محترم ومکرم جناب مدیر صاحب، ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم! امید ہے کہ جناب مع الخیر ہوں گے۔
میں گزشتہ کچھ سالوں سے جناب کے موقر جریدے کا ایک ادنیٰ قاری ہوں۔ ا س میں شائع ہونے والی اکثر تحریریں بہت اچھی ہوتی ہیں اور مختلف موضوعات پر دینی تناظر میں گفتگو کو آگے بڑھانے میں معاون ہوتی ہیں۔ اگرچہ دل بہت چاہتا ہے کہ ’’الشریعہ‘‘ میں شائع ہونے والی تحریروں کا اسلوب علمی ہوتا اور ان کی فکری سطح بھی کچھ بلند ہوتی، لیکن آپ جو کچھ کر رہے ہیں، اس کی میرے دل میں بہت عزت ہے کہ ہمارے آج کے تہذیبی ویرانے میں ’’الشریعہ‘‘ ایک توشہ خاص ہے۔
آپ کے جریدے میں جولائی اور اگست کے شماروں میں ایک مضمون ’’تنقیدی جائزہ یا ہجو گوئی‘‘ از جناب محمد رشید صاحب دو قسطوں میں شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے جناب میاں انعام الرحمن کے مضمون پر بڑی سخت گرفت کی ہے۔ میں اسی حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں، لیکن اس سے پہلے کچھ اعترافات کرتا چلوں تو مناسب ہوگا۔
میں جناب میاں انعام الرحمن اور جناب محمد رشید میں سے کسی سے ذاتی طور پر واقف نہیں ہوں۔ میں اپنی معروضات کو صرف اسی مضمون پر اٹھانا چاہ رہا ہوں۔ دوسرے یہ کہ میں ڈاکٹر محمود غازی مرحوم کے لیے بہت نیک جذبات رکھتا ہوں، اگرچہ میں ذاتی طو رپر ان سے واقف نہیں تھا۔ میرے حلقہ احباب میں کچھ لوگ ان کے بارے میں بہت حسن ظن رکھتے ہیں، اس میں سے کچھ حصہ مجھے بھی نصیب ہوا ہے۔ وہ بہت متقی اور نیک آدمی تھے۔ اللہ انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ ان کی نیکی کی خبر پر یقین کے بعد میں نے ان کی چند تحریروں کو دیکھا، لیکن ان میں سے مجھے کوئی بھی کام کی نہیں لگی، لیکن الحمد للہ ان کے بارے میں اچھے جذبات میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ میں تقویٰ اور علم کو نہ مساوی سمجھتا ہوں نہ لازم وملزوم جانتا ہوں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ تقویٰ ضروری چیز ہے اور مدار نجات ہے، جبکہ علم کو یہ حیثیت بھی حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا ڈاکٹر غازی مرحوم کا تقویٰ اللہ کے ہاں ان شاء اللہ مقبول ہوگا اور ان کے علم میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو یہ کوئی ایسی گھبرانے کی یا سیخ پا ہونے کی بات بھی نہیں ہے۔ چلیں، اگلی نسل میں اس پر بات آگے بڑھے گی تو ان موضوعات کے زیادہ بہتر اور قابل توجہ پہلو سامنے آئیں گے جن پر ڈاکٹر صاحب کی نظر نہیں گئی تھی۔ اس میں تو کوئی حرج کی بات نہیں۔ ڈاکٹر غازی مرحو م کے تقویٰ اور علم میں خلط مبحث پیدا کرنا، امت کے لیے ان کی دردمندی کو فراموش کرنا، امت مسلمہ کی علمی ضروریات کو پورا کرنے میں ان کی نیک نیتی پر شک کرنا یا یہ سمجھ لینا کہ ان کی کوششوں سے یہ علمی ضروریات کسی درجے میں پوری ہو گئی ہیں، میرے خیال میں مناسب نہیں ہے۔ ہم ڈاکٹر غازی مرحوم یا کسی بھی دین دار آدمی کے تقویٰ کو زیر بحث لا کر اپنی عاقبت کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔
ان گزارشات کے بعد میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے جناب محمد رشید کے اس رویے کی بالکل سمجھ نہیں آئی جو انھوں نے جناب میاں انعام الرحمن کے حوالے سے ظاہر کیا ہے۔ اگر ہم نے اپنے علما کے نظری، فکری اور علمی افلاس کو دین ہی کا کوئی حصہ سمجھ رکھا ہے تو پھر یہ رویہ بالکل درست ہے اور عین ایمان ہے۔ مجھے علما کے دینی علم میں کوئی کلام نہیں ہے۔ اگر وہ کتابیں یاد کر کے کچھ چیزوں کو دہراتے رہتے ہیں تو یہ ان کا علم نہیں قرار پائے گا۔ صرف یہی کہیں گے کہ معلومات ان کی اچھی ہیں۔ مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ جیسے علما عصر حاضر میں ہمارے لیے اللہ کی بڑی نعمتوں کاظہور تھا، لیکن تقسیم کے بعد ہمارے علما اور مذہبی طبقے نے عوام کے حقوق اور مفادات پر استعماری سرمایے، استعماری علم اور استعماری سیاست سے جس جس طرح کی سودے بازی کی ہے، وہ بھلا کس سے اوجھل ہے؟ میرا خیال ہے کہ اب ہمارے معاشرے میں جو آدمی علما سے علم کا مطالبہ کرے یا مسلمانوں کے لیے کسی طرح کے اخلاقی لوازم کی بات کرے، اس کی سرکوبی کا مستقل بندوبست ہونا چاہیے۔ ا س مطالبے کے غیر دینی ہونے کو بھی اب سے نمایاں کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر طرح کی دینی تعبیرات کو ایک سازگار فضا میسر آ سکے اور ایسی ہر صورت حال کے خاتمے کی محکم تدابیر ہونی چاہییں جس سے مسلمانوں میں علمی گفتگو کا امکان بھی پیدا ہو سکتا ہو۔ اس سے ہماری مجموعی insecurity کو ختم کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔
اب جناب میاں انعام الرحمن کی جس پہلی ہی بات پر جناب محمد رشید نے اتنے سخت رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے بارے میں یہی عرض کر سکتا ہوں کہ یہ ہمارے علما کا اور دینی ڈسکورس میں بات کرنے والوں کا عمومی رویہ ہے۔ اب اس میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر غازی مرحوم جو علمی زاد راہ لے کر عصر حاضر پر گفتگو کرنے نکلے، وہ ان کے پاس نہیں ہے۔ اس سے ان کی نیک نیتی اور تقوے پر کوئی حرف نہیں آتا۔ اگر وہ کچھ چیزوں کا سرے سے ہی کوئی علم نہیں رکھتے تو اس میں کوئی حرج والی بات کہاں ہے؟ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ حدیث سے یقیناًواقف ہیں، لیکن جس طرح اس کی تطبیق کر رہے ہیں، وہ قطعی غیر علمی ہے۔ اس میں کیا قیامت آ گئی؟ اس سے مسلمانوں کا بھلا ہی ہوا کہ وہ کوشش جاری رکھیں گے اور اس کی بہتر تطبیق کا راستہ نکالنے کی کوشش کریں گے جو علمی طو رپر قابل دفاع ہو۔ میرا خیال ہے کہ نظری اور فکری امو رپر فقہی ذہن سے فتویٰ لگانا ہمارے ہاں مذہبی علم کی معراج ہے، لیکن بدلے ہوئے عصری حالات میں اس میں بہت سے خطرات پوشیدہ ہیں۔ نظری اور فکری افلاس کو فقہی احکامات کی گوشہ وار تفصیل بیان کرنے سے پر نہیں کیا جا سکتا۔ اگر جناب میاں انعام الرحمن نے دو مستثنیات کیساتھ ایک سخت بات کہی ہے تو وہ بالکل جائز ہے۔ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے اور اس کے تدارک کی کوئی سبیل نکالنی چاہیے۔
یہ مولانا صاحب تو چلیے، نظام معاش پر فقہی معلومات اور عصری بے خبری میں کچھ کلام کرنے نکلے ہیں۔ تعلیم ہمارے لیے کیا کچھ اہمیت نہیں رکھتی! لارڈ میکالے کے جس نظام تعلیم پر، جس نے ہماری عصری شعور کی بہت گہرائی میں تشکیل کی ہے اور ہمارے شعورکی پوری ساخت ہی کو غیر انسانی، غیر فطری اور غیر دینی بنیادوں پر استوار کیا ہے اور علما کا کام بھی یہی تعلیم تھا تو اس پر کوئی ایک علمی فقرہ بھی پچھلے تقریباً دو صد سالوں میں لکھا گیا ہے؟ میں یہاں سیاسی نعرے بازی کا ذکر نہیں کر رہا۔ وہ تو بہت ہوئی ہے کہ لارڈ میکالے فلاں، لارڈ میکالے ڈھماں۔ میں نے متداول مدارس کے نظام کا بہت گہرا مطالعہ کیا ہے اور اللہ سے ڈر کے عرض کر رہا ہوں کہ ہمارے یہ علما قیامت کے دن اسی میں دھرے جائیں گے۔ اللہ معاف کر دے تو اور بات ہے، وہ غفور رحیم ہے۔ ہمارے علما کو جدید تعلیم اور جدید عہد میں دی جانے والی کسی بھی طرح کی تعلیم کی کوئی ابجدی واقفیت بھی نہیں ہے۔ دین دار ہونا اور چیز ہے، تعلیم دینا، بھلے وہ دینی ہو یا غیر دینی، اور بات ہے۔ اگر بظاہر کوئی اچھے دینی ادارے نظر بھی آ رہے ہیں تو سب ریس اور نقل پر قائم ہو رہے ہیں اور مغربی تعلیم کی دین کے آنگن میں پیش رفت کے نئے سنگ میل ہیں۔ تعلیم کی آڑ میں سب سیاست بازی ہے۔ ہمارے علما تعلیم کے نہ انسانی پہلووں سے باخبر ہیں نہ اس کے فنی پہلووں سے آگاہ ہیں اور جدید تعلیم کے نظری اور فکری پہلووں کی تو موجودگی کی بھی ان کو خبر نہیں ہے۔ اب ’’دینی تعلیم‘‘ کی ترکیب ہی ایسی ہے کہ عام آدمی سہم جاتا ہے کہ اگر کوئی بات کہہ دی تو کہیں ایمان ہی سے نہ فارغ کر دیا جائے۔ میں یہاں نورانی قاعدے کے مولف مولانا نور محمدؒ خلد آشیانی کے چند فقرات لکھ رہا ہوں۔ غور فرمائیے گا:
’’جب تک اتنی مشق نہ ہوجائے، آگے نہ پڑھائیں۔ ورنہ وہی مثل صادق آئے گی، آگا دوڑ پیچھا چوڑ۔ اگر کوشش اور محنت سے پڑھا نہیں سکتے تو ناحق بچوں کی عمر اور استعداد برباد نہ کریں۔ اس کا گناہ چوری اور راہزنی سے بھی بدتر ہے، کیونکہ مال واسباب پھر بھی مل سکتا ہے، لیکن گزری ہوئی عمر واپس نہیں آ سکتی اور بگڑی ہوئی استعداد درست نہیں ہوتی۔‘‘
جناب محمد رشید صاحب نے یہ ثابت کرنے میں بہت زور لگایا ہے کہ ڈاکٹر غازی صاحب قارونی نظام کے سخت مخالف تھے اور انھوں نے جو پیرا گراف حوالہ قرطاس کیے ہیں، ان سے تویہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارا دین قارونی نظام کے بہت خلاف ہے۔ ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب بھی ہوں گے، کیونکہ دین اسی کا مطالبہ کرتا ہے اور وہ بہت دین دار آدمی تھے۔ لیکن قارونی نظام کا کوئی فہم ڈاکٹر صاحب کی محولہ تحریروں میں موجود نہیں ہے۔ اگر قارونی نظام کی دشمنی کے دینی مطالبات کسی علمی فہم میں بھی تبدیل نہیں ہوتے تو یہ بہرحال سوچنے کی بات ہے۔ اگر ہم یہ بھی فرض کر لیں کہ ڈاکٹر صاحب دین کی مراد پر قائم ہو گئے تھے تو ہمیں یہ بھی تسلیم ہے اور حسن ظن بھی یہی ہے، لیکن اس بات کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ دین کی روحانی اور اخلاقی اقدار کو سمجھنے کے لیے کسی علم کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو فطری ہیں۔ اور پھر اس اصرار کی کیا گنجائش ہے کہ ان اقدار کو ماننے والا ازخود نظری اور فکری مطالبات اور مرادات تک رسائی بھی حاصل کر لیتا ہے؟ یعنی ایک متقی آدمی صاحب علم بھی ازخود بن جاتا ہے اور تقویٰ ازخود سیاسی اور علمی سیادت میں بھی بدل جاتا ہے؟ انھی خوش فہمیوں میں ہمارے علما اس امت کو عصر حاضر کے ظلمت خانوں میں لے کر پہنچے ہیں جہاں اب خود انھیں بھی کوئی راستہ سجھائی نہیں د ے رہا، اگرچہ واویلا اس کے برعکس مچایا جا رہا ہے۔ اور اب چاروں طرف تہذیب مغرب کو، ا س کے چند بالکل اسلام مخالف پہلووں کے علاوہ، justify کرنے کا شدید ترین داعیہ بھی ہمارے دینی طبقے ہی سے ابھر رہا ہے۔
مدیر صاحب! اب بازی ہمارے ہاتھ سے آخرکار مکمل نکل گئی ہے، کیونکہ علما نے سیاست بازی میں بڑا وقت ضائع کیا ہے اور اپنے اصل کام یعنی دین کے علمی دفاع سے بہت سخت نوعیت کی غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اب علما کو دین اور نفس دین کی فکر نہیں ہے، ان کو اب اپنی فکر لگ گئی ہے اور یہ سب اسی کے اظہارات ہیں۔ کیا یہ طرفہ تماشا نہیں کہ کچھ جدید تعلیم یافتہ لوگ جو دین کا درد بھی رکھتے ہیں، اب مغرب کے خلاف دفاعی پوزیشن لیے ہوئے ہیں اور علما اپنی تحریروں میں صبح شام وہ مقامات اور اقوال نکال نکال کر دکھا رہے ہیں جن سے مغرب کو جواز ملتا ہے؟ تقسیم کے بعد، چند ایک حق پرست علما کو چھوڑ کر، ہمارے وہ کون سے علما ہیں جنھوں نے آمریت اور استعمار کے در پر جبیں سائی نہیں کی ہے، جنھوں نے تیرہ آشام تعلیم اور علم کو اپنے فتاویٰ سے جواز نہیں بخشا ہے، جنھوں نے ظلم، جبر اور استبداد کو مذہبی جواز دے کر سیاسی اسلام کو عوام کے حقوق کے خلاف استعمال نہیں کیا ہے؟
ڈاکٹر صاحب کے جو بھی اقتباسات جناب محمد رشید نے درج فرمائے ہیں، وہ بہت اچھے ہیں۔ ان کے مشمولات سے بھلا کس کو اختلاف ہو سکتا ہے؟ لیکن یہ بڑی صحافیانہ سی باتیں ہیں جو عام سیاسی مجلوں میں آئے دن چھپتی رہتی ہیں۔ ان میں کوئی نظری، فکری یا علمی بات نہیں ہے۔ اگر یہ بات جناب میاں انعام الرحمن نے بھی کہہ دی ہے تو کیا قیامت آ گئی ہے؟ اگر ڈاکٹر صاحب مغرب پر تنقید کر رہے ہیں تویہ بھی اچھی بات ہے اور ان کی یہ تنقید بھی درست ہے اور اس کا تناظر اخلاقی اور سیاسی ہے اور یہ ہمارے کچھ طبقات میں متداول بھی ہے۔ لیکن یہ عام سی باتیں ہیں جو ہم صبح شام اپنے ارد گرد سنتے رہتے ہیں۔ ان باتوں کے لیے وہ عند اللہ ماجور بھی ضرور ہوں گے، لیکن یہ شور مچانا کہ ڈاکٹر صاحب نے کوئی علمی بات بیان فرمائی ہے، یہ انصاف کے خلاف ہے۔ اورجناب انعام کی تحریر میں مجھے تو کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی جس سے ڈاکٹر صاحب کی ذاتی تنقیص کا کوئی پہلو سامنے آتا ہو۔
اخلاقی وعظ نگاری کو پچھلے دو سو سال سے لکھتے پڑھتے، ہم اسی کو اب علم پر بھی محمول کرتے ہیں۔ میں نے تو بڑی کوشش کی ہے کہ وہ بات ہاتھ لگے جس پر رد عمل میں جناب محمد رشید صاحب نے ہر اخلاقی حد عبور کی ہے، سوائے اس بات کے کہ جس شخصیت کے ساتھ ’’مولانا‘‘ ]ایک زمانہ تھا جب انگریزی میں ’’ڈاکٹر‘‘ کا اصل مفہوم مولانا ہی تھا[ لگا ہو، اس کے خیالات پر بات کرنے سے احتراز کرنی چاہیے، بس ایمان لے آنا چاہیے۔ مجھے تو یہی محسوس ہوا کہ اخلاقیات جس طرح ہمارے انفرادی اور اجتماعی عمل سے خارج ہو گئی ہے، اسی طرح دین کی گفتگو سے بھی بالکل غیرمتعلق ہو چکی ہے۔ بد کلامی، پوچ گوئی، اتہام، الزام بازی اور بد تہذیبی کیا کوئی نیک عمل بن جاتا ہے اگر میں اس کے ساتھ ’’دینی‘‘ کا لفظ اضافہ کر دوں؟ عصر حاضر میں دائرۂ کفر واسلام کمزو رپڑ جانے پر اب دینی گفتگو میں گالم گلوچ کی نئی اہمیت سامنے آ رہی ہے۔ جناب انعام صاحب نے تو کوئی بداخلاقی نہیں کی۔ ہاں، علمی اختلاف کیا ہے، بھلے اس کی بنیاد خود رائی ہی کیوں نہ ہو اور ا ن کا انداز ادعائی ہی کیوں نہ ہو، لیکن جواب کیا آ رہا ہے؟ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے۔ اگر جناب انعام صاحب اپنے کو ’’علامہ‘‘ سمجھتے ہیں تو اس پر جناب رشید صاحب کا اعتراض اس وقت قابل فہم ہو سکتا تھا اگر وہ آج کل ’’مولانا‘‘ بننے کے معیارات کا جائزہ بھی تھوڑی سی دیانت سے لکھ دیتے۔
یہ تو بے چارے اس آدمی کا حشر ہوا جس نے خود کو پروفیسر کہنے کی جسارت کر لی۔ مجھے تو مدیر صاحب! آپ کی خیریت نیک مطلوب ہے، بلکہ محبت میں تو اکثر یہ کہہ جاتا ہوں کہ ’’میں عمار ناصر خان کی خیریت نیک مطلوب چاہتا ہوں‘‘ جب مذہبی طبقے اور مولانا حضرات کے تبصرے آپ کے بارے میں سنتا ہوں۔ ہمارے مذہبی طبقے کو اب کوئی نوشتہ دیوار بھی نظر نہیں آتا۔ خدا خیر کرے!
محمد دین جوہر، صادق آباد