(۱)
محترمی مولانا زاہد الراشدی دامت الطافکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مارچ کا ’الشریعہ‘ ملے ہفتہ سے اوپر ہو گیا۔ اس میں اپنا خط دیکھ کر خیال ہوا کہ جو کچھ بھی لکھا جائے، یہ سوچ کر لکھا جائے کہ یہ شائع ہوگا، ورنہ تین سطری خط تو ایسا نہیں تھا کہ اس کی اشاعت کا اندیشہ گزرتا۔ اس قدر اجمال اور اختصار تھا کہ بس آپ کے ذاتی ملاحظہ کے لیے موزوں سمجھا جا سکتا تھا۔ خیر، کوئی شکایت نہیں، بلکہ قارئین سے معذرت ہے۔ لیکن اسی (کارٹون پر رد عمل کے) حوالے سے اداریہ میں ۳؍ مارچ کی ملک گیر ہڑتال کی حمایت میں آپ کی اپیل اس قدر خلاف توقع لگی کہ اب کس سے شکوہ کرے کوئی؟آپ نے اس کے لیے پاکستان کی سیاسی اور دینی جماعتوں کو ’’خراج تحسین‘‘ پیش کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، البتہ دینی جماعتوں پر اس معاملے میں کچھ کہتے نہیں بنتا۔ مارچ کے ’الفرقان ‘ میں میرے اس سلسلہ کے تاثرات شاید نظر سے گزر چکے ہوں۔ یہ ۲۰؍۲۱ فروری کے احتجاجی پروگراموں سے متعلق تھے جن کا یہ پہلو انتہائی رنج دہ تھا کہ تحفظ ناموس مصطفی کے عنوان کو سو فی صدی مقامی سیاست کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ اور ۳؍ مارچ کا پروگرام تو اس کا نقطہ عروج تھا۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ کے الفاظ میں ایک مقدس عنوان کی اس سے بڑھ کر ’’بد خدمتی‘‘ مذہبی لوگوں کے ہاتھوں اور کیا ہو سکتی تھی؟
گستاخی معاف۔ والسلام
نیاز مند
(مولانا) عتیق الرحمن سنبھلی
لندن
(۲)
برادر عزیز ومحترم زاہد الراشدی صاحب،
سلام مسنون
آپ کی عنایت سے ’الشریعہ‘ باقاعدگی سے مل رہا ہے۔ اپنے علمی اور دینی معیار کے اعتبار سے اور موضوعات کے تنوع کے لحاظ سے بلاشبہ ’الشریعہ‘ صف اول کا جریدہ ہے۔ افراط وتفریط کے اس دور میں آپ کے اداریوں کا معروضی تجزیہ اور متوازن لہجہ بہت خوش آیند چیز ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اردو (اور انگریزی) صحافت میں ابھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو قلم کی اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس رکھتے ہیں۔ ’الشریعہ‘ وہ واحد اردو جریدہ ہے جسے اول تا آخر پڑھتے ہوئے خوشی ہوتی ہے۔
میں آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ دسمبر اورجنوری میں پاکستان آنے کے باوجود آپ سے رابطے کی کوئی صورت نہ نکل سکی۔ دسمبر کا آخری ہفتہ ذاتی مصروفیات کی نذر ہو گیا اور پھر ۲۸ دسمبر سے ۱۰ جنوری تک بنگلہ دیش میں قیام رہا۔ بنگلہ دیش سے واپسی پر جو چند دن اسلام آباد میں گزرے، وہ بھی مصروفیت میں گزرے۔ میری بڑی خواہش تھی کہ گوجرانوالہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا، خاص کر جبکہ میرا ’’بھتیجا‘‘ یوگی سکند بھی آپ کے ہاں آیا ہوا تھا۔ یوگی بہت ہی عمدہ اسکالر اور اس سے بھی عمدہ انسان ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ میرے بیٹے جنید احمد کو معلوم تھا کہ وہ ان دونوں میں پاکستان میں ہے اور جنید نے اس سے فون پر دوچار بار بات بھی کی تھی لیکن مجھے اس بات کی اس نے ہوا نہیں لگنے دی۔ خیر، اب مئی میں ان شاء اللہ پاکستان آنا ہوگا تو آپ سے ملاقات ہوگی۔
میں نے اپنے گزشتہ مراسلے میں مدارس پر اپنے جس مضمون کا ذکر کیا تھا، وہ آپ کے ملاحظے کے لیے حاضر ہے۔ اپنی رائے دیجیے گا۔
دعاؤں کا طالب
(ڈاکٹر) ممتاز احمد
ہیمپٹن یونیورسٹی، ہمپٹن (امریکہ)
(۳)
بخدمت جناب مدیر ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں ’’قارون اور قورح بحران‘‘ پر پچھلے تین شماروں سے ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی صاحب اور جناب محمد یاسین عابد صاحب کے درمیان مکالمہ جاری ہے۔ مارچ کے شمارے میں ڈاکٹر صاحب کو یاسین عابد صاحب سے شکوہ ہے کہ ’’ان کا انداز بیاں بڑا جارحانہ اور علمی حیثیت سے گرا ہوا ہے۔‘‘ مانا کہ جناب محمد یاسین عابد کی تنقید جارحانہ تنقید تھی، مگر جناب ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی بھی ’’جارحانہ مزاج‘‘ سے معصومیت کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ اپنے مضمون کی ابتدائی سطور میں ڈاکٹر صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ ’’اب میں تو کوئی جارحانہ اسلوب اختیار نہیں کرتا‘‘، لیکن ان کا مضمون پڑھنے کے بعد ہر قاری یہی فیصلہ کرے گا کہ موصوف نے تحریری جارحیت کی ایک نئی روایت قائم کی ہے۔
انھوں نے جابجا یاسین عابد صاحب کو ’’بائبل کا حافظ‘‘ کے خطاب سے نوازا ہے۔ یہ نہایت نامعقول انداز بیاں ہے، اور کسی مسلمان کو قرآن سے زیادہ بائبل پر اعتماد کرنے کا طعنہ دینا اس سے بھی زیادہ خطرناک طرز بیاں ہے۔ یہ نہ صرف فرمان نبوی ’’مومن کے ساتھ اچھا گمان رکھو‘‘ کے منافی ہے، بلکہ اس سے خود ڈاکٹر صاحب کی کمزور نفسیات کی عکاسی بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مضمون پر تنقید سے اتنے اشتعال میں آ گئے کہ ایک مسلمان کو اس طرح کے طعنے دینے پر اتر آئے۔ علمی متانت کے تمام تقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے طنزیہ انداز میں لکھتے ہیں ’’لمبی زبان والے جناب ناقد صاحب‘‘۔ اس طرح کے جملوں کا جتنا ڈاکٹر صاحب کے قلم سے صادر ہونا ہمارے لیے باعث حیرت ہے، اس سے کہیں زیادہ ’الشریعہ‘ جیسے سنجیدہ رسالے میں اس کا شائع ہونا ناقابل فہم ہے۔
بہرحال جب دانش وران ملت کی ذہنی کیفیت یہ ہو تو اور کس سے امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں؟ امت مسلمہ کے بہی خواہوں سے ہماری عاجزانہ التماس ہے کہ اپنی علمی وفکری توانائیاں ایسے امور پر صرف کریں جن کے کچھ عملی ثمرات بھی سامنے آئیں اور امت مسلمہ کی زبوں حالی کا کچھ مداوا ہو سکے۔ ’ذبیح کون ہے‘ اور ’قارون اور قورح کون ہیں‘ جیسے مسائل پر خامہ فرسائی سے فکری تشدد کے پروان چڑھنے اور ذہنی عیاشی کے علاوہ اور کیا ہاتھ آ سکتا ہے۔ اللہ کرے ہمارے دانش وروں میں متانت، حوصلہ مندی، تحمل وبرداشت اور انانیت سے دوری جیسے اوصاف پیدا ہوں ۔
امید ہے کہ ’الشریعہ‘ امت مسلمہ کے مسائل کے حل کے سلسلے میں اپنی فکری ذمہ داری کا احساس کرے گا اور اس کے قابل قدر صفحات کو محض تخیلاتی مشقوں کے لیے میدان نہیں بنایا جائے گا۔
محمود خارانی
دار العلوم، کراچی ۱۴
(۴)
برادرم محمد عمار ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے ہاں بحث کا معیار بہت پست ہے۔ کیا کیا جائے، مجبوری ہے۔ بہرحال میرا خیال ہے عمدہ تنقیدی بحث کے کچھ مضامین بطور نمونہ شائع کریں تاکہ بحث کرنے والوں میں علو پیدا ہو۔ اس سلسلے میں بطور نمونہ ایک مضمون ارسال ہے۔
فقط والسلام
ملک نواز احمد اعوان
کراچی
(۵)
مکرمی جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماہنامہ ’الشریعہ‘ جنوری کے شمارے میں ’’تاریخ ختم نبوت‘‘ نامی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے محترم مبصر صاحب نے نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی کا ذکر ایسے اسلوب میں کیا ہے جس میں اس کی تعظیم کا شائبہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً ’’مرزا غلام احمد اور ان کے پیروکاروں‘‘، ’’مرزا صاحب نے براہین احمدیہ تحریر کی‘‘، اور ’’اس کتاب میں مرزا صاحب کے فاسد عقائد‘‘ وغیرہ۔ آنجناب سے گزارش ہے کہ کسی متنازعہ شخصیت کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کیا جائے جن سے اس کی تعظیم وتکریم کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔
حافظ خرم شہزاد
کامونکی ۔ گوجرانوالہ