ضلع گوجرانوالہ کے بزرگ عالم دین اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن مولانا حکیم نذیر احمدؒ ۲۲ نومبر ۱۹۹۳ء کو واہنڈو میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی عمر اَسی برس تھی اور زندگی کا بیشتر حصہ انہوں نے دین کی تعلیم و تبلیغ میں بسر کیا۔ مولانا حکیم نذیر احمدؒ کی ولادت ۱۹۱۳ء میں واہنڈو میں ہوئی، زمیندار گھرانے سے تعلق تھا۔ دینی تعلیم انہوں نے ہنجانوالی نامی گاؤں میں مولانا حافظ عبد الغفور صاحب سے حاصل کی جو اس زمانہ میں علاقہ میں دینی تعلیم کا ایک بڑا مرکز شمار ہوتا تھا اور اس درسگاہ کا تعلق اہل حدیث مکتب فکر سے تھا۔ مولانا حکیم نذیر احمد نے اس کے بعد شیرانوالہ لاہور میں حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور انہی سے بیعت بھی کر لی اور پھر واہنڈو میں خطابت اور تدریس کی ذمہ داریوں میں منہمک ہوگئے۔ بے نیاز اور متوکل قسم کے بزرگ تھے، دینی خدمات کا سلسلہ پوری زندگی بے لوث طور پر کسی معاوضہ اور تنخواہ کے بغیر جاری رکھا۔ تھوڑی سی زمین تھی جس پر گزر بسر کرتے رہے۔
مولانا حکیم نذیر احمد نے واہنڈو کی جامع مسجد تعمیر کرائی اور اسی میں آخر وقت تک دینی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ سماجی خدمات میں بھی پیش پیش رہے، قیام پاکستان سے پہلے علاقہ کی پنچایت کے رکن تھے اور علاقہ کی سربرآوردہ شخصیات میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ سابق صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں بی ڈی نظام کے تحت واہنڈو یونین کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔ بے باک اور دبنگ قسم کے بزرگ تھے کسی کو خاطر میں نہ لاتے اور پورے وقار اور دبدبے کے ساتھ رہتے۔
حکیم صاحبؒ نے تحریک پاکستان میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کی راہنمائی میں سرگرم حصہ لیا اور علاقہ میں تحریک پاکستان کو منظم کرنے میں محنت کی۔ اس کا ذکر اکثر مجالس میں کرتے رہتے تھے کہ ہم نے مولانا شبیر احمدؒ عثمانی کے کہنے پر پاکستان بنانے کی جدوجہد میں حصہ لیا لیکن پاکستان بننے کے بعد اسلامی معاشرہ کے قیام اور اسلامی نظام کے نفاذ کی منزل حاصل نہ ہوئی۔ سیاسی طور پر جمعیۃ علمائے اسلام سے وابستہ تھے۔ ضلع گوجرانوالہ میں جمعیۃ علمائے اسلام کو منظم کرنے میں آپ کی خدمات قابل قدر ہیں۔ ایک عرصہ تک تحصیل گوجرانوالہ کے امیر اور پھر بعد میں ضلعی نائب امیر رہے۔ سیاسی و دینی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بھٹو مرحوم کے دور میں لاہور میں اس وقت کے گورنر جناب غلام مصطفیٰ کھر کے اقدامات کے خلاف بحالیٔ جمہوریت کی تحریک چلی اور متعدد سیاسی راہنماؤں اور کارکنوں نے گرفتاریاں پیش کیں۔ اس دور کی بات ہے کہ مولانا نذیر احمد مرحوم دو بار میرے پاس تشریف لائے کہ میں گرفتاری پیش کرنا چاہتا ہوں، میں نے بہت مشکل سے واپس بھیجا کہ آپ بزرگ ہیں گھر تشریف رکھیں، گرفتاریوں کے لیے ابھی ہمارے پاس بہت کارکن ہیں۔ ایک روز میں لاہور میں جمعیۃ کے مرکزی دفتر میں گیا تو وہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ گرفتاری دینے کے لیے آیا ہوں۔ انہیں سمجھا بجھا کر واپس بھیجا۔ ایک بار جمعیۃ کا ضلعی اجلاس میرے پاس جامع مسجد گوجرانوالہ میں تھا، اتفاق سے اس روز بسوں کی ہڑتال ہوگئی اور اکثر ساتھی اجلاس میں نہ آسکے۔ میں اور ڈاکٹر غلام محمد صاحب بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک مولانا حکیم نذیر احمد پسینے میں شرابور تشریف لائے اور کہا کہ جمعیۃ کا اجلاس تھا اور مجھے بس نہیں ملی اس لیے سائیکل پر ہی آگیا ہوں۔ گویا انہوں نے گرمی کے موسم میں واہنڈو سے گوجرانوالہ تک تئیس میل کی مسافت سائیکل پر صرف اس جذبہ سے طے کی کہ اجلاس میں غیر حاضری نہ ہو۔ یہ احساس ذمہ داری کی ایک قابل تقلید مثال ہے۔
مولانا مرحوم اچھے حکیم تھے، ایک زمانہ میں واہنڈو کے بازار میں دکان بھی شروع کی۔ لوگوں کا اس قدر رجوع ہوا کہ اردگرد کے دیگر طبیبوں کے ڈیرے ویران ہوگئے۔ وہ اپنی اپنی شیشیاں بوتلیں اٹھا کر حکیم نذیر احمد صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ ہماری دکانیں تو ویران ہوگئی ہیں آپ یہ شیشیاں اور بوتلیں بھی بیچ دیں۔ انہوں نے اسی روز دکان بند کر دی اور پھر اپنے مکان کی بیٹھک میں ہی تھوڑا بہت کام کرتے رہے۔ ان کے فرزند اور جانشین مولانا عطاء الرحمان کا کہنا ہے کہ ان کی عادت یہ تھی کہ جس وقت گھر کی ہانڈی کا خرچہ نکل آتا بیٹھک بند کر کے نکل جاتے۔
حکیم صاحب صاحب مطالعہ تھے، کتابیں جمع کرنے اور مطالعہ کرنے کا ذوق عمر بھر رہا۔ اکثر ان کے پاس نایاب کتابیں نظر آتیں، کئی کتابیں میں نے بھی ان سے حاصل کر کے مطالعہ کیں۔ متعدد اہل علم کے ساتھ ان کا تعلق تھا، مطالعہ کے لیے کتابوں کا تبادلہ کرتے رہتے اور اکثر اوقات مطالعہ میں مستغرق رہتے۔ پرانی طرز کے وضعدار بزرگ تھے، وضعداری اور وقار کے ساتھ دینی و سماجی خدمات میں مگن رہے۔ آخر میں شوگر کا عارضہ تھا مگر کوئی پروا کیے بغیر معمولات میں مصروف رہے۔ آخری دن بھی صبح معمول کے مطابق اٹھے، نماز ادا کی اور تھوڑی دیر کے بعد انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے فرزند مولانا عطاء الرحمان نے اب ان کی جگہ خدمات سنبھال لی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور ورثا کو صبر و حوصلہ کے ساتھ حسنات میں ان کی پیروی کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔
چوہدری محمد خلیل مرحوم
گجرات میں ہمارے پرانے بزرگ دوست چوہدری محمد خلیل گزشتہ دنوں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے ساتھ تعارف اس دور میں ہوا جب مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری نے حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ پر تفرد کی راہ اختیار کی اور اسے اپنے مواعظ و خطابات کا موضوع بنا کر جمہور علمائے امت کے خلاف فتوٰی بازی کی زبان استعمال کرنا شروع کر دی۔ تو ان کے ایک رفیق مولانا نذیر اللہ خان مرحوم نے ان سے علیحدگی اختیار کر کے مسجد حیات النبیؐ میں الگ ’’مورچہ‘‘ قائم کر لیا۔ چوہدری محمد خلیل مرحوم اس محاذ پر مولانا نذیر اللہ خان مرحوم کا دست و بازو بنے اور فعال ساتھی رہے۔
چوہدری صاحب دراصل مجلسِ تحفظ ختم نبوت کے کارکن تھے اور وہی محاذ ان کی سرگرمیوں کی سب سے بڑی جولانگاہ تھی۔ باضابطہ عالم دین نہیں تھے لیکن قادیانیوں کے بارے میں اس قدر معلومات اور گفتگو کا ملکہ رکھتے تھے کہ متعدد مناظروں میں قادیانی حضرات کو ان کے سامنے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنے گھر کے قریب ختمِ نبوت کے عنوان سے مسجد اور مکتب قائم کیا اور عمر کا آخری حصہ اسی کی خدمت میں بسر کیا۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کے ضلعی امیر تھے اور جمعیۃ علماء اسلام کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