’’معالم العرفان فی دروس القرآن‘‘ ۔ جلد ۱۳ و ۱۴

ادارہ

افادات: حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی (بانی مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ)

مرتب: حاجی لعل دین (ایم اے علومِ اسلامیہ)

ناشر: مکتبہ دروس القرآن، فاروق گنج، گوجرانوالہ

قیمت: ۲۳۰ روپے (جلد ۱۳)، ۲۰۵ روپے (جلد ۱۴)

تفسیرِ قرآن اگر ایک کارِ سعادت ہے تو ایک امرِ دشوار بھی ہے۔ اس میں ذرا سی اعتقادی و نظریاتی لغزش مفسر کو اخروی نعمتوں سے محروم بھی کر سکتی ہے اور قاری کو گمراہی کی دلدل میں بھی دھکیل سکتی ہے۔ اسی لیے جہاں علم و فہم کی ضرورت ہے وہاں اعتدال و دیانت بھی ناگزیر ہے تاکہ کمال احتیاط پیدا ہو سکے۔ اور یہ احتیاط اسی صورت میں ممکن ہے کہ فکری آزادی اور نظریاتی بے راہ روی کے اس نازک دور میں قرآن پاک کے نظریاتی اصولوں کا تسلسل و تواتر کسی مقام پر ٹوٹنے نہ پائے۔ وہی نظریاتی تسلسل مقصدِ نزولِ قرآن کی اصل روح ہے، اس کے بغیر زبان و کلام کی ادبیت و روانی سے آراستہ تفاسیر ایک بے روح و بے جان ڈھانچہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیونکہ قرآن پاک کا درسِ اخوت اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے کہ اس کے ماننے والوں کے درمیان زنجیری ربط قائم رہے، کوئی کڑی کسی مقام پر ٹوٹنے نہ پائے، اور یہ زنجیری ربط اس وقت تک ممکن نہیں جب تک نظریاتی تسلسل قائم نہ ہو۔ اسی نظریاتی تسلسل کے حوالہ سے امتِ مسلمہ کا صدیوں پر محیط یہ زنجیری ربط اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اسلام دشمن قوتوں کی ظاہری و باطنی کاوشیں اس ربط میں دراڑیں ڈالنے میں ناکام و نامراد رہیں۔ بے شمار فقہی اختلافات اور فروعی تنازعات کے باوجود اصولی نظریاتی وحدت بدستور موجود ہے، اور یہی وہ معیارِ حقیقت ہے جس کے ذریعے نظریاتی آزاد خیالیوں کی راہ میں بند باندھے جا سکتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عصرِ حاضر کے جدید مسائل میں اجتہاد اور ریسرچ کی اشد ضرورت ہے لیکن اس کے لیے قدیم و متواتر اصولوں سے انحراف و صرفِ نظر بھی قرینِ انصاف نہیں۔ دورِ جدید کے مغربی تہذیب سے مرعوب جدت پسند طبقہ نے نظریاتی قدامت پسندی کے خلاف جو خطرناک یلغار کر رکھی ہے وہ امتِ مسلمہ کو اس کے روشن و بے نظیر ماضی سے کاٹنے کی ایک خوفناک سازش ہے، اور مغرب کا میڈیا اسی طبقہ کی معاونت کے لیے پوری طرح سرگرمِ عمل ہے۔ صورت و کردار کے حوالہ سے تو امت کا کثیر حصہ اپنے ماضی سے کٹ ہی چکا ہے، اب اعتقاد و افکار کے حوالہ سے بھی اسے اکابر و اسلاف سے دور کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ شکل و صورت کے اعتبار سے تو مسلم و غیر مسلم کی تفریق پہلے ہی تقریباً مٹ چکی ہے، فکر و اعتقاد کی تبدیلی سے مسلمان کے اندر جو ’’جدید مسلمان‘‘ برآمد و نمودار ہو گا اس کے زہریلے اثرات نسلوں کی تباہی و بربادی کا باعث بن سکتے ہیں، اور جدت پسندی کے یہ سب فتنے ان لوگوں کے اٹھائے ہوئے ہیں جن کے بارہ میں اکبر الٰہ آبادی مرحوم فرماتے ہیں کہ ؎

انہوں نے دین کب سیکھا ہے جا کر شیخ کے گھر میں
پلے کالج کے چکر میں مرے صاحب کے دفتر میں

تفسیرِ قرآن کے لیے جہاں نظریاتی تسلسل ضروری ہے وہاں طرزِ بیان میں عام فہمی بھی ناگزیر ہے تاکہ علمی انحطاط کے اس دور میں نیم خواندہ اور غیر تعلیم یافتہ حضرات بھی با آسانی اس سے استفادہ کر سکیں۔ زیرِ نظر تفسیر چونکہ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی مدظلہ (تلمیذِ رشید شیخ الاسلام حضرت حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ) کے معمول کے عوامی دروس ہی پر مشتمل ہے اس لیے اس میں وہ لفظی دشواریاں نہیں ہیں، بلکہ ہر طبقہ اور ہر سطح کے لوگ اس سے با آسانی استفادہ کر سکتے ہیں۔ اگرچہ متعدد مقامات پر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حجۃ الاسلام حضرت (مولانا محمد قاسم) نانوتوی، اور امام انقلاب حضرت (مولانا عبید اللہ) سندھی رحمہم اللہ تعالٰی کے مضامین و اصطلاحات پر بھی بحث موجود ہے، لیکن ان کو بھی سادہ اور عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہے، اور ثقل موجود بھی ہے تو بہت کم مقامات پر، اس لیے مجموعی اعتبار سے یہ تفسیر ہر سطح کے لوگوں کے لیے مفید ہے۔ اس میں یہ خوبی بھی ہے کہ جدید مسائل پر حسبِ ضرورت بحث موجود ہے۔ اس تفسیر کی جلد ۱۳ اور جلد ۱۴ ہمارے پیشِ نظر ہے۔

جلد ۱۳

جلد ۱۳ میں سورۃ الفرقان، الشعراء، النمل، القصص، العنکبوت اور الروم کی تفسیر ہے۔

الفرقان سولہ دروس پر مشتمل ہے جس میں کمالِ عبدیت، نزولِ قرآن، نبی کی امتیازی حیثیت، معترضین کا تصورِ رسالت، اشتراکیت کے نظریۂ مساوات کا رد، سلطنتِ خداوندی کی خصوصیات، قانون کی پابندی، فلسفۂ جہاد، اس کے مقاصد اور اس کی اقسام، مشاہداتِ قدرت، استوٰی علی العرش کا مفہوم، برجوں اور سیاروں کی اہمیت و حیثیت، عباد الرحمٰن کے اوصاف، اور سماعِ موتٰی وغیرہ مضامین پر بحث کی گئی ہے۔

الشعراء انیس دروس پر مشتمل ہے جس میں اممِ سابقہ کے حالات، شاعری کی مجموعی اعتبار سے قباحتیں، اور شعراء حقہ کا تذکرہ کے عنوانات پر بحث موجود ہے۔

النمل سترہ دروس پر مشتمل ہے جس میں علم کی اہمیت، انبیاءؑ کی وراثت، سلیمان علیہ السلام کے واقعات کی تفصیل، سرکش اقوام کی ہلاکت، سماعِ موتٰی، سماعِ انبیاءؑ اور مناظرِ قیامت وغیرہ مضامین پر بحث کی گئی ہے۔

القصص انیس دروس پر مشتمل ہے جس میں طبقاتی کشمکش، تکمیلِ مشن کی بنیادی ضروریات، ولادتِ موسٰیؑ کے تفصیلی واقعات، مناقبِ صحابہ کرامؓ، روافض کی گمراہی، ایران کا غیر اسلامی شیعہ انقلاب، خمینی کے کفریہ عقائد، مشاہداتِ عالم، نبوت ایک وہبی منصب، اور کفار سے عدمِ تعاون وغیرہ مضامین پر بحث کی گئی ہے۔

العنکبوت بارہ دروس پر مشتمل ہے جس میں احتساب، والدین سے حسنِ سلوک، صالحین کی رفاقت، شرک کی ممانعت، ماحول کی درستگی، سرکش اقوام کی ہلاکت، فواحش و منکرات سے روک تھام، ہجرت کا حکم اور اس کی فرضیت، ذخیرہ اندوزی سے اجتناب، خاندانی منصوبہ بندی کی ممانعت، دنیا کی ناپائیداری اور مجاہدہ کی مختلف صورتیں وغیرہ مضامین زیربحث ہیں۔

الروم تیرہ دروس پر مشتمل ہے جس میں ایران پر روم کی جنگی برتری کی نبویؐ پیشگوئی، روم کے عروج و زوال کے واقعات، قماربازی کی ممانعت، زمین کی آبادکاری، جنسی تقسیم (مرد و عورت) کے اعتبار سے انسان کی تخلیق، افزائشِ نسل پر غور و تدبر کی دعوت، زبانوں کا اختلاف، آسمان کی قدرتی اور زمین کی مصنوعی بجلی کے فوائد و نقصانات، ایٹمی صلاحیت کا حصول، ٹیکنالوجی کی تیاری، نظامِ غلامی اور اس کا خاتمہ، فرقہ بندی اور اس کی مذمت، سود کی ممانعت، زکوٰۃ کی برکت، فساد کے اسباب اور اس کے نقصانات، دعا کی حجیت، وسیلہ کی جائز و ناجائز اقسام، سماعِ موتٰی، انسانی زندگی کے مختلف ادوار، خلافتِ راشدہ اور بعد کا دورِ انحطاط، جہالت کی اقسام اور اس کے نقصانات وغیرہ مضامین پر بحث کی گئی ہے۔

جلد ۱۴

جلد ۱۴ میں سورۃ لقمان، السجدۃ، الاحزاب، سبا، فاطر، یس، اور الصافات کی تفسیر شامل ہے۔

لقمان دس دردس پر مشتمل ہے جن میں مادی و روحانی نعمتیں، نماز کی اہمیت اور اس پر استقامت، جائز و ناجائز کھیلوں کی تقسیم، ناچ اور گانے کو فنونِ لطیفہ میں شامل کر کے عریانی و فحاشی کو فروغ دینے کی سازش، رقص و سرود کے بڑھتے ہوئے رجحان سے پیدا ہونے والی اخلاقی قباحتیں، قوالی کی شرائط اور حلال و حرام کی صورتیں، حدیث جبریلؑ کی روشنی میں ایمان کا مفہوم اور اس کے اجزاء، تخلیقِ جبال کے مقاصد، حکمت کی تعریف اور لقمان حکیم کی حکیمانہ باتیں، حقوقِ والدین، مدتِ رضاعت اور جمہور کا مسلک، حجیتِ تقلید، آخرت میں احتساب کا عمل، فرضیتِ نماز اور اس کی اجتماعیت کے فوائد، صبر کی ترغیب، تکبر کی ممانعت، چال میں میانہ روی، آواز میں پستی، آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کے نقصانات، توحید کے درجات، صبر و شکر کی منزل، اور مفاتح الغیب علومِ خمسہ وغیرہ عنوانات پر بحث کی گئی ہے۔

السجدۃ چھ دروس پر مشتمل ہے جس میں ملحدانہ نظام کی طرف مراجعت کے نقصانات، مشرکانہ و موحدانہ شفاعت کا فرق، اللہ تعالٰی کی صفات مختصہ حکمتِ ولی اللّٰہی کی روشنی میں، حواسِ خمسہ اور اعضائے رئیسہ کی نعمت، امامت کا مدار ہدایت پر، ظلم و ناانصافی کا سبب حکمرانوں کی عوامی معیارِ زندگی پر فوقیت، اور مسلمانوں کی محرومی کے اسباب وغیرہ مضامین پر بحث ہے۔

الاحزاب پچیس دروس پر مشتمل ہے جس میں پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر اور شرفِ خاتم الانبیاءؐ، دینی معاملات میں سودے بازی کی ممانعت، فلسفۂ ولی اللّٰہی کی روشنی میں چار اعدائے دین تعلیماتِ امامِ انقلابؒ کی روشنی میں، مروجہ سیاست کی بے اعتدالیوں کے اسباب، علمِ تشریح الاعضاء کی روشنی میں انسانی اعضاء کی تعداد، مسئلۂ ظہار، متبنی بیٹے کا حکمِ شرعی، نبی کا امت سے تعلق اور امت پر اس کے حقوق، ازواجِ مطہراتؓ کا امت سے رشتہ، میثاقِ انبیاءؑ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت، غزوۂ خندق کے واقعات اور انعاماتِ الٰہیہ، مدارِ نجات اسوۂ حسنہ، یہودِ مدینہ کی عہد شکنی اور ان کی سرکوبی، فتحِ خیبر، واقعہ ایلاء اور ازواجِ مطہراتؓ کی استقامت، امہات المومنین کا مقام، اتقاء اور تبرج جاہلیت سے گریز کا حکم، پردہ کا حکمِ شرعی اور اس کی حدود و قیود، اہلِ بیت کی طہارت اور اہلِ بیتؓ کی تعریف، مومنین و مومنات کے اوصاف، عقیدہ ختم نبوت، جھوٹے مدعیانِ نبوت اور مرزا قادیانی آنجہانی، ذکرِ الٰہی کی فضیلت اور مقاصد، اوصافِ نبوت اور عقیدۂ حاضر و ناظر کی نفی، طلاق و عدت کے مسائل، عائلی قوانین کی تباہ کاریاں، اسلام اور غیر مذاہب کا تقابلی مطالعہ، تعددِ ازواج کی اجازت اور اس کی حکمت، دعوتِ ولیمہ کی مسنونیت، امہات المومنینؓ سے نکاح کی ممانعت اور اس کے اسباب، عقیدۂ حیات الانبیاءؑ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنے کی فرضیت اور اس کے آداب و فوائد، خدا و رسول اور مومنین کی ایذا رسانی کی سزا، پردہ کا حکم و حکمت، موسٰی علیہ السلام کی ایذا رسانی، حملِ امانت، اس کی علت، اور اقوالِ مفسرینؒ کی روشنی میں امانت کی تعریف وغیرہ مضامین پر بحث کی گئی ہے۔

السبا تیرہ دروس پر مشتمل ہے جس میں داؤد علیہ السلام کے فضائل اور ان کے معجزات، معجزہ کی تعریف، معجزہ، کرامت اور استدراج میں فرق، سلیمان علیہ السلام کے معجزات، عملیات کے ذریعہ جنات کی تسخیر کا حکم، قومِ سبا کی تاریخی حیثیت، بلدۃ طیبہ کی تعریف، اقسامِ شرک، حضور علیہ السلام کی عالمگیر نبوت، عیسائی اور یہودی مشنریوں کے کارندے وغیرہ عنوانات زیربحث ہیں۔

الفاطر گیارہ دروس پر مشتمل ہے جس میں صفاتِ خداوندی، تخلیق و اوصافِ ملائکہ، عورت کے شرعی حقوق اور مغرب زدہ عورتوں کی بے راہ روی، شیطان کی وارداتِ اغوا اور اس سے بچنے کا طریقہ، حیوانی زندگی کی نشوونما کے وسائل، تخلیقِ انسانی کے مراحل، احتساب کی فکر، تزکیہ کی ضرورت، سماعِ موتٰی، خلافتِ ارضی اور فساد فی الارض کی حقیقت، نظامِ کائنات اور اس کا استحکام وغیرہ عنوانات زیربحث آئے ہیں۔

یٰس دس دروس پر مشتمل ہے جس میں قرآن پاک کی حقانیت اور مقصدِ نزول، تصدیقِ رسالت، بدعات کا رد فلسفۂ شاہ ولی اللہؒ کی روشنی میں، دین و استقامت کے ایمان افروز واقعات، گردشِ ایام اور فلکی نظام، رزق کی خدائی تقسیم کی حکمت، شعرگوئی کی جائز و ناجائز صورتیں وغیرہ مضامین پر بحث کی گئی ہے۔

الصافات دس دروس پر مشتمل ہے جس میں مقصدِ تخلیقِ نجوم، احوالِ آخرت اور انبیاء کرامؑ کی استقامت، ابراہیم علیہ السلام کے حالات و واقعات، عصمتِ انبیاءؑ، انبیاء کرامؑ کی خطاءِ اجتہادی اور مودودی صاحبؒ کی ضلالت و گمراہی وغیرہ مضامین پر بحث کی گئی ہے۔

مضامین کی محققانہ حیثیت و اہمیت کے علاوہ مرتب کا عنوان بندی کا ذوقِ سلیم بھی قابلِ داد ہے اور حاشیہ میں مسائل و واقعات کے حوالہ جات اس پر مستزاد ہیں۔ کاغذ، کتابت، طباعت اور ڈائی دار سنہری جلد مرتب و ناشر کے اعلٰی ذوق کے آئینہ دار ہیں۔ خدا تعالٰی اس تفسیر کو مفسر، مرتب اور معاونین کے لیے ذریعۂ نجات اور قارئین کے لیے ذریعۂ ہدایت بنائیں، آمین ثم آمین۔

تعارف و تبصرہ

(دسمبر ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter