اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت میں ذرائع ابلاغ کا کردار

محمد صلاح الدین

(۶ اگست ۱۹۹۴ء کو اسلامک کلچرل سنٹر (ریجنٹ پارک، لندن) میں ورلڈ اسلامک فورم کے دوسرے سالانہ تعلیمی سیمینار سے مدیر ہفت روزہ تکبیر جناب محمد صلاح الدین کا خطاب)


دنیا میں اور تاریخ کے کسی عہد میں ایسا کوئی انسانی معاشرہ کہیں نہیں پایا گیا جس کی زندگی کسی نہ کسی نظامِ فکر و عقیدہ پر مبنی نہ رہی ہو، اور جس میں اس فکر و عقیدہ کے اظہار و ابلاغ کی کوئی نہ کوئی صورت موجود نہ رہی ہو۔ انسانی زندگی کا آغاز تخلیقِ آدمؑ کے واقعہ سے ہوا، آدمؑ کے پیکرِ خاکی میں جان پڑتے اور شعوری زندگی کے آغاز ہوتے ہی دو صفات کا ظہور ہوا۔ ایک اپنے خالق کی موجودگی کا احساس و اعتراف، اور دوسرے اس کے عطا کردہ علم کے اظہار کے لیے قوتِ گویائی۔ اس موقع پر اللہ تعالٰی، آدمؑ اور فرشتوں کے درمیان جو تبادلۂ خیال ہوا اس میں گفتگو (Dialogue) پہلا ذریعۂ ابلاغ (Medium of Communication) بنی۔ 

حضرت آدمؑ اور حضرت حواؓ کے جوڑے کی صورت میں جنت کے اندر جس معاشرتی زندگی کا آغاز کیا گیا اس کے لیے جائز اور ناجائز، حلال اور حرام، مباح اور ممنوع، اور معروف اور منکر کی صراحت پر مبنی ایک ضابطۂ حیات دیا گیا اور اقدار (Values) کا شعور بخشا گیا۔ ابلیس کے ساتھ کشمکش کا آغاز انہی اقدار کے تحفظ کے سلسلہ میں ہوا۔ گویا انسان کو جو پہلا چیلنج درپیش ہوا وہ جان اور مال کے تحفظ کا نہ تھا، اقدارِ حیات کے تحفظ کا تھا۔ اور اس میں ناکامی نے اسے جنت کی راحتوں اور نعمتوں سے محروم کر کے اس کانٹوں بھری دنیا میں لا پھینکا۔ اور یہاں بھی شرط یہ عائد کی گئی کہ انہی اقدار کی حفاظت میں کامیابی حاصل کی تو جنتِ گم گشتہ دوبارہ تمہارا مسکن بن سکتی ہے، اور اس میں ناکام رہے تو پھر جہنم کی آگ میں ہمیشہ جلتے رہنا تمہارا مقدر ہو گا۔ سورہ بقرہ کی آیات ۳۱ تا ۳۵ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:

’’ہم نے آدمؑ سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ مگر اس درخت کا رخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے۔ آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ ہم نے حکم دیا کہ اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص مدت زمین میں ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے۔ اس وقت آدمؑ نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی جس کو اس کے رب نے قبول کر لیا کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ، پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہو گا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ آگ میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

ان آیات سے واضح ہو جاتا ہے کہ اولین انسان نے اس دنیا میں جہل کی تاریکی میں نہیں بلکہ علم و شعور کی روشنی میں اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی انسان کے لیے دشمنی کا جذبہ لے کر ابلیس بھی یہاں نازل ہوا تھا۔ اب ان کے درمیان ازل سے جو جنگ چلی آ رہی ہے اور جو ابد تک جاری رہے گی، وہ یہ ہے کہ ابلیس انسان کو احکامِ الٰہی کی پابندی و پیروی کی راہ سے ہٹانے پر لگا ہوا ہے، اور انسان وحی کے ذریعے ملنے والی ہدایت کی روشنی میں اطاعت و فرمانبرداری کی زندگی بسر کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ تاریکی اور روشنی کے درمیان اس کشمکش کا ذکر قرآن حکیم نے ان الفاظ میں کیا ہے:

’’جو لوگ ایمان لاتے ہیں اللہ ان کا حامی و مددگار ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے، اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے حامی و مددگار طاغوت ہیں وہ انہیں روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

ان آیات سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی اقدار سے ہماری مراد کیا ہے۔ اسلامی اقدار زندگی کی وہ قدریں ہیں جو ہمیں وحی کے ذریعے بھیجی جاتی رہیں اور جن کی تکمیل آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کی گئی۔

قدر درحقیقت انسانی اعمال و کردار کی جانچ پرکھ کے پیمانوں کا نام ہے۔ دنیا کی تمام ٹھوس، مائع، گیس اور دیگر مادی اشیاء کے طول و عرض، وزن اور حجم وغیرہ کے لیے ہم مختلف اوزان و پیمانہ جات استعمال کرتے ہیں۔ قدر (Value) وہ پیمانہ ہے جس سے ہم انسان کے کردار کی صفات کو ناپتے اور اس کے بارے میں اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ ایک مرکزِ حوالہ (Point of Reference) یا ایک کسوٹی ہے جس کے ذریعے کردار کا وزن اور کھراپن جانچا جاتا ہے۔

کوئی انسانی معاشرہ اچھے یا برے کی تمیز یا صحیح اور غلط کے شعور سے عاری نہیں ہوتا۔ یہ برے بھلے کی تمیز اخلاقی اقدار ہی کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ یہ اقدار کہاں سے آئی ہیں اور کس طرح انسان کے شعور و ادراک کا حصہ بنی ہیں؟ اس کے بارے میں فلسفیوں کا دعوٰی تو یہ ہے کہ یہ انسانی شعور کے ارتقاء کا نتیجہ ہیں۔ مگر قرآن حکیم ہم پر واضح کرتا ہے کہ یہ انسان کی فطرت کا لازمی حصہ ہیں اور اس کی تخلیقی اسکیم کا بنیادی جزو ہیں۔ جب یہ کہا گیا کہ ’’ہم نے آدمؑ کو تمام اشیاء کے نام سکھائے‘‘ (البقرہ ۳۱) تو اس سے مراد محض تعارفِ اشیاء نہیں۔ خواصِ اشیاء، زندگی میں ان کی حیثیت و اہمیت، زندگی سے ان کے تعلق، انسانی زندگی پر ان کے برے اور اچھے اثرات، اور ان کے استعمال سے متعلق جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی حدود، سب ہی اشیاء کے نام سکھانے کے مفہوم میں شامل ہیں۔

انسان کو جس احسن تقویم پر پیدا کیا گیا وہ بہترین جسمانی ہیئت و ساخت ہی تک محدود نہیں، اس کا شعوری وجود بھی اس میں شامل ہے۔ تخلیقِ آدم کے بعد ہدایتِ آدم کا جو اہتمام نزولِ وحی کی صورت میں کیا گیا اس میں انبیاءؑ، ان کے ساتھ اتاری جانے والی کتب اور معجزات کے علاوہ ایک چیز میزان بھی ہے۔ سورہ الحدید میں ارشاد ہوا:

’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔‘‘ (الحدید ۲۵)

یہ میزان جو لوازماتِ عدل میں شامل کی گئی ہے، تاجر کی ترازو نہیں ہے۔ بلکہ وہ میزانِ خیر و شر ہے جو انسان کے نفس میں نصب کر دی گئی ہے۔ اسے ہم ضمیر بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک ناخواندہ فرد کے اندر بھی اسی طرح کام کرتی ہے جس طرح کسی عالم اور فاضل کے اندر۔ یہ ہر لمحہ ایک ایک نیت، ارادے، عزم اور عمل کے بارے میں فیصلہ کرتی اور قلب و ذہن پر دستک دے کر ٹوکتی جاتی ہے کہ نیت و ارادہ درست اور عدل پر مبنی ہے یا غلط اور ظلم پر مبنی؟ کوئی عمل خیر کے پیمانوں پر پورا اترتا ہے یا شر اور فساد کے زمرے میں آتا ہے؟ نفسِ انسانی کے اندر پیوست یہی وہ میزان ہے جس کے بارے میں سورۃ الشمس میں اللہ تعالٰی نے اپنی ذات اور دس اشیاء پر مشتمل طویل ترین قسم کھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ:

’’اور نفسِ انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا اور پھر اس کی بدی اور اس کی نیکی و پرہیزگاری اس پر الہام کر دی۔ یقیناً فلاح پا گیا وہ شخص جس نے نفس کا تزکیہ کیا، اور نامراد ہوا وہ جس نے اسے کچل کر دبا دیا۔‘‘

