حجاز کو اللہ تعالی نے توحید کا مرکز بنا کر مقدس کیا، کعبہ خدائے واحدت کے گھر اور قبلے کے حیثیت سے تعمیر ہوا۔ وہاں جب شرک نے قبضہ کر لیا تو یہ قبضہ واگزار کرایا گیا اور مشرکانہ عبادت گاہوں اور آثار کو مٹا ڈالا گیا۔ حجاز کی یہ خصوصی حیثیت ہے کہ وہاں کوئی مشرکانہ عبادت گاہ قائم رہ سکتی ہے اور نہ تعمیر کی جا سکتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کعبہ کو بیت اللہ ہونے کی خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ نہ کعبہ کہیں اور تعمیر ہو سکتا ہے اور نہ حجاز جیسا تقدس کسی اور زمین کو دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے صحابہ نے حجاز سے باہر کسی بت خانہ، کسی آتش کدہ کو نہیں گرایا اور نہ ایسی عبادت گاہوں کی نئی تعمیر کو روکا۔ البتہ اپنے مفتوحہ علاقوں میں جو نئے شہر بسائے، اس کے مالکانہ حقوق کی بنا پر اگر چاہتے تو غیر مسلم عبادت گاہ کی نئی تعمیر سے منع کر سکتے تھے۔ اس کے باوجود کوئی غیر اسلامی معبد وہاں تعمیر ہوا یا نہیں، یہ تاریخی معلومات کا موضوع ہے جس پر تحقیق درکار ہے۔
دور جدید میں بین الاقوامی سطح پر اقوام کی ایک نئی تقسیم وجود میں آئی۔ جنگوں کےذریعے سے ممالک فتح کرنے کی صدیوں پرانی طاقت کی روایت کو قانون کی بیڑیاں پہنانے کی کوشش کی گئی اور طے پایا کہ جس قوم کے لیے جوسرحدیں مقرر کر دی جائیں، کوئی دوسری قوم اس پر قبضہ نہیں کر سکتی۔ (اس تقسیم میں جہاں جہاں تنازعات رہ گئے، ان میں سے کئی حل ہو چکے اور چند ابھی تک محل نزاع ہیں)۔ یہ قومی ریاستیں کہلائیں جن کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ ایک خاص جغرافیہ میں رہنے والے بلا امتیاز مذہب و نسل برابر کے شہری ہیں۔
اس لحاظ سے قومی ریاست ہماری فقہ کے لیے ایک نیا مظہر ہے۔ پہلے وقتوں میں جو ممالک مسلمان فاتحین فتح کرتے، اس میں غیر مسلم محکوم سمجھے جاتے تھے۔ وہ جو جزیہ اور خراج ادا کرتے تھے، وہ مسلمانوں کی ملکیت قرار پاتا تھا۔ قومی ریاستوں میں یہ حیثیت بدل گئی ۔ چنانچہ جس طرح ایک غیر مسلم اکثریت میں رہنے والے مسلمان اپنے ہم قوم غیرمسلموں کے ساتھ برابر کے حقوق کے حق دار قرار پائے، اسی طرح مسلم اکثریت میں رہنے والے غیر مسلم، اپنے ہم قوم مسلمانوں کے ساتھ برابر کے شہری قرار پائے۔ ان کے حقوق و فرائض میں کوئی فرق نہیں۔ سب پر یکساں طور پر ٹیکس کا نفاذ کیا جاتا اور بطور شہری ان کی شہری ضروریات ان سے پوری کی جاتی ہیں۔
چنانچہ کوئی قومی ریاست آئینی طور پر اس لیے مسلم ریاست نہیں بن جاتی کہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ایسے ہی جیسے کوئی ریاست آئینی طور پر اس لیے مسیحی یا ہندو ریاست نہیں بن جاتی کہ وہاں مسیحیوں یا ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہ درست ہے کہ قیام پاکستان کی سیاسی تحریک کے دوران میں اسلام کا نعرہ استعمال کیا گیا تھا، لیکن ملک کی تشکیل قومی ریاست کے اصول پر ہی ہوئی تھی، جس میں مسلم اور غیر مسلم برابر کے شہری قرار دیے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نے جو ووٹ پاکستان کے نام پر لیا، اس میں غیر مسلم کا ووٹ بھی شامل تھا اور یہ ووٹ مسلم ووٹ کے برابر تھا۔ مسیحیوں نے اسی اصول پر مسلم لیگ کو ووٹ دیا تھا۔
پاکستان کا قومی خزانہ صرف مسلمانوں کے پیسے سے جمع نہیں ہوتا، اس میں غیر مسلم کا ٹیکس بھی برابری کے اصول پر شامل ہے نہ کہ جزیہ یا خراج کے نام پر محکومی کا ٹیکس۔ ٹیکس کی یہ رقم حاکم کی ملکیت نہیں، عوام کی ملکیت ہے اور حاکم اس کا مینیجر ہے۔ وہ اس میں مالکانہ تصرف نہیں کر سکتا۔ اسلام آباد سمیت کوئی شہر بھی اس وجہ سے مسلمانوں کا تعمیر کردہ شہر نہیں کہلائے گا کہ اس وقت اس کی منظوری دینے والی اتھارٹی مسلمان تھی۔ وہ ایک قومی ریاست کا سربراہ تھا اور جو پیسہ خرچ ہوا، وہ قومی خزانے کا پیسہ تھا جس میں بلا امتیاز سب کے ٹیکسوں کا پیسہ جمع تھا۔ اسی وجہ سے وزارت مذہبی امور صرف مسلم امور کو نہیں دیکھتی، سبھی مذاہب کی عبادت گاہوں کے بارے میں ایک ہی اصول پر عمل پیرا رہنے کی پابند ہے۔
ان بنیادوں پر قانونی پوزیشن یہ ہے کہ کسی بھی کمیونٹی کو اپنی عبادت گاہ بنانے کا حق آئینی طور پر حاصل ہے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تمیز نہیں کی جا سکتی۔ ضرورت اور جواز کے ثبوت پر مسجد، مندر اور گردوارہ سمیت کسی بھی دوسری عبادت گاہ کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ جب تک قومی ریاست کا اصول آئینی طور پر تسلیم شدہ ہے، غیر مسلم عبادت گاہوں کے بارے میں اصولی پوزیشن یہی رہے گی۔ کعبہ اور حجاز کی تقدیس کے خصوصی احکام کا اطلاق بیرون حجاز نہ پہلے کبھی کیا گیا اور نہ اب کیا جا سکتا ہے۔
آئین میں صدر اور وزیر اعظم کے مسلم ہونے کی شرط اکثریت نے منظور کر لی ہے۔ اس استثنا کے علاوہ اور کوئی استثنا آئین میں مذکور نہیں۔ اس لیے مزید استثنا پیدا کرنے کا جواز بھی نہیں۔ یہ سب کنفیوژن پاکستان کے بارے میں ایک مثالی اسلامی ریاست کے تصور کو قومی ریاست کے تصور سے گڈ مڈ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ آئینی طور پر پاکستان تمام تر اسلامائزیشن کے باوجود اب تک ایک قومی ریاست ہے جس پر نہ حجاز کے خصوصی احکام لاگو ہوتے ہیں اور نہ گزشتہ دور کے استبدادی ریاستوں کے فقہی احکام۔ جو علما قومی ریاست کے اس اصول کو تسلیم نہیں کرتے، انھیں پہلے اس آئینی صورت حال کو بدلنے کے لیے کوشش کرنا ہوگی، اس کے بغیر مندر یا گرودوارے کی تعمیر اور سہولت کاری پر حرمت کے فتاوی بے محل رہیں گے۔