جنسی ہراسانی، صنفی مساوات اور مذہبی اخلاقیات

محمد عمار خان ناصر

’’خواتین کو گڈ مارننگ کے مسیج بھیجنا ہراسمنٹ ہے”، یہ بات ہمارے کلچر میں درست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کسی خاتون سے بلا ضرورت بے تکلف ہونے کی خواہش کا آئینہ دار ہے جس میں مستور جنسی کشش کے پیغام کا خاتون محسوس کر لیتی ہے اور یوں یہ ایک ابتدائی نوعیت کی ’’ہراسمنٹ ” بن جاتی ہے۔ ظاہر ہے، اس میں تعلق کی نوعیت اور دیگر فوارق کے شامل ہونے سے صورت حال مختلف بھی ہو سکتی ہے، لیکن اپنے اصل سیاق وسباق میں یہ شکایت درست ہے۔

البتہ یہ بات جو ہمارے ہاں صرف حقوق نسواں کے پہلو سے کہی جا رہی ہے، مذہبی اخلاقیات میں وہی بات حیا اور طہارت نفس کے پہلو سے کہی جاتی ہے اور خواتین کسی طرز عمل کو ’’ہراسمنٹ ” نہ بھی سمجھیں، لیکن اخلاقی طہارت کے پہلو سے وہ قابل اعتراض ہو تو دینی اخلاقیات اس سے بھی منع کرتی ہے۔ فقہاء اسی پہلو سے سلام کرنے میں نوجوان اور عمر رسیدہ خاتون کا فرق واضح کرتے ہیں۔ جان پہچان اور کسی ضرورت کے بغیر نوجوان خاتون کو سلام کرنا اظہار بے تکلفی کی ایک صورت ہو سکتی ہے جو پسندیدہ نہیں۔ دینی اخلاقیات میں دوسری بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ خواتین بھی اپنے طرز عمل میں ایسا رویہ اختیار کریں کہ اس سے ’’بے تکلفی” کی خواہش رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ ان کا لب ولہجہ ایسا نرم نہیں ہونا چاہیے کہ دل میں کوئی بری خواہش بیدار ہو، اور لباس اور زیب وزینت میں modesty اپنانی چاہیے تاکہ ان کا ظاہری سراپا ’’ہراسمنٹ ” کی دعوت نہ دیتا ہو۔ اسی نکتے کے پیش نظر مذہبی اخلاقیات میں، مثال کے طور پر، اجتماعی عبادت وغیرہ میں خواتین کو کردار نہیں دیا گیا، بلکہ اسے مردوں کے لیے خاص رکھا گیا ہے۔ اس کی حکمت حیا اور عبادت کے تقدس کے پہلو سے تو ہے ہی، غور کیا جائے تو ’’ہراسمنٹ ” کے اصول پر بھی اس کی معنویت پوری طرح سمجھی جا سکتی ہے۔ فرض کریں، ایک خاتون نماز کی امامت یا جمعے کے خطبے کے لیے مردوں کے آگے کھڑی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ عبادت کے جذبے کے ساتھ جنسی کشش کے احساسات اس میں شامل نہ ہوں؟ اور اگر گڈ مارننگ کے پیغام سے ایک خاتون ہراسمنٹ محسوس کرتی ہے تو پیچھے صف میں کھڑے نمازیوں یا سامنے بیٹھے ہوئے سامعین خطبہ کی نگاہوں سے اسے یہ پیغام نہیں ملے گا؟

’’ہراسمنٹ ” کی بحث سے یہ سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ انسانی معاشرے میں عموما خواتین کیوں less empowered رہی ہیں۔ مرد وزن کی مطلق مساوات کے علم بردار مفکرین حیران ہیں کہ (ان کی تعبیر کے مطابق) حیاتیاتی اعتبار سے یا ذہنی وجسمانی صلاحیتوں کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہ ہونے کے باوجود ایسا کیونکر ہوا کہ سماجی آزادیوں اور اختیارات کے پہلو سے عمومی طور پر انسانی معاشروں میں مردوں کو ترجیحی پوزیشن حاصل ہو گئی اور خواتین کو کئی حوالوں سے برابر کا مقام نہ مل سکا۔ یہ حضرات اس سامنے کی حقیقت کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں کہ عورت حیاتیاتی اعتبار سے مرد کے لیے جنسی کشش کا مرکز اور اس کی جبلی جنسی جارحیت کا ہدف ہے۔ جس طرح مرد کے لاکھوں سپرم نسوانی بیضے کو بارآور کرنے کے لیے باہم حریف ہوتے ہیں، اسی طرح جنسی کشش ثقل کے قانون کے تحت، جو ہرگز کوئی سماجی تشکیل  نہیں بلکہ ایک حیاتیاتی جبر ہے، معاشرتی تعامل میں بھی مرد کا رویہ جنسی جارحیت کا مظہر ہوتا ہے، وہ جبلی طور پر خواتین تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں اور خواتین کو اس کے مقابلے میں ’’حفاظت ” کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

روایتی انسانی معاشروں اور مذہبی اخلاقیات میں اسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے اختلاط مرد وزن پر مختلف قدغنیں عائد کی گئیں جن کا ایک نتیجہ سماجی ذمہ داریوں میں ناگزیر امتیاز کی صورت میں نکلا، اگرچہ انسانی مزاجوں میں عدم توازن کی عمومی خصوصیت کے تحت اس امتیاز نے بہت ناروا شکلیں بھی اختیار کرلیں۔ دور جدید میں انسانی سماج کے ارتقا اور اس کی تشکیل وتنظیم کے اصولوں میں بہت سی تبدیلیوں کی وجہ سے مردوں اور عورتوں کے سماجی حقوق واختیارات میں پائے جانے والی خلیج کو کم کرنے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں جن سے یقینا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے، لیکن اس کی بنیاد ضروری اور فطری امتیازات کی نفی اور مطلق مساوات کے فلسفے کو بنانا غیر فطری بھی ہے  اور اس نے خواتین کی نفسیات اور پورے سماجی وسیاسی نظام  کو بھی  ناقابل تحمل  دبا و  کا شکار بنا دیا ہے۔  فیمنزم کے فلسفے نے  اپنی انتہائی صورت میں ایک  ایسی شکل اختیار کر لی ہے  جس میں  شکایت، نفرت اور احتجاج کا  روئے سخن  انسانی فکر اور معاشرتی نظاموں سے بھی آگے بڑھ کر  خود فطرت  کی طرف ہو چکا ہے۔  نسوانی آزادی کے اس nihilistic تصور  میں مرد اور عورت کے رشتے میں کوئی مثبت  پہلو باقی ہی نہیں رہا، وہ صرف  جبر، استحصال اور  subjugation کا استعارہ بن گیا ہے، کیونکہ  معاشرتی نظاموں میں مساوات کو جتنی بھی اہمیت دے دی جائے،   مرد اور عورت کے جنسی رشتے میں  ، جو  دونوں صنفوں میں  خود شناسی کا بہت بنیادی حوالہ ہے،  یہ مساوات پیدا کرنا ممکن ہی نہیں۔  اس احساس کےزیر اثر پہلے صرف  سماج میں عدم مساوات مسئلہ تھی، پھر خاندان کا ادارہ اسی فتوے کی زد میں آیا اور اب   ٹیکنالوجی کی مدد سے  صنفین میں جنسی تعلق سے بھی خلاصی حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے    اور مصنوعی مشینی سیکس پارٹنرز  تیار کیے جا رہے ہیں تاکہ  خواتین کو جنسی عمل میں   مردوں کی طرف سے dominance کی اذیت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

یہ صورت حال ہمیں متوجہ کرتی ہے کہ ہم انسانی معاشرے کی بہتری کے لیے  تاریخی جدلیات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فلسفوں اور افکار  سے محتاط استفادے کے ساتھ ساتھ اللہ کے پیغمبروں کے طریق اصلاح کو  اپنا بنیادی راہ نما بنائیں۔  اللہ کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب معاشرے کے تین پسے ہوئے اور مظلوم طبقوں  یعنی غلام لونڈیوں، عورتوں اور یتامی ومساکین کو اٹھایا اور انھیں ان کے حقوق دلوائے، لیکن اس طرح نہیں کہ غلاموں کو آقاوں کے خلاف، عورتوں کو مردوں کے خلاف اور فقرا کو اصحاب ثروت کے خلاف بھڑکا کر ایک دوسرے کا مد مقابل بنا دیا ہو۔ یہ طریقہ کوتاہ نظر طبقاتی لیڈروں کا ہوتا ہے جن کے جوش وخروش میں ذاتی محرومیوں کا غصہ شامل ہوتا ہے۔  اللہ کا نبی کسی ایک طبقے کا نہیں، پوری انسانیت کا نبی ہوتا ہے۔ اسے آقا کی فلاح سے بھی اتنی ہی غرض ہے جتنی غلام کی، مردوں کی کامیابی بھی اتنی ہی عزیز ہے جتنی عورتوں کی اور مال داروں کا حسن انجام بھی اتنا ہی محبوب ہے جتنا فقراء ومساکین کا۔ کیونکہ نبی اس پروردگار کا انتخاب ہوتا ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے اور اپنی ساری مخلوق کو اپنے دامن رحمت میں جگہ دینا چاہتا ہے۔  

دین اور معاشرہ

(مئی ۲۰۱۹ء)

تلاش

Flag Counter