مذہب اور قانونِ فطرت اس معیار اور مقیاس کا نام ہے جو مقرر و معیّن ضابطہ اور قانون کلّی کی حیثیت رکھتا ہو۔ سچا اور صحیح مذہب اور آئین صرف وہی ہوتا ہے جس کی بنیاد حقیقی سچائی اور عالمگیر حقانیت پر ہو اور جس کے ذریعہ عقائد و اعمال اور اخلاق کو اچھا یا برا کہا جا سکے اور جس کی رو سے باطنی اور ظاہری اصلاح ہو کر بچا جا سکے اور جس کے اصولِ قطعی اور اٹل ہونے کے ساتھ ایسے جامع ہوں جو کائنات کی دینی اور دنیوی حاجت روائی کے لیے کافی ہوں۔ فطرت چونکہ حقیقی صداقت ہے اس لیے مذہب اسلام کی بنیاد خالقِ فطرت نے فطرت پر رکھی ہے اور جس کی بابت یوں ارشاد فرمایا ہے:
فِطْرَتَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللہِ (سورہ الروم ۳۰)
’’یہ اللہ تعالیٰ کا وہ قانونِ فطرت ہے جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے (یعنی انسانی فطرت اسی دین کے موافق ہے) اور اس قانون میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔‘‘
سچا مذہب وہ ہوتا ہے جو من جانب اللہ قطعی اور محکم طریقہ سے منکشف ہوتا ہے اور ہر صحیح الفطرت اس کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیتا ہے۔ وہ بنایا نہیں جاتا اور نہ اس میں مخلوق کی ایجاد و احداث کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ غلط اور نادرست مذہب کی شناخت یہ ہوتی ہے کہ اس کی بنیاد ان خیالات اور اوہام پر قائم کی جاتی ہے جو دل کی دنیا میں پیدا ہوتے اور خواہشات کے دریا اور طوفان میں بہہ جاتے ہیں اور نفس الامر سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ فطرت سے بے گانہ اور حقیقت اور صداقت سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ گو ان کی ظاہری چمک دمک سادہ لوح اور سطحی قسم کے لوگوں کی نارسا آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے اور وہ اس سے متاثر ہو کر اس دامِ ہمرنگ زمین کا شکار ہو جاتے ہیں۔
جس قدر مستقبل سے متعلق کسی کو زیادہ علم حاصل ہو گا اسی قدر وہ زیادہ صحیح قانون اور آئین بنا سکے گا۔ مخلوق کے پاس مستقبل سے متعلق علم حاصل کرنے کے ذرائع اور وسائل، تجربہ، قیاس اور حواس وغیرہ سب کے سب محدود، ناتمام اور ناقص ہیں، اس لیے مخلوق کے مجوّزہ قوانین کبھی ناقابلِ ترمیم نہیں ہو سکتے۔ ملک اور ملت کے چیدہ چیدہ اور منتخب قانون ساز بڑی کوشش اور کاوش سے بسیار بحث و تمحیص کے بعد ایک قانون تجویز کرتے ہیں مگر تھوڑے سے عرصے کے بعد اس میں ترمیم کا پیوند لگانا پڑتا ہے اور ہمیشہ اس امر کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے اور تاقیامت ہوتا رہے گا۔ ہر قانون اور آئین کے بنانے کا ایک مدعا اور مقصد ہوتا ہے۔ قانون ساز کو اگر قانون پر عمل کرنے والوں کے ساتھ شفقت اور ہمدردی ہے اور وہ ان کا حقیقی خیرخواہ اور خود غرضی سے بالا ہے تو وہ ایسا قانون بنائے گا جس سے قانون پر چلنے والوں کو نفع اور فائدہ پہنچے گا۔ اور اس بات کے تسلیم اور یقین کر لینے میں کیا تامل ہو سکتا ہے کہ مفید اور ناقابلِ تنسیخ قانون صرف وہی بنا سکتا ہے جو ہر لحاظ سے کامل علم رکھتا اور بہمہ وجوہ علیم و خبیر ہو، حقیقی ہمدرد اور مہربان ہو، خودغرضی سے بے نیاز اور مطلب پرستی سے بے احتیاج و بے پروا ہو۔ ظاہر ہے کہ مخلوق سے متعلق خالق کے سوا علمِ تام اور کسی کو نہیں ہو سکتا۔ مخفی نہیں کہ الرحمٰن سے زیادہ مہربان کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا اور پوشیدہ نہیں کہ الصمد سے بڑھ کر بے نیاز اور کوئی نہیں۔ لہٰذا خدا تعالیٰ کے سوا کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہو سکتی جو مخلوق کے لیے کامل و مکمل اور ناقابل ترمیم قانون اور آئین بنا سکے۔ ’’اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْر‘‘۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس قادر و مقتدر خدا کا بنایا ہوا قانونِ فطرت تمام موجودات میں جاری و ساری ہے۔ جمادات، نباتات اور حیوانات سب اس کے قانون میں (جس کو سنت اللہ یا قانونِ قدرت کہا جاتا ہے) جکڑے ہوئے ہیں اور کسی میں اس کی خلاف ورزی کی تاب نہیں۔ ’’وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِیْلاً‘‘۔ اور اگر ہم خدا تعالیٰ کے اس قانون میں (جس کو لاء آف نیچر کہتے ہیں) ترمیم اور تنسیخ کا اختیار رکھتے تو سرو کے درخت میں آم اور بادام پیدا کر دیتے، بیروں اور کھجوروں میں گٹھلیاں پیدا نہ ہونے دیتے، گدھے کے سر پر سینگ پیدا کر دیتے یا گدھے کے سر کی طرح گائے بیل اور بھینس کے سر سے سینگ الگ کر دیتے، اور اپنی اس حماقت اور جہالت کو عقل و دانائی قرار دے کر اس مصلحت اندیشِ حقیقی کے قانون میں اصلاح و ترمیم کرنے والے بن جاتے۔ لیکن اس کا قانون ہماری دسترس سے باہر، ہر عیب و سقم سے پاک، ہر اعتبار سے ناقابلِ ترمیم اور تمام موجوداتِ عالم میں پوری طاقت اور شوکت کے ساتھ نافذ ہے اور تمام مخلوقاتِ عالم ایک ذرّہ بے مقدار سے لے کر آفتاب عالم تاب تک، ثرٰی سے لے کر ثریّا تک اور فرش سے لے کر عرش تک اس کی تعمیل اور فرمانبرداری میں ہمہ تن مصروف اور بے اختیار ہے۔
مخلوقاتِ عالم میں صرف انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جس کو خدا تعالیٰ نے خاص قسم کی صلاحیت اور استعداد عطا فرما کر ایک محدود دائرہ میں آزاد ارادہ اور اختیار دے دیا ہے، اور اس آزاد ارادہ اور اختیار کے لیے اس کو قانون دے کر اس کی تعمیل چاہی ہے۔ اس قانون کا نام دین اور مذہب ہے اور اسی کی تعلیم اور یاددہانی کے لیے اللہ تعالیٰ کے پیغمبر مبعوث ہوتے رہے اور اسی سلسلۂ تعلیم کو امام الانبیاء سید الرسل خاتم النبیین حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے مبعوث ہو کر پایۂ تکمیل تک پہنچایا اور اسی کا آپؐ کی وفات حسرت آیات سے اکیاسی روز قبل ہزاروں کی تعداد میں ان قدسی صفات اور پاک نفوس کے بھرے مجمع میں میدانِ عرفات کے اندر نویں ذی الحجہ کو جمعہ کے دن اور عصر کے وقت یہ اعلان کروایا گیا کہ
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔ (سورہ المائدہ ۳)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تمہارے اوپر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے میں نے دینِ اسلام کو پسند کیا۔‘‘
اس اعلانِ خداوندی کا یہی منشا ہے کہ قیامت تک اب دین میں کسی ترمیم و تنسیخ اور حذف و اضافہ کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ گنجائش۔ ہدایت کے لیے جن احکام کی ضرورت تھی وہ اصولًا سب نازل کر دیے گئے ہیں۔ اب جو شخص دین میں کسی ایسی چیز کا اضافہ کرتا ہے جس کی تعلیم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو نہیں دی تو گویا وہ درپردہ یہ دعوٰی کر رہا ہے کہ دین نامکمل اور میری ترمیم کا محتاج ہے، یا وہ اس کا مدعی ہے کہ معاذ اللہ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود رؤف اور رحیم ہونے کے اپنی امت کو بہتر، اعلیٰ اور مکمل طریقہ نہیں بتایا۔ الغرض جس طرح اس کا قانونِ قدرت ترمیم و تنسیخ اور مخلوق کے دست برد سے بالاتر ہے اسی طرح اس کا قانون شرع بھی ترمیم و تنسیخ اور تنقیص و اضافہ سے بالاتر ہے۔ کسی کی کیا مجال ہے کہ اس میں ترمیم کر سکے اور کسی دانش فروش کا کیا حوصلہ ہے کہ وہ اس کو ناقص اور ناقابل قرار دے کر اس میں اضافہ اور اصلاح کا مدعی ہو سکے۔ کوئی حکمت اور دانائی کی ایسی بات نہیں جو قانونِ خداوندی میں موجود نہ ہو۔ انسانی زندگی کا کوئی کھلا اور چھپا ہوا شعبہ ایسا نہیں جس کے شائستہ بنانے کا نہایت اور مکمل اور ناقابلِ ترمیم دستور العمل اس میں نہ پیش کیا گیا ہو۔
جمیع العلم فی القراٰن لٰکن
تقاصر عنہ افھام الرجال