس تہذیب میں ہے ،وہ تہذیب ہمارے دین نے نہیں پیدا کی۔
میاں انعا م الرحمٰن: مغرب کو آپ نے کافی سٹڈی (Study) کیا ہے، ان میں جو بڑے بڑے سکالرز ہیں جنہوں نے آپ کو متاثر کیا ہے ، سقراط ، افلاطو ن ، ارسطو وغیرہ ان میں آپ کن کو قابل مطالعہ سمجھتے ہیں؟
احمد جاوید صاحب: Plato کے ڈائیلاگز (Dialogues) سب کو پڑھنے چاہییں۔
میاں انعام الرحمٰن: سب ڈائیلاگز؟
احمد جاوید صاحب: بہتر ہے سب ورنہ ریپبلک (Republic) اور ایک آدھ چھوڑ کے باقی پڑھ لے ،بعض دو تین ڈائیلاگ ایسے ہیں کہ اب ان کا کوئی مصرف نہیں رہا ۔مثلا ریپبلک اور اس طرح کے ایک آدھ اور۔ا س میں تصور ِ ریاست ،حکومت یہ سب بتایا ہے ۔ لیکن مثلافیڈو (Phaedo) ہے، سوفسٹ (Sophist) ہے،مینو (Mino) ہے، یہ ضرور پڑھنے چاہییں۔اور جن صاحب نے یہ ڈائیلاگ نہ پڑھے ہوں، جب وہ پڑھیں گے تو جب انہیں معلوم ہوگا کہ وہ آج بھی کتنی بڑی کمی کا شکار تھے۔
میاں انعام الرحمٰن: ری پبلک ہمارے پولیٹیکل سائنس کے نصاب کا باقاعدہ حصہ ہے اور مجھے تو آج بھی بڑی ریلیونٹ (Relevant) لگتی ہے۔
احمد جاوید صاحب: نہیں وہ تو جو پولیٹیکل سائنس (Political Science) پڑھتا ہو وہ پڑھ لے لیکن یہ جو مجموعی انسانی شعور کی Richness ہے اس کا احساس ڈائیلا گ (Dialogues) کو پڑھے بغیر نہیں ہو سکتا۔
میاں انعام الرحمٰن: پڑھ کے ایسے لگتا ہے جیسے آج کے دور کے کسی بندے نے لکھی ہے ۔
احمد جاوید صاحب: بہت اچھی نثر ،افلاطون سے اچھی نثر بھی کسی نے نہیں لکھی۔
مطیع مشہدی: آپ سمجھتے ہیں کہ ترجمے میں وہ نثر آئی ہے؟
احمد جاوید صاحب: یہ میں نہیں کہوں گا کیوں کہ زبان آتی نہیں ، لیکن جن لوگوں نے ترجمے کیے ہیں ان میں اکثریت یونانی زبان کے ماہرین کی ہے۔ وہ ہماری طرح کے مترجمین نہیں ہیں ،انہوں نے زندگی لگا دی ہے ڈائیلاگز ترجمہ کرنے میں۔مثلا ََجوویٹ (Benjamin Jowett) کا جو ترجمہ ہے اس نے ساری زندگی یہی کام کیا ہے، یونانی کلاسیکس کا ترجمہ کرنے میں۔
مطیع مشہدی: کیا یہ بات درست ہے کہ ہماری مسلم روایت میں جینئون فلاسفر ز نہیں ہیں، مغرب میں جیسے ہیگل وغیرہ ہیں، بلکہ جو یونانی فلسفہ ہمارے ہاں آیا، بس اس کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ۔
احمد جاوید صاحب: جی ہاں ۔تھوڑی بہت اوریجنیلٹی(Originality) ہے شہاب الدین سہروردی مقتول میں ۔
مطیع مشہدی: کیاہماری روایت میں اوریجنل فلاسفر ز ہونے چاہییں تھے ؟
احمد جاوید صاحب: بہت ضروری تھے ۔مذہب جوہے، وہ علم الکلام پیداکرسکتا ہے، فلسفہ نہیں۔فلسفہ تو عقل کی مکمل آزادی اور خو دمختاری سے پیداہوتا ہے ، free inquiry،ہر بات پہ شک کرو۔
مطیع مشہدی: ایک مسلمان کیا جینئون فلاسفر بن سکتا ہے؟
احمد جاوید صاحب: میرے خیال میں نہیں بن سکتا۔ لیکن فلسفہ پڑھناضرور چاہیے، اس سے آدمی کے ذہن کو جِلا ملتی ہے ۔
میاں انعام الرحمٰن: وحی کے حوالےسے ایک سوال تھا ذہن میں کہ ابھی جو آپ نے وحی اور عقل کے حوالے سے بات کی ،تو مجھے کچھ ایسا لگتا ہے کہ اگر ہم قرآن کا مطالعہ کریں جو وحی الٰہی ہے، خداکا آخری کلام ہے ،تو اس میں جو اجتماعی انسانی شعور ہے جسے ہم تاریخ کہہ رہے ہیں، اس کا خاصا حصہ اس پر مشتمل ہے ،تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ جو وحی ہے ،یہ جو انسانی شعور چلا آرہا ہے ،اس کی ایک حد تک محتاج بھی ہے ؟
احمد جاوید صاحب: نہیں یہ تو اس طرح ہےکہ جیسے خالق کو مخلو ق کی ضرورت ہے ۔اگر اس طرح سمجھا جائے کہ متکلم کو مخاطب کی حاجت ہے، ان معنوں میں تو ٹھیک ہے لیکن وحی کی جو مین باڈی(Main body) ہے، اس میں عقل کا کوئی فاعلانہ کردار نہیں ہے، اس میں عقل محض ریسیور (Receiver)ہے ۔ہماری رائے یہ ہے کہ عقل دی ہی گئی ہے وحی کو قبول کرنے والی قوت کے طورپر ،ورنہ انسان کی عمومی فہم یعنی نان ریشنل ریفلیکشن(non rational reflection ) ،اس کی خواہشات اور اس کی Instinctsدنیاوی زندگی گزار نے کے لیے کافی ہیں ۔عقل دی ہی اس لیے گئی ہے کہ اس میں خداکی مخاطب بننے کی قابلیت ہے ،کیوں کہ عقل میں سب سے Basicچیز کیا ہے، Abstractionکی قوت۔یعنی Matter سے ٹرانسنڈ کرنے کی طاقت ،یہ طاقت بے سود اور بے بقا ہوتی اگر یہ وحی کی مخاطب نہ ہوتی ،کیوں کہ عقل میں Abstraction کا مادہ ایمان بالغیب کی اساس ہے ۔توشروع سے اگر بات کریں نا آغاز سے کہ عقل کیا ہے تو پھر باتیں زیادہ واضح ہو جائیں گی ،اور وحی کیا ہے ۔میرے خیال میں ان میں کوئی تخلیقی ربط نہیں ہے ،عقل وحی کی تشکیل میں شامل نہیں ہے۔وحی ایک واقعہ ہے جیسے ایک چیز وہاں سے چلی اور یہاں پہنچی۔
میاں انعام الرحمٰن: اگر اس بات کو بڑھایا جائے کہ اگر وحی کا یہ shade ہوتا ہے تو نبی ﷺپر وحی نازل ہوئی اور مکی زندگی میں آپ کا ایک گروپ بن گیا تو ہجرت کرتے وقت چاہیے تو یہ تھا کہ کوئی نئی کالونی بسائی جاتی ،بڑا آسان تھا یہ،بجائے مدینہ ہجرت کرنے کے ،وہاں مختلف عقلیں موجود تھیں ،اوس و خزرج تھے ان سے انٹریکشن (Interaction) ہونا تھا ،تو صحیح صورت حال تو بنتی ہے کہ وحی کے مطابق ایک نئی بستی بسائی جاتی لیکن ایسانہیں کیا گیا۔ یہ آپشن تھا ،نہیں اختیار کیا گیا ۔اس کا مطلب ہے کہ وحی کا انٹریکشن لازما ہونا ہے مختلف عقلوں کی جہتوں سے،مختلف ثقافتوں سے ۔تو یہ جو آپ وحی کو بالکل الگ رکھ رہے ہیں کہ بالکل الگ چیز ہے ،عمومی طورپر ایسا نظر نہیں آتا ۔
احمد جاوید صاحب: تھوڑا سا وحی کو ہم ڈیفائن کرلیں نا ،وحی اللہ کا کلام ہے جو اپنے ہر مخاطب کے لیے بائنڈنگ ہے جو اس میں کہاجارہا ہے ڈائیریکٹ اسے مانے میر ی عقل،اور اپنے حالات کے مطابق اس کو سمجھنے میں غلطی بھی کر دے تو کیا ہے ۔تو وحی سب سے پہلے عقل پہ حکومت کرتی ہے اور اس کے بعد عقل کا مادہ ءِ تعقل بنتی ہے ۔آپ جو بات کر رہے ہیں، وہ وحی کے سیکنڈ فیز سے متعلق ہے کہ جہاں عقل وحی کو قبو ل کرکے کلمات ِ وحی کو اپنے تعقل کی اسا س بنا لیتی ہے ،وہاں ظاہر ہے کہ عقلی تصورات اور وحی کے Contents کہیں کہیں خلط ملط ہو سکتے ہیں ،وہاں تو ایک شانِ نزول کا قصہ شروع ہو سکتا ہے ،وہاں چیزوں کو ہسٹوریسائز (Historicize)کرنے کی ضرورتیں پیش آسکتی ہیں ،اس میں وحی کے ایک سالم کل کو اجزا میں تقسیم کرنے کی ضرورتیں پیش آسکتی ہیں جو عقل کرتی ہے ، وہ سب ٹھیک ہے اگر آپ دوسرے فیز (Second phase)پہ ہیں۔