ایک تحریک علماء کی ضرورت

حسن الامین

پاکستان میں ججوں کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی وکلا کی تحریک کو اس کی کامیابی، ناکامی، خفیہ سیاسی عزائم اور اس نوعیت کے دیگر ایشوز سے الگ کرکے صرف اس زاویے سے دیکھا جائے کہ یہ جدید تعلیم یافتہ اور پروفیشنل لوگوں کی ایک پرامن تحریک تھی جو پاکستان جیسے کم تعلیم یافتہ اور پیچیدہ معاشرے میں سول سوسائٹی کے پلیٹ فارم سے چلائی گئی تو یقیناًوکلا کی یہ کوشش کسی سعی مشکور سے کم نہیں تھی۔ بالکل انہی خطوط پر، ایک تحریک علما کی تجویزپیش نظرہے۔ اس بارے میں پہلے چند سوالات اٹھانا چاہتا ہوں:

  • وکیلوں کی تحریک کے طرز پرپاکستان کے روایتی علماے کرام بھی کیا ایک غیرسیاسی تحریک شروع کرسکتے ہیں جس کا ہدف سیاسی ہونے کی بجائے سماجی ہو؟
  • موجود حالات کے تناظر میں ایسی کوئی تحریک اگر اٹھتی ہے تو اس کے سامنے اصل ہدف کیا ہونا چاہئے؟
  • اور ممکنہ طور پر علماے کرام کی اس سماجی تحریک کے کون ے فائدے سامنے آسکتے ہیں؟ 

ان سوالات پر غور کرنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ وکلا اور علما کے درمیان قدر مشترک کیا ہے؟

۱۔ سماجی لحاظ سے، وکیلوں کی طرح، علماے کرام بھی ایک پبلک ڈیلنگ والے پیشہ سے وابستہ ہیں اور صبح و شام ان کو لوگوں سے متفرق معاملات کرنے پڑتے ہیں۔ وہ صرف نماز ہی نہیں پڑھاتے بلکہ لوگوں کے دینی، معاشی، سماجی، عائلی، نفسیاتی اور ثقافتی مسائل سے متعلقہ سوالات کے جوابات بھی دیتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کے جوابات ان کی اپنی سمجھ اور فقہی مسلک کے مطابق ہوتے ہیں۔ وکیلوں کا کام اگر عدالتی نظام میں اپنے موکلوں کی نمائندگی کرنا اور ان کی قانونی چارہ جوئی کرنا ہے تو علماے کرام کا کام مذہب کے میدان میں لوگوں کو دین بتانا، سکھانا اور اس کی تشریح کرنا ہے۔

۲۔ جیسا کہ جب بھی قانون اور آئین کی حکمرانی اور اس کی پاسداری کی بات آئے گی تو فطری طور پر سب سے پہلے نگاہ انتخاب وکلا پر ہی جاکر ٹھہرے گی، بالکل اسی طرح، مذہب کے معاملے میں علماے کرام ہی کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول ہوگی اور ہمارے موجودہ سماجی و ثقافتی ڈھانچے میں ابھی ان کا کوئی متبادل تیار نہیں ہوسکاہے۔

۳۔ معاشرے میں وکلا برادری کی طرح ایک علما برادری بھی اپنا وجود رکھتی ہے جو اصل میں سول سوسائٹی کا حصہ ہے، اگرچہ سیکولر حلقوں میں جب بھی سول سوسائٹی کا تذکرہ ہوتا ہے تو ان کو شامل نہیں کیا جاتا جو ناقابل فہم ہے۔ لیکن عملی طور پر علماے کرام، مساجد اور مدرسے سول سوسائٹی کا ہی حصہ ہے بلکہ سب سے موثر حصہ ہے۔

۴۔ وکلا اگر کچہریوں میں منظم ہوتے اور باررومز کے ذریعے سے اپنی تنظیم سازی کرتے ہیں تو علما مسجد اور مدرسہ کے ذریعے سے منظم ہیں اور یہ ان کے اور عام لوگوں کے درمیان رابطہ کا ذریعہ بھی ہے۔

۵۔ لیکن جیسے وکلا سول سوسائٹی کا حصہ ہونے کے باوجود سیاسی وابستگیوں سے آزاد نہیں ہوتے بلکہ ہر وکیل کسی نہ کسی صورت میں کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ہی وابستگی رکھتا ہوتا ہے، یہی حال علماے کرام کی اکثریت کا بھی ہے۔ لیکن جب وکلا نے ججوں کی بحالی کا پروجیکٹ سنبھالا تو وکلا کی اکثریت نے اپنی سیاسی شناخت کو اس نئی سماجی شناخت میں (ججوں کی بحالی اور آئین کی بحالی) ضم کردیا۔ اسی طرح، علماے کرام بھی ایک "کامن سماجی پروجیکٹ" کے اوپر کچھ عرصہ کے لیے اپنے مسلکی و فروعی شناختوں کو بھلا کر ایک نئی سماجی شناخت تخلیق کرسکتے ہیں جو ان کو ایک کاز پر منظم کردے۔ 

اگر اس مفروضے کو درست مان لیا جائے کہ علما سول سوسائٹی کا اہم حصہ ہیں اور یہ کہ ایک مشترکہ سماجی منصوبہ شروع کیا جاسکتا ہے جو علما کو وکلا کی طرح اکٹھا کرنے، ان کو متحرک کرنے، اور ان کو اس مقصد کے حصول کے لیے جمع ہونے کا محرک بنے تو پھر کئی سماجی، معاشی اور ثقافتی مسائل کی فہرست مرتب کی جاسکتی ہے جن میں علماے کرام کا کردار نہایت موثر ہوسکتا ہے لیکن اس وقت میرے پیش نظر صرف اور صرف ایک ہی زیرغور مسئلہ ہے جو کہ امن و امان کی بحالی اور عسکریت پسندی کے لیے ہمارے سماج میں موجود پسندیدگی کی اس جڑ کو کاٹ دینے سے بھی متعلق ہے جس کی وجہ سے ہم اس خونیں صورت حال سے مقابل ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اکثر جگہوں پر عسکریت پسندی کا وجود کسی نہ کسی شکل میں مذہب سے وابستہ ہے اور بدقسمتی سے مسلمان اس میں یا تو جھونک دیے گئے ہیں یا وہ خود اس کو لیڈ کررہے ہیں۔ لیکن اس سے بھی ایک بڑی سماجی حقیقت موجود ہے، وہ یہ کہ اس ملک کے علما کی واضح اکثریت نے ہر قسم کی عسکری کارروائیوں کو نہ صرف یہ کہ خلاف شریعت قرار دیا ہے بلکہ اس کے خلاف واضح فتوے بھی دیے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی سے لے کر مولانا زاہد الراشدی صاحب سے مولانا حسن جان شہید تک، سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگرچہ عسکری کاروائیوں کے واضح اسباب اور وجوہات موجود ہیں لیکن پھر بھی اس طرح کرنا نہ صرف یہ کہ اسلای شریعت سے انحراف پر مبنی ہے بلکہ اس کی مجموعی روح کے بھی خلاف ہے اور خلف و سلف کے علما نے بھی پر امن ذرائع سے اپنی جدوجہد کی ہے۔ انڈیا میں منعقدہ دیوبندی علما کانفرنس نے بھی اس کے خلاف اسلام ہونے کے حوالے سے اپنا فتویٰ جاری کردیا ہے۔ اس طرح سے اگرچہ ان علما کی علمی ذمہ داری تو ادا ہوگئی ہے لیکن اس کے ساتھ ان کی ایک دعوتی اور سماجی ذمہ داری بھی ہے جو فتویٰ دینے سے کہیں زیادہ مشکل اور صبر آزما ہے، کیونکہ مولانا حسن جان شہید نے اپنی علمی حیثیت سے بڑھ کر جب اسی سماجی و دعوتی ذمہ داری کو نبھانا چاہا تو ان کو اپنی زندگی کی شہادت دینی پڑی۔

ایک ایسی ہی پرامن سماجی تحریک شروع کرنے کا موزون وقت ہے، شرط یہ ہے کہ علماے کرام کا ایجنڈا یک نکاتی اور آخری حد تک غیرسیاسی ہو۔ علماے کرام اپنی اس تحریک کو مذہبی سیاستدانوں سے دور رکھیں اور بالکل مذہبی اور دعوتی انداز میں نکل کر سوسائٹی کو مخاطب کریں اور اپنی دعوتی و سماجی ذمہ داری پوری کریں۔ اس تحریک کے موثر ہونے کے دو امکانات ہیں:۔

۱۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی موجودگی جو ان کی آواز کو ملک کے کونے کونے تک پہنچا دے گا اور اس میں یقیناًان کا ساتھ دیا جائے گا۔ 

۲۔ سوسائٹی کی وہ خاموش اکثریت جو امن وامان کی ابتر صورت حال سے تنگ ہے اور جو اس کو صحیح نہیں سمجھتی اور اس سے جان چھڑانا چاہتی ہے لیکن نہ ان کو قیادت میسر ہے اور نہ ہی وہ خود یہ کام کرسکتے ہیں، اور نہ ہی ان کو مذہبی و سیکولر سیاست دانوں سمیت اپنی فوج پر اعتماد ہے۔ اس تحریک کا فائدہ یہ ہوگا کہ سوسائٹی میں سیکولر اور مذہبی کی پولرائیزیشن کے درمیان یہ علما ایک پل کا کام دے سکیں گے اور اس کامن پروجیکٹ میں ایک بڑا سیکولر اور لبرل طبقہ ان کے پیچھے کھڑا ہوجائے گا۔

پوری دنیا میں عسکریت کے مسئلے کو اسلام کے تناظر میں سمجھا اور بیان کیا جاتا ہے، حالانکہ علما کی اکثریت کم از کم اس مسئلے میں بالکل دوسرا موقف رکھتی ہے جو امن و آشتی اور اخوت و محبت پر مبنی ہے۔ اس تاثر کو یوں زائل کیا جاسکے گا جب علماے کرام از خود عسکریت کے مسئلے کے جڑ اور سبب بننے کی بجائے مسئلے کے حل کے طور پر سامنے آئیں گے۔ 

آراء و افکار

(جولائی ۲۰۰۸ء)

تلاش

Flag Counter