(انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے زیر اہتمام دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے دس روزہ تربیتی پروگرام میں ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر نے ۱۲؍مارچ کو دینی مدارس کو درپیش مسائل اور چیلنجز کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ ان کی گفتگو کا ایک حصہ یہاں نقل کیا جا رہا ہے۔ مدیر)
داخلی نصاب ونظام کے حوالے سے دینی مدارس کو ایک اورچیلنج یہ درپیش ہے کہ اسلامی ثقافت واقدار کاتحفظ ان کے اہداف میں شامل ہے، لیکن جس مغربی ثقافت اور فلسفہ سے اسلامی اقدار وثقافت کوخطرہ درپیش ہے، اس سے واقفیت کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی۔ مغربی فکرو فلسفہ کیاہے اور مغربی ثقافت واقدار کا پس منظر کیاہے؟ اس سے دینی مدارس کے اساتذہ او رطلبہ کی غالب اکثریت ناواقف ہے اور یہ افسوس ناک صورت حال ہے کہ جس دشمن سے ہم لڑرہے ہیں، اس کی ماہیت، طریقہ کار، ہتھیاروں اور دائرہ کار سے ہمیں شناسائی تک حاصل نہیں ہے۔مغربی فلسفہ ونظام اور ثقافت واقدار کا ایک تاریخی پس منظر ہے، اس کی اعتقادی بنیادیں ہیں، اس کاایک عملی کردار ہے اور اس کاوسیع دائرۂ اثر ہے، مگر دینی مدارس کے نصاب میں اس سے آگاہی کا کوئی حصہ شامل نہیں ہے، حالانکہ ہمارے سامنے اسلاف کی یہ عظیم روایت موجودہے کہ جب ہمارے معاشرے میں یونانی فلسفہ نے فروغ حاصل کیاتھا اور ہمارے عقائد کے نظام کو متاثر کرنا شروع کیاتھا توہمارے اکابر مثلاً امام ابو الحسن اشعری، ؒ امام ابو منصور ماتریدیؒ ، امام غزالیؒ ، امام ابن رشد ؒ اور امام ابن تیمیہؒ نے یونانی فلسفہ پر عبور بلکہ برتری حاصل کی تھی او ر اسی زبان اور اصطلاحات میں یونانی فلسفہ کے پیداکردہ اعتراضات وشبہات کاجواب دے کر اسلامی عقائد کی حقانیت اور برتری ثا بت کی تھی، ورنہ ایک دور میں یونانی فلسفہ ہمارے عقائد کے نظام میں اتھل پتھل کی کیفیت پیدا کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہاتھا۔ اس حوالے سے دینی مدارس سے بجا طور پر یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ مغربی فکر وفلسفہ کو بطور فن اپنے نصاب کاحصہ بنائیں، اس کے ماہرین پیدا کریں اور اسی کی زبان اور اصطلاحات میں شکوک وشبہات کے ازالہ اور اسلامی عقائد وثقافت کے تحفظ ودفاع کا اہتمام کریں۔
دینی مدارس کو درپیش ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ عالمی ماحول تو رہا ایک طرف، ہم عام طور پر اپنے ارد گرد کے ماحول سے بھی باخبر نہیں ہوتے۔ میرے خیال میں اب ارد گرد کے ماحول اور عالمی ماحول میں فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہاہے اور مزید مشکل ہوجائے گا۔ یہ معلومات کی وسعت کادور ہے، ہر چیز سے باخبر رہنے کادورہے اور حالات پر نظر رکھنے کا دور ہے۔ اس ماحول میں دینی مدارس کواپنے اس طرز عمل اور ترجیحات پر نظر ثانی کرناہوگی جو اپنے اساتذہ اور طلبہ کو بہت سے معاملات میں بے خبر رکھنے کے لیے ان کی پالیسی کا حصہ ہے۔مثلاً:
- معاصرمذاہب کا تعارفی مطالعہ انتہائی ضروری ہے، بالخصوص وہ چھ سات مذاہب جن کے پیروکار اس وقت دنیا میں وسیع دائرے میں پائے جاتے ہیں او ر ان کے مستقل ممالک اور حکومتیں قائم ہیں، مثلاً یہودی، عیسائی، ہندو، بدھ مت اور سکھ وغیرہ۔ ان کا تعارفی بلکہ اسلام کے ساتھ تقابلی مطالعہ دینی مدارس کے فضلا کے لیے ضروری ہے ۔
- مسلم امہ کاحصہ سمجھے جانے والے اعتقادی اور فقہی مذاہب مثلاً اہل سنت، اہل تشیع، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری، سلفی، جعفری، زیدی وغیرہ کاتعارفی مطالعہ اور ان کے اصول اور تاریخ سے واقفیت ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ ہی عصری مسلم فکری تحریکات، جو روایتی دائرے سے ہٹ کر ہیں، ان کے بارے میں ضروری معلومات سطحی اور نامکمل نہ ہوں بلکہ اصل ماخذ سے صحیح معلومات ہونی چاہییں۔
- طب، سائنس، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ وغیرہ کی عملی کارفرمائی سے بہت سے مسائل کی نوعیت تبدیل ہوگئی ہے اور ہوتی رہتی ہے۔ ان سے آگاہ ہوئے بغیر فتویٰ دینا یا مسئلہ بیان کرنا شرعی اصولوں کے منافی ہے، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ فن کو حاصل کرنا اور چیز ہے، اور اس کے بارے میں ضروری معلومات رکھنا اس سے مختلف امر ہے۔
- عالمی اور علاقائی زبانو ں سے واقفیت اور ان پر عبور ایک مستقل مسئلہ ہے۔ دینی مدارس میں انگریزی کی تعلیم کا ایسا اہتمام کہ کوئی فاضل انگلش میں تقریر کر سکے یا معیاری مضمون لکھ سکے، سرے سے موجود نہیں ہے ۔ ہمار ی عربی، کتاب فہمی تک محدود ہے اور سالہا سال کی تعلیم اور تدریس کے بعد بھی ہم عربی زبان میں اس سے زیادہ عبور حاصل نہیں کر پاتے کہ کتاب کو سمجھ لیں اور اس کو پڑھا سکیں۔ بول چال، فی البدیہہ تقریر اورمضمون نویسی کی صلاحیت حاصل کرنا ہمارے اہداف میں شامل نہیں ہے، بلکہ اپنی قومی زبان اردو میں بھی ہماری حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ ہمارے اکثر فضلا اچھی اردو نہیں بول سکتے اور نہ ہی اردو میں ڈھنگ کا کوئی مضمون تحریر کرسکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا افسوس ناک خلا ہے جس نے ہمیں ابلاغ کے شعبے میں بالکل ناکارہ بنا رکھا ہے ۔
- ابلاغ کے جدید ذرائع مثلاً کمپیوٹر، انٹر نیٹ، ویڈیو وغیرہ تک ہماری رسائی محل نظر ہے اور نہ صرف یہ کہ ز بان اور ذرائع عام طور پر ہماری دسترس سے باہر ہیں، بلکہ اسلوب کے حوالے سے بھی ہم آج کے دور سے بہت پیچھے ہیں۔ ہماری زبان ثقیل او راسلوب فتویٰ اور مناظرہ کاہوتاہے، جبکہ یہ تینوں باتیں اب متروک ہوچکی ہیں۔ آج کی زبان سادہ اور اسلوب لابنگ اور بریفنگ کاہے، مگر ہم ان دونوں سے نا آشنا ہیں جس کی وجہ سے ہم خود اپنے معاشرہ اور ماحول میں ہی بسااوقات اجنبی ہو کر رہ جاتے ہیں اور ابلاغ کی ذمہ داری پوری نہیں کرپاتے۔
- ہمارے ہاں عمرانی اور معاشرتی علوم کاارتقا مسلم اسپین کے دور تک رہاہے۔ اس کے بعد ایسی بریک لگی ہے جیسے ہمارے ہاں معاشرت اور عمرانیات کاارتقا ہی رک گیا ہو۔ تب سے ا س شعبہ میں ہم پر جمود طاری ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے اجتہادی کام کے علاوہ اس دوران میں کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی او ر شاہ صاحب ؒ کے بعد بھی تین صدیوں سے سناٹا طاری ہے ۔ معاشرت کاارتقا تو ظاہر ہے، رک نہیں سکتا مگر معاشرت وتہذیب کے حوالہ سے ہماری سوئی ابھی تک مسلم اسپین پر اٹکی ہوئی ہے اور ہم اس سے آگے بڑھتے نظر نہیں آرہے ۔ اس جمود کو توڑے بغیر ہم معاشرت وتمدن اور ثقافت وعمرانیات کے بارے میں دنیا کی راہ نمائی کامقام آخر پھر سے کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ مگر دینی مدارس میں عمرانی علوم کے حوالے سے کوئی اجتہادی کام اور علمی پیش رفت تو رہی ایک طرف، ان علوم تک ہمارے فضلااور اساتذہ کی رسائی بھی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے ۔
- دینی مدارس میں ہمارے اعتقادی اور فقہی مباحث اور اختلافات پر خوب کام ہوتاہے اوریہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہماری توانائیوں اور صلاحیتوں کا بڑ ا حصہ صرف ہوتاہے۔ مجھے اس کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں، لیکن اختلافات کی درجہ بندی اور تر جیحات کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں۔ بسااوقات اولیٰ اور غیر اولیٰ کے مسائل اورفروعی اختلافات کفر واسلام کے معرکے کا روپ دھار لیتے ہیں اور کبھی اصولی اور بنیادی مسائل بھی نظر انداز ہونے لگ جاتے ہیں۔ اعتقادی مسائل اور فقہی اختلافات پر ضروربات ہونی چاہیے اور طلبہ کو ان سے متعارف کرانا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ان اختلافات کی درجہ بندی اور ترجیحات بھی ان کے سامنے واضح ہونی چاہیے اور انہیں اس با ت کا علم ہونا چاہیے کہ کون سی بات کفر واسلام کی ہے اور کون سی بات اولیٰ اور غیر اولیٰ کی ہے، کس اختلاف پر سخت رویہ اختیار کرنا ضروری ہے او ر کون سے اختلاف کو کسی مصلحت کی خاطر نظر انداز بھی کیا جاسکتاہے ۔
- تحقیق کے حوالے سے ہمارے ہاں صرف تین شعبوں میں کام ہوتاہے: (۱) اعتقادی وفقہی اختلافات پر خوب زور آزمائی ہوتی ہے، (۲) افتا میں ضرورت کے مطابق تحقیق ہوتی ہے، (۳) دینی جرائد میں عام مسلمانوں تک اپنے اپنے ذوق کے مطابق دینی معلومات پہنچانے کے لیے تھوڑی بہت محنت ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ امت کی اجتماعی ضروریات اور ملت اسلامیہ کے عالمی ماحول کی مناسبت سے کسی تحقیقی کام کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں ہے۔ کچھ افراد اپنے ذوق اور محنت سے ایسا ضرور کررہے ہیں، لیکن بحیثیت ایک ادارہ اور نیٹ ورک کے دینی مدارس کے پروگرام میں یہ چیز شامل نہیں ہے۔
- معلومات کی وسعت، تنوع اور ثقاہت کا مسئلہ بھی غور طلب ہے۔ کسی بھی مسئلہ پر بات کرتے ہوئے ہم میں سے اکثر کی معلومات محدود، یک طرفہ اور سطحی ہوتی ہیں۔ الاّ یہ کہ کسی کا ذوق ذاتی محنت اورتوجہ سے ترقی پاجائے اور وہ ا س سطح سے بالا ہو کر کوئی کام کر دکھائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحقیق، مطالعہ اور استدلال واستنباط کے فن کو ایک فن اور علم کے طور پر دینی مدارس میں پڑھایا جائے اور طلبہ کو اس کام کے لیے باقاعدہ طور پر تیار کیاجائے۔
- دینی مدارس کی لائبریریوں کا حال بھی ناگفتہ بہ ہے۔ گنتی کے چند بڑے مدارس کے استثنا کے ساتھ عمومی طور پر دینی مدارس کی لائبریریوں میں درسی کتابوں سے ہٹ کر جو کتابیں پائی جاتی ہیں، وہ کیف مااتفق کے اصول پر کسی منصوبہ بندی اور ہدف کے بغیر ہوتی ہیں۔ ان تک طلبہ کی رسائی اوراستفادہ کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں حتیٰ کہ بعض مدارس میں تو روزانہ اخبارات کاداخلہ بھی بندہوتاہے اور طلبہ پر پابندی ہوتی ہے کہ وہ اخبارات وجرائد کا مطالعہ نہیں کریں گے۔ خدا جانے اپنے طلبہ کو دنیا، اپنے ملک اورارد گرد کے ماحول سے بے خبر رکھ کر یہ مدارس انہیں کون سے ماحول میں کام کرنے کی تربیت دے رہے ہوتے ہیں۔
- مذاہب اورتہذیبوں کے درمیان مکالمہ کی ضرورت بھی دن بدن عالمی سطح پر بڑھتی جارہی ہے اور اس کی طرف بین الاقوامی حلقے متوجہ ہورہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مکالمہ کے اصل فریق کون ہیں اورمکالمہ کا ایجنڈا کیا ہے۔یہ ایک مستقل موضوع ہے جس پر الگ سے گفتگو ہونی چاہیے، لیکن مذاہب کے درمیان مکالمہ جس انداز سے آگے بڑھ رہاہے، اس سے دینی مدارس کے اساتذہ اورطلبہ کابے خبر اور لاتعلق رہنا سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ اس مکالمہ کے پس منظر، ضرورت، دائرہ کار اور مضرت ومنفعت سے دینی مدارس کے اساتذہ اورطلبہ کا آگاہ ہونا ضروری ہے، بلکہ اس مکالمے کے تو اصل فریق ہی دینی مدارس ہیں اور انہیں اس سلسلہ میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