اگر آپ وحی as such اور عقل as suchکے درمیان تعلق بنائیں گے تو وحی کے وجود کی تشکیل میں ،وحی کے کلمے اور معانی کی تشکیل میں عقل کا کر دار ریسیور کے سوا کچھ نہیں ہے ۔وہ ریسیو(Receive) کر کے پھر اپنی دنیا پہ جب اسے اپلائی کرتی ہے نا،تو وہاں پہ وہ ایکٹو ہوتی ہے، وہاں اس کی مرضی ، اس کے میلانات یا اس کی کمزوریاں اس کی تشریحات و توجیحات ،وہ لگتا ہےوحی کے ساتھ اپنا امتیاز ختم کر لیتے ہیں بعض جگہوں پر ،وہاں آپ کی بات ٹھیک ہے ۔
میاں انعام الرحمٰن: ہمارے انسانوں کی اکثریت کے ساتھ تو یہی معاملہ پیش آتا ہے کہ جو دوسر افیز (Phase)ہے، اسی کے مخاطب ہم ہیں۔ وہی ہم نے کرنا بھی ہے ،اور جو پہلا فیز ہے، وہ بہت محدود لوگ ہوں گے جن کا یہ مسئلہ ہوگا ،لیکن انسانوں کی جو عمومی معاشرت ہے، اس میں تو دوسرا فیز(Phase) ہی ہوتا ہے۔
احمد جاوید صاحب: جی بالکل ٹھیک،عمومی کیا ،مطلب کلی معاشرت میں یہی فیز ہے۔ جیسے قرآن اور قرآن کی تفسیر،یہ ایسے ہی تعلق ہے کہ اللہ کیا اس بات پر قادر نہیں کہ اپنی بات پوری سمجھا دے ،تفسیر کی کیا ضرورت ہے یعنی تفسیر کی ہمیں ضرورت ہے، کلام اللہ کو ضرورت نہیں ہے ۔
میاں انعام الرحمٰن: سیرت النبی کے حوالے سے آج کے Context میں کس پہلو پر فوکس کرنا چاہیے؟
احمد جاوید صاحب: تعلق کے شعور اور جذبے کو ، اس کی تفصیل یہ کہ اللہ سےتعلق اپنی احساساتی رسوخ کے ساتھ، مخلوق سے تعلق ایثار اور انکسار سے ساتھ ۔اس کے لیے رسول اللہ ﷺ واحد ماڈل ہیں ہمارے لیے ،یعنی ہمیں اپنی ہدایت بھی وہیں سے فنکشنل(Functional) انداز میں اخذ کرنی ہےاور اپنی بشریت کی تکمیل بھی انہی سے کروانی ہے ۔یہ اجمالا َہمارے ذہن میں آتا ہے۔ اس کی تفصیل ہے جس کا پہلا جملہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ہم مزاجی پیداکرنا ،کیوں کہ میں کنڈیشن ہوجاؤں نا رسول اللہ کی شخصیت کے ساتھ،تو بہت بڑے بڑے معجزات کا صدور ہو سکتا ہے۔چیزیں رسول اللہ ﷺ کی نسبت سے میرے اندر پیداہوتے ہی تاریخی جبر کو توڑ دیتی ہیں ،نفسیاتی بندشوں کو توڑ دیتی ہیں اور پر کشش ہو جاتی ہیں۔یعنی آپ اللہ کو بھی رسو ل اللہ ﷺ کے حوالے کےبغیر دیکھیں تو محض ایک Grand concept ہے۔آپ ﷺ کا حوالہ آکر اسے معبود حئ اور معبودِ واحد بناتا ہے ،پرکشش بناتا ہے۔اور صحابہ کو بھی اگر ریفرنڈم (Referendum)کر والیا جا تا کہ رسول اللہ ﷺ کے بغیر جنت میں رہو گے یا آپ ﷺ کی مصاحبت میں مدینے میں رہو گے ،ایک ووٹ بھی جنت کے حق میں نہ آتا ۔
میاں انعام الرحمٰن: اس پہلو کی جو Practical realization ہے اس میں ہمارا ادب بھی کوئی کردار ادا کر سکتا ہے ؟
احمد جاوید صاحب: بہت زیادہ ،کیوں کہ ادب نظریے کو درکا ر احساسات فراہم کر دیتا ہے ۔کیوں کہ احساسات ہمارے ذہن کو در کا رہیں اپنے تصور میں ثابت قدم رہنے کے لیے۔ادب احساسات میں رفعت پیدا کرتا ہے۔ان کی رینج بڑھا دیتا ہے ۔
میاں انعام الرحمٰن: ہمارا جو مذہبی طبقہ ہے اس میں ذوق تو۔
احمد جاوید صاحب: جبھی تو یہ حال ہے۔
مطیع مشہدی : فلسفہ اور ادب کی چند ایسی کتابیں جو آپ ہمارے جیسے طالب علموں کے لیے Recommend کریں کہ یہ تو ضرور پڑھنی چاہییں۔
احمد جاوید صاحب: فلسفے میں میں نے ابھی بتائی ہے نا Dialoguesپڑھیں۔ادب میں اپنی روایت کی امہات الکتب ،اپنی روایت کے بڑے شاعروں کو یا ادیبوں کو پڑھنا چاہیے۔اور پھر اپنے ذوق کے مطابق،کوئی کہتا ہے کہ اردو روایت میں میر سے پڑھنا شروع کرو ،کوئی کہتا ہے غالب سے کوئی کہتا ہے اقبال سے ،لیکن بڑے لوگوں کو پڑھنا ضرور چاہیے۔کسی بھی ڈسپلن میں جانے کا یہ تقاضا ہے ،شر ط ہے کہ اس کے کم از کم ایک بڑے آدمی کو پڑھنا۔یہ جو ہمارے ہاں تن آسانی پیداہوئی نا کہ چیزو ں کو ویکیپیڈیا (Wikipedia) میں دیکھو (یہ درست نہیں )۔
میاں انعام الرحمٰن: ہمارا جو جدید ادب ہے، یہ ہمارے احساسات کی تشکیل کر رہا ہے جیسا ماضی میں تھا ؟
احمد جاوید صاحب: ہماری تہذیب کی کوئی جمالیاتی ساخت رہ نہیں گئی ۔
میاں انعام الرحمٰن: تو پھر مسئلہ کہاں پر ہے ،ادب میں ہے یا دین کے نمائندوں میں ؟
احمد جاوید صاحب: تہذیب میں ۔
میاں انعام الرحمٰن: تہذیب کوئی Abstract چیز تو نہیں ہے ۔ اس کے کوئی نمائندے توہوں گے ۔یا ادب کے نمائندے ہوں گے یا دین کے نمائندے ہوں گے ۔
احمد جاوید صاحب: جیسے فرض کیا اساتذہ ہیں ،علما ء ہیں ،حکمران ہیں،یعنی جو نظام چلانے والی قوتیں ہیں اور ان قوتوں کے جو ہولڈرز ہیں ،ان میں جمالیاتی حس مفقود ہے ۔
میاں انعام الرحمٰن: مطیع صاحب سے آپ کی جو بات ہورہی تھی تو ایک چھوٹا سا سوال میرے ذہن میں آیا کہ ایک طرف تو آپ نے یہ فرمایاکہ عقل اور وحی کی ڈومین (Domain)بالکل الگ ہیں اور سائنس اور قرآن کو اسی حوالے سے دیکھنا چا ہیےاور ان کا اپنا اپنا دائرہ ہے ۔دوسری طرف آپ نے شاعر ی کے حوالے سے بھی بات کی کہ شاعری جس تہذیب سے ابھرتی ہے جیسا کہ ہماری شاعری ہے ،و ہ اگر لادینی ہو تو بڑی گڑ بڑ ہوتی ہے تو شاعری کا اور ادب کا الگ ڈومین نہیں ہوتا ؟وحی کو مد نظر کیوں رکھیں؟
احمد جاوید صاحب: الگ ڈومین ہونے کا مطلب بے نیا زہونا نہیں ہے ۔الگ ڈومین ہونے کا میرا مطلب یہ ہے کہ دین کو اس بات کی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنے بتائے ہوئے حقائق کی سائنس وغیر ہ سے تصدیق کر وائے ۔لیکن ادب اور سائنس کو اپنی معنویت میں اضافے کے لیے اس بات کی محتا جی ہے کہ وہ دین کے ایمانی سٹرکچرز (Structures)کو خیال اور حال کی سطح تک اتارکے ایکسپریس (Express)کرنے کے لائق ہوجائے ،تو یہ بات تو taken for granted ہے ۔
میاں انعام الرحمٰن: یہ تو بطور متکلم آپ وحی کو یا اسلام کو ڈیفنڈ (Defend) کر رہے ہیں ،ورنہ عملی طورپر دیکھا جائے تو لین دین تو دو طرفہ ہوگا ۔
احمد جاوید صاحب: نہیں ایک ہوتا ہے نفسِ دین میں (لین دین) ہوا ہو ،تعبیر ِ دین میں تو ظاہر ہے میرا ذہن جن جن علوم سے مانوس ہے ،میرے فہم ِ دین پر ان کا اثر لازما پڑے گا ۔وہ تو ہوگا ،وہ تو ایک جبری اثر ہے ،اس سے مفر نہیں ہے ۔اس میں صرف اتنا مجھے دیکھنا پڑے گا کہ میرا ایک سائنس کا ڈسکور س ہے ،ایک ادب کا ہے ،اور ایک دین کا ہے ،تو ان میں وہ بائنڈنگ ڈسکور س کون سا ہے جو میرے شعور میں Objects کے سلسلے میں انتشار نہ پیداہونے دے۔
میاں انعام الرحمٰن: اگر ہم دین کے اوریجنل ڈسکورس(Original discourse) کو دریافت کریں تو وہ کیا ہوگا ؟
احمد جاوید صاحب: میرے خیال میں اویجنل ڈسکورس ایک واہمہ ہے ۔اوریجنل ٹیکسٹ ہوتا ہے ،ڈسکورس اس کی تعبیر ہی ہوتا ہے ،کیوں کہ میں اپنے فہم ِ دین کو پانچ سو سال پہلے کے آدمی کے مطابق بنانے میں قادر نہیں ہوں۔ کنٹکسٹ (Context)بدلتے رہتے ہیں نا ،علم کنٹکسٹ(Context) ہے ،کنٹکسٹ (Context)میری مرضی سے تھوڑی بدلتے ہیں ۔
مطیع مشہدی: وحی کے آنے کی جو وجوہات تھیں ،وہ ساری کی ساری موجود ہیں،انسان کو ان ساری چیزوں کی ضرورت ہے بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے پہلے سے زیادہ ضرورت ہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے وحی کا سلسلہ منقطع کر دیا ۔ آپ اس ختم ِ نبوت کے پیچھے کیا بڑی حکمت سمجھتے ہیں ؟
احمد جاوید صاحب: جن ضرورتوں سے وحی کا سلسلہ جاری تھا ،وہ سب ضرورتیں ایک مخصوص ٹیکسٹ کی صورت میں Addressہو گئی ہیں ،تو اس میں پھر ہمیں کسی نئی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے ۔ہمیں ہدایت کی مسلسل ضرورت ہے ،لیکن موجود ہدایت کی،کسی نئی ہدایت کی نہیں ۔تو اس وجہ سے ہم ہدایت کے Perspective سے اپنے اندر کوئی نئی ضرورت دریافت نہیں کر سکتے۔بعثت ِ رسول اللہ ﷺ سے پہلے ایک طالب ِ حق آدمی اپنی کچھ ضرورتیں ہدایت کی بیان کر سکتا تھا جو اس تک پہنچنے والی عیسائیت میں Addressنہ ہوئی ہوں ،لیکن اسلام کے بعد نہیں ۔ایک حکمت تو اقبال نے بتائی، وہ بہت قابل ِ غور ہےکہ یہ عقلِ استقرائی کا سرٹیفکیٹ ہے ،لائسنس ہے کہ اب اپنے فیصلے خود کرو۔تو ایک یہ حکمت قابلِ غور ہے چاہے سو فیصد لائق ِ اتفاق نہ ہو۔دوسری اس میں ایک بڑی عرفانی حکمت جو مجھے سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ نبوت ،اللہ کا اظہار ہے اس کے بندوں کو اپنے طرف متوجہ کرکے ،اس توجہ کے عملی اور اعتقادی تقاضے پورے کرنے کے لیے ۔ہر نبی حق کا مظہر ہوتا ہے۔رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس میں حق as such اپنے مظہر میں آگیا ہے ،manifest ہو گیا ہے ۔پہلے ایک ہی زمانے میں کئی انبیا علیہم السلام ہوتے تھے تو حق کا اظہار کثرت کے اصول پر ہوتا تھا ۔توحید کا اظہار کثرت کے اصول پر ہوتا تھا ۔رسول اللہ ﷺ پر پہنچ کے توحید کا اظہار اب وحدت ِ مظہر کے اصول پر ہو چکا ہے ،تو یہ ختم ِ نبوت کی ایک عر فانی معنویت ہے ۔مثلاجو اگر ذرا صوفیانہ ذہن ہو یا تھوڑی آپ کی نظر اگر (Perennial philosophy) وغیرہ کی طرف ہو، تو اس حکمت کی افادیت سمجھ آئے گی۔وہ کہتے ہیں ناکہ ہر دین برحق ہے ،اس کے جواب میں یہ دلیل ہے ۔باقی اس کی ایک نفسیاتی ضرورت ہے کہ آدمی کو یہ احساس دلا دیا گیا ہے کہ اللہ تم پر اعتماد کرتا ہے ،تم اب بڑے ہو گئے ہو ۔
مطیع مشہدی: مجھےپچھلے کچھ ماہ سے سکھ مت کو پڑھنے کا موقع ملا ، میں نے دیکھا کہ ان کے ہاں توحید کا تصور بڑا خالص ہے اور قرآن میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرک کی بخشش نہیں کر ے گا، اس کے علاوہ جس کو چاہے بخش دے۔آپ ان کی توحید کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