ان آیات سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن نے نیکیوں کو ’’معروف‘‘ اور برائیوں کو ’’منکر‘‘ کیوں کہا ہے۔ ان اصطلاحات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں آباد اور کسی بھی عہد میں زندگی بسر کرنے والا انسان، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم، پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ، فطرتاً نیکی اور بدی کا ایک مشترکہ شعور رکھتا ہے۔ دیانت، امانت، عدل، احسان، تحمل، بردباری، شفقت، محبت، شجاعت، پاکیزگی اور صداقت کو ہر انسانی معاشرے میں اقدارِ خیر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ اور بے ایمانی، خیانت، ظلم، زیادتی، بے صبرے پن، چھچھورے پن، عداوت، قساوت، بزدلی، غلاظت، جھوٹ اور دھوکے بازی کو ہر جگہ شر اور ممنوعات میں شمار کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ جنہیں ہم اسلامی اقدار کہتے ہیں وہ درحقیقت انسانی اقدارِ اخلاق ہیں۔

خیر و شر میں تمیز اور ان کے ترک و اختیار پر قدرت ہی وہ بنیادی صفت ہے جو انسان کو دوسری ذی حیات مخلوقات سے ممتاز کرتی اور اسے اشرف المخلوقات کے بلند مرتبے پر فائز کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے انسان ایک اخلاقی وجود قرار پاتا ہے۔ جبکہ دوسری تمام مخلوقات جبلی کردار کے تابع ایک لگے بندھے ضابطے کے مطابق زندگی گزارتی ہیں۔ انسان کا یہ اخلاقی وجود ہی ہے جس کی تعلیم و تربیت، تزکیہ و رہنمائی اور حفاظت و سلامتی کے لیے انبیاءؑ کو مبعوث کیا گیا، کتابیں نازل کی گئیں، صحیفے اتارے گئے، اور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اس تعلیم و تزکیہ کی تکمیل کی گئی۔ حضور اکرمؐ کے مشن کا تعارف کراتے ہوئے قرآن حکیم ہمیں بتاتا ہے کہ:

’’ہم نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسولؐ بھیجا جو تمہیں ہماری آیات سناتا ہے، تمہارا تزکیہ نفس کرتا ہے، تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم جانتے نہ تھے۔‘‘ (البقرہ ۱۵۱)

گویا تزکیۂ نفس اور تطہیرِ اخلاق ہی وہ اصل کام ہے جس کے لیے حضور اکرمؐ اور آپ سے قبل کے تمام انبیاءؑ کو مبعوث فرمایا گیا۔ معمارِ حرم ابو الانبیاء حضرت ابراہیمؑ نے اسی کام کے لیے دعا فرمائی تھی کہ:

’’اے ہمارے رب! ان لوگوں میں خود انہی کے درمیان سے ایک رسولؐ اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور ان کا تزکیۂ نفس کرے، تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔‘‘ (البقرہ ۱۲۹)

اس مقتدر اور حکیم ہستی نے حضرت ابراہیمؑ کی دعا قبول فرمائی اور اس سے قبل کی محولہ بالا آیت میں، جو اَب دعا کے طور پر حضور اکرمؐ کی بعثت کا ذکر، عین اسی مشن کا صراحت کے ساتھ کیا جس کی تمنا حضرت ابراہیمؑ نے ظاہر فرمائی تھی۔ خود حضورؐ نے اپنی زبانِ مبارک سے اپنا تعارف کراتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق ’’مجھے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔ ایک اور حدیث میں یہی بات ان الفاظ میں کہی گئی ہے بعثت لاتمم حسن الاخلاق ’’مجھے حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔ یعنی تعمیرِ اخلاق کا جو کام حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت عیسٰیؑ تک مختلف انبیاء کرامؑ کرتے چلے آ رہے ہیں، میں اس کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔

اس پورے پس منظر میں اسلامی اقدار کے فروغ و تحفظ کا مطلب یہ ہے کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاشرے کو اخلاق کی جس بلند سطح پر پہنچایا اور چھوڑا تھا، وہ ہمارا آئیڈیل رہے۔ اور خود حضورؐ کی ذاتِ اقدس جسے قرآن نے اسوۂ حسنہ قرار دیا، ہماری نگاہوں کا مرکز بنی رہے۔ اسے مسلم معاشرے میں قیامت تک کے لیے مرکزِ حوالہ (Point of Reference) بنا دیا گیا ہے۔ اور آپؐ کے بعد مستقبل میں آنے والی تمام اسلامی حکومتوں کے لیے ایک مستقل لائحۂ عمل بھی طے کر دیا گیا ہے جو چار بنیادی نکات پر مشتمل ہے:

’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کو ہم زمین میں اگر تمکن و حکومت عطا کریں تو یہ نماز قائم کریں گے، زکٰوۃ ادا کریں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بدی سے روکیں گے۔‘‘

یہ لائحۂ عمل اسلامی ریاست میں تمام ذرائع ابلاغ کی سمت اور ان کے مقصد کا تعین کر دیتا ہے۔ ابلاغ کے معنی پھیلانے اور پہنچانے کے ہیں۔ اسلام نے طے کر دیا کہ پھیلانے اور پہنچانے کی چیز صرف معروف ہے۔ یہ ان ذرائع کا ایجابی اور فروغی (Positive and Promotive) کردار ہے۔ ان کا سلبی (Negative) اور دفاعی (Defensive) یا حفاظتی (Protective) کردار یہ ہے کہ منکرات کو دبانے اور مٹانے کا فریضہ انجام دیں۔ اسلامی اقدار پر جس سمت سے کوئی حملہ ہو اس کا منہ توڑ جواب دیں۔ گویا فروغِ خیر اور انسدادِ شر ان کا بنیادی کام ہے۔ ان ذرائع کو بالعموم رسمی (Formal) اور غیر رسمی (Informal) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ تعلیم کو رسمی، اور دیگر تمام سمعی و بصری ذرائع کو جو نظامِ تعلیم کے دائرہ سے باہر واقع ہوں غیر رسمی ذرائع شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تقسیم کسی بین الاقوامی اصول یا ضابطہ پر مبنی نہیں ہے۔

سیکولر معاشروں میں نظامِ تعلیم اور اخبارات و جرائد، ریڈیو، ٹیلیویژن اور دوسرے ذرائع میں باہم کوئی ربط و تعلق نہیں ہوتا۔ مذہب اور سیاست کی دوعملی کے زیراثر نظامِ تعلیم اور ذرائع ابلاغ بھی دو مختلف دائروں میں گردش کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن ایک نظریاتی ریاست میں رسمی اور غیر رسمی ذرائع کے درمیان ایک ربط و ہم آہنگی پائی جاتی ہے، بڑی حد تک یک رنگی دکھائی دیتی ہے۔ جو کچھ نصابی کتب کے ذریعے کلاس روم میں پڑھایا جاتا ہے اسی کی تعلیم لٹریچر، اخبارات و جرائد، ریڈیو اور ٹیلیویژن کے پروگراموں کے ذریعے دی جاتی ہے۔ تناقص اور تضادات سے مجموعی فضا کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کردار سازی میں تعمیر و تخریب کا عمل ساتھ ساتھ نہیں چلتا۔ معاشرہ جس فلسفۂ حیات پر قائم ہے اسے ہر ذریعۂ ابلاغ ذہن میں بٹھانے اور کردار و عمل کا جزو بنانے کی بڑی مربوط اور منظم کوشش کرتا ہے۔ اسی کے نتیجے میں کردار کی یکسانیت اور فکر کی یکجہتی ابھرتی اور افرادِ قوم کو متحد کرتی اور ایک دوسرے کا معاون بنا دیتی ہے۔

