(۱)
بائبل مقدس میں ہے کہ ’’تارح ستر برس کا تھا جب اس سے ابرام اور نحور اور حاران پیدا ہوئے‘‘ (پیدائش ۱۱ : ۱۲) یہ بات خاصی حیران کن ہے کہ تارح کی عمر پہلے سے تیسرے بیٹے کی پیدائش تک ستر برس ہی رہی۔ حالانکہ ابرام، نحور اور حاران تینوں جڑواں بھائی نہ تھے۔ پھر بھلا ابرام کی پیدائش سے شروع ہو کر نحور اور حاران کی پیدائش تک تارح کی عمر کا مسلسل ستر برس ہی رہنا کیونکر ممکن ہے؟ تارح کے تینوں بیٹوں کا جڑواں نہ ہونا مسیحی علماء نے بھی تسلیم کیا ہے (دیکھئے قاموس الکتاب از پادری ایف ایس خیر اللہ صفحہ ۳۱۶ کالم ۱ مقالہ حاران)۔ بہرحال یہ ثابت ہوا کہ ابرام کی ولادت کے وقت تارح کی عمر ستر برس تھی۔ تارح کی کل عمر ۲۰۵ برس ہوئی (پیدائش ۱۱ : ۳۲) یعنی تارح کی وفات کے وقت ابرام کی عمر ۱۳۵ = ۷۰ - ۲۰۵ (ایک سو پینتیس) برس تھی۔ ادھر پیدائش ۱۲ : ۴ میں لکھا ہے’’اور ابرام جب حاران سے روانہ ہوا، پچھتر برس کا تھا‘‘۔ ابرام کے حاران سے روانہ ہونے کا یہ واقعہ بائبل کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق اپنے باپ تارح کی وفات کے بعد کا ہے۔ اب ابرام جو کہ باپ کی فوتگی کے وقت ۱۳۵ برس کا تھا، بعد میں اس کی عمر ۶۰ برس کم ہو کر ۷۵ برس کیسے رہ گئی؟ اس سوال کا جواب ہم مسیحی پادریوں پر چھوڑتے ہیں۔
(۲)
اور جب ابرام سے ہاجرہ کے اسمٰعیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی برس کا
تھا (پیدائش ۱۶ : ۱۶) ابرام ۹۹ اور اسمٰعیل ۱۳ برس کا تھا جب دونوں باپ بیٹے کا
ختنہ ہوا اور خدا نے ابرام کا نام ابرہام رکھا (ایضاً ۱۷ : ۱ تا ۲۷) ابرہام کی عمر ۱۰۰ برس تھی جب اضحاق پیدا ہوا (ایضاً ۲۱ : ۵) اضحاق ۶۰ برس کا تھا جب یعقوب پیدا ہوا (ایضاً ۲۵ : ۲۶) یعنی یعقوب کی ولادت کے وقت ابرہام کی عمر۱۶۰ = ۱۰۰ + ۶۰ برس تھی۔ ابرہام کی کل عمر ۱۷۵ برس ہوئی (ایضاً ۲۵ : ۷) یعنی ابرہام کی وفات کے وقت یعقوب کی عمر ۱۵ = ۱۶۰ - ۱۷۵ برس تھی۔
اضحاق کی کل عمر ۱۸۰ برس ہوئی (ایضاً ۳۵ : ۲۸ و ۲۹) یعنی اضحاق کی وفات کے وقت یعقوب کی عمر ۱۸۰ ۔ ۶۰ = ۱۲۰ برس تھی۔ اور جب بنی اسرائیل مصر گئے تو یعقوب کی عمر ۱۳۰ برس تھی (ایضاً ۴۷ : ۹) یعنی اضحاق کی وفات سے مصر جانے تک دس برس کا عرصہ ہے۔ لیکن بائبل مقدس کے بغور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اضحاق کی وفات سے بنی اسرائیل کے مصر جانے تک کا عرصہ اس سے طویل ہے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
بائبل مقدس کے مطابق روبن کے اپنی ماں بلہاہ ۔۔۔ کے بعد یعقوب فدان ارام سے قریب اربع یعنی مبرون میں اپنے باپ اضحاق کے پاس آیا تو اضحاق نے ۱۸۰ برس کی عمر میں وفات پائی (پیدائش ۳۵ : ۲۲ تا ۲۹) جب عیسو ۴۰ برس کا تھا تو اس نے بیری حتی کی بیٹی یہودتھ اور ایلون حتی کی بیٹی بشامتھ سے بیاہ کر لیا تھا (ایضاً ۲۶ : ۳۴) اب اضحاق کی موت کے بعد جبکہ عیسو کی عمر ۱۲۰ برس عیسو نے تین شادیاں اور کیں، ایک تو اپنی سالی سے یعنی پہلی بیوی ایلون حتی کی بیٹی شامتھ کی بہن عدہ سے، پھر اس کے بعد حوی صبعون کی نواسی اور عنہ کی بیٹی ابیلسامہ سے نکاح کیا اور پھر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی صاحبزادی بشامہ سے نکاح کیا (پیدائش ۳۶ : ۱ تا ۳) ظاہر ہے عیسونے یہ تینوں نکاح کئی کئی برس کے وقفہ سے کیے ہوں گے۔ بعد ازاں ان عورتوں سے عیسو کی کافی اولاد پیدا ہوئی (ایضاً آیات ۴ تا ۴۳) بائبل گواہ ہے کہ ۱۲۰ برس کا آدمی چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا (استثنا ۳۱ : ۲) ہم حیران ہیں کہ عیسو ۱۲۰ برس کا ہو کر شادیاں کرنے لگا؟ اگر اضحاق کی فوتگی کے دوسرے ہی روز عیسو نے تینوں نکاح کر لیے ہوں (جو کہ ناممکن ہے) اور اسی روز تینوں بیویاں حاملہ ہو گئی ہوں تو عدہ سے الیفزا اور بشامہ بنت اسمٰعیل سے رعوایل اور ابیلسامہ سے یعوس پیدا ہونے تک کم از کم نو ماہ کا عرصہ درکار ہے (پیدائش ۳۶ : ۴ و ۵) یعوس کی پیدائش کے روز ہی اگر ابیلسامہ پھر حاملہ ہو گئی ہو تو یعام کی پیدائش تک مزید ۹ ماہ کا عرصہ ہے، اور اگر یعام کی پیدائش کے روز ہی ابیلسامہ پھر حاملہ ہوئی ہو تو اضحاق کی موت سے قورح کی پیدائش تک کم از کم ۲ برس تین ماہ کا عرصہ ہے (ایضاً ۵) اس کے بعد عیسو اپنے بھائی یعقوبؑ کو کنعان ہی میں چھوڑ کر خود بیویوں اور بچوں کو ساتھ لے کر دوسرے ملک (کوہ شعیر) میں جا بسا (ایضاً ۶ تا ۸) وہاں عیسو کے بیٹے جوان ہوئے اور ان کی شادیاں ہوئیں، شادی کے وقت اگر عیسو کے بیٹے الیفیز کی عمر کم از کم ۱۴ برس بھی تسلیم کر لی جائے تو یکے بعد دیگرے الیفیز کے بیٹوں تیمان، اومر، صفو، جعتام، قنز، عمالیق کی پیدائش تک کم از کم اٹھارہ برس چھ ماہ کا عرصہ بنتا ہے (ایضاً ۱۰ تا ۱۹) اور اگر عمالیق کی پیدائش کے دن ہی یوسفؑ کو بیچا گیا ہو تو اضحاق کی موت سے لے کر یوسفؑ کے بیچے جانے تک مدت کم از کم ۲۰ = ۲ + ۱۸ برس تو ضرور ہی ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے مصر پہنچ جانے کے بعد یہوداہ نے حیرہ نامی ایک عدلامی دوست کی مدد سے سوع کنعانی کی بیٹی سے بیاہ کر لیا اور یکے بعد دیگرے عیر، اونان، سیلہ پیدا ہوئے (ایضاً ۳۸ : ۱ تا ۵) اگر یوسف کے بیچے جانے کے روز ہی یہوداہ نے بت سوع سے بیاہ کر لیا ہو (۱۔تواریخ ۲ : ۳) تو پہلوٹھے عیر کی پیدائش تک کم از کم ۹ ماہ کا عرصہ ضروری ہے۔ عیر کم از کم ۱۶ برس کا ہو گا جب اس کی شادی تمر سے ہوئی (پیدائش ۳۸ : ۶) پھر کافی عرصہ بعد خدا نے نامعلوم گناہ کی پاداش میں عیر کو مار ڈالا (ایضاً ۳۸ : ۷) تمر اور عیر نے اگر کم از کم ۳ ماہ بھی ازدواجی زندگی گزاری ہو تو اضحاق کی موت سے عیر کی موت تک ۳۷ برس ہوئے۔ عیر کی موت کے بعد تمر کی شادی عیر کے چھوٹے بھائی اونان سے کر دی گئی (ایضاً ۳۸ : ۸) اسلامی قوانین میں نکاح ثانی کے لیے بیوہ کو کم از کم ۳ ماہ تک عدت میں رہنا پڑتا ہے۔ اللہ جانے عیر کی وفات کے کتنی دیر بعد تمر اونان کی بیوی بنی ہو گی لیکن خدا نے اونان کو بھی قتل کر دیا کیونکہ وہ خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرتا تھا (ایضاً ۳۸ : ۸ تا ۱۰) عیر کی بیوگی اور اونان کی زوجیت میں رہنے کا عرصہ کم از کم ایک برس تو ضرور ہی ہو گا۔ یوں اضحاق کی موت سے اونان کی موت تک کم از کم ۳۸ برس کا عرصہ ہے، اس سے کم ناممکن ہے۔ اونان کی ہلاکت کے بعد یہوداہ نے تمر کو سمجھایا کہ اس کا تیسرا بیٹا ابھی نابالغ ہے لہٰذا توسیلہ کے بالغ ہونے تک اپنے باپ کے گھر بیوگی کی زندگی بسر کر (ایضاً ۳۸ : ۱۱) چھوٹا سا بچہ سیلہ بھی آخر کار بالغ ہو گیا لیکن تمر سیلہ سے بیاہی نہ گئی۔ تب تمر نے بڑے مکر و فریب سے اپنے سسر یہوداہ سے زنا کروایا اور حاملہ ہو کر فارص کو جنم دیا (ایضاً ۳۸ : ۱۳ تا ۳۰) بقول بائبل مقدس کے یہی وہ فارص ہے جس کی اولاد سے حضرت داؤدؑ و سلیمانؑ اور یسوع مسیحؑ پیدا ہوئے (روت ۴ : ۸ تا ۲۲ ، ۱۔تواریخ ۳ : ۵ ، متی ۱ : ۳ و ۶ و ۱۶) سیلہ کی نابالغی سے بالغ ہونے تک ایک طویل عرصہ لگا، کیونکہ اونان کی وفات سے کافی عرصہ بعد یہوداہ کی بیوی بت سوع مر گئی (پیدائش ۳۸ : ۱۲) اس کے بعد سیلہ کی بلوغت اور یہوداہ کے تمر سے زنا کا واقعہ مرقوم ہے۔ اونان کی وفات کے بعد سیلہ کے بالغ ہونے اور بت سوع کے مرنے اور اس کے بعد سسر یہوداہ کے بہو تمر سے زنا کے نتیجہ میں فارص کے پیدا ہونے تک کم از کم چھ برس کا عرصہ تو ضرور ہی ہے۔ قارئین حساب لگا کر دیکھ لیں وہ چھ برس سے کم کا اندازہ نہ لگا سکیں گے۔ چنانچہ اضحاق کی وفات سے فارص کے پیدا ہونے تک کا عرصہ کم از کم ۴۴ = ۲ + ۳۸ برس کا عرصہ ضروری ہے۔
پھر فارص جوان ہوا، اس کی شادی ہوئی اور دو بیٹے حصرون اور حمول پیدا ہوئے۔ یہی حصرون اور حمول مصر میں آمد کے وقت حضرت یعقوبؑ کے ساتھ تھے (ایضاً ۴۶ : ۱۲) اگر فارص کی شادی ۱۶ برس کی عمر میں بھی تسلیم کر لی جائے تو اضحاق کی موت فارص کی شادی تک کا عرصہ ۶۰ = ۱۶ + ۴۴ برس کا عرصہ کم از کم ہے۔ اگر شادی کے روز ہی فارص کی بیوی حاملہ ہو گئی ہو تو حصرون کی پیدائش تک ۹ ماہ کا عرصہ ضروری ہے اور اسی روز دوبارہ حاملہ ہو جائے تو فارص کی شادی سے حمول پیدائش تک ڈیڑھ برس کا عرصہ ضروری ہے۔ اور اگر حمول کی پیدائش کے روز ہی بنی اسرائیل مصر پہنچ گئے ہوں تو اضحاقؑ کی وفات سے بنی اسرائیل کی مصر میں آمد تک کم از کم ۱۶ برس ۶ ماہ کا عرصہ ضروری ہے۔ یہ عرصہ ہم نے پوری کوشش کر کے کم از کم بیان کیا ہے اس سے کم ممکن ہی نہیں۔ چلیے ہم یہ عرصہ مزید ڈیڑھ برس کم تسلیم کر لیتے ہیں یعنی ۶۰ برس۔ لیکن بائبل مقدس کہتی ہے کہ صرف ۱۰ برس میں یہ سب کچھ ہو گیا۔