دسمبر ۱۹۹۴ء

مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کی جدوجہد

― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مالاکنڈ ڈویژن اور باجوڑ ایجنسی میں نفاذ شریعت کا مطالبہ طاقت کے بل پر وقتی طور پر دبا دیا گیا ہے اور عوام کو ان کے مطالبات پورے کرنے کا وعدہ کر کے سردست خاموش کر دیا گیا ہے لیکن وہاں سے آنے والی خبروں کے مطابق چنگاری اندر ہی اندر سلگ رہی ہے اور اس کے کسی بھی وقت دوبارہ بھڑک اٹھنے کے امکانات موجود ہیں۔ اس خطہ کے غیور مسلمانوں کا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں شریعت کا قانون دیا جائے، قرآن و سنت کے مطابق اپنے تنازعات کے فیصلے کرانے کا حق دیا جائے، اور پیچیدہ نوآبادیاتی عدالتی نظام کی بجائے سادہ، سہل الحصول اور فوری انصاف کے اصول پر مبنی اسلامی عدالتی...

اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت میں ذرائع ابلاغ کا کردار

― محمد صلاح الدین

دنیا میں اور تاریخ کے کسی عہد میں ایسا کوئی انسانی معاشرہ کہیں نہیں پایا گیا جس کی زندگی کسی نہ کسی نظامِ فکر و عقیدہ پر مبنی نہ رہی ہو، اور جس میں اس فکر و عقیدہ کے اظہار و ابلاغ کی کوئی نہ کوئی صورت موجود نہ رہی ہو۔ انسانی زندگی کا آغاز تخلیقِ آدمؑ کے واقعہ سے ہوا، آدمؑ کے پیکرِ خاکی میں جان پڑتے اور شعوری زندگی کے آغاز ہوتے ہی دو صفات کا ظہور ہوا۔ ایک اپنے خالق کی موجودگی کا احساس و اعتراف، اور دوسرے اس کے عطا کردہ علم کے اظہار کے لیے قوتِ گویائی۔ اس موقع پر اللہ تعالٰی، آدمؑ اور فرشتوں کے درمیان جو تبادلۂ خیال ہوا اس میں گفتگو (Dialogue) پہلا...

سنی شیعہ کشمکش کے اسباب و عوامل

― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تحریک جعفریہؒ پاکستان اور سپاہ صحابہؓ پاکستان کے درمیان کشمکش نے مسلح تصادم کی جو صورت اختیار کر لی ہے، اس سے ملک کا ہر ذی شعور شہری پریشان ہے۔ دونوں جانب سے سینکڑوں افراد اب تک اس مسلح تصادم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اور ارباب اختیار فرقہ واریت کے خاتمہ کے عنوان سے اس کشمکش پر قابو پانے کا بار بار عزم ظاہر کرتے ہیں، مگر اس کی جڑیں معاشرہ میں اس قدر گہرائی تک اتر چکی ہیں کہ بیخ کنی کے لیے ان تک رسائی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ اس لیے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس کشیدگی کے اسباب و عوامل کا کھلے دل و دماغ کے ساتھ تجزیہ کیا جائے اور سنجیدہ عمومی بحث...

کنعان سے مصر تک

― محمد یاسین عابد

(۱) بائبل مقدس میں ہے کہ ’’تارح ستر برس کا تھا جب اس سے ابرام اور نحور اور حاران پیدا ہوئے‘‘ (پیدائش ۱۱ : ۱۲) یہ بات خاصی حیران کن ہے کہ تارح کی عمر پہلے سے تیسرے بیٹے کی پیدائش تک ستر برس ہی رہی۔ حالانکہ ابرام، نحور اور حاران تینوں جڑواں بھائی نہ تھے۔ پھر بھلا ابرام کی پیدائش سے شروع ہو کر نحور اور حاران کی پیدائش تک تارح کی عمر کا مسلسل ستر برس ہی رہنا کیونکر ممکن ہے؟ تارح کے تینوں بیٹوں کا جڑواں نہ ہونا مسیحی علماء نے بھی تسلیم کیا ہے (دیکھئے قاموس الکتاب از پادری ایف ایس خیر اللہ صفحہ ۳۱۶ کالم ۱ مقالہ حاران)۔ بہرحال یہ ثابت ہوا کہ ابرام کی...

’’معالم العرفان فی دروس القرآن‘‘ ۔ جلد ۱۳ و ۱۴

― ادارہ

تفسیرِ قرآن اگر ایک کارِ سعادت ہے تو ایک امرِ دشوار بھی ہے۔ اس میں ذرا سی اعتقادی و نظریاتی لغزش مفسر کو اخروی نعمتوں سے محروم بھی کر سکتی ہے اور قاری کو گمراہی کی دلدل میں بھی دھکیل سکتی ہے۔ اسی لیے جہاں علم و فہم کی ضرورت ہے وہاں اعتدال و دیانت بھی ناگزیر ہے تاکہ کمال احتیاط پیدا ہو سکے۔ اور یہ احتیاط اسی صورت میں ممکن ہے کہ فکری آزادی اور نظریاتی بے راہ روی کے اس نازک دور میں قرآن پاک کے نظریاتی اصولوں کا تسلسل و تواتر کسی مقام پر ٹوٹنے نہ پائے۔ وہی نظریاتی تسلسل مقصدِ نزولِ قرآن کی اصل روح ہے، اس کے بغیر زبان و کلام کی ادبیت و روانی سے آراستہ...

تلاش

Flag Counter