پرامن اور متوازن معاشرے کے قیام میں علماء کا کردار

ادارہ

(۲۲، ۲۳ جون ۲۰۱۱ء کو پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز اسلام آباد کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں اہل علم ودانش کی گفتگو کے منتخب اقتباسات۔)


مولانا محمد خان شیرانی

(چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان )

آج حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ جب دنیا عقل اور دلیل کی بات کرتی ہے، وہاں پر ہم جو ان اداروں کے تعلیم یافتہ ہیں، فتویٰ کی بات کرتے ہیں، حالانکہ فتویٰ اور دلیل میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ .... تمام علماء کرام کو معلوم ہے کہ نبوت کا راستہ بند ہو چکا ہے۔ اب کوئی انسان معصوم نہیں کہلا سکتا کہ اس کی کسی بھی رائے میں کوئی جھول نہ ہو۔ اور نبی ہی وہ شخصیت ہوتی ہے جو معصوم اور واجب الاطاعت ہے۔ آج کے زمانے میں اگرکوئی بہت بڑا عالم ہو گا تو وہ مجتہد بنے گا اور مجتہد مصیب بھی ہوسکتا ہے اور مخطی بھی اور وہ واجب الاطاعت نہیں ہے۔ ہر مجتہد کا اپنے اجتہاد پر عمل کرنا واجب ہے، لیکن اجتہاد کو تحمیل کرنا اس کا حق نہیں۔ اس حوالے سے قانونِ فقہ میں دو اصول بیان کیے گئے ہیں۔ وہ یہ کہ اگر کوئی عمل سر زد ہو جائے اور اس عمل کے لیے قرآن و سنت میں نصِ صریح موجود نہ ہو تو پھر اس حکم کی تلاش کے لیے جو عمل کیا جاتاہے، اس کو اجتہاد کہتے ہیں۔ ...... ایک اجتہاد کسی دوسرے اجتہادکا راستہ نہیں روک سکتا ۔یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اس حکم کی تلاش میں ہوں، آپ سب آرام کرو اور نہ کوئی مجتہد اپنے اجتہاد کو دوسروں پر تحمیل کر سکتا ہے۔ دلیل کی بنیاد پر اگر کوئی اس کا قائل ہو گا تو ساتھ دے گا، قائل نہیں ہو گا توساتھ نہیں دے گا۔ ...... لہٰذانہ کوئی مجتہد اپنے اجتہاد کو تحمیل کر سکتا ہے اور نہ کوئی متحری اپنے تجربہ کوتحمیل کر سکتا ہے۔ جب یہ پتہ ہو تو پھر اجتہاد عمل کے لیے ہوگا اوراگر علم کو عمل کے لیے حاصل کیا جائے تو عمل کے میدان میں جھگڑا نہیں ہے۔ جھگڑا تحمیل میں آتا ہے ،جب ہر عالم اپنے علم کو دوسروں پر مسلط کرنا چاہے جوکہ علم اور نہ ہی مذہب کا تقاضا ہے۔ 

ڈاکٹر خالد ظہیر 

(ڈین فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز، یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب، لاہور)

ہمارا عقیدہ ہے کہ اس دنیا کو نہ امریکہ، نہ اسرائیل اور نہ بھارت چلا رہا ہے بلکہ اس کو اللہ تعالیٰ کی ذات چلا رہی ہے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ اغیار ہمارے خلاف سازش کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں، لیکن اس سے زیادہ درست بات یہ ہے کہ ہم اپنی تباہی و بربادی کے خود ذمہ دار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کاخالق و مالک ہے۔ وہ کسی امریکہ یا کسی اسرائیل کو قطعاً یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ اس کائنات کی تباہی و بربادی کی خواہش کریں۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ ایک جانب اس کے ماننے والے پر خلوص طریقے سے اس کے دین کو اختیار کیے ہوئے ہوں اور دوسری جانب کچھ مخالفین سازشیں کریں اور پھر وہ ان سازشوں میں کامیاب بھی ہو جائیں۔آپ سب جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک کے نزول سے پہلے امت مسلمہ بنی اسرائیل تھی اور وہ اللہ کی کتاب اوراس کے پیغام کے حامل تھے۔ ان کی اخلاقی و دینی گمراہی کے حوالے سے اللہ تبارک تعالیٰ سورۃ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے: ’’ ہم نے تم پر مسلط کیے اپنے بندے، انہوں نے تمہارے گھر تہس نہس کر دیے،تمہارے شہروں کو برباد کر دیا۔‘‘ اس وجہ سے میں یہ گزارش کروں گا کہ میں سب سے زیادہ فکر مند اس بات پر ہوں کہ ہم میں وہ کیاخرابیاں اور کیاکمزوریاں درآئی ہیں کہ ہمارا رب ہم سے ناراض ہے اور ہم اس کی تائید اور نصرت سے محروم ہو گئے ہیں اور اغیار کی سازشوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ ......

پرامن اور متوازن معاشرے کے قیام کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم جمعہ کے خطبے، امامت اور مسجد کے بارے میں اس سنت کو زندہ کریں کہ ان کا انتظام مسلمان حکومت کی ذمہ داری ہو۔ جمعہ کا خطبہ حکمران دیں اور وہی امامت کروائیں اور ممکن ہو تو بقیہ نمازوں کی بھی امامت کروائیں۔ حکمران جہاں مناسب چاہیں، اپنی نیابت میں علما کو اس ذمہ داری کے لیے منتخب کر سکتے ہیں۔ اللہ کے دین کے اس خوبصورت طریقے کے اجرا کے نتیجے میں ایک جانب حکمرانوں کا دین اور مسجد سے تعلق قائم ہوگا اور عوام الناس کے سامنے مستقل جوابدہی کی خوبی پیدا ہو گی تو دوسری جانب جمعہ کے خطبات اور مسجدیں فرقہ وارانہ جھگڑوں کا پلیٹ فارم بننے سے آزاد ہو جائیں گی اور دھیرے دھیرے معاشرے سے غیر متوازن سوچ ختم ہو جائے گی۔ اس تبدیلی کا بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ حکومت کے فیصلے کے نتیجے میں علما کی مسجد میں تعیناتی ان کو مسجد کمیٹی کے اثرو رسوخ سے آزاد کروا کے حکومت کا ملازم بنادے گی اور وہ حکومت کے ملازمین کی مراعات کے حقدار بھی بن جائیں گے۔ مسجدوں میں علما کو یہ موقع ملے گا کہ وہ حکومت کی مرضی کے مطابق نماز کے اوقات کا تعین کریں اور عوام الناس کو دین کی تعلیم دیں۔مساجد کے معاملے میں اس اسلامی طریقے سے متوازن سوچ خود بخود پروان چڑھے گی۔ مسجدیں کبھی فرقہ واریت کے لیے استعمال نہیں ہوں گی اور نہ ہی کوئی گروہ عام آدمی کو دین کے نام پر تشدد اوربدامنی کی طرف ابھار سکے گا ۔علما کو اس تبدیلی کے برپا کرنے میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے، کیونکہ ان کی زبان سے دین کا یہ اہم تقاضا مطالبہ کی صورت میں سامنے آئے گا تو اس کے پورے ہونے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔.....