اسلام بھی اپنے زیرِ اقتدار معاشرے میں تمام ذرائع ابلاغ کو مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی ’’صبغۃ اللہ‘‘ یعنی اللہ کے رنگ میں رنگ دینے پر مامور دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلامی اقدار ایک اعلٰی اخلاقی کردار کا جزو اور اس کی تشکیل کا ذریعہ ہیں۔ یہ اسی صورت میں پروان چڑھ سکتی ہیں جب آنکھوں کے اشارے ہوں یا جسم کی حرکات، قلم اور برش کی نوک ہو یا کیمرے کی آنکھ، ریڈیو کی آواز ہو یا ٹی وی اسکرین، اخبارات کے صفحات ہوں یا رسالوں کے ٹائیٹل، افسانے اور ناول ہوں یا ڈرامے اور نغمے، خبروں کے متن ہوں یا ان کی سرخیاں، ان سب پر معروف اور منکر کا قرآنی ضابطۂ اخلاق نافذ ہو۔ اور رسمی و غیر رسمی تمام ذرائع ابلاغ اس مقصد کے تابع ہوں جس کی خاطر انبیاءؑ کو مبعوث کیا گیا۔ یعنی تعمیر و تکمیلِ اخلاق اور تزکیۂ نفس۔ خالص تفریحی پروگرام بھی اس سے مستثنٰی نہ ہوں۔ آخر عہدِ نبویؐ، دورِ خلافتِ راشدہ، اور بعد کے زمانوں میں زندگی کی تمام سرگرمیاں لطائف، تفریحات اور جمالیاتی اظہار کی مختلف صورتوں سے خالی نہیں تھیں، وہ جاری و ساری رہی ہیں۔ پھر آج اسے خارج از امکان کیوں سمجھ لیا گیا ہے؟

جس طرح ایک بد اخلاق شخص تطہیرِ اخلاق اور تزکیۂ نفس کا کام انجام نہیں دے سکتا، اسی طرح بے مہار ذرائع ابلاغ سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اسلامی اقدار کے فروغ و تحفظ کا کام انجام دے سکیں۔ اس نے خود ان ذرائع کے لیے ایک ضابطۂ اخلاق مقرر کیا ہے جس کی پابندی کے بغیر وہ مثبت اور تعمیری کردار ادا نہیں کر سکتے۔ اس ضابطۂ اخلاق کے چند بڑے بڑے اصول یہ ہیں:

(۱) حق گوئی

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات یا تمہارے والدین اور رشتے داروں ہی پر کیوں نہ پڑتی ہو، فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے، لہٰذا تم اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے نہ ہٹو، اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا، تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔‘‘ (النساء ۱۳۵)

(۲) شہادتِ حق

’’اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ، جو شہادت چھپاتا ہے اس کا دل گناہ سے آلودہ ہے، اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔‘‘ (البقرہ ۲۸۲)

(۳) کتمانِ حق سے گریز

’’باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور جان بوجھ کر حق کو چھپانے کی کوشش نہ کرو۔‘‘ (البقرہ ۴۲)

’’اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جس کے ذمہ اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے، اللہ تمہاری حرکات سے غافل تو نہیں ہے۔‘‘ (البقرہ ۱۴۰)

(۴) صاف اور سیدھی بات

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صاف اور کھری بات کیا کرو۔‘‘ (الاحزاب ۷۰)

(۵) بھلی بات

’’اور لوگوں سے ہمیشہ بھلی بات کیا کرو۔‘‘ (البقرہ ۸۳)

(۶) دعوت بطریق احسن

’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے سے جو ہر لحاظ سے بہترین ہو۔‘‘ (النحل ۱۲۵)

(۷) بہترین انسدادی تدبیر

’’برائی کو اس طریقے سے دفع کرو جو تمہارے نزدیک بہترین ہو۔‘‘ (المومنون ۹۶)

(۸) بدی کے بدلے نیکی

’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں، تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی ہے وہ جگری دوست بن گیا ہے۔‘‘ (حم السجدہ ۴۱)

(۹) امر بالمعروف، نہی عن المنکر

’’تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔‘‘ (آل عمران ۱۰۴)

(۱۰) احترامِ آدمیت

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد ایک دوسرے کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔‘‘ (الحجرات ۱۱)

(۱۱) غیبت سے گریز

’’اور تم ایک دوسرے کی برائی پیٹھ پیچھے نہ کیا کرو۔‘‘ (الحجرات ۱۲)

(۱۲) بدگمانی سے پرہیز

’’گمان کرنے سے پرہیز کیا کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔‘‘ (الحجرات ۱۲)

(۱۳) خواتین کے معاملے میں خصوصی احتیاط

’’جو لوگ پاک دامن بے خبر مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ وہ اس دن کو نہ بھول جائیں جب ان کی اپنی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے۔ اس دن اللہ انہیں بھرپور بدلہ دے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے سچ کو سچ کر دکھانے والا۔‘‘ (النور ۲۳ تا ۲۵)

