جناب پروفیسر میاں انعام الرحمن میرے چند پسندیدہ لکھنے والوں میں سے ہیں۔ میں ان کی فکر انگیز تحریروں کا بے تابی سے انتظار کرتاہوں، اگر چہ بعض اوقات ان کی تحریر کی تیزی وتندی کھلتی ہے۔ ان کے بعض استدلالات سے اختلاف کے باوجود میں ان کامداح ہوں۔ ایسی ہی ایک فکر انگیز تحریر ’’قرآنی علمیات اور معاصر مسلم رویہ‘‘ کے زیر عنوان الشریعہ کے جنوری ۲۰۰۶ء کے شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ اس کے بعض مندرجات سے اتفاق نہ ہونے کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ انعام الرحمن صاحب نے اس میں بعض بہت ہی لطیف نکات اور سوالات اٹھائے ہیں ۔
میں یہاں اس تحریر کے پہلے حصے سے جو ’’قرآنی علمیات ‘‘سے متعلق ہے، تعرض نہیں کروں گا ۔اس حصے میں انعام صاحب نے سورۃ بقرۃ کے بعض اجزا کی جو تشریح کی ہے، وہ میرے خیال میں سورۃ بقرۃ کے مجموعی نظم اور سیاق وسباق سے لگاّنہیں کھاتی، تاہم اس کو چھیڑنے سے بحث اپنے موضوع سے ہٹ جائے گی۔ ان سطور میں، میں انعام صاحب کے مضمون کے صرف دوسرے حصے یعنی ’ذبیح کون ہے؟‘ کو موضوع بحث بنا ؤں گا ۔
(۱) انعام صاحب یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’ذبیح کون ہے؟‘ کی بحث کابنیادی محرک کیاہے؟کیا اس سے قرآن کے کسی حکم کافہم مطلوب ہے؟کیایہ بحث کیے بغیر قر آنی منشا مستور رہتی ہے؟
میرے خیال میں ذبیح اور اسی ضمن میں مروہ اور موریا ،بیت اللہ اور بیت ایل کی بحث قرآن کی بعض آیات اور خاص طور پر سورہ بقرۃ کو اس کے صحیح تناظر میں سمجھنے کے لیے نہ صرف مفید بلکہ ناگزیر ہے اور اس سلسلے میں امام فراہی ؒ کی تحقیق ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔سورۃ بقرۃ اور قرآن کی بعض دیگر آیات کی تفہیم کے لیے یہود کی تحریفات اور کتمان حق کاپردہ چاک کرنا ضروری ہے ۔اگر ان تحریفات اور کتمان حق کاپس منظر قرآن کے قاری کے ذہن میں نہ ہو تو وہ نہیں سمجھ سکتا کہ اللہ جل شانہ یہود پر حق کو مسخ کرنے اور چھپانے کا الزام بار بار کیوں عائد کرتے ہیں اور حضرت محمد ﷺ اور قرآن کے بارے میں ان کے حاسدانہ رویے پر ان کواتنی سختی سے کیوں مخاطب کرتے ہیں۔ کم از کم میرا ذا تی تجربہ تو یہی رہاہے ۔ میں تقریباً گزشتہ ڈھائی سال سے سورۃ بقرۃ کا انتہائی غور سے مطالعہ کررہاہوں ۔جب تک میں نے یہود کی تحریفات اور کتمانِ حق کی اصل حقیقت اور پس منظر کو نہیں سمجھ لیاتھا، مجھے سورۃ بقرۃ کی بہت سی آیات کو سمجھنے میں سخت مشکل پیش آرہی تھی۔
قرآن مجید یہود کے کتمانِ حق اور کتمانِ شہادت کاذکر بار بار کرتاہے (سورۃ بقرۃ ۴۲، ۷۵، ۱۴۰، ۱۴۶، ۱۷۶، ۱۵۹۔ المائدہ۱۳۰، ۱۵) اور انھیں ’البینات والھدیٰ‘ (البقرۃ ۱۵۹) کو چھپانے کامجرم ٹھہراتاہے۔ قرآن مجید اس کتمان کی تفصیل بیان نہیں کرتا، لیکن یہ ضرور بتاتا ہے کہ ان کے اس کتمان کاتعلق ان کی کتابوں میں موجود واضح حقائق ہی سے ہے۔(البقرۃ ۱۴۰، ۱۵۹)
ذیل میں، میں سورۃ بقرۃ میںیہود کے کتمانِ حق کے حوالے سے موجود اشارات کا تجزیہ کروں گا۔
البقرۃ آیت ۱۲۴ میں حضرت ابراہیم ؑ کی ابتلاؤں او رآزمائشوں کاذکر ہے۔ ان آزمائشوں میں سے کھلی اور واضح آزمائش (البلاء المبین) بیٹے کی قربانی تھی۔ (الصافات،۱۰۶) اللہ تعالیٰ نے ان آزمائشوں کے اختتام پر حضرت ابراہیمؑ کو ’اماما للناس‘ بنا نے کی خوشخبری دی۔ (البقرۃ، ۱۲۴) حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی اولاد میں بھی یہ امامت جاری رکھنے کی درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ میرے اس عہد میں ظالمین شامل نہیں ہو سکتے۔ (البقرۃ ۱۲۴) یعنی آپ کی اولاد میں سے ظالم لوگ امام نہیں بن سکتے۔ البقرۃ آیت۱۴۵ میں کتمان شہادت کرنے والوں کو سب سے بڑا ظالم کہاگیاہے۔ اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ کتمان شہادت کے مجرم یہود اور نصاریٰ، دونوں ہیں۔ مزید برآں ’شہادۃ عندہ من اللہ‘ کے الفاظ سے واضح ہوتاہے کہ یہ شہادت اور حق ان کی کتابوں میں موجود ہے۔
البقرۃ کی آیات ۱۲۴ اور ۱۴۰ کو ملانے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے کتمان شہادت کرنے والے ظالم ہیں اور امامت ناس کے اہل نہیں۔ اسی مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ تحویل قبلہ کی صورت میں (آیت ۱۴۲ ) اس ظالم اولاد (یہود ونصاریٰ) سے امامت کا منصب واپس لے کر امت وسط یعنی حضور ﷺ کے پیروکاروں (آیت ۱۴۳) کوسونپ رہا ہے۔
آیت ۱۲۴ میں ابراہیم ؑ کی قربانی اورآزمائشوں کے ذکر کے بعد آیت ۱۲۵ اوربعد میں آنے والی آیت میں بیت اللہ کے ذکر سے میرے خیال میں یہ بتانا مقصود ہے کہ ابراہیم ؑ کی قربانیوں اور آزمائشوں کا زیادہ تر تعلق اسی بیت اللہ سے ہے۔ آیت ۱۲۵ میں ابرہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کابیت اللہ کی تطہیر سے تعلق واضح کیا گیاہے، جبکہ آیت ۱۲۷ میں بیت اللہ کی تعمیر سے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ ساتھ حضرت اسماعیل علیہما السلام کا ذکر کرنے سے اللہ تعالیٰ خانہ کعبہ کی تعمیر وتطہیر میں حضرت اسماعیل ؑ کے کردار کو واضح کرنا چاہتے ہیں ۔اس سلسلے میں البقرۃ ۱۲۸ اورالصافات ۱۰۳ میں واحد یا جمع کے بجائے تثنیہ کے صیغے ’مسلمین ‘اور ’اسلما‘ بھی قابل غور ہیں۔
آیت ۱۲۹ میں رسول اللہ ﷺ کاحضرت ابراہیم ؑ اور اسماعیل علیہما السلام سے تعلق ظاہر کیا گیا ہے۔ آیت ۱۳۰ میں اس طرف اشارہ کیا گیاہے کہ حضور ﷺ ملت ابراہیم ؑ کے اصلی وارث ہیں اور اس ملتِ ابراہیم ؑ (یعنی رسالتِ محمدی ؑ ) سے اعراض کرنے والے بے وقوف ہی ہو سکتے ہیں۔ (ومن یرغب عن ملۃ ابراہیم الا من سفہ نفسہ ) آگے آیت ۱۴۲ میں ملتِ ابراہیم ؑ کا مرکز خانہ کعبہ کو قرار دیے جانے اور اس بیت اللہ کے قبلہ مقرر کیے جانے پر اعتراض کرنے والوں کو کھلم کھلا ’السفھاء‘ (بے وقوف ) کہا گیاہے۔ اب اگرآیت۱۴۲ میں ’السفھاء‘ کے لفظ کو آیت ۱۳۰ کے الفاظ ’الا من سفہ نفسہ‘سے ملایا جائے تو یہ حقیقت سا منے آتی ہے کہ بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی پر احتجاج کرنے والے ملتِ ابراہیم ؑ سے منہ موڑ رہے ہیں۔
