’’علامہ اقبال اور قادیانیت‘‘
انیسویں صدی کے آخر میں مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی ظلی نبوت کے عنوان سے برصغیر میں ایک نیا باب الفتن کھولا تو سادہ لوح عوام کو اس کے دجل وفریب سے آگاہ کرنے کے لیے اہل حق کو میدان میں آنا پڑا اور اہل علم نے علمی وتحقیقی اور مناظرانہ ومجادلانہ، ہر دو انداز میں پوری مستعدی سے قادیانی نبوت کی تاویلات وتحریفات کا پردہ چاک کیا۔ اہل دین کی کم وبیش پون صدی کی مسلسل جدوجہد قادیانی فرقے کو عالم اسلام میں قانونی اور آئینی سطح پر غیر مسلم قرار دینے پر منتج ہوئی۔ اس تحریک کی قیادت اور راہ نمائی بنیادی طور پر علما نے کی، تاہم اس کی کامیابی میں بہت سی ایسی شخصیات کا حصہ بھی کم نہیں جو روایتی مذہبی حلقے کی نمائندہ نہیں سمجھے جاتیں۔ ان شخصیات میں علامہ محمد اقبالؒ کا نام سرفہرست ہے۔
قادیانی گروہ نے اپنی معاشرتی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے لوگوں کو مذہبی تاویلات اور گورکھ دھندوں میں الجھانے کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی اور سماجی عوامل کا بھی سہارا لینے کی کوشش کی۔ برصغیر کی فضا مختلف مذہبی گروہوں کی طرف سے ایک دوسرے کی تکفیر کے واقعات سے مانوس تھی، جبکہ مرزا غلام احمد دعواے نبوت سے پہلے کئی سال تک ہندووں اور عیسائیوں کے مقابلے میں دفاع اسلام کے محاذ پر محنت کر کے اپنے حق میں ہمدردی کی فضا بڑے پیمانے پر پیدا کر چکے تھے، چنانچہ جب ان کے دعواے نبوت پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا تو ایک وقت تک ناواقف مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اسے روایتی مذہبی فتوے بازی ہی کا ایک نمونہ سمجھتی رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ نہ صرف انگریز سرکار بلکہ اسلام سے محض نسبت کا تعلق رکھنے والے نام نہاد لبرل طبقات کی ہمدردیاں بھی اس نوزائیدہ گروہ کو حاصل تھیں۔ اس تناظر میں علامہ اقبال جیسی قد آور اور معتبر ملی شخصیت کا قادیانی نبوت کے خلاف دو ٹوک اور واضح موقف اختیار کرنا ان تمام طبقات پر مذہبی علما کے موقف کا وزن واضح کرنے میں بے حد موثر ثابت ہوا جو کسی بھی وجہ سے اس معاملے میں تردد یا دو ذہنی کا شکار تھے۔
زیر نظر کتابچہ میں مولانا مشتاق احمد چنیوٹی نے، جو اس موضوع کے متخصص ہیں، قادیانیت کے بارے میں علامہ محمد اقبال کی تحریروں، گفتگووں اور بیانات کا ایک مختصر مگر نمائندہ انتخاب جمع کر دیا ہے جو اس حوالے سے ان کے زاویہ نظر اور استدلال کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اقبال کے طرز استدلال کا ایک امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے عقیدۂ ختم نبوت کے حوالے سے مسلمانوں کا مقدمہ خالص کلامی بنیاد پر پیش کرنے کے بجائے پنے مخاطب طبقات کی ذہنی رعایت سے، اس عقیدے کی اہمیت کو سماجی اصولوں کی روشنی میں واضح کیا اور یہ بتایا کہ بحیثیت ایک گروہ کے مسلمانوں کے مذہبی تشخص کی بنیاد اسی عقیدے پر ہے اور اس کی حفاظت کے لیے یہ ان کا مذہبی، اخلاقی اور جمہوری حق ہے کہ کسی نئی نبوت پر ایمان لانے والے گروہ کو ان کا حصہ سمجھنے کے بجائے ایک نیا مذہبی گروہ قرار دے کر قانونی اعتبار سے ان سے الگ کر دیا جائے۔ (ص ۱۶، ۱۷)