(۱۴) شرطِ تحقیق

’’اس وقت تم کیسی سخت غلطی کر رہے تھے جب تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اس جھوٹ کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے چلے جا رہے تھے جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا، تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے جبکہ اللہ کے نزدیک یہ ایک بڑی بات تھی۔‘‘ (النور ۱۵)

’’اور اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو بے جانے بوجھے نقصان پہنچا دو اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔‘‘ (الحجرات ۶)

(۱۵) نجی زندگی کا تحفظ

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک گھر والوں سے اجازت نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیجو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے، توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ پھر اگر وہاں کسی کو موجود نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تمہیں اجازت نہ مل جائے، اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ، یہ تمہارے لیے پاکیزہ طریقہ ہے۔‘‘ (النور ۲۷، ۲۸)

(۱۶) کھوج کرید سے گریز

’’اور تجسس نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے؟ دیکھو تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔‘‘ (الحجرات ۱۲)

(۱۷) فحاشی اور بے حیائی سے گریز

’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والے گروہ کے اندر فحاشی پھیلے، وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔‘‘ (النور ۱۰۹)

’’اور فحاشی کے قریب ہرگز نہ پھٹکو خواہ وہ کھلی ہو یا چھپی۔‘‘ (انعام ۱۵۱)

’’اے بنی آدم! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اسی فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس ان کے جسم سے اتروا دیے تھے تاکہ ان کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے، وہ اور اس کے ساتھی تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے، ان شیاطین کو ہم نے ان لوگوں کا سرپرست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔‘‘ (الاعراف ۲۷)

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو، جو کوئی اس کی پیروی کرے گا وہ اسے فحاشی اور بدی پھیلانے کا حکم دے گا۔‘‘ (النور ۳۱)

(۱۸) نیکی میں تعاون

’’نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔‘‘ (المائدہ ۲۰)

(۱۹) بدی میں عدمِ تعاون

’’اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو، صرف اللہ سے ڈرو، اس کی سزا بہت سخت ہے۔‘‘ (المائدہ ۲۰)

(۲۰) مذہبی دل آزاری سے گریز

’’یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر جن معبودوں کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو۔‘‘ (الانعام ۱۰۸)

(۲۱) اظہارِ خیال میں شائستگی

’’اہلِ کتاب کے ساتھ بحث نہ کرو مگر احسن طریقے سے۔‘‘ (العنکبوت ۴۶)

یہ ضابطۂ اخلاق قرآنی آیات سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس میں احادیث نبویؐ اور اقوالِ خلفائے راشدینؓ و صحابہ کرامؓ کو بھی شامل کر لیا جائے تو ایک نہایت مفصل اور جامع ضابطہ مرتب کیا جا سکتا ہے، جس کی حدود میں کام کرنے والے ذرائع ابلاغ ہی اسلامی اقدار کے فروغ و تحفظ کے ضامن بن سکتے ہیں۔ یہ بات کہ اسلام کن اقدار کا فروغ و ابلاغ چاہتا ہے اور کن چیزوں کا انسداد و سدباب، کوئی تحقیق طلب مسئلہ نہیں ہے، مسلمانوں کا بچہ بچہ اور خواندہ و ناخواندہ فرد اس سے بخوبی واقف ہے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کو ان کا تابع اور پابند کیسے بنایا جائے؟

اس وقت اپنے کنٹرول کے لحاظ سے ذرائع ابلاغ تین دائروں میں منقسم ہیں:  سرکاری دائرہ، نجی ادارتی دائرہ، اور نجی انفرادی دائرہ۔ 