احمد جاوید صاحب: سکھوں نے توحید مسلمانوں سے لی ہے ،وہی توحید ہے۔
مطیع مشہدی: گرو نانک صاحب ہر وقت قرآن اپنے ساتھ رکھتے اور مطالعہ کرتے تھے ،تو ایسالگتا ہے وہ اس سے بہت مثاثر ہوئے ہیں ۔
احمد جاوید صاحب: جی ان کی توحید اسلامی توحید سے ملتی جلتی ہے ۔
مطیع مشہدی: تو پھر ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگرچہ یہودیت اور عیسائیت نے توحید گہنا دی تھی،اس کے باجود انہیں اہلِ کتاب قرار دے کر ان کے لیے Exceptional چیزیں رکھی گئیں ۔تو کیا آج علماء سکھ کمیونٹی کے لیے وہ استثنائی چیزیں رکھ سکتےہیں۔
احمد جاوید صاحب: نہیں ،کیوں کہ یہ ختم ِ نبوت کے خلاف ہے ۔گرو نانک کو چاہیے تھا کہ تم نے ساری توحید مسلمانوں سے لی ہے ،تو مسلمان کیوں نہیں ہوئے ،تو کیا شوق تھا کہ الگ مذہب بناؤ۔
مطیع مشہدی: لیکن پیغمبر ہونے کا دعویٰ تو انہوں نے نہیں کیا ۔
احمد جاوید صاحب: Prophet ہونے کی پوزیشن لے لی نا۔وہ ہندو اثر ہے ۔اب وہ اوتار ہے یعنی Prophet سے بھی بڑے۔
میاں انعام الرحمٰن: قرآن مجید کامطالعہ کریں تو ہر صفحے پہ اس کا جو بنیادی پیغام ہے وہ آخرت کے حوالے سے ہے۔میرے محدود سے مطالعے کے مطابق ۔یہ جو بنیادی میسج (Massage) ہے، اسے ہم اپنی معاشرت میں نہیں لا سکے۔اس کا کیا طریقہ کار ہو سکتاہےکہ دس فیصد پندرہ فیصد ،نظر تو آئے ۔
احمد جاوید صاحب: اس کا ایک اصولی حل ہے، ایک اطلاقی ہے۔اصولی حل یہ ہےکہ خداتعالیٰ زندہ خدا ہے ،اس سے تعلق احساسات کی تصدیق کے ساتھ ہونا چاہئے ،وہ ہمارے ہاں نظام ِ تربیت کا حصہ نہیں رہ گیا ،خصوصا گھروں میں بلکہ مدارس میں بھی ۔دوسرا یہ ہے کہ دنیا کی محبت میں کوئی چیک نہیں رکھا ۔آخرت کاجو سب سے زیادہ قطعی ایفکٹ (Effect)ہےنا جس کے لئے آخرت پر اتنی تاکید کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا کی زندگی اور یہاں کی چکاچوند تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے یعنی دنیا تمہاری محبوب نہ بن جائے ،کبھی جہنم کے ڈر سے محبو ب نہ بنے ،کبھی جنت کی کشش سے محبوب نہ بنے ۔وہ کام اب کرنا پڑے گا اب نظام ِ تربیت میں ۔آپ دیکھیں آپ کو کتنے لوگ ایسےملتے ہیں جنہیں مرنے کی جلدی ہو ،کہ کسی طرح جنت میں پہنچ جائیں ۔
میاں انعام الرحمٰن: یہی تو سوال ہے کہ ہماری جو سورس بک (Source Book)ہے قرآن مجید ، اس میں آخرت پر اتنا فوکس(Focus) ہے اور یہی ہمارے اندر نہیں ہے ،بلکہ پوری معاشرت میں نہیں ہے ،جو بہت زیاد ہ ہونی چاہئے ۔
احمد جاوید صاحب: اس میں یہ ہے کہ تعلیم ِ قرآن فالٹی(Faulty) ہے ۔ ہم قرآن کو مفہوم بنالینا کافی سمجھتے ہیں، قرآن کا تقاضا ہے کہ سنو ،سمجھو اور اپنے آپ کو اس پہ ڈھالو ،یعنی اس کی تاثیر لو ۔ہم نے قرآن کی تاثیر کے چینلز(Channels) نہیں ڈھونڈے۔قرآن کتابِ شعور بھی ہے، کتا بِ وجود بھی ہے ۔نہ ہم نے اس کے کتابِ شعور ہونے کا حق ادا کیا ،نہ کتاب ِ وجود ہونے کا ۔کتاب ِ وجود ہونے کامطلب اس کا ہر لفظ ہمارے لئے کلمہ ءِکن کی طرح ہے۔
میاں انعام الرحمٰن: مسئلہ شاید یہ ہوآج کے دور میں جیسے آپ نے پہلے فرمایا کہ ہر دور کا ایک خاص کنٹکس(Context) ہوتا ہے ،اس کے مطابق تعبیر کرنی پڑتی ہے ۔چار پانچ سو بر س سے ہم شاید کنٹکس نہیں سمجھ پائے ،اس کے مطابق تعبیر نہیں کر پائے تو جو ٹیکسٹ(Text) ہے، وہ تو as it isنافذ نہیں ہوگا ۔اس کی تاثیر بھی نظر نہیں آئے گی جو تعبیر کی صورت میں ہی نظر آئے گی۔ تعبیر کو عمل میں لانے کے لئے ہم جدید دور کے کنٹکس (Context)کو سمجھ نہیں پائے ۔شاید یہ وجہ ہو۔
احمد جاوید صاحب: ہم نے کنٹکس(Context) کو ہسٹوریکل (Historical)رکھا ، Religious نہیں بننے دیا۔ہم نے ہر کنٹکس کو افقی (Horizontal) رکھا، عمودی (Vertically) نہیں دیکھا ۔یہ غلامی کے اثرات ہیں ۔لیکن صحیح ہے کہیں نہ کہیں کوئی غلطی ہوئی ہے نا ،اب اس غلطی کو درست کرناہے تو اس میں طریقہ یہی ہے کہ ان دو تین تھیمز پہ توجہ کی جائے۔قرآن پہ کبھی رونا بھی چاہئے ،کبھی ہنستے ہوئے خوشی میں بے حالی کا تجربہ بھی ہونا چاہیے۔کبھی رونگٹے کھڑے ہونے چاہییں۔یہ سب ہمارے ہاں ہے ہی نہیں۔قرآن یا تو فرفر پڑھے جاتے ہیں یا اسکالر بن کر پڑھتے ہیں ۔
مطیع مشہدی : قرآن حکیم میں ہمارے ہاں جو مفسرین نظم پیدا کرتے ہیں،آیت کا دوسری آیت سے تعلق پیداکرتےہیں ،یا صوفیا کے ہاں جس طرح مفاہیم کشید کیے جاتے ہیں ،اگر یہ طریقہ اگر ہم "وید " پر اپنائیں گے تو وہ بھی منظم نظر آئے گی ،اس میں بھی ربط نکل آئے گا اور اس میں بھی جنتے مرضی معنی چاہیں نکالتے جائیں ۔پھر قرآن میں کیا خاص چیز ہے جو اسے وید سے Differentکرے گی۔اس طریقے سےتوہم ہر مذہب کی کتاب میں ربط بھی قائم کر دیں گے، اس کے اندر ایک نظم بھی نکال لیں گے ۔ایک فلسفیانہ ذہن کا آدمی وید کو پڑھے گا تو اس میں بھی وہ ایک نظام ِ فکر قائم کرلے گا ۔تو قرآن اور ان دیگر کتب میں کیسے فرق کریں گے ؟
احمد جاوید صاحب: بہت فرق ہے۔ پچھلے صحیفوں میں ،مطلب جنہیں ہم صحیفے مان کر بات کرتے ہیں ،وید یقینا َالہامی صحیفہ ہے،بہت فرق ہے ۔ایک تو ویدوں میں یا دیگر تمام صحائف میں خداکا تعارف پورا نہیں ہے۔دوسرا یہ کہ آخرت کا Thesisبہت ہی ابتدائی صورت میں ہے ۔یعنی ان کتابوں سے کوئی آخرت اساس ورلڈ ویو (World view)بنانا ممکن نہیں ہے ۔یہ قرآن کا امتیاز ہے جس نے ہمارے خدا کے بارے میں علم کو بھی مکمل کیا ،خدا سے تعلق کی تمام جہتوں کو بھی واضح کیا اور کائنات کی حقیقت اور غایت دونوں کا شعور بخشا،ورنہ وید توکہتے ہیں کہ یہ سب نظر کا دھوکہ ہے۔ تو اب اس میں انہوں نےجو نیچرل تضادات ہیں، اس کو Readہی نہیں کر پائے ۔مایا ہےتو کھانا کیوں کھاتے ہو ؟تم کیوں ہو ؟تمہارا نام کیوں ہے ؟من و تو کا پورا نظام کیا ہے؟اب اس کی ظاہر ہے، وہ فلسفیانہ توجیہات کردیں گے، لیکن ان توجیہات اور تشریحات کا کوئی اثر میری زندگی میں نہیں پڑتا۔تو قرآن نے میٹافیزیکل ایسنس (Metaphysical essence) کو ایپمیریکل (Empirical)کی حد تک یقینی بنایا ہے ۔قرآن کا نظام ِ عقائد ایمپیریکل تیقن کی قابلیت دیتا ہے جو پہلے کہیں بھی نہیں ہے ۔
میاں انعام الرحمٰن: اس کا سب سے بڑا مظہر سیرت الرسول ﷺ ہے۔
احمد جاوید صاحب: جی رسو ل اللہ ﷺ ۔اور وہ ہسٹاریکل ٹیکسٹ (Historical text) بھی ہے، ہسٹاریکل پروفٹ (Historical prophet)بھی۔ باقی کسی دین کا ٹیکسٹ ہسٹاریکل نہیں ہے اور پروفٹ ہسٹاریکل نہیں ہے، مطلب ہسٹاریکل تفصیل نہیں ہے ۔بہت سارے فر ق ہیں ۔ہاں یہ ٹھیک ہے کہ یہ جو ہم مختلف تھیریز(Theories) اپلائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن سے نکلی ہیں ،تو وہ ہم قرآن پر اپلائی کرتے ہیں، قرآن سے ڈرائیو (Drive)تھوڑا کرتے ہیں ۔
مطیع مشہدی: اگر ہم قرآن ِحکیم کا مطلوب فرد دیکھیں جو ایک مومن ہوتا ہے یعنی متقی ہو ، سچا ہو ، جھوٹ نہ بولتا ہو،وغیرہ وغیرہ،اس طرح کے بندے تو ہر مذہب میں مل جاتے ہیں ۔ایک سکھ بھی بہت متقی انسان ہو سکتا ہے ،ایک ہندو بھی متقی ہو سکتا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہو ا کہ اسلام اپنے پورے نظام کی بدولت جو ایک فرد تیارکرنا چاہ رہا تھا ،وہ آدمی تو سکھ مذہب نے بھی تیار کرلیا ،اور ہندو مذہب نے بھی تیار کرلیا ۔یہا ں پھرسوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کی خاصیت کیا رہ جاتی ہے ؟
احمد جاوید صاحب: یہ بہت اچھا (سوال) ہے ۔ انسانی نفس کی ایک Hierarchy ہے ،جبلت ،طبیعت ، قلب اور شعور ۔تو اس کو ہم آسانی کے لیے کہہ دیتے ہیں اخلاق اور شعور ۔آدمی کو اپنے اخلاقی وجود کے تقاضے پورے کرنے کے لیے دین کی لازمی حاجت نہیں ہے ۔اخلاقیات فطری ہیں، یہ سب مظاہر اخلاق کے ہیں ۔انسان کی فطرت کی نمود کی حیثیت سے اللہ کو ماننے والوں میں بھی نظر آسکتے ہیں ،نہ ماننے والوں میں بھی نظر آسکتے ہیں۔تو اصل چیز یہ ہے کہ شعور میں کیا ہے ،شعور کا Content کیا ہے جو اختیار ی ہے ۔تو شعور میں اللہ اور خدا نہیں ہے تو اخلاق کی کوئی حیثیت نہیں ہے ،کیونکہ آپ نے اوپر کی منزل میں جن بھوت ٹھہرا رکھے ہیں ،نیچے فرشتے بسا رکھے ہیں ،تو اس سے کیا ہو گا۔
ڈاکٹرمحمد اکرم ورک: اس سے جو مغرب کا فلسفہ اخلاق ہے اور اسلام کا فلسفہ اخلاق ہے، ان میں جو بنیادی فرق ہے، وہ اسی تناظر میں دیکھیں گے؟
احمد جاوید صاحب: ظاہرہے۔مطلب میری ساری Definitions جوہیں، وہ اللہ کے بندے اور رسول اللہ ﷺ کے امتی کی حیثیت سے ہیں ۔میرے اخلاق بھی ،میرے ریفلیکسس (Reflexes)بھی ،حتی کہ میری Instinctive drives بھی۔
میاں انعام الرحمٰن: ہماری جو روایتی اصطلاح ہے، اس کے مطابق یوں سمجھ لیں کہ جو مغرب کے لوگ ہیں، وہ تکوینی ذریعے سے پہنچتے ہیں اور ہم تشریعی ذریعے سے پہنچتے ہیں۔منزل وہی ہے، لیکن ذریعہ کا بہت زیادہ فر ق ہے ۔
احمد جاوید صاحب: ایک آدمی میں اچھائی خودرو ہے ،ایک آدمی میں اچھائی جوابدہی کےتحت ہے ،خداسے تعلق کے تقاضے کے طور پر ہے ،دونوں میں فرق ہو گا نا۔
اس کے بعد ہم نے ان سے رخصت چاہی اور وہ دروازے تک چھوڑنے آئے۔علم وفکر کی گہرائی وگیرائی کو عجز و انکساری اور عملیت کے پیکر میں دیکھ کر رشک آرہاتھا اور اقبال کا یہ شعر ان کی شخصیت کے سامنے بے وقعت دکھائی دے رہاتھا۔
افکار کے نغمہ ہائے بے صوت
ہیں ذوق ِعمل کے واسطے موت
خدا انہیں طویل صحت مند زندگی عطا فرمائے اور ان کے سر چشمہ ءِ فیض کو ہمیشہ جاری و ساری رکھے۔آمین