اسی طرح انھوں نے قادیانی گروہ پر زندقہ وارتداد کے روایتی فقہی احکام (یعنی سزاے موت) جاری کرنے کے بجائے جدید جمہوری تناظر میں یہ تجویز کیا کہ قادیانیوں کو ایک الگ جماعت تسلیم کر لیا جائے اور پھر مسلمان ان کے بارے میں ویسے ہی مذہبی اور معاشرتی رواداری سے کام لیں گے جیسے وہ دوسرے مذاہب کے بارے میں لیتے ہیں۔ (ص ۱۱) یہ بات اس پہلو سے بہت اہم اور حکیمانہ تھی کہ قانونی تکفیر کے باوجود اس سے آگے چل کر ان ہزاروں لوگوں کے لیے اسلام کی طرف واپسی کا راستہ کھلا رہتا جو مختلف وجوہ سے قادیانیت کے پرفریب جال کا شکار ہو کر جادۂ حق سے بھٹک گئے، جبکہ موجودہ صورت حال میں مسلمان مناظرین کے اختیار کردہ لب ولہجہ اور طرز استدلال نیز قادیانیوں کی نئی نسل کا مسلمانوں کے ساتھ اختلاط بالکل مفقود ہونے کی وجہ سے یہ راستہ کم وبیش بند دکھائی دیتا ہے، چنانچہ مرزا طاہر احمد کے دست راست حسن محمود عودہ نے بیس سال قبل اپنے قبول اسلام کے موقع پر ایک انٹرویو میں قادیانی امت کے اپنی گمراہی پر قائم رہنے کا ایک بڑا سبب اس چیز کو قرار دیا تھا کہ ان کی مسلمان علما تک رسائی نہیں ہے اور قادیانی قیادت اس خلیج کو برقرار رکھنے میں ہی اپنا بھلا سمجھتی ہے۔
بہرحال اس نازک مسئلے پر اقبال جیسے بالغ نظر مدبر کے نقطہ نگاہ اور طرز استدلال کو سمجھنے کے لیے زیر نظر کتابچہ بہت مفید ہے۔ ۳۲ صفحات پر مشتمل یہ مختصر رسالہ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ پاکستان کی طرف سے شائع کیا گیا ہے اور اسے جامعہ عربیہ چنیوٹ، مکتبہ سید احمد شہید، اردو بازار لاہور اور مکتبہ رشیدیہ، راجہ بازار راول پنڈی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
(محمد عمار خان ناصر)
’’مسلمان مثالی اساتذہ ، مثالی طلبہ‘‘
مولف: سید محمد سلیم
ناشر : زوار اکیڈیمی پبلی کیشنز، ۴۔۱۷ ناظم آباد نمبر ۴، کراچی
صفحات: ۱۳۶۔ قیمت: ۱۳۰ روپے
پروفیسر محمدسلیم نامور استاد ہیں۔ تنظیم اساتذہ پاکستان کے رہنماؤں میں سے ہیں۔ موضوع بالا پر ان کا قلم اٹھانا ان کا حق اور منصب ہے، کتاب طلبہ اور اساتذہ کے لئے رہنما حیثیت رکھتی ہے۔ مستند مواد کی مدد سے با کمال ترتیب پیش کی گئی ہے۔ اس میں ان کا قلم رسا بھی پوری شان کے ساتھ کار فرما ہے۔ میں نے ان کی پہلی ہی کتاب دیکھی ہے۔ اس لیے ان کے انداز نگارش سے شناسائی کا پہلا موقع ہے۔
مختصر سی کتاب ہے مگر اپنے اندر بے پناہ تاثیر رکھتی ہے۔ کتاب پڑھ کر، گردو پیش پر نظر ڈالی جائے تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ وہ اساتذہ اور طلبہ جن میں تدریس اور مطالعے کا جنوں اپنی معراج پر تھا، اب کہاں ہیں۔ تنظیم اساتذہ اور جمعیت طلبہ بھی اس طرح کے جنوں کو فروغ دینے کو اپنی ترجیحات میں رکھنے میں سنجیدہ نہیں رہیں۔ وہاں ٹریڈ یونین ازم چھا چکا ہے۔
کتاب میں بعض چیزیں البتہ کھٹکتی ہیں۔ ایک تو اختصار کی حدوں کے اندر رہ کر موضوع سے کافی زیادتی کی گئی ہے۔ حوالوں کا فقدان ہے۔ اقتباسات کتاب کو کافی معتبر بناتے ہیں مگر حوالہ جات کم ہی درج ہوئے ہیں۔ آخر پر مآخذ کی فہرست کفایت نہیں کر سکتی۔ حوالوں سے یہ بے نیازی سید صاحب کے مقام سے کچھ فرو تر ہے۔ اکیڈیمی کے سید عزیزالرحمن صاحب نے پیش گفتارمیں لکھا ہے کہ کتاب میں اشعار کی اصلاح کے لیے ایک صاحب کا تعاون حاصل کیا گیا۔ ہمارے نزدیک حوالوں کی تکمیل کے لیے بھی کسی کا تعاون حاصل کر لیا جاتا تو کتاب کا معیار اور بھی بہتر ہو جاتا۔
ایک اور کھٹکنے والی بات موضوع سے غیر متعلق مواد کا جزوِ کتاب ہو جانا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس پہلو سے میری رائے عمومی سطح پر سخت محسوس ہو۔ وجہ یہ ہے کہ پیشے کے لحاظ سے ہمارے ہاں ربط و تعلق کا زیادہ لحاظ رکھا جاتا ہے۔ غیر متعلق مواد کی چھانٹ ہمارے ہاں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ بہر صورت میری اس رائے کی درستی کا اندازہ کرنے کے لیے فہرست مضامین پر ایک نظر ڈالنا پڑے گی۔
بہرحال کتاب تدریس و مطالعے کا جنوں پیدا کرنے میں پورا اثر رکھتی ہے۔ اس سے مولف کے خلوص کا اعتراف کرنا پڑے گا۔کتاب اختصار کے باوجود اپنے مقصد کے لحاظ سے بڑی کامیاب کوشش ہے۔ پڑھ کر ہل من مزید کی طلب ہوتی ہے۔
(چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ)