گزشتہ چند ہفتوں میں کورونا وائرس نے ایک بڑی اجتماعی انسانی ابتلا کی صورت اختیار کر لی اور ماہرین کے اندازوں کے مطابق دنیا کو آئندہ کئی ماہ تک اس صورت حال کا سامنا رہے گا۔ یہ ایک ناگہانی آفت ہے جس میں عبرت وموعظت کے پہلو پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ عملی تدابیر اختیار کرنے اور خدانخواستہ قابو سے باہر ہو جانے کے امکان کو سامنے رکھتے ہوئے انسانی رویوں اور جذبات کی ضروری تربیت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
تہذیبی زوال اور شناخت کے بحران کی صورت حال میں ہمارے ہاں ہر مسئلہ مختلف شناختیں رکھنے والے گروہوں کے ہاتھوں میں ایک دوسرے کو لتاڑنے کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں بھی اس رویے کے مظاہر سامنے آ رہے ہیں۔ مثلا ملحدین اس کو مذہب کی ضرورت وحقیقت کی نفی کرنے کا ایک سنہری موقع جانتے ہوئے اس آفت کو تنبیہ یا عذاب کے زاویے سے دیکھنے کا مذاق اڑا رہے ہیں، حالانکہ یہ موقع دلوں کو نرم کرنے اور ہمدردی وخیر خواہی کے جذبات کی آبیاری کا ہے۔ قدرت کی طاقتوں کے آگے انسان کی کم مائیگی تو عبرت کا ایسا پہلو ہے جس سے کوئی ٹھیٹھ ملحد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ مذہبی لوگوں کا ایسی صورت حال میں رجوع الی اللہ اور استغفار کی طرف متوجہ کرنا خیر خواہی کے جذبے سے ہی ہوتا ہے۔ اسے گناہوں کی پاداش یا آزمائش یا محض مادی سطح کا ایک واقعہ، جو بھی سمجھا جائے، انسانی ہمدردی کا پہلو کسی حال میں نظری بحث وجدال میں دب نہیں جانا چاہیے۔
بعض احادیث کے حوالے سے بھی یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ مذہب، بیماری کے متعدی ہونے کے تصور کو تسلیم نہیں کرتا ، حالانکہ اہل علم جانتے ہیں کہ مرض کے متعدی ہونے یا نہ ہونے کی بحث اسلامی روایت میں ایک مفروغ عنہ بحث ہے۔ محدثین، فقہاء اور متکلمین کا مجموعی موقف اس حوالے سے واضح ہے۔ صرف علم حدیث میں یہ سوال بعض روایات کی توجیہ کے تناظر میں زیربحث آتا ہے جن میں بظاہر متعدی ہونے کی نفی کی گئی ہے، اور شارحین نے واضح کیا ہے کہ ان کا سیاق اور مقصد بالکل مختلف ہے۔اشاعرہ کے ہاں تعلیل بالأسباب کی نفی بھی بعض مابعد الطبیعیاتی سوالات کے تناظر میں کی گئی ہے، نہ کہ عمل اور تدبیر کے دائرے میں۔
ایسی صورت حال کو اجتماعی ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبے اور قربانی اور تعاون کی اسپرٹ سے ہی ڈیل کیا جا سکتا ہے۔ تدابیر میں اجتہادی اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور غلطیاں بھی، جنھیں خیر خواہی سے ہی موضوع بنانا چاہیے۔ کرونا کی پیدا کردہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہییں اور کیا نہیں، اس پر مختلف آرا موجود ہیں اور یقینا سب فریق اپنی دانست میں بہتری ہی چاہتے ہیں۔ ذمہ داری کا بہت بڑا حصہ ریاستی نظام سے اور اتنا ہی بڑا حصہ، احتیاطی تدابیر کے پہلو سے خود عوام سے متعلق ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ دونوں اس ناگہانی آفت سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں ہر سطح پر غلطیاں، بلکہ سنگین غلطیاں ہونے کا امکان موجود ہے جسے تبصروں اور تنقیدوں میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ بہتری کے لیے مشورہ، تجویز اور تنقید تو ایک اخلاقی ذمہ داری ہے، لیکن یہ ذمہ داری حکومت اور عوام، دونوں کو غلطی کی گنجائش دیتے ہوئے ادا کرنی چاہیے۔ ہم ایک ترقی پذیر ملک کے عوام اور ریاست ہیں، اس لیے انتظامی ڈسپلن، طبی انتظامات اور ذمہ دارانہ رویے کی توقعات بھی اسی کے لحاظ سے قائم کرنی چاہییں۔ خلق خدا کو کسی نقصان سے بچانا اگر انسانی ہمدردی کے جذبے سے ہے تو خلق خدا کی استطاعت اور بساط کو مدنظر رکھنا بھی اسی ہمدردی کا تقاضا ہے۔ اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہماری گفتگو اور عوامی ذہن سازی کا رخ اس طرف ہونا چاہیے کہ صورت حال کے سنگین ہونے کی صورت میں ہم سب کو کس طرح کے عملی کردار کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
وبا کیا صورت اختیار کرے گی اور نتائج کیا نکلیں گے، یہ فی الحال اللہ ہی کے علم میں ہے۔ اللہ سے عاجزانہ دعا یہی ہے کہ شدید بحران کی صورت پیدا نہ ہو اور ہمارے نیم دلانہ اور ٹوٹے پھوٹے استغفار کو ہی پروردگار قبول فرما کر اس آزمائش سے چھٹکارا عطا فرما دے۔ آمین