دین خیر خواہی کا نام ہے

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

حضرت تمیم دارمیؓ (المتوفیٰ ۴۰ھ) سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ ہم نے کہا کس کی خیر خواہی؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی، اس کی کتاب، اس کے رسول، مسلمانوں کے حکام اور عام مومنوں کی خیرخواہی‘‘ (مسلم ج ۱ ص ۵۴)۔

صحیح ابو عوانہ (جلد ۱ ص ۳۷) میں ہے کہ آپ نے تین دفعہ ’’انما الدین النصیحۃ‘‘ کا جملہ دہرایا۔ اور اسی طرح ابوداؤد (جلد ۲ ص ۳۲۰) میں ہے۔

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ نصیحت اور خیر خواہی دین ہے۔ اس حدیث کی شرح اور تفسیر میں علمائے اسلام نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ بھی ملاحظہ کر لیں۔

امام ابو سلیمان احمد بن محمد الخطابی الشافعیؒ (المتوفیٰ ۳۸۸ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ

’’اللہ تعالٰی کے لیے نصیحت کا معنی یہ ہے کہ اس کی وحدانیت کے بارے میں اعتقاد صحیح ہو اور اس کی عبادت میں نیت خالص ہو۔ اس کی کتاب کے حق میں نصیحت یہ ہے کہ اس کی کتاب پر ایمان لائے اور جو کچھ اس میں درج ہے اس پر عمل کرے۔ اس کے رسول کی نصیحت کا یہ مطلب ہے کہ اس کی نبوت کی تصدیق کرے اور جس چیز کا انہوں نے حکم دیا اور جس چیز سے منع کیا ہے اس سلسلہ میں ان کی اطاعت کرے۔ اور ائمہ مسلمین کی نصیحت یہ ہے کہ حق کی بات میں ان کی فرمانبرداری کرے اور جب وہ ظلم پر کمربستہ ہوں تو ان کے خلاف تلوار لے کر خروج نہ کرے (یعنی ویسے زبانی جہاد کرے)۔ اور عامۃ المسلمین کی نصیحت یہ ہے کہ ان کے مصالح میں ان کی رہنمائی کرے۔‘‘ (معالم السنن ج ۷ ص ۲۷ طبع مصر)

اس کا مطلب یہ ہو اکہ لفظ نصیحت ایک ایسا جامع لفظ ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس سے لے کر عامۃ المسلمین تک ہر مقام پر حسبِ حال چسپاں ہوتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نصیحت اور خیرخواہی کو دین فرمایا ہے۔

حافظ زین الدین ابوالفرج عبد الرحمٰن ابن رجب الحنبلیؒ (المتوفٰی ۶۹۵ھ) اس حدیث کی شرح میں امام تقی الدین ابو عمرو عثمان المعروف بابن اصلاح الشافعیؒ (المتوفٰی ۶۴۳ھ) سے نقل کرتے ہیں کہ

’’نصیحت للہ یہ ہے کہ اس کی وحدانیت کا اقرار کیا جائے اور صفات کمال و جلال کے ساتھ اس کو موصوف سمجھا جائے، اور جو صفات ان کے برعکس ہیں ان سے اس کی ذات کو منزہ سمجھا جائے، اور اس کی نافرمانی سے گریز کیا جائے، اور اس کی اطاعت کی پابندی کی جائے، اور کمال اخلاص کے ساتھ اس کی محبت کی جائے، اور اس کی رضا کے لیے دوسروں سے محبت اور عداوت کی جائے، اور جو کافر باللہ ہے اس سے جہاد کیا جائے، اور جو امور ان کے مشابہ ہوں اور ان جملہ امور کی طرف دعوت دینا اور ان لوگوں کو آمادہ کرنا وغیرہ۔

اور نصیحت لکتابہ یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، اور اس کی تعظیم کی جائے، اور اس کو غلط تاویلات سے بچایا جائے، اور اس کی تلاوت کی جائے، اور اس کے اوامر و نواہی پر وقوف حاصل کیا جائے، اور اس کی آیات پر تدبر کیا جائے، اور اس کی طرف دعوت دی جائے، اور غالی لوگوں کی تحریف سے اس کی مدافعت کی جائے، اور ملحدوں کے طعن سے اس کو محفوظ کیا جائے۔

اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت اور خیرخواہی کا معنٰی بھی اس کے قریب قریب ہے کہ ان پر اور جو چیز وہ لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لائے، اور ان کی توقیر و تعظیم کی جائے، اور ان کی اطاعت پر پابندی کی جائے، اور ان کی سنت کو زندہ کیا جائے، اور آپ کے دشمنوں سے عداوت کی جائے، اور جو لوگ آپ سے اور آپ کی سنت سے محبت کرتے ہیں ان سے محبت کی جائے، اور آپ کے طور و طریق اور آداب کی پیروی کی جائے، اور آپ کی آل اور آپ کے اصحاب سے محبت کی جائے، اور اس کی مانند اور چیزیں عمل میں لائی جائیں۔

اور ائمۃ المسلمین کی نصیحت کا یہ مطلب ہے کہ حق میں ان کی امداد اور اطاعت کی جائے، اور نرمی اور شفقت کے ساتھ ان کو حق پر چلنے کی یاددہانی اور تنبیہ کی جائے، اور ان کی مخالفت سے کنارہ کشی کی جائے، اور ان کے حق میں توفیق کی دعا کی جائے، اور دوسروں کو اس پر آمادہ کیا جائے۔

اور عامۃ المسلمین کے حق میں نصیحت کا یہ مطلب ہے کہ ان