میں نے جب اپنا یہ نقطہ نظر کسی اور پلیٹ فارم پر پیش کیا تو مجھے ایک صاحب نے ایک سوال کیا کہ جب آپ حکمرانوں کو خطبہ اور امامت کا حق دیتے ہیں اور اگر حکمران کوئی خاتون ہو توپھر کیا ہو گا؟ میں نے کہا، اگر ہمارے ہاں یہ قانون بن جائے اور اس کے بعد مسلمان جانتے بھی ہوں کہ مسلمانوں کا حکمران امامت بھی کرتا ہے اور خطبہ بھی دیتا ہے تو پھر وہ مسلمان ایک عورت کو حکمران کیونکر بنائیں گے! پہلے مسلمانوں کی تربیت کی جائے کہ وہ اپنے دین کو سمجھیں اور اس کی غیرت اپنے اندر پیدا کریں۔ اگر آپ اور میں اصولی طور پر متفق ہوں کہ ایک آئیڈیل اسلامی معاشرے میں ایسا ہی ہونا چاہیے تو ہم اپنے اس دینی فہم کو بغیر کسی رکاوٹ کے بیان کریں۔ ہاں آپ کا اور میرا نفاذ میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں حکمرانوں میں بھی بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔اگرآپ محسوس کرتے ہیں کہ اس سے بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے تو اس پرالگ بحث ہو سکتی ہے، لیکن ہم دین کے اصول کو اصول کے طور پر بیان کریں اور لوگوں کو یہ بتائیں کہ اس طرح ہم آئیڈیل کی طرف جائیں گے تو پھر اس کے نفاذ پر گفتگو ہوگی۔....

مولانا قاری محمد حنیف جالندھری 

(جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان)

علاقا،ئی ملکی اور گھر کے معاملات میں جب تک ہماری پالیسیاں دوغلی ہوں گی تو ہم ایک متوازن اور مثالی معاشرہ قائم نہیں کر سکتے۔ اگر میں اپنے مسائل کو اپنے مسلک کی نگاہ سے دیکھوں گا تو میں کبھی اپنے مسائل حل نہیں کر سکوں گا۔ میرے مسلک کا کوئی بندہ خواہ وہ کوئی غلط بات کرے، میں اس کی تاویل کروں اور دوسرے مسلک کا کوئی بندہ صحیح بات بھی کرے تو میں تردید کردوں، جب تک ہمارے تاویل و تردید کے پیمانے حقائق کی بنیاد پر نہیں ہوں گے اورہم مسلک کی بنیاد سے بالاتر نہیں ہوں گے تو اس وقت تک ہم اپنی ذمہ داریوں سے انصاف نہیں کر سکتے۔ ہم جب تک اپنے آپ کو فریق کی نظر سے دیکھیں گے تو ہم اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے۔ جس دن ہم عملی طور پر ایک دوسرے کے رفیق بننے کا فیصلہ کرلیں گے تو اس وقت ہم پرامن اور متوازن معاشرہ قائم کرلیں گے۔......

ہم سب علماء بارہابیع فاسد پڑھتے پڑھاتے ہیں ۔ خریدوفروخت کے کتنے ہی معاملات ہیں جن کو شریعت ناجائز قرار دیتی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہوتی ہے کہ کوئی ایسی شرط لگا دی جائے جس سے کل عاقدین میں جھگڑا ہو سکتا ہے۔ تو اسلام کہتا ہے ایسی خریدوفروخت اور لین دین بھی نہ کرو جو تمہارے درمیان نزاع کا سبب بن جائے۔ ..... مثال کے طور پر ایک فریق کہتا ہے کہ یہ چیز تم مجھے اب دے دو ،میں پیسے تمہیں بعد میں دوں گا اور یہ نہیں بتاتا کہ کس دن دے گا تو یہ جہالت جو ادائیگی ثمن کی ہے، کل کو جھگڑے کا سبب بن سکتی ہے۔ بعدازاں وہ کہے گا کہ پھر دے دینے سے میری مراد کل یا پرسوں دے دیناوغیرہ تھی، جبکہ دوسرا فریق کہتا ہے کہ میری مراد تو ایک سال تھی۔ میں نے تو سوچا تھا کہ جب میری گندم آئے گی،تب دوں گا تو اسلام ایسی شرط جو فریقین کے درمیان جھگڑے کا سبب بنے، اس ذریعے کو بھی بند کر دیتا ہے۔ اس طرح اسلام میں حقوق وفرائض کا جو تصور ہے، وہ یہ ہے کہ حقوق دینے کا خیال کرو، حقوق لینے کا خیال نہ کرو۔ جبکہ آج کی دنیا کے فکر اور فلسفے کہتے ہیں کہ دوسروں کے حقوق پورے کرو نہ کرو، اپنے حقوق کے لیے میدان میں آ جاؤ۔ علما کے منبرومحراب کی ذمہ داری سب سے بڑی ہے اور پھر جب ہم علماء انبیاء کے وارث ہیں تو انبیاء تو انسان کو اللہ سے اور انسان کو انسان سے ملانے کے لیے آتے ہیں اور وہ ایسا انسانی رشتوں کی بنیاد پر کرتے ہیں تو علما کی ذمہ داری بھی انسان کو اللہ سے اور انسان کو انسان سے ملانے کی ہے،توڑنے کی نہیں بلکہ جوڑنے کی ہے۔ 

ڈاکٹر قبلہ ایاز 

(ڈائریکٹر شیخ زاید اسلامک سنٹر، پشاور)

اس وقت دنیا میں دو لابیاں فعال ہیں، ایک پیس لابی اور دوسری وارلابی ۔ وار لابی افغانستان میں بھی ہے اور خیبرپختونخوا و قبائلی علاقوں میں بھی ہے، پاکستان میں بھی ہے اور امریکہ اور یورپ میں بھی۔جبکہ اسی طرح پیس لابی بھی دنیا کے تمام خطوں میں موجود ہے ۔اب ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں وار لابی کا حصہ بننا ہے یا پیس لابی کا۔ وار لابی وہ ہے جو اس خطے میں جنگ جاری رکھنا چاہتی ہے اور پیس لابی وہ ہے جو اس مسئلے کا حل چاہتی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، اوباما پیس لابی کا جبکہ امریکی فوج وار لابی کا حصہ ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس جنگ کو جاری رکھا جائے۔ اوباما کی یہ خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح افغانستان سے نکلا جائے، چنانچہ پیس لابی وہاں بھی موجود ہے۔ ہمارے یہاں بھی وار لابی اور پیس لابی فعال ہے۔ جنگ کی بہت بڑی معیشت ہے جس کا حجم اربوں کھربوں روپے ہے جس سے امریکہ میں بھی لوگ کما رہے ہیں، جبکہ پاکستان اور افغانستان میں بھی معاشی فوائد حاصل کررہے ہیں۔جب تک وار لابی معاشی ثمرات حاصل کرتی رہے گی، وہ کبھی یہ نہیں چاہے گی کہ اس جنگ کا خاتمہ ہو۔ علمائے کرام اور ہمارا دینی طبقہ لاشعوری طور پر وار لابی کے اہداف کا شکار بن جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پیس لابی کا حصہ بن جائیں۔ علمائے کرام کے اندر اس قدر استطاعت ہے کہ اگر وہ پیس لابی کا حصہ بن جائیں تو افغانستان کی جنگ ختم ہو سکتی ہے۔

خطے کی موجودہ صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علمائے کرام کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے میدان میں آنا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ وہ طالبان کو سمجھائیں۔ خیبرپختونخوا میں کچھ ایسے علما ہیں جو طالبان کو سمجھا سکتے ہیں کہ موجودہ بین الاقوامی حالات کے تناظر میں افغانستان میں آپ نے قومی مفاہمت کی حکومت بنانی ہے اور اس میں وہ تمام لوگ شامل ہوں جن کا افغانستان کی سرزمین سے تعلق ہو۔ یہ چیز اسلام کے آئین کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔ یہ حقائق کی دنیا ہے، خواہشات کی دنیا نہیں کہ اب ایسا ممکن نہیں کہ افغانستان میں جو دیگر فریق ہیں، آپ انہیں افغانستان کی سیاست سے بے دخل کرکے حکومت بنائیں۔ کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اس کا حل مذاکرات کے ذریعے نہ ہو اور اگر مذاکرات کے ذریعے حل نہ ہوا تو میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ پورا خطہ امریکہ کے نکلنے کے بعد خانہ جنگی کی صورت اختیار کر جائے گا اور خون کا ایک بہت بڑا دریا اس خطے میں بہے گا، لیکن اگر مذاکراتی عمل کے نتیجے میں اس کا حل نکل آئے جس کی ایک صورت موجود ہے اور علمائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ وہ آگے آئیں اوراپنا کردار ادا کریں۔ اس وقت علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ مل کر بیٹھیں اور سوچیں کہ افغانستان کا بعد از امریکہ کیا حل ممکن ہوسکتا ہے۔ ......

خو اہشات کی دنیا مختلف ہے، لیکن حقا ئق مختلف ہیں ، مثلا جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم کا فیصلہ بھی مذاکرات پر ہی ہو ااور افغانستا ن کا مسئلہ بھی میز پر ہی حل ہونا ہے۔ اگر یہ طے نہیں ہو ا تو اس علا قے کے سیاسی طا لب علم کی حیثیت سے میں کہہ سکتا ہو ں کہ بہت بڑا نقصان ہو گا۔ ان حالات میں دو طرح کے گروہ فعال ہیں۔ ایک گروہ چا ہتا ہے کہ امریکہ کو اسی طر ح سے بھگا دیا جا ئے جیسا کہ روس کو بھگایا گیا تھا اور دوسرا گر وپ یہ کہتا ہے کہ مذاکراتی عمل کے ذریعے معاملات کو حل کیا جا ئے۔ اب ظا ہر ہے کہ مذ اکرات کے لیے کسی نہ کسی کو درمیان میں آ نا ہے اور ہم اقوام متحدہ سے لا کھ شکایت کر یں، لیکن جس طر ح میں نے گزارش کی کہ حقا ئق کی دنیا الگ ہے، کوئی بھی بڑے سے بڑا بین الاقوامی معاملہ طے کرنا ہو تو وہ اقوام متحدہ کے بغیر طے نہیں ہو سکتا۔ امر یکہ اس میں خفت اور سبکی محسوس کرے گا، لیکن اگر اقوا م متحدہ ایک نمائندہ منتخب کرے جس طر ح کسی زما نے میں روس کے مسئلے کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ کے نمائندے آتے رہے ہیں۔ میں نے تجو یز پیش کی تھی کہ اگر اس نمائندے کا تعلق تر کی یا ملا ئیشیا سے ہو تو وہ زیا دہ مفیدثابت ہو گا کیونکہ تر کی پر طا لبا ن کا بھی اعتما د ہے اور ترکی نیٹو کا حصہ بھی ہے، جبکہ اقوام متحدہ کو بھی تر کی پر بہت اعتما د ہے۔ اب خیبرپختونخوا اور فاٹا میں کچھ ایسے علما ہیں جو طا لبا ن کے ساتھ مذ اکر ات کر سکتے ہیں اور وہ طا لبا ن کو اس بات کے لیے آمادہ کر سکتے ہیں کہ وہ مذاکراتی عمل کے ذریعے اپنی مزاحمت کو جاری رکھیں، کیونکہ جب تک افغانستا ن میں تما م فریقوں کو نمائندگی نہیں دی جاتی اور قومی مفا ہمت کی حکو مت قائم نہیں ہوتی توعالمی سطح پر اس طر ح کی حکو مت کو قبو ل نہیں کیا جائے گا۔ ....

معا شرتی علو م میں آپ نے قرائن کو دیکھنا ہو تا ہے اور معاشرے کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے اوریہ دیکھنا ہوتا ہے کہ معاشرے کس طر ح چلتے ہیں۔ امریکی معاشرہ اور سماج کس طر ح چلتا ہے ، اس حوالے سے امر یکہ میں لا بنگ کا بڑ ا اہم کردار ہے۔ جس طرح ہم یہاں ایم پی اے یا ایم این اے کو رشوت دیتے ہیں، اسی طر ح کی رشوت ادھر بھی ہو تی ہے لیکن اس کو رشوت نہیں، لا بنگ کہا جا تا ہے۔ مثلا ہم جنس پرستوں کی لابی ہے۔ ہم جنس پر ستوں کی لابنگ ایک بڑا گروپ’ کا کس‘ کرتاہے۔ امریکہ میں ایک نظام قائم ہے۔ آپ یہ نہ کہیں کہ امریکہ کی فو ج پا کستان کی طر ح ہے۔ میں آپ کو بتاؤ ں کہ کسی حد تک ایسا ہی ہے اوروہاں پر فو ج کے اپنے مفاد ات ہیں جو کہ وار لابی کی ہم نوا ہے۔اس کی ایک مثال میں آپ کو دیتا ہوں کہ سکیورٹی گیٹس جو کبھی صدر اور وزیر اعظم کے لیے استعمال ہوتے تھے، اب ہر جگہ ان کو نصب کیا جاتا ہیں۔ ان سکیورٹی گیٹس کی فروخت سے حاصل ہونے والا منا فع وار لا بی کو جا تا ہے۔ وار لا بی یہ سکیورٹی گیٹس فروخت کرتی ہے۔

اسی طرح وار لا بی قبا ئل میں بھی کا م کر تی ہے۔ وہاں ہونے والی اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے پس پردہ وار لابی ملوث ہوتی ہے، جیسا کہ ہما ر ے ایک وائس چا نسلرکو اغوا کیا گیا اور انہیں دس کر وڑ تاوان ادا کرکے رہا کروایا گیا۔ وار لابی کی طرح جنگی معیشت (وار اکانومی) بھی ہے جو اپنا کا م کر تی ہے۔ افغا نستا ن میں واراکانومی ہے اور افیون کی کا شت کا معا وضہ حا مد کر زئی کا بھا ئی وصول کرتا ہے۔ اس کا فائدہ اسی میں ہے کہ جنگ جا ری رہے۔ دنیا میں ایک بہت بڑی وار لا بی کا م کر رہی ہے، بد قسمتی سے ہمیں اس کا ادراک نہیں ہے۔ اب ہمیں یہ فیصلہ کر نا ہے کہ ہمیں وار لا بی کا ساتھ دینا ہے یا پیس لا بی کا۔ اور پیس لا بی کا حصہ بننا بہت مشکل کا م ہے اور وار لابی کا حصہ بننا بہت آ سا ن ۔وار لابی کا حصہ بن کر آپ ہیر و بھی بن جا تے ہیں اور آپ کا بڑا استقبال بھی ہو تا ہے اورآ پ کو پھو ل بھی پہنا ئے جا تے ہیں ، لیکن پیس لا بی کا حصہ بننے سے بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ہما ری عورتیں بیو ہ بن رہی ہیں اور نوجوان شہید ہو رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں ضرورت ہے کہ ہم پیس لا بی کا حصہ بنیں۔

مولانا محمد یٰسین ظفر 

(ناظم اعلیٰ وفاق المدارس السلفیہ پاکستان)

دعوتِ دین کے لیے پرامن ماحول ہی سازگار ہوتا ہے۔ جس قدر امن ہوگا، اتنی ہی دعوت زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے گی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دعوت کا آغاز کیا تو کفار کا جیسا بھی رویہ رہا، مگر آپ نے امن کے لیے ہی اپنی جدوجہد جاری رکھی اور کبھی بدامنی پیدا نہیں ہونے دی۔ اللہ رب العزت نے قریش مکہ کو بھی اسی لئے مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس رب کے گھر کی عبادت کروجو بھوک سے تمہیں کھلاتا ہے اور خوف سے امن دلاتا ہے‘‘۔