  1. ریڈیو، ٹیلیویژن اور حکومت کے زیراہتمام شائع ہونے والے تمام اخبارات و جرائد سرکاری کنٹرول میں  ہیں۔
  2. نجی اداروں کے تحت شائع ہونے والے اخبارات و جرائد پالیسی کے لحاظ سے اپنے مالکان کے کنٹرول میں ہیں۔
  3. تیسرا دائرہ جو سرکاری کنٹرول سے یکسر آزاد ہے یا آزاد رکھا گیا ہے، نجی کاروبار اور نجی رجحانات و میلانات اور ذوق و پسند کا وہ دائرہ ہے جس میں وی سی آر اور سمعی و بصری کیسٹوں، تصاویر اور کارڈوں کی فراوانی ہے اور جس نے اخلاقی زوال و انحطاط کو پستی کی انتہا پر پہنچا دیا ہے۔ ہمارے گھروں میں اسلامی اقدار و اخلاق کی تباہی اور فحاشی و بے شرمی کے فروغ میں ان ذرائع ابلاغ کا کردار سب سے نمایاں اور انتہائی تشویشناک ہے۔ بظاہر یہ ذرائع ’’ذرائع ابلاغ‘‘ (Mass Communication) کی تعریف میں نہیں آتے لیکن ان کا دائرہ گھر سے نکل کر چونکہ محلہ کی سطح پر دراز ہو چکا ہے اور ایک ایک فلم کو دیکھنے والوں کی تعداد سینما گھروں کے تماش بینوں کی تعداد کے مساوی ہو گئی ہے اس لیے یہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ذریعہ ابلاغ بن چکا ہے۔ اور پورے معاشرے کی اجتماعی صورت گری میں اس کے اثرات بہت ہمہ گیر ہیں، اس لیے اسے نجی دائرہ تک محدود سمجھنا درست نہیں ہے۔ ہم اپنے شہروں، قصبوں اور دیہات میں اگر آڈیو اور ویڈیو کیسٹوں کی دوکانوں کا سروے کریں، ملک میں وی سی آر کی مجموعی تعداد معلوم کریں اور ان کے سامعین و ناظرین کی تعداد جان سکیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ معاشرے پر اس کی گرفت کتنی وسعت اختیار کر چکی ہے اور بچوں، جوانوں، بوڑھوں، عورتوں اور مردوں کے کردار، ذہنی رویوں اور رجحانات و میلانات میں ان کے ذریعے کتنی بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔

مسلم معاشرے کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ سرکاری کنٹرول میں کارفرما ذرائع ابلاغ ہوں یا نجی اداروں اور انفرادی دائروں میں کام کرنے والے ذرائع ابلاغ، ان سب پر اباحیت پسند اور رند پرست طبقے کا قبضہ ہے۔ جس کے نزدیک اخلاقی اقدار کوئی اہمیت نہیں رکھتیں بلکہ یہ اقدار اس کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مفادات کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ خام مال اور مشینری کی حد تک سو فیصد اور مواد کی حد تک ہمارا ۴۰ فیصد انحصار بیرونی ممالک پر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مغربی ثقافت اور تہذیب کے اثرات ایک سیلاب کی صورت میں ہمارے معاشرے کو اپنی زد میں لیے ہوئے ہیں۔ ہمارا نظامِ تعلیم اور خاندان کے تربیتی مراکز اپنی اثر انگیزی کھو بیٹھے ہیں۔ اسلامی اقدار کی آبیاری کے لیے جو سازگار ماحول اور رسمی و غیر رسمی ذرائع ابلاغ کا مربوط، ہم آہنگ اور یکجہت تعاون درکار ہے، وہ مفقود ہے۔

اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمیں مختصر المیعاد اور طویل المیعاد اہداف کے تعین کی ضرورت ہے:

  • مختصر المیعاد اہداف میں ایک ایسی تحریکِ مزاحمت کی ضرورت ہے جو فحاشی اور عریانی کے خلاف تسلسل کے ساتھ جاری رکھی جا سکے۔ اور حکومت، صحافتی و طباعتی اداروں، ناشروں اور کاروباری اداروں پر پورا دباؤ ڈال کر انہیں راہ راست پر لانے کے لیے مجبور کر سکے۔ اور محلہ محلہ میں تطہیرِ اخلاق کی مہم چلا سکے۔
  • طویل المیعاد اہداف میں اس برسراقتدار گروہ سے نجات پانا شامل ہے جو فحاشی و عریانی کا محافظ و سرپرست اور اسلامی اقدار کی پامالی کا اصل ذمہ دار ہے۔ یہ تبدیلیٔ حکومت اور صالح افراد کے ہاتھوں میں زمامِ اقتدار کی منتقلی کا مسئلہ ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جانی چاہیے کہ اسلامی اقدار کے فروغ و تحفظ کے لیے ہم ذرائع ابلاغ کو محض وعظ و تلقین سے اپنا قبلہ درست کر لینے پر آمادہ نہیں کر سکتے۔

دین اور معاشرہ

(دسمبر ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter