انسانیت کے بنیادی اخلاقِ اربعہ (۲)

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

(۳) سماحت

تیسرا خُلق ان اخلاقِ اربعہ میں سے سماحت (فیاضی) ہے۔ اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ نفس خسیس بہیمی دواعی کے سامنے مغلوب نہ ہو۔ لذت کی طلب میں، انتقام کی خواہش پورا کرنے میں، یا بخل یا حرص اور اس جیسی دیگر رذیل خصلتوں میں نفس حقیر اور خسیس جذبات کے تابع نہ ہو۔ سماحت کی خصلت کا ہر شعبہ اس داعیہ کے اعتبار سے الگ الگ نام سے یاد کیا جاتا ہے، مثلاً‌:

عفت

اگر نفس داعیہ شہوتِ فرج اور بطن کو قبول نہ کرے تو وہ عفت (پاکدامنی نزاہت) کہلاتا ہے۔

اجتہاد

اگر نفس رباہیت یعنی خوشحالی و آرام پسندی اور ترکِ عمل کے داعیہ کو قبول نہ کرے تو وہ اجتہاد کہلاتا ہے۔

صبر

اگر تنگ دلی، جزع اور بے صبری کے داعیہ کو قبول نہ کرے تو وہ صبر کہلاتا ہے۔

عفو

اگر انتقام کی خواہش کے داعیہ کو قبول نہ کرے تو وہ عفو (درگزر) کہلاتا ہے۔

قناعت

اگر حرص کے داعیہ کو قبول نہ کرے تو یہ قناعت کہلاتا ہے۔ 

تقویٰ

 اگر شریعت کی مخالفت کے داعیہ کو قبول نہ کرے جو شریعت نے حدود و مقادیر کی حفاظت کے سلسلہ میں مقرر و معیّن کیے ہیں تو اس کو تقویٰ کہتے ہیں۔ خود امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں و تقویٰ عبارت از محافظت بر حدود شرع است (الطاف القدس)۔ (اور اسی طرح حضرت ابو حسین فارسیؒ فرماتے ہیں: ظاہر تقویٰ محافظت حدود کا نام ہے اور باطن تقویٰ نیت اور اخلاص)۔ امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ ان سب خصلتوں کی اصل ایک ہی چیز ہے اور وہ رائے کلی (عقلی تقاضے) کا دواعی خسیسہ بہیمیہ پر غالب ہونا ۔ اسی خصلت یعنی سماحت کے اشکال و شعب سے نفس میں ایک معنی داخل ہوتا ہے اور اس کو نفس اپنا ملکہ بنا لیتا ہے یعنی خسیس اور کمینہ دواعی کو قبول نہ کرنے کا ملکہ اس نفس کو حاصل ہو جاتا ہے۔ اور جس وقت یہ خصلت کسی نفس میں راسخ اور پختہ ہو جاتی ہے تو جب یہ آدم مرتا ہے تو تمام خسیس ہیئتیں جو اس عالم میں اس کے نفس پر ہجوم کرتی تھیں وہ یکسر نیست و نابود ہو جاتی ہیں اور وہ نفس اس طرح ہو جاتا ہے جس طرح خالص سونا کٹھالی سے نکلتا ہے  اس طرح وہ زرِ خالص بن کر نکلتا ہے۔ اور یہ ایسی خصلت ہے کہ جس کی وجہ سے انسان قبر کے عذاب سے دور اور بچا رہتا ہے۔ اور صوفیائے کرام اس خصلت کو زُہد (دنیا میں بے رغبتی) اور حریت اور ترکِ دنیا یا قطع تعلقات دنیا اور فناء خسائس بشریہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ جیسا کہ منصور حلاجؒ کے اس شعر میں ہے:

’’اطعت مطامعی  فاستعبدتنی 
ولو انی قنعت لکنت حرا‘‘
(یعنی میں نے اپنی طمع او رلالچ کی پیروی کی تو ان چیزوں نے مجھے غلام بنا لیا۔ اگر میں قناعت اختیار کرتا تو آزاد ہوتا۔)

اور اس خصلت کو حاصل کرنے کا عمدہ ذریعہ یہ ہے کہ ایسے مواقع و مظان سے گریز کرے جو اس خصلت کے اضداد ہیں اور اپنے قلب میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کو ترجیح دے اور عالمِ تجرد کی طرف نفس کا میلان ہو اسی قبیل سے ہے۔ 

حضرت زید بن حارثہؓ کا قول ہے ’’میرے نزدیک دنیا کا سونا اور پتھر یکساں ہیں۔‘‘ 

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں (حجۃ البالغہ میں) کہ سماحت حقیقت میں اس ہیئت کا نام ہے جو انسان میں کمال مطلوب کی ضد کو پختہ ہونے سے روکتی ہے خواہ علم کمال مطلوب ہو یا عمل کے اعتبار سے۔ سماحت اور اس کی ضد کے بہت سے القاب ہیں، جس قسم میں ہو گی اس کے اعتبار سے اس کا نام ہو گا،  مثلاً‌ :

بخل کے اعتبار سے ہو تو اس کا نام سماحت و سخاوت ہو گا اور اس کی ضد شح (بخل) کہلائے گی۔ 

اگر یہ داعیہ شہوتِ فرج اور بطن سے ہو، سماحت میں عفت اور اس کی ضد شہرہ (حرص ندیدہ پن) کہلائے گی۔

اگر خوشحالی اور آرام طلبی کے داعیہ اور مشقت کے کاموں سے دور رہنے کے اعتبار سے ہو تو سماحت میں صبر اور اس کی ضد صلع (شدید جزع اور بے صبری) کہتے ہیں۔ 

اگر شرع میں معاصی ممنوعہ کے داعیہ سے ہو تو اس کو تقویٰ کہتے ہیں اور اس کی ضد کو فجور کہتے ہیں۔

اور جب سماحت انسان میں پختہ ہو جاتی ہے تو اس کا نفس شہواتِ دنیا سے خالی ہو جاتا ہے اور لذاتِ عالیہ مجردہ (عالم بالا اور خطیرۃ القدس کی روحانی لذات) کے لیے مستعد ہوتا ہے۔

امام ولی اللہؒ بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’سماحت کی اصل حقیقت یہ ہے کہ نفس قوتِ بہیمیہ کے دواعی کے تابع نہ ہو اور قوت بہیمیہ کے نقوش اس میں متمثل نہ ہوں اور بہیمیت کے اوساخ (میل کچیل) یا آلودگیاں اور اس کا اثر اس پر لاحق نہ ہو کیونکہ جب انسان اپنے امورِ معاش میں تصرف کرتا ہے اور عورتوں سے ملنے کا اشتیاق رکھتا ہے اور لذات کے تحصیل کا خوگر اور عادی ہو جاتا ہے اور کسی خاص طعام کی چاہت کرتا ہے اور پھر ان اشیاء کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ان سے اپنی ضروریات پوری کرتا ہے تو خاص کیفیت اور ہیئت اس میں پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر انسان کسی پر ناراضگی اور غصہ کا اظہار کرتا ہے یا کسی چیز کے دینے پر بخل کرتا ہے تو ضرور اس حالت میں وہ ایک وقت تک مستغرق ہو گا، اس کے علاوہ کسی چیز کی طرف سر اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا، لیکن پھر جب یہ حالت اس سے زائل ہو گی تو اگر آدمی سماحت کی صفت سے موصوف ہوا تو ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرے گا، ایسا ہو گا کہ گویا کوئی چیز واقع ہی نہیں ہوئی۔ اور اگر سماحت والا نہ ہوا تو یہ کیفیت اس کے ساتھ چسپاں ہو جائے گی جس طرح انگوٹھی کا نقش موم میں چسپاں ہو جاتا ہے۔ جب اس آدمی کے مادی جسم سے روح مفارقت اختیار کرے گی یعنی طبعی موت سے جب یہ مر گیا اور ظلماتی جہاں کے تعلقات جو تہہ بہ تہہ اس پر چڑھے ہوئے تھے ان سے جب ہلکا ہو گیا اور اس نے اس چیز کی طرف رجوع کیا جو اس کے نفس کے پاس تھی تو دنیا میں جو چیزیں ملکیت کے منافی اور مخالف تھیں وہ اس میں موجود نہ ہوں گی تو اس کو اُنس حاصل ہو گا اور اچھی اور عمدہ عیش میں ہو گا۔ اور بخیل نفوس کے اندر اس بخل کے نقوش متمثل ہوں گے جیسا کہ تم مشاہدہ کرتے ہو۔ بعض آدمیوں کا جب کوئی نفیس مال چوری ہو جاتا ہے تو اگر وہ سخی اور سماحت والا ہو گا تو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کر ےگا۔ اور اگر وہ رکیک النفس یعنی بخیل کنجوس ہو گا تو اس کی حالت ایسی ہو گی اور وہ واویلا اور جزع فزع کرتا رہے گا۔‘‘

اسی طرح امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ سماحت کے اسباب یہ ہیں کہ اپنے نفس کو سخاوت کا خوگر بنایا جائے اور خرچ کرنے پر ہر وقت آمادہ اور تیار بنایا جائے اور جس نے اس پر ظلم و زیادتی کی ہو اس کو معاف کر دے اور مشکلات کے وقت اپنے نفس کو صبر پر کاربند کرنے کا عادی بنائے۔

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ نفس کی سماحت اصولِ اخلاق میں اہم ترین خُلق ہے کیونکہ نفس دواعی خسیسہ بہیمیہ کا مطیع نہ ہو یہ اہم بات ہے۔ انتقام کا جذبہ اس میں موجود ہوتا ہے اور وہ انتقام لینا چاہتا ہے اور غضب و غصہ کا اظہار بھی چاہتا ہے۔ بخل اور حرص علی المال اور حرص علی الجاہ بھی اس میں پایا جاتا ہے۔ اور اگر ان دواعی خسیسہ کے مطابق وہ اعمال انجام دے گا تو ان کا رنگ اس کے نفس کے جوہر میں چسپاں ہو گا اور اس میں متمثل ہو گا۔ اگر سماحت والا انسان ہوا  تو ان خسیس ہیئتوں کو ترک کرنا اس کے لیے سہل ہو گا۔ وہ ان سے چھوٹ کر اللہ کی رحمت کی طرف پہنچ جائے گا اور انوار و تجلیات میں مستغرق ہو جائے گا جیسا کہ نفسوس کی جبلت اس کا تقاضہ کرتی ہے۔ اور اگر فیاض اور سماحت والا نہ ہوا تو ان خسیس اعمال کے الوان و رنگ اور دنیا کی چکناہٹ اور آلودگی اس کے نفس میں مل جائے گی اور اس پر سہل نہیں ہو گا کہ وہ ان ہیئات کو ترک کر سکے۔

جب اس کا نفس اس خاکی جسم سے الگ ہو گا تو اس کےگناہ ہر طرف سے اس کا احاطہ کریں گے اور اس کے درمیان اور ان انوار و تجلیات کے درمیان جن کو نفس کی جبلت چاہتی ہے نہایت غلیظ یعنی دبیز حجات ڈال دیے جائیں گے اور ان کی وجہ سے وہ اذیت او ردکھ پاتا رہے گا۔

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ نورِ ایمان ان دواعی خسیسہ میں سے ہر ایک کی مدافعت کرتا ہے۔ نفسِ بہیمی اور قلبِ سبعی جب یہ خسیس داعیات رکھتے ہیں تو نورِ ایمان ان کی مدافعت کرتا ہے ،اور ہر ایک کا جدا جدا نام ہوتا ہے۔ جو ملکہ جزع فزع کے داعیہ کی مدافعت کرتا ہے اس کو صبر علی المصیبت کہتے ہیں، اس کا مستقر قلب ہے۔ آرام طلبی اور فارغ البالی کے داعیہ کی مدافعت کا ملکہ اجتہاد اور صبر علی الطاعہ کہلاتا ہے۔ حدودِ شرعیہ کی مخالفت اور ان کے ساتھ تہاون اور سستی اختیار کرنے کے داعیہ کی مدافعت تقویٰ کرتا ہے۔ اور جس سے غصہ کے داعیہ کی مدافعت ہوتی ہے اس کو حلم اور بردباری کہتے ہیں، اس کا مستقر بھی قلب ہے۔ حرص کے داعیہ کی مدافعت قناعت کہلاتی ہے۔ عجلت اور جلد بازی کے داعیہ کی مدافعت تانی (پختگی، آہستگی، تثبت) کہلاتا ہے۔ شہوت فرج کے داعیہ کی مدافعت عفت (پاکدامنی) کہلاتی ہے۔ منہ پھٹ ہونے اور بیہودہ گوئی کے داعیہ کی مدافعت صمت، خاموشی اور رعی کہلاتی ہے۔ دوسروں پر نمایاں ہونے اور غالب آنے کے داعیہ کی مدافعت خمول (گمنامی) کہلاتی ہے۔ محبت اور نفرت دونوں میں تلون مزاجی کے داعیہ کی مدافعت استقامت کہلاتی ہے۔

الطاف القدس میں امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ انسان میں رذیل صفات کی وجہ سے جو درندوں جیسے افعال اور شہوانی اعمال جب نفسِ ناطقہ کے ساتھ دامن گیر ہوتے ہیں تو اسی سماحت کی خصلت کی وجہ ہی انسان ان صفاتِ رذیلہ کے رنگ کو اپنے آپ سے جھٹک دیتا ہے اور صفائی اور پاکیزگی کی خوبی اور صفت اس کو حاصل ہوتی ہے۔ 

اور اسی طرح جو شخص سماحت کی ضد کے ساتھ متصف ہو گا اور دنیاوی اور مادی تعلقات جو حبِ مال، حبِ جاہ اور حبِ اولاد وغیرہ سے متعلق ہیں، اور اس کے علاوہ ہیئاتِ خسیسہ مثلاً‌ بھوک، پیاس وغیرہ اس کے دل پر ہجوم کرتی ہیں اور اس پر چسپاں ہو جاتی ہیں، جس طرح انگوٹھی کو زور سے موم وغیرہ پر مارا جائے تو اس کی صورت اور نقوش اس موم میں مُنطبع ہو جاتے ہیں۔ لیکن سماحت والا انسان ایسا ہوتا ہے جیسا کہ پانی کی حالت ہوتی ہے کہ جب انگلی وغیرہ کو اس سے اٹھا لیا جائے تو وہ نقش و صورت زائل ہو جاتی ہے۔ امام ولی اللہؒ کا اپنا ایک شعر ہے ؎

بوسعت مشرباں رنگ تعلق درنمے گیرد 
اگر نقشے زنی بر روئے دریا بے اثر باشد
(وسیع المشرب لوگوں کے ساتھ یعنی سماحت والے لوگوں کے ساتھ تعلقات کا رنگ چسپاں نہیں ہوتا، جس طرح دریا کے پانی پر اگر نقش بناؤ تو بے اثر ہو گا، نقش ٹھہرتا نہیں۔)

انسان بالطبع بعض چیزوں کو پسند کرتا ہے۔ مثلاً‌ خاص قسم کا کھانا، خاص لباس، عمدہ اور خوبصورت مکان۔ اور یہ بھی پسند کرتا ہے کہ لوگوں کے اجتماع میں وہ عزیز اور محترم ہو۔ اور ساتھ یہ بھی کہ عند اللہ مقرب بھی ہو۔ یہ سب انسان کی ضروریات ہیں۔ جب انسان اپنی ضروریات کو اچھی طرح پوری کرتا ہے تو وہ اس کے لطف کو فراموش نہیں کر سکتا، بلکہ یہ لذت اس کے لیے دوسرے کاموں اور حاجتوں کو پورا کرنے سے مانع ہوتی ہے۔ 

جب انسان اس کے برخلاف ایسے ہوتے ہیں مثلاً‌ لذیذ کھانا کھاتے ہیں اور اس کی لذت بھی پوری طرح محسوس کرتے ہیں، لیکن جب وہ اس سے فارغ ہو جاتے ہیں تو اس کو فراموش کرتے ہیں اور اس کے بارے میں پھر سوچتے بھی نہیں، اور یہ لذت ان کے لیے کسی دوسرے کام سے مانع نہیں ہوتی، ایسا انسان یقیناً‌ اپنے اخلاق کی تکمیل کرنے کا اہل ہوتا ہے۔  یہ سماحت کا اخلاق بھی ایسا ہے کہ اس خلق والے کی طبیعت پانی کی طرح ہوتی ہے۔ پانی میں انگلی ڈبوئی جائے تو بہت سی جگہ پانی سے خالی نظر آتی ہے، لیکن جب انگلی اٹھا لی جائے تو پھر پانی پہلی حالت پر لوٹ آتا ہے۔ 

اور در حقیقت سماحت اور عدالت میں من وجہ تنافر و تناقص بھی پایا جاتا ہے، کیونکہ قلب کا میلان تجرد کی طرف، اور اس کا رحمت و مودت کے لیے مطیع ہونا، یہ دونوں باتیں اکثر لوگوں کے حق میں باہم مخالف ہیں۔ اسی لیے بہت سے اہل اللہ کو تم دیکھو گے کہ وہ تبتل اور انقطاع عن الناس کو اختیار کرتے ہیں اور اہل و اولاد سے دور ہو جاتے ہیں۔ اور عام لوگوں کو تم دیکھو گے کہ اہل و اولاد سے میل جول ان پر اس قدر غالب و حاوی ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کو بھی فراموش کر دیتے ہیں۔ لیکن انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام دونوں مصلحتوں کی رعایت کا حکم دیتے ہیں، اور یہ کہ مصلحتوں کو جہاں تک ممکن ہو جمع کیا جائے۔ اس لیے سماحت کے نوامیس آپس میں ملے جلے ہوں گے۔ معاملہ حسنِ خلق سے تعلق رکھتا ہے اور یہ مجموعہ ہے سماحت اور عدالت کا کیونکہ یہ مشتمل ہے جود پر، اور جو ظلم و زیادتی کرتا ہے اس کو معاف کرنے پر، اور تواضع پر، اور حسد و حقد اور غضب کو ترک کرنے پر۔ اور یہ سب سماحت کے باب میں داخل ہیں۔ اور لوگوں کے ساتھ مودت، صلہ رحمی، حسنِ صحبت اور محتاجوں کے ساتھ ہمدردی و مواسات، یہ عدالت کے باب سے تعلق رکھتے ہیں۔

اور آفاتِ لسان سب مخل بالاخبات و سماحت اور عدالت ہیں، کیونکہ اکثار فی الکلام یعنی زیادہ بولنا اللہ تعالیٰ کے ذکر کو فراموش کراتا ہے، اور غیبت و بدگوئی آپس کے تعلقات کو بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں، اور قلب بھی زبان کے کلام سے رنگین ہوتا ہے، غصہ کے کلمہ سے قلب بھی غضبناک ہوتا ہے، اور غیبت، جدال اور مراء (جھگڑا) وغیرہ لوگوں کے درمیان فتنے برپا کرتے ہیں۔ اور ہر قسم کا کلام کرنا اور ہر وادی میں گھس جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب ایسا آدمی توجہ الی اللہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں حلاوت نہیں پاتا۔ اگر سب و شتم کرتا ہو یا عورتوں کے محاسن کا ذکر کرتا ہو تو اس کے نفس پر شہوانی اور سبعی (درندوں جیسے خیالات کا) نقش چھا جائے گا۔ اور اگر ایسا کلام کرے گا مثلاً‌ کسی بادشاہ کو ملک الملوک کہے تو اس سے اللہ کے جلال کو فراموش کر دے گا، اور اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ ہے اس سے غفلت پیدا ہو گی۔ اور اگر ایسی چیز زبان پر لائے گا جو مصالحۂ ملت کے خلاف ہو مثلاً‌ ملت نے جس چیز کو ترک کرنے کا حکم دیا ہے اس کی ترغیب دینے لگ جائے مثلاً‌ شراب کی مدح کرے یا عنب (انگور) کو کرم کہنے لگے، یا اللہ کی کتاب کو عجمی بنائے جیسا مغرب کو عشاء اور عشاء کا عتمہ کہے، یا قبیح اور شنیع کلام کرے جیسا کہ شیطانی شنیع افعال کا ذکر، یا فحش باتیں اور جماع کا ذکر، یا اعضاء مستورہ کا ذکر، یا شگون وغیرہ کے الفاظ، یہ سب ملت کی مصلحت کے خلاف ہیں۔

ویسے بھی انسانی فطرت ہے کہ انسان جب کوئی اخلاق حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے مطابق افعال و ہیئات پر اپنے آپ کو کاربند بناتا ہے اگرچہ وہ معمولی بات ہو۔ مثلاً‌ شجاعت کا خلق حاصل کرنے والا گارے میں گھسنے اور سورج کی دھوپ اور رات کے اندھیرے میں چلنے سے گریز نہیں کرے گا۔

سماحت کے مواقع

شریعت میں سماحت کے مظان و مواقع ہیں اور جن کو سماحت نہیں بتایا ان میں امتیاز کرنا بھی ضروری ہے۔

زُہد

انسان کا نفس طعام کی طرف حرص رکھتا ہے اور اسی طرح لباس اور عورتوں کا اشتیاق بھی رکھتا ہے،  جب تک ان کو حاصل نہ کرے اس کو قرار نہیں آتا۔ اور اس سے اس کے نفس کے جوہر میں ایک فاسد رنگ پیدا ہو جاتا ہے،جب انسان اس رنگ کو اپنے نفس سے پھینک دے تو اس کو ’’زہد‘‘ کہتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ

’’حلال کو حرام بنانے سے یا مال کو ضائع کرنے سے زہد حاصل نہیں ہوتا، بلکہ زہد یہ ہے کہ تمہارے پاس جو چیز ہے اس پر تمہیں زیادہ اعتماد و بھروسہ نہ ہو، اس چیز کے مقابلے میں جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اور مصیبت کے وقت اس کے ثواب میں زیادہ راغب ہو، بہ نسبت اس کے کہ اس مصیبت کو تم سے اٹھا دیا جائے۔‘‘

اور اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ

’’ابن آدم کے لیے ان خصلتوں (بنیادی حقوق) کے علاوہ حق نہیں ہے، اور وہ خصلتیں یہ ہیں: ایک مکان جس میں انسان سکونت اختیار کر سکے، دوسرا کپڑا جس سے ستر پوشی کر سکے، تیسری جیسی کیسی بھی ہو روٹی میسر ہو، چوتھی پانی۔ (یہ بنیادی حق ہیں جو ہر انسان کو ملنے چاہئیں، ان چار حقوق کے علاوہ دو حق صحت اور تعلیم بھی ہیں جن کا ذکر قرآن و سنت میں موجود ہے۔)‘‘

اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ

’’ابن آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پشت کو سیدھا رکھ سکیں۔‘‘

اور یہ بھی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے کہ

’’دو آدمیوں کا کھانا تین کے لیے اور تین کا چار کے لیے کفایت کرتا ہے۔‘‘

یعنی دو آدمیوں کا کھانا اگر کفایت کے طریق پر تقسیم کر دیا جائے۔ یہ مواسات کی ترغیب اور حرص کی ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔

قناعت

مال کی حرص بسا اوقات نفس پر غالب ہوتی ہے اور اس کے جوہر میں داخل ہو جاتی ہے۔ جب انسان اپنے آپ سے اس حرص کو دور کرتا ہے اور اس پر اس کا ترک آسان ہو جاتا ہے تو یہ قناعت ہے۔ قناعت کا مفہوم نہیں کہ جو چیز بغیر طمع کے اللہ تعالیٰ عطا فرمائے اس کو بھی چھوڑ دے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ

’’ غنیٰ (دولت مندی اور غنی ہونا) سامان کی زیادتی سے نہیں ہوتی بلکہ غنی نفس کا غنی ہے کہ انسان کا نفس اور دل مستغنی ہو۔‘‘

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حکیمؓ سے فرمایا کہ

’’اے حکیمؓ! یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے۔ جو شخص اس کا نفس کی سخاوت (فیاضی) سے لے گا اس کو برکت دی جائے گی۔ اور جو حرص سے لے گا اس کو برکت نہیں دی جائے گی، اور وہ ایسا ہو گا جو کھاتا ہے (جوع البقر یا جوع الکلب کی وجہ سے) اور اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اور دینے والا ہاتھ لینے والے سے بہتر ہوتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب تمہارے پاس یہ مال بغیر طمع اور لالچ کے آجائے تو اس کو لے لو اور اپنے نفس کو اس کی طمع میں مت لگاؤ۔‘‘

جود 

سخاوت و بخشش۔ مال کی محبت انسان کے لیے ایک فطری امر بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’وانہ لحب الخیر لشدید‘‘ کہ انسان مال کی محبت میں بڑا پکا ہے۔ انسان مال کو اپنے پاس رکھنے اور اس کو روکنے کی محبت رکھتا ہے۔ اور یہ محبت بسا اوقات اس کے قلب پر غالب آتی ہے اور اس کا احاطہ کر لیتی ہے۔ ہر طرف سے جب انسان اس مال کے صَرف و خرچ کرنے پر قادر ہو اور اس کی پروا نہ رکھے تو یہ ’’جود‘‘ ہے۔ جود یہ نہیں کہ مال کو بلاوجہ اور بے محل ضائع کر دے۔ مال بذاتہ کوئی مبغوض چیز نہیں، یہ تو ایک نعمت کبیرہ ہے۔ 

اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بخل اور کنجوسی سے بچو۔ اس بخل نے تم سے پہلے لوگوں کو خونریزی پر آمادہ کیا اور انہوں نے حرام چیزوں کو حلال خیال کیا۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قابلِ رشک دو آدمیوں کا حال ہے۔ ایک علم والا جس کو پڑھاتا اور پھیلاتا ہے، اور دوسرا مال جس کو خرچ کرتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرض کیا گیا کہ حضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام! کیا خیر بھی شر کو لاتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خیر تو شر کو نہیں لاتا لیکن جو چیز موسم ربیع میں پیدا ہوتی ہے (گھاس، سبزہ، چارہ وغیرہ) اور جانور اس کو حرص سے کھاتے ہیں تو وہ مہلک ہوتا ہے۔ یعنی جس کو تم خالص خیر خیال کرتے ہو اس میں دوسرا پہلو بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔

اور حضور علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ

’’جس کے پاس زائد سواری موجود ہو، وہ اس شخص کو دے دے جس کے پاس سواری موجود نہیں، اور جس کے پاس اپنی ضرورت سے زائد توشہ موجود ہو، وہ اس کو دے دے جس کے پاس توشہ نہیں۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی مختلف قسموں کا ذکر فرمایا ، یہاں تک کہ ہم نے یہ خیال کیا کہ ہم میں سے زائد چیز میں کسی کا حق ہی نہیں۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب اس لیے دی ہے کہ لوگ جہاد میں مصروف تھے اور مسلمانوں کی جماعت کو اس کی ضرورت تھی۔ اس میں ایک طرف سماحت ہے اور دوسری طرف نظامِ ملت کو قائم کرنا اور مسلمانوں کی جانوں کو بچانا مقصود ہے۔ سماحت کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنی ضروریات کو مؤخر کر دیا جائے۔ چنانچہ عربی زبان کا ایک شاعر مقنع کندی کہتا ہے؎

لیس العطاء من الفضول سماحة 
حتی تجود و مالدیک قلیل
’’ایسا عطیہ سماحت نہیں کہ انسان زائد مال میں سے دے۔ سماحت تب ہو گی کہ تم سخاوت کرو یہاں تک کہ تمہارے پاس قلیل بھی نہ رہے۔‘‘

قصرِ امل 

(آرزو کو مختصر کرنا)۔ انسان پر زندگی کی محبت غالب ہوتی ہے اور وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور دراز زندگی کا خواہشمند ہوتا ہے جس کو پا نہیں سکتا۔ اگر ایسی حالت میں ہی انسان مر جائے تو اس کو عذاب ہو گا کہ اس کا میلان و اشتیاق اس چیز کی طرف تھا جس کو پا نہیں سکا۔ یہ مزید باعثِ کلفت ہو گا۔ ورنہ عمر تو بنفسہ کوئی مبغوض چیز نہیں بلکہ نعمتِ عظیم ہے۔ آرزو کو مختصر کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وجہ سے یہ فرمایا ہے کہ

’’دنیا میں اس طرح رہو جیسا مسافر ہوتا ہے، یا راستے پر گزرنے والا۔‘‘

اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

’’لذتوں کو ختم کر دینے والی چیز کو یاد کیا کرو یعنی موت کو۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اپنے ہمعصروں کی موت سے عبرت پکڑو۔ اور فرمایا کہ کوئی شخص بھی اپنی موت کی تمنا نہ کرے اور نہ موت کے لیے دعا کرے، کیونکہ جب انسان مر جاتا ہے تو تمام اعمال انسان کے منقطع ہو جاتے ہیں۔‘‘

تواضع

انکساری یہ ہے کہ انسان کا نفس تکبر او رخودپسندی کے داعیہ کا اتباع نہ کرے اور لوگوں کو حقیر نہ جانے کیونکہ لوگوں پر زیادتی و ظلم اور ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا یہ انسان کے نفس کو بگاڑنے والی بات ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہو تو وہ بہشت میں نہ جائے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، انسان پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو، جوتا اچھا ہو، تو کیا یہ تکبر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے، یہ تکبر نہیں۔ تکبر لوگوں کو ٹھکرانے اور لوگوں کو حقیر جاننے سے ہوتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں اہلِ نار یعنی دوزخی نہ بتلاؤں۔ ہر اکڑنے والا، اکھڑ مزاج، مغرور آدمی اہل النار ہو گا۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

’’ ایک شخص تم سے پہلی امتوں میں سے تھا جو زمین پر اکڑ کر چلتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو زمین میں دھنسا دیا۔ بس وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔‘‘

حلم

بردباری، حوصلہ، آہستگی اور نرمی۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ انسان داعیہ غضب کے تابع نہ ہو۔ حتیٰ کہ وہ غوروفکر سے کام لے اور مصلحت کو دیکھے۔ غضب کے تمام مواقع مدفوع نہیں۔ 

اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’جو شخص رفق (نرمی) سے محروم ہوا وہ ہر قسم کی خیر سے محروم ہو گا۔ ایک شخص نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ نصیحت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غصہ مت کرو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بار بار فرمائی۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں بتلاؤں کہ آگ پر کون لوگ حرام ہیں۔ ہر حلیم الطبع نرم اخلاق انسان آگ پر حرام ہے۔ اور آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلوان وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے، پہلوان تو درحقیقت وہ ہے جو غصے کے وقت نفس پر قابو رکھتا ہو۔

صبر

نفس آرام طلبی، جزع فزع، شہوت، اترانے، راز کو ظاہر کرنے، اور موت کو ختم کرنے کے داعیہ کے تابع نہ ہو۔ یہ صبر ہے۔  

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر ملے گا۔

اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کو صبر سے زیادہ افضل عطیہ اور اس سے زیادہ وسیع کوئی چیز نہیں ملی۔ 

(۴) عدالت 

(عدل)۔ انسانیت کے بنیادی اخلاق میں سے ایک خلق اور خصلت ہے۔ قرآن و سنت میں اس کی اہمیت و ضرورت، ترغیب اور اس کی تحصیل کے ذرائع اور اس کے فضائل و مناقب بکثرت مذکور ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

ان اللہ یامر بالعدل (نحل)
’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل کرنے کاحکم دیتا ہے۔‘‘
وامرت لاعدل بینکم (شوریٰ)
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آپؐ لوگوں سے کہہ دیں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل قائم کروں۔‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل (نساء)
’’کہ جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

فاصلحوا بینھما بالعدل واقسطوا ان اللہ یحب المقسطین (حجرات)
’’دو مخالف گروہوں کے درمیان اگر صلح کرانے کی نوبت آئے تو ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ صلح کراؤ، بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول قروبِ قیامت میں عدل کے قائم کرنے کے لیے ہو گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریب ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام تمہارے درمیان حاکم بن کر فیصلہ کرنے والے اور عدل و انصاف قائم کرنے والے بن کر اتریں گے۔ اور ظہورِ امام مہدی کی غرض بھی حضور علیہ السلام نے یہی بیان فرمائی ہے جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے کہ وہ ظاہر ہو کر زمین کو عدل وا نصاف سے پُر کریں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے پُر ہو گی۔

امام ابوبکر جصاصؒ نے احکام القرآن میں ’’ان اللہ یامر بالعدل والاحسان‘‘ آیت کے تحت لکھا ہے کہ عدل، جو انصاف کا نام ہے، یہ عقل کی نگاہ میں بھی واجب ہے۔ احکامِ شرع کے وارد ہونے سے قبل بھی شریعت نے آکر اس کی تائید کا حکم دیا ہے۔ اور احسان اس مقام میں تفصیل یعنی زیادتی اور زائد چیزوں کا دینا ہے اور یہ مستحب ہے، لیکن پہلا حکم یعنی عدل کرنا فرض ہے۔ ’’ایتآء ذی القربیٰ‘‘ میں صلہ رحمی کی تعلیم ہے اور ’’یامر بالعدل‘‘ میں عدل مشتمل ہے۔ قول اور فعل دونوں پر ’’واذا قلتم فاعدلوا‘‘ میں عدل فی القوم کا حکم دیا گیا۔ 

امام ولی اللہؒ نے بھی حجۃ البالغہ میں لکھا ہے:

ان من اعظم المقاصد التی قصدت بعثہ الانبیاء علیہم السلام دفع المظالم من بین الناس۔
’’انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے بڑے مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ لوگوں پر سے ظلم کو دور کیا جائے اور انہیں عدل و انصاف دلایا جائے۔‘‘

خود امام ولی اللہؒ نے حجۃ البالغہ میں دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ معاملات اور لین دین کے بارہ میں احکام اور اسی طرح نکاح وغیرہ کے متعلق احکامِ شریعت میں اس لیے مشروع قرار دیے ہیں تاکہ لوگوں میں عدل قائم کیا جائے۔

حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ایمان کے چار ستون ہیں: یقین، صبر، عدل اور جہاد۔ درحقیقت ارض و سما نظام بھی عدل و انصاف پر قائم ہیں، اور حکومتیں بھی دنیا میں عدل کی وجہ سے قائم رہتی ہیں۔ جب ظلم و جور شروع ہوتا ہے تو یکسر تباہی، اِدبار اور زوال آتا ہے۔ 

امام ولی اللہؒ نے جس طرح اس خصلت عدالت پر کلام کیا ہے اور اس کی تشریح و تفصیل جس طرح بیان کی ہے یہ ان کا خاص حصہ ہے اور ان کی حکمت کا خاص باب ہے۔ چنانچہ حکیم الامت امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ عدالت ان چار اہم اخلاق میں ایک ایسی خصلت ہے کہ جس پر عادلانہ نظام کا قیام اور کل سیاست (اجتماعی عمومی سیاست کا بہتر طریق پر قیام) موقوف ہے۔ 

اس خصلت کے بہت سے شعبے ہیں، مثلاً‌:

ادب

اگر آدمی مسلسل اپنی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھے، اور ہر موقع اور محل کے اعتبار سے اچھی وضع اختیار کرے، اور ہر حادثہ میں اس چیز کے اختیار کرنے کی طرف راہ پائے جو بہتر ہے، اور ہمیشہ اس کے اختیار کرنے کی طرف اس کے دل کا میلان اور جذب ہوتا رہے تو اس کو ادب کہتے ہیں۔

کفایت

اگر انسان اپنی کارسازی، جمع و خرچ، خرید و فروخت اور تمام معاملات میں اچھی تدبیر قائم کر لے تو اس کو کفایت کہتے ہیں۔

حریت

جس کی وجہ سے تدبیر منزل اچھے طریقے پر قائم کرے، اس کو حریت کہتے ہیں۔

سیاست مدینہ

اور جس کی وجہ سے ملک اور لشکر وغیرہ کی تدبیر اچھی طرح کر سکے اس کو سیاستِ مدینہ کہتے ہیں (یعنی ملک اور شہر کی بہتر سیاست)۔

حسن معاشرت

جس کی وجہ سے اپنے بھائی بندوں کے ساتھ اچھی وضع سے زندگی بسر کر سکے، اور ہر ایک کا حق ادا کرے، اور ہر ایک کے ساتھ حسبِ حال الفت و بشاشت کے ساتھ پیش آئے، اس کو حسنِ معاشرت کہتے ہیں۔

حاصل یہ ہے کہ ان سب خصائل کی اصل ایک ہے اور وہ یہ کہ نفسِ ناطقہ اس طرح واقعہ ہو کہ اچھا نظام اختیار کرے اور اس نظام کی صدور کی طرف آگے بڑھے۔ جس شخص میں یہ خصلت (عدالت) پوری طرح متحقق ہو گی اس کے درمیان اور حق تعالیٰ کی جود اور فیضان کے وسائط (ملاء اعلیٰ کے فرشتے اور مقربین) جن کی فطرت میں عادلانہ نظام قائم کرنا رکھا ہوا ہے، اور جن کی قوی درجہ کی ہمت و توجہ عادلانہ نظام کے استحسان کی طرف ہوتی ہے، ان کے درمیان اور اس شخص کے درمیان بلیغ مناسبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اس جماعت (ملاء اعلیٰ) کے دل سے اس شخص کی طرف نورانی دقائق (نہایت ہی لطیف قسم کی شعاعیں) جیسا کہ سورج کی شعاعیں ہوتی ہیں، میلان کرتی ہیں۔ اور اس شخص کے حق میں یہ دقائق بہت سی نعمت اور خاصیت کا پیش خیمہ بنتی ہیں۔ اور اس نعمت و خاصیت اور انس کا تمثل استعداد کے مناسب مختلف صورتوں میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ کوئی شخص تو اچھے ساتھیوں اور بھائیوں کی حسنِ معاشرت کی صورت میں دیکھتا ہے، اور کوئی عمدہ خوشگوار طعام کی شکل میں، یا عمدہ لباس، روشن اور خوبصورت مکان کی شکل میں، یا اچھی مرغوب بیوی کی شکل میں دیکھتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس اس کی اشکال و صورتیں طرح طرح کی ہوں گی۔

لیکن جو شخص عادلانہ نظام کے قیام کا مخالف ہوتا ہے اور شریعت کے حکم کا انکار کرتا ہے اور ایسے اعمال و افعال کرتا رہتا ہے جس سے جمہور امام یعنی عوام الناس تکلیف و ایذا پاتے ہیں، تو اس کے درمیان اور ان وسائطِ جودِ الٰہی کے درمیان نفرت اور وحشت ظاہر ہوتی ہے، اور دقائق ظلمانیہ (تاریک شعاعیں) ان کی طرف سے اس شخص کی طرف میلان کرتی ہیں، اور اس شخص پر ہر طرف سے تنگی و ضیق ہجوم کرتی ہے۔ اس صفت عدالت کے اکتساب کے لیے شریعت نے عیادتِ مریض (بیمار پرسی)، سلام کرنا، حدود اور آداب کی رعایت لازم قرار دی ہے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ صفت عدالت (عدل) اجتماعیات میں نہایت ضروری ہے۔ سب لوگ اس کو جانتے ہیں کیونکہ انسان بالطبع اجتماعیت پسند واقع ہوا ہے، اور انسان اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ کوئی اجتماع بھی بغیر عدل کے قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ عدالت انسانیت کے مساوی اور اس کے ساتھ لازم ہے۔ ہر شخص، خاندان، گھرانہ، قبیلہ اور امت جب تک عدل کے ایک معتد بہ اور اچھے خاصے حصہ سے نہ اختیار کرے اور اس سے اچھی طرح دلچسپی نہ لے وہ انسانیت کے اعتبار سے کسی قابل نہیں۔ 

امام ولی اللہؒ کی حکمت میں عدالت کی صفت کا مرتبہ تینوں سابقہ مذکورہ اخلاق کے اوپر مرتب ہوتا ہے۔ اگر انسان طہارت اور سماحت کی صفت سے موصوف ہو لیکن اس میں عدالت کی صفت موجود نہ ہو تو ان سابقہ خصلتوں کا کچھ بھی وزن اور اعتبار نہ ہو گا، اور ایسے شخص کا دین میں ذرہ بھر بھی کوئی اعتماد اور حصہ نہ ہو گا۔ اگرچہ یہ بات ۔۔ ہے یا محال ہے کیونکہ جو شخص بھی طہارت، اخبات اور سماحت سے متصف ہو گا لامحالہ وہ صفتِ عدالت سے بھی متصف ہو گا۔

امام ولی اللہؒ مامورات میں ان چاروں اخلاق کو اور منہیات میں ان کی اضداد کو تمام دین کا مرجع قرار دیتے ہیں۔ ان خصلتوں کے ساتھ اگر تعظیم شعائر اللہ کی صفت کو بھی ملا لیا جائے تو امام ولی اللہؒ اس کو دین کا خلاصہ بتاتے ہیں جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے۔ 

حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں کہ عدالت (عدل) ایک ایسا ملکہ ہے انسان کے نفس میں جس کی وجہ سے ایسے افعال آسانی سے سرزد ہوتے ہیں جن پر اجتماعی نظام، نظامِ ملک اور نظامِ مدینہ قائم ہوتا ہے۔ اور اس صفت کی وجہ سے نفس اس طرح ہوتا ہے کہ ان افعال کے سرانجام دینے پر گویا فطرتاً‌ مجبور ہو۔  اور اس میں راز یہ ہے کہ ملائکہ اور نفوسِ مجردہ، جو مادی اور جسمانی تعلقات سے مجرد ہوتے ہیں، جہان کو پیدا کرنے کا یا نظام کی اصلاح وغیرہ کا، تو ان نفوسِ مجردہ کی مرضیات  اس ارادۂ الٰہی کے مطابق ہو جاتی ہیں، یہ مجرد طبیعت کا خاصہ ہے۔ 

جب یہ نفوس جسم سے جدا ہوتے ہیں تو صفتِ عدالت کا کوئی حصہ اگر ان میں موجود ہو تو وہ نفوس پوری طرح خوش ہوتے ہیں اور اس لذت کی طرف راہ پاتے ہیں (یعنی لذت) جو غسیس لذت سے بالکل الگ اور جدا نوعیت کی ہوتی ہے۔ اور اگر نفوس جسم سے ایسی حالت میں جدا ہوں جب کہ ان میں اس صفتِ عدالت کی ضد موجود ہو تو ان نفوس کا حال بہت تنگ ہو گا اور یہ وحشت ناک ہوں گے اور نہایت درجہ کا درد اور دکھ اپنے اندر پائیں گے۔

جب سے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں دین کی اقامت کے لیے، اور لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لانے کے لیے، اور اس لیے کہ لوگ عدل قائم کریں، انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام مبعوث فرمائے ہیں، پس جو شخص اس نور کی اشاعت کے لیے کوشش کرتا ہے اور لوگوں میں اس کے لیے راہ ہموار کرتا ہے تو ایسا  شخص مرحوم ہوتا ہے، اس پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ اور جو شخص اس کو رد کرنے کے لیے کوشش کرتا ہے اور اس کو بے قدر کرنے اور مٹانے کی کوشش کرتا ہے تو ایسا شخص ملعون ہوتا ہے اور مردود ہوتا ہے۔

اور جب عدالت کی صفت انسان میں راسخ ہو جاتی ہے تو اس شخص کے درمیان اور حاملینِ عرش اور بارگاہِ الٰہی کے مقربین، جو ملائکہ ہیں اور جود و برکات کے نزول کے وسائط ہیں، کے درمیان ایک ایسا دروازہ کھل جاتا ہے جو ان مقربین کے الوان (رنگ) کے نزول کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اور نفس اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس پر ملائکہ کا الہام نازل ہو سکے اور اس الہام کے مطابق اٹھ کر کام کر نے کے قابل بن جاتا ہے۔ امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں: اس صفتِ عدالت کے اسباب سنتِ راشدہ کی حفاظت کو قرار دیا گیا، اس کی پوری تفصیل کے ساتھ۔ عدالت ایک ایسا ملکہ ہے جس سے نظامِ عادل، مصلح، تدبیرِ منزل اور سیاستِ مدینہ وغیرہ سہولت سے صادر ہوتے ہیں۔ اور اس کی اصل نفسانی جبلت ہے جس سے افکار کلیہ اور ایسی سیاست جو اللہ کے نزدیک اور ملائکہ کے نزدیک مناسب ہوتی ہے، صادر ہوتی ہے۔  کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے جہان میں لوگوں کے نظام کے انتظام کا ارادہ فرمایا، اور یہ ارادہ فرمایا کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں اور ایک دوسرے سے الفت رکھیں اور جسدِ واحد کی طرح ہو جائیں، جب ایک عضو دکھ درد میں مبتلا ہو تو تمام جسم میں بخار، بے چینی، بیداری، بے خوابی تمام اعضاء جسم میں پیدا ہو جائے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارادہ فرمایا کہ انسان کی نسل (نوع انسانی) زیادہ ہو، پھلے پھولے، اور یہ کہ فاجر آدمی کو ڈانٹ ڈپٹ پلائی جائے اور عادل آدمی کی تعظیم و تکریم کی جائے، اور رسومِ فاسد کو مٹایا جائے اور خیر کی تشہیر کی جائے اور قوانینِ حقہ کو ان میں پھیلایا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے بارہ میں یہ اجمالی فیصلہ فرمایا ہے اور یہ باتیں اس کی شرح اور تفصیل ہیں۔ ملائکہ مقربین اس بات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاتے ہیں اور پھر وہ دعا کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں،  اور لعنت بھیجتے ہیں ان پر جو لوگوں میں فساد و بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

’’اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے اعمال کیے کہ وہ ان کو زمین میں خلافت بخشے گا، جیسا کہ اس نے پہلے لوگوں کو خلافت بخشی تھی، اور اللہ تعالیٰ ان کے لیے دین کو مضبوط کر دے گا جس دین کو اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے، اور ان کے لیے خوف کے بعد امن پیدا کر دے گا، وہ میری ہی عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے، جس نے ان کے بعد ناشکرگزاری کی تو ایسے لوگ نافرمان ہوں گے۔‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

’’اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے عہد و پیمان کو پورا کرتے ہیں اور پختہ عہد کو توڑتے نہیں، اور جو اس چیز کو ملاتے اور جوڑتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے ملانے اور جوڑنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے برخلاف جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد و پیمان کو مضبوط کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور جس چیز کے جوڑنے کا حکم دیا گیا ہے اس کو توڑتے ہیں، یہ ان کی ضد ہیں۔‘‘

پس جو شخص اعمالِ مصلحہ کا انجام دیکھنے والا ہو گا اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو گی اور فرشتوں کی دعائیں اس کے شاملِ حال ہوں گی۔ جہاں سے اس کو وہم و گمان بھی نہ ہو گا اور وہاں سے اس پر دقیق دقائق (خاص قسم کی نورانی شعائیں) نازل ہوں گی، جیسا کہ سورج یا چاند کی لطیف شعائیں ہوتی ہیں، اس کا احاطہ کریں گی، تو ان کی وجہ سے ملائکہ اور لوگوں کے قلوب میں الہام نازل ہوتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور ایسے لوگوں کی ارض و سماء میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ اور جب ایسا شخص عالمِ تجرد کی طرف منتقل ہوتا ہے تو ان دقائق (نورانی شعاعوں) کو، جو اس عالم میں اس کے ساتھ مدخیل ہوتی ہیں، محسوس کرتا ہے اور ان سے لطف اندوز ہوتا ہے، اور اس کی وجہ سے وسعت و کشادگی اور مقبولیت پاتا ہے، اور اس کے درمیان اور ملائکہ کے درمیان ایک دروازہ کھل جاتا ہے۔ 

اس کے برخلاف جو شخص اعمالِ مفسدہ انجام دیتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور ملائکہ کی لعنت برستی ہے۔ اور یہاں پر ایسے تاریک دقائق (ظلماتی شعاعیں) اس غضب سے اٹھ کر اس شخص کا احاطہ کرتی ہیں، یہ سبب بنتی ہیں ملائکہ اور انسان کے قلوب میں الہام کا کہ اس شخص کے ساتھ وہ برا سلوک کریں، اور اس کے لیے زمین و آسمان میں نفرت رکھ دی جاتی ہے۔ اور جب یہ عالمِ تجرد کی طرف منتقل ہوتا ہے تو ان دقائق کو محسوس کرتا ہے کہ ان کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں، اس کا نفس اس کی وجہ سے تکلیف اور دکھ پاتا ہے، تنگی اور نفرت اس کا ہر طرف سے احاطہ کرتی ہے، اس پر زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہو جاتی ہے۔

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ عدالت (عدل) کا اعتبار جب انسان کے مختلف اوضاع اطوار کے ساتھ کیا جاتا ہے، مثلاً‌ قیام، قعود، نیند، بیداری، چلنا پھرنا، کلام، لباس، فیشن اور زینت وغیرہ، تو اس کو ادب کہتے ہیں۔ اور جب اس کا اعتبار اموال کے جمع و خرچ کے اعتبار سے کیا جاتا ہے تو اس کو کفایت (شعاری) کہتے ہیں۔

اور جب اس کا اعتبار تدبرِ منزل کے اعتبار سے کیا جاتا ہے تو اس کو حریت کہتے ہیں۔ اور جب اس کا اعتبار تدبیرِ مدینہ (شہر اور ملک کی تدبیر) کے اعتبار سے کیا جاتا ہے تو اس کو سیاست کہتے ہیں۔ اور جب اس کا اعتبار اپنے اخوان و احباب کی تالیف کے اعتبار سے کیا جاتا ہے تو اس کو حسن المحاضرہ یا حسن المعاشرہ کہتے ہیں۔

اور اس صفتِ عدالت کو حاصل کرنے کے لیے عمدہ تدابیر یہ ہیں: رحمت و مودت، رقۃ القلب (قسوت قلب کا نہ ہونا)، افکار کلیہ کا انقیاد، اور امور کے عواقب و انجام پر نظر رکھنا ہے۔ عدالت کی مشق کرنے والا اپنے اوپر ہر چیز کا حق خیال کرتا ہے۔ مثلاً‌ دائیں ہاتھ کو کھانے اور اچھے کاموں کے لیے استعمال کرے گا، اور بائیں ہاتھ کو ازالہ نجاست کے لیے اور حقیر کاموں کے لیے۔ بعض کام ملائکہ کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں اور بعض کام ایسے ہیں جو شیاطین کے ساتھ مناسبت ہیں۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے، اور مقطوع الاعضا انسان (بد وضعی میں) شیطان جیسا ہے۔ اور فرمایا کہ تم اپنی صفیں ملائکہ کی طرح کیوں نہیں بناتے۔

مواقع عدالت

امام ولی اللہؒ نے کچھ جزئیات بیان کیے ہیں اور احادیث سے کچھ مثالیں ذکر کی ہیں جن سے عدالت کے مواقع پر روشنی پڑتی ہے۔ لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عدالت کے بڑے بڑے ابواب پر تنبیہ فرمائی ہے اور اس کے مواقع بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر رحم کرنے کے محاسن بیان فرمائے ہیں اور اس کی ترغیب دی ہے اور اس کی مختلف قسمیں ذکر فرمائی ہیں۔ مثلاً‌ اہلِ منزل کی آپس میں محبت اور الفت، اور قبیلہ والوں اور اہلِ شہر اہلِ ملک کے ساتھ حسنِ معاشرت، اور عظماء ملت کی تعظیم و توقیر، اور ہر ایک کو اس کے مرتبہ پر اتارنے کا حکم وغیرہ۔ 

چند احادیث جو عدالت کے باب سے تعلق رکھتی ہیں انہیں ذکر کیا ہے۔ مثلاً‌ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن کئی کئی ظلمتیں بن کر سامنے آئے گا۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے خون، مال اور آبرو کو اس طرح محترم قرار دیا ہے کہ جس طرح تمہارا یہ حجۃ الوداع یا عرفہ کا دن تمہارے اس شہر مکہ میں محترم ہے۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور فرمایا بخدا جو شخص کسی کا حق ناحق دبا لے گا تو قیامت کے دن اسی کو اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے ہو گا۔ اگر اونٹ ہے تو بڑبڑاتا ہوا آئے گا، اور گائے بیل ہیں تو وہ آواز کرتے ہوئے، اور بھیڑ بکریاں ہیں تو وہ بولتی ہوئی اس کی گردن پر سوار ہوں گی۔ اور جس نے ایک بالشت بھر زمین کسی کی دبا لی تو وہ قیامت کے دن سات زمینوں کو اتنی مقدار میں اس کی گردن میں ڈال دیا جائے گا اور اس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایسا ہے جیسا کہ دیوار کی اینٹیں ایک دوسرے کے لیے مضبوطی کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ اور مسلمانوں کی مثال آپس میں مودت و رحمت اور مہربانی کے لحاظ سے جسمِ واحد کی طرح ہے، جب جسم کا ایک حصہ درد و تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے مثلاً‌ تو سارے جسم میں تکلیف ہوتی ہے، بخاری اور بیداری لاحق ہوتی ہے۔

 اور فرمایا، جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اس پر اللہ تعالیٰ بھی رحم نہیں کرتا۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کر سکتا ہے اور نہ اس پر ظلم برداشت کر سکتا ہے۔ او رفرمایا  کہ جو شخص اپنے کسی بھائی کی ضرورت کے پورا کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کو پورا کرتا ہے۔ اور جو کسی مسلمان سے تکلیف کو دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی پریشانیوں کو قیامت کے دن دور فرمائیں گے۔ اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی قیامت کے دن فرمائیں گے۔ تم سفارش کرو تم کو اجر ملے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے فیصلہ کرتا ہے جس بات کو پسند فرماتا ہے۔ 

اور فرمایا کہ دو انسانوں کے درمیان انصاف کرو یہ بھی صدقہ ہے۔ اور کسی آدمی کو سواری پر سوار کرنے میں مدد دو یہ بھی صدقہ ہے۔ اور پاکیزہ کلمہ منہ سے نکالنا یہ بھی صدقہ ہے۔ کسی کا سامان اٹھا کر اس کے ہاتھ میں پکڑا دو، یہ بھی صدقہ ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ جو شخص یتامیٰ اور بیواؤں اور مساکین کے لیے ان کی ضروریات اور حوائج پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہوتا ہے۔ اور فرمایا کہ جو شخص ان بیٹیوں کے ساتھ مبتلا کیا گیا اور اس نے ان کے ساتھ احسان کیا تو وہ بیٹیاں اس کے لیے دوزخ کی آگ کے سامنے ستر بن جائیں گی۔ اور یہ بھی فرمایا کہ تم لوگوں کو عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی وصیت (تاکید) کی جاتی ہے۔ عورتوں میں فطرتاً‌ کجی ہوتی ہے تو اس کو سیدھا کرنا چاہو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی۔ اور فرمایا کہ جبرائیلؑ برابر مجھے پڑوسیوں کے بارے میں تاکید کرتے رہے حتیٰ کہ میں نے گمان کیا کہ شاید وہ پڑوسی کو وراث بنانا چاہتے ہیں۔ اور آپ علیہ السلام نے فرمایا، اے ابو ذرؓ! جب تم شوربا بناؤ تو پانی زیادہ ڈالو اور پڑوسی کا خیال رکھو۔ اور فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ پڑوسی کو ایذا نہ پہنچائے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کا ادب نہیں کرتا۔ اور فرمایا کہ لوگوں کو ان کے مرتبہ پر اتارو۔ اور یہ بھی ارشاد ہوا کہ جو شخص بیمار کی مزاج پرسی کرے گا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرے گا اور جنت میں جگہ بنائے گا۔ 

یہ چند مثالیں ہیں جن میں عدالت کے مواقع اور مظان کا ذکر کیا ہے۔

امام ولی اللہؒ حجۃ البالغہ میں لکھتے ہیں کہ یہ چار خصلتیں ایسی ہیں کہ تم ان کی حقیقت کو اچھی طرح چھان بین کر لو گے اورا س بات کو جان لو گے کہ یہ اخلاق کس طرح کمال علمی اور عملی کا اقتضا کرتے ہیں، اور کس طرح یہ اخلاق ایک ایک انسان کو ملائکہ کے سلسلہ میں منسلک کرتے ہیں، اور تم نے یہ سمجھ لیا کہ کس طرح شرائعِ الٰہیہ ہر زمانہ میں ان اخلاقِ اربعہ سے پھوٹتے رہے ہیں، تو تم کو خیر کثیر دی گئی اور تم فی الواقع فقیہ فی الدین ہو گئے۔ ان میں سے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بہتری اور خیر کا ارادہ فرمایا ہے، اور ان اخلاق کے ساتھ تلبس اور تمسک اختیار کرنے سے انسان میں جو ایک مرکب حالت پیدا ہوتی ہے اس کو فطرت کہتے ہیں۔ اس فطری حالت کو حاصل کرنے کے کئی اسباب ہیں، بعض علمی اور بعض عملی۔ اور کچھ حجابات ہیں جو انسان کو اس فطری حالت سے روکتے ہیں، اور کچھ تدابیر ہیں جن سے ان حجابات کو توڑا جاتا ہے اور رفع کیا جاتا ہے۔ ان سب کی تفصیل امام ولی اللہؒ نے بیان فرمائی ہے۔

امام ولی اللہؒ اپنی کتاب الطاف القدس میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان چار خصلتوں پر متنبہ فرمایا ہے اور ان کی رعایت، نگرانی اور حفاظت کا حکم دیا ہے اور ان کی اضداد سے نہی فرمائی ہے۔ اگر تم اچھے طریقے پر غور کرو اور گہرائی سے اس کو معلوم کرنا چاہو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ نیکی (بر) تمام انواع و اقسام انہیں چار خصلتوں کی شرع اور تفصیل ہے، اور اثم (بدی) اور گناہ کے تمام اقسام ان کی اضداد کی تفصیل و تضریع ہے۔ 

تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام نے ان کی طرف دعوت دی ہے اور ان کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، اور ان کے منسوخ ہونے کی کوئی صورت نہیں اور ان میں تغیر و تبدل کی کوئی گنجائش نہیں۔ مختلف انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں کا اگر اختلاف ہے تو صرف ان کے اشکال و قوالب میں یعنی ظاہری سانچے اور شکل و صورت کا ہی اختلاف ہے ورنہ حقیقت اور مغز شارع علیہ السلام کی شریعت میں ایک ہی ہے۔ یہ صرف لباس کی تبدیلی ہے اور لباس کی تبدیلی سے صاحبِ لباس نہیں بدل جاتا۔

پس طہارت کی صفت سے ملائکہ کی مشابہت پیدا ہو جاتی ہے، اور خضوع کے ذریعہ ملاء اعلیٰ کی نقل و مشابہت پیدا ہو جاتی ہے، اور سماحت کے ذریعہ رذیل صفات انسان سے برطرف ہوتے ہیں، اور عدالت کے ذریعہ ملاء  اعلیٰ کی رضا اور ان کی موافقت حاصل ہوتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ان کی جانب سے راحت اور رحمت حاصل ہوتی ہے۔

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ شریعت کی تدبیر انسان کی رہنمائی کے لیے دونوں طرف سے متوجہ ہوتی ہے:  

ایک تو اصلاح کے ذریعہ اچھے اعمال کرنے سے، اور برے اعمال سے اجتناب کرنے سے جن کو کبائر کہتے ہیں، اور ملتِ حقہ کے شعائر  کو قائم کرنے سے۔ ان تینوں چیزوں کے وقت اور حد کا تعین کیا گیا ہے اور تمام مکلفین پر ان کی پابندی لازم قرار دی گئی ہے اور اسی کو ظاہرِ شریعت اور اسلام کہتے ہیں۔

اور دوسری بات نفوس کی تہذیب ہے ان اخلاقِ اربعہ کے ذریعہ۔ اور ان کی صورت یہ ہو گی کہ نیکی (بر) کی اشباہ و اشکال یعنی ظاہری شکل و صورت سے بڑھ کر ان کے انوار تک پہنچنے سے تہذیب حاصل ہو گی۔ اور اسی طرح اثم (گناہ) کی صورتوں سے بچنے کے ساتھ ان کے باطنی معانی اور مفاسد سے بچنے کے ساتھ جن کے متعلق نہی وارد ہوئی ہے، اور اسی کو باطنِ شریعت اور احسان کہتے ہیں۔


دین و حکمت

()

تلاش

Flag Counter