(۱)
لندن ۔ ۲۴ مئی ۲۰۰۸ء
بخدمت محترم مولانا زاہد الراشدی زید مجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ملاقات بڑی مختصر رہی۔ میں اچھا ہوتا تو خود آپ کی قیام گاہ پر آتا، تب زیادہ موقع مل جاتا۔تاہم آپ جو کتب خانہ عنایت فرماگئے، اس نے خاصی تلافی کر دی۔ اگرچہ واقعہ یہ بھی ہے کہ میں کتابوں کا اتنا بڑابنڈل دیکھ کے گھبرایا تھا۔ کوئی اور ہوتا تو معذرت کردیتا کہ بھائی میں آج کل اس حال میں نہیں ہوں، اخبار ہی پڑھنا مشکل ہو رہا ہے۔ مگر طبیعت میں ذرا سا فرق آیا تو پرسوں وقت گزاری کے خیال سے سوچا کہ آپ کابنڈل کھولوں، شاید کوئی ہلکی پھلکی چیز نکل آئے اور کچھ وقت اچھا کٹ جائے۔ سب سے ہلکی کتاب جامعہ حفصہ نظر آئی۔ اور اللہ جزائے خیر دے، حسبِ مطلب نکلی۔ تھوڑی تھوڑی کرکے کئی دن میں پڑھی۔ آپ کی جتنی قدر اب تک تھی، اور وہ بھی کچھ کم نہ تھی، اس چھوٹی سی کتاب نے اس میں اور بڑا اضافہ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کی بڑی تعداد میں اشاعت ہونی چاہیے۔ ذہن و فکر کو متوازن کرنے میں(ِ جو ہماری بڑی اہم ضرورت ہے) یہ بقامت کہتر ہونے کے باوجود بہت معاون ہو سکتی ہے۔ اور اس سے یہ جان کر تو اور ہی خوشی ہوئی ہے کہ وہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ا س طرح سوچ سکتے ہیں اور اس کے اظہار کی جرأت رکھتے ہیں، جیسا کہ ایک صاحب نے آ پ سے سوال کیا کہ’’جب صدر مشرف نے مصالحتی فارمولا مسترد کردیا تھا تو بظاہر گفتگو اس نکتے پر منقطع ہوئی کہ مولانا عبد الرشید غازی شہید گرفتاری دینے کے لیے تیار نہیں تھے اور حکومت انھیں ہر صورت میں گرفتار کرنا چاہتی تھی .... اور (یہ کہ)وہ اگر اپنی گرفتاری کے لیے تیار ہو جاتے توحکومت کے لیے اس آپریشن کا کوئی جواز باقی نہ رہ جاتا اور اتنی جانیں اس سانحے کی نذر نہ ہوتیں۔‘‘ نیز ان صاحب کا یہ کہنا بھی آپ نے آگے نقل کیا ہے کہ’’اگر مولانا عبد الرشید غازی گرفتاری دے دیتے تو کیا ہو جاتا؟ ان کے بھائی بھی تو گرفتار تھے۔‘‘ (صفحہ۸۹؍۹۹) بہرحال یہ پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ آپ حضرات سے تعلق والے لوگوں میں بھی ایسی سوچ کے لوگ موجود تھے، جو واقعہ میں ایک حقیقت پسندانہ سوچ ہے۔
مگر اس کے آگے جب اگلی سطر میں اس سوال کے جواب میں آپ کا یہ فرمانا دیکھتاہوں کہ ’’میں دیانت داری سے عرض کرتا ہوں کہ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا اور میں نے بڑی مشکل کے ساتھ گول مول جواب دے کر انھیں چُپ کرایا‘‘ تو خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھئے! کامخمصہ بنتا ہے۔اے کاش کہ گول مول جواب سے ان صاحب کو چپ کرانے کے بجائے’’ دیانت داری‘‘ کے تقاضے والا جواب آپ کی طرف سے دیا گیا ان سطروں میں پایا ہوتا تو اپنی خوشی حسرت آمیز ہوکے نہ رہ جاتی، اور شاید لال مسجد کے حوالے سے میرے مضمون مجریہ الشریعہ(غالباً اکتوبر ۷۰۰۲)سے لوگوں کو یہ شکایت نہ ہوتی کہ دور بیٹھیے لوگ ہی اس طرح کی بات کرسکتے ہیں۔ میں نے تو پھر بھی آپ کے یہاں کا حال دیکھ کر اپنے آپ کو بہت مجبور پایا تھا کہ عام جذبات کی بھی رعایت رکھوں، ورنہ بات ازراہِ دیانت داری صرف اسی پر نہیں رکتی ہے کہ جامعہ حفصہ کے المیے کی اوّلین ذمہ داری غازی عبدالرشید صاحب پر جاتی ہے (اللہ ان کی مغفرت کرے) بلکہ ذہن میں یہ سوال اٹھے بغیر بھی نہیں رہتا کہ دین کے ایک ایسے شیدائی اور نفاذِ شریعتِ کے ایسے علمبردار کے لیے یہ ممکن کیونکر ہوا کہ وہ اپنی شرط کی خاطر ہزاروں لڑکیوں کی جان کو صاف نظر آنے والے خطرے میں ڈٖال دے؟ کیسے نہیں ان کو اپنی اس شرعی ذمہ داری کا خیال آیا کہ کُلُّکُم راعِِ وَکُلُّکُم مَسؤلُٗ عَن رِعیّتِہٖ (حدیثِ نبوی)؟
یقیناًکوئی چیز ہونی چاہیے جو مرحوم کو اپنی اس کھلی شرعی ذمہ داری کو پسِ پشت ڈالنے پر آمادہ یا مجبور کر ہی ہو۔وہ کیا چیز تھی؟ یہ عقدہ شاید حل ہوجاتا اگر آپ حضرات(اصحابِ مذاکرات )نے مرحوم کے اس آخری جواب پر کہ ’’پھر ٹھیک ہے ان سے کہیں ہمارا قتلِ عام کریں۔ قیامت کے دن میں آپ سب حضرات سے اس کے بارے میں بات کرلوں گا‘‘ انھیں متنبہ کیاہوتا کہ برادرم کیا اس طریقہ سے تم کُلُّکم راعِ کی نبوی آگاہی کی خلاف و رزی نہیں کر رہے ہو؟، اور جب تمھیں اپنی ’’رعیّت‘‘ کی پرواہ نہیں تو جنرل مشرف سے کیا امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کوئی پرواہ کریں گے؟ بہر حال اللہ مغفرت کرے۔
(مولانا) عتیق الرحمن سنبھلی
(۲)
۲۶/۴/۱۴۲۹ھ
مکرمی ومحترمی جناب ابو عمار زاہد راشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ اس میں ترکی میں احادیث شریفہ کی ترتیب جدید کی خبر کے حوالے سے ترکی کی وزارت اوقاف کو مناسب علمی مشورہ دینے کی تجویز ہے۔ یہ تجویز مناسب ہے۔ اس کے سلسلے میں ہمارے یہاں سے جو ہو سکے گا، ان شاء اللہ اس کی کوشش کی جائے گی۔
امید ہے مزاج بخیر ہوگا۔ دین وملت کے فروغ اور رہنمائی کے سلسلے میں آپ جو کر رہے ہیں، اس کی خبر مجھے ملتی رہتی ہے جس کی میرے دل میں بڑی قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین
(مولانا) محمد رابع حسنی ندوی
مہتمم دار العلوم ندوۃ العلما لکھنؤ
(۳)
مکرمی وعزیزی جناب مولانا محمد عمار صاحب زیدمجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ مزا ج گرامی بعافیت ہوں گے۔ دیگر اپریل کے ’’الشریعہ ‘‘ میں آنجناب کا مضمون بعنوان ’’ز نا کی سزا‘‘ نظر سے گزرا۔ ماشاء اللہ کیا زور قلم ہے، قاری کو ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ خطابت وطلاقت لسانی کو سحرکہا گیا ہے۔ اسی طرح قلم کا سحر اس سے کم نہیں ہوتا۔ یہ دونوں اللہ کی عظیم نعمت ہیں۔ اگر خطیب یا اہل قلم صحیح موقف (جمہور کے دائرے یا دھارے) پر نہ ہو تو لوگوں کے لیے بڑی آزمائش بنتا ہے۔
آنجناب نے ’’رجم‘‘ پر اس قدر محققانہ مضمون لکھنے کی زحمت کی۔ خاطر جمع رکھیں، پاکستان میں کہیں رجم ہونے نہیں جا رہا۔ جب حدود آرڈیننس موجود تھا، تب بھی نہیں ہو سکا۔ ا ب تو حدود آرڈیننس کا خاتمہ بالخیرہو چکا ہے۔ ملائیشیا اور نائجیریا کے بعض صوبوں میں لوگ شریعت کے نفاذ کے ولولہ کے ساتھ اٹھے تھے، وہاں بھی نہ ہو سکا۔ دعا کریں سپرپاور کا استقبال سلامت رہے تورجم کے مسئلہ پر فکر مند یا پریشان ہو نے کی ضرورت نہیں۔ چند سال پہلے یہاں ( برطانیہ) کے وزیر خارجہ نے کہا تھا: ہم (مغرب) دنیا بھر میں تین باتیں کبھی نہیں ہونے دیں گے۔ (۱) خلافت کا احیا (۲) شریعت کا نفاذ (۳)عورت کے مسئلہ پر ادنیٰ لچک۔
