اللہ تعالی نے دین اسلام کو تاقیامت انسانوں کی رہنمائی کے لیے برپا کیا ہے، اس کے انفرادی، خاندانی، معاشرتی،ملکی اور سیاسی زندگی میں دائمی و آفاقی انتہائی منظم ومستحکم اصول موجود ہیں؛ لیکن بہت سی مرتبہ ہمارے ان اصولوں کے صحیح انطباق نہ کرسکنے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور بہت سی خرابیاں رونما ہوتی ہیں؛ خصوصا رہنمایان دین وشریعت کی ذرا سی چوک امت میں سخت تباہی وبربادی کا ذریعہ بنتی ہے۔
دنیا کے اندر صدیوں تک اسلامی حکومت برپا رہی ہے اور مسلم حکام اپنی کوتاہیوں کے باوجود اپنے عدالتی نظام کو اسلامی آئین وضوابط کے تحت چلاتے رہے ہیں، خلافت راشدہ، خلافت بنو امیہ اور خلافت عباسیہ وفاطمیہ ہر دور میں دارالقضاءکا مضبوط سسٹم رہا ہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ خلافت عثمانیہ کے سنہرے دور کے بعد ختم ہوگیا۔ جب خلافت ختم ہوئی تو دارالقضاءکا اسلامی نظام بھی جاتا رہا؛ چناں چہ حضرات مفتیان کرام نے قاضیوں کی ذمے داریاں بھی سنبھالنی شروع کردیں جس کی وجہ سے ”فتوی و قضاءکا فرق“ جاتا رہا اور فقہی کتابوں میں جو مسائل قضاءکے لیے لکھے گئے تھے، حضرات مفتیان کرام نے ان کے مطابق فتوی دینا شروع کردیا۔حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
والمُفتُونَ الیوم غافلون عنہ، فان اکثرہم یفتونَ باحکامِ القضاء. ووجہ الابتلاءفیہ: ان المذکور فی کتب الفقہ عامۃ ہو مسائل القضاء، وقَلَّما تُذکرُ فیہا مسائلُ الدِّیانۃ. نعم، تذکر تلک فی المبسوطات، ولا تُنَال الا بعد تدرُّبٍ تامٍ، ولعل وجہتہ ان القاضی فی السلطنۃ العثمانیۃ لم یکن ینصبُ الا حنفیًا، بخلاف المفتیین فانہم کانوا من المذاہب الاربعۃ، وکان القاضی الحنفی یُنَفِّذُ ما افتُوا بہ، فشرع المُفتُونَ تحریر حکم القضاء لینفِّذ القاضی، فاشتہرت مسائل القضاءفی الکتب، وخملت مسائل الدیانۃ، ثم لا یجبُ ان تتفقَ الدیانۃ والقضاء فی الحکم بل قد یختلفان۔ (فیض الباری علی صحیح الباری:1/ 272)
’’آج کے مفتی حضرات اس (فتوی و قضاءکے فرق)سے غافل ہیں؛ چناں چہ اکثر مفتیان احکام قضاءکے مطابق فتوی دے رہے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ متوسط فقہی کتابوں میں عام طور سے قضائی احکام لکھے ہوے ہیں اور بہت کم دیانت (فتوی) کے مسائل کا ذکر ہے؛ ہاں مبسوطات میں دیانت کے مسائل کا ذکر ہے؛ لیکن ان (کتابوں کے مسائل دیانت) کو مکمل مشق وتمرین سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ (قضاءکے مطابق فتوی کے چلن کے عام ہوجانے کی) وجہ شاید یہ ہے کہ عثمانی سلطنت میں قاضی کے عہدے پر صرف حنفی مامور ہوا کرتے تھے، جب کہ مفتیان مذاہب اربعہ کے تھے، اس لیے حنفی قضاۃ ان مفتیوں کے فتوے کے مطابق فیصلہ کردیا کرتے تھے؛ چناں چہ مفتیوں نے قضاءکے احکام لکھنا شروع کردیا تاکہ قاضی اس حکم قضائی کو نافذ کریں۔ اس طرح کتابوں میں قضاءکے مسائل عام ہوتے چلے گئے اور دیانت (فتوی) کے مسائل ختم ہوتے چلے گئے۔جب کہ ہمیشہ قضاءاور دیانت کا حکم شرعی یکساں نہیں ہوتا، بہت سی مرتبہ دونوں کے احکام مختلف ہوتے ہیں۔“