آیت ۱۲۸ سے لے کر ۱۳۶ تک سارے تعصبات اور نسل پرستی کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے (اسلام ) پر زور دیاگیاہے اوریہ واضح کیاگیاہے کہ یہی اسلام ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد اسماعیل ؑ واسحاق اور یعقوب علیہم السلام کا دین تھا اور اسی کی وصیت انہوں نے اپنے اولاد کو کی تھی ۔یہ حضرات کبھی نسل پرستی اور تعصب کاشکار نہیں ہوئے۔ آیت ۱۳۶ میں مسلمانوں کواس تعصب اور نسل پرستی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ’لانفرق بین احدِِ من منہم‘ (البقرۃ ۱۳۶) میں یہودیوں اور عیسائیوں پر بھی لطیف تعریض ہے کہ وہ تفریق بین الرسل میں مبتلا ہیں۔ آیت ۱۳۷ میں بتایاگیاہے کہ اہل کتاب کے حق سے اعراض کی وجہ بے جا ضد ومخالفت (شقاق) ہے۔ ظاہر ہے کہ اس شقاق کی بنیاد نسل پرستی اور گروہی تعصب پر تھی۔
آیت ۱۴۰ میں اہل کتاب کو اس بات پر سر زنش کی گئی ہے کہ وہ ابراہیم ؑ اور ان کی ذریت کو یہود ونصاریٰ ثابت کرنے پر اصرار نہ کریں اور ان کی کتابوں میں (عندہ من اللہ) جو شہادت ہے، اس کو نہ چھپائیں۔ اگر آیت ۱۳۷ اور ۱۴۰ کو ماسبق سے جوڑا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس شقاق اورکتمان کاتعلق بیت اللہ اور حضرت محمدﷺ کے ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کے ساتھ نسبت سے ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کتمان اور شقاق کی اصل نوعیت قرآن پاک سے نہیں، بلکہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے پاس جو کتاب الٰہی موجود ہے، اسی سے معلوم ہوگی۔
البقرۃ آیت ۱۴۲ سے آیت ۱۵۰ تک قبلہ کی تبدیلی اور اس پر یہود کارد عمل زیر بحث ہے ۔واضح رہے کہ قبلہ کی تبدیلی اس بات کاعلامتی اظہار تھا کہ اب امامت ناس، کتمان حق کے مرتکب یہود سے لے کر حضرت ابراہیم ؑ کے اصل وارث حضرت محمدﷺ کے پیروکاروں کو سونپی جانے والی ہے ۔اس لیے آیت ۱۴۲ کے فوراً بعد ’وکذلک جعلناکم امۃ وسطاً‘ کے الفاظ سے مسلمانوں کو مخاطب کیاجارہا ہے اور ان کو بتایا جارہاہے کہ اب شہادت علی الناس کی ذمہ داری تمھارے کندھوں پر ڈالی جاتی ہے۔ آیت ۱۴۲ سے ۱۵۰ تک خانہ کعبہ کاہی اصلی بیت اللہ ہونا مختلف پیرایوں میں جتایا گیاہے۔آیت ۱۴۴ میں بتایاگیاہے کہ مسجد حرام کابیت اللہ ہونا اہل کتاب کو اچھی طرح معلوم ہے، کیونکہ یہی حق ہے لیکن یہ اس حق کو چھپاتے ہیں۔ آیت ۱۴۵ میں رسول اللہ کو بتایا گیا ہے کہ خواہ آپ کوئی بھی نشانی ،ثبوت یاحجت پیش کر دیں ،اہل کتاب آپ کے قبلے کو حسد اور ضد کی وجہ سے قبول کرنے والے نہیں، حالانکہ خانہ کعبہ کااصلی قبلہ اور بیت اللہ ہونا ان پر اس طرح واضح ہے جس طرح اپنے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ (یعرفونہ کمایعرفون ابنآء ھم) آیت ۱۴۶ کے آخر میں بتایا گیاہے کہ ان میں سے ایک گروہ اس حق (خانہ کعبہ کابیت اللہ ہونا ) کے بارے میں کتمان حق کاجاننے بوجھتے مرتکب ہو رہاہے (وان فریقا منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون) اس کے بعد اگلی آیت ۱۴۷ اور۱۴۹ میں اس حکم کے خدا کی طرف سے حق ہونے کو تاکیداً دوبارہ جتایا گیاہے۔
آیت ۱۵۵ میں مسلمانوں کو ہر قسم کی قربانیوں کے لیے تیار رہنے کااشارہ دیاگیاہے۔ آیت ۱۵۵ کے الفاظ ’لنبلونکم‘ (ہم تمھیں ضرور آزمائیں گے) کو آیت ۱۲۴ کے الفاظ ’واذ ابتلیٰ ابراہیم ربہ‘ (اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے آزمایا) سے ملایئے۔ وہاں ابراہیم ؑ کو ان کی قربانیوں کے نتیجے کے طور پر امام الناس اور خانہ کعبہ کے لوگوں کے لیے مرجع ومرکز (مثابۃ للناس) بنائے جانے کی نوید سنائی گئی تھی، جبکہ یہاں قبلہ کی بازیابی کے لیے متوقع قربانیوں اور قتال کی طرف اشارہ ہے (آیت ۱۵۴ اور۱۵۵) اور پھراسی سلسلے میں صفا ومروہ (آیت ۱۵۸) کاذکر کیا گیاہے ۔
اللہ جل شانہ نے سب سے شدیدتہدید صفا ومروہ کے بارے میں کتمان حق پر کی ہے اور ایسا کرنے والوں کو اللہ، فرشتوں اور سارے انسانوں کی لعنت کا مستحق قرار دیا ہے۔ (البقرۃ ۱۵۹ تا ۱۶۲) صفا ومروہ کاشعائر اللہ میں سے ہونے کو جتانا( آیت ۱۵۸) اور اس با ت کی تردید کہ ان کا طواف کرنا گناہ ہے، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ صفا ومروہ کے بارے میں بہت ہی گھناؤنا کتمان حق ہوا ہے اور یہ کوشش کی گئی ہے کہ ان کاتعلق شعائر اللہ اور ابراہیم ؑ سے کاٹ دیاجائے ۔ آیت ۱۵۹ میں بتایا گیاہے کہ اس سلسلے میں واضح نشانیاں (البینت و الھدیٰ) الکتاب یعنی توراۃ میں موجود ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کھول کھول کربیان کیاہے (بینہ للناس فی الکتب)۔
انعام صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ یہودی نسل پرست ہیں ۔ان کی نسل پرستی کی بنیاد کیاہے؟ دوسرے الفاظ میں ان کی نسل پرستی کا ظہور کس انداز میں ہوا ہے؟ وہ خود کوبنی ابراہیم کہلانا پسند کرتے ہیں یا بنی اسرائیل؟انہوں نے ابراہیم سے ناتا توڑ کر اسحاق سے ناطہ جوڑ لیا اور یہی ’’بنی اسحاق‘‘ ان کے لیے قبول حق میں رکاوٹ بنا۔ان کا یہی پندار ان کے ’’بنی اسماعیل ‘‘کے ساتھ بغض وحسد کا سبب بنا جس کے حوالے قر آن نے بار بار دیے ہیں۔ اسی پندار، غروراور’’بنی سماعیل‘‘کے خلاف حسد نے ان کوان تحریفات اور التباسات پر اکسایا جن کی قرآن نے مذمت کی ہے اور جن کو فراہی ؒ نے تحقیق کرکے اور ان پر پڑی ہوئی دبیز تہوں کو جھاڑ کردنیا کے سامنے آشکارا کر دیا ہے۔ (مولانا فراہی رحمہ اللہ کی اس کتاب کا انگریزی ترجمہ نادر عقیل انصاری صاحب نے کیاہے جوابھی تک شائع نہیں ہو سکا۔ اس موضوع پر سلسلہ تحقیق کو ’المورد‘ کے فیلو جناب عبد الستار غوری نے آگے بڑھایا ہے اور اپنی کتاب ’’The Only Son Sacrificed‘‘ میں یہود کے کتمانِ حق کو مزید مبرہن کردیاہے۔) ان تحریفات والتباسات کاعلم ہونے کے بعد قرآن کامطالعہ کرنے والے پر قرآن کایہ دعویٰ روز روشن کی طرح واضح ہوجاتاہے کہ یہود حق کو حسد اور ضد کی وجہ سے قبول نہیں کررہے تھے ۔ان حقائق کے بعد کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتاہے کہ ذبیح کی بحث کاقرآنی آیات یا منشا کی تفہیم سے کوئی تعلق نہیں؟
(۲) انعام الرحمن صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں بہتر سمجھا، وہاں اسماعیل ؑ کاذکر باقاعدہ نام لے کر کیا۔ مثلاً بیت اللہ کی تعمیر کے ذکر میں ان کانام موجود ہے۔ذرا غور کیجئے کہ اگر قربانی کے واقعہ میں بھی ان کا نام شامل ہوتا تو معترضین کوپھبتی کسنے کاموقع ملتا کہ اسلام دعویٰ تو عالمگیریت کاکرتاہے لیکن اصلاً اسماعیلی ہے۔ اس طرح اسحاق کانام شامل ہوتا تو یہودیوں کانسل پرستی کو مزید شہ ملتی۔‘‘
انعام الرحمن صاحب کے اس تبصرے پر درج ذیل سوال پیدا ہوتے ہیں:
۱۔بیت اللہ کی تعمیر وتطہیر کے سلسلے میں (البقرۃ آیات ۱۲۵۔۱۲۷ ) میں اسماعیل ؑ کے ذکر میں کیا حکمت ہے؟ کیا وہاں صرف ابراہیم ؑ کاذکر کافی نہیں تھا؟اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ بیت اللہ کی تعمیر کے سلسلے میں اسماعیل ؑ کے ذکر پر تو یہود کو پھبتی کسنے سے کوئی چیز مانع تھی لیکن اگر اللہ تعالیٰ قربانی کے واقعے میں اسماعیل ؑ کاذکر کردیتے تو وہ فورا پھبتیاں کسنے لگتے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کعبے کے سلسلے میں اسماعیل ؑ کانام ذکر کرنے پر تووہ اللہ تعالیٰ کو معاف کر دیتے لیکن قربانی کے معاملے میں معاف نہ کرتے؟
۲۔کیا یہود کے قبلے کو چھوڑ کر خانہ کعبہ کوقبلہ بنانے سے یہود کو پھبتی کسنے کاموقع نہ ملتا؟ اور اگر قرآن نے بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کے مرکز ابراہیمی ہونے کے مسئلے کو پورے زور اور اصرار کے ساتھ چھیڑا ہے تو کیا اس سے اسلام کی عالمگیریت پر حرف نہیں آتا؟ اور جب اس پست ذہنیت کے ساتھ کیے جانے والے کتمان حق پر یہود کوڈانٹ پلائی گئی تو کیا یہ داعی کے منصب جلیل سے اتر کر مدعی کی سطح پر اترنے کے مترادف تھا؟ اگر نہیں تو ایک مرد خدا نے اگر ہمت کرکے ذبیح کے حوالے سے یہود کے کتما ن کے پردوں کو چاک اور ان کی تحریفات والتباسات کو بے نقاب کر دیاہے تو اس پر یہ الزام کیوں دھرا جاتاہے کہ وہ نسلی اور نفسیاتی عوارض کاشکار ہے، اس کی یہ تحقیق قرآنی منشا سے متصادم ہے اور اس سے اسلام کی عالمگیریت پر حرف آتا ہے؟
(۳) میاں صاحب لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید اپنے آپ کو تبیاناً لکل شئی اور تفصیلاً لکل شئ قر ار دیتاہے جس میں ہر ضروری پہلو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔‘‘
ہمارا سوال یہ ہے کہ قرآن نے اہل کتاب کے کتمان حق کی طرف صر ف لطیف اشارات کر کے ان کی مکمل نوعیت کیوں بیان نہیں کی؟ کیا یہ قرآن کے تبیانا لکل شئی ہونے کے خلاف نہیں؟انعام صاحب کی بات کواگرہم تھوڑا سا آگے بڑھائیں تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قر آن نے آدم کو سکھائے گئے ناموں کی وضاحت کیوں نہیں کی؟ اللہ تعالیٰ نے تو ’الاسماء کلھا‘ کی نوعیت نہیں بتائی، لیکن انعام صاحب نے ان کی تشریح قرائن اور سیاق وسباق کی روشنی میں کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر اللہ نے ان ’’الاسماء ‘‘ کومشخص نہیں کیا تو پھر انعام صاحب کیوں ’’الاسماء‘‘ کو معلوم کرنے کی’’لایعنی بحث ‘‘ میں پڑے اور اس طرح قر آنی علمیات سے روگردانی کے مرتکب ہوئے؟ اصل بات یہ ہے کہ قرآن انتہائی بلیغ کتاب ہے اور وہ ہر چیز کو لازماً الفاظ کا جامہ نہیں پہناتی۔ اس میں بہت سی چیزوں کو قرائن، سیاق وسباق او ر قرآن پر ایک مجموعی نظر ڈال کر کھولنا پڑتا ہے۔
(۴) اب ہم سورۃ الصٰفٰت کی متعلقہ آیات کے حوالے سے چند گزارشات پیش کریں گے۔
انعام صاحب لکھتے ہیں :
’’قر ائن یہی بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بیٹے کے بجائے باپ کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
یہ بات ایک حد تک درست ہے، لیکن اس سلسلے میں آیت ۱۰۳ میں واحد کے بجائے تثنیہ کا صیغہ ’ اسلما‘ بھی قابل غور ہے ۔’’ یہ کالفظ یہ بتارہاہے کہ قربانی باپ اور بیٹے، دونوں سے مطلوب تھی اور اسی تقاضے کے جواب میں ان دونوں نے سرِتسلیم خم کیا۔ جہاں تک خواب کاتعلق ہے تو وہ چونکہ ابراہیم ؑ ہی نے دیکھا تھا، اس لیے خواب کے سچا کر دکھانے کاتعلق بھی انھی سے ہوسکتا تھا۔
انعام صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’کتنی عجیب بات ہے کہ ایسے ’’مدبرین‘‘ محض ’’ اسرائیلیات ‘‘ کے بل بوتے پر (تاریخ ومعاشرت وکلچر کے بے جااثبات کاشکارہوکر )ایسا عملی وفکری رویہ پروان چڑھا رہے ہیں جس سے قرآنی علمیاتی منہاج اور قرآنی منشا پسِ پشت چلے گئے ہیں۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ امام فراہی نے تحقیق کے یہ سارے پاپڑ قرآنی منشا ہی کواجاگر کرنے کے لیے بیلے ہیں اور انھوں نے اس تحقیق کی بنیاد ہرگز ’’اسرائیلیات‘‘ کی بنیاد پر نہیں رکھی۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
’’ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اگرقرآن مجید میں ایسے روشن دلائل نہ ہوتے جو پوری تصریح کے ساتھ ذبیح کی شخصیت کومتعین کر رہے ہوتے تو یقیناًہم اس باب میں سکوت کامسلک اختیار کرتے اور ایک ایسی بات کو کریدنا پسند نہ کرتے جس کی تصریح سے قرآن نے سکوت اختیار کیا ہے۔‘‘ (ذبیح کون ہے؟شائع کردہ انجمن خدام القرآن۔لاہور ۱۹۷۵ء، صفحہ ۴۰)
’ذبیح کون ہے‘ کی بحث میں مولانا فراہی ؒ نے قر آن مجید سے استدلال کے لیے ایک پورا باب وقف کیاہے ۔اس سلسلے میں انہوں نے قرآن مجید سے تیرہ دلائل پیش کیے ہیں۔ ان میں سے ایک دلیل حسب ذیل ہے:
سورۃ الصافات کے الفاظ ’فلما بلغ معہ السعی‘ اور ’یبنی‘ کے الفاظ ظاہر کررہے ہیں کہ جو بیٹا قر بان ہوا، وہ قربانی کے وقت کم سن تھا۔ سورۃ ہود کی آیت ۷۱ ’فبشرنھاباسحاق ومن ورآء اسحاق یعقوب‘ سے واضح ہوتاہے کہ ابراہیم کوبیٹے (اسحاق) کی خوشخبری کے ساتھ ساتھ پوتے (یعقوب )ؑ کی خوشخبری بھی دے دی گئی تھی۔ ظاہر بات ہے کہ ابوّت fatherhood)) کی صفت اسحاق کے ذبیح ہونے میں مانع ہے،کیونکہ ایک طرف اسحاق کی بشارت کے ساتھ ہی ان کے باپ بننے کی بشارت (پوتے کی بشارت) دے دینا اور دوسری طرف ابراہیم سے یہ کہنا کہ وہ انھیں قربانی کے لیے پیش کریں، ناقابل فہم بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک ایسے بیٹے کو ذبح کرنے کاحکم یا اشارہ کیسے فرما سکتے تھے جس کی نسل سے وہ ابراہیمؑ کو پوتا (یعقوب) عطا کرنے کا وعدہ فرما چکے تھے؟ علاوہ ازیں قربانی کا واقعہ ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق کی بشارت کا الگ سے ذکر کیا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ ’’ غلام حلیم‘‘ سے مراد حضرت اسماعیل ؑ ہیں، ورنہ آخر میں حضرت اسحاق ؑ کاالگ سے ذکر کرنا بلاوجہ قرار پائے گا۔
مولانا فراہی نے اس بات پر بھی مفصل بحث کی ہے کہ قرآن نے ذبیح کومشخص کیوں نہیں کیا۔ اس سلسلے میں ایک اقتباس پیش خدمت ہے :
’’ تورات میں بکثرت دلائل اس بات کے موجود تھے کہ ذبیح اسماعیلؑ ہی ہوسکتے ہیں۔ وہی اکلوتے بیٹے ہیں۔وہی اس دائمی برکت سے نوازے گئے جس میں سے تمام قومیں حصہ پانے والی تھیں۔ علاوہ ازیں دوسر ے فضائل بھی ان کے بیان ہوئے تھے۔ نیز یہ امر بھی مخفی نہ تھا کہ یہود حضرت اسماعیل اور ان کی اولاد کے دشمن ہیں۔ ان حالات کی موجود گی میں بہتر یہی تھا کہ قرآن صرف انہی دلائل کے بیان پر اکتفا کرے جوان کے دشمنوں کے پاس موجود ہیں اور خود اپنی طرف سے تصریح اس بارے میں نہ کرے۔
الفضل ماشہدت بہ الاعداء (اصلی شرف وہی ہے جس کی مخالف گواہی دے )
بالخصوص اس وقت تواس شہادت کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ دلائل یہود کی خواہش کے بالکل خلاف اور ان کی تحریف اور کتمانِ حق کی عام کوششوں کے علی الرغم بچ رہے۔‘‘ (ذبیح کون ہے؟ ،صفحہ ۵۶)
ان اقتباسات کی موجودگی میں مولانا فراہی پر ’’اسرائیلیات‘‘ سے خوشہ چینی کا الزام لگانا، ان کے’’مدبر قرآن‘‘ ہونے پر پھبتیاں کسنا یا یہ کہنا کہ’’ محض اسرائیلیات کے بل بوتے پر ‘‘ اسماعیل ؑ کوذبیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، صریح ناانصافی ہے۔
اس بحث سے اس سوال کاجواب بھی مل جاتا ہے کہ کہ آیا ہم مسلمانوں کو ’ذبیح کو ن ہے؟‘ کی بحث میں پڑنا چاہیے یا نہیں۔ اگر ہم اس بحث کو اس زاویے سے چھیڑیں کہ اسحاق ؑ یا اسماعیل میں سے کسی ایک کی برتری دوسرے پر ثابت کی جائے تویہ ہر گزمستحسن نہیں ،لیکن اگر بحث اس زاویے سے ہو کہ یہودیوں کے کتمانِ حق کاپردہ چاک کیاجائے یا اس کتمانِ حق کوصحیح طور پر سمجھا جائے تو پھر یہ بحث بہت اہم ہے۔ اس کے بغیر، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، قرآن کی بہت سی آیات کی تفہیم بہت مشکل ہے۔