علما انبیا کے وارث ہیں۔ کوئی کام کرنے سے پہلے اتنا استحضار کر لیا کریں کہ اگر آج اصل (نبی) ہوتے تو اپنی توانائیاں کہاں خرچ کرتے یا کس کام کو اختیار فرماتے تو بہت سی آزمائش سے بچ جائیں۔ انبیا کا بنیادی کام لوگوں تک ایمان پہنچانے کے ساتھ وقت کے اربا ب وخداؤں (کفر کے طاغوت) کے چنگل سے غریب عوام کو نجات دلانا بھی ہوتا تھا۔ مغربی استعمار پوری انسانیت کے ساتھ کس قدر بھیانک منصوبہ رکھتا ہے؟ گزشتہ سالوں میں بے شمار تحقیقات مسلسل سامنے آرہی ہیں جیسے کیلی فورنیا کے سوشیالوجی کے پروفیسر مائیکل مین کی بے شمار تحقیقات۔ کاش کہ ہمارے ذہین وفطین حضرات کسی ایسے موضوع پر توجہ مرکوز کرتے۔ بندہ کے نزدیک موجودہ دور کا اہم ترین فتنہ ہمارے ذہین وفطین حضرات کا دین کی اپنی پیش کردہ تعبیرات پر ضرورت سے زیادہ اعتماد واصرار ہے۔ اس مشغلہ کا کچھ حاصل نہیں۔ تاریخ میں اچھے اچھے ذہین وفطین وذکی حضرات اپنی اپنی تعبیر وفکر کے بلبلے اٹھا اٹھا کر غائب ہوتے رہے ہیں، جیسے مولانا قمر عثمانی صاحب توکل کی بات ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عہد بنی عباس میں تقریباً ڈیڑھ سو سال تک قلم و تلوار کے دھنی معتزلہ تھے۔ کہاں گئیں ان کی علمی وعقلی تحقیقات؟
مئی کے تازہ شمارے میں ’’بجلی کے بحران‘‘ کے موضوع پر مضمون دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ یہ موضوع قومی اخبارات کا ہے نہ کہ علمی وفکری رسالہ کا۔ مولا نا راشدی صاحب کا دورۂ برطانیہ نہایت کامیاب و عمدہ رہا۔ آج عافیت سے پہنچ گئے ہوں گے۔ حاضرین کی خدمت میں سلام مسنون۔ دعا کی استدعا ۔
(مولانا) محمد عیسیٰ منصوری
چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم لندن
(۴)
مکرم ومحترم جناب مولانا محمد عیسیٰ منصوری صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
زنا کی سزا سے متعلق میرے مضمون کے حوالے سے آپ کا عنایت نامہ موصول ہوا۔ میرے لیے یہ بات حوصلہ افزائی کا باعث ہے کہ آپ جیسے بزرگ میری ناچیز طالب علمانہ تحریروں کو دیکھنے کے لیے اپنی متنوع مصروفیات میں سے وقت نکالتے ہیں، اور میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی آپ کی یہ شفقت مجھے حاصل رہے گی۔ البتہ آپ کا یہ تبصرہ حیرت انگیز ہے کہ میرامضمون جمہور کے مقابلے میں ’’اپنی پیش کردہ تعبیرات پر ضرورت سے زیادہ اعتماد واصرار ‘‘ کی غمازی کرتا ہے، اس لیے کہ میں نے اس مضمون میں خود اپنی کوئی تعبیر پیش نہیں کی، بلکہ محض زیر بحث مسئلے کے حوالے سے پیش کی جانے والی مختلف علمی توجیہات کا تنقیدی جائزہ لیا اور ان کے غیر اطمینان بخش ہونے کے تناظر میں ایک یا دوسرا اصولی منہج اختیار کرنے کی گنجایش کو واضح کیا ہے۔
علمی روایت کے ارتقا کے نتیجے میں روایتی فقہی تعبیرات کے بارے میں جو سوالات واشکالات دور جدید میں سامنے آئے ہیں، روایتی اہل علم نے عام طور پر انھیں درخور اعتنا نہیں سمجھا اور انھیں یہ بات بھی گوارا نہیں کہ یہ تعبیرات سرے سے کسی تنقیدی تجزیے کا موضوع بنیں، چہ جائیکہ وہ بحث کی تنقیح اور تصفیے کے لیے مثبت طور پر کوئی کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ ہوں۔ البتہ آپ جیسے وسیع النظر بزرگ سے میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ آپ یا تو میرے علم وفہم میں پائے جانے والی کسی کمزوری کی نشان دہی فرمائیں گے یا اگر ان سوالات واشکالات میں کچھ وزن ہے تو اہل علم کو ان کے حل کی طرف متوجہ کریں گے۔
ورلڈ اسلامک فورم کی ویب سائٹ قائم ہونے پر مبارک باد قبول فرمائیے۔ میرے خیال میں حلقہ علما کو درپیش مسائل کی طرف متوجہ کرنے سے آگے بڑھ کر اب فورم کو ایک باقاعدہ ادارے کی شکل دے دی جانی چاہیے جہاں فکری اور تحقیقاتی وتجزیاتی مواد کی فراہمی کا کام منظم طریقے سے کیا جا سکے۔ موجودہ صورت میں یہ کام شخصیات تک محدود رہ جائے گا اور شاید اس کے زیادہ دیرپا اثرات مرتب نہ ہو سکیں۔
محمد عمار خان ناصر
۲۸؍ مئی ۲۰۰۸
(۵)
محترم جناب مولانا زاہدالراشدی صاحب
السلام علیکم ۔ مزاج بخیر
ماہنامہ الشریعہ (جون ۲۰۰۸) کے شمارہ میں آنجناب کی تحریر ’’ مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور ایک نو مسلم کے تاثرات‘‘ نظر سے گزری۔ آپ کی وسعت ظرفی کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ آپ نے لکھا ہے کہ :
’’علاقائی اور ثقافتی رسمیں اگر دین کا حصہ نہ سمجھی جائیں اور انہیں ثواب کے ارادے سے انجام دینے کی بجائے محض خوشی کی علاقائی اور ثقافتی رسم کے طور پر کیا جائے تو اس پر شریعت کے منافی ہونے کا فتویٰ لگا دینا اور غیظ و غضب کا اظہار کرنا مناسب بات نہیں ہے ‘‘ ۔
بندہ کو آج سے تقریباً چالیس سال پرانا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ جھنگ کے علاقہ میں ایک شادی کے موقع پر دلہن کو رخصتی کے وقت جب ڈولی میں بٹھا یا جانے لگا تو وہاں کے ایک بزرگ عالم دین نے اس علاقائی رسم کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ یہ شریعت کے منافی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برادری میں کا فی اختلاف پیدا ہو گیا، کیونکہ دلہن والے ان بزرگ عالم دین کے مرید ہونے کی وجہ سے دلہن کو ڈولی میں بٹھانے پر رضا مند نہ تھے جبکہ دولہا والے خاندانی رسم ہونے کی وجہ سے مصر تھے کہ لڑکی ڈولی میں ہی جائے گی۔ اس قسم کی علاقائی رسومات پر شریعت کے منافی ہونے کا فتو یٰ لگا دینا لوگوں میں اختلافات پیدا ہونے اور مذہب سے دوری کا سبب بنتا ہے۔
اسی شمارے میں عمار خان ناصر کا مضمون ’’ زنا با لجبرکی سزا‘‘ شائع ہوا ہے۔ میں بڑھتی ہوئی معاشرتی برائیوں کی وجہ سے مصنف کے نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہوئے آپ کی وساطت سے علماے کرام سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس مضمون کو صرف تنقیدی نظر سے دیکھنے کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بحث کو علمی انداز میں آگے بڑھائیں تاکہ اس زنا بالجبر اور اجتماعی آبروریزی جیسے جرائم کے سد باب کے لیے از سر نو غور کرکے مناسب سزا مقرر کی جا سکے۔
ماہنا مہ الشریعہ کی اس پالیسی کی تعریف نہ کی جائے تو یقیناًناانصافی کی بات ہوگی کہ اس نے مختلف نقطہ ہاے نظر کو اظہار رائے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ اس طریقہ سے اتحاد بین المسلمین کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی ساری ٹیم کو اجر عظیم عطا فرمائے ۔ آمین
(مولانا) محمد اسامہ سہیل
مہتمم دارالعلوم نعمانیہ
پرانی سبزی منڈی ، گوجرانوالہ
(۶)
جناب محمد عمار خان ناصر صاحب !
السلام علیکم
ماہنامہ ’’اشراق‘‘ میں آپ کامضمون ’’شرعی سزاؤں کی ابدیت وآفاقیت‘‘ دیکھا۔ میرے نزدیک اس میں دوسرا نقطہ نظر درست ہے کہ اصل مقصد سزائیں جاری کرنا نہیں بلکہ جرائم کو روکنا ہے۔ آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی طرح مخصوص حالات کی وجہ سے سزا معاف کی جا سکتی ہے، لیکن یہ قانون ابدی ہے۔ اگر قانون ابدی ہے توعمر فاروقؓ نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟ میرے نزدیک موجودہ حالات میں بھی ان سزاؤں کے نفاذ سے، جیسا کہ سعودی عرب میں ہیں، سوائے اسلام کی بدنامی کے کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔ اس سلسلہ میں، میں نے جاوید احمد غامدی صاحب سے فون پر بات کی توانہوں نے فرمایا کہ شریعت نے جو رعایت کا پہلو رکھا ہے جس کے تحت مجرم کی سزا معاف کی جا سکتی ہے، اس میں زمانے کے حالات بھی شامل ہیں۔ اگرکسی زمانے میں ان سزاؤں کے نفاذ سے نقصان ہوتا ہو تو ضروری نہیں کہ یہ سزائیں دی جائیں۔ میرا بھی یہی موقف ہے کہ ہم قرآن سے سزائیں نہیں نکال سکتے، وہ اللہ کاحکم ہے لیکن اپنے آئین سے تو نکال سکتے ہیں۔ غامدی صاحب نے آپ کی طرح سزاؤں کے ا بدی ہونے کا اظہار کیا اور میرے اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کیا کہ اصل مقصد جرائم کو روکنا ہے، جیسا کہ جہاد تلوار سے بھی ہو سکتا ہے اور ٹینک سے بھی۔
آپ نے لکھا ہے کہ ’’معاشرتی جرائم پر موثر طریقے سے قابو پانا سخت اور سنگین سزاؤں ہی کی مدد سے ممکن ہے۔‘‘ پاکستان میں قتل کے بدلے قتل کی سزا موجود ہے۔ یورپی یونین کے ممالک میں یہ سزا نہیں۔ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو پاکستان میں قتل نہ ہوتے یا بہت کم ہوتے۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پاکستان میں اوسطاً سالانہ دس ہزار سے زائد قتل ہوتے ہیں جو کہ بہت سے مغربی ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ شاید یہ سوال کریں کہ ہمارے ہاں سزاؤں پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ یہ بھی مکمل صحیح نہیں۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ سزائے موت دی جاتی ہے۔ اگر کوئی قرآن میں موجود سزاؤں کو وحشی کہتا ہے تو وحشی قوم کے لیے تھی۔ دنیا کے کئی ممالک میں پاکستان اور سعودی عرب کی طرح سنگین سخت سزائیں موجود نہیں تاہم وہاں جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ غالباً فرانس کے بارے میں پڑھا ہے کہ ان کی لغت میں ریپ کا لفظ موجود نہیں۔ گویاان کی پوری تاریخ میں اجتماعی زیادتی کا واقعہ پیش نہیں آیا، جبکہ ہمارے ہاں حدود جیسے سخت قوانین کے باوجود ہر روز ایسے شرمناک واقعات پیش آتے ہیں۔
بہرحال یہ فلسفہ تو غلط ثابت ہو چکا ہے کہ بعض سزاؤں کے نفاذ سے جرائم ختم کیے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کی تعلیم وتر بیت، معاشی خوش حالی اور دیگر بہت سے عوامل ہیں جن کو درست کرنا ضروری ہے۔ ہمارے بہت سے دانشور مغرب کی اندھی مخالفت میں مبتلا ہیں اور مغرب کی ہر بات میں نقص نکالنا اپنا مذہبی فرض سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مغرب نے اخلاقی لحاظ سے بہت ترقی کی ہے۔ ہمیں ہرحال میں انصاف پر قائم رہنا ہے۔ مغرب کی اچھی باتوں کی تعریف کرنے سے ہمارا ایمان خطرے میں نہیں پڑ جائے گا۔ امید ہے آپ اس پہلو پر غور فرمائیں گے۔
حافظ ممتاز علی
سنگھوئی، ضلع جہلم
(۷)
مکرمی جناب ابو عمار زاہد الراشدی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اللہ کرے آپ بخیریت ہوں۔ ایک بہن کے خط نے مجھ سے کم ہمت میں ہمت پیدا کی کہ میں بھی ایک بہن کے خیالات سے سو فی صد اتفاق ظاہر کر سکوں۔ چند ماہ سے آپ کا رسالہ شاید شبیر احمد خان میواتی کی سفارش پر مجھے مل رہا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ آپ نے حضرت مولانا علامہ جاوید الغامدی کے ساتھ کوئی معاہدہ کر رکھا ہے کہ آپ ان کے خیالات و نظریات کو آگے بڑھائیں۔ پہلی بات تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ علما حضرات ہمیں تو احادیث سناتے نہیں تھکتے کہ اپنے بچوں کے نام اللہ کے نام پر رکھو، لیکن آپ کے نام احمد میاں، محمد میاں، الغامدی، ابو عمار زاہد الراشدی! میرا خیال ہے کہ اتنے موٹے موٹے نام رکھنے سے شاید ان پڑھ اور جاہل عوام کو یہ تاثر دینا مقصود ہوتا ہے کہ جب آپ ہمارے ناموں کا مطلب ہی نہیں سمجھ سکتے تو جو کچھ ہم بیان کرتے ہیں، لکھتے ہیں، وہ آپ کے سر سے گزر جائے گا۔
آپ کا رسالے اور دیگر مذہبی رسائل میں جو کچھ چھپتا ہے، ا س کا غریب عوام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس مرتبہ بھی آپ کے رسالے میں ایک مضمون زنا کے حوالے سے شائع ہوا ہے۔ آپ کے خیال میں اس وقت کل مسلمانوں کے کتنے فی صد زنا کرتے ہیں جن کی اصلاح کے لیے آپ اس قسم کے مضامین شائع کرتے ہیں؟ کیا مسلمانوں کے معاشرے میں صرف زنا ہی ہو رہا ہے؟
غامدی کے نظریات کے فروغ کے لیے آپ کی خدمات بے مثال ہیں۔ غالباً میں نے کراچی سے شائع ہونے والے ایک رسالے ساحل میں پڑھا تھا کہ آپ کے کوئی قریبی عزیز غامدی کے انسٹی ٹیوٹ میں کام کرتے ہیں۔ ویسے میں جاننا چاہوں گا کہ کیا غامدی کوئی فقہی اصطلاح ہے یا کسی نئے سلسلہ باطنیہ کا نام ہے؟ ایک گم نام مصنف نے سرسید احمد خان مرحوم سے کہا تھا کہ کوئی ایسا طریقہ بتلائیے کہ مجھے بھی آپ جیسی شہرت ومقام حاصل ہو جائے تو سرسید احمد نے کہا کہ میری کتابوں کی تردید لکھنا شروع کردو۔
آپ کے مضمون سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ انگلستان تشریف لے گئے تھے۔ مجھے بھی دو سال قبل کافروں کے ملک جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ میں تو سیر وتفریح کے لیے گیا تھا، تبلیغ یا اشاعت اسلام مقصد نہیں تھا کیونکہ ہمارے اسلام کی سچی تصویر تو مورس مجید نے کھینچ دی ہے۔ میں ایک روز اپنی بیوی کے ہمراہ ٹیوب میں سفر کر رہا تھا کہ ایک اسٹیشن پر ایک نوجوان جوڑا ٹیوب میں داخل ہوا اور بوس وکنار میں مصروف ہو گیا۔ میری بیوی کے لیے یہ منظر اور قسم کا تھا۔ اس سے وہ اپنی طرز کی برہمی کا اظہار کرنے لگی اور اسٹیشن سے اتر کر کہنے لگی کہ یہ کس قدر بے شرم لوگ ہیں۔ اس پر میں نے اس کو کہا کہ مجھے یہ بتلاؤ کہ جب وہ اس کام میں مصروف تھے تو ٹرین میں ایک بھی شخص نے ان کے معاملات میں مداخلت کی؟ کیا کسی ایک شخص نے بھی ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا؟ اب تو مجھے بتلا کہ میں جب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تجھے یا تیری بیٹی کو اسکوٹر پر لے جاتا ہوں تو ہر شخص کا طرز عمل کیا ہوتا ہے؟ جب تک وہ تجھے یا تیری بیٹی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی نہیں کر لیتے، وہ تجھ سے نظر نہیں ہٹاتے۔ بتا مسلمان کو ن ہیں؟ تو یا وہ کافر عیسائی؟
آپ کو وہاں باہر نکلنے کا بھی موقع ملا ہوگا۔ ’’اپنے گھروں کے آگے برآمدوں کو صاف رکھا کرو‘‘، اس حدیث پر کہاں عمل ہوتا ہے؟ آپ کی مساجد کے غسل خانے اور واش روم اور مسلمانوں کے محلے اور علاقے اس حدیث پر کس قدر عمل کرتے ہیں، شاید وہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ مولانا تقی عثمانی نے اپنے ایک سفر نامے میں اسی صورت حال کی خوب صورت عکاسی کی ہے۔ آپ کو وہاں Spencer اسٹور پر جانے کا اتفاق ہوا ہوگا۔ میں بھی ایک مرتبہ نہیں، بے شمار مرتبہ وہاں گیا۔ ایک روز وہاں خربوزے ایک شیلف میں دو پونڈ فی دانہ تھے اور ایک شیلف میں ایک پونڈ کے دو دانے۔ میں نے اپنے بھائی سے معلوم کیا تو وہ کہنے لگا کہ خربوزے تو ایک ہی قسم کے ہیں، لیکن جو سستے والے ہیں، وہ کل نہیں بک سکے تھے اس لیے باسی ہو گئے۔ میں نے کہا، لیکن انسانوں نے دیکھا تو نہیں، جس طرح وہ لڑکی کہہ رہی تھی کہ ماں، دودھ میں پانی ملا دے، اس وقت صبح کا وقت ہے، کوئی نہیں دیکھ رہا۔ تو ان کافروں عیسائیوں کو بھی تو کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا۔
یقیناًآپ نے اپنے کسی میزبان کی موٹر میں بھی سفر کیا ہوگا۔ یقیناًان کے پاس ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں ہوگا اور اگر ہوگا تو رشوت، نہیں ’’چائے پانی‘‘ پلا کر حاصل کیا ہوگا، حالانکہ سڑک پر ٹریفک پولیس بھی نہیں ہوتی، لیکن اس کے باوجود انھوں نے ٹریفک کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی کی ہوگی۔ ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہے ہوں گے کہ میں ہر کسی سے آگے نکل جاؤں۔ معاملہ یہ ہے کہ ہمارا مذہب محض رسومات کا مجموعہ ہے۔ اس کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، وگرنہ ہر روز صرف پاکستان سے سینکڑوں لوگ ہر ہفتے بعد عمرہ کرنے جاتے ہیں اور پھر واپس آ کر اسلام پر عمل کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔
آپ کو وہاں کسی نہ کسی دفتر میں خدا نخواستہ جانے کی ضرورت تو نہیں پیش آئی ہوگی اور یہاں تو ہمیں دفاتر، ہسپتالوں اور عدالتوں میں ہی جانا پڑتا ہے۔ کس ملک کے دفتر، ہسپتال اور عدالت میں اسلام پر عمل ہوتا ہے؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان یا ملک کفار میں؟ میں ۳۵ سال اپنے مخاطبین سے یہ کہتا رہا ہوں کہ یا اللہ، میری دشمن اندرا گاندھی کو بھی پاکستان کے کسی دفتر، کسی ہسپتال، کسی عدالت میں نہ لے جانا۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام معاملات تو علماے کرام وعظام کے وعظ ونصیحت سے خارج ہیں کیونکہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ علما ومشائخ (اللہ ہو والے پیر صاحب، رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ وغیرہ) گرمیوں میں یورپی ممالک میں ہی تبلیغ اسلام کے لیے کیوں جاتے ہیں، سردیوں میں کیوں نہیں؟ شاید سردیوں میں وہاں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔
مورس مجید کے واقعے سے مجھے یہ واقعہ یاد آیا کہ میرے گھر کے قریب کی مسجد کے جو صاحب ’’مالک‘‘ ہیں، وہ تین چار لاکھ روپے کے قریب ’’کرایہ‘‘ کھا کر زندگی گزارتے اور تبلیغ کرتے ہیں۔ ایک صاحب جو یہاں قریبی ریستوران میں بیرا گیری کرتے تھے، وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئے۔ اس غریب شخص نے کئی مرتبہ دبے لفظوں میں یہ کہا کہ مسلمان ہونے کے بعد میرے سماجی اور معاشی مسائل بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں تو تبلیغی جماعت کے مفکر اور کرایہ خوار صاحب فرمانے لگے کہ انھیں چلے پر بھیج دو، یوں ان کے تمام معاشی، سماجی اور مذہبی معاملات طے ہو جائیں گے۔
ایک بہن نے علماے کرام وعظام سے جوتوقعات وابستہ کی ہیں، مجھے تو سو فی صد یقین ہے کہ انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمیں بتلایا جاتا ہے کہ پاکستان کی ستر فی صد آبادی گاؤں میں رہتی ہے۔ گاؤں تو زمیندار کا ہوتا ہے یا کسی پیر مخدوم کا، اور وہاں کا عالم دین تو جمعرات کی روٹی وڈیرہ صاحب سے لیتا ہے۔ وہ کس طرح یہ کہہ سکتا ہے کہ وڈیرہ صاحب! بہاول پور میں لوگوں کے لیے پینے کا جوہڑ تک کا پانی دست یاب نہیں۔ صاف پانی کی فراہمی کا اگر وہ کہے گا تو اپنی جان سے ہاتھ گنوا بیٹھے گا۔ گاؤں کے اسلا م میں تو یہ چیزیں کوئی معنی نہیں رکھتیں، وہاں تو نور اور بشر کے مسائل ہی ابھی تک حل نہیں ہو سکے۔ انسان کے حقوق تو ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔
باقی رہا شہری اسلام تو یہاں کے مسائل مختلف ہیں۔ یہاں کے وڈیروں او رپیر صاحبان نے تو علماے کرام سے یہ لکھوا رکھا ہے کہ جمعے کے ہر خطبے میں یہ پڑھنا ضروری بلکہ واجب ہے کہ السلطان المسلم ظل اللہ فی الارض من اہان سلطانہ اہانہ اللہ۔ اب ظاہر ہے کہ جتنے بھی جرنیل ظل اللہ اور سویلین ظل اللہ ہیں، انھوں نے تو فی الحال عوام کے مسائل کو حل کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے، وہ تو سمجھ لیجیے کہ حل ہو ہی گئے۔ اب تو عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ ہری پگڑی پہنیں یا کالی پگڑی، نماز کے بعد زور زور سے لا الہ الا اللہ کا ورد ضروری ہے یا نہیں۔ یہی مسائل ہیں جن کا اسلام سے گہرا تعلق ہے۔ باقی خواہ آپ ہر ہفتے عمرہ کریں یا انگلستان کا تبلیغی سفر یا اب ایک نیا ڈرامہ شروع ہوا ہے: بین المذاہب مکالمہ، یہی اسلام ہے۔ اسلام کا دفتر، عدالت، ہسپتال، محلے، شہر یا ملک میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اسلام کا تعلق روحانی دنیا سے ہے، عملی دنیا سے نہیں۔ یہ ذاتی معاملہ ہے اور اس کی سزا وجزا کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔
بہرحال آپ اسلام کی تبلیغ جاری رکھیے۔ اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔
احمد سعید
مکان ۷۲۔ بلاک جی ۴
محمد علی جوہر ٹاؤن ii ۔ لاہور