رتہ دوہتڑ توہین رسالتؐ کیس ۔ ابتدائی مطالعاتی جائزہ

ادارہ

ماسٹر عنایت اللہ صاحب تھانہ کوٹ لدھا کے گاؤں کوٹ لالہ کے رہنے والے ہیں، زمیندار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ۵۷ سال کے لگ بھگ ان کی عمر ہے، میٹرک، جے وی، ادیب اردو، عالم اردو، منشی فاضل اور ادیب پنجابی کی اسناد رکھتے ہیں اور گاؤں کے پرائمری سکول کے استاد ہیں۔ وہ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے بیعت کا تعلق رکھتے ہیں، پابند صوم و صلوٰۃ اور خوفِ خدا انسان ہیں۔ مذہبی معاملات میں انتہائی پرجوش ہیں۔ ۱۹۵۳ء کی تحریکِ ختمِ نبوت میں حصہ لے چکے ہیں اور گاؤں میں دو دفعہ قادیانی لاشیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے میں رکاوٹ بن چکے ہیں اور ان کی وجہ سے ہی کوٹ لدھا میں قادیانیوں کو اپنا قبردستان مسلمانوں سے الگ کرنا پڑا۔ متعدد بار گرفتار ہو چکے ہیں اور ’’انجمن اصلاح اسیراں‘‘ کے صدر بھی رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ان پر قادیانیوں کی طرف سے قاتلانہ حملہ بھی ہوا ہے، مقدمہ درج ہو گیا تھا لیکن حملہ آور قادیانی کے مسلمان ہو جانے پر انہوں نے اسے معاف کر دیا۔

تھانہ کوٹ لدھا کے گاؤں پھوکرپور کے ایک مسیحی رحمت مسیح ولد نانک مسیح جو تعلیم یافتہ ہے اور اردو انگلش پر اچھا عبور رکھتا ہے، اس کے ساتھ گاؤں کے مسلمانوں کا اکثر تنازعہ رہتا ہے۔ رحمت مسیح قرآن کریم کے اوراق کی بے حرمتی کے متعدد واقعات میں ملوث پایا گیا مگر علاقہ کے معززین کی مداخلت پر آئندہ محتاط رہنے کی یقین دہانی پر درگزر کر دیا گیا۔ رحمت مسیح مذکور سے علاقہ کے مسلمانوں کو یہ شکایت بھی رہی ہے کہ گرجا پر لاؤڈ اسپیکر لگا کر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے بارے میں نازیبا گفتگو کرتا ہے۔ ایک بار تھانہ تک نوبت گئی، علاقہ کے معززین درمیان میں آگئے اور معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔ دوسری بار علاقہ مجسٹریٹ جناب محمد اسلم قاسمی تک معاملہ پہنچا، ان کے سامنے علاقہ کے پادری حضرات نے تحریری یقین دہانی کرائی کہ رحمت مسیح مذکور آئندہ محتاط رہے گا اور لاؤڈ اسپیکر بھی استعمال نہیں کرے گا، اس پر اسے پھر درگزر کر دیا گی، یہ واقعہ ۷ مارچ ۱۹۹۲ء کا ہے۔

رحمت مسیح مذکور کے گاؤں پھوکرپور سے ایک میل کے فاصلہ پر ’’رتہ دوہتڑ‘‘ نامی گاؤں میں سات آٹھ ماہ قبل یہ صورتحال پیش آئی کہ گاؤں کی جامع مسجد میں پرچیاں پھینکی جاتیں جن میں جناب رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی بلکہ معاذ اللہ ننگی گالیاں درج ہوتیں لیکن کچھ پتہ نہ چلتا کہ یہ پرچیاں کون وہاں پھینکتا ہے۔ ۹ مئی ۱۹۹۳ء کو جامع مسجد کے خطیب حافظ محمد فضل حق اور ان کے دو ساتھیوں محمد بخش گوجر نمبردار اور حاجی محمد اکرم نے مبینہ طور پر تین افراد کو ایک دیوار پر اسی قسم کی گستاخانہ باتیں لکھتے ہوئے پکڑ لیا۔ یہ رحمت مسیح، منظور مسیح اور سلامت مسیح تھے جن میں آخر الذکر دونوں پکڑے گئے اور رحمت مسیح بھاگ گیا۔

گاؤں کے لوگ تھانہ گئے مگر پولیس نے مقدمہ درج کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا، دونوں ملزموں کو تھانہ میں بند کر لیا گیا مگر پرچہ درج نہ ہوا۔ اس پر گاؤں کے لوگ کوٹ لالہ میں ماسٹر عنایت اللہ کے پاس گئے اور تعاون کی درخواست کی۔ ماسٹر عنایت اللہ نے علاقہ کے مسلمانوں کو جمع کیا اور تھانہ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ علاقہ کے مسلمان واقعہ کے بارے میں باخبر ہوتے ہی تھانہ کے پاس جمع ہوتے گئے، انہوں نے تھانہ کا گھیراؤ کر لیا اور ٹریفک بلاک کر دی گئی جس پر پولیس نے مجبور ہو کر ۱۱ مئی کو پرچہ درج کیا، جس کے بعد دونوں گرفتار ملزم جیل بھیج دیے گئے۔ مگر رحمت مسیح روپوش ہو گیا اور اس کے بارے میں مشہور ہو گیا کہ وہ گوجرانوالہ کے ایک عیسائی ایم پی اے کے پاس ہے اور اسے امریکہ بھیجا جا رہا ہے۔ ماسٹر عنایت اللہ اور گوجرانوالہ کے علماء نے ضلعی حکام سے بات چیت کی اور بالآخر چند روز کے بعد رحمت مسیح کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ ملزمان کی طرف سے اپنی گرفتاری کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جو جسٹس خلیل الرحمٰن نے ۲۰ جون کو خارج کر دی۔ اسی طرح ایڈیشنل سیشن جج گوجرانوالہ جناب پرویز چاولہ کی عدالت میں بھی ضمانت کی درخواست دائر کی گئی جو انہوں نے ۱۰ جولائی کو عدم پیروی کی بنا پر خارج کر دی۔

اس دوران گوجرانوالہ اور گاؤں رتہ دوہتڑ میں بیرون ملک سے افراد کی آمد شروع ہو گئی۔ ایک امریکی صحافی نے سیشن جج سے بھی ملاقات کی اور ضلعی حکام پر ملزمان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مبینہ طور پر امریکی سفارت خانہ کے افسران بھی متحرک ہو گئے اور گاؤں میں مختلف وفود گئے اور علاقہ کے سادہ عوام پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ آل انڈیا ریڈیو نے ۱۱ جولائی اور پھر ۱۳ نومبر کو اس کیس کے بارے میں مفصل پروگرام نشر کیے جن میں ملزمان کی بے گناہی، توہین رسالت کے قانون پر تنقید اور ماسٹر عنایت اللہ کی کردارکشی کی گئی۔ بی بی سی نے ۲۹ نومبر کو اس قسم کا پروگرام نشر کیا، اس کے علاوہ متعدد جرائد میں کیس کے بارے میں مضامین کا سلسلہ چلتا رہا۔

لاہور سے عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ، نعیم شاکر ایڈووکیٹ اور حنا جیلانی ایڈووکیٹ نے گوجرانوالہ آ کر ملزمان کی ضمانت کے لیے دوبارہ درخواست دائر کی جو ایڈیشنل سیشن جج جناب عبد الرشید خان کی عدالت میں لگی، انہوں نے ضمانت منظور کرنے سے انکار کر دیا، جس پر کہا گیا کہ تین ملزموں میں سے ایک سلامت مسیح نابالغ ہے اس لیے اس بنیاد پر اس کی ضمانت لی جائے۔ سلامت مسیح کی عمر کے بارے میں حافظ آباد چرچ کا ایک سرٹیفیکیٹ عدالت میں پیش کیا گیا جس کے مطابق اس کی عمر چودہ برس سے زائد بنتی ہے، جبکہ مدعیان اس سرٹیفکیٹ کو مبنی برحقیقت قرار نہیں دیتے اور ان کا کہنا ہے کہ سلامت مسیح نابالغ نہیں ہے اور اس کا فیصلہ میڈیکل معائنہ کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال اس بنیاد پر بالآخر ایڈیشنل سیشن جج مذکور کو سلامت مسیح کی ضمانت منظور کرنا پڑی۔

اس ضمانت کے سلسلہ میں اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق امریکی حکام اور پاکستانی حکومت کی طرف سے ضلع گوجرانوالہ کی انتظامیہ اور سیشن کورٹ پر مسلسل دباؤ بھی ڈالا گیا۔ چنانچہ روزنامہ مساوات لاہور ۸ نومبر ۱۹۹۳ء کی خبر کے مطابق امریکہ کی نائب وزیر خارجہ مسز رابن رافیل نے وزیراعظم پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں یہ مسئلہ اٹھایا اور سیکرٹری خارجہ نے بتایا کہ سلامت مسیح کو ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۴ نومبر ۱۹۹۳ء کی خبر کے مطابق امریکی حکام کے کہنے پر حکومتِ پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر کو سلامت مسیح کی ضمانت کے انتظامات پر مامور کیا گیا اور سلامت مسیح کی ضمانت بھی گوجرانوالہ کی ضلعی انتظامیہ کے ایک عہدہ دار نے دی۔

سلامت مسیح کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ نابالغ ہے اور اَن پڑھ ہے، مدعیان ان دونوں باتوں کی تردید کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ لکھ پڑھ سکتا ہے اور اس کے بالغ ہونے کی تصدیق بھی طبی معائنہ سے ہو سکتی ہے۔ مزید برآں مدعیان کے مطابق سلامت مسیح کے والد نے، جو کراچی میں رہتا ہے، متعدد تحریرات میں تسلیم کیا ہے کہ اس کے لڑکے نے یہ حرکت کی ہے، اس سے رحمت مسیح نے پیسے دے کر یہ حماقت کرائی ہے، اس لیے اس کے بارے میں نرمی کی جائے۔ مدعیان کا کہنا ہے کہ وہ تحریرات ضرورت پڑنے پر عدالت میں پیش کر سکتے ہیں۔

گوجرانوالہ کے علماء نے رتہ دوہتڑ کیس میں امریکی حکومت اور دیگر غیر ملکی لابیوں کی مداخلت کے باعث کیس کی منظم پیروی کے لیے ’’تحفظ ناموس رسالتؐ ایکشن کمیٹی‘‘ قائم کر لی ہے جس کے چیئرمین مولانا عبد العزیز چشتی اور سیکرٹری ڈاکٹر غلام محمد ہیں، جبکہ کمیٹی میں مولانا حکیم عبد الرحمٰن آزاد، مولانا محمد نواز بلوچ، مولانا محمد اعظم، مولانا عبید اللہ عبید اور دیگر علماء شامل ہیں۔ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے ’’رتہ دوہتڑ توہینِ رسالتؐ کیس‘‘ کے واقعات کی پبلک انکوائری کے لیے ریٹائرڈ سیشن جج جناب محمد افضل سہیل کی سربراہی میں تحقیقات کمیٹی قائم کر دی ہے جس میں دیگر ماہرین قانون اور علماء بھی شامل ہیں اور ممتاز مسیحی راہنما فادر روفن جولیس ایم این اے سے بھی کمیٹی میں شامل ہونے کی درخواست کی گئی ہے۔ یہ کمیٹی ماہِ رواں کے دوران اپنی رپورٹ مکمل کر لے گی اور اسے فورم کی طرف سے بین الاقوامی پریس اور دیگر متعلقہ اداروں کو بھجوایا جائے گا۔

اب تک اس کیس کی پیروی میں ’’عالمی مجلس تحفظِ ختم نبوت‘‘ علاقہ کے مسلمانوں اور ماسٹر عنایت اللہ کی معاون ہے اور اس سلسلہ میں مولانا حکیم عبد الرحمٰن آزاد، قاری محمد یوسف عثمانی اور حافظ محمد ثاقب پیش پیش ہیں۔ مجلس کے امیر حکیم عبد الرحمٰن آزاد کا کہنا ہے کہ ایکشن کمیٹی کی تشکیل کے بعد بھی کیس کے سلسلہ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حسبِ سابق اپنا کردار جاری رکھے گی۔

حالات و واقعات

(جنوری ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter