انسانیت کے بنیادی اخلاق اربعہ (۱)

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ یہ چار انسانیت کے وہ بنیادی اخلاق ہیں کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی بِعثت سے مقصود یہ ہے کہ ان اخلاق کی تکمیل و اشاعت کرائی جائے۔ یہ چار اخلاق طہارت، اِخبات (خضوع)، سَماحت (فیاضی) اور عدالت ہیں۔ 

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ اس فقیر کو آگاہ کیا گیا ہے کہ تہذیبِ نفس (نفسِ انسانی کو شائستہ اور اس قابل بنانا کہ وہ خطیرۃ القدس اور بارگاہِ الٰہی میں پہنچنے کے قابل بن سکے) کے سلسلہ میں شریعت میں جو چیز مطلوب ہے وہ ان چار اخلاق (خصلتوں) کا قائم کرنا ہے اور ان کے ساتھ متصف ہونا ہے اور ان کی اضداد کی نفی کرنا ہے (طہارت کی ضد نجاست ہے، اخبات کی ضد تکبر ہے، سماحت کی ضد بخل اور خَساسَت ہے، اور عدالت کی ضد ظلم اور تعدی ہے)۔ حق تعالیٰ نے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو انہی چار خصلتوں کی تکمیل اور اشاعت کے لیے دنیا میں بھیجا ہے اور تمام شرائع (یعنی آسمانی شریعتوں کے جملہ قوانین و احکام) دراصل انہیں چار خصلتوں کی طرف ارشاد و رہنمائی کرتے ہیں اور ان کے حاصل کرنے کی تحریص و ترغیب دیتے ہیں اور ان کے مواقع اور مظان ہی کی تفصیلات ہیں اور شرائع کی تمام تر ترغیبات ان ہی کے اخلاق کی طرف مصروف ہیں اور ان کی اضداد سے تربیت کی طرف راجع ہیں۔ اور بر (نیکی) انہیں خصلتوں کے اَشباح ہیں (وہ اشکال اور طریقے جن سے یہ خصلتیں حاصل ہوتی ہیں) اور ان کے کواسب ہیں یعنی ان اخلاق کو کمانے اور حاصل کرنے کے ذرائع اور اسباب ہیں، اور اثم (بدی) ان کے اضداد و کواسب کے مواقع اور اسباب سے عبارت ہے۔  انسانیت کے وہ اخلاق جن کی موجودگی معاد میں مفید ہے اور ان کا فقدان ضرر رساں ہے، وہ یہی چار بنیادی اخلاق ہیں۔ او ریہ اخلاق کسی نبی کی شریعت میں منسوخ نہیں ہوئے اور ہمارے پیغمبر حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں بھی یہ اخلاق محکم ہیں۔ جو شخص اس حقیقت کو ذوق اور وجدان کے طریق پر جان لے، او رمعلوم کر لے کہ ہر دور اور ہر طبقہ میں شرائع کس طرح ان اخلاق تک پہنچاتے ہیں تو وہ شخص یقیناً‌ فقیہ فی الدین اور راسخ العلم ہو گا۔ اور جو شخص شرائع کے اَشباح سے ان خصلتوں تک پہنچے گا اور ان اخلاق سے رنگین ہو گا اور اس کے نفس نے اپنے اصل جوہر میں ان خصلتوں کو قبول کر لیا تو وہ محسنین میں شمار ہو گا۔ در حقیقت ان چار خصلتوں کی معرفت امور عظام یعنی بڑے امور میں سے ایک بڑا امر ہے جو اس بندہ ضعیف پر وارد ہوئے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ہم پر او ردوسرے لوگوں پر بھی لیکن اکثر لوگ شکر نہیں ادا کرتے۔

(۱) طہارت

ان اخلاق میں سے ایک طہارت ہے۔ طہارت کا معنی تو نظافت و پاکیزگی ہوتا ہے لیکن طہارت کی حقیقت اور اس کی طرف میلان نفوسِ سلیمہ میں سے ہر ایک نفس میں ودیعت رکھا ہوا ہے۔ پس اگر نفس اپنی فطری سلامتی کی حالت پر ہو اور کوئی عارض اس کو مُشوَّش نہ کرے تو لامحالہ وہ طہارت پر ہو گا۔  

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری مراد طہارت سے صرف وضو اور غسل نہیں بلکہ روحِ وضو اور روحِ غسل ہے اور نورِ وضو اور نورِ غسل ہے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہر پاکیزہ نفس جس کا مزاج صحیح اور سلیم ہو اور اس کا مادۂ نوعی احکام قبول کرنے سے انکا رنہ کرتا ہو (جیسا کہ مُنحرِج اور ناقص مادۂ نوعی احکام قبول کرنے سے انکار کرتا ہے) اور سفلی حالت سے فارغ ہو اور طبعی طور پر مشوش کرنے والی باتوں سے خالی ہو۔ جیسا کہ شَبق یا غلبۂ شہوت کی حالت یا غضب اور بھوک وغیرہ کی حالت سے خالی ہو، تو ایسا نفس جب نجاسات سے آلودہ ہوتا ہے اور میل کچیل سے پُر ہوتا ہے اور غیر طبعی بالوں کی افزائش اس کے جسم پر ہوتی ہے اور بول و براز کا شدید تقاضا ہوتا ہے اور معدہ میں ریاح کا غلبہ اور گرانی ہوتی ہے، یا وہ شخص جماع اور اس کے وداع سے قریب العمد ہوتا ہے، تو ایسا شخص اگر اپنے وجدان کی طرف رجوع کرے گا تو لامحالہ اپنے اندر انقباض، تنگی اور غم پائے گا، پھر وہ جب دونوں خبیث چیزوں (بول و براز سے فارغ اور ہلکا ہو گا اور غسل کرے گا اور زائد بالوں کو اپنے جسم سے دور کر دے گا اور نیا لباس زیب تن کرے گا اور خوشبو کا استعمال کرے گا او رپھر اپنے وجدان کی طرف رجوع کرے گا تو لامحالہ ایک خاص قسم کا اِنشراح اور طبیعت کی کشادگی، سرور اور اِنبساط پائے گا۔  

