اسلام خالق کائنات کی طرف سے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے آیا ہے۔ کائنات اور زمانہ ترقی پذیر ہے۔ اس کے تقاضے اور ضروریات ہر آن بدلتے رہتے ہیں۔ نئے نئے تقاضے اور پہلو سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس لیے قرآن وسنت میں اتنی گہرائی، وسعت اور ہمہ گیری قدرت نے پنہاں کر دی کہ قیامت تک ہر ہر زمانہ ومکان کی انسانی ضروریات کے لیے کافی ہوں، مگر قرآن وسنت کی گہرائی میں غواصی کر کے وقت کے تقاضوں میں ان سے رہبری حاصل کرنا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر صدی میں ایسے اشخاص رونما ہوتے رہے ہیں جو دین کو ہر طرح کی آمیزش، تحریف اور غلط تاویلات سے نکھار کر اسے اپنی اصل شکل وصورت میں لے آتے ہیں جیسے کسی بیش قیمت ہیرے پر سے گرد وغبار کو صاف کر دیا جائے تو وہ اصل حالت میں چمکنے دمکنے لگتا ہے اور مرور زمانہ کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
ان میں سے بعض شخصیات ایسی جامعیت وعبقریت لیے ہوتی ہیں کہ ان کی فکری اور دماغی قوت وبصیرت اپنے دور سے بہت بعد تک کے حالات کا احاطہ کر لیتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ وقت آ جاتا ہے تو ان کے علوم وافکار اور نتائج اجتہاد نکھر کر سامنے آتے ہیں۔ مثلاً شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے علوم وافکار سے اگرچہ محدود طور پر ہر زمانے میں اہل علم واقف تھے، مگر ان کی وفات کے تقریباً ۶۰۰ سال بعد سعودی عرب میں آل سعود کی حکومت قائم ہوئی جس نے حنبلی فقہ ومسلک کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ امام ابن تیمیہ کے اجتہادات کا وکیل اور ترجمان بن کر اپنے وسیع وسائل سے امام موصوف کی تمام کتب آب وتاب سے شائع کر کے دنیا بھر میں پھیلا دیں۔ اسی طرح امام ولی اللہ دہلویؒ (۲۱؍ فروری ۱۷۰۳-۲۰؍ اگست ۱۷۶۲ھ) کے افکار ونظریات ایک طویل زمانے تک زاویہ خمول میں رہے اور ان سے بس خاص خاص اہل علم ہی واقف تھے۔
امام ولی اللہ دہلوی کے متعلق مولانا شبلی نعمانی علم الکلام پر اپنی مایہ ناز تصنیف میں لکھتے ہیں:
’’ابن تیمیہؒ اور ابن رشد ؒ کے بعد بلکہ خود انھی کے زمانے میں مسلمانوں میں جو عقلی تنزل پیدا ہوا تھا، اس کے لحاظ سے یہ امید نہ رہی تھی کہ پھر کوئی صاحب دل ودماغ پیدا ہوگا، لیکن قدرت کو اپنی نیرنگیوں کا تماشا دکھلانا تھا کہ اخیر زمانے میں جبکہ اسلام کا نفس باز پسیں تھا، شاہ ولی اللہ جیسا شخص پیدا ہوا جس کی نکتہ سنجیوں کے آگے غزالی، رازی اور ابن رشد کے کارنامے ماند پڑ گئے۔‘‘(۱)
آپ کی پہلی کتاب آپ کی وفات سے تقریباً ۱۲۰ سال بعد ۱۸۸۰ء میں محدودتعداد میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد ۱۹۱۱ء میں مصر کے مشہور مطبع بولاق نے ’’حجۃ اللہ البالغہ ‘‘ شائع کی جس سے امام ولی اللہ دہلوی کا چرچا برصغیر سے نکل کر عرب دنیا میں شروع ہوا۔ بیسویں صدی کے آخر تک آپ کی بیشتر کتب برصغیر کے مختلف اداروں سے شائع ہو کر گھر گھر پہنچ چکی تھیں۔ جگہ جگہ آپ کے نام پر ادارے، اکیڈیمیاں اور ریسرچ سنٹر قائم ہوئے۔ آپ کے نام پر ایوارڈز کا سلسلہ شروع ہوا۔ برصغیر اور دنیا بھر کی یونیورسٹیوں نے آپ کے نام پر چیئرز اور تحقیقی شعبے قائم کیے۔ آپ کی فکر اور علوم پر وسیع کام شروع ہوا، حتیٰ کہ امریکہ کی ایک نومسلم اسکالر ڈاکٹر مارسیا کے ہرمینسن (Marcia K. Hermansen) نے آپ کی فکر پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا۔
حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کی حیات طیبہ سے قدر مشترک تین پہلو نمایاں ہوتے نظر آتے ہیں:
(۱) دینی علوم کو اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن وحدیث سے منسلک کرنا۔
(۲) نصوص شرعیہ سے استنباط واستخراج کے ذریعے احکام شرعیہ سے آگاہی اور معرفت کی راہ ہموار کرنا اور امت مسلمہ میں اجتہادی فکری بیداری پیدا کر کے اجتماعیت پر کھڑا کرنا۔
(۳) نصوص شرعیہ کے ذریعے فقہی احکام ومسائل میں جمع وتطبیق کی راہ ہموار کی جائے اور حتی الوسع مذاہب مشہورہ میں جمع وتطبیق پیدا کی جائے اور اختلاف کی وجہ سے جمع ممکن نہ ہوتو اس مذہب کو اختیار کیا جائے جو ازروئے حدیث زیادہ قوی اور قریب ہو۔ (۲)
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کی سب سے نمایاں خصوصیت جامعیت وتطبیق ہے۔ شیخ محمد اکرام کے بقول: ’’وہ اختلافی مسائل میں ایسا راستہ ڈھونڈتے ہیں اور اپنی علمی وسعت اور ذہانت کی مدد سے اکثر ایسا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس پر فریقین متفق ہو سکیں۔‘‘ (۳) شاہ صاحب خود اپنا مسلک یوں بیان کرتے ہیں کہ:
’’بقدر امکان جمع می کنم در مذاہب مشہورہ مثلاً : صوم وصلوۃ ووضوء وغسل وحج بوصفی واقع میشود کہ ہمہ اہل مذاہب صحیح دانند وعند تعذرالجمع باقوی مذاہب از روئے دلیل موافقت صریح حدیث عمل می نمایم‘‘۔ (۴)
اس کی مزید توضیح آپ کے درج ذیل قول سے نمایاں ہوتی ہے :
’’اس وقت جو امر حق ملا اعلیٰ کے علوم سے مطابقت رکھتا ہے، وہ یہ ہے کہ (فقہ حنفی وفقہ شافعی) دونوں کو ایک مذہب کی طرح کر دیا جائے۔ دونوں کے مسائل کو حدیث نبوی کے مجموعوں سے مقابلہ کر کے دیکھا جائے۔ جو کچھ ان کے موافق ہو، اس کو رکھا جائے اور جس کی کچھ اصل نہ ہو، اس کو ساقط کر دیا جائے۔ پھر جو چیزیں تنقید کے بعد ثابت نکلیں، اگر وہ دونوں میں متفق علیہ ہوں تو مسئلہ میں دونوں قول تسلیم کیے جائیں۔‘‘ (۵)
جہاں تک کہ اول الذکر مسئلہ کا تعلق ہے توحضرت شاہ صاحب ؒ سے قبل برصغیر پاک وہند میں علماء کرام کا دستور یہ تھا کہ پہلے تو قرآن حکیم کومحض تلاوت کی خاطر پڑھا دیتے اور پھر اگر انہی طلبہ کو قرآن کے مطالب ومعانی کی تعلیم دینا مقصود ہوتا تو جس فن سے خود انہیں دلچسپی اورلگن ہوتی، اس فن کے نقطہ نظر سے قرآن مجید کی جو تفسیر وتشریح وہ مناسب جانتے ، انہیں پڑھا دیتے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ طلبہ کے نزدیک قرآن شریف صرف اسی فن کی ایک اعلیٰ کتاب بن جاتی اور اس سلسلے میں جو خیالات اورتصورات استاد کے ذہن میں پہلے سے موجود ہوتے ، تفسیر پڑھنے سے وہی باتیں طلبہ کے ذہنوں میں نقش ہو جاتیں بلکہ وہ اور راسخ ہو جاتیں۔ حضرت شاہ صاحب ؒ نے اس رجحان سے ہٹ کر متن قرآن کو شروع تا آخر بڑی تحقیق اور بصیرت کے ساتھ پڑھا دیتے جس سے طلبہ کی قرآن کے جملہ مطالب اور معانی تک براہ راست رسائی اورپیغام قرآن سے مجموعی طور پر آشنائی ہو جاتی ،بجائے اس کے کہ متن قرآن محض تلاوت کی غرض سے پڑھا جائے یا کسی خاص فن کی تحصیل کے لیے قرآن کے مطالب تفسیر کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ حضرت شاہ صاحب ؒ اپنی جستجو اورکاوش میں کافی حد تک کامیاب رہے اور برصغیر پاک وہندمیں قرآن وحدیث کا سلسلہ تدریس وتصنیف کی صورتوں میں جاری رکھا جو وسیع تر ہوتا گیا اور اپنی نوعیت کی ایک مثال بن کر منظر عام پر آیا۔ مزید برآں حضرت شاہ صاحب ؒ کے زمانے میں ہندوستانی مسلمانوں کی رسمی زبان فارسی تھی۔چنانچہ آپ نے قرآن کریم کے متن کا ہندوستانی مسلمانوں کے لیے قابل فہم بنانے کی خاطر ’’ فتح الرحمن‘‘ کے نام سے فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ اس پر مستزادیہ کہ شاہ صاحب ؒ نے قرآن مجید کے مطالب کو ا س شکل میں پیش کرنے پر صرف اکتفا نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اپنے صحبت یافتہ لوگوں میں سے اس طریقے پر سوچنے والی ایک جماعت بھی پید اکر دی۔
علم حدیث کے مطالعہ اور اس کی تحقیق کے ضمن میں عام طور پر اہل علم میں جو ناہمواریاں اور خرابیاں پیدا ہوگئی تھی، ان کو دور کرنے کے لیے بھی شاہ صاحب نے بہت کام کیا۔ حدیث شریف میں اس طرح سے تحقیق کاسلسلہ بہم کرنے کامیلان مسلمانوں میں مدتوں سے ناپید تھا اور خاص طور پر تیسری صدی ہجری کے بعد تو اس کی مثال کہیں مشکل سے ملتی ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے محققین محدثین پیدا کرکے سلف کے طریقے کو زندہ کر دیا۔
یہ بات بھی بعید از فہم نہیں کہ لوگوں میں حدیث شریف کے معاملے میں زیادہ تر ذہنی اختلال اس وجہ سے ہوا کہ فن حدیث میں محض تقلید سے کام لیا جاتا اور خاص طور پر کسی حدیث کی صحت جانچنے کے لیے تو تمام تر دوسروں کی رائے پر ہی اکتفا کیا جاتا۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے محسوس کیا کہ یہ کام مشکل ہو گیا ہے، کیوں کہ ایک تو راویوں کے طویل سلسلے کو پرکھنا اور جانچنا ہوتا ہے ، اس میں مزید الجھن یہ پڑتی ہے کہ ان رواۃ کے متعلق ’’ اسما ء الرجال‘‘ والوں کی آراایک سی نہیں۔ کسی راوی کو اسماء الرجال کا ایک نقاد ضعیف قرار دیتاہے ، لیکن دوسرا اس کی ثقاہت کا دعوے دارہے۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ صحیح حدیث کی تعریف میں کئی آرا ہیں ۔ یہ دشواریاں ہیں جو علم حدیث کے متعلق طلبہ میں کوئی ملکہ پیدا نہیں ہونے دیتیں۔ نتیجتاً طلبہ مجبوراً حدیث شریف کو چھوڑ کر فقہ پڑھتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب ؒ نے بڑی جانکاہی سے اس مرض کی تشخیص کی اور پھر اس کے ازالہ کے لیے نصاب تیار کیا اور کے مطابق تعلیم دینا بھی شروع کر دی۔
احادیث کی تدریس میں امام ولی اللہ دہلویؒ کا طریقہ جو آپ نے موطا امام مالک کی عربی وفارسی شروح ’المسویٰ‘ اور ’المصفیٰ‘ میں اختیار فرمایا تھا، جاری رہتا تو بڑی حد تک فقہی اختلافات کی شدت اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی ہی میں ختم ہو جاتی اور ملت اسلامیہ کے عوام الناس کے لیے دین پر چلنے کی ایک متفقہ شاہراہ سامنے ہوتی۔ مگر بدقسمتی سے حضرت شاہ ولی اللہؒ کے فوراً بعد ہندوستان کا علمی مرکز ثقل دہلی سے لکھنو منتقل ہو گیا جہاں غالی اہل تشیع کی حکومت نے قرآن وحدیث کے درس کو ختم کرنے اور معقولات کی ترویج کی ہر امکانی کوشش کی۔ خود دہلی میں ابو المنصور صفدر جنگ نے مغلیہ سلطنت پر غاصبانہ قبضہ کر کے یہی کچھ کیا۔
جہاں تک کہ مختلف فقہی مذاہب اور ان کے پیروکاروں کے جمود کا تعلق ہے تو شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ لوگوں کے مختلف اقوال کو شدّومدّکے ساتھ بیان کرنا، ایک مخصوص شخص کے مذہب پر فتویٰ صادر کرنا، اس کے قول کو اختیار کر کے اسی کے مذہب و مسلک پر اعتماد کرنا پہلی اور دوسری صدی ہجری کے مسلمانوں کا دستور یا وطیرہ نہ تھا۔ (۶) پھر فرماتے ہیں کہ یہی صورت ایک زمانہ میں اہل ایمان کو پیش آئی کہ مخصوص مسلک کے پیروکار ہونے کی وجہ سے باہمی منازعت شدت اختیار گئی اور لوگوں کے دلوں سے قرآن وحدیث کے صحیح فہم وادراک کی امانت رخصت ہوئی اور وہ تقلیدمیں پڑکر دین کے معاملے میں غوروفکر سے بیگانہ ہو گئے۔ اب ان کے لیے یہ امر ہی باعث تسکین تھا کہ یہی سب ہمارے آبا و اجداد بھی کیا کرتے تھے اورہم انہیں کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔ (۷)
شاہ صاحب نے تقلید جامد کی مخالفت اور شدید مذمت کی اور تقلید کے ضمن میں ارباب فقہ کے غلو کو توڑنے کی کوشش فرمائی۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ اس وقت عالم اسلام کے ہر علاقے میں لوگ متقدمین کے فقہی مذاہب میں سے کسی ایک خاص مذہب کی پابندی کرتے ہیں اور اس سے خروج کو، چاہے وہ کسی ایک آدھ مسئلے میں ہی ہو، ملت سے نکل جانے کے مترادف سمجھتے ہیں، یوں جیسے اس مذہب کا امام کوئی نبی مبعوث ہو جس کی طاعت ان پر فرض کی گئی ہو۔ (۸) چنانچہ آپ نے لوگوں میں تقلید کے جمود کو توڑنے کے لیے اور نصوص شرعیہ میں اجتہادکی ضرورت کے پیش نظر آپ نے حدیث کے مطالعے اور اس کی تحقیق پر کافی زور دیا ہے۔آپ نے تعصب کو بھولے سے بھی پاس نہ پھٹکنے دیا اور تفریع الفروعات اور تخریج المخرجات میں عدل وانصاف کے دامن کو ہاتھ سے کبھی نہ جانے دیا۔ (۹)
حضرت شاہ صاحب ؒ نے مروجہ تقلید پر شدید تنقیدیں بھی کی ہیں کہ لوگوں میں علمی شعور ومناسبت کم ہوگئی ہے۔ وہ قرآن وحدیث کے مقابلے میں عام اور غیر معصوم بشری آرا و اقوال کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ کہہ دیتے ہیں کہ ’’ چونکہ یہ قول ہمارے امام، مقتدا اور پیشوا کا ہے، لہٰذا یہ درست اور حرف آخر ہے ‘‘۔ اس صورت حال پر حضرت شاہ صاحب ؒ نے اپنی تصانیف میں سخت رد عمل ظاہر کیا (۱۰) بلکہ جب لوگوں میں یہ شدت مزید بڑھتی دیکھی تو اسے دین قیم میں تحریف کے اسباب میں شمار کیا، کیوں کہ لوگ دین حنیف کی اصل صورت سے اتنے بیگانہ اور دور گئے ہیں کہ غیر معصوم افراد کے ذہنی تخیلات اور تصورات کو اہمیت دیتے ہوئے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور حقیقی اسلامی مآخذ کو ترک کر دیتے ہیں۔ (۱۱)
شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ امت مسلمہ میں یہ ذوق اور جذبہ اجا گر کرنا چاہیے کہ نصوص شرعیہ سے متفقہ طرق کے ذریعے راہنمائی حاصل کی جائے اور اس لحاظ سے صحابہ کرامؓ کو ایک مضبوط اتھارٹی سمجھا جائے۔ ہاں، اگر ان میں بھی اختلاف رائے نظر آئے تو پھر اصل نصوص شرعیہ کی طرف رجوع کرنے میں ہی بہتری ہے۔ فرماتے ہیں:
’’چون صحابہ مختلف شوند و مأخذ اقوال ایشان از کتاب و سنت ظاہر شود تأمل درآن مأخذ باید کرد و ازان جہت باب ترجیح باید کشاد‘‘ (۱۲)
’’جب کسی مسئلے میں صحابہ کرامؓ کا آپس میں اختلاف ہو، نیز ان کے اقوال کے مأخذ قرآن و سنت سے ظاہر ہو جائیں تو اس صورت میں مأخذ ہی پر غور و فکر کیا جائے ۔ اس سے کسی چیز کو راجح اور وزنی قرار دینے کا راستہ کھلے گا۔‘‘
شاہ صاحب نے دیکھا کہ نصوص شرعیہ سے امت مسلمہ بے بہرہ ہو کر رہ گئی ہے جو کہ ایک خطرناک اورگھمبیر صورت حال ہے۔ لوگ اسلام کے بنیادی مآخذ سے دور ہو چکے ہیں اور ان کے رہنما وپیشوا اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے کی بجائے گمراہی وضلالت کی طرف لیے گامزن ہیں۔ اس کی سب سے بڑی اوراہم وجہ اجتہاد سے عدم التفات ہے۔ ان دنوں برصغیر میں وعاظ اور مبلغین کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنی تقاریر میں بے محابہ موضوع اور محرف احادیث بیان کرتے تھے جس سے سادہ لوح، ضعیف اور رکیک القلب افراد دین اسلام سے اچھی طرح واقف نہ رہے تھے۔ (۱۳)
حضرت شاہ صاحب ؒ کے دورکا آج کے دورکے ساتھ تقابل کیا جائے تو بآسانی کہا جا سکتا ہے جو چیزیں حضرت شاہ صاحب ؒ نے تجویز فرمائی تھی، بجا طور پر درست تھیں۔ خصوصاً عصر حاضر میں اختلافات کی شدت کم کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ زمین کی طنابیں کھینچ دی گئی ہیں اور پوری دنیا ایک بستی (گلوبل ولیج) بن چکی ہے اور پوری دنیا پر اہل شر وفساد اور معاندین اسلام کا پوری طرح تسلط قائم ہو چکا ہے۔ ان احوال میں فروعی اختلافات اور مسلک وذوق کے اختلافات میں فکر ولی اللہی کے مطابق اعتدال وتوازن اور وسعت ظرفی کے ساتھ تطبیق کی اشد ضرورت ہے۔ یہ اس دور کا اہم تقاضا ہے کہ فروعی اختلافات میں شدت کو ختم کر کے دین کو ایک متفقہ لائحہ عمل کے طور پر سامنے لایا جائے۔
حوالہ جات
۱۔ شبلی نعمانی: علم الکلام والکلام، ( نفیس اکیڈمی ، اردو بازار ، کراچی، ۱۹۷۹ء) ،ص۸۷
۲۔ شاہ ولی اللہ : انصاف فی بیان سبب الاختلاف، (محکمہ اوقاف ، لاہور، ۱۹۷۱ء )ص۷۰
۳۔شیخ محمد اکرام : رود کوثر،( ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور،۱۹۹۷ء) ص ۵۳۶
۴۔ رحیم بخش :حیات ولی ،( مکتبہ سلفیہ ، لاہور، ۱۹۵۵ء) ص۲۹۶
۵۔ شیخ محمد اکرام :رود کوثر ،ص ۵۸۲ ۶۔شاہ ولی اللہ : الانصاف فی بیان سبب الاختلاف، ۴۱
۷۔ المرجع السابق، ص۶۶ ۸۔ شاہ ولی اللہ : تفہیمات الہیہ،( مدینہ برقی پریس، بجنور) ۱/ ۲۰۹ ۔۲۱۰
۹۔ شاہ ولی اللہ :حجۃ اللہ البالغہ ،( المکتبۃ السلفیہ، لاہور، سن ندارد ) ۱؍۱۰
۱۰۔ شاہ ولی اللہ : عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید، (مطبع مجتبائی ،دہلی ، سن ندارد)۷۱۔۷۲
۱۱۔ شاہ ولی اللہ : حجۃ اللہ البالغہ،۱؍۱۲۱ ۱۲۔شاہ ولی اللہ : المصفی فی احادیث موطا ( مکتبہ رحیمیہ، دہلی، سن ندارد ) ۱؍۲۷
۱۳۔ شاہ ولی اللہ : تفہیمات الہیہ، ا؍۱۵