الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام سالانہ نقشبندی اجتماع کا انعقاد کیا جاتا ہے جس کے مہمان خصوصی حضرت خواجہ خلیل احمد ہوتے ہیں۔ اس سال یہ دینی فکری اصلاحی نقشبندی اجتماع 21 دسمبر بروز سوموار مدرسہ طیبہ گوجرانوالہ میں منعقد ہوا۔ اس مبارک روحانی اجتماع میں حضرت خواجہ خلیل احمد صاحب ،حضرت مولانا اشرف علی، مولانا شاہ نواز فاروقی، مولانا جمیل الرحمٰن اختر، مولانا فضل ہادی ، سید سلمان گیلانی، حافظ فیصل بلال حسان ، مفتی عبید الرحمن، مولانا عثمان رمضان، صاحبزادہ نصرالدین خان عمر اور مولانا امجد محمود معاویہ نے شرکت کی۔
قاری محمد عمر فاروق کی پرسوز تلاوت سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ حافظ یحیی بن زکریا، حافظ عادل حسین اور حافظ فیصل بلال حسان نے نعتیہ کلام پیش کرتے ہوئے بارگاہ رسالت میں گلہائے عقیدت پیش کیے۔ نعتیہ کلام کے بعد صاحبزادہ حضرت خواجہ خلیل احمد صاحب اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے۔ علامہ زاہد الراشدی صاحب نے خواجہ صاحب کو اجتماع میں خوش آمدید کہا۔ خواجہ صاحب نے ختم خواجگان نقشبندیہ مجددیہ سلسلہ کے مطابق مجلس ذکر کرائی۔ پھر ایک عزیز کے انتقال کی اطلاع ملنے پر جنازے میں شرکت کے لیے جلد واپس تشریف لے گئے۔
نقشبندی محفل ذکر کے بعد جامعہ محمودیہ سرگودھا کے مہتمم حضرت مولانا اشرف علی صاحب نے اصلاح قلب، دینی مدارس اور خانقاہوں کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کی ۔ فرمایا کہ ہمارے پاس مسجد اور مدرسے کی نسبت اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ، ہم خوش نصیب ہیں کہ دین سیکھنے اور سکھانے والوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ حضرت لاہوری علیہ الرحمہ اکثر فرمایا کرتے تھے ایک ہوتا ہے رنگ فروش اور ایک ہوتا ہے رنگ ساز۔ رنگ فروش رنگ بیچتا ہے لیکن رنگ ساز رنگ چڑھاتا ہے۔ مدارس اور خانقاہوں میں ادب اخلاق کا رنگ چڑھایا جاتا ہے۔ اہل دل علماء کی صحبت سے دل روشن اور منور ہوتا ہے۔ اکابرین کی صحبت اور معیت غنیمت ہے۔
پاکستان شریعت کونسل کے صوبائی امیر مولانا قاری جمیل الرحمن اختر صاحب نے اپنی گفتگو میں کہا کہ جہاں بزرگ اکابرین موجود ہوں، وہاں اللہ ربّ العزت کی طرف سے انتہائی سکون اور راحت کا سامان ہوتا ہے۔ اللہ والوں سے رشتے ناطے توڑکر لوگ سمجھتے تھے کہ ہم ان کے بغیرکہیں کامیابی،کامرانی اورخوشحالی کے منازل آسانی کے ساتھ طے کرلیں گے مگرحالات اورواقعات نے یہ ثابت کردیاہے کہ یہ سراسر بھول،نادانی اورخام خیالی کے سواکچھ نہیں۔ہمارے پاس آج دنیاکی ہرنعمت اورسہولت موجودہے لیکن اس کے باوجودہماری زندگیوں میں چین ہے اورنہ سکون۔سب کچھ پاس ہونے کے باوجودبے چینی اوربے سکونی سے ایسالگ رہاہے کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔اس کے مقابلے میں اگر اللہ کے دوستوں کی چندسیکنڈز کی قربت اورصحبت بھی اختیارکرلی جائے توپھر ہمارے جیسے گنہگاربھی لمحوں میں خالی ہاتھ دنیاجہان کے سارے غم بھول جاتے ہیں۔
شاعر ختم نبوت سید سلمان گیلانی نے بھرپور انداز میں خوبصورت نئے کلام پڑھ کر محفل کو مزید بارونق بنا دیا گیلانی صاحب کے اس مشک بار کلام پہ خوب داد دی گئی۔
درودِ پاک میں تسکین ہے دلوں کے لیے
درودِ پاک اجالا ہے ظلمتوں کے لیے
درود پاک میں برکت خدا نے رکھی ہے
درود پاک میں پڑھتا ہوں برکتوں کے لیے
عصر کی نماز کے بعد اجتماع کی آخری نشست سے خطاب کرتے ہوئے خطیب اسلام مولانا شاہ نواز فاروقی صاحب اپنی گفتگو میں کہا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر جسم کالوتھڑا یہ دل ٹھیک ہو جائے تو سارا جسم ٹھیک اور اگر یہ دل خراب تو سارا جسم خراب ، انہوں کہا کہ جسم بمنزلہ محکوم اور رعایا کے ہے جبکہ یہ دل بمنزلہ حاکم کے ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ لوگ اپنے حاکم اور بادشاہ کے دین پہ ہوتے ہیں اسی طرح سارا جسم بھی دل کی مان کر چلتا ہے۔ جو دل نے کہنا ہے جسم نے وہی کرنا ہے، دلوں کی صفائی اور تزکیہ نفس کے لیے یہ اجتماع رکھا گیا ہے ۔ یہ دل دو طرح سے صاف ہو سکتا ہے، ذکر اللہ کی کثرت اور اہل اللہ کی صحبت و معیت سے دلی کیفیات میں نکھار اور ایمانی جذبات میں قوت آتی ہے۔
الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر علامہ زاہد الراشدی صاحب نے روحانی نقشبندی اجتماع سے آخری خطاب کرتے ہوئے خواجہ خلیل احمد صاحب کی تشریف آوری اور تمام شرکاء کی اجتماع میں شرکت پر سب حضرات کا شکریہ ادا کیا۔ تصوف و سلوک تزکیہ نفس اور مشائخ علماء کرام کی رب العزت سے قربت وتعلق کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض بزرگوں کی طرف یہ بات منسوب ہے کہ انہوں نے یہ کہا کہ کوئی کام ہماری مشیت کے بغیر نہیں ہوتا تو عام لوگوں کو یہ بات بہت عجیب لگی، اس کا مطلب یہ ہے کہ بزرگ حقیقت میں وہی چاہتے ہیں جو اللہ ربّ العزت کی چاہت و مشیت ہوتی ہے، اس لیے کچھ بھی ان مشائخ کی مشیت سے ہٹ کر نہیں ہوتا۔
اجتماع کا اختتام علامہ زاہد الراشدی صاحب کی دعا پر ہوا ۔ دعا کے بعد تمام شرکاء کی ضیافت کی گئی۔