پہلی حالت حدث کی ظلمت اور تاریکی کی حالت ہے اور دوسری حالت نورِ طہارت کی حالت ہے۔ جب حدث کی ظلمت نفس کا احاطہ کرتی ہے تو شیاطین کے وسوسے اور خوفناک خواب ظاہر ہوتے ہیں اور دل پر سیاہی ہجوم کرے گی۔  اور جب نورِ طہارت نفس کا احاطہ کرتا ہے تو ملائکہ کے الہامات اور رویائے صادقہ یعنی اچھے خواب ظاہر ہوں گے، اور خواب و بیداری دونوں کی حالت میں اس کے دل پر نور کا ہجوم ہو گا۔ کبھی ایسا ہوتا ہےکہ یہ شخص خواب میں آفتاب کو اپنے دل یا دھن میں جلوہ گر دیکھتا ہے اور اس پر خوش ہوتا ہے، اور کبھی ستارے اس کی پیشانی اور تمام اعضاء کے ساتھ چھپاں ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں، اور کوئی یہ دیکھتا ہے کہ اس پر نور کی بارش برس رہی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس اس قسم کے خواب دیکھتا ہے۔ 

حاصل یہ ہے کہ یہ سب طہارت کے اشباح (اشکال) و آثار ہیں اور ان کی حقیقت وہ ہیئت وجدانیہ ہے جس کو بجز اُنس اور نور کے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ حالت انسان کی حالتوں میں ملاء اعلیٰ کی تجریدی حالت سے مشابت رکھتی ہے۔ یعنی جس طرح ملاء اعلیٰ بہیمی آلودگیوں سے دور ہوتے ہیں اسی طرح یہ شخص بھی اس حالت میں بہیمی آلودگی سے دور اور صاف ہوتا ہے۔ اور جس طرح ملاء اعلیٰ میں سرور اور اِبتہاج ہوتا ہے اس طرح اس حالت میں اس شخص کو بھی انس، سرور اور ابتہاج میں ان کے ساتھ مشابہت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور جب بھی کوئی ملاء اعلیٰ کے ساتھ مشابہت پیدا کر لیتا ہے تو وہ وہاں بے اندازہ سرور و ابتہاج اور انس محسوس کرتا ہے۔ اور جب یہ شخص اس حالت کو اپنے نفس میں پختہ اور راسخ کر لیتا ہے اور وہ اس کا ملکہ بن جاتی ہے تو اس شخص کے اور املاء اعلیٰ کے درمیان ایک خاص قسم کی مناسبت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے درمیان اور بہشت کی خوشیوں اور راحت کے درمیان دروازہ کھل جاتا ہے۔

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص مسلسل احداث او رخباثات کے ساتھ آلودہ ہوتا ہے اور درمیان میں طہارت کی صورت نہیں اختیار کرتا تو اس کا علاج انتہائی مبالغہ کے ساتھ بدن اور کپڑوں کو پاک صاف کرنے سے ہو گا۔

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ انوارِ طہارت کی نسبت بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے جو کسی شخص میں پیدا ہوتی ہے۔ اس نسبت کی حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی شخص غسل اور وضو کرتا ہے اور خوشبو استعمال کرتا ہے او ربدن سے گندگی دور کرتا ہے اور اسی طرح لباس کو بھی پاک و صاف رکھتا ہے تو اس میں ایک قسم کا سرور و انشراح پیدا ہوتا ہے اور خاص قسم کا انس اپنے اندر محسوس کرتا ہے، اور یہ انس و سرور قُوائے طبعیہ کے قبیل سے نہیں ہوتا بلکہ یہ قوتِ ملکیہ کی میراث اور اس کا پَرتو ہے۔ اور جب یہ بات بار بار حاصل ہوتی رہے تو نفس کا ملکہ بن جاتی ہے او رایک ہیئتِ راسخہ اس کی وجہ سے نفس میں پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک عارف آدمی اس ہیئت کو پہچانتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔ اور جب حدث لاحق ہوتا ہے یا جنابت طاری ہو جاتی ہے یا اس کا بدن اور لباس نجس ہو جاتے ہیں اور وہ اس کی وجہ سے اپنے نفس میں انتہائی وحشت اور انقباض پاتا ہے اور اس کے دل میں بے چینی اور پراگندگی پیدا ہو جاتی ہے اور خبیث اور ردی باتیں اور وسواس اس کے دل سے اٹھنے لگتے ہیں،  جب یہ شخص طہارت کی اشکال و امثال سے تمسک کرتا ہے تو اس کے اندر وہ مطلوب حالت دوبارہ پیدا ہو جاتی ہے اور یہ شخص اپنے اندر آرام و سکون پاتا ہے۔ جب عارف ان دونوں حالتوں کو پہچان لیتا ہے اور ایک حالت سے اسے ایذا تکلیف پہنچتی ہے اور دوسری حالت سے وہ لطف اندوز ہوتا ہے، اور یہ حالت طہارت کی کثرت اور وضو اور غسل پر مُواظبت کرنے سے حاصل ہوتی ہے، پھر اس شخص کے اندر ملائکہ کی حقیقت کی طرف ایک کشادہ شاہراہ کھل جاتی ہے اور ان ملائکہ کا اُنس و سرور اس کو حاصل ہوتا ہے اور اس مقام پر یہ شخص ایک ایسے بحرِ بیکراں کا مشاہدہ کرتا ہے جو ثلج (برف)، برد (اولے) اور راحت سے بھرپور ہوتا ہے۔ اور دنیا میں یہ شخص ملائکہ کی طرح مُلہِم ہوتا ہے یعنی اس پر ملائکہ کی طرح پاکیزہ الہامات ہوتے ہیں۔ اور جس طرح اس پر الہام ہوتا ہے اسی طرح اس کے حق میں ملائکہ پر بھی الہام ہوتا ہے تاکہ وہ ملائکہ اس کی رِفاحیت میں کوشش کریں، کبھی الہام کی شکل میں اور کبھی حالت کی تبدیلی کی شکل میں اور آخرت میں یہ شخص منجملہ ملائکہ میں شمار ہو گا۔

طہارت کی اس نسبت کے حاصل ہونے کی علامت یہ ہے کہ بہت سے مَلکی واقعات اس سے ظاہر ہوتے ہیں، جیسا کہ انوار کا دیکھنا اور آفتاب و ماہتاب کا اس کے منہ سے ظاہر ہونا اور دریں حالات یہ شخص اپنے آپ کو ایک بلِور اور شفاف جوہر کی شکل میں دیکھتا ہے (کیونکہ روشن اور شفاف چیز میں نور و تجلی کو نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے)۔ اسی طرح لذیذ قسم کے طعام کا کھانا، دودھ اور شہد اور گھی جیسی پاکیزہ چیزوں کا تناول کرنا اور حریر کا لباس زیب تن کرنا اور عمدہ اور پاکیزہ باغات کی سیر کرنا اور ان میں اترنا بشرطیکہ وہ ایسی رونق و اطمینان اور تازگی اپنے دل میں محسوس کرے جیسا بیداری کی حالت میں ایک بھوکا آدمی طعام سے آرام پاتا ہے۔ اور یہ طہارت دوسری نسبتوں پر بھی تنبیہ کرتی ہے اور ان کے لیے بھی اِنبعاث پیدا کرتی ہے۔ طہارت کی نسبت رکھنے والا شخص جب ملائکہ سے نسبت پیدا کرتا ہے اور اپنےلوحِ نفس کو پاکیزہ بنا لیتا ہے تو بسا اوقات اس کے روحِ نفس پر اور اس کے دل پر بھی عشقِ الٰہی اور اس کی بے چینی اور قَلَق مُنقَّش ہوتا ہے اور عشق کے آثار یہاں سے پھوٹتے ہیں اور اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے فیض اور مَوہبَت خیال کرنا چاہیے۔

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص طہارت کی نسبت سے نابلد ہو تو اس کی یہ تدبیر اختیار کرنی چاہیے کہ خلوت گزین ہو کر غسل کرے اور نیا لباس پہنے اور دو رکعت نماز ادا کرے اور اللہ تعالیٰ کے اسم پاک نور کا زیادہ وِرد کرے تازہ بتازہ غسل اور تازہ بتازہ وضو کرتا رہے اور پوری ہمت او رتوجہ کے ساتھ فکر کرے کہ اس کے دل میں پہلے کی نسبت کوئی فرق پیدا ہوا ہے یا نہیں؟ ہمیں یقین ہے کہ بہت جلد اس کیفیت کو پا لے گا۔ یہ بات خوب جان لینی چاہیے کہ طہارت کی حقیقت صرف وضو اور غسل میں منحصر نہیں بلکہ بہت سی چیزیں وضو اور غسل کے حکم میں داخل ہیں جن سے طہارت حاصل ہوتی ہے یا قوی ہوتی ہے۔ چنانچہ صدقہ دینے سے اور فرشتوں او ربزرگوں کو خوبی سے یاد کرنے سے اور ایسے کام کرنے سے جو عوام کے لیے مفید ہوں اور عام لوگ ان کی وجہ سے اس شخص کے حق میں دعا کریں او رخوش ہوں، اور نیز اپنی وضع قطع ڈاڑھی مونچھ اور تمام بالوں کو اس ہیئت پر بنائے جو ملت میں مستحسن اور مُعتاد ہوں او ربالوں کی حفاظت او راُن کو پراگندگی سے بچانا او رمتبرک مقامات او رمعظم مساجد اور سلف کے مُشاہَد میں اعتکاف کرنا، اور اگر اہلِ دنیا کی رسوم کا ہجوم ہو تو اس کا علاج ہجرت اوطان اختیار کرنے سے ہو گا۔ او رپاک صاف اور سفید لباس پہننا اور خوشبو استعمال کرنا، طہارت کی حالت میں سونا اور خواب کے وقت ذکر کرنا اور پریشان خواطر او رپراگندہ خیالات سے اپنے دل کی حفاظت کرنا اور موذی مواد کو بدن سے خارج کرنا (استفراغ) اور ظلمانی اخلاط کو بدن سے باہر نکالنا اور نفس کا نسیم (پاکیزہ) اور خوشبو سے راحت پانا، اور ایسی چیزوں کا کھانا جن سے کَیلوس صالح پیدا ہو تاکہ خوف اور بے چینی اس میں نہ رہے۔ یہ سب اشیاء طہارت کی کیفیت کو پیدا کرتی ہیں یا اس کی تقویت کا باعث ہوتی ہیں۔

اس کے برخلاف ہیئاتِ منکرہ شیطانیہ یعنی شیطانی بد وَضعی اور فحش کلمات کا زبان سے نکالنا او رسلف صالحین پر طعن اور نکتہ چینی کرنا اور بے حیائی کا اظہار کرنا اور جانوروں کی جُفتی وغیرہ دیکھنی اور حسین عورتوں اور اَمارِد (نوخیز بچے) کے ساتھ ہم نشینی اختیار کرنا اور اپنی فکر ان کے محاسن اور بناؤ سگار میں مصروف کرنا اور لمبے وقت تک اپنے دل میں مباشرت کے خیالات کو جمع کرنا اور اس سے زیادہ مباشرت میں مشغول و مصروف رہنا جتنا کوئی شخص قضائے حاجت کے لیے مصروف کار ہوتا ہے او رکتوں اور بندوں کے ساتھ رفاقت رکھنی اور امراض جلدیہ میں مبتلا ہونا : حبیسی، پتی، چنبل، داد، جرب، کھجلی وغیرہ اور دَموی امراض میں مبتلا ہونا۔  یہ سب باتیں اس صفت کو بتلاتی ہیں جو طہارت کے بالمقابل اور اس کی ضد ہے۔  اس اجماع اور مباشرت میں جو دفعِ اذیت کے لیے ہو اور اس میں جو تحصیلِ لذت کے لیے ہو، فرق ہے۔ پہلی قسم طہارت کے باب سے ہے اور دوسری قسم نجاست کے باب سے ہے۔

ان میں سے بعض چیزوں کے بارہ میں شریعت نے صراحت سے طہارت اور نجاست کا نام دیا ہے اور بعض کی طرف اشارہ اور ایما کیا ہے۔ یہ سب باتیں وجدانی طریق پر معلوم ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نظیف ہے، نظافت کو پسند فرماتا ہے۔ حدیث میں ’’الطہور شطر الایمان‘‘ آیا ہے یعنی طہارت ایمان کا جز ہے۔ اسی بنا پر امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ

’’اربابِ بصیرت نے یہ بات سمجھی ہے کہ شارع علیہ السلام کی مراد صرف یہ نہیں کہ طہارت میں صرف ظاہر کو پانی سے صاف اور نظیف بنا لیاجائے بلکہ طہارت کے چار مراتب ہیں: پہلا مرتبہ یہ ہے کہ ظاہر کو احداث اور اخباث سے پاک کیا جائے۔ دوسرا مرتبہ جوارح و اعضاء کو آثام و جرائم سےپاک کیا جائے۔ تیسرا مرتبہ قلب کو اخلاقِ مذمومہ اور رزائلِ ناپسندیدہ سے پاک کرنا۔ اور چوتھا مرتبہ سر کو عماسوای اللہ سے پاک کرنا اور یہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اور صدیقین کی طہارت ہے۔‘‘

امام ولی اللہ فرماتے ہیں روحِ طہارت دراصل نورِ باطن، انس و انشراح کی حالت ہے اور افکار کو مٹانا ہے اور تشویشات بے چینی، فکری پراگندگی، فجر، تنگدلی اور جزع فزع کو روکنا اور کم کرنا ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ حدث کے اسباب یہ ہیں: قلب کا سفلی حالات سے پُر ہونا جیسا کہ عورتوں سے قضاء شہوت اور مباشرت کی حالت اور قلب میں حق کی مخالفت مضمر رکھنا اور ملاء اعلیٰ کی لعنت کا احاطہ کرنا، بول و براز کو روکے رکھنا اور بول و براز اور ریح کے ساتھ قریب العہد ہونا یہ معدہ کے فضول مواد ہیں ۔ اور بدن کا میل کچیل سے بھر جانا،  گند دہنی رینٹھ وغیرہ کا جمع ہونا۔ زیر ناف اور بغل کے بالوں کا اگنا اور ان کی افزائش اور بدن کا نجاست اور گندگی سے آلودہ ہونا اور حواس کا ایسی حالت سے پُر ہونا جو سفلی حالت کو یاد دلاتی ہو۔ جیسا کہ مختلف قسم کی غلاظتیں اور گندگی،  شرمگاہ کی طرف نظر کرنا، حیوانات کی جفتی دیکھنا، جماع او رمباشرت میں زیادہ عمیق اور گہری نظر رکھنا اور ملائکہ اور صالحین پر طعن کرنا اور لوگوں کو ایذا پہنچانے کی سعی کرنا، یہ سب نجاست کے اسباب ہیں۔ اور طہارت کے اسباب ان کا ازالہ کرنا اور ان کی اضداد کو حاصل کرنا ہے اور ایسی چیزوں کا استعمال کرنا جو عادتاً‌ نظافت خیال کی جاتی ہیں جیسا کہ غسل و وضو کرنا، اچھے صاف ستھرے کپڑے پہننا، خوشبو استعمال کرنا، یہ سب چیزیں طہارت کی صفت پر تنبیہ کرنے والی ہیں۔

اور جب طہارت انسان کی طبیعت بن کر راسخ ہو جاتی ہے تو اس کے اندر ملائکہ کے الہامات قبول کرنے کی استعداد پیدا کرتی ہے اور مناماتِ صالحہ یعنی اچھے خواب اور انوار کا ظہور ہوتا ہے اور طیّبات یعنی پاکیزہ اور مبارک چیزوں کا تمثل ہوتا ہے۔ اور جب انسان میں نجاست کی حالت راسخ ہو جاتی ہے تو شیاطین کے وساوس قبول کرنے کی استعداد پیدا کرتی ہے اور ایسا انسان حس مشترک کے خاصہ سے شیاطین کو بعض اوقات دیکھتا ہے اور وحشت ناک خواب آتےہیں اور نفس کے اس پہلو پر جو نفسِ ناطقہ سے ملتا ہے ظلمت کا ظہور ہوتا ہے اور ملعون اور ذلیل جانور متمثل ہوتے ہیں اور خواب میں نظر آتے ہیں۔

طہارت کا مفہوم شرائع الٰہیہ میں اس قدر وسیع ہے جس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ اس میں طہارت صوری جیسا کہ بول و براز، مادہ منویہ،  مذی، خون، ودی، قی، پیپ و اقذار و نجاسات سے طہارت بھی ضروری ہے۔ اسی طرح باطن کی تطہیر، کفر، شرک، نفاق، الحاد، ارتداد، شک اور تمام عقائدِ باطلہ، نیاتِ فاسدہ اور اخلاقِ ذمیمہ، کھوٹ، کینہ، دغا بازی، حسد، تکبر وغیرہ سے طہارت ضروری ہے۔ نیز غصب، سرقہ، خیانت و حرام سے مردوں کو ریشمی لباس، سونے چاندی کے زیور اور مسرفانہ مبذرانہ افعال اور وضع قطع سے احتراز ضروری ہے۔ بدن کو حدث و جنابت سے وضو، غسل و تیمّم کے ذریعہ اور مختلف قسم کے فضلات، غیر طبعی بال، ناخن او رمیل کچیل پاک کرنا، او رمال تطہیر زکوٰۃ و صدقات نکالنے اور سود کی آمیزش اور دیگر حرام چیزوں سے، قمار بازی، ناپاک چیزوں کی تجارت سے طہارت ضروری ہے۔

الغرض کہ طہارت کا وسیع نظام ہے جس میں اخلاق و عقائد کی تطہیر سے لے کر ظاہری طہارت کے تمام مواقع بدن، مکان، دیگر ماحول، گلی محلہ، شہر، میونسپلٹی، اسمبلی، ٹریڈ یونین وغیرہ اور قانون کا پاک ہونا اور صاف ہونا، افکار کی پاکیزگی، اصول و اعمال و نفسیات سب کی تطہیر پر مشتمل ہے۔ انسان اپنی فطرت کے مطابق بعض چیزوں کو اپنے بدن اور جسم کے لیے باعث نجاست و گندگی خیال کرتا ہے اور اپنی پوری قوت و وسعت کے ساتھ ان سے بچتا رہتا ہے۔ مثلاً‌ بول و براز وغیرہ جب انسان کے نزدیک نجس ہیں تو ممکن نہیں کہ پھر انسان ان سے ایک لحظہ بھی آلودہ ہونے کے لیے تیار ہو۔ جب یہ صفت انسان کو حاصل ہو جائے تو اس کی تکمیل اس کے لیے آسان ہو گی۔ جب انسان کے نفس میں کوئی کلام فکر و عادت یا جذبہ پیدا ہو اور اس کے قلب میں وہ ایسا مؤثر ہو جیساکہ بول وبراز کی تاثیر اس کے جسم پر ہوتی ہے جب وہ اس پر پڑ جائے تو انسان اس کو نجس خیال کرنے کے ساتھ پختہ ارادہ کرے گا اس کے ازالہ کا اور یہ خصلت اس کے اندر پختہ ہو گی۔

طہارت انسانیت کے اہم ترین بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ اس اصول پر کاربند رہنا ملاء اعلیٰ کے ساتھ مشابہت پیدا کرنا ہے، اور اس طہارت کے ذریعہ انسان خطیرۃ القدس میں داخل ہونے کا اہل اور اس کا ممبر بن سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچنے کے قابل بن سکتا ہے۔ عبادت اس کے بغیر مقبول نہیں جیسا کہ ’’ان اللہ لا یقبل صلوٰۃ بغیر طہور و لا صدقہ‘‘  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں فرماتے اور خیانت وغیرہ کے مال سے صدقہ و خیرات قبول نہیں فرماتے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’واللہ یحب المطہرین‘‘ کہ اللہ تعالیٰ طہارت اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے۔ اور جہاں تمیم کی حکمت اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے اس میں بھی یہی ارشاد ہوتا ہے ’’یرید اللہ لیطہرکم‘‘ اللہ تعالیٰ چاہتا ہےکہ تمہیں پاک و صاف کر دے۔ 

قرآن و سنت میں طہارت کے متعلق مفصل احکام موجود ہیں اور امام ولی اللہؒ نے حکیمانہ طریق پر اس کا فلسفہ سمجھا دیا ہے۔ چنانچہ اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ طہارت جس کا اثر نمایاں اور ظاہری طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے او ریہ ایسا وصف ہے کہ جس کے ساتھ جمہور انسان یعنی عوام کو خطاب کیا جا سکتا ہے اور اس طہارت کا آلہ متمدن دنیا میں بکثرت پایا جاتا ہے یعنی پانی۔ طہارت کا معاملہ ضبط و قانون میں آ سکتا ہے اور جو انسانی نفوس میں زیادہ وقیع طریق پر مؤثر ہوتا ہے اور مسلّماتِ مشہورہ کی طرح اور طبعی مذہب کی طرح ہوتا ہے۔ یہ طہارت استقراء و تتبع سے دو قسموں میں منحصر ہے   طہارتِ صغریٰ اور طہارتِ کبریٰ ۔ (طہارتِ کبریٰ) عام بدن کو پانی کے ساتھ دھونا اور خوب مل کر صاف کرنے سے حاصل ہوتی ہے کیونکہ پانی نجاسات کو زائل کرنے والا خود پاک اور دوسری چیزوں کو پاک کرنے کا آلہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’وانزلنا من السماء ماء طہورً‌ا‘‘۔  طبائع اس کو تسلیم کرتے ہیں اور یہ آلہ صالحہ ہے کہ نفس کو طہارت کی صفت پر تنبیہ کرے او رخبر کر دے اور یہ تنبیہ اس طرح حاصل ہو گی کہ انسانوں کے نفسوس میں جو ایک بات گڑی ہوئی ہے کہ یہ طہارت بلیغہ کر دے اور یہ صرف پانی ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔

اور طہارت صغریٰ میں صرف اطراف ہاتھ پاؤں منہ کے دھونے پر اکتفا کیا جاتا ہے کیونکہ عادتاً‌ یہی مواقع متمدن ممالک میں منکشف ہوئے ہیں اور لباس سے باہر ہوتے ہیں اور ان کا لباس سے باہر ہونا سب لوگوں کے لیے ایک طبعی بات ہے اور ان کے دھونے میں کوئی حرج بھی نہیں ہوتا برخلاف تمام اعضاء کے دھونے کے لیے خاص اہتمام اور تستر وغیرہ کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔ نیز شہروں میں عادت ہے کہ ان اعضاء کو بالعموم لوگ ہر دن میں پاک و صاف رکھنے کے عادی ہوتے ہیں اور بڑے لوگوں کے پاس جائے وقت مثلاً‌ حکّام، بادشاہ، امرا، عاظم رجال کے پاس جانے کی صورت میں ان کو پاکیزہ اور نظیف رکھا جاتا ہے اور نیز پاکیزہ اور اچھے اعمال انجام دینے کے وقت بھی ان کو پاک و صاف کیا جاتا ہے۔ اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ ان اعضاء کے طرف ہی میل کچیل گرد و غبار دھواں وغیرہ جلدی سرایت کرتا ہے اور ملاقات کے وقت یہی اعضاء لوگوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں اس لیے ان کا پاک صاف ہونا ضروری ہے۔

یہ بات سمجھ میں آتی ہے نیز تجربہ شاہد ہے کہ اطراف اور منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے سے نفس نیند اور غشی وغیرہ کی حالت میں بیدار ہوتا ہے اور متنبہ ہو جاتا ہے اور اس سے نفس میں قوی درجہ کی تنبیہ حاصل ہوتی ہے۔ انسان خود بھی اس کا تجربہ کر سکتا ہے اور اطباء حضرات بھی غشی وغیرہ کو دور کرنے کے لیے اس تدبیر کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ او رطہارت صرف تنظیف ہی نہیں بلکہ یہ ارتفاقِ ثانی (انسان کی اجتماعی اور شہری ضرورتوں) کے ابواب میں بھی داخل ہے جس پر انسان کا کمال موقوف ہے اور انسانوں کی طبیعت اور جبلت میں داخل ہے اور اس میں ملائکہ سے قرب ہے اور شیاطین سے بُعد ہے۔ نیز یہ طہارت انسان کو عذابِ قبر سے بچانے کا ذریعہ بھی ہے جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ پیشاب سے بچو کیونکہ عام طور پر عذابِ قبر اس سے واقع ہوتا ہے۔ نیز اس طہارت کو بڑا دخل ہے اس بات میں کہ انسان کا نفس اس کی وجہ سے احسان کا رنگ قبول کرتا ہے ’’واللہ یحب المطہرین‘‘ کی آیت سے ظاہر ہوتی ہے۔

اور جب یہ طہارت کی صفت نفس میں پختہ اور راسخ ہو جاتی ہے تو پھر نفس میں ملائکہ کے نور کا (ملکیت کا) ایک شعبہ ٹھہر جاتا ہے اور ٹک جاتا ہے اور بہیمیت کی ظلمت کا ایک شعبہ مقہور و مغلوب ہوتا ہے، اور یہی مطلب ہے کتابتِ حسنات او تکفیرِ سیئات کا۔ یعنی جو حدث میں آیا ہے کہ طہارت کر کرنے سے حسنات لکھی جاتی ہیں اور خطاؤں کو معاف کیا جاتا ہے اور مٹایا جاتا ہے۔ 

اور اگر اس طہارت کو رسمِ فاشی بنا دیا جائے کہ عام و خاص لوگ اس کی پابندی کرنے لگ جائیں تو یہ مہلک رسومات سے بچانے کا ذریعہ بھی بن جائے گی۔ اور جب طہارت والا انسان اس کی ہیئات کی حفاظت کرے گا جیسا کہ بڑے لوگوں کے پاس جاتے وقت کرتے ہیں اور نیت اور اذکار بھی اس کے ساتھ مل جائیں تو سوءِ معرفت کا علاج بھی اس سے ہو گا۔ اور جب انسان خوب اپنی عقل سے اس کو جان لے کہ یہ انسان کے حق میں کمال ہے اور اپنے جوارح کو ان آداب کا پابند بنائے لیکن عقل تقاضے کے بغیر کسی حسی داعیہ کے تو اس سے طبیعت کے عقل کے تابع ہونے کی مشق ہو گی اور حجاب طبع کابھی علاج اس سے ہو سکے گا۔

(۲) اخبات 

(خضوع و خشوع)  دوسری صفت یا اخلاق۔ ان اہم بنیادی اخلاق میں سے اخبات یا خضوع ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے عجز و نیاز مندی کا اظہار اور چشمِ دل کو اس کی طرف متوجہ رکھنا، اس کو اخبات کہتے ہیں۔ اخبات کا لفظ اور اسی طرح خضوع و خشوع قرآن پاک میں وارد ہوئے ہیں مثلاً‌ اخبات جیسا کہ سورۃ ہود میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 

ان الذین اٰمنوا وعملوا الصالحات واخبتوا الیٰ ربہم اولئک اصحاب الجنۃ ہم فیہا خالدون (آیت ۲۳)
’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور اپنے پروردگار کے سامنے عاجزی کی ، یہی لوگ جنت والے ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

اس کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ نفوسِ سلیمہ جب ہر قسم کی تشویشاتِ طبعیہ اور خارجیہ سے فارغ ہوں اور ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کی صفاتِ جلال اور اس کی کبریائی ان کو یاد دلائی جائے اور کسی نہ کسی طرح ان کا رخ ادھر متوجہ ہو تو لا محالہ انہیں ایک ایسی حالت لاحق ہو گی جو حیرت اور دہشت کی جنس سے ہو سکتی ہے اور ایک خاص رنگ انہیں احاطہ کرے گا، اور جب یہ اس حالت سے نیچے اتر کر سفلی حالت کی طرف آتے ہیں تو یہی حیرت و دہشت خشوع و خضوع اور اخبات بن جاتا ہے اور ایسی حالت ان پر طاری ہوتی ہے جیسے غلاموں کی حالت اپنے آقاؤں کے سامنے یا کسانوں کی حالت بادشاہوں کے سامنے یا جیسا کہ محتاج سائل کی حالت سخی کریم کے سامنے ہوتی ہے۔ 

حاصل یہ ہے کہ نفس کی یہ حالت ملاء اعلیٰ کے ساتھ مشابہ ہوتی ہے جیسا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی شان جلال و کبریائی کے سامنے حیران و ششدر رہتے ہیں تو نفس کی یہ صفت خشوع خضوع او رمناجات میں ان ملاء اعلیٰ کے مشابہ ہوتی ہے۔ جب نفس اس کیفیت کے ساتھ رنگین ہو جاتا ہے اور یہ خصلت اس کے اصل کے جوہر میں داخل ہو جاتی ہے تو اس نفس اور ملاء اعلیٰ کے درمیان ایک دروازہ کھل جاتا ہے او رملاء اعلیٰ کی جانب سے اس نفس پر معارف جلیلہ مترشح ہوتے ہیں۔ ان معارف کی اشباہ و اشکال تجلیاتِ الٰہیہ ہوتی ہیں۔ شریعت نے اس صفت کو حاصل کرنے کے لیے خضوع و خشوع او رمناجات تلاوتِ قرآن کریم، ذکر، دعائیں او رتعویزات وغیرہ مقرر کیے ہیں۔

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ اخبات کے اسباب یہ ہیں کہ انسان اپنے نفس کو تعظیم کے اعلیٰ حالات کا پابند بنائے جس قدر بھی اس سے ممکن ہو۔ مثلاً‌ سرنگوں ہو کر کھڑا ہونا، سجدہ ریز ہونا اور ایسے الفاظ زبان سے بولنا جو اللہ تعالیٰ کے سامنے مناجات اور عاجزی پر دال ہوں اور اپنی تمام مناجات اس کے سامنے رکھنی، یہ تمام امور وہ ہیں جو نفس کو اخبات و موضوع کی صفت پر قوی درجہ کی تنبیہ کرتے ہیں۔ 

نیز امام ولی اللہؒ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اخبات کی حقیقت یہ ہے کہ جب انسان سلیم الفطرۃ ہو اور تشویشات سے فارغ ہو تو جب اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی صفات و آیات کا تذکرہ کیا جائے اور گہرے طریق پر اس کو یاد کرے تو اس کا نفس ناطقہ متنبہ ہو گا اور اس کے حواس اور جسم میں انکساری و عاجزی پیدا ہو گی اور وہ حیران اور ماندہ یعنی تھکا ہوا ہو گا اور خطیرۃ القدس کی جانب اس کا میلان ہو گا اور ایک ایسی حالت اس پر طاری ہو گی جیسا کہ رعیت کے لوگوں کی اپنے بادشاہ کے سامنے ہوا کرتی ہے کہ وہ اپنی لاچارگی، عاجزی اور نیازمندی اور ان بادشاہوں کا استبداد اور لینے دینے اور منع کرنے میں ان کا اختیار اور اپنی کمزوری ملاحظہ کرتا ہے۔ اور یہ حالت نسمہ کی حالتوں میں سے زیادہ اقرب حالت ہے  ملاء اعلیٰ کے مشابہت میں، جس طرح ملاء اعلیٰ اپنے پیدا کرنے والے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس کے جلال میں حیران و سرگرداں ہوتے ہیں اور جس طرح اس کی تقدیس میں مستغرق ہوتے ہیں اور اسی لیے وہ ہمہ تن تیار ہوتے ہیں کہ ان کا نفس اپنے کمال علمی کی طرف خروج اختیار کرے اور معرفتِ الٰہیہ ان کےلوح و ذہن پر متنقش ہو اور وہ کسی نہ کسی طرح اس دربار میں سمجھتے ہیں اگرچہ الفاظ اس کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ 

روحِ نماز، حضور مع اللہ اور جبروت کی طرف جھانکنا اور اللہ تعالیٰ کے جلال کو تعظیم و محبت اور اطمینان کے ساتھ یاد کرنا اور ان دعاؤں کے ساتھ جن کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسنون قرار دیا ہے۔ 

اور تلاوتِ قرآن کی روح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف شوق، تعظیم اور محبت کے ساتھ متوجہ ہو اور قرآن کے مواعظ میں تدبر کرے اور اس کے احکام کے اِنقیاد میں پوری طرح شعور رکھتا ہو اور اِمتثال کے لیے آمادہ ہو اور اس کے امثال و قصص سے عبرت حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات اور آیات کا ذکر جب اس کے سامنے آئے تو اس کی عظمت کا دل و زبان سے اظہار کرے اور جنت و رحمت کی آیات کے سامنے آنے سے اس کے فضل کا طلبگار ہو۔ 

اور روحِ ذکر یہ ہے کہ حضور اور استغراق سے جبروت کی طرف توجہ کرے اور اس سلسلہ میں تہلیل و تکبیر کہنے کی اس قدر مشق بہم پہنچائے کہ حجاب اٹھ جائے اور اس کو مکمل استغراق حاصل ہو جائے۔

اور روحِ دعا یہ ہے کہ ہر قسم کی طاقت اور برائی سے بچنے کی توفیق من جانب اللہ دیکھے اور خود ایسا ہو جائے جیسا میّت غسّال کے ہاتھ میں یا تصویر و عکس ہلانے والے اور حرکت دینے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اس کے ساتھ مناجات کی لذت بھی پائے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں جو اصول بیان فرمایا ہےکہ تہجد کے بعد نہایت ہی عاجزی سے اور گڑگڑا کر اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرے اور پھر یہ شرط ہے کہ قلب بھی فارغ ہو، لہو و لعب میں مشغول اور غافل نہ ہو اور اس شخص کو بول و براز کا شدید تقاضا بھی نہ ہو اور غصے اور بھوک کی حالت میں بھی نہ ہو۔

جب انسان اس مناجات اور حاضری کی حالت کو پہچان لیتا ہے، پھر اگر اس حالت کو گم پاتا ہے تو اس کے اسباب کی کھوج لگاتا ہے، دریافت کرتا ہے۔ اب اگر طبیعت کی قوت اور شدت اس کا سبب ہو تو اس کا روزہ سے علاج کرنا چاہیے۔ اور اگر مادۂ شہوت کا غلبہ ہو تو اپنی ملکیت میں اس مادہ کا استغراق کرے۔ انہماک بھی مطلوب نہ ہو صرف علاج کے طور پر اس طریق کو استعمال کرے اور نیز کھانے پینے سے بھی فارغ ہو۔ اگر اس کا سبب ارتفاقات اور لوگوں کی رفاقت و صحبت ہو تو اس کا علاج کرے، ارتفاقات کے ساتھ عبادات کو بھی شریک کرے۔ اور اگر اس کا سبب فکر کے ظروف کا مشوش خیالات اور ردی افکار و وساوس سے پُر ہونا ہے تو پھر لوگوں سے الگ ہو جائے اور اپنے گھر یا مسجد کو لازم پکڑے اور اپنی زبان کو  بجز اللہ تعالیٰ کے ذکر کے دوسری باتوں سے روک دے اور اپنے قلب کو بجز اس فکر کے جو اس کی ضرورت کا ہو روک دے اور اپنے نفس کی نگرانی کرتا رہے۔ جب نیند سے بیدار ہو تو سب سے پہلے اللہ کا ذکر کرے اور جب سونے کے خیال سے الگ ہو تو پھر بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے اذکار و اوراد کا حکم دیا کہ جن سے دوامِ اخبات او رتضرُّع حاصل ہوتا ہے۔ 

اور اسی طرح جو شخص صفتِ خضوع و اخبات سے آشنا نہ ہو بلکہ اس کی ضد کے ساتھ متصف ہو تو جب ایسا شخص اس مادی عالم سے گزر جائے گا تو اس عالم میں تہہ بہ تہہ اوپر نیچے ظلمتیں اس پر ہجوم کریں گی۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جہاں جبروت کے انکشاف کا مُقتضی ہے اور یہ صفت جس کے ساتھ یہ شخص متصف ہے یہ خشوع کے منافی ہے او ر جبروت کے عدمِ انکشاف کو چاہتی ہے۔ نتیجہ یہ ہو گا اس کی وجہ سے اس شخص میں نفرت اور تنگی اس کے دل پر ہجوم کرے گی۔ 

انسان جب اپنے بڑے بزرگوں میں سے کسی کی تعظیم کرتا ہے مثلاً‌ باپ دادا یا مرشد، استاد یا نیک دل امراء و ملوک وغیرہ تو اپنے دل ان کے پاس حاضر ہوتے وقت عاجزی پاتا ہے اور دل کی گہرائیوں سے وہ محبت کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ کوئی بات کہیں حکم دیں تو میں اس کی تعمیل کروں اور اپنے دل میں ایک عجیب لذت ۔ ۔۔۔ کسی انسان کو اس کا باپ کوئی کام دیتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے تو یقیناً‌ ا س کی اطاعت کرے گا اور اس کو اپنے رب کی اطاعت کا وسیلہ خیال کرے گا۔ جب یہ خصلتِ خضوع اس میں پختہ ہو کر ملکہ بن جائے تو اس کو یوں کہیں گے کہ اس کو اخبات کی خصلت حاصل ہوگئی ہے۔

اخبات کی مشق کرنے والا انسان ہمیشہ تعظیمی آداب کی پابندی اور حفاظت ہر حال میں لازم خیال کرے گا۔ مثلاً‌ بول و براز کے وقت سر جھکا کر اور حیا سے بیٹھے گا اور ذکر کے وقت اپنے اطراف کو جمع کرے گا اور اس طرح ہر حال میں آداب کی پابندی کرتا رہے گا۔

(جاری)

دین و حکمت

()

تلاش

Flag Counter