مکاتیب

ادارہ

(۱)

ڈیئر عمار خان ناصر صاحب

امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ خداوند تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو۔

عرض یہ ہے کہ پڑھنے کے لیے اتنا کچھ سامنے پڑا ہوتا ہے کہ زندگی اور اس کے تمام لمحات انتہائی قلیل دکھائی دیتے ہیں۔ مجبوراً انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ روایتی مذہبی میگزین یا رسالوں کے لیے تو کوئی گنجائش نہیں نکلتی، لیکن آپ کا ’الشریعہ‘ جب ہاتھوں میں آتا ہے تو نہ نہ کرتے ہوئے بھی محض ورق گردانی کے دوران اس کے بیشتر حصے پڑھتا چلا جاتا ہوں۔ یہ آپ کے میگزین کی خوبی یا دلچسپی ہے کہ چھٹتی نہیںیہ کافر منہ کو لگی ہوئی۔ آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ ہر ماہ مجھے یہ دارو فی سبیل اللہ ارسال فرما دیتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ میں آپ ہی کا نہیں، آپ کے باپ دادا کا بھی قدیمی ماننے والاہوں۔ ویسے آپ کے والد محترم بڑے خطرناک آدمی ہیں۔ ہم نئی نسل کو جس مذہبیت سے بچانے کے لیے کوشاں ہیں، روایتی علماء دین ہمارے کام کو جس قد سہل بناتے ہیں، آپ کے والد محترم عصری تقاضوں سے آگہی اورشعوری ہتھیاروں کی کارفرمائی سے اسے اتنا ہی مشکل بنا دیتے ہیں۔ بہرحال ناچیز ان کے انسانی جذبے کو سلام پیش کرتا ہے۔

محترم عمار صاحب! آج مجھے آپ سے بات کرنے کے لیے کاغذ قلم کا سہارا س لیے لینا پڑا ہے کہ مجھے آپ کے حالیہ شمارے کے دو مضامین بہت پسند آئے ہیں۔ ایک ’’موجودہ عیسائیت کی تشکیل تاریخی حقائق کی روشنی میں‘‘ اور دوسرا ’’خواجہ حسن نظامی کی خاکہ نگاری‘‘ جس کے لیے ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری کے ساتھ پروفیسر میاں انعام الرحمن بھی لائق تحسین ہیں۔ عمران چوہان صاحب نے ڈین براؤن کے ناول ’’دا ڈاونچی کوڈ‘‘ کے جس حصے کا انتخاب کیا ہے، یہ یقیناًخوب صورت کاوش ہے۔ اس اتنی بڑی کاوش یا جسارت پر میں جناب کی خدمت میں ایک سوال رکھنا چاہتا ہوں کہ جسے اپنے نظریے اور شعورکی سچائی پر کامل اعتماد یا ایقان ہوتا ہے، کیا اسے شدید ترین تنقید یا اعتراضات کی بوچھاڑ سے گھبرانا چاہیے؟ ’’دا ڈانچی کوڈ‘‘ لکھنے پر جناب ڈین براؤن کی حقیقت بیانی وحقیقت نگاری ہی ہمارے سامنے نہیں آتی ہے، بلکہ مغربی تہذیب ومعاشرت کی عظمت اور مسیحیت کے جذبہ برداشت کو بھی داد دینی پڑتی ہے۔ مغرب میں حریت فکر اور آزادئ اظہار رائے کو سامنے رکھ کر جب میں اپنی سوسائٹی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے یہ بونوں کی سوسائٹی دکھائی دیتی ہے۔ 

آپ کی خدمت میں میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہماری مسلم سوسائٹی اپنے کسی ڈین براؤن کو ’’دا ڈاونچی کوڈ‘‘ لکھنے کی اجازت دے سکتی ہے؟ مجھے معلوم ہے آپ کا فوری جواب یہ ہوگا کہ ہمارے ہاں تو کوئی ’’قسطنطین‘‘ ہوا ہی نہیں۔ ہماری تو ہر چیز ’’لاریب‘‘ ہے۔ جب ہم راسخ العقیدہ مسیحیوں کو ملتے ہیں تو ان کے احساسات یا تعصبات بھی اسی نوع کے ہوتے ہیں۔ آخر دنیا میں کون سا ایسا مذہبی شخص ہے جس کو اپنے مذہب سے پیار نہ ہو اور جسے اپنے عقیدے کی سچائی پر ایمان کامل نہ ہو؟ بحیثیت مسلمان میں بھی یہی کہوں گا کہ میرا مذہب کائنات کا سب سے پکا سچا دین ہے اور یہ آخری دین ہے۔ گزارش صرف یہ ہے کہ اگر ہمارا ایمان واعتماد اتنا پختہ ہے تو پھر ذرا ذرا سی بات پر آگ بگولا کیوں ہو جاتے ہیں؟ مغرب میں سیدنا مسیح (Jesus) کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا، لکھا اور دکھایا جا رہا؟ آفرین ہے اس سوسائٹی پر کہ وہ تو اس پر کہیں آپے سے باہر نہیں ہو رہی۔ شعور انسانی کی عظمت پر اس قدر مطمئن ہے کہ ہر منطقی وغیر منطقی سوال یا استدلال کو خندہ پیشانی سے قبول کرتی ہے اور ہم ہیں کہ محض عقیدے کی بنیاد پر دنیا کو آگ لگا کربھسم کر دینا چاہتے ہیں۔ کوئی ہمارے عقیدے میں آئے تو مولفۃ القلوب کا حق دار ٹھہرے اور واپس جائے تو گردن زدنی قرار پائے! اس پر ابدی دعویٰ یہ ہے کہ دنیا میں ہم سے زیادہ عادل وروادار کوئی پیدا نہیں ہوا۔

اگر آج ہمارے درمیان کوئی سرپھرا یہ جائزہ لینا چاہے کہ پیغمبر اسلام اور قرآن نے جو کچھ چودہ سو سال پہلے پیش فرمایا، اس کی تمام تر جڑیں اس دور کے عرب کلچر اورعرب سوسائٹی سے پھوٹتی ہیں، کوئی ایک چیز بھی زمان ومکان سے ہٹ کر نہیں ہے تو کیا میں اور آپ ایسے شخص کو اس نوع کے جائزے لینے اور ان کی تفصیلات پیش کرنے کی اجازت دیں گے؟ نوم چومسکی کو ہمارے یہاں بڑا ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ اصل ہیرو وہ مغربی سوسائٹی اور اس کے خواص وعوام ہیں جہاں چومسکی دھڑلے سے وہ سب کچھ کہہ رہا ہے اور کوئی اس کی طرف غلط نظر ڈالنا بھی جائز نہیں سمجھتا۔ کیا کوئی مسلم سوسائٹی اپنے درمیان کسی نوم چومسکی یا ڈین براؤن کو قبول اور برداشت کرنے کے لیے تیار ہے؟ مجھے، آپ کو اور ہماری قوم کو آج یہی سوال درپیش ہے کہ ہم اپنی مسلم سوسائٹی کی شعوری سطح اتنی بلند کیسے اور کب کر پائیں گے؟

آج پوری دنیا ہم مسلمانوں سے اور ہمارے عقیدے سے خوف زدہ ہے۔ پوری دنیا کو ہم نے آگے لگایا ہوا ہے، لیکن دعویٰ یہ ہے کہ ہم توپیدا ہی انسانوں سے محبت کی خاطر ہوئے ہیں۔ میں اس وقت پوری دنیا میں بدمعاشی، قتل وغارت گری اور دہشت گردی کے پیچھے اپنی اس عدم برداشت اور رواداری کے فقدان کو دیکھ رہا ہوں۔ جس روز فکری آزادی کو ہم نے انسانیت کی مسلمہ مثبت واعلیٰ قدر کی حیثیت سے مان لیا، اس روز دنیا میں قیام امن کو کوئی نہیں روک سکے گا۔

افضال ریحان

۴۱۔ جیل روڈ، لاہور

(۲)

محترم المقام جناب حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! مزاج گرامی بخیر 

ماہنامہ الشریعہ کا گذشتہ پانچ سال سے باقاعدہ قاری ہوں۔آپ نے آزادانہ علمی بحث کے ذریعے مسائل کو سمجھنے کا بہترین طریقہ اختیار فرمایا ہے جو انتہائی قابل قدر ہے اور اس سے ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے کا بہت اچھا فائدہ حاصل ہوا ہے۔ ماہنامہ الشریعہ کا نومبر، دسمبر ۲۰۹ء کا مشترکہ شمارہ میرے سامنے ہے۔ مکاتیب کے عنوان تلے صفحہ۱۱۵ پر برادر مکرم جناب عمار خان ناصرزید مجدہم کے نام کامرہ کلاں ضلع اٹک سے سید مہر حسین بخاری صاحب کا ایک خط شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’’میں شیعہ کے کفر کا قائل نہیں جیسے صوفی عبد الحمید سواتی ؒ قائل نہ تھے‘‘۔ حضرت صوفی عبد الحمید سواتیؒ شیعہ کے علی الاطلاق کفر پر تحفظات رکھتے تھے، لیکن شیعہ اثنا عشریہ کے متعلق ان کا وہی عقیدہ تھا جو حضرت صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے استاذ امام اہل سنت حضرت مولانا علامہ عبد الشکور لکھنوی فاروقیؒ کا تھا۔ بخاری صاحب اگلی لائن میں لکھتے ہیں کہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب شیعہ کو زیادہ سے زیادہ بدعتی کہتے ہیں، کافر نہیں کہتے حالانکہ رابطۃ العالم الاسلامی کے ایک اجلاس میں مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدہم نے شیعہ نمائندہ کے ساتھ بیٹھنے سے انکار اور خمینی کے کفر کا اظہار بھی کیا تھا۔ میری معلومات کے مطابق شیخ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کے تحفظات بھی علی الاطلاق کفر پر ہیں، شیعہ اثنا عشریہ کو وہ بھی کافر سمجھتے ہیں۔میں نہیں سمجھتا کہ وہ اپنے والد گرامی قدر مفتی اعظم حضرت مفتی محمد شفیعؒ کے اس فتویٰ سے جو فتاویٰ دارالعلوم دیوبند کی جلد نمبر۲صفحہ نمبر ۵۰۶ پر درج ہے، روگردانی کریں گے۔

اگلے پیرے میں سید مہر حسین بخاری صاحب لکھتے ہیں کہ’’ اگرچہ بعض کتب شیعہ میں تحریف قرآن کی روایات پائی جاتی ہیں لیکن شیعہ اپنی عقائد کی کتابوں میں تحریف کے قائل نہیں‘‘۔ دلیل دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ’’ جیساکہ قرآن مجید کی متعدد تفاسیر شیعہ علماء نے لکھی ہیں‘‘۔

جناب والا!یہی وہ الفاظ ہیں جو آپ کو خط لکھنے کا سبب بنے ہیں۔ ایک سنی مسلمان ہونے کے ناتے اپنے مذہب کا دفاع ضروری سمجھتا ہوں اور آپ کے مؤقر جریدہ کے ذریعے سید مہر حسین بخاری صاحب کی یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں کہ’’ شیعہ عقائد کی کتابوں میں تحریف کے قائل نہیں‘‘۔ یہ محض جھوٹ اور دھوکہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ شیعہ اثنا عشریہ کی بنیادی اور مسلمہ کتابوں کے مطالعہ سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اثنا عشریہ کا عقیدہ یہ ہے کہ موجودہ قرآن محرف ہے، اس میں اسی طرح تحریف ہوئی ہے جیسی اگلی آسمانی کتابوں تورات، انجیل وغیرہ میں ہوئی تھی، وہ بعینہ وہ کتاب اللہ نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبرئیل امین کے واسطے سے نازل فرمائی گئی تھی۔اثناعشریہ کی حدیث کی ان کتابوں میں جن میں ائمہ معصومین کی روایات جمع کی گئی ہیں اور جن پر شیعہ مذہب کا دارومدار ہے، خود ان کے اکابرین، محدثین ومجتہدین کے بیانات کے مطابق دوہزار سے زیادہ ائمہ معصومین کی وہ روایات ہیں جن سے قرآن کا محرف ہونا ثابت ہوتا ہے اور ان کے ان علماء ومجتہدین نے جو اثنا عشری مذہب میں سند کا درجہ رکھتے ہیں، اپنی کتابوں میں اعتراف کیا ہے کہ یہ روایات متواتر ہیں اورتحریف قرآن پر ان کی دلالت صاف اور صریح ہے جس میں کوئی ابہام واشتباہ نہیں ہے اور یہ کہ یہی ہمارا عقیدہ ہے اور تیسری صدی ہجری کے آخر بلکہ چوتھی صدی ہجری کے قریباً نصف تک پوری شیعہ دنیا کا یہی عقیدہ رہا۔ اس صدی کے قریباً وسط میں سب سے پہلے صدوق ابن بابویہ قمی (متوفی ۳۸۱ھ) نے اور اس کے بعد پانچویں صدی ہجری میں شریف مرتضیٰ (متوفی ۴۳۶ھ) اور شیخ ابو جعفر طوسی(متوفی ۴۶۰ھ) نے اور چھٹی صدی ہجری میں علامہ طبرسی مصنف ’’تفسیر مجمع البیان‘‘ (متوفی ۵۴۸ھ) نے اپنا یہ عقیدہ ظاہر کیا ہے کہ وہ قرآن کو عام مسلمانوں کی طرح محفوظ اور غیر محرف مانتے ہیں، لیکن شیعہ نے ان کی اس بات کو قبول نہیں کیابلکہ ائمہ معصومین کی متواتر اور صریح روایات کے خلاف ہونے کی وجہ سے رد کردیا۔ 

مختلف زمانوں میں شیعوں کے اکابر واعاظم علماء ومجتہدین نے قرآن کے محرف ہونے کے موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔اس سلسلے کی سب سے اہم کتاب شیعوں کے ایک بڑے مجتہد اور خاتم المحدثین علامہ حسین محمد تقی نوری طبرسی کی کتاب ہے جس کا نام ’’فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب‘‘ ہے۔ یہ عربی زبان میں باریک قلم سے لکھی ہوئی ۳۹۸ صفحات پر مشتمل کتاب ہے۔ اس کے مصنف نے یہ بات ثابت کرنے کے لیے کہ قرآن میں ہر طرح کی تحریف ہوئی ہے، دلائل کے انبار لگادیے ہیں۔اس کے علاوہ مصنف نے ان کتابوں کی طویل فہرست دی ہے جو مختلف زمانوں میں شیعہ اثنا عشریہ کے اکابر علماء ومجتہدین نے قرآن کو محرف ثابت کرنے کے لیے لکھی ہیں۔اس کتاب کا مطالعہ کرلینے کے بعد اس میں شک نہیں رہتا کہ شیعہ کا عقیدہ قرآن پاک کے بارے میں یہی ہے کہ اس میں تحریف ہوئی ہے اور ہر طرح کی تحریف ہوئی ہے۔ شیعہ کے جن علماء ومصنفین نے تحریف کے عقیدہ سے انکار کیا، اس کی سمجھ میں آنے والی کوئی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے یہ انکار کچھ مصلحتوں کے تقاضے سے کیا ہے (یعنی تقیہ کیا ہے)۔ سید نعمت اللہ الجزائری جنہیں شیعی دنیا میں نہایت بلند پایہ عالم ومصنف،جلیل القدراور عظیم المرتبت محدث وفقیہ اور ملا باقر مجلسی کا خصوصی اور قابل اعتماد شاگرد مانا جاتا ہے، بڑی صفائی کے ساتھ لکھتے ہیں کہ 

’’والظاہر ان ہذا القول صدر منہم لاجل مصالح کثیرۃ .... کیف وھؤلاء رووا فی مؤلفاتھم اخباراً کثیرۃ تشتمل علیٰ تلک الامور فی القرآن وان الآیۃ ھکذ انزلت ثم غیرت الیٰ ھذا‘‘ (الانوار النعمانیہ صفحہ ۳۵۷جلد۲)
ترجمہ: ’’اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ ہمارے ان حضرات (شریف مرتضیٰ، صدوق،شیخ طبرسی)نے یہ بات بہت سی مصلحتوں کی وجہ سے (اپنے عقیدہ اور ضمیر کے خلاف) لکھی ہے۔یہ ان کا عقیدہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ خود انہوں نے اپنی کتابوں میں بڑی تعداد میں وہ حدیثیں روایت کی ہیں جو بتلاتی ہیں کہ قرآن میں مذکورہ بالا ہر طرح کی تحریف ہوئی ہے اوریہ کہ فلاں آیت اس طرح نازل ہوئی تھی،پھر اس میںیہ تبدیلی کردی گئی۔‘‘

آخر میں ایک عبارت ایسی نقل کررہا ہوں جس سے شیعہ کے اکابر علماء ومشائخ کے تحریف قرآن کے متعلق عقیدہ کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ ملا محسن فیض کاشانی اپنی مایہ ناز تفسیر ’’تفسیر صافی‘‘ کی پہلی جلد میں مقدمہ نمبر۶ کے تحت لکھتے ہیں :

واما اعتقاد مشائخنا فی ذالک فالظاہر من ثقۃ الاسلام محمد ابن یعقوب الکلینی طاب ثراہ انہ کان یعتقد التحریف والنقصان فی القرآن وکذالک استاذہ علی ابن ابراہیم القمی فان تفسیرہ مملوء منہ ولہ غلو فیہ وکذالک شیخ احمد بن ابی طالب الطبری فانہ ایضاً نسخ علی منوالھما فی کتاب الاحتجاج (تفسیر صافی صفحہ ۳۴جلد۱مطبوعہ ایران)
ترجمہ:’’جہاں تک تحریف کے بارے میں ہمارے مشائخ کا اعتقاد ہے تو یہ بات ظاہر ہے کہ محمد بن یعقوب کلینی قرآن مجیدکی تحریف اور اس میں کمی واقع ہوے کا عقیدہ رکھتے تھے اور اسی طرح ان کے استاذ علی بن ابراہیم قمی کیونکہ ان کی تفسیر تو تحریف روایات سے بھری ہوئی ہے اور تحریف کے موضوع پر ان کے ہاں بڑی شدت ہے۔ اسی طرح احمد بن ابی طالب طبرسی بھی اپنی مشہور کتاب ’’الاحتجاج‘‘ میں انہی کے طریق پر چلے ہیں‘‘۔

اب اس عبارت کے بعد بھی کیا یہ بات باقی رہ جاتی ہے کہ شیعہ عقائد کی کتابوں میں تحریف کے قائل نہیں اور شیعہ کے اکابر واعاظم نے تحریف قرآن کے قائل ہونے سے انکار کیا ہے؟

میں طوالت کے پیش نظر یہاں ’’فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب‘‘ کی عبارتیں نقل نہیں کررہا بلکہ سید مہر حسین بخاری صاحب کی خدمت میں عرض گذار ہوں کہ وہ بنظر عمیق اس کتاب کا مطالعہ فرمالیں۔ اگر یہ نہیں کرسکتے تو کم ازکم اپنے اکابر علماء اہل سنت کی رد شیعیت پر مشتمل کتب کا مطالعہ کرلیں۔ اس حوالے سے امام اہل سنت حضرت علامہ عبد الشکور لکھنوی فاروقی ؒ کی’’ تنبیہ الحائرین‘‘، شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی ’’شیعہ سنی اختلافات اور صراط مستقیم‘‘ اور امام اہل سنت حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی کتاب ’’ارشاد الشیعہ‘‘ کا مطالعہ بہت مفید رہے گا۔ 

باقی یہ کہنا کہ تحریف قرآن کی لچر اور بیہودہ روایات تو بعض کتب اہل سنت میں بھی موجود ہیں تویہ صرف اور صرف کذب بیانی اور جہالت پر مبنی بات ہے۔ ناسخ اور منسوخ کی روایات کو تحریف قرآن کی روایات پر محمول کرنا جہالت نہیں تو اور کیا ہوسکتا ہے؟ اگر کسی مفسر یا مصنف نے ناسخ ومنسوخ یا اسی طرح قراء ات شاذہ کی روایات کو تحریف کی روایات کہا تو وہ سنی نہیں، بلکہ اس نے سنی بن کر مذہب اہل سنت کو بدنام کرنے اور بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ شیعہ کے ہاں ناسخ ومنسوخ کی روایات نہیں ہیں، جیساکہ فصل الخطاب نوری طبرسی میں لکھا ہے کہ’’ان نسخ التلاوۃ غیر واقع عندنا‘‘ (فصل الخطاب نوری طبرسی صفحہ ۱۰۶)۔

اہل سنت کی عقائد کی کتابوں میں شیعوں کو اسلامی فرقہ شمار نہیں کیا گیا۔ اگر کیا گیا ہے تو ہم اسے محدث عظیم حضرت سید انور شاہ کاشمیریؒ کی کتاب فیض الباری میں منقول اس عبارت من لم یکفرہم لم یدر عقائدہم (جن حضرات کو ان کے عقائد کا علم نہیں ہو سکا، انہوں نے ان کی تکفیر نہیں کی) پر محمول کرتے ہیں۔یہ کہنا کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ پر خودبھی کفر کا فتویٰ لگا تھا تو وہ دوسروں کو کیسے کافر کہہ سکتے ہیں تو جناب سید مہر حسین بخاری صاحب ! اس حوالہ سے گذارش یہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے ’’رد روافض‘‘ نامی ایک رسالہ تحریر فرمایا تھا جو دراصل علماء ماوراء النہرکے اس فتویٰ کی تائید میں تھا جو انھوں نے روافض کی تکفیر کے سلسلہ میں تحریر فرمایا تھا۔ اس رسالہ کی اشاعت کے بعدحضرت مجدد الف ثانیؒ پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا تھا اور یہ کفر کا فتویٰ لگانے والے شیعہ ہی تھے جو بظاہر سنی بن کر حضرت مجددصاحبؒ کی شخصیت کو مجروح کررہے تھے۔ آج تک کسی بھی ایسے شخص نے جس نے شیعہ کے کفر پر اختلاف کیا ہو، اس بات کو بطور دلیل کے پیش نہیں کیا سوائے آپ کے۔ دشمن کی اس سازش سے صرف آپ متأثر ہوئے ہیں اور اس کی وجہ ان بدطینت لوگوں کی صحبت ہے۔اللہ رب العزت ہم سب کو دین حق اسلام پر استقامت عطافرمائے اور مذہب اہل سنت والجماعت کی پیروی اور حفاظت کرنے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

محمد یونس قاسمی 

ایڈیٹر: نظام خلافت راشدہ فیصل آباد

(۳)

مولانا حافظ محمدعمار خان ناصر صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

فروری ۲۰۱۰ء کا شمارہ ملا اور ولولہ تازہ نصیب ہوا۔ ’’دینی جدوجہد کے عصری تقاضے اور مذہبی طبقات‘‘ کے حوالے سے مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کی تحریر کافی فکر انگیز تھی۔ ’’خواجہ حسن نظامی کی خاکہ نگاری‘‘ پڑھ کر ڈاکٹر اقبال مرحوم کا ایک قول یاد آ گیا کہ ’’اگر مجھے خواجہ حسن نظامی کی سی نثر نگاری پر قدرت ہوتی تو میں شاعری کو کبھی ذریعہ اظہار نہ بناتا۔‘‘

سید مہر حسین بخاری صاحب نے ایک بار پھر ہمیں یاد فرمایا ہے۔ یہ پڑھ کر کہ وہ ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف میں مبتلا ہیں، قلبی صدمہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ انھیں جلد صحت یاب فرمائے۔ فی زمانہ علمی وتحقیقی انداز میں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے والوں کو صدمات میں گھرا دیکھ کر دل ڈوب اور جی اوب جاتا ہے۔

بخاری صاحب نے اپنے پہلے مکتوب میں لکھا تھا کہ ’’تحریف قرآن کی لچر اور بے ہودہ روایات تو بعض کتب اہل سنت میں بھی موجود ہیں۔‘‘ راقم السطور نے جب اس پر گرفت کی تو انھوں نے یوں جواب دیا کہ ’’راقم نے لچر اور بے ہودہ کے الفاظ قرآن حکیم کے مخالف پر استعمال کیے ہیں، جیسا کہ مشہور ناصبی اور منکر حدیث تمنا عمادی نے ’’جمع القرآن‘‘ نامی کتاب میں بہت سی روایات اکٹھی کی ہیں۔‘‘ حیرت واستعجاب کے بھنور میں ہوں کہ دعوے کے مطابق بے ہودہ روایات کتب اہل سنت میں ہیں اور دلیل میں تمنا عمادی جیسے ناصبی اور منکر حدیث کی جمع القرآن؟کیا ناصبی اور منکر حدیث کی لکھی کتاب بھی ’’کتب اہل سنت‘‘ میں شمار کی جاتی ہے؟ دعوے اور دلیل میں کچھ تو مطابقت ہو۔

بخاری صاحب نے شعلہ بداماں ہو کر شکوہ کیا ہے کہ ’’مجھے بڑی حیرت ہے کہ اسلامی مدارس کے علما وفضلا بھی مہذب اور شستہ زبان کے استعمال سے قاصر ہیں۔‘‘ حالانکہ راقم السطور نے ’’لچر‘‘ اور ’’بے ہودہ‘‘ کے جملے انھی کے نقل کیے ہیں تو پھر غیر شستگی کس کی جانب سے ہوئی؟ دراصل آج کل اپنے آپ کو ماڈرن اور لبرل منوانے کا مختصر اور آسان طریقہ یہی ہے کہ اسلامی مدارس اور ان کے فضلا پر ’’ملاعین وطواغیت‘‘ کی تہمت لگا دی جائے۔

راقم نے اپنے مکتوب میں لکھا تھا کہ ’’قمی وکلینی اور علامہ نوری طبرسی کی جمع کردہ تحریف قرآن کی روایات کی بنا پر کل شیعہ آبادی کو محرف قرآن ٹھہرایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ یہ ایک الگ اور مستقل بحث ہے۔‘‘ اس کے جواب میں جو کچھ لکھا گیا، وہ میری اس عبارت کا جواب نہیں ہے۔ اور مغلوب الغضب ہو کر بخاری صاحب لکھتے ہیں کہ ’’حافظ عبد الجبار سلفی شاید نسخ اور اختلاف قراء ت کی اصل حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے۔ نسخ، اختلاف قراء ت اور تحریف میں نمایاں فرق ہے۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے تین عدد کتب کے نام لکھ کر راقم کو جماعتی وابستگی سے ہٹ کر ان کی مراجعت کا مشورہ دیا ہے۔ جماعتی وابستگی سے بخاری صاحب کی مراد تحریک خدام اہل سنت ہے، حالانکہ جماعتی وابستگی کے ہوتے ہوئے بھی ان کتب کا مطالعہ ہو سکتا ہے اور بفضل اللہ تعالیٰ راقم نے اس سے پہلے بالاستیعاب کر رکھا ہے۔ تبادلہ فکر وخیال میں وابستگیوں اور نسبتوں پر طنز نہیں کیا جاتا۔ راقم نے تو نہیں کہا کہ بخاری صاحب نے شیعہ محقق دوست کی وابستگی سے ہٹ کر تحریف قرآن پر فلاں فلاں کتاب کا مطالعہ کریں۔

جہاں تک شیعہ مذہب کے علما کا تعلق ہے تو سوائے چار کے (شیخ صدوق، ابن طالب طبرسی، شریف رضی، علامہ طوسی) سب تحریف کے قائل ہیں۔ یہی بات علامہ نوری طبرسی نے اپنی کتاب ’’فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب‘‘ ص ۳۱ اور ۳۵ پر لکھی ہے اور اسی موقف کو بعد ازاں اپنی کتاب ’’رد الشبہات عن فصل الخطاب‘‘ میں ثابت کیا ہے۔ شیخ صدوق (جنھیں ابن بابویہ قمی بھی کہا جاتا ہے) کے رسالہ اعتقادی کی مفصل شرح شیعہ عالم محمد حسین ڈھکو صاحب (فاضل نجف اشرف عراق) نے لکھی ہے۔ ڈھکو صاحب برملا کہتے ہیں کہ ’’ہاں یہ درست ہے کہ ہمارے بعض علماء تحریف کے قائل ہیں۔‘‘ (احسن الفوائد ص ۴۹۱) اسی سے ملتی جلتی بات علامہ الحائری نے اپنی تفسیر ’’لوامع التنزیل‘‘ پارہ ۱۴ ص ۱۵ پر لکھی ہے، بلکہ علامہ نوری طبرسی نے تویہاں تک لکھا ہے کہ تحریف قرآن کی روایات ہماری کتابوں میں دو ہزار سے متجاوزہیں اور یہ قول انھوں نے مشہور شیعہ عالم علامہ نعمت اللہ الجزائری سے نقل کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو فصل الخطاب ص ۲۵۱ مطبوعہ عراق)

بخاری صاحب فرقوں کے مابین اختلاف ختم کرنے کی گنجائش مانگتے ہیں، حالانکہ اختلاف تو علمی وسعت کی دلیل ہے جو بہرحال رہے گا۔ ہاں صبر وتحمل اور رواداری کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کرکے ’’مخالفت‘‘ ختم کی جا سکتی ہے۔ اختلاف میں نظر دلائل پر ہوتی ہے اور مخالفت میں محض اسٹائل پر۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم نصیب فرمائیں۔ آمین ثم آمین

حافظ عبد الجبار سلفی

خطیب جامع مسجد ختم نبوت

ملتان روڈ، لاہور

(۴)

محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

مقام مسرت ہے کہ آنجناب اور ’الشریعہ‘ کے باصلاحیت نوجوان مدیر جناب عمار خان ناصر صاحب اس سوسائٹی کے جذباتیت اور سطحیت زدہ مذہبی ماحول میں واقعی تعمیری فکر و جذبے کے ساتھ سر گرم کار ہیں۔’الشریعہ‘کا ہر صاحب دل ونظر قاری محسوس کر سکتا ہے کہ آپ جیسے صاحبانِ علم کا قلم نفرتوں کی بھسم کرتی ہوئی آگ پر محبتوں کی برکھا برسانے اور قومی وجود پر جگہ جگہ موجود زخموں پر پھاہے رکھنے کی اپنی سی کوشش میں مصروف ہے۔ہر چند کہ کم ہیں، مگر اپنی خاکستر میں موجود اس نوع کی چنگاریاں امید بندھاتی ہیں کہ محبت، تحمل، برداشت، رائے کا احترام، اخوت و اتحاداور اعلیٰ اخلاقی اقدار پرسوسائٹی اور نظمِ اجتماعی کی تشکیل،جیسا کہ ہمارے اجداد کا ورثہ ہے،اب بھی ناممکن الحصول نہیں۔

یہ کافروہ فاسق،یہ گمراہ وہ بدعتی،یہ مشرک وہ گستاخ، شیعہ فلاں فلاں’ ’اکابر‘‘ کے فتاویٰ کی روشنی میں کافر، بریلوی ان ان وجوہ سے مشرک، دیوبندی اس اس لحاظ سے منافق، وہابی اس دلیل سے گستاخ، غیر مقاتلین کا قتل یوں جائز، خود کش بمباروں کابے گناہ شہریوں اور معصوم مسلمانوں کو خاک وخوں میں نہلا دینا اس دلیل سے روا۔ خدا کی پناہ! یہ کس علم کی خدمت ہے؟ یہ کس دین کی نصرت ہے؟ ؂

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

بخدادل سے دعا نکلتی ہے، اس صاحب فکر وقلم کے لیے جواس غایت درجہ سطحی اور ابنائے ملت کے لیے سم قاتل اپروچ سے اوپراٹھ کر سوچتا اور لکھتا ہے۔میرے دونوں ممدوح بے شبہ اسی قبیل کے صاحبانِ فکر وقلم ہیں۔ ’الشریعہ‘ کے صفحات گواہی دے رہے ہیں کہ محترم عمار خان ناصرمسلمانوں کی تکفیر وتفسیق کے آگے ڈھال بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ابھی پچھلے ہی دو ماہ یعنی جنوری اور فروری ۲۰۱۰ء کے شماروں میں تکفیر شیعہ کے حوالے سے مضمون نگاروں کی تحریروں پر موصوف کے وضاحتی نوٹ قابل ملاحظہ ہیں۔ایک نوٹ میں آپ نے برصغیر کے مذہبی عبقری شاہ ولی اللہؒ اوردوسرے نوٹ میں اپنے مفسرِقرآن عم محترم صوفی عبدالحمید خاں سواتی کے ایک خطبہ جمعہ کے حوالے سے تکفیر شیعہ سے برأت کے رویے کو قرین صواب باور کرانے کی سعی کی ہے۔یہ ایک قابل تعریف وتقلید مثال ہے۔ اگر آپ برداشت، اعتدال، احترام اور محبت و ہمدردی کا رویہ اپنائیں گے تو نہ صرف سوسائٹی میں ان اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ دوسرے کو اس کی غلطی کا احساس دلانے اور باہمی اختلافات میں کسی نتیجہ خیزی کی بھی توقع کی جا سکے گی۔آپ کسی مسلمان کو کافر قرار دیں گے تو وہ جواب میں آپ کو پھولوں کے ہار تو نہیں پہنانے والا۔ وہ بھی آپ کو کافر کہے گا۔کافر کافر کی اس رٹ کا نتیجہ؟ یہی نفرتیں، دوریاں، بغض، کینے، فساد، تشدد، قتل وغارت، انارکی، مذہب اوراہل مذہب کی بدنامی۔کاش مذہب کے یہ ہمدرد اور اسلام کے یہ شیدائی،ان دونوں صورتوں کے بدیہی نتائج کا ادراک کرسکیں۔

مولانا زاہد الراشدی کی ملک وملت کے لیے درد مندانہ اور مصالحانہ فکر و مساعی پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے،لیکن یہاں میں طوالت سے بچنے کی غرض سے فروری ۲۰۱۰ء کے شمارہ میں موصوف کے ’کلمہ حق‘ کا حال دینے پر اکتفا کروں گا۔زیر نظر تناظر میں مذکورہ کلمہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔بلا شبہ دینی حلقوں کی باہمی کشمکش ،عدم برداشت اور ایک دوسرے کا استخفاف واستحقاراس قوم کے لیے زہر قاتل ہے۔ہمارے مذہبی طبقات آج اس قوم کی سب سے بڑی خدمت اگر کوئی کر سکتے ہیں تو وہ یہی ہے کہ وہ باہمی منافرت پر قابو پائیں اورایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے مشترکہ اعلیٰ اسلامی آئیڈیلز کے حصول کی خاطرباہمی احترام اور مشاورت و مفاہمت کی فضا قائم کریں۔مولانا کو تعجب ہے کہ جب وہ اپنے طلبہ کوانسانی حقوق، معاصر مذاہب کے تعارف،ماضی قریب کی دینی تحریکات اور پاکستان میں نفاز اسلام کی جدو جہد کے فکری وعلمی پہلوؤں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ان کے منہ کی طرف دیکھتے ہیں کہ جیسے وہ اس دنیا کی نہیں بلکہ کسی اور دنیا کی بات کر رہے ہوں اور شاید وہ انہیں گمراہ کر کے ’اکابر سے مسلک سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں مولانا کی خدمت میں عرض گذار ہوں کہ آپ بالکل متعجب نہ ہوں۔ آپ واقعی اپنے طلبہ سے ان کی ’’دنیا‘‘ کی بات نہیں کر رہے۔ آپ بلاشبہ ان کو ’’اکابر‘‘ کے مسلک سے ہٹانے کی کوشش میں مصروٖف ہیں۔ آپ سچ مچ اپنے طلبہ کو مشکل میں ڈال رہے ہیں۔ ؂

آئین نوسے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

مگرمولانا !آپ کو اپنے ’’نو نہالوں‘‘کو اس ’’دوسری دنیا‘‘ کی یہ’’ انرجیٹک غذا‘‘ دیتے رہنا پڑے گا تا آنکہ یہ ’’سن شعور‘‘ کو پہنچ جائیں۔

محترم ناظرین !کیا آپ نے کبھی غور کیاکہ آج تقریباً ہر جگہ مذہب کے بجائے سیکولرزم اور مذہبی قوتو ں کے بجائے سیکولر قوتیں غالب کیوں نظر آتی ہیں؟ میری ناچیزرائے میں اس کی بہت کچھ ذمہ داری مذہبی طبقات پر عائد ہوتی ہے۔مذہبی لوگوں کے بارے میں پوری دنیا میں ایک عمومی تاثر شدت پسندی،عدم برداشت اور رجعت پسندی کا پایا جاتا ہے۔مذہبی لوگ جب تک اس تاثر کو زائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے ،مذہب سیکولرزم اور مذہبی قوتیں سیکولر قوتوں کی جگہ نہیں لے سکتیں۔اگر ہم مغرب کی بات کریں تو وہاں نشاۃ ثانیہ کے بعد سے یہ تصور انتہائی پختہ ہو گیاکہ مذہب رجعت ،تشدد، جہالت اور خلاف عقل و منطق تصورات و نظریات سے عبارت ہے۔ لہٰذا کوئی وجہ نہ تھی کہ وہاں مذہب اور اہل مذہب کو قائدانہ کردار ادا کرتے رہنے دیا جاتا۔آج مغرب میں یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ کوئی ایک انسان یا جماعت مذہب کے عنوان کے تحت کسی سوسائٹی یا ملک کی رہنمائی کی اہل ہو سکتی ہے۔اگرچہ اسلام عیسائیت سے یکسر مختلف ہے اور مسلمان بجا طور پر یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ اسلام آج بھی انسانی سوسائٹی اور سٹیٹ کی بہتری ،ٖفلاح و بہبود اور ترقی و کامرانی کے لیے وہی کردار ادا کر سکتا ہے، جو وہ سینکڑوں سال پہلے اداکر چکا ہے۔لیکن مغرب اس بات کو بالکل تسلیم نہیں کرتا۔ہم یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے یا حقائق سے آنکھیں چرا لیتے ہیں کہ مغرب تو اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ہے،وہ اسلام کو انسانی فلاح کے ضامن کے طور پر کیوں مانے گا؟مگر نہ جانے ہم اس بات پر کیوں غور نہیں کرتے کہ کیا ابتدائے اسلام میں سارے لوگ اسلام کو انسانی فلاح کے ضامن کے طور پر ماننے کے لیے تیار بیٹھے تھے کہ ادھر وحی آئی اور ادھر لوگ اسے اپنے درد کا درماں سمجھ کربے تابانہ اس کی طرف لپک پڑے۔ظاہر ہے اسلام کے بارے میں ان لوگوں کے تعصبات و تحفظات آج کے انسانوں سے کہیں زیادہ تھے۔آج توعلم ہے ،روشنی ہے اورسب سے بڑھ کر یہ کہ سائنسی اور تحقیقی وتجرباتی علم نے بہت سے لوگوں میں اپنے مخالف نظریات وافکارکے حوالے سے معروضی رویہ پیدا کردیا ہے۔جبکہ اس دور میں ،جہالت تھی،تاریکی تھی اور مخالف افکار ونظریات سے متعلق اکثر لوگوں میں موضوعی رویہ پایا جاتا تھا۔ 

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کی مذہب کی جس شدت کے ساتھ مزاحمت کا ماحول اس عہد میں پایا جاتا تھاعصر رواں میں اس کی تمام تر خرابیوں کے باوجود وہ ماحول نہیں پایا جاتا۔ابتدائے اسلام میں اسلام کی مزاحمت کی شدت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے جس میں آنحضورؐ نے فرمایا تھاکہ اللہ کی راہ میں جس قدر میں ستایا گیا ہوں،کوئی نبی نہیں ستایا گیا۔پھر کیا وجہ تھی کی اجڈ،جاہل،وحشی ،موضوعی سوچ کے حامل اور اسلام کی مزاحمت میں انتہائی سخت لوگ کچھ ہی عرصہ میں اسلام کے سایہ میں عافیت محسوس کرنے لگے؟بات بالکل واضح ہے کہ حضورؐ اورآپ کے ساتھیوں کے رحمت و رافت،احسان و مروت،صبر وتحمل اور نیکی وخیر خواہی کے عملی رویے نے ان پر روز روشن کی طرح عیاں کر دیا تھاکہ ان لوگوں کے مذہب کا مقصدانسانیت کی فلاح و کامرانی اور بہتری و بھلائی کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔آج کامذہب بھی اگر اس طرح کے عملی رویے پیش کر سکے توکوئی وجہ نہیںآج کا انسان اس دور کی تپتی ہوئی دھوپ سے بچنے کے لیے اس کے سایہ میں پناہ لینے پر آمادہ نہ ہو۔مگر افسوس اے اسلام کے نام لیواؤ!’’تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے‘‘؟ ؂

تم ہو آپس میں غضبناک وہ آپس میں رحیم
تم خطا کار وخطا بیں،وہ خطا پوش وکریم
خود کشی شیوہ تمہارا وہ غیور وخوددار
تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو وہ گلستاں بکنار
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم

آج کے مذہبی حلقے غیر مسلموں اورمذہب سے یکسر دورلوگوں کو نظم اجتماعی کے ضمن میں مذہب کی اہمیت سے متعلق قائل کرنے میں تو کیا کامیاب ہوں گے،وہ خود مسلمانوں اوراسلام کے بارے میں اپنے دلوں میں نہایت اچھے جذبات رکھنے والے افراد کو بھی اس حوالے سے قائل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ مسلم معاشرے میں مسلم عوام بالعموم مذہبی طبقات کی بجائے اپنی سیاسی و سماجی رہنمائی کا فریضہ ان لوگوں کو سونپنے پر آمادہ ہوتے ہیں جن کا جھکاؤ سیکولرزم کی طرف ہو یا جن کی شناخت اور پہچان روایتی اعتبار سے مذہبی نہ ہو؟ کیا ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ سیکولر شناخت کے حامل لوگ عوام کے زیادہ ہمدرد، زیادہ دیانتدار، زیادہ پاک وصاف، معاملات کازیادہ فہم رکھنے والے اور زیادہ قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں؟ظاہر کہ ایسا نہیں ہے اور کوئی بھی باشعورآدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیزیں سیکولر شناخت رکھنے والے افراد سے خاص ہیں، بلکہ ممکن ہے کہ عوام کی اکثریت ان چیزوں میں سے بیشتر کو مذہبی لوگوں سے خاص سمجھے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے عہد اور ہماری سوسائٹی بلکہ ماضی قریب میں بھی مسلمانوں نے قیادت و رہنمائی کے سوال پراپناوزن ہمیشہ مذہبی شناخت نہ رکھنے والے افراد اور جماعتوں ہی کے پلڑے میں ڈالا ہے؟ اس سوال کو تو شایدناقابل معافی جرم سمجھا جائے کہ قائد اعظمؒ کی جگہ کوئی مذہبی رہنما کھڑا ہوتا تو کیا کبھی پاکستان بن پاتا؟یہی بتا دیجیے کہ ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجوداسلام کے نام پر پاکستان کی خاطرسب کچھ قربان کر دینے والوں نے مذہبی رہنماؤں اور جماعتوں کو ہر دور میں کیوں مسترد کیا؟

راقم الحروف کے نزدیک اس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔پہلا سبب یہ ہے کہ تمام مذہبی طبقے عوام کو یہ یقین دلانے میں ناکام رہے ہیں کہ وہ اپنے زیر قیادت اپنے سے مختلف مذہبی فکر ونظریات کے حامل افراد سے روادارانہ اور پر امن بقائے باہمی کا رویہ اپنائیں گے،تشدد اور عدم برداشت سے گریز کریں گے،دوسروں کی رائے کا احترام کریں گے اوراپنے مذہبی نظریات کو عوام الناس پر جبراً مسلط نہیں کریں گے۔ دوسرا یہ کہ مذہبی طبقوں نے اپنے اپنے زیر اثر لوگوں کو مذہبی حوالے سے اس قدر متعصب اور تنگ نظر بنا دیا ہے کہ وہ کسی بھی مذہبی شخصیت یا جماعت کومسلکی عینک لگائے بغیر دیکھتے ہی نہیں۔ لہٰذا کسی بھی مذہبی شخصیت یا جماعت کا ایک مشترکہ مسلم رہنماکے طور پر سامنے آنا محال بن کر رہ گیا ہے۔ کوئی مذہبی شخصیت خواہ وہ کتنی بھی پارسا اور دیانتدار ہو، اگر کسی دوسرے مسلک سے تعلق رکھتی ہے تو اس کے مقابلے میں مذہبی شناخت نہ رکھنے والی ایک کرپٹ اور بددیانت شخصیت بھی قابل ترجیح ٹھہرتی ہے۔یہ چیز عام دیکھنے میں آتی ہے کہ مختلف دفاتراور اداروں وغیرہ میں عام حالات میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ نہایت ہنسی خوشی اور بغیر کسی مسلکی تعصب کے کام کر رہے ہوتے ہیں،لیکن جونہی مذہب کے عنوان کے تحت کسی قائد و رہنما کے بارے میں رائے کا سوال آتا ہے ،وہ فوراًشیعہ،بریلوی ،دیوبندی اور وہابی وغیرہ بن جاتے ہیں۔ سوسائٹی میں مسلکی تعصبات کی گہرائی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اگر کوئی اجنبی کسی جگہ مذہبی تناظر میں اپنا تعارف کراتے ہوئے خود کو صرف مسلمان کہنے پر اکتفا کرے تو لوگ متعجب ہوتے ہیں کہ گویا وہ شخص اپنے اصلی ’’مذہب‘‘کو چھپا رہا ہے اور انہیں اس وقت تک اطمینان قلب نصیب نہیں ہوتا جب تک وہ کسی نہ کسی مسلکی وابستگی کا اظہار نہ کرے۔گویا اللہ اور اس کے رسول کی دی ہوئی پہچان، پہچان ہی نہیں اور ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِنَ (الحج۲۲:۷۸) جیسے نصوص کے کوئی معنی ہی نہیں۔

مذہبی طبقات اگر واقعی اس بات کے خواہشمند ہیں کہ سیکولرزم کے مقابلہ میں مذہب کو غلبہ حاصل ہو تو ان کو نہ صرف خودمسلکی تعصبات سے بالاتر ہو کراسلامی نظام کے قیام کے لیے باہم مل جل کر اور ایک ہو کر مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی، دوسروں کے مذہبی جذبات اور رائے کے احترام کا رویہ اپنانا ہو گا،عوام الناس کے مذہبی قوتوں کے تحت تشدد و تصلب، رجعت پسندی،عدم رواداری اور ترقیٔ معکوس کے اندیشوں کو دور کرنا ہوگا،بلکہ اپنے اپنے حلقۂ اثر کے لوگوں میں مسلکی تعصبات کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی اور انہیں اس بات پر آمادہ کرناہو گاکہ وہ مذہبی قوتوں کی حمایت کے سلسلہ میں مذہبی اختلاف رائے کو آڑے نہ آنے دیں۔اگر کچھ مذہبی قوتیں تطہیر اور خود احتسابی کے اس عمل سے گزرے بغیرمذہب کو سیکولرزم پر غالب کرنا چاہتی ہیں تو انہیں جان لینا چاہیے کہ ایں خیال است و محال است و جنوں۔

ڈاکٹر محمد شہباز منج

شعبہ ا سلامیات،یونیورسٹی آف سرگودھا

drshahbazuos@hotmail.com

مکاتیب

(مارچ ۲۰۱۰ء)

تلاش

Flag Counter