(یہ تحریر سرکاری نظام تعلیم میں شامل نصابی کتابوں کے بارے میں SDPI کی اس رپورٹ کا پانچواں باب ہے جس پر ایک مفصل تبصرہ زیر نظر شمارے ہی میں شامل اشاعت ہے۔ اصل تحریر انگریزی میں ہے اور اس کا اردو ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)
تعلیمی عمل، ایک لحاظ سے دیکھیے تو انفرادی اور اجتماعی شناخت کی تعیین اور تشکیل کا عمل ہے۔ جیسے جیسے یہ عمل آگے بڑھتا ہے، شعوری یا غیر شعوری طور پر فرد کے بعض بنیادی نفسیاتی اور سماجی مسائل اس کا موضوع بنتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً میں کون ہوں؟ ماضی اور مستقبل سے میرا تعلق کیا ہے؟ دوسرے انسانوں کے ساتھ میرا واسطہ کس نوعیت کا ہے؟ میری زندگی کا مقصد اور مصرف کیا ہے؟ ایک فرد جب اپنے گھر کے قریبی ماحول کی حدود سے باہر نکلتا ہے تو اس کی شخصیت (فکری اعتبار سے) وسعت پذیر ہو جاتی ہے اور وہ بالعموم اپنے قرب وجوار، شہر، ملک اور خطے سے ماورا ہو کر (دوسرے انسانوں کے ساتھ) تصورات، اقدار، اہداف اور خواہشات کی مماثلتیں تلاش کرنے لگتا ہے۔ وسعت ذہنی کے اس سفر میں حدود کا تعین ہر فرد کے لیے اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کو آزادی فکر اور آزادی عمل کس قدر حاصل ہے۔ ہمارے دور میں بالخصوص عوامی سطح پر اس طرح کے ایک آزادانہ اور وسعت نظر پر مبنی زاویہ نگاہ کی تشکیل کے جو مواقع میسر ہیں، غالباً کسی دوسرے زمانے میں نہیں تھے۔ اس میں جزوی طور پر ٹیکنالوجی کی انقلابی طاقت کا بھی دخل ہے، مثلاً الیکٹرانک میڈیا اور اس کی یہ صلاحیت کہ وہ قومی اور ثقافتی امتیازات کی تنقیح کر سکتا اور اور مقبول عام لیکن غلط تصورات کا ازالہ کر سکتا ہے۔ تاہم ان تکنیکی صلاحیتوں کا گٹھ جوڑ اگر جبر پر مبنی سیاسی نظاموں اور منظم نظریہ سازی کے ساتھ ہو جائے تو یہ تعلیم کے عمل کو برباد کرنے کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہیں جس کے نتیجے میں یہ عمل آزادی فکر کا ایک تجربہ بننے کے بجائے ایک ایسی شناخت کی تشکیل کا عمل بن جائے جو اختلاف وامتیاز کے تمام مظاہر سے بے زار ہو اور اپنے ہی ماضی اور حال کے ایک بہت بڑے حصے سے اجنبی بن کر رہ جائے۔
آج پاکستان کے تعلیمی نظام کا منظر یہی ہے جو کہ ایک حادثے سے کم نہیں۔ اس کا بنیادی مقصد چند مخصوص نظریاتی اور سیاسی مقاصد کا حصول اور ان کے حصول میں معاون ثابت ہونے والی مخصوص ’’شناخت‘‘ کی تشکیل ہے۔ یہ نظریاتی مقاصد کیسے طے کیے گئے اور حکمران اشرافیہ کے مفادات کے لیے وہ کیا خدمات انجام دیتے ہیں، یہ سوال ان سطور کے دائرہ بحث سے خارج ہے۔ تاہم یہاں ہم اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہمارے ملک اور زمانے کے لیے عمومی اور مخصوص اہمیت کے حامل وہ بڑے بڑے تصورات اور موضوعات کون سے ہیں جو اس مخصوصی تعلیمی سوچ کے ستم زدہ ہیں اور جنھیں نصابی کتابوں سے بالکل خارج رکھا گیا ہے۔ اور ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ اس نظریاتی تنگنائے میں فٹ نہیں بیٹھتے جن کے اندر نوجوان پاکستانی ذہن کو محدود رکھنا پیش نظر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس پالیسی کا فوری نتیجہ اجنبیت کا ایک گہرا احساس پیدا کرنے کی صورت میں نکلا ہے اور (فکری) تربیت کے اس نظام سے گزرنے والی کئی نسلیں تخلیقییت پر مبنی قومی اور سماجی شناخت اور (مقاصد کے ساتھ) ایسا احساس وابستگی پیدا کرنے میں ناکام ہیں جو مذہبی تشدد پسندی، عسکریت اور تنگ نظر قومیت سے ماورا ہو۔
تاریخ
متعدد مصنفین اس بات کی نشان دہی کر چکے ہیں کہ ایک مصنوعی شناخت اور نظریہ کو فروغ دینے کے لیے تاریخ کی تدوین کو کس طرح مسخ کیا گیا ہے۔ اس ساری کوشش کا نقطہ ارتکاز یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین تاریخی اختلافات اور دشمنیاں اجاگر کی جائیں اور ہندوؤں کی چالاکی، فریب اور ظلم وجبر کے مقابلے میں مسلمانوں کا حق بجانب ہونا ثابت کیا جائے۔ ایک مزید مقصد یہ بھی ہے کہ بچے کے ذہن میں یہ بات راسخ کر دی جائے کہ ان مذاہب کے ماننے والوں کے مابین دوستانہ تعلقات اور میل جول کا کوئی دور کبھی وجود میں نہیں آیا، کیونکہ یہی وہ چیز ہے جس کو مطالبہ پاکستان کے جواز کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ اس شناخت کو قائم کرنے کے لیے تاریخ کو ازسرنو لکھا گیا اور ماضی کے بعض پورے کے پورے ادوار کو اس میں سے حذف کر دیا گیا۔ مثال کے طور پر ۱۹۶۱ء تک لکھی جانے والی نصابی کتابوں میں قدیم ہندو دیو مالا کی داستانیں اور ان ہندو اور بدھ حکمران خاندانوں کے بارے میں معلومات شامل تھیں جنھوں نے موجودہ پاکستان کے علاقے پر حکومت کی۔ تاہم بعد کی نصابی کتابوں سے ان قدیم ادوار (مثلاً موریہ اور اشوک خاندانوں) کو مکمل طور پر نکال دیا گیا، جبکہ بعض کتابوں میں بدھوں کے زمانے کا مختصراً حوالہ دے دیا گیا ہے (مثلاً دیکھیے جماعت ششم کی معاشرتی علوم) اس خطے کے ایک نہایت اہم دور کو حذف کرنا ایک علمی خیانت ہونے کے علاوہ اس نتیجے کو، جو کہ غالباً مطلوب بھی ہے، پیدا کرنے کا سبب ہے کہ بچے کے ذہن میں بھارت میں رہنے والے اپنے ہندو ہمسایوں سے اجنبیت کا احساس کھڑا کر دیا جائے، گویا کہ ہم کبھی ایک مشترک تاریخ یا مشترکہ تاریخی تجربات میں کبھی حصہ دار رہے ہی نہیں۔
قدیم معاشروں (موئنجو داڑو، ہڑپہ اور ہندومت سے پہلے کے دور) کا مختصر تذکرہ کرنے کے بعد تاریخ اچانک ایک چھلانگ لگا کر ہندوستان میں مسلمانوں (محمد بن قاسم) کی آمد کے مرحلے تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش میں کہ مسلمان، فتوحات اور غلبے کی خواہشات سے متاثر ہوئے بغیر ہمیشہ اعلیٰ مقاصد ہی کے لیے میدان عمل میں آئے، سندھ کے حکمرانوں سے عربوں کے تصادم کو حاجیوں کے ایک جہاز پر حملے کا رد عمل ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ نامکمل تصویر ان متعدد سابقہ کوششوں کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے جو عربوں نے مکران ۔