2۔مباحث و موضوعات
اہلسنت اور اہل تشیع کے علم مصطلح الحدیث کے مباحث،موضوعات کی ترتیب اور اسماء و اصطلاحات کا جائزہ اگر لیا جائے تو حیرت انگیز حد تک مماثلت (بعض جزوی اختلافات کے باوجود ،جن کی تفصیل ہم ان شا اللہ آگے بیان کریں گے )نظر آتی ہے ،یہاں بجا طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب شیعہ علم حدیث اور سنی علم حدیث اپنے اساسی مفاہیم و مصطلحات کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے ،جیسا کہ بحث اول میں ہم اس کو مفصل بیان کر چکے ہیں ،تو پھر علمِ اصولِ حدیث میں موضوعاتی یکسانیت کیونکر پیدا ہوئی؟اس سوال کا جواب خود شیعہ محققین کے ہاں یہ ملتا ہے کہ یہ فن بنیادی طور پر اہلسنت کی علم مصطلح الحدیث سے ماخوذ ہے ،ماقبل کی کی اقساط میں ہم اخباری علماء کے بعض حوالہ جات اس حوالے سے نقل کر چکے ہیں ،اب اصولی علماء کی شہادت ذکر کی جاتی ہے :
گیارہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم حسین بن شہاب کرکی لکھتے ہیں :
"و اول من الف فی الدرایہ من اصحابنا الشہید الثانی اختصر درایۃ ابن الصلاح الشافعی فی رسالتہ ثم شرحہا"1
ترجمہ :ہمارے اصحاب میں سے علم الدرایہ میں سب سے پہلی تصنیف شہید ثانی کی کتاب ہے ،جس میں انہوں نے ابن صلاح کی کتاب کا اختصار کیا ،پھر خود اپنے تیار کردہ متن کی شرح لکھی ۔
معروف اصولی محقق و محدث علامہ خوئی لکھتے ہیں:
"وھو اول من صنف من الامامیہ فی درایۃ الحدیث لکنہ نقل الاصطلاحات من کتب العامۃ کما ذکرہ ولدہ و غیرہ"2
ترجمہ: شہید ثانی درایہ میں لکھنے والے پہلے امامی مصنف ہیں ،لیکن انہوں نے یہ اصطلاحات عامہ (اہلسنت) سے نقل کی ہیں ،جیسا کہ یہ اعتراف ان کے بیٹے اور دیگر شیعہ علماء کرچکے ہیں ۔
شہید ثانی کی مذکورہ کتاب البدایہ فی علم الدرایہ کے محقق غلام حسین قیصریہ اس کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
"وجدنا ان الشہید تاثر بمقدمہ ابن الصلاح"3
یعنی اثنائے تحقیق ہمیں یہ محسوس ہوا کہ شہید ثانی مقدمہ ابن الصلاح سے متاثر ہیں۔
اس پر اخباری علماء کثرت سے لکھ چکے ہیں کہ یہ فن اہلسنت سے ماخوذ ہے ،(پچھلی اقساط میں بعض حوالے آچکے ہیں )اخباری و اصولی علماء کی ان تصریحات جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اہل تشیع کا علم الدرایہ اہلسنت کے علم مصطلح الحدیث کا چربہ اور اسی کی نقل ہے ،یہاں تک کہ امثلہ و شواہد بھی تقریبا وہی لیے گئے ہیں ،جو اہلسنت کی کتب میں مذکور ہیں کما مر ،تو بجا طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ فن جو اہلسنت کے حدیثی ذخیرے کو پرکھنے کے لیے وضع کیا گیا ہے ،تو اس فن سے اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ کیسے اور کیونکر پرکھا جاسکے گا،جب ہر دو علوم اپنی اساسیات و مبادیات میں کلی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں ،دونوں کا زمانہ تدوین الگ الگ ،معیارات نقد الگ الگ ،حدیث و سنت کا مفہوم الگ الگ ،وغیرہ۔
3۔ انواعِ حدیث
اہل تشیع کا علم الدرایہ اگرچہ بنیادی طور پر اہل سنت کے علم مصطلح الحدیث سے ماخوذ ہے ،لیکن علمائے شیعہ نے اس اخذ و التقاط کے عمل میں اپنے ذخیرہ حدیث کے اعتبار سے کچھ تبدیلیاں کیں ،اس بحث میں انہی تبدیلیوں کا موازنہ اہل سنت کے علم مصطلح الحدیث سے کریں گے تاکہ ہر دو علوم کے محاسن و مساوی کا تقابل سامنے آسکے ۔ اس عنوان میں ہر دو علوم میں احادیث کی مقبول و مردود کے اعتبار سے جو تقسیم کی گئی ہے ، نکات کی شکل میں دونوں علوم میں کی گئی تقسیم کا موازنہ پیش کیا جائے گا :
1۔حدیث کی صحت کے لیے اہل سنت محدثین نے عدمِ شذوذ اور عدمِ علت کی شرط لگائی ہے ،جبکہ اہل تشیع محدثین کے ہاں حدیث کے صحیح ہونے کے لیے اس کا شذوذ و علت سے خالی ہونا شرط نہیں ،یوں اہل سنت کا معیار بنسبت اہل تشیع کے ،زیادہ کڑا اور سخت ہے ،اس بات پر ہم پچھلی اقساط میں بحث کر چکے ہیں ۔
2۔ اہل سنت محدثین نے مقبول حدیث کی اقسام میں سے دو اقسام (صحیح لغیرہ اور حسن لغیرہ ) کی بنیاد کثرت طرق پر رکھی ہے ،کیونکہ اہل سنت کے حدیثی ذخیرے میں تکرار کثرت سے واقع ہوا ہے ،جیسا کہ ہم اس کی تفصیل اس سلسلے کی تعداد روایات والے عنوان کے تحت بیان کرچکے ہیں ،جبکہ اہل تشیع کے ہاں مقبول حدیث کی چاروں اقسام (صحیح ،حسن ،موثق ،قوی ) میں سے کوئی بھی قسم کثرت طرق و اسناد پر مبنی نہیں ہے ،کیونکہ اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے میں تکرار نہ ہونے کے برابر ہے کما مر ،اس لیے کثرت طرق و اسناد پر مقبول خبر کی کسی قسم کی بنیاد رکھنا امر ِواقعہ کے اعتبار سے لغو اور ناممکن تھی ۔
3۔اہل سنت کے ہاں مقبول حدیث کی دو پہلی اعلی اقسام (صحیح و حسن ) میں اتصال ِسند ،عدالت ِراوی ،عدم شذو،عدم ِعلت ضروری ہے ،صحیح و حسن میں فرق صرف یہ ہے کہ صحیح کے رواۃ ضبط میں اعلی مقام پر فائز ہوتے ہیں جبکہ حسن میں رواۃ نفس ضبط کے حامل ہوتے ہوئے درجہ میں صحیح رواۃ سے ناقص ہوتے ہیں ،جبکہ اس برخلاف اگر ہم اہل تشیع کے ہاں مقبول خبر کی پہلی دو اعلی اقسام (صحیح و حسن ) کو دیکھیں ،تو ان دونوں میں فرق عدالت کے ثبوت و عدمِ ثبوت پر ہے کہ صحیح حدیث کے رواۃ سارے امامی عادل ہوتے ہیں ،جبکہ حسن حدیث کے رواۃ کی عدالت ثابت نہیں ہوتی ،بلکہ وہ مستور الحال ہوتے ہیں ،صرف ان کے حق میں مدح مطلق ثابت ہوتی ہے ،چنانچہ زین الدین عاملی حسن حدیث کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"ھو ما اتصل سندہ بامامی مدوح من غیر نص علی عدالتہ فی جمیع مراتبہ او فی بعضھا ،مع کون الباقی من رجال الصحیح"4
یعنی حسن حدیث وہ ہے ،جس کی سند متصل ہو اور اس کے رواۃ سارے امامی ممدوحین ہوں ،لیکن ان کی عدالت پر کسی کی کوئی تصریح نہ ہو ،تمام طبقات میں یا بعض طبقات میں ،اور باقی رواۃ صحیح حدیث کے رواۃ ہوں ۔
اہل علم جانتے ہیں کہ حدیث کے معتبر ہونے یا نہ ہونے میں عدالت بنیادی ترین وصف ہے ،اہلسنت کے ہاں مردود حدیث کی اقسام انقطاعِ سند یا عدمِ عدالت سے بنتی ہیں ،جبکہ اہل تشیع کے ہاں صحیح حدیث کی دوسری بڑی قسم کے لیے عدالت کی صراحت یا اس کے ثبوت کی ضرورت نہیں ، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ جو قسم اہل سنت کے ہاں عدم ِ ثبوتِ عدالت کی وجہ سے خبر مردود میں شامل ہوتی ہے ،وہی قسم اہل تشیع کے ہاں مقبول حدیث کی دوسری بڑی قسم شمار ہوتی ہے ،اس سے اہل سنت اور اہل تشیع کے معیارات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
4۔ اہل تشیع محدثین نے مقبول حدیث کی پہلی دو اعلی اقسام (صحیح و حسن ) کے لیے ایک بنیادی شرط "امامی "ہونا بیان کیا ہے ،لہذا شیعہ اصول ِحدیث کی رو سے راوی خواہ کتنا ہی ضابط ،کتنا ہی عادل اور کتنا ہی ثقہ کیوں نہ ہو ،اگر وہ امامی نہیں ہے ،تو اس کی حدیث صحیح و حسن کی درجہ بندی میں نہیں آسکتی ، جبکہ اس کے برخلاف اہل سنت کے ہاں اس قسم کی کوئی شرط نہیں ہے ،چنانچہ اہل سنت کے ہاں صحیح و حسن حدیث کی شرائط میں راوی کا اہل سنت میں سے ہونا شرط نہیں ہے ،خود امام بخاری نے صحیح بخاری میں متعدد ایسے رواۃ کی روایت کو صحیح سمجھتے ہوئے اپنی کتاب میں درج کیا ،جو اہل سنت میں سے نہیں ہیں ،ان رواۃ کی تفصیل حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری کے مقدمے ہدی الساری میں دی ہے ،اس شرط سے ایک خالص علمی سرگرمی میں "مذہبی تعصب " کی واضح جھلک نظر آتی ہے ۔
5۔ اہل تشیع کے ہاں مقبول حدیث کی اقسام میں سے ایک قسم "قوی حدیث" کی ہے ، شیعہ محدثین کے ہاں اس قسم کی تعریف یوں کی گئی ہے :
"الحدیث الذی یکون جمیع رواتہ من الامامیہ و لم یرد فیھم او فی بعضھم مدحا کما ھو الحال فی الحدیث الحسن او ذما فرتبتہ بعد الحسن و قبل الموثق"5
یعنی وہ حدیث جس کے جملہ رواۃ امامی شیعہ ہوں اور ان میں سے سب کے یا بعض کے بارے میں مدح و ذم منقول نہ ہو ،تو اس کو قوی کہا جاتا ہے ،درجہ بندی میں یہ حسن کے بعد اور موثق سے پہلے ہے ۔
اس حدیث کے حوالے سے پہلی بات تو قابل بحث یہ ہے کہ اہل سنت محدثین ایسے رواۃ کی حدیث کو مجہول العین (جب اس سے ایک راوی روایت کرے ) یا مجہول الحال (جب اس سے دو یا اس سے زیادہ راوی روایت کرے) کی درجہ بندی میں لاتے ہیں اور مجہول راوی کی روایت جمہور اہل سنت کے ہاں رد ہے ،البتہ بعض محدثین اس کے قبول و عدم قبول میں توقف کرتے ہیں ۔6 یعنی وہ بھی قبول نہیں کرتے ،اسی وجہ سے اہلسنت کی کتب مصطلح الحدیث میں مجہول حدیث حدیث کی مردود اقسام میں شمار کی گئی ہے،جبکہ اہل تشیع محدثین ایسے راوی کی روایت کو مقبول حدیث کی تیسری قسم میں شمار کرتے ہیں ،اس سے اہل سنت اور اہل تشیع کے معیاراتِ نقد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
دوسری بات یہ قابل ذکر ہے کہ اہل تشیع محدثین نے قوی حدیث کو درجہ بندی میں موثق حدیث (وہ حدیث جس کے کل یا بعض رواۃ غیر امامی ہوں اور ان کی توثیق شیعہ محدثین و اہل علم کی زبانی ثابت ہوچکی ہو )سے پہلے رکھتے ہیں ،جو مذہبی تعصب(اور ساتھ غیر معقولیت ) کی ایک واضح مثال ہے ،کہ جس حدیث کے رواۃ کی ثقاہت خود شیعہ اہل علم کی زبانی ثابت ہوچکی ہو ،ان کی حدیث باوجود ثقہ ہونے کے ایسے رواۃ سے کم درجہ کی ہے ،جو امامی ہوں ،لیکن ان کی ثقاہت و عدالت کے بارے میں شیعہ تراث خاموش ہو،گویا اہل تشیع کے ہاں ایک مجہول الحال امامی ایک ثابت شدہ ثقہ(جس کی توثیق خود شیعہ اہل علم کر چکے ہوں ) غیرامامی سے روایت ِحدیث میں اعلی شمار ہوگا ۔یا للاسف
6۔مقبول حدیث کی اقسام کا تقابل کرتے ہوئے ایک اہم چیز یہ نظر آتی ہے کہ اہل سنت محدثین کے ہاں حدیث کی صحت میں ضبط یعنی حدیث کو زبانی یا تحریری یاد رکھنا خصوصی اہمیت کا حامل ہے ،چنانچہ اسی ضبط کی بنیاد پر اہل سنت کے ہاں مقبول حدیث صحیح و حسن میں بٹ جاتی ہے کہ حسن کے رواۃ ضبط میں صحیح سے ناقص ہوتے ہیں ، چونکہ ضبط کی بنیاد پر حدیث صحیح یا حسن قرار پاتی ہے ،اس لیے محدثین ِ اہل سنت نے ضبط تام اور ضبط ناقص کے معیارات مقرر کئے ہیں ،اسی طرح اہل سنت محدثین نے سییء الحفظ یعنی حافظے کے اعتبار سے کمزور رواۃ یا وہ رواۃ جن کا حافظہ کسی وجہ سے بگڑ چکا ہو، اس پر اختلاط کے عنوان سے مفصل بحث کی ہے ،الرواۃ المختلطون پر مستقل کتب لکھی گئیں ہیں اور ایسے رواۃ کے بارے میں اس بات کی تعیین کی کوشش کی گئی ہے کہ کس راوی کا حافظہ کب ،کہاں اور کس بنیاد پر کمزور پڑ گیا ؟اور اس کی کون کون سی احادیث اس زمانے کی ہیں ،7 جبکہ اس کے برخلاف جب ہم اس حوالے سے اہل تشیع کا علم الدرایہ دیکھتے ہیں ،تو ضبط کے بارے میں اہل تشیع محدثین کے ہاں وہ حساسیت اور وہ تفصیل نظر نہیں آتی ،جو اہل سنت کے ہاں موجود ہیں ،چنانچہ علم الدرایہ کی اولین کتب جیسے زین الدین عاملی کی البدایہ اور اس کی شروحات میں مقبول حدیث کی شرائط میں ضبط کا ذکر ہی مفقود ہے ،چنانچہ زین الدین عاملی البدایہ میں صحیح حدیث کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"الصحیح وھو ما اتصل سندہ الی المعصوم بنقل العدل الامامی عن مثلہ فی جمیع الطبقات و ان اعتراہ شذوذ"8
یعنی صحیح حدیث وہ ہے ،جس کی سند معصوم تک متصل ہو اور اس کے جملہ طبقات کے راوی عادل امامی ہوں خواہ اس حدیث میں شذوذ ہو ۔
بعد کے علمائے شیعہ میں ضبط کے حوالے سے بحث پیدا ہوگئی ،کہ زین الدین عاملی نے ضبط کو بیان کیوں نہیں کیا؟چنانچہ بعض محدثین کے ہاں ضبط کی شرط عدالت میں داخل ہے ،جبکہ بعض کے نزدیک ضبط کو عدالت میں داخل کرنا درست نہیں ،اسے الگ بیان کرنا چاہیئے،اس کی تفصیل علامہ مامقانی نے اپنی مفصل کتاب "مقباس الہدایہ فی علم الدرایہ"9 میں دی ہے ۔
7۔ حدیث کی صحت و حسن میں چونکہ ضبط بنیادی ترین عامل ہے ،اس لیے علمائے اہل سنت کے ہاں راوی کے ضبط کے بارے میں باقاعدہ کلمات مقرر کئے گئے ہیں ،ہم ذیل میں وہ الفاظ دیتے ہیں ،جو نفیا یا اثباتا راوی کے ضبط کے کامل ،ناقص یا فقدان پر دلالت کرتے ہیں :
متقن،اضبط الناس،ضابط،کانہ مصحف ،سیء الحفظ ،یھم،لہ اوہام ،تغیر باخرہ ،لین الحدیث ،فیہ لین ،ردیء الحفظ ،لم یکن ممن یحفظ الحدیث ،مضطرب الحدیث ،یخالف فی حدیثہ ،کثیر الخطا،ربما یخالف،لیس من اہل الحفظ
یہ سب الفاظ ضبط کےمختلف مراتب کو ظاہر کرتے ہیں ،ان الفاظ کا مرتبہ معلوم کرنے کے لیے معروف محقق عبد الماجد غوری کی کتاب "معجم الفاظ الجرح و التعدیل" اور دیگر کتب ِجرح و تعدیل کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ۔
اس کے برعکس جب شیعہ علم الدرایہ کو دیکھتے ہیں ،تو وہاں ضبط بتانے کے لیے یا اس کا کوئی درجہ بتانے کے لیے کوئی لفظ ہی موجود نہیں ہے ،چنانچہ علامہ مامقانی اس حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
"لایقال لو کان الضبط شرطا للزم اہل الرجال الاعتناء بہ و تحقیقہ والتصریح بہ کما فی العدالۃ"10
یعنی یہ سوال نہ اٹھایا جائے کہ اگر راوی کا ضبط بھی صحت حدیث کے لیے ایک لازمی شرط ہوتا ،تو علمائے رجال اس کے ساتھ ضرور اعتنا کرتے ،اور اس کی تحقیق و التصریح کرتے جیسا کہ عدالت کی صراحت کرتے ہیں ۔
علامہ مامقانی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہی سوال علامہ بہائی کو بھی پیدا ہوا کہ علمائے رجال نے راوی کے ضبط کے بارے میں کوئی صراحت نہیں کی ،تو ہم راوی کا ضبط کیسے معلوم کریں گے ؟پھر علامہ بہائی کا جواب نقل کیا ہے کہ علمائے رجال جب کسی کے بارے میں ثقۃ کے الفاظ کہتے ہیں ،تو دراصل وہ "عدل ضابط" کے الفاظ کہہ رہے ہوتے ہیں،اس لیے ثقۃ کے لفظ میں ضبط کاذکر بھی آگیا۔11
علامہ مامقانی کی یہ تاویل قبول بھی کر لی جائے ،تب بھی لفظ ثقہ صرف نفسِ ضبط بتائے گا ،ضبط میں اعلی و ادنی درجات ،ضبط میں کمی ،آخر عمر میں اختلاط ،روایت ِحدیث میں اوہام کی قلت یا کثرت جیسے امور پھر بھی تشنہ طلب رہیں گے ۔ اہل سنت کے ہاں چونکہ ضبط کے بارے میں مستقل کلمات ہیں ،اس لیے اہل سنت کو ثقہ کے مفہوم میں ضبط کو شامل کرنے کی ضرورت نہیں رہی ،اس لیے جمہور محدثین ثقہ کے لفظ کو صرف عدالت کے اثبات کے لیے استعمال کرتے ہیں ،اس میں ضبط کو شامل نہیں کرتے ،چنانچہ محقق عبد الماجد غوری علامہ سخاوی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"ان تفسیر الثقۃ بمن فیہ وصف زائد علی العدالۃ وھو الضبط انما ھو اصطلاح لبعضھم"12
یعنی ثقہ کے لفظ میں عدالت کے ساتھ ضبط کو بھی شامل کرنا بعض محدثین کی اصطلاح ہے ۔
8۔اہل تشیع محدثین نے صحیح حدیث کو تین اقسام اعلی ،اوسط اور ادنی میں تقسیم کیا ہے ،ان میں صحیح ِادنی کی تعریف یوں کی گئی ہے:
"الصحیح الادنی بان تثبت عدالۃ السند بظنون اجتہادیۃ لا عن شہادۃ حسیۃ ،والمراد من الظنون الاحتمال الراجح الذی یحصل من امثال استصحاب العدالۃ او اصالۃ عدم الفسق فی کل امامی او ایۃ جھۃ اخری اوجبت الظن بعدالۃ الرجل و وثاقتہ ،و یطلق علیھا الظنون الرجالیہ"13
یعنی صحیح ادنی سے مراد یہ ہے کہ رواۃِ سند کی عدالت حسی شہادت کی بجائے اجتہادی گمان سے ثابت ہو ،اور ان ظنون سے مراد یہ ہے کہ ہر امامی میں عدالت و عدم فسق کو اصل مانا جائے ،یا کوئی اور ایسی وجہ ،جس کی وجہ سے راوی کی عدالت و وثاقت ثابت ہوجائے ،اور اس ظنی عدالت کی وجہ سے صحت کے احتمال کو ترجیح دی جائے ،ان جیسے ظنون کو ظنون رجالیہ کہتے ہیں۔
اسی سے ملتی جلتی تعریف شیخ جعفر سبحانی نے اپنی کتاب "اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ " میں کی ہے،14 اس تعریف سے جہاں حدیث کی صحت میں اہل تشیع کا انتہا درجے کا تساہل ثابت ہوتا ہے کہ محض کسی شخص کے بارےمیں ظاہری فسق نہ ہونے کی وجہ سے اسے روایت کے باب میں باقاعدہ عادل و ثقہ فرض کر کے اس کی روایت صحیح یعنی روایت ِ مقبول کی پہلی قسم قرار دی گئی ہے ، وہیں مسلکی تعصب بھی عیاں ہوتا ہے کہ ہر امامی کو غیر فاسق اور عادل مانا گیا ہے ،جب تک اس کے بارے میں ظاہری فسق کی کوئی شہادت نہ ہو ،اہل تشیع محققین عموما صحابہ کے بارے میں اہل سنت کے اصول "الصحابۃ کلھم عدول" کو غیر معقول قرار دیتے آئے ہیں کہ یوں بلا تحقیق سب صحابہ کو محض صحابہ ہونے کی بنیاد پر عادل قرار دینا ایک غیر عقلی اور عقیدت پر مبنی اصول ہے ،لیکن خود یہی اصول تمام امامی شیعوں کے بارے میں ا پنا رہے ہیں کہ کسی شخص کی عدالت و وثاقت محض اس کے امامی ہونے کی وجہ سے ثابت ہوگی ،جب تک اس کا فسق ظاہر نہ ہوا ہو ،حالانکہ صحابہ کرام کے بارے میں قرآن پاک کی نص صریح "رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ" ثابت ہے ،تو نص صریح اور بنص قرآن صحابہ کا ایمان ثابت ہونے کے باوجود انہیں عادل سمجھنا اہل تشیع کے ہاں غیر عقلی ہے ،لیکن محض کسی کے امامی ہونے کی وجہ سے اسے عادل سمجھنا اہل تشیع کے اصول ِحدیث کا ایک اصولی قاعدہ ہے ،یا للعجب و یا للاسف
حواشی
1. ہدایۃ الابرار ،حسین بن شہاب الکرکی ،ص104
2. معجم رجال الحدیث ،خوئی ،ج8،ص385
3. مقدمہ تحقیق البدایہ فی علم الدرایہ ،ص19 ،بحوالہ الجرح و التعدیل عند الشیعۃ ،عرض و نقد،سعد راشد عوض ،ص68
4. البدایہ فی علم الدرایہ ،زین الدین عاملی ،قم المقدسہ ،ص24
5. دروس فی علم الدرایہ ،سید رضا مودب،مرکز دراسات المصطفی الدولی ،قم،ص57
6. دیکھیے :نزھۃ النظر،بحث الجہالۃ و اسبابہا
7. دیکھیے:المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث ،عبد الماجد غوری ،ص
8. البدایہ فی علم الدرایہ ،زین الدین عاملی ،قم المقدسہ ،ص23
9. دیکھیے:مقباس الہدایہ فی علم الدرایہ ،عبد اللہ مامقانی ،منشورات دلیل ما ،قم ،ج1،ص 334
10. ایضا:مقباس الہدایہ ،ج1،ص337
11. ایضا:ج1،ص334
12. معجم الفاظ الجرح و التعدیل،سید عبد الماجد ٖغوری،دار ابن کثیر ،ص117
13. اضواء علی علم الدرایہ و الرجال ،سید ہاشم ہاشمی ،دار التفسیر ،قم،ص138
14. اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ ،جعفر سبحانی ،ص59
(جاری)