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ متاخرین کے دور میں قاضیوں کا علمی معیار گرگیا تھا، قضاۃ کی تقرریاں علمی بنیاد پر کم اور قرابت داری کی بنیاد پر زیادہ ہونے لگی تھی اس لیے متاخرین نے قاضی کے فیصلے کو فتوی کے تابع کردیا تاکہ قاضی اپنی کم علمی کی وجہ سے کچھ غلط فیصلہ نہ کردے ۔ شامی نے لکھا ہے : ”القضاء تابع للفتوی فی زماننا لجہل القضاۃ“ کہ قاضیوں کی جہالت کی وجہ سے اس زمانے میں قضاءفتوی کے تابع ہے یعنی مفتی قضائی حکم لکھ دیتا تھا اور قاضی اس حکم کی تنفیذکرتا تھا ۔ یہ چلن اتنا عام ہوگیا تھااور دھڑلے سے مفتیان قضائی حکم فتوی میں لکھنے لگے تھے کہ شامی کو فتاوی شامی میں کئی بار توجہ دلانی پڑی کہ عام لوگ جب مسئلہ دریافت کرنے آ ئے تو مفتی کے لیے ضروی ہے کہ دیانت کے مطابق فتوی دے ؛ البتہ اس فتوی میں”لا یصدق قضاءا“ کی صراحت کردے کہ دارالقضاءمیں اس فتوے کا اعتبار نہ کیا جائے تاکہ قاضی اس فتوی کی روشنی میں غلط فیصلہ نہ کردے۔ (و اذا کتب المفتی یدین) ای کتب ہذا اللفظ بان سئل مثلا عمن حلف واستثنی ولم یسمع احدا یجیب ای لا یحنث فیما بینہ وبین ربہ ولکن یکتبہ بعدہ ”ولا یصدق قضاءا“ لان القضاءتابع للفتوی فی زماننا لجہل القضاۃ فربما ظن القاضی انہ یصدق قضاءا ایضا۔ (شامی: ۶۱۲۴)
تتبع وتلاش سے ایسے ڈھیر سارے مسائل ہمارے سامنے آئیں گے؛ جن میں قضاءودیانت کا فرق نہیں کیا جا رہا ہے اور اس بات کے قائل علامہ کشمیریؒ جیسی شخصیت ہیں؛ لیکن آج ہم معاشرہ کی بیخ کنی کرتے انتہانی سنگین وحساس مسئلہ یعنی طلاق کے حوالے سے قضاء ودیانت کا فرق نہ کرنے کی وجہ سے ہو رہی بے احتیاطیوں پر گفتگو کریں گے۔
آئیے سب سے پہلے ہم دیانت وقضاءمیں فرق سمجھتے ہیں!
فتوی احکام شرعیہ کے متعلق اِخبار محض کا نام ہے۔ علامہ قرافیؒ لکھتے ہیں: الفتوی محض اخبار عن اللہ تعالی فی الزام او اباحۃ۔ (انوار البروق فی انواءالفروق:4/89) لہذا مفتی کی ذمے داری بس''صورت مسئولہ کے مطابق حکم شرعی بتادینا ہے ، قطع نظر اس کے کہ صورت مسئولہ نفس الامر کے مطابق ہے یا خلاف۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں: یقول المفتی ''الحکم فی الصورۃ المسئول عنہا کذا'' ولا یلزم منہ ان تکون الصورۃ المسئول عنھا موافقۃ للواقع فی نفس الامر۔ (اصول الافتاءوآدابہ:12) قاضی نفس الامر اور وجود خارجی کو جاننے کا مکلف ہے جب کہ مفتی کا یہ کام قطعی نہیں ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: القاضی الحاکم یحتاج الی معرفۃ المسائل والوقائع ایضا بخلاف المفتی۔ (العرف الشذی شرح سنن الترمذی:3/ 69)
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ قضاءکا اپنا میدان ہے اور دیانت یعنی فتوی کا اپنا میدان ہے، دونوں کو اپنے حدود میں رہنا اور ان کی پاسداری کرنا چاہیے۔ متعدد فقہاءنے لکھا ہے کہ قاضی کے لیے فتوی دینا جائز نہیں ہے اور اس پر تقریبا تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ جو معاملہ قاضی کے زیر سماعت ہو اس مسئلہ میں قاضی کے لیے فتوی دینا جائز نہیں ہے۔ ایسے ہی مفتی حضرات کے لیے قضاءکے میدان میں جانا اور دیانت سے بڑھ کر قضائی احکامات کے مطابق فتوی دینا درست نہیں ہے۔ اصل مسئلہ پر جانے سے پہلے بطور تمہیدچند باتوں کا سمجھ لینا ضروری ہے۔
ایک مجلس میں ایک سے زائد طلاق کی دو شکلیں ہیں۔
اول: کوئی یوں کہے ”میں نے تم کو تین طلاق دی“ یا ”ایک طلا ق دو طلا ق تین طلاق“
دوم: تین مرتبہ”طلاق طلاق طلاق“ کہہ دے۔
اول الذکر سے تین طلاق واقع ہوجائے گی، اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے، اس میں کوئی کلام نہیں۔ثانی الذکر کی تین شکلیں ہیں۔
اول: ”طلاق طلاق طلاق“ کہے اور تاسیس/استیناف کی نیت کرے یعنی ہر مرتبہ طلاق میں نئی طلاق کی نیت کرے۔
ثانی: ”طلاق طلاق طلاق“ کہے اور تاکید کی نیت کرے، یعنی اس کی نیت تو ایک ہی طلاق کی ہے؛ البتہ دوسری اور تیسری طلاق کے تکرار سے طلاق کو موکد کرنا مقصد ہے۔
ثالث: ” طلاق طلاق طلاق“ کہے اور اس کی نیت تاسیس یا تاکید میں سے کچھ بھی نہ تھی۔
اس میں بھی شکل اول میں تین طلاق واقع ہوجائے گی، ہماری گفتگو آخری شکل میں مذکوردوسری اور تیسری شکل پر ہوگی۔یعنی تین مرتبہ ''طلاق طلاق طلاق '' کہے اور نیت ایک طلاق کی تھی یا نیت کچھ بھی نہ تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک ایسی طلاق جو تین مرتبہ ”طلاق طلاق طلاق“ کہہ دی جاتی تھی ایک طلاق سمجھی جاتی تھی، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چلن بدل جانے اور دیانت کے کم ہوجانے کی وجہ سے اس پر بندش لگادی اور فرمایا کہ تین مرتبہ کہی ہوئی طلاق تین طلاق شمار ہوگی۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کیا ہے:
کان الطلاق علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وسنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ، فقال عمر بن الخطاب: ان الناس قد استعجلوا فی امر قد کانت لہم فیہ اناۃ، فلو امضیناہ علیہم، فامضاہ علیہم ۔ (صحیح مسلم:2/1099)
معروف شارح مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
فالاصح ان معناہ انہ کان فی اول الامر اذا قال لہا انت طالق انت طالق انت طالق ولم ینو تاکیدا ولا استئنافا یحکم بوقوع طلقۃ لقلۃ ارادتہم الاستئناف بذلک فحمل علی الغالب الذی ہو ارادۃ التاکید فلما کان فی زمن عمر رضی اللہ عنہ وکثر استعمال الناس بہذہ الصیغۃ وغلب منہم ارادۃ الاستئناف بہا حملت عند الطلاق علی الثلاث عملا بالغالب السابق الی الفہم منہا فی ذلک العصر وقیل المراد ان المعتاد فی الزمن الاول کان طلقۃ واحدۃ وصار الناس فی زمن عمر یوقعون الثلاث دفعۃ فنفذہ عمر۔ (شرح النووی علی مسلم: 10/72)
’’اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ شروع زمانے میں جب کوئی ”انت طالق، انت طالق، انت طالق“ (تمھیں طلاق ہے، تمھیں طلاق ہے، تمھیں طلاق ہے) کہہ کر طلاق دیتا اور تاکید واستیناف (نئی طلاق کے وقوع) کسی بھی چیز کی نیت نہ کرتا تو ایک طلاق کے وقوع کا حکم لگتا تھا؛ کیوں کہ لوگ ان الفاظ سے بہت کم استیناف (نئی طلاق کے ایقاع) کا ارادہ کرتے تھے، لہذا ان الفاظ کو ان عام معمول پر محمول کیا جاتا جسے تاکید کہا جاتا ہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور طلاق کے لیے ان الفاظ کا استعمال بکثرت ہونے لگا اور عام طور سے ان کی نیت استیناف کی ہوتی تھی؛ چناں چہ مطلق تین مرتبہ (طلاق طلاق طلاق کہنے) کو تین طلاق پر محمول کیا گیا اسی سابقہ غالب معمول پر عمل کرتے ہوئے۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ قضائی معاملہ کے لیے تھا، دیانت کے لیے قطعا نہیں تھا؛ چوں کہ قاضی کا کام ظاہر کے مطابق حکم شرعی لگانا ہے، اور اس نے تین مرتبہ ''طلاق طلاق طلاق''کہہ دی ہے تو ظاہر یہی ہے کہ اس نے تین طلاق دی ہوگی؛ لیکن مفتی کاکام دیانت کے مطابق فتوی دینا ہے، وہ قضائی حکم کے مطابق فتوی نہیں دے سکتا۔ اس لیے اگر کسی نے تین مرتبہ طلاق طلاق طلاق کہہ دی تو مفتی کے لیے مطلق تین طلاق کا فتوی لکھ دینا درست نہیں ہے۔
اب آئیے ہم ہندوستانی وپاکستانی معاشرہ کی صورت حال اور چلن کو دیکھتے ہیں!
یہاں عام چلن ہے کہ نکاح کے وقت نکاح خواں تین مرتبہ قبول کراتا ہے ”قبول ہے قبول ہے قبول ہے“ کے الفاظ سے ، اس لیے کم پڑھے اوراَن پڑھ لوگوں میں یہ سوچ ہے کہ جب تک تین مرتبہ طلاق طلاق طلا ق نہیں کہیں گے طلاق واقع نہیں ہوگی؛ چوں کہ تین مرتبہ قبول کیا تھا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ فلمی کہانیاں اور ڈرامے معاشرے کو دیکھ کر بنتی ہیں یا فلموں سے متاثر ہوکر معاشرہ بنتا ہے، اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ فلموں اور سیریلوں کا معاشرہ سے ڈائریکٹ کنکشن (رابطہ)ہے، گوکہ فلم بینی حرام ہے؛ لیکن اس نے ہمارے معاشرے کو بھی متاثر کیا ہے، فلموں اور سیریلوں میں طلاق کا تصور یہی دیا اور سمجھایا گیا ہے کہ جب تک تین مرتبہ طلاق طلاق طلاق نہ کہی جائے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ شاید ہی کہیں ایسا ہوتا ہے کہ نارمل حالت میں طلاق دی گئی ہو ورنہ عام طور سے غصہ کے عالم میں ہی طلاق کی نوبت آتی ہے، ایسے میں انسان بس ''طلاق طلاق طلاق'' کہہ دیتا ہے، اس کی نیت استیناف یا تاکید کی نیت نہیں ہوتی ہے۔
اس صورت حال کو جاننے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچتا ہوں۔
1۔ اگر کوئی تین مرتبہ ''طلاق طلاق طلاق'' کہہ دے اور معاملہ دارالقضاءآئے تو قاضی ثبوت وشواہد کی روشنی میں صورت حال کا جائزہ لے کر اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کریں ۔اگر فیصلہ میں خطا ہوبھی گیا تو وہ ایک اجر سے محروم نہیں ہوں گے۔
2۔ اگر معاملہ دارالافتاءآئے اور وہ بصراحت کہے کہ میری نیت ایک کی تھی تو ایک طلاق واقع ہوگی۔
3۔ اگر معاملہ دارالافتاءآئے اور استفتاءمیں اپنی نیت استیناف/تاکید کی صراحت نہ ہو تومفتی اس نیت کی وضاحت طلب کرے اور مستفتی کی وضاحت کے مطابق فتوی دے یعنی اگر وہ تاکید کی نیت بتائے تو تاکید اور استیناف کی نیت بتائے تو استیناف۔
4۔ اگر معاملہ دارالافتاءآئے اور وضاحت طلب کرنے پر جواب آئے کہ ''میری کوئی نیت نہ تھی، بس تین بار طلاق طلاق طلاق کہہ دی'' تو اسے معاشرہ کی صورت حال کی وجہ سے ایک طلاق سمجھی جائے اور ایک طلاق کا فتوی دیا جائے۔جیسا زمانہ نبوی، خلافت صدیقی اورخلافتِ فاروقی کے ابتدائی دو سالوں میں ہوتا رہا ہے۔
پیدا ہونے والے اشکالات کے جوابات:
نمبر پر ایک پر یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ اگر قضائی تھا تو پھر موجودہ وقت کے قضاۃ حضرات کو اپنی صوابدید کے مطابق وقوع اور عدم وقوع طلاق کے فیصلہ کا اختیار کیسے دیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو وقوع طلاق کا فیصلہ کیا تھا اس کی دو وجہ تھی ۔
۱۔ چلن کا بدل جانا
۲۔ دیانت کا کم ہوجانا
موجودہ حالات میں دیانت کی کمی تو دور عمری سے ہزار گنا زائد ہے؛ لیکن ہمارے یہاں دینی شعور کی کمی اور جہالت کی وجہ سے چلن پھر سے بدل چکا ہے اور چلن بدل جانے کی وجہ سے قاضی رواج کے مطابق فیصلہ کرسکتا ہے۔ مجموعہ قوانین اسلامی میں ہے:
”اور اگر طلاق دینے والا یہ کہتا ہے کہ اس کی نیت ایک ہی طلاق کی تھی اور ا س نے محض زور پیدا کرنے کے لیے الفاظ طلاق دہرائے ہیں، اس کا مقصد ایک سے زائد طلاق دینا نہیں تھا تو اس کا یہ بیان حلف کے ساتھ تسلیم کیا جائے گا اور ایک ہی طلاق واقع ہوگی اور اگر طلاق دینے والا یہ کہتا ہے کہ اس کی کچھ بھی نیت نہیں تھی، نہ ایک کی اور دو یا تین کی، دیکھا جائے گاکہ عرف میں ایسے مواقع پر تاکیدا الفاظ دہرانے کا رواج ہے یا نہیں ، اگر عرف غالب یہ ہوکہ ایسے مواقع پر لوگ محض کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے بار بار اسی لفظ کو دہراتے ہیں تو عرف کے تقاضوں کی رعایت کرتے ہوے الفاظ کی تکرار کو تاکید پر محمول کرکے ایک ہی طلاق واقع کی جائے گی۔ (مجموعہ قوانین اسلامی: ۴۹۱)
چنانچہ بینہ وثبوت اور عرف کو ملحوظ رکھ کر قاضی ایک یا تین کا فیصلہ کرسکتے ہیں ، اگر وہ مصیب ہوے تو دو اجر کے مستحق ہوں گے اور اگر مخطی ہوے تو ایک اجر کے ۔ ارشاد نبوی ہے : اذا حکم الحاکم فاجتہد فاصاب، فلہ اجران، واذا حکم فاخطا فلہ اجر واحد (ترمذی: 1326)
نمبر دو اور تین پر حضرات مفتیان کرام کی طرف سے یہ اشکال ہوتا ہے کہ اس طرح لوگ تین کی نیت سے طلاق دیں گے اور ایک کا فتوی حاصل کرلیں گے۔ جواب بڑا سادہ اور سیدھا ہے کہ ہمارا تو کام ہی”اِخبار محض“ ہے، اس نے زبان یا تحریر سے جیسا بتایا ہمارا کام اس کے مطابق فتوی دے دینا ہے، اب معاملہ فیما بینہ وبین اللہ ہے۔اگر اس نے جھوٹ بول کر آپ سے فتوی حاصل کیا ہے یعنی اس کی نیت استیناف کی تھی اور ”تاکید کی نیت یا بلا نیت“ کہہ کر ایک طلاق کا فتوی حاصل کر لیا تو یقینا اس کا مواخذہ آپ سے نہیں ہوگا، عنداللہ اس کا جوابدہ وہ خود ہوگا؛ لیکن اگر اس کی نیت وہی تھی جو وہ زبان سے کہہ رہا ہے یعنی تاکید کی تھی یا بلا نیت تھی اور آپ نے تین طلاق کا فتوی لکھ کر اس کے گھر کو توڑ دیا، ان کے بچوں کو بکھیردیا اور طلاق کی وجہ سے جو انتہائی خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ ان کی زندگی پر ہوے تو یقینا کہیں نہ کہیں اس جرم میں آپ کا شمار ہوگا اور اس طلاق کی وجہ سے ہونے والے تمام تر برے اثرات کے آپ ذمہ دار ہوں گے اوراس کے لیے عنداللہ جوابدہ ہونا پڑے گا۔ جان لیجیے! اسے ”اجتہادی خطا“ کہہ کر بھی نہیں ٹالا جاسکے گا۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے حدیث : اذا حکم الحاکم فاجتہد فاصاب، فلہ اجران، واذا حکم فاخطا فلہ اجر واحد. (ترمذی: 1326) کے متعلق عقد الجید شاہ ولی اللہ محدث ہلویؒ کے حوالے سے حاشیہ لکھا ہے:
ان حدیث الباب فی حق القاضی لا فی حق المفتی او المجتہد والقاضی الحاکم یحتاج الی معرفۃ المسائل والوقائع ایضا بخلاف المفتی (العرف الشذی شرح سنن الترمذی:3/69)
’’ حدیث مذکور قاضی کے حق میں ہے نہ کہ مفتی یا مجتہدکے حق میں (کہ اگر وہ مصیب رہا تو دو گونا اجر اور اگر مخطی رہا تو ایک گونا اجر) چوں کہ قاضی مسائل جاننے کے ساتھ تحقیق واقعہ کا بھی مکلف ہے، برخلاف مفتی کے (کہ انھیں تحقیقی واقعہ کی ضرورت نہیں۔ان کے لیے مسائل کا علم کافی ہے) “
نمبر دو والی شکل کو اگر آپ بغور دیکھیے تواس مسئلہ کو لے کر دارالافتاءآنے والے ہر شخص کو آپ جھوٹا اور فریبی فرض کرکے فتوی لکھتے ہیں، یعنی جتنے بھی آدمی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آئے اور وہ آپ سے فتوی طلب کرے گوکہ وہ سچااور دین دارآدمی ہے ، خوف خدا کی وجہ سے دارالافتاءآیا ہے؛ لیکن آپ بلا کسی دلیل کے اسے جھوٹا مان لیتے ہیں کہ یقینا یہ جھوٹ بول رہا ہے اور پھر قضاءکے مطابق تین طلاق کا فتوی لکھ دیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ اصول فتوی اور اصول شریعت دونوں کے خلاف ہے ۔
نمبر دو پر ہونے والے اعتراض کا واضح جواب یہ بھی ہے کہ اس اندیشہ کو تمام اہل مراجع نے محسوس نہیں کیا؛ بلکہ انھوں نے بصراحت لکھا کہ اگرمستفتی اقرار کرتا ہے کہ اس نے تین مرتبہ طلاق طلاق طلا ق کہی ہے؛ لیکن نیت ایک کی تھی تو مفتی ایک طلاق کے وقوع کا ہی فتوی دے گا۔
نمبر چار پر یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ زمانہ نبوی اور خلافت صدیقی میں چوں کہ تین مرتبہ طلاق طلاق طلاق کہنے کے باوجود ایک کی نیت کا ہی چلن تھا جیسا کہ امام نوویؒ کی عبارت سے واضح ہے؛ لیکن اب ایسی صورت حال نہیں ہے۔ اس کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے کہ زمانہ اب بھی وہی ہے، اب بھی لوگ تین مرتبہ طلا ق طلاق طلاق کہہ کرایک طلاق واقع ہونا ہی سمجھتے ہیں، بس ایسا سمجھنے کی وجہ میں فرق ہے، قرن اول میں ایمان کی پختگی، شرعی علوم سے گہری واقفیت اور عنداللہ جوابدہی کے خوف سے ایسا چلن تھا، اب جہالت، شرعی علوم سے ناواقفیت اور فلم وسیریل بینی کے اثر سے ایسا چلن ہے۔ بہرحال نتیجہ کے اعتبار سے دونوں کی صورت حال برابر ہے اس لیے حکم شرعی بھی برابر لگنی چاہیے، یعنی جو حکم پہلے لگتا تھا وہی حکم اب بھی لگنا چاہیے۔مجموعہ قوانین اسلامی کا حوالہ گزر چکا ہے۔
اسی قبیل سے جھوٹی طلاق کے اقرار کا مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے اس ارادے کے ساتھ کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے کہہ دے کہ ''میں تمھیں طلاق دے چکا ہوں'' یا کسی نے اس کی بیوی کو زبردستی طلاق دلانے یا طلاق نامہ پر دستخط کرانے کی کوشش کی اور اس نے جھوٹ کہہ دیا کہ وہ اپنی بیوی کو پہلے ہی طلاق دے چکا ہے تو دیانۃ اس کی بیوی پر طلاق واقع نہ ہوگی، یعنی مفتی حضرات وقوع طلاق کا فتوی نہیں دے سکتے؛ البتہ اگر معاملہ دارالقضاءجاتا ہے تو ثبوت وشواہد کی روشنی میں قاضی طلاق واقع کردے گا۔ فتاویٰ شامی میں ہے: المفتی یفتی بالدیانۃ) مثلا اذا قال رجل: قلت لزوجتی انت طالق قاصدا بذلک الاخبارکاذبا فان المفتی یفتیہ بعدم الوقوع والقاضی یحکم علیہ بالوقوع۔ (رد المحتار: 5/365)
مفتی کا کام دیانت کے مطابق فتوی دینا ہے؛ چناں چہ اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا ''انت طالق'' (تم مطلقہ ہو/تم کو طلاق دے چکا ہوں) اس ارادے کے ساتھ کہ وہ جھوٹی خبر دے رہا ہے تو مفتی عدم وقوع طلاق کا فتوی دے گا اور (اگر معاملہ دارالقضاءجاتا ہے تب) قاضی وقوع طلاق کا فیصلہ کرے گا۔
کسی نے اپنی بیوی کو ہنسی مذاق میں کہہ دیا کہ ''میں تمھیں طلاق دے چکا ہوں '' یا اپنے دوستوں کی مجلس میں تفریحا اقرار کیا کہ میں تو بیوی کو طلاق دے چکا ہوں تب بھی اس پر دیانۃ (فتوی کی رو سے) طلاق واقع نہ ہوگی۔ ولو اقر بالطلاق کاذبا او ھازلا وقع قضاءلا دیانۃ (رد المحتار:3/236)
مذکورہ بالا دونوں مسائل میں بھی دارالافتاءسے وقوع طلاق کے فتاوے صادر ہوتے ہیں اور ان کی مضبوط دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ثلاث جدهن جد، وهزلهن جد: النکاح، والطلاق، والرجعۃ۔ (ابوداود:2194) ہوتی ہے، جب کہ اس روایت کے حوالے سے” انشاءطلاق اور اخبار طلاق میں فرق“ اور اس کی وجہ سے قضاءودیانت کا فرق کرنا بھول جاتے ہیں ۔ یعنی اگر ان شاءطلاق ہنسی مذاق میں بھی واقع ہوجاتی ہے مثلاہنسی مذاق میں یوں کہہ دے کہ ”میں تمھیں طلاق دیتا ہوں“ تو طلاق واقع ہوجائے گی؛ لیکن اگر ہنسی مذاق میں اقرار طلاق کرلے کہ میں تمھیں طلاق دے چکا ہوں تو فتوی کی رو سے طلاق واقع نہ ہوگی؛البتہ قضاءکی رو سے طلاق واقع ہو جائے گی۔(حوالہ سابق دیکھیں) چوں کہ اگر ہنسی مذاق میں بھی کیے گئے اقرار کی بناءپر نکاح، طلاق اور رجعت کے احکام قضاکے اعتبار سے نافذ نہ کیے گئے تو معاملات خراب ہوجائیں گے اور قاضی کے لیے فیصلہ کرنا دشوار ہوجائے گا؛ کیوں کہ وہ ظاہر کے مطابق حکم لگانے کا مکلف ہے۔ اس کا مقصد ہزل تھا یا جد، اپنے قول میں وہ سچا تھا یا جھوٹاا س سے قاضی کو کوئی مطلب نہیں؛ چنانچہ اگر کسی شخص نے دو آدمی کو پہلے سے گواہ بنا دیا کہ میں اپنی بیوی کو جھوٹی طلاق کی خبر دوں گا، تم گواہ رہو اور بیوی کو جھوٹی طلاق کی خبر دے دی کہ ”میں تمھیں طلاق دے چکا ہوں /تم مطلقہ ہو“، اب اگر یہ معاملہ دارالقضاءجاتا ہے تب بھی قاضی وقوع طلاق کا فیصلہ نہیں کرے گا۔ در مختار میں ہے: قال: انت طالق او انت حر وعنی الاخبار کذبا وقع قضاء، الا اذا اشہد علی ذلک۔ (الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین:3/293)
اس سے صاف واضح ہے کہ حدیث مذکور کا اطلاق عمومی نہیں ہے، بلکہ یہ امور قضا کے ساتھ مخصوص ہے، اگر حکم عمومی ہوتا جھوٹی تو طلاق سے پہلے گواہ بنانے یا نہ بنانے سے کچھ فرق نہ پڑتا اور بتقاضائے عموم بہرحال اس پر طلاق واقع ہوجاتی۔
بہرحال؛ ان سب کے باوجود دارالافتاوں کا چلن یہی ہے کہ ان سب مسائل میں وہ حکم قضاءکے مطابق فتوی لکھتے ہیں اور ان مقامات میں جہاں طلاق واقع نہیں ہونی چاہیے، وہاں بھی بے پروا ہوکر طلاق واقع کردیتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ علامہ کشمیریؒ کے بقول دیانت وقضاءمیں فرق سے غفلت ہے اور متداول کتب فقہ میں جہاں بیشتر مسئلے قضاءکے لکھے ہوئے ہیں، ان کے مطابق فتوے لکھنا ہے۔ میرے تخمینہ کے مطابق دارالافتاوں میں ستر اسی فیصد سوالات طلاق یا میراث کے آتے ہیں جن میں چالیس سے پچاس فیصد سوالات طلاق کے ہوتے ہیں، یعنی معاشرہ طلاق کی آگ میں بری طرح جھلس رہا ہے۔ طلاق کی وجہ سے صرف میاں بیوی جدا نہیں ہوتے، بلکہ دو خاندان ٹوٹ جاتے ہیں، بچوں پر جو سنگین اثرات پڑتے ہیں وہ اتنے خطرناک ہیں کہ انھیں بیان کرنے کے لیے مستقل ایک مقالہ چاہیے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ اگر ان مسائل پر توجہ دی گئی تو یقینا طلاق کی شرح معاشرہ سے کم ہوجائے گی اور اس لعنت کی وجہ سے برپا ہونے والے فساد جس سے قوم تباہ ہورہی ہے اور ان کا مستقبل خاکستر ہو رہا ہے، ان سے کسی حد تک بچ پانا ممکن ہوگا۔ اللہ کرے کہ ارباب فتاوی ،سنجیدہ علمی شخصیات اور درد مند اہل علم اس سنگین مسئلہ میں غور کریں اور امت جس مسئلہ سے بری طرح جھوجھ رہی ہے، اس سے انھیں نجات دلانے میں مدد کریں ۔اگر ضرورت پڑنے پر حضرت تھانوی ؒ دوسرے فقہ سے رجوع کرسکتے ہیں تو یقینا آپ اپنی ہی فقہی کتابوں میں موجود مسئلہ میںمحض دیانت وقضاءمیں فرق کرکے اور اپنا دائرہ کار متعین کرکے امت کے ایک بڑے طبقہ کو (جو پہلے سے ہی غریب ، مفلوک الحال اور ان پڑھ ہوتے ہیں )کا گھر ٹوٹنے اور مزید شکستہ حال ہونے سے بچا سکتے ہیں ۔اللہ تعالی ہمیں توفیق دے۔ وہو المصیب
ایک درخواست: یہ میرے ناقص فکر ومطالعہ اور علمی وعوامی تجربہ کا حاصل ہے، کوئی انسان لغزش وخطا سے خالی نہیں، اس لیے اگر اہل علم ونظر قارئین کو اس تحریر میں کوئی قابل اشکال پہلو یا لائق اصلاح بات نظر آئے تو نشان دہی فرمادیں ساتھ ہی اگر اس موضوع یا اس کے ذیلی ابحاث سے متعلق اضافی مواد آپ کے مطالعہ میں ہو تو آگاہ فرمائیں۔ بے حد شکر گزار ہوں گا۔