بلوچستان کے علاقے میں داخل ہونے کے لیے کیں اور جنھیں مقامی حکمرانوں نے پسپا کر دیا۔ ان تصادمات کو اس زمانے میں غالب حقیقی سیاسی اور معاشی محرکات مثلاً تجارتی راستوں پر کنٹرول اور سلطنت کی توسیع وغیرہ کے ساتھ مربوط کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ ان عوامل کے دیانت دارانہ اور تنقیدی جائزہ سے صرف نظر کر کے اور ان فتوحات کی ایک پرشکوہ اور رومانوی تصویر پیش کر کے طالب علم کو ان قوتوں اور حرکیات کے علم سے محروم رکھا جاتا ہے جو تاریخ کی تشکیل کرتی ہیں، بالخصوص وہ جنھوں نے ہمارے اپنے خطے کی تاریخ کو تشکیل دیا ہے۔ اس سے ملتا جلتا تبصرہ بعد کے مسلمان حملہ آوروں مثلاً محمود غزنوی، محمود غوری اور بعد ازاں مغلوں اور آخر کار احمد شاہ ابدالی کی آمد کے بارے میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان حملوں کے پیچھے موجود محرکات پر معروضی انداز میں بحث کرنے اور ان وجوہ کو واضح کرنے کے بجائے کہ حملہ آور طاقتیں کیوں عمومی طور پر مقامی مزاحمت کو فرو کرنے میں کامیاب رہیں، ان تمام واقعات کو اسلام بمقابلہ ہندو ازم کے سلسلے ہی کی مختلف کڑیاں ظاہر کیا جاتا ہے جس میں ہر مہم جو کی کام یابی اسلام کی عظمت اور فتح یابی قرار پاتی ہے۔
برطانوی دور: استعماری تجربہ اور تحریک آزادی
تاریخ کے ایک اگلے دور کی طرف آئیے۔ برطانویوں کی آمد اور ان کی جانب سے بھارت پر منظم اور تیز رفتار قبضہ اور لوٹ مار کے حوالے سے نصابی کتابیں افسوس ناک حد تک ایسی معلو مات سے خالی ہیں جن سے سامراجیت کے مظہر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہو۔ یہ کتابیں تحریک احیاے علوم اور اس کے نتیجے میں مغرب میں علم اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا کوئی ذکر نہیں کرتیں اور نہ ان میں صنعت کی اس تیز رفتار ترقی کا ذکر ہے جس نے (مصنوعات کی تیاری کے لیے) سستے خام مال اور (ان کی کھپت کے لیے) منڈیوں پر قبضے کا داعیہ مغرب میں پیدا کیا۔ وہ یہ بالکل نہیں بتاتیں کہ یہ دراصل اعلیٰ فہم وادراک، جدید ٹیکنالوجی اور انسانوں کی جانب سے ان کی بہتر تنظیم جیسے اسباب تھے جنھوں نے چند ہزار انگریزوں کے لیے کروڑوں ہندوستانیوں کو مغلوب کر لینا ممکن بنا دیا۔ اس طرح سے یہ کتابیں علم کی طاقت اور ٹیکنالوجی پر عبور کی اہمیت کا سبق ذہن نشین کرانے میں ناکام رہتی ہیں۔ طالب علم کو تاریخ کے ایک متبادل منظر سے بھی روشناس کرانا چاہیے، مثلاً اس سے یہ پوچھنا چاہیے کہ دنیا کے اس حصے کی تاریخ کیا ہوتی اگر ابتدائی مغل بادشاہ مغربی تاجروں کی اس پیش کش کو حقارت سے ٹھکرا نہ دیتے کہ وہ اپنی نو ایجاد شدہ ٹیکنالوجی مثلاً پرنٹنگ پریس کو ہندوستان میں متعارف کرانا چاہتے ہیں۔ یہ پیش کش اکبر نے اس عذر کا سہارا لیتے ہوئے مسترد کر دی کہ اس سے کاتب بے روزگار ہو جائیں گے۔ علاوہ ازیں یہ کتابیں مغل حکومت اور اس وقت کے نوابوں اور راجاؤں کے دقیانوسی اور دیوالیہ معاشی اور معاشرتی نظام کے بارے میں خاموش ہیں جس نے عام آبادی میں اس بات کا کوئی محرک نہیں رہنے دیا تھا کہ وہ برطانوی اقتدار کے خلاف فوری طور پر اٹھ کھڑے ہوتے۔ یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخی بیانات مقامی سطح پر معاشی اور سماجی لحاظ سے اثر انداز ہونے والے عوامل کے ذکر سے بالکل خالی ہیں۔
سماجی ڈھانچہ
اگرچہ بہت سے مقامی افراد مثلاً میر جعفر اور میر صادق اور نظام حیدر آباد کی غداری کا تو اکثر ظاہر کیا جاتا ہے، لیکن جس حقیقت کا بالکل کوئی تذکرہ نہیں کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اس وقت مغل حکومت کے بے دست وپا ہو جانے کے بعد کوئی بلند تر سیاسی اکائی مثلاً قوم یا ملک کا کوئی تصور ہی باقی نہیں رہا تھا جس کے ساتھ لوگ وفاداری اختیار کرتے۔ ایک مقامی طبقاتی ڈھانچہ رکھنے والے روایتی معاشرے کے ایک قومی ریاست بننے کے گہرے مضمرات طالب علم پر بالکل واضح نہیں ہو پاتے، گروہی امتیازات کا تو ذکر ہی کیا۔ اس بحث کی غیر موجودگی میں یہ بات ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہو جاتی ہے کہ ایک اوسط درجے کا طالب علم انیسویں صدی کے آخری حصے میں ابھرنے والے قوم پرستی کے مختلف اور اکثر اوقات متضاد رجحانات کو سمجھ سکے۔ ساری گفتگو ہمیشہ مسلمان بمقابلہ ہندو کے تناظر میں ہوتی ہے ، بمقابلہ ان زیادہ بنیادی تقسیمات کے جو اس وقت موجود تھیں، یعنی انڈین قوم پرستی بمقابلہ برطانوی استعمار۔ اس طرح کی تاریخی بحث لوگوں میں محض دشمنیوں ہی کو دوام بخش سکتی ہے جبکہ اصل مطلوبہ مقصد، یعنی ایک ایسی پاکستانی شناخت کی تشکیل جس کی بنیاد محض ہندو شناخت کی نفی کے علاوہ کسی اور چیز پر بھی ہو، اس سے کسی طور بھی حاصل نہیں ہوتا۔
استحصال
اس طریقے کے نقصانات میں سے، جو سامراج مخالف جدوجہد کو (ہندو مسلم) گروہی اختلافات کے مقابلے میں محض ثانوی درجے کی اہمیت دیتا ہے، ہے، ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ پاکستانی طالب علم کو ماضی کے سامراجی نظام اور اس کی ان باقیات سے متعارف نہیں کرایا جاتا جو آج بھی سول اور ملٹری افسر شاہی، جاگیرداروں اور دلال کا کردار ادا کرنے والے سرمایہ داروں کی صورت میں اس کی زندگی پر حاوی ہیں۔ سامراجی طاقتوں نے ان لوگوں کے اندر سے جنھوں نے اپنی قوم کے لوگوں کے برخلاف اس سے تعاون کیا تھا، کیسے نئے اشرافی طبقات پیدا کیے، اور جاگیریں اور زمینیں ان کو کیسے الاٹ کرائی گئیں، اس پر کوئی بحث نہیں ہوتی کیونکہ ان وسیع وعریض جاگیروں اور ان کے ساتھ ازخود حاصل ہو جانے والی طاقت اور استحقاقات کو تقسیم کے بعد پچپن سال سے طاقت اور اقتدار کے نظام میں ایک ایسی مقدس چیز کی حیثیت حاصل ہے (جنھیں چھیڑنے کی کوئی جرات نہیں کرتا) سامراجیت نے انڈین معاشرے کے ارتقا کو کیسے متاثر کیا، مثال کے طور پر (انگریزوں نے) اپنی مصنوعات کی منڈیاں بنانے کے لیے بڑی تعداد میں فاضل سرمایے کو کیسے بیرون ملک منتقل کر دیا جس کے نتیجے میں مقامی صنعت معذور بلکہ درحقیقت ختم ہو گئی، اور اس کے نتیجے میں غربت کا دور دورہ کیسے ہوا، ان سب سوالوں کا جواب ہماری کتابیں نہیں دیتیں۔ سامراجی طاقت کی جانب سے لوگوں کے معاشی استحصال اور سماجی سطح پر اختیارات سلب کرنے کی پالیسی کو نمایاں نہیں کیا جاتا، غالباً اس لیے کہ لوگوں کو بے اختیار کرنے اور ان کے استحصال کا یہ طریقہ بعینہ آج بھی قائم ودائم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ بدیسی آقاؤں کی جگہ دیسی آقاؤں نے لے لی ہے۔
گروہ بندی پر زور
جیسا کہ اوپر اختصار سے ذکر ہوا، ایک قابل لحاظ نکتہ یہ ہے کہ نصابی کتابوں میں آزادی کی ساری جدوجہد کے بیان میں (ہندو مسلم) گروہی مسئلہ غالب ترین حیثیت حاصل کر لیتا ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز امر ہے کہ ہماری کتابوں میں سارا زور یہ دکھانے پر صرف کیا گیا ہے کہ یہ جدوجہد مسلمانوں کی جانب سے ایک ممکنہ ہندو تسلط کے خلاف کی جا رہی تھی، نہ یہ کہ ایک استعماری طاقت کے خلاف یہ انڈیا کے لوگوں (ہندو اور مسلمانوں وغیرہ) کی مشترکہ جدوجہد تھی۔ یہ موضوع سرسید احمد خان کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر نمایاں کرنے سے شروع ہوتا ہے جنھوں نے مسلمانوں میں دور جدید کی ضروریات کے حوالے سے بیداری پیدا کی اور مسلم قومیت کی بنیادیں قائم کیں۔ اس کا نقطہ کمال یہ ہے کہ قائد اعظم ایک ’’ملا‘‘ تھے جو شریعت کا نظام قائم کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ اس بحث میں جو چیز غائب ہے، وہ یہ کہ مولانا آزاد جیسے بہت سے ممتاز مسلمان قوم پرست ایسے بھی تھے جو تحریک آزادی کے ہراول دستے میں شامل تھے اور تقسیم کے تصور کے شدید مخالف تھے۔ مسلمانوں کو ایک متفق الرائے گروہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مسلم سیاسی قومیت کے ارتقا کے دوران میں جو دوسرے مسلم نقطہ ہائے نظر سامنے آئے، ان کی ترجمانی اس میں بالکل نہیں ہے۔ ممتاز علما سمیت بہت سے مسلمان تقسیم کے خلاف تھے جبکہ بہت سے دوسرے لوگ سرے سے اس سوال میں دل چسپی ہی نہیں رکھتے تھے۔ تاریخی صحت اور درستی کی خاطر یہ اہم بات ہے کہ طالب علموں کو یہ بتایا جائے کہ نہ مسلمان ایک متفق الرائے گروہ تھے اور نہ ہندو۔ دونوں جانب کئی آرا تھیں جن کا ذکر نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔ تاہم ان گروہوں کے اندر پائے جانے والے اختلافات اور اختلافی آوازوں کا ہماری کتابوں میں کوئی ذکر نہیں جس سے اس ساری جدوجہد کے بارے میں بالکل لگی بندھی، بے لچک اور ہر لحاظ سے یکسو ہونے کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ (مثلاً انٹر میڈیٹ کلاسز، مطالعہ پاکستان، صفحہ ۱۹، مصنف مظہر الحق، طباعت چہارم، ۲۰۰۰، بک لینڈ) کم از کم انٹر میڈیٹ کے نسبتاً پختہ مرحلے پر طلبہ تاریخ کی پیچیدگیوں سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں اور ہر معیار کے لحاظ سے ان چیزوں کو نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔
ان واقعات اور شخصیات کو معروضی انداز میں شامل کرنا اور متعلقہ استدلالات کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر بحث کرنا بے حد اہم ہے۔ اس سے طلبہ میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ سیاسی اور نظریاتی اختلافات لازمی طور پر کسی گروہ کے ساتھ نفرت اور دشمنی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ یہ مختلف سماجی، معاشی اور سیاسی پس منظروں کا قدرتی نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس سے ہمارے معاشرے میں رواداری اور جمہوریت کے کلچر کو فروغ دینے اور اپنے ہمسایوں یعنی ہندوؤں کے ساتھ دشمنی کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
معاصر مسائل
نصابی کتابیں قائد اعظم او رحصول پاکستان کے لیے ان کی کوششوں کے تذکرہ سے جس قدر بھری پڑی ہیں، اسی قدر یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ ان کتابوں میں کہیں بھی ان کے اعلیٰ لبرل، جمہوری اور وادارانہ تصورات کو نمایاں نہیں کیا گیا۔ دستور ساز اسمبلی میں ان کی ۱۱۔ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کا کسی بھی سطح پر کوئی تذکرہ نہیں ہے، جس میں انھوں نے ایک جمہوری اور سیکولر پاکستان کا خاکہ واضح کیا تھا، جس میں ریاست کو اپنے شہریوں کے مذہب سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا اور جس میں مذہبی امتیاز کے بغیر تمام شہری مساوی حیثیت کے حامل ہوں گے۔ ہم اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے اس ذہنی رجحان کا اظہار اس بات سے کیا تھا کہ ملک کی پہلی کابینہ جو قائد اعظم نے تشکیل دی، اس میں وزیر قانون ایک ہندو اور وزیر خارجہ ایک احمدی تھا۔ ایسا ہم اس مفروضے کے تحت کرتے ہیں کہ یہ بات اس افسانے میں، جسے ہم برقرار رکھنا چاہتے ہیں، فٹ نہیں بیٹھتی کہ قائد اعظم کے ذہن میں ایک ’’اسلامی‘‘ ریاست کا قیام تھا نہ کہ محض مسلم اکثریتی ریاست کا قیام۔ اسی تناظر میں ان تمام غیر مسلموں کا کوئی ذکر نصابی کتابوں میں نہیں ملتا جنھوں نے اس خطے کی، جو اب پاکستان کہلاتا ہے، تعلیمی، سماجی اور انسانی ترقی میں خدمات انجام دیں۔ اگرچہ وہ تعلیمی ادارے، ہسپتال اور پارک وغیرہ جو انھوں نے قائم کیے، اب بھی ان کے جذبہ خدمت انسانیت کی یادگار کے طور پر موجود ہیں، نصابی کتابوں کی حد تک وہ ناقابل قبول شخصیات ہیں۔ جن غیر مسلموں نے ۱۹۴۷ء کے بعد پاکستان کی خدمت کی، ان کا حال بھی اس سے بہتر نہیں۔ چاہے وہ ڈاکٹر عبد السلام جیسا عظیم سائنس دان ہو، یا اے آر کارنیلیس جیسا ممتاز قانون دان یا سچل چودھری جیسا فوجی ہیرو یا بہت سے دوسرے لوگ جنھوں نے اس ملک کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں، ان کا کہیں بھی شایان شان ذکر نہیں کیا گیا۔ ان سے غیر مسلموں کے خلاف اس نفرت اور تعصب کو تقویت ملتی ہے جس کا حصول اسلامی شناخت کے فروغ کے نام پر پورے تعلیمی نظام کا ہدف ہے۔
تاہم یہ صرف غیر مسلم ہیروز اور غیر معمولی شخصیات ہی نہیں ہیں جن کے تذکرہ سے نصاب خالی ہے۔ اس سے بھی زیادہ نمایاں حقیقت یہ ہے کہ سول سوسائٹی کے معاصر مرد اور خواتین ہیروز، چاہے وہ قومی ہوں یا بین الاقوامی، مسلمان ہوں یا غیر مسلم، افراد ہوں یا ادارے، نصابی کتابوں سے مکمل طور پر خارج ہیں۔ نہ سائنس دانوں کا کوئی ذکر ہے، نہ فن کاروں اور سماجی کارکنوں کا اور نہ صحافیوں اور سیاست دانوں کا۔ سول سوسائٹی کی حاصل کردہ کام یابیوں کو نمایاں کرنے کے حوالے سے نصابی کتابوں میں موت کی سی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ معاصر ہیروز میں سے اگر کسی کے متعلق بچوں کو بتایا گیا ہے تو وہ صرف فوجی ہیروز ہیں۔ یقیناًان لوگوں کے مقام و مرتبہ کو کم کرنا کسی کا مقصد نہیں ہو سکتا جنھوں نے اس ملک کے لیے لڑتے ہوئے جانیں قربان کر دیں، لیکن یہ بات بھی اگر زیادہ نہیں تو اتنی ہی اہم ضرور ہے کہ ان لوگوں کو بھی نمایاں کیا جائے جنھوں نے اس ملک کی بہتری کے لیے عمر بھر کام کیا۔ سول سوسائٹی کے ہیروز کا کوئی ذکر نہ کرنا یہ تاثر پیدا کرتا ہے کہ (ہمارے معاشرے میں) ایسے قابل ذکر افراد پائے ہی نہیں جاتے جن کے کردار کو بچوں کے سامنے نمونے کے طور یا اثر انگیز شخصیات کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ اس سے فوج کے اس دعوے کو بھی تقویت ملتی ہے کہ وہی ملک کی نجات دہندہ ہے اور اس کے افراد سول سوسائٹی کے افراد سے برتر ہیں۔ معاصر شخصیات کا ذکر نہ کرنے کے متعدد وجوہ ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم عمومی طور پر کسی شخصیت یا واقعہ کو محض ’’ہر لحاظ سے اچھا‘‘ یا ’’ہر اعتبار سے برا‘‘ ہی کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی عوامی شخصیت جو کسی حوالے سے متنازعہ ہے، اس اصول پر خارج از بحث ہو جاتی ہے۔ ہمارے زمانے کی زیادہ تر بڑی شخصیات بظاہر ان غیر حقیقی معیارات پر پورا اترنے سے قاصر ہیں ، اور اس کی وجہ بالعموم یہ نہیں کہ ان کے کارنامے معمولی ہیں، بلکہ اصل سبب ان کے مذہبی یا سیاسی نظریات یا شخصی اعجوبہ کاریوں سے منسلک ہوتا ہے۔
یہ ایک بے حد اہم بات ہے کہ ہماری نصابی کتابیں معاشیات اور سیاسیات میں ایک شدید حد فاصل قائم رکھے ہوئے ہیں اور سماجی تنقید اور سوالیہ رویے کے پیدا ہونے کو دبانا چاہتی ہیں۔ یہ رویہ تقسیم اقتدار کے مقامی نظام اور عالمی مالیاتی اداروں دونوں کے حوالے سے یکساں موجود ہے۔ مثلاً معاشرتی علوم کی کتابوں (انٹر میڈیٹ کلاسز، مطالعہ پاکستان، مصنف مظہر الحق، طباعت چہارم، ۲۰۰۰، بک لینڈ) میں ایک باب پاکستانی کے قدرتی وسائل کے لیے مخصوص ہے۔ تاہم اس پر سرے سے کوئی بحث نہیں کہ معاشرے میں معاشی وسائل کے تقسیم کے مضمرات کیا ہیں، اور وسائل اور مواقع تک غیر مساوی رسائی کے کیا اثرات افراد، گروہوں اور صوبوں کی زندگیوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ اسی طرح ریاست کی اس ذمہ داری پر بھی کوئی گفتگو نہیں کی گئی کہ وہ صوبوں، طبقات اور دونوں صنفوں (مرد وعورت) کے مابین وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے۔
شہریوں کے حوالے سے ریاست کی ذمہ داریوں ہی کے تناظر میں اگرچہ حکومت کی آمدن اور اخراجات سے متعلقہ باب میں ٹیکس لگانے کا ذکر کیا گیا ہے (صفحہ ۹۷ تا ۹۹) لیکن اس پر کوئی گفتگو نہیں کہ لوگ ٹیکس کیوں دیتے ہیں، اس کے بدلے میں انھیں کیا ملنا چاہیے اور کیا ہماری ریاست انھیں فی الواقع وہ سہولیات دے رہی ہے جو انھیں ادا کردہ ٹیکسوں کے عوض میں ملنی چاہییں؟ کیا حکومت پیسہ صحیح جگہ پر خرچ کر رہی ہے یا اس کی ترجیحات غلط ہیں؟ اس میں نہ صرف شہریوں کے حقوق کا بلکہ شہریوں کے حوالے سے ریاست کی ذمہ داریوں کا نیز اس بات کا ذکر بھی شامل ہونا چاہیے کہ عوامی رقم کیسے وصول اور خرچ کی جاتی ہے اور یہ رقم ادا کون کرتا ہے اور اسے خرچ کون کرتا ہے، وغیرہ۔
نتیجہ
سطور بالا میں ہم نے ان بنیادی موضوعات کا ایک خاکہ پیش کیا ہے جن کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ انھیں چن کر اور منصوبہ بندی کے ساتھ نصابی کتابوں سے خارج کیا گیا ہے، اور اس کے پیچھے کوئی علمی یا تعلیمی اسباب نہیں بلکہ زیادہ تر تنگ نظری پر مبنی نظریاتی وجوہ کارفرما ہیں۔ جابجا ہم نے ان متعین نتائج کی نشان دہی کرنے کی بھی کوشش کی ہے جو ان موضوعات کے شامل نہ ہونے سے سے طلبہ کے ذہنی رویے اور ان کے تصورات میں پیدا ہو رہے ہیں کیونکہ ان کو انسان دوستی اور آزادانہ فکری وذہنی فضا سے کوئی واسطہ پیش نہیں آتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عدم رواداری، بنیاد پرستی اور انتہا پسندی جیسے امراض دیگر بہت سے بنیادی ذرائع کے علاوہ اس طرح کے نصاب اور نصابی کتابوں سے بھی فروغ پا رہے ہیں جو کہ سکولوں کے ایک وسیع عوامی نظام میں نافذ العمل ہیں۔
ان موضوعات کو نظر انداز کرنے کا ایک آخری پہلو بھی ہے جس کی طرف ہم توجہ دلانا چاہتے ہیں اور اس کا تعلق ایک ایسی شخصیت کی تشکیل سے ہے جو اختلافات اور بحث مباحثہ کا احترام کرتی ہو۔ انسانی حقیقت کو، چاہے وہ تاریخی ہو یا سیاسی یا سماجی، صرف ایک ہی منفرد تعبیر کی صورت میں پیش کر کے جو کہ کسی مخصوص نصابی کتاب کے ایک مخصوص پیرا گراف میں لکھی ہوئی ہے، ہماری کتابیں دور جدید میں تعلم کے پورے تصور کا مذاق اڑا رہی ہیں۔ پورا نصاب مجموعی طور پر اس بنیادی خامی کا شکار ہے کہ اس میں تنقیدی سوچ کے ذریعے سے تجزیہ کرنے، اور سیکھنے کے قدرتی عمل میں اختلاف رائے کو فطری طور پر طلبہ کے مزاج اور رویے کا حصہ بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ بذات خود سب سے بنیادی تصوراتی خلا ہے جو ہمارے تعلیمی نظام میں پایا جاتا ہے اور اس پر سنجیدہ انداز میں توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ایک ایسی نسل پیدا ہو جس کے لیے تعلیم کو محض مخصوص معلومات کا ڈھیر اکٹھا کرنے کے بجائے فہم وادراک کے ایک ذریعے اور آلے کی حیثیت حاصل ہو۔