خوف ایک ایسی کیفیت ہے کہ اس میں انسان کچھ بھی نہیں کرپاتا۔ گھبراہٹ اور خوف میں وہ کوئی بھی خطرناک قسم کا قدم اٹھا سکتا ہے، لہٰذا دعوت تبلیغ میں انبیا اور علما کے کردار کے لیے امن کا ہونا ضروری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعب ابی طالب میں جانا پسند فرمالیا تھا، لیکن مکہ کا ماحول خراب نہیں ہونے دیا ۔اسی طرح آپ نے اپنے اصحاب کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی، لیکن مکہ میں بدامنی پیدا نہیں ہونے دی، حتیٰ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔اس لیے کہ خیر کے تمام سرچشمے امن سے پھوٹتے ہیں۔ کوئی بھی زندگی ہو، وہ امن سے ہے اور امن ہے تو زندگی ہے۔ اگر امن ہے تو خوشحالی ہے اوردعوت و تبلیغ بھی ممکن ہے ۔سیرت نبوی اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو اس میں ہمیں متعدد ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلام کافروغ اور دعوت و تبلیغ حالتِ امن میں ہی ہوئی، نہ کہ جنگ و جدل اور فساد کے حالات میں ممکن ہوئی۔

میں دو مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جن میں سے ایک صلح حدیبیہ کا ایک اہم ترین واقعہ ہے جو ۶ ہجری میں ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے لے کر صلح حدیبیہ تک امن کے لیے بہت زیادہ تکالیف اٹھائیں۔ جنگ و جدل بھی ہو ا، لیکن اتنے لوگ مسلمان نہیں ہوئے اور پھر جب آپ نے صلح حدیبیہ میں کفار سے دس سال تک جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا تو مسلمانوں کو امن و سکون میسر آیا۔ پھر آپ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچائی۔ امن کے ماحول کے باعث لوگوں کو موقع ملا کہ وہ اسلام پر غور و فکر کر سکیں۔ انہوں نے اس دعوت پر لبیک کہا اور نتیجہ یہ ہوا کہ دو سال بعد جب مکہ والوں نے معاہدے کو ختم کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر مکہ تشریف لے گئے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثارصرف پندرہ سو تھے، لیکن دو سالوں بعد جب آپ دوبارہ مکہ تشریف لے گئے تو یہ تعداد دس ہزار تک پہنچ جاتی ہے، یعنی دو برسوں میں مسلمانوں کی تعداد میں جتنا اضافہ ہوا،وہ سترہ سالوں میں نہیں ہو سکا۔ 

امن کی کیفیت میں جو کام ہوتا ہے، وہ سکون و اطمینان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ دیکھتے ہیں کہ جب افریقہ کی فتح ہوئی تو ایک بربری قبیلہ جو مسلمانوں کی دعوت کو قبول نہیں کرتا تھا،بلکہ ہمیشہ برسرِ پیکار رہتا تو اس وقت مصر کے گورنر عبدالعزیز بن عبدالملک نے موسیٰ کو اس علاقے کا عامل اور لشکر کا امیر مقرر کر دیا۔ انہوں نے بڑی بصیرت کے ساتھ پہلے ان علاقوں میں امن قائم کیا اور پھر داعی اور مبلغین کو وہاں بھیجا جنہوں نے وہاں جاکر لوگوں کو اسلام کی دعوت سے روشناس کیا اور اسلام کی تہذیب سے آگاہ کیا ور امن کے چند مہینوں میں بہت سے لوگوں نے اس دعوت کو قبول کیا اور وہی بربری قبائل جو مسلمانوں کے مقابل تھے، اب ان کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ اسی طرح انڈونیشیا اور ملائشیا میں اسلام جنگ و جدل کے ذریعے نہیں پہنچا بلکہ وہاں تاجر اور علما پرامن ماحول میں گئے اور اسلام کی تعلیمات کو پیش کیااور یہ تمام لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے ۔میرا استدلال صرف اتنا ہے کہ امن کے ماحول میں جتناکام ہو سکتا ہے، وہ کسی اور حالت میں نہیں ہوسکتا ۔علما کا بنیادی کام دعوت و تبلیغ ہے، اس لیے ان کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امن کے ماحول کو سازگار بنائیں اور بدامنی کا خاتمہ کریں اور امن کو فروغ دے کر اپنی تبلیغ کو لوگوں تک پہنچائیں۔ 

ڈاکٹر أبوالحسن شاہ 

(دار العلوم غوثیہ محمدیہ، بھیرہ شریف)

پرامن معاشرے کے قیام کی راہ میں حائل وہ رکاوٹیں جو مذہبی نوعیت کی ہیں، ان کو دور کرنے کے لیے علمائے کرام پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔ مسلک کی تقسیم کی وجہ سے معاشرے میں بدامنی کی جو فضا پیدا ہوتی ہے، اس کے سدباب کے لیے ضروری ہے کہ علمائے کرام دوسرے مسالک کے وجود کو برداشت کرنے کے لیے وسعت ظرفی کا مظاہرہ کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر مسلک نے اپنے افکار و نظریات پر ہی قائم رہنا ہے، لیکن دوسرے مسلک کے ساتھ لاکھ اختلافات کے باوجود یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ان کاو جود ایک حقیقت ہے۔ اس حوالے سے بدامنی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب تقریر و تحریر میں بے اعتدالی قائم ہو جائے ۔ تکفیر اور قتل کے فتوؤں کی نوعیت بہت ہی سنگین ہے۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور دوسرے مکاتبِ فکر کے اکابرین کو برا بھلا کہنے سے بھی بدامنی جنم لیتی ہے۔ اس کے خاتمے لیے ضروری ہے کہ کوئی بھی مسلک اپنے سچا ہونے کی دلیل اس کو نہ سمجھے کہ دوسروں کا اس کے نقطۂ نظر سے متفق ہونا ضروری ہے ۔پہلی چیز تو یہ ہے کہ تحریرو تقریر میں اعتد ال اور احتیاط سے کام لیا جائے تاکہ پرامن معاشرے کا قیام ممکن ہوسکے ۔مسلک کی تقسیم کی وجہ سے بدامنی کی صورت قائم ہونے کا دوسرا سبب طریقۂ تدریس و تقریر ہے۔ ہر مسلک کا مدرس و خطیب اپنی تقریر و تحریر میں طلبہ کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کرتا ہے کہ و ہی سچا ہے،باقی سب جھوٹے ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ اس طرزِ عمل سے معاشرے میں نفرت جنم لیتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ اور سامعین کے ساتھ ساتھ علماء کرام اپنے ذہنی افق کو وسعت دیں۔ 

قرآن و سنت کے دلائل کو اپنے مسلک کے مطابق کرنے کی بجائے اپنے مسلک کو قرآن و سنت کے تابع اور طلبا و سامعین کواختلاف رائے برداشت کرنے کا خوگر بنایا جائے۔ سامعین سے میری مراد مساجد میں خطبا کی تقاریر سننے والے لوگ ہیں۔یہ خطبا اپنے سامعین کو بتائیں کہ اختلاف رائے ہر جگہ ممکن ہے ،لیکن جارحیت پر اتر آنا مستحسن نہیں۔ اسی طرح علمائے کرام مسلک کی تعلیم دینے کی بجائے دین اسلام کی تعلیم کو عام کریں۔ اگر ان باتوں پر اختلاف رائے کیا جائے جو کہ ضروریات دین میں سے ہیں ،جیسا کہ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم، عظمت صحابہؓ، احترام اہل بیت و صالحین، تو معاشرے سے بدامنی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ بزرگانِ دین کے بارے میں نازیبا کلمات کسی صورت میں برداشت نہیں ہوسکتے ، لہٰذاامن کے قیام کے لیے ان ہستیوں کا احترام ضروری ہے۔

مولانا عمار خان ناصر 

(ڈپٹی ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ کے دین کی دعوت و تبلیغ اور لوگوں کے اخلاق و کردار کو بہتربنانے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں امن کا قیام اور وہ عناصر جن کے درمیان روایتی پس منظر میں تصادم کی صورتیں موجود تھیں یا جہاں معاشرے میں تصادم اور خون ریزی کا خطرہ موجود تھا، تو یہ صورت حال بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ کا موضوع تھا۔ خاص طور پر مدینہ طیبہ میں اس کے تین اہم پہلو سامنے آتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خو داپنی ذاتِ گرامی کو اس حوالے سے بہترین نمونے کے طور پر پیش کیا کہ آپ کی ذاتِ گرامی سے ایسی کوئی بات صادر نہ ہو جس سے کسی کو تکلیف ہو، دکھ ہو یا اس سے ایسا اشتعال پیدا ہو جو معاشرے کا امن خراب کرنے کا سبب بنے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو کبھی دکھ یا تکلیف نہیں پہنچائی، نہ زبان سے اور نہ ہی ہاتھ سے۔ جن لوگوں نے حضور کو اذیت پہنچائی توآپ نے کسی سے انتقام نہیں لیا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ نے کبھی اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ جب مدینہ طیبہ میں آپ کو ایک ریاست کے حاکم کی حیثیت حاصل ہوئی تو آپ نے بہت سے مواقع پر جب منافقین یہود و نصاریٰ نے آپ کی ذات کو طعن و تشنیع اور توہین کا نشانہ بنایا، تو آپ نے اس طرح کے واقعات سے صرفِ نظر کیا اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھنڈا کیا تاکہ بات آگے بڑھ کر تصادم کی شکل اختیار نہ کرے۔ اس طرح کے واقعات سیرتِ طیبہ میں معروف ہیں۔ علما منصب نبوت کے وارث ہیں۔ اگرچہ انہیں نبوت منتقل نہیں ہوئی، لیکن نبوت کے منصب کی جو شان ہے، یعنی اس کے جو روحانی اور دعوتی پہلو ہیں،وہ یقیناًمنتقل ہوئے ہیں۔ علمائے کرام بھی اپنے شخصی کردار سے اس کا نمونہ پیش کریں، تاکہ ان کی ذات معاشرے اور ماحول میں امن کا پیغام پھیلانے کا ذریعہ بنے ۔ان سے کوئی ایسی بات صادر نہ ہو جس سے معاشرے میں امن خراب ہو۔ 

دوسری چیز جو سیرت نبوی میں نمایاں نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جو بھی تنازعات اور مسائل موجود تھے، آپ نے انہیں حل کرنے کی کوشش کو اپنا مقصد بنایا۔ روایات میں بیان ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ کے اردگرد جو مختلف قبائل تھے، وہاں تشریف لے جاتے تھے۔ آپ کے ان قبائل میں جانے کا سبب یہ بیان کیا جاتاہے کہ آپ ان قبائل میں مختلف خاندانوں کے آپس کے تنازعات کا تصفیہ کرواتے تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں کہ آپ کے پاس قانونی اختیار بھی تھا اور آپ اللہ کے پیغمبر بھی تھے، اس موقع پر آپ نے جو غیر معمولی اعلانات اور فیصلے کیے، ان میں سے ایک تاریخی نوعیت کا فیصلہ یہ بھی تھا کہ آپ نے عرب قبائل میں چلے آرہے تنازعات کا خاتمہ کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ آج کے بعد ماضی کے قصاص کے کسی مقدمے کو زیربحث نہیں لایا جائے گا۔

تیسری اہم چیز یہ ہے کہ معاشرے کے جن عناصرکے مابین مختلف جگہوں پر تصادم کا امکان موجود تھا، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی پوری نظر رکھی اور اس بات کا اہتمام کیا کہ اپنے تشریف لے جانے سے پہلے لوگوں کو ان مقامات کے حوالے سے آگاہ کردیں کہ میرے جانے کے بعد یہاں یہ صورتحال پیدا ہوگی اور اس میں تم نے یہ رویہ اختیار کرنا ہے۔ حدیث میں تین بڑی معروف مثالیں ہیں ۔ پہلی یہ کہ آپ کو احساس تھاکہ میرے بعد حکمرانی کے حوالے سے انصار اور مہاجرین میں کشمکش کا ماحول پیدا ہو سکتا ہے تو آپ نے اپنی زندگی میں اس کو موضوع بنایا اور انصار کی ذہن سازی کی اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ تمہاری بڑی قربانیاں اور خدمات ہیں، لیکن پورے عرب پر حکومت کرنے کے لیے قریش ہی زیادہ موزوں ہیں، چنانچہ تمہیں نظر انداز کیا جائے گا اور تم پر دوسرے لوگوں کو ترجیح دی جائے گی۔ تمہیں اس کا اجر آخرت میں ملے گا۔ پھرآپ نے حکمرانوں کی طرف سے ظلم و زیادتی اور اس کے ردِعمل میں لوگوں میں جو اشتعال پیدا ہوسکتا ہے، اس پر بھی روشنی ڈالی اور لوگوں کو بتایا کہ میرے بعد لازماً ایسے حکمران آئیں گے جو ظلم و ستم روا رکھیں گے اور ناانصافی کریں گے۔ آپ نے عوام کو بہت واضح ہدایات دیں کہ جب تک حکمران کفر بواح کے درجے پر جا کر کسی حرکت کا ارتکاب نہ کریں تو تمہیں ان کا ظلم برداشت کرنا ہے اور ان کے خلاف کسی قسم کی جارحیت نہیں کرنی اورتم نے ہر حال میں حق گوئی کرنی ہے۔ تیسری چیزیہ کہ عرب قبائل میں جوکشمکش چلی آرہی تھی، آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس کو بھی عنوان بنایا اور فرمایا کہ ’’یہ نہ ہو کہ میرے بعد تم دوبارہ اس کفر کی حالت میں چلے جاؤ جس میں لوگ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے تھے۔‘‘ 

یہ تین پہلو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے سامنے آتے ہیں۔ علما کا بھی یہ معیاری کردار بنتا ہے کہ معاشرے میں امن و امان کی بات کی جائے تو یہ مطلوب بھی ہے اور ان سے اس کی بجا طور پر توقع بھی کی جانی چاہیے کہ وہ ان تین پہلوؤں سے اپنے معاشرے کے مسائل کے حل کے لیے بھرپور اور فعال کردار ادا کریں۔ اس موضوع پر الگ بحث ہونی چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں طبقہ علما معروضی حالات میں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرتا اور وہ کیا وجوہ ہیں کہ علما کا طبقہ ایسے چند افراد سے، جن کی وجہ سے فرقہ واریت پھیل رہی ہے، ان سے برأت کا اظہار کیوں نہیں کر رہا؟ یہ درست ہے کہ سارے لوگ ایسے نہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جو چند لوگ یہ کام کرتے ہیں، ان سے خود کو الگ کرنے کی ذمہ داری علما پر عائد ہوتی ہے جو وہ پوری نہیں کر رہے اور ایک سطح ایسی بھی آتی ہے کہ اس طبقے کی نمائندگی کا شرف ہی اس محدود طبقے کو حاصل ہو جاتا ہے، جبکہ دوسرے سنجیدہ، باکردار اور مہذب لوگوں کو نمائندہ ہی نہیں سمجھاجاتا۔ 

مجھے میرے والد گرامی مولانا زاہد الراشدی نے یہ واقعہ سنایا کہ بچپن میں ان کے ہاں ایک جلسہ تھا تو والد صاحب، جن کی عمر اس وقت دس گیارہ سال تھی، کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کو بھی تقریر کرنے کا موقع دیا گیا۔ہمارے دادا مولانا سرفراز خان صفدر بھی دوسرے علما کے ہمراہ وہاں تشریف فرما تھے۔والد گرامی بتاتے ہیں کہ میں نے قادیانیت کے موضوع پر تقریر کی تو غیرت ایمانی میں آکر مرزا غلام احمدقادیانی کو گالی دے دی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے دادا فوراً پیچھے سے اٹھ کر آئے اور انہوں نے مجھے گردن سے پکڑ کر پیچھے کیا اور میری جگہ پر کھڑے ہوگئے اور باقاعدہ معذرت کی اور کہا کہ یہ بچہ ہے اور نا سمجھ ہے۔ اس نے غلط بات کہہ دی ہے۔ اسے گالی نہیں دینی چاہیے تھی۔ میرے خیال میں جب تک یہ کردارہر طبقہ کے علما ادا نہیں کرتے، اس وقت تک یہ ذمہ داری درست طور پر ادا نہیں ہوسکتی ۔ جب تک ہم دیانت داری اور خلوصِ نیت کے ساتھ اس حوالے سے اقدامات نہیں کریں گے تو اس وقت تک ہم خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔

ڈاکٹر خالد مسعود 

(سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، پاکستان)

علمائے کرام کا کردار محض رہنما کا ہی نہیں، بلکہ دینی زندگی کی عملی مثال کے طور پر بھی ان کا کردار ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ اسلامی معاشرے کا ضمیر بھی ہیں ،چنانچہ یہ علما کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں جو غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں، ان کا نہ صرف جو اب دیں، بلکہ اس پربھی غور کریں کہ صورت حال کو اس نہج تک پہنچانے میں مذہبی طبقہ بلاواسطہ یا بالواسطہ کس حد تک ذمہ دار ہے۔ اگر ذمہ دار ہے تو اس کا حل کیاہے؟ ..... اس سلسلے میں خاص طورپر دو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو یہ کہ ہماری سیاسی، سماجی، معاشی فکر میں کچھ ابہامات موجود ہیں جنہیں دور نہ کیا گیا تو صورت حال خاصی حد تک اسی طرح رہے گی۔ یہ ابہامات تحریک پاکستان سے شروع ہوئے اور اب تک موجود ہیں۔ دوسرا ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس وقت کچھ ایسی چیزیں ہیں جن پر توجہ نہ دی گئی تو بالواسطہ طور پر اس سے معاشرہ غلط رخ اختیارکرسکتاہے۔ سب سے پہلا مسئلہ قانون اور اس کی حکمرانی سے متعلق ہے۔ بہت ہی جسارت سے عرض کررہا ہوں کہ مذہبی طبقہ کی طرف سے سوالات پیدا کیے گئے جن کی وجہ سے لوگوں میں ابہام اور مشکل پیدا ہوئی۔ علما کا یہ کہنا ہے کہ وہ قانون جو حکومت بناتی ہے ، مذہبی حوالے سے اس قانون پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔کچھ قوانین واجب الاطاعت ہیں اور کچھ نہیں۔ علما کی جانب سے قانون کی اس تفریق سے لوگوں کے ذہنوں میں خلجان اور ابہام پیدا ہوتاہے اور جب تک ہم اس مسئلے کا واضح حل پیش نہیں کریں گے تو یہ مسئلہ اسی طرح برقرار رہے گا۔ میرا خیال ہے کہ یہ اشارہ کافی ہے۔ 

دوسری چیز جو مذہبی طبقے سے منسوب کی جاتی ہے ، وہ مذہبی طبقے کی جانب سے قانون کو ہاتھ میں لینے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جس کے لیے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے نام بھی لیے جاتے ہیں۔ بہر حال یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن اگر کوئی خرابی ہے اور کوئی کام دین، شریعت یا فقہ کے خلاف ہورہا ہے تو اس پر از خود سزا دینا اور بغیر قانونی کارروائی کے ایکشن لینا کس حد تک درست ہے، اس حوالے سے مذہبی طبقے کو عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا ہوگا۔ تیسری چیز ملک میں معروف عدالتی نظام ہے، اس کے علاوہ جرگے، پنچایت اور دیگر سماجی ڈھانچوں میں فتویٰ نویسی بھی ایک عدالتی ڈھانچے کو ظاہر کرتی ہے، کیونکہ اس میں لوگ مختلف علمائے کرام اور مفتیان عظام سے رہنمائی چاہتے ہیں تو اس فتویٰ کی حیثیت بھی ایک فیصلے کی بن جاتی ہے جس کی وجہ سے بہت سارے ابہام پیدا ہوتے ہیں۔ 

دوسرا پہلو جس پر سماجی حوالے سے بہت بات ہوئی، وہ ہمارے معاشرے میں پنپنے والے عدم برداشت کے رویے ہیں جس پر بہت سے علما نے بات کی۔ میں کھل کر یہ بات کرنا چاہتا ہوں کے مدرسے توکسی مجبوری کی بنا پر کسی ایک مسلک سے منسلک تھے، لیکن مساجد بھی مختلف مسالک سے منسلک ہوئیں اور اس کی وجہ سے معاشرے میں دین و مذہب کے نام پر عدم برداشت کے رویے فروغ پائے۔ یہ بھی قابل غور ہے۔

سب سے بڑا مسئلہ معاشی ہے۔ معاشی مسائل میں جو عام رجحان ہے، وہ حکومت کی طرف سے عائد کردہ ٹیکس اور جو دینی ادائیگی ہے، مثال کے طور پر زکوٰۃ، ان میں فرق ہے کہ اگر ایک آدمی زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو اس کو ٹیکس نہیں دینا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ علما نے اس بارے میں فتویٰ جاری کیا ہے لیکن عوام میں اس بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔ اسی طرح رشوت کے بارے میں بھی ابہام ہے۔ مثال کے طور پر مختلف فتادیٰ میں ہے کہ اگر مجبوری میں کوئی جائز کام نکل نہ رہا ہو تو اس میں رشوت دیناجائز ہے تو اس سے بھی ایک طرح سے ابہام پیدا ہوتا ہے۔جس وقت ہم جاگیرداروں اور زمین داروں کی بات کرتے ہیں تو علما کا قیامِ پاکستان سے پہلے عمومی رجحان یہ تھاکہ حکومت اگر معاشرے کی ضرورتوں کے لیے زرعی اصلاحات نافذکرنا چاہے تو اس کی اجازت ہے، لیکن جب پاکستان میں زرعی اصلاحات کی گئیں تو پھر شخصی ملکیت پر بھی ہمارے ہاں اختلافات پیدا ہوئے اوراس پر لوگوں نے کتابیں لکھ ڈالیں اور بعض مواقع پر عدالتوں میں رجوع کرکے حکومت کو کہا گیا کہ یہ حکومت کے اختیار میں نہیں کہ وہ یہ ملکیت اپنے اختیار میں لے تو کبھی ہم شخصی ملکیت کو اس قدر فوقیت دیتے ہیں، جبکہ دوسری طرف ہم وڈیروں، زمین داروں اور جاگیرداروں کے نظام کے خلاف بھی بات کرتے ہیں۔

تعلیمی مسائل پربھی بہت گفتگو ہوئی۔ اختلاف رائے ہماری روایات کاقابل فخر حصہ ہے۔ اختلاف رائے سے ہی بات آگے بڑھتی ہے اور ہمارے ہاں علما کے اختلاف کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے۔ہمارے مدارس میں پہلے تمام علما اور مذاہب کے کلامی اور فقہی اختلافات کو دلائل کے ساتھ پڑھایا جاتا تھا اور اس کے بعد اپنے مسلک کی بات کی جاتی تھی، لیکن شاید اب نصاب کو مختصر کرتے ہوئے دلائل کا حصہ کم کر دیاگیا ہے، جس کی وجہ سے مسلکی اختلافات بڑھ گئے ہیں اوربعض اوقات ہم تعصب کی حد تک اپنے مسلک کے قائل ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے طلبہ میں تحقیق کرنے اور آگے بڑھنے کار جحان نہ ہونے کے برابر ہے۔یہ سب باتیں جو میں نے کی ہیں، ان میں کچھ میرے اپنے مشاہدات اور اندازے ہیں، جبکہ علما پرلکھی جانے والی کتابوں میں ان میں سے بھی بہت کچھ اخذ کیا گیا ہے۔ ان میں سے بہت سارے عوامل ایسے ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں بدامنی پیدا ہوتی ہے۔

مولانا مفتی محمد زاہد 

(شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ امدادیہ، فیصل آباد)

جہاں تک سنی مدارس ہیں، مثال کے طورپر بریلوی، اہل حدیث اوردیوبندی وغیرہ، ان میں دوسرے مکاتب فکر کی رائے کا ذکرہوتاہوگا اور دلائل بھی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ ’ہدایہ‘ دیکھ لیں جس میں ائمہ أربعہ کے مؤقف دلائل کے ساتھ موجود ہیں۔ ہمارے ہاں جو مسئلہ پیدا ہورہا ہے، وہ یہ کہ پاکستان کے تناظر میں جو مسالک ہیں، ان میں دوسرے کے مسلک کا درست تعارف نہیں کروایا جاتا۔ مثال کے طور میں ایک دیوبندی ہوں تو ایک بریلوی یا شیعہ کا میرے بارے میں تصور ہے کہ میرا یہ عقیدہ ہوگا۔ ہو سکتا ہے حقیقت میں ایسا نہ ہو۔ ایک بریلوی کے بارے میں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو بھی خدا مانتے ہیں۔ میرا تصور یہ ہے اور میں اپنے طالب علموں کو بھی ان کے بارے میں یہی بتاتا ہوں، لیکن حقیقت میں ان کا نقطہ نظر یہ نہ ہو۔ اہل تشیع ہو سکتا ہے ہمارے بارے میں یہ بتاتے ہوں کہ ان کی اہل بیتؓ کے ساتھ وہ عقیدت نہیں جو ہونی چاہیے اور ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو اہل تشیع کے بارے میں یہ بتاتے ہوں کہ وہ قرآن کو نہیں مانتے یا فلاں فرائض پر عمل نہیں کرتے، لیکن ہو سکتا ہے یہ تاثر حقیقت کے خلاف ہو اور ان کے ہاں بھی یہ چیزیں نہ ہوں جس طرح ہم اپنے لوگوں کو ان سے متعارف کروا رہے ہوتے ہیں۔ 

مشترکہ نصاب کی بات ہورہی تھی۔ اس کی تشکیل بہت زیادہ مشکل ہے،لیکن کوئی ایسا کتابچہ جس میں تمام مکاتب فکر کے بنیادی نظریات خود ان کی تعلیمات کی روشنی میں بیان کیے گئے ہوں، ہونا چاہیے اور وہ شامل نصاب کیا جاسکتا ہے، کیونکہ کسی بھی مکتبہ فکر کو اپنا عقیدہ بیان کرنے کا اختیار حاصل ہے اور وہ خود بتائیں کہ ان کا عقیدہ کیا ہے ۔مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں ان کے بارے میں بتاؤں کہ ان کا عقیدہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں اتحاد تنظیمات المدارس کوئی ایسا قدم اٹھائے کہ ایسا کوئی مشترکہ مواد تیار ہو جائے جس میں تمام مکاتب فکر کی بنیادی چیزیں ہوں اور وہ بنیادی مسائل بھی زیربحث آجائیں جن پر ان مسالک کا اختلاف ہے تاکہ ایک دوسرے کے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔ ایک دوسرے کے مکتبہ فکر کا تعارف اگر درست طور پر معلوم ہو جائے، اگرچہ دلائل نہ بھی ہوں تو مسئلہ کافی حد تک حل ہو جائے گا۔

مولانا مفتی منیب الرحمان

(چیئرمین رؤیت ہلال کمیٹی، صدر تنظیم المدارس پاکستان)

اس وقت ملک کاسب سے بڑا مسئلہ جس سے ہم دوچار ہیں، وہ عمودی اور افقی اور گہرائی اور گیرائی کے اعتبار سے ہمارے معاشرے میں نفوذ کرچکا ہے اور یہ بڑا گھمبیرمسئلہ ہے۔ اس کی مثال ایک ٹیومر یا کینسر کی نہیں کہ آپ ایک عضو کاٹ دیں اور اس کا علاج کر لیں تو جسم دوبارہ صحت مند ہوجائے گا۔ اس کی مثال شوگر، بلڈ پریشر اور بخار کی ہے جو کسی وقت بھی جسم کے کسی حصے کومتاثر کر سکتا ہے اور جسم کا کوئی حصہ بھی اس سے محفوظ نہیں۔ اسی طرح یہاں اپنے آپ کو کوئی محفوظ تصور نہیں کر سکتا، حتیٰ کہ ہمارے وہ حساس دفاعی ادارے بھی محفوظ نہیں جنہوں نے قوم کا دفاع کرنا ہے۔ یہ مسئلہ ہمہ گیر اور خطرناک حد تک آگے بڑھ چکا ہے۔ 

اس مسئلہ کے اسباب کودو طرح کے اندازِ فکر کے تحت زیرِبحث لایا جاتا ہے۔ ایک تو وہ جس کا ابتدا میں ڈاکٹر فرید پراچہ نے ذکر کیا اور عالمی طاقتوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیاجن میں اسرائیل، انڈیا، امریکہ ، یورپ، یہود و ہنوداور استعمار شامل ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سرگرم ہیں اور ان عوامل کا ذکر کرنا چاہیے، لیکن اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ہمیں آگ سے نکالنا ان کی ذمہ داری ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کی بقا و سالمیت کی ذمہ داری ہماری نہیں، کسی اور کی ہے جو کہ اپنا کام صحیح طو رپر نہیں کر رہا، لہٰذا اس کی مذمت اور ملامت کرو اور اس کے خلاف نعرے لگاؤ اور تحریک چلاؤ۔ میرے خیال میں پہلی اصابت رائے یہ ہے کہ ہم ادراک کریں کہ یہ ذمہ داری ہماری ہے اور اس کا امریکہ، یورپ اور یہود و ہنود سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور جب تک ہم اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کا اعتراف نہیں کریں گے اور ان مسائل کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھیں گے، کسی اور پر ذمہ داری ڈال کر ہم اپنے گھر کو نہ تو بچا سکتے ہیں اور نہ دوبارہ تعمیر کر سکتے ہیں۔ اس لیے میرا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ اگر ہم امریکہ یا یہود و ہنود کو جواب دینا چاہتے ہیں توہم اپنے ملک کو متحد ، پرامن اور منظم کرکے جواب دیں کہ یہ ہمارے مخالفین کی سازشیں تھیں اور ان کے تدارک کے لیے ہم نے یہ اقدامات کیے۔ حال ہی میں ترکی کی نشاۃِ ثانیہ ہمارے سامنے ایک بڑی مثال ہے۔ اس وقت ترکی کی کرنسی پچپن پاکستانی روپوں کے برابر ہے اور ترکی دنیا کی پندرہویں یا سترہویں بڑی معیشت ہے۔ وہاں امن و استحکام قائم ہوا ہے اور ترقی ہور ہی ہے۔ ہمیں بھی قوم کی نشاۃ اور استحکام کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر ہم نے دوسروں کو ذمہ دار قرار دینے کی روش برقرار رکھی تو پھر ہم اس پستی سے کبھی نہیں نکل پائیں گے۔ 

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے ہاں کئی طرح کے جبر ہیں، داخلی جبر ہیں جبکہ خارجی جبر تو اپنی جگہ موجود ہیں۔ جیسا کہ آپ لوگ امریکہ یا کسی اور قوت کی ڈکٹیشن کا ذکر کرتے ہیں، داخلی جبر بھی بہت سارے ہیں، اور ہر مکتبۂ فکر کا اپنا بھی ایک جبر ہے۔ کوئی اس کو آسان نہ سمجھے۔ ہم پشاور میں ایک میٹنگ میں شریک تھے ، اُس وقت پشاور میں تواتر کے ساتھ خودکش حملے ہو رہے تھے تو میٹنگ میں ذکر آیا کہ خودکش حملوں کے بارے میں بھی بات کر لی جائے تو انہوں نے کہا کہ آپ اسلام آبا دمیں بیٹھ کر اس کے بارے میں بات کرسکتے ہیں، لیکن ہم یہاں پشاور میں بیٹھ کر ایسی کوئی بات نہیں کرسکتے۔ یہ ایک زمینی حقیقت ہے۔ میں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ جب پشاور کے بازاروں میں دھماکے ہوتے ہیں تو کیا یہاں کے خطبا جمعہ کے خطبات میں ان کا ذکر کرتے ہیں؟ تو وہ کہنے لگے کہ بالکل ذکر نہیں کرتے، جیسا کہ یہاں سرے سے کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔ اگر کوئی ذکر کرتا بھی ہے تو یہ کہے گا کہ امریکہ یہ کر رہا ہے یا بھارت یہ کر رہا ہے تو یہ بھی جبر کی ایک صورت ہے تو جب تک ہم اس جبر کا مل کر مقابلہ نہیں کریں گے اور اگر کوئی سچ کراچی میں نہ بولا جاسکے یا لاہور، اسلام آباد یا پشاور میں نہ بولا جاسکے تو جب تک ہم ہر جگہ سچ بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے ، ہم کامل اصلاح نہیں کرسکتے۔ .....

ایک طبقہ وہ ہے جس نے اس بات کو ایمان اور عقیدے کا درجہ بنا لیا ہے کہ چونکہ اب حکومت امریکہ کی غلام ہے ، لہٰذا اس ملک کے سارے ادارے، عوام، مارکیٹیں، بازار، مساجد اور مزارات، جس کو مرضی چاہیں نشانہ بنا دیں کہ نہ مرنے والے کو پتہ ہوتا ہے کہ اسے کس سبب سے مارا گیا اور نہ مارنے والے کو۔ اس مسئلہ کو ہم سب مل کر اتفاق رائے سے حل کرسکتے ہیں، لیکن اس کے لیے تمام بڑے اور اکابر علما کو سامنے آنا ہوگا اور ایک سے زائد مرتبہ حجت شرعی کو تمام کرنا پڑے گا، کیونکہ بعض لوگ حالات کے جبر کی وجہ سے یہ سیاسی بیان دیتے ہیں کہ ہاں یہ خود کش حملے حرام ہیں، یہ بات حرام ہے اور یہ بات حرام، مگر چونکہ یہ ڈرون حملے ہورہے ہیں اور چونکہ امریکہ یہ کررہا ہے اورحکمران یہ کروا رہے ہیں تو ردِعمل میں خودکش حملے ہو رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حلال بھی ہیں اور حرام بھی ۔ ان کے بارے میں ہمیں کھل کر بات کرنا ہوگی۔ ان کے بارے میں، میں نے ایک بزرگ سے پوچھا تو انہوں نے کہا، دیکھیں جی! یہاں بہت سے عناصرسرگرم ہیں اور باہر کی ایجنسیاں بھی فعال ہیں اور اس مقصد کے لیے باہر سے پیسہ بھی آ رہاہے۔ میں نے کہا کہ میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ امریکہ، اسرائیل یا ہنود کروا رہے ہیں، وہ تو کفرہی پھیلائیں گے ،اسلام تو نہیں پھیلائیں گے۔ پھر ہمیں اس کے بارے میں دو ٹوک بات کرنے سے ایک لمحہ بھی اجتناب نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے اور اس کو مل کر عبور کرنے کی ضرورت ہے۔.....

میں کہنا چاہتا ہوں کہ خرابی کہاں سے پیدا ہوئی۔ مسالک بھی موجود تھے اور حتیٰ کے ایک دوسرے کے خلاف فتاویٰ تک بھی موجود تھے۔ کبھی کسی کو ددھکے دے دیے ،کسی کو تھپڑ مار دیا اور کبھی ایسا ہوا کہ لاٹھی کا استعمال کیا گیا ہو، لیکن اس وقت ہم جس صورتحال سے دو چار ہیں، وہ یہ ہے کہ دلیل اور استدلال کی طاقت کے استعمال کرنے کی بجائے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے اسلحے کی طاقت کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسلحے اور گولی نے دلیل کی جگہ لے لی اور یہ ہماری بربادی کا سبب ہے۔ آپ مناظرے کریں، دلیل و استدلال سے کریں، دلیل سے اپنی بات لکھیں لیکن جب تک مذہبی طبقات میں اسلحہ موجود ہے اور ہم اس سے نجات حاصل نہیں کریں گے تو معاشرے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔

اہل مغرب اور امریکہ والے یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت مدارس میں جو نصاب پڑھایا جارہا ہے، اس میں ایسا کوئی مسئلہ ہے کہ جو معاشرے میں بدمعاش، غنڈے اور دہشت گرد پیدا کرتا ہے۔ہم ان کو یہ بات باور کروا چکے ہیں کہ یہ نصاب دو سو سال سے پڑھایا جارہا ہے تودو سو سال سے بدمعاش اور دہشت گرد پیدا نہیں ہورہے تھے۔ تحریک پاکستان میں کوئی دہشت گردی نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کے بعد ہوئی۔اصل میں یہ جہادِ افغانستان کا تسلسل ہے ۔ہم اپنی خرابیوں کی ذمہ داری اوروں پر ڈال دیں گے، لیکن جب سوویت یونین کی فتح ہوئی تو ہم نے کہا کہ یہ ہماری فتح ہے۔ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اس میں جو سرمایہ لگا ، وہ کسی اور کا تھا اور مقاصد بھی کسی اور کے تھے، لیکن ہم سارا کریڈٹ لینے کے لیے تیار ہیں۔

اگر ہم نے اس ملک میں امن لانا ہے تو ملک کو اسلحے سے پاک کرنا ہوگا، بحث و مباحثے کے لیے دلیل کی زبان کو استعمال کیا جائے اور دلیل کا راستہ اختیار کیا جائے۔جس ٹریک پر ہم چل پڑے ہیں، اگر اس سے پلٹ کر واپس نہیں آئیں گے تو ہمارے معاشرے میں سکون نہیں آسکتا۔ میں آپ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ جو طبقات اب تک مار کھا رہے ہیں اور جن کے پاس اس وقت اسلحے کی تکنیک و وسائل نہیں، وہ بھی سوچتے ہیں کہ شاید ہمارے پاس جو آخری چارۂ کار ہے، وہ یہی رہ جائے گا، لیکن اللہ نہ کرے کہ وہ وقت آئے ۔ اس اسلحہ کوفروغ دینے میں اہل اقتدار کا بہت بڑا دخل ہے۔ لوگ اپنے ملوک کے دین پر ہوتے ہیں اوران کے کلچر کو ہی اپناتے ہیں ۔ہم لوگ جو پرامن ہیں اور اپنے صاحب اقتدار لوگوں سے رجوع کرنا چاہیں تو ہمیں کوئی جواب نہیں آئے گا، لیکن جو مسلح گروہ ہیں اور جن کے پاس اسلحہ ہے، انہیں فوراً رسپانس مل جائے گا اور ان کی بات بھی سنی جائے گی اور ان کو ملاقات کا وقت بھی دیاجائے گا ۔ہمارے حکمران بزدل ہیں اور بزدل لوگ امانتوں کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ اگر اس ملک کو بچانا ہے تو ایک ہی راستہ ہے کہ ایک طویل المدت قومی ایجنڈا بنایا جائے اور پوری قوم اس کی پشت پر کھڑی ہو اور اس ایجنڈے کو جماعتی، گروہی مفادات اور اپنے اقتدار کو طول دینے اور سیاسی مشہوری کا ذریعہ نہ بنایا جائے ،کیوں کہ اگر یہ ملک ہے تو یہ حکمران ہیں اور وہ ہم پر حکمرانی کرنے کے لیے موجود ہوں گے اور اگر ملک نہیں ہوگا تو پھرکچھ نہیں رہے گا۔

اخبار و آثار

(اکتوبر ۲۰۱۱ء)

تلاش

Flag Counter