مطیع سید: حضرت سودہ نے حضرت عائشہ کو اپنی باری کا دن دے دیا، کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں طلاق دے دیں گے۔ (کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ النساء، حدیث نمبر ۳۰۴۰) تو آپ ﷺ انہیں کیوں طلاق دینا چاہ رہے تھے؟ ایسی کیا وجہ تھی؟
عمار ناصر: یہ واقعہ روایتوں میں مختلف انداز سے بیان ہوا ہے۔ بعض میں ہے کہ جب حضرت سودہ عمر رسیدہ ہو گئیں تو انھوں نے خود ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھے اب تعلق زن وشو کی حاجت نہیں تو آپ میری باری کا دن بھی عائشہ کے پاس قیام فرما لیا کریں۔ بعض میں یہ ہے کہ ان کی کبر سنی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں طلاق دینا چاہی تو انھوں نے کہا کہ میں روز قیامت آپ کی بیویوں میں ہی اٹھنا چاہتی ہوں، اس لیے آپ مجھے طلاق نہ دیں اور میری باری کا دن عائشہ کے ساتھ قیام فرما لیا کریں۔ اب ویسے تو آپ کو یہ حق حاصل تھا کہ اپنی کسی بیوی سے علیحدگی اختیار کر لیں، لیکن یہ بات بظاہر سمجھ میں نہیں آتی کہ عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے آپ انھیں طلاق دینا چاہتے تھے۔ خاص طور پر اگر یہ واقعہ سورۃ الاحزاب کے احکام کے بعد کا ہے تو پھر یہ بات مزید باعث اشکال ہے، کیونکہ سورۃ الاحزاب میں آپ کی ازواج کے لیے کسی بھی دوسرے شخص سے نکاح کو ممنوع ٹھیرایا گیا ہے۔ ممکن ہے، یہ راویوں کا قیاس ہو اور انھوں نے روایت میں سیدہ سودہ کی کبر سنی کے ذکر سے یہ اندازہ کیا ہو کہ آپ اس وجہ سے انھیں طلاق دینا چاہتے تھے جس پر انھوں نے اپنی باری کا دن سیدہ عائشہ کو دے دیا۔
مطیع سید: حضرت آدم ؑ کے بارے میں روایت آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پشت سے ان کی ذریت نکالی اورآپ اپنی ذریت کو دیکھ رہے تھے۔ آپ کو ان میں ایک میں بڑا نور نظر آیا جو حضرت داؤد تھے۔حضرت آدم نے کہا کہ یا اللہ میری عمر کے چالیس سال ان کو دے دیے جائیں۔ پھر جب فرشتہ حضرت آدم کے پاس ان کی روح قبض کرنے کے لیے آیا تو انہوں نے فرمایا کہ ابھی تو میرے چالیس سال رہتے ہیں۔اس پر فرشتے نے یاد دلایا کہ وہ تو آپ نے حضرت داؤد کو دے دیے تھے۔(کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ الاعراف، حدیث نمبر ۳۰۷۶) توکیا حضرت آدم کو پہلے سے بتا دیا گیا تھا کہ ان کی کتنی عمر ہوگی؟کیا یہ روایت درست ہے؟
عمار ناصر: سندا تو بظاہر ٹھیک ہے اور حضرت آدم کو ان کی عمر کے متعلق پہلے سے بتا دیا گیا ہوتو یہ کوئی بعید تو نہیں۔
مطیع سید: ایک روایت ہے کہ حضرت حوا حاملہ ہوتی تھیں، لیکن بچہ نہیں بچتا تھا، تو شیطان نے کہا کہ بچے کا نام عبد الحارث رکھیں تو بچ جائے گا۔(کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ الاعراف، حدیث نمبر ۳۰۷۷) کیا یہ روایت ٹھیک ہے؟
عمار ناصر: نہیں، اس روایت پر محدثین نے نقد کیا ہے۔
مطیع سید: روایت میں ہے کہ جنگ بدر میں صحابہ مالِ غنیمت لوٹنے لگے، حالانکہ ابھی اس کو حلال نہیں کیا گیا تھا۔ اس پر قرآن مجید میں یہ آیت نازل ہوئی کہ لَوْ لَا كِتٰب مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِیْمَا اَخَذْتُمْ عَذَاب عَظِیْم۔ (کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ الانفال، حدیث نمبر ۳۰۸۵)
عمار ناصر: اس آیت کی شان نزول سے متعلق ایک روایت یہی ہے کہ چونکہ پچھلی شریعتوں میں مالِ غنیمت کا استعمال جائز نہیں ہوتا تھااور ابھی تک مسلمانوں کے لیے بھی جائز نہیں کیا گیا تھا، لیکن مسلمانوں نے اس سے پہلے ہی لوٹنا شروع کر دیا تو یہ تنبیہ نازل کی گئی۔ لیکن آیت کے سیاق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مالِ غنیمت کے حوالے سے نہیں، بلکہ جنگی قیدی بنانے اور ان سے فدیہ لینے سے متعلق بات ہورہی ہے۔
مطیع سید: تو پھر اس روایت کو کس جگہ رکھیں گے؟
عمار ناصر: اصل میں روایتوں میں یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ لوگ اپنےفہم سے اس کا ایک مطلب سمجھ کر، اس کے مطابق واقعے کو بیان کر دیتے ہیں۔شانِ نزول کی روایات میں ایسا بہت ہے۔اب دیکھیں، دو الگ الگ باتیں ہیں جن کو راوی اپنےقیاس سے جوڑ رہاہے۔نبی ﷺ نے یہ بات الگ سے فرمائی کہ پچھلی امتوں پر مالِ غنیمت حلال نہیں تھا۔ وہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے۔اس کو راوی نے اس آیت کے ساتھ ملا کر قیاس کر لیا کہ یہاں اسی بات کا ذکر ہو رہا ہے۔
مطیع سید: حضرت عبد اللہ بن مسعود کو قرآن لکھنے سے الگ رکھا گیا اور انہوں نے زید بن ثابت کے متعلق بڑے سخت الفاظ کہے۔وجہ کیا تھی؟یہ کس دور میں ہوا؟
عمار ناصر: یہ حضرت عثما ن کے دور میں ہوا جب قرآن مجید کا نسخہ مرتب کیا جا رہا تھا۔ان کو الگ رکھے جانے پر ظاہر ہے کوئی تحفظ ہوگا۔ اب کیا وجہ ہوئی، متعین طور پر کہنا مشکل ہے۔عبد اللہ بن مسعود اس وقت کوفے میں تھے۔ ممکن ہے، یہ دیکھتے ہوئے کہ زید بن ثابت مدینے میں ہی موجود ہیں، ان کویہ ذمہ داری سونپ دی گئی ہو۔یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ جمع عثمانی کا بنیادی مقصد قراءت کے اختلاف کے محدود کرنا تھا، جبکہ عبد اللہ بن مسعود اپنی قراءت کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے۔ ان کا اعتراض بھی یہی تھا کہ مصحف میری قراءت پر کیوں نہیں لکھا گیا۔ شاید اس وجہ سے انھیں مصحف کی تدوین میں شامل نہ کیا گیا ہو۔
مطیع سید: بہت سی جگہوں پر عربی زبان کا رائج رسم الخط اور قرآن کا رسم الخط مختلف ہے۔ قرآن مجید کو خاص رسم الخط میں کیوں لکھا گیا ہے؟ مطیع سید: مثلا کہا جاتا ہے کہ آپ الرحمان ایسے نہیں لکھ سکتے، آپ الرحمٰن لکھیں گے۔
عمار ناصر: عربی زبان کا اِس وقت جو Standard(معیاری)رسم الخط ہے، یہ تو بہت بعد میں جا کر رائج ہوا ہے۔ صحابہ کے دور میں اس طرح کا کوئی Standard رسم الخط نہیں تھا۔
مطیع سید: حضرت عثمان نے جو نسخے تیار کر وائے تھے، کیا انہوں نے کسی خاص رسم الخط کو ملحوظ رکھا تھا؟ اسے کہا بھی عثمانی رسم الخط جاتاہے۔
عمار ناصر: اس وقت کوئی Standardرسم الخط تھا ہی نہیں۔بعض الفاظ جن کے پڑھنے میں فرق تھا، ان کے متعلق حضرت عثمان کی ہدایات منقول ہیں کہ انھیں قریش کے تلفظ کے مطابق لکھا جائے، مثلا تابوت کا لفظ۔ اس کے علاوہ کوئی معیاری رسم الخط نہیں تھا اور کاتبوں نے جیسے ان کو مناسب لگا، لکھ دیا۔
مطیع سید: علماء کہتے ہیں کہ مصحف عثمانی میں قصدا ایسا رسم الخط اختیار کیا گیا جس میں مختلف قراءتیں پڑھی جا سکیں۔ مثلا ملک یوم الدین میں مالک الف کے ساتھ نہیں لکھا گیا۔الف کے بغیر لکھا گیا کہ تاکہ مالک اورملک دونوں طرح سے پڑھا جا سکے۔
عمار ناصر: یہ بعد میں قرآء نے توجیہات کی ہیں۔مجھے اس پر اطمینا ن نہیں ہے۔ مجھے اس قیاس میں کوئی وزن نہیں لگ رہا کہ رسم الخط خاص طور پر ایسا اختیار کیا گیا کہ قراءت کا اختلاف اس میں سمویا جا سکے۔جو رسم الخط کاتبوں کو آتا تھا، اس میں انہوں نے لکھ دیااور جو مختلف نسخے لکھوائے گئے، ان میں بھی آپس میں کئی جگہ رسم الخط کا فرق تھا۔ایسا لگتا ہے کہ وہ بالکل ایک ابتدائی (Primitive) سی چیزتھی۔ لیکن یہ جب انہوں نے ایک دفعہ لکھ دیا اور اس پر امت جمع ہو گئی تو پھر امت نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اسی کو بر قرار رکھنے میں مصلحت ہے اور اس کو اگر ہم بدلیں گے تو مزید مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے، اس کو پھر Sanctifyکردیا کہ اب یہ ایک طرح سے ناقابل تبدیل ہے۔جمہور کی یہی رائے رہی ہے، لیکن یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک انتظامی پہلو سے متعلق چیزہے۔
مطیع سید: حضرت عثمان نے جو نسخے لکھوائے تھے، جن کے موازنے کے حوالے سے آپ فرما رہے ہیں کہ ان میں رسم الخط کہیں کہیں فرق بھی تھا، کیا وہ محفوظ ہیں؟
عمار ناصر: بہت سے نسخے موجود ہیں، لیکن ان کے استناد کے بارے میں مجھے زیادہ معلوم نہیں۔ ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم نے شاید کچھ کام کیا ہے۔ تاشقند میں ہیں اور کچھ دوسری جگہوں پر بھی ہیں، لیکن ان کے تاریخی استناد کے بارے میں میرے ذہن میں اس وقت کچھ نہیں ہے۔
مطیع سید: حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک بہت خوبرو عورت مسجد نبوی میں نماز پڑھتی تھی تو کچھ لوگ پچھلی صفوں میں کھڑے ہوتے تھے اور رکوع کی حالت میں بغلوں کے نیچے سے اس کو دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس پر یہ آیت اتری کہ ولقد علمنا المستقدمین منکم ولقد علمنا المستاخرین۔ (کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ الحجر، حدیث نمبر ۳۱۲۲) یہ تو عجیب سی بات لگ رہی ہے۔ کیا صحابہ بعد میں صحابہ اپنی طرف سے بھی قیاس کرتے ہیں کہ اس آیت کا مقصود فلاں بات ہوگی؟
عمار ناصر: آیت کا سیاق تو ظاہر ہے، اس سے متعلق نہیں۔ اور شانِ نزول کی روایات میں قیاس اور اس طرح کی دیگر چیزوں کا بہت زیادہ دخل ہوتا ہے۔
مطیع سید: سورۃ بنی اسرائیل میں آیا کہ ہم نے آپ کو خواب اس لیے دکھایا کہ لوگوں کے لیے آزمائش بن جائے۔ عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیت المقدس کا سفر یعنی معراج کا واقعہ ہے۔ (کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ بنی اسرائیل، حدیث نمبر ۳۱۳۴) لیکن وہ تو خواب نہیں تھا، کہا جاتا ہے کہ نبی ﷺ خود تشریف لے گئے تھے۔
عمار ناصر: رویا صرف خواب کو نہیں کہتے بلکہ آنکھ سے دیکھے ہوئے مشاہدات کو بھی رویا کہہ دیا جاتا ہے۔ ابن عباس کے اس اثر میں بھی انھوں نے وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد رویا عینہے، یعنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے مناظر۔ اس رویا کو عام طور پر سورت کے شروع جو معراج کے مشاہدات مذکور ہیں، انھی سے جوڑا جاتا ہے۔ عام طورپر مفسرین یہی تشریح کرتے ہیں، لیکن سورت کی ابتدا میں اور اس آیت میں فاصلہ اتنا ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ اسی سے متعلق ہو۔ کوئی اور بات بھی ہوسکتی ہے جو اس وقت زیرِ بحث ہو اور سامعین کےعلم میں ہو، اگرچہ قرآن میں تصریحا اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ان دونوں امکانات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مطیع سید: یہودآپﷺ کے پاس آئے، مختلف نشانیوں کے بارے میں پوچھا اور آپ کی نبوت کے حق میں گواہی دی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے؟ انہوں نے کہا کہ حضرت داؤد نے دعا کی تھی کہ نبوت ان کی اولاد میں رہےگی، اور اگر ہم آپ پر ایمان لائے تو یہودی ہمیں قتل کر دیں گے۔(کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ بنی اسرائیل، حدیث نمبر ۳۱۴۴) کیا واقعی حضرت داؤد نے ایسی دعا کی تھی؟اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے جس کی بنیادپر انہوں نے اتنی بڑی بات کہہ دی؟
عمار ناصر: نہیں، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت داود نے یہ دعاکی تھی کہ ان کی اولاد میں نبوت جاری رہے۔ یہ مطلب نہیں کہ نبوت ان کی اولاد میں ہی رہے، کسی دوسری جگہ نہ جائے۔
مطیع سید: قیامت کے دن لوگ مختلف انبیاء کے پاس جائیں گےاورہر نبی ایک عذر پیش کر دیں گے۔ (کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ بنی اسرائیل، حدیث نمبر ۳۱۴۸) وہ عذر ایسے ہیں کہ اللہ نے انہیں معاف بھی فرما دیا ہے اور وہ کوئی اتنے بڑے مسئلے بھی نہیں ہیں۔توپھر انبیاء ایسے کیوں عذر پیش کریں گے؟
عمار ناصر: دیکھیں، ہیبت اور خوف کی ایک کیفیت سب پر طاری ہوگی جس میں کوئی بھی بزرگ اپنے اندر حوصلہ نہیں پائیں گےکہ اللہ تعالیٰ کے روبرو جائیں اور کوئی درخواست پیش کریں۔ ایسی کیفیت میں آدمی کو اپنی معمولی لغزشیں اور تقصیر ات بھی بہت بڑی محسوس ہوتی ہیں۔
مطیع سید: حضرت موسی اور خضر کے واقعہ میں راوی سفیا ن کہتے ہیں کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسی ٹیلے کے پاس آبِ حیات کا چشمہ تھا جس کی چھینٹ مچھلی پر پڑی تھی اور وہ زندہ ہوگئی تھی۔ (کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ الکہف، حدیث نمبر ۳۱۴۹) یہ روایات اسرائیلیات میں سے ہیں یا بس لوگوں میں مشہورباتیں تھیں؟
عمار ناصر: اسرائیلیات میں سے بھی ہو سکتی ہے اور لوگوں میں جو کچھ اساطیری چیزیں پھیلی ہوتی ہیں، ان میں سے بھی ہو سکتی ہے۔
مطیع سید: یاجوج ماجوج کے ہر روز دیوار چاٹنے والی روایت میں ہے کہ آخری دفعہ جب وہ ان شاء اللہ کہیں گے تو پھر دیوار کو توڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔(کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ الکہف، حدیث نمبر ۳۱۵۳) بظاہر ان کے کردار سے تو لگ نہیں رہا کہ وہ اہل ایمان ہوں گے، پھر وہ کیوں ان شاء اللہ کیوں کہیں گے؟
عمار ناصر: ہو سکتا ہے، اللہ کو مانتے ہوں۔بہرحال اس روایت کے بارے میں تو بہت تحفظات ہیں۔امام بخاری اور امام ابن کثیر نے بھی اس پر یہ تبصرہ کیا ہے کہ یہ اسرائیلیات میں سے ہے۔
مطیع سید: اہلِ بیت کی اصطلاح کن کے لیے ہے؟
عمار ناصر: یہ صحابہ میں بھی بحث رہی ہے کہ اس سے مرادکون ہیں۔قرآن تو واضح ہے، وہ ازواج مطہرات کو ہی مخاطب کر کے اہل البیت کہتا ہے اور اس کا جو عام لغوی استعمال ہے، وہ بھی یہی ہے۔
مطیع سید: ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک چادر میں حضرت علی، فاطمہ، حسن اورحسین رضی اللہ تعالی عنھم کو لیا۔ حضرت ام سلمہ نے پوچھا کہ یارسول اللہ، میں بھی آؤں تو آپ نے فرمایا کہ نہیں۔بلکہ آپ نے انہیں روک کر فرمایا کہ آپ ایسے ہی ٹھیک ہیں۔اور فرمایا کہ یہ میرے اہل ِ بیت ہیں۔ (کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ الاحزاب، حدیث نمبر ۳۲۰۵۔ کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل فاطمۃ، حدیث نمبر ۳۸۷۱)
عمار ناصر: یہ تو بچوں کے ساتھ اظہار محبت کا ایک سادہ اور فطری واقعہ ہے۔ اہل البیت میں بیویوں کے شامل ہونے کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔اہل البیت میں سب سے پہلے آدمی کے اپنے بیوی بچے ہی ہوتے ہیں۔بیویاں اس میں شامل ہیں، یہ تو زبان کا محاورہ بھی ہے اور قرآن کا بھی سیاق ہے۔اس کے علاوہ اگر آپ نے ان بچوں کو بھی محبت کے اظہار کے لیے اپنے اہل بیت میں شمار کیا تو بالکل قابل فہم ہے۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس لفظ کا جو عام مفہوم ہے، اگر آپ لوگوں کو بتانا چاہ رہے ہیں کہ اس کا مفہوم یہ نہیں، بلکہ یہ ہے تو یہ وضاحت باہر سب لوگوں کے سامنے کرنی چاہیے نہ کہ گھر کے اندر حضرت ام سلمہ کے سامنے۔
مطیع سید: یعنی بیویاں اور اولاد سب اہل بیت ہیں؟
عمار ناصر: جی، آپﷺ کی ازواج اور اولاد، سب اہل البیت ہیں۔
مطیع سید: نبی ﷺحضرت فاطمہ الزہراکے گھر کے باہر سے گزرتے تو یہ یا اہل البیت کہہ کر نماز کی طرف متوجہ کرتے اوریہ آیت پڑھاکرتے تھے۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت۔ (کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ الاحزاب، حدیث نمبر ۳۲۰۶)
عمار ناصر: بالکل درست ہے۔ اہل البیت کا دائرہ ازواج تک محدود نہیں۔آپ اس کو بڑھا کر خاندان کے لیے بھی بولنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں۔ بیویوں کے ساتھ جس کو بھی آپ چاہیں شامل کرلیں۔لیکن بیویوں کو نکال دیں اور چچا اور دامادوغیرہ اس میں آجائیں، یہ تو اہل الِبیت کا عجیب مفہوم ہے۔
مطیع سید: یہ چیزیں اہل تشیع میں کب پروان چڑھیں؟ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے بارے میں تو ان کے تحفظات سمجھ میں آتے ہیں کہ وہ حضرت علی کی جگہ خلیفہ بن گئے۔ازواج کے ساتھ اہل تشیع کو کیا مسئلہ تھا؟
عمار ناصر: دیکھیں، حضرت علی کے ساتھ جس کا بھی اختلاف ہوا، بس اس کی خیر نہیں ہے۔حضرت علی کے بارے میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ یہ اہل ِ بیت ہیں اور ان کوخلیفہ ہونا چاہیے۔بس اس میں جس نے اختلاف کیا، وہ مطعون ہے۔ پہلے حضرت عائشہ کے بارے میں منفی رویہ پیدا ہوا کیونکہ انھوں نے حضرت علی کے ساتھ جنگ کی تھی۔پھر آہستہ آہستہ تصورات بنتے چلے گئے۔پہلے صرف خلافت کا مسئلہ تھاکہ ان کو ملنی چاہیے، پھر یہ تصور بھی شامل ہو گیا کہ دین بھی صرف انہی کے پاس ہے۔
مطیع سید: ایک سرگوشی والی روایت بھی آتی ہے۔آپﷺ نے حضرت علی کے کان میں کوئی بات فرمائی۔ صحابہ نے پوچھا تو آپﷺنے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ میں علی کے کان میں سرگوشی کروں۔ حضرت علی نے کسی موقع پر اس کااظہار نہیں کیا کہ کیا سرگوشی ہوئی۔کیا اس وجہ سے بھی اس خیال کو تقویت ملی کہ کچھ خاص چیزیں ہیں جن کا علم صرف حضرت علی کو ملا ہے؟
عمار ناصر: اس طرح کی چیزیں پھر شامل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ دیکھیں، آپ ﷺ کے خاندان کے ساتھ آپ کی نسبت سے ایک محبت اور عقیدت ہو، یہ بات تو غیر فطری نہیں ہے۔ کوئی چھوٹی سی تنظیم کا لیڈر بن جائے تو اس کے بچوں میں یہ خواہش پیداہوجاتی ہے کہ قیادت وراثت میں ان کو ملے۔اگر رسول اللہ کی اپنی نرینہ اولاد ہوتی تو یہ مسائل اس کے بارے میں بھی پیداہوتے۔نرینہ اولاد نہیں تھی تو قریب ترین لوگ یہی تھے، حضرت عباس اور حضرت علی۔ان کا یہ خیال ہو کہ ہم اہل بھی ہیں اور ہمیں خلافت ملنی چاہیے تو یہ کوئی بعید بات نہیں ہے۔آپ کے ساتھ نسبت کی وجہ سے یہ تصور پیداہونا اور پھر رسول اللہ ﷺ کا اپنے اہل بیت کی فضیلت کے بارے میں اور اہل بیت کے ساتھ محبت کے حوالےسے تاکید بھی فرمانا، تو یہ چیزیں مل کر، پہلے ایک خواہش کےا نداز میں سامنے آئیں۔ پھر جب یہ خواہش عملی شکل اختیار نہیں کر سکتی تو منفی ذہنیت در آئی کہ خلفاء غاصب تھے اور جو بھی اہل بیت کے ساتھ کسی تنازع کا حصہ بنا، ان کا ایمان اور اخلاص مشکوک ہے۔ پھر یہ چیزیں بڑھتے بڑھتے باقاعدہ کلامی اور اعتقادی موقف کی صورت اختیار کر گئیں۔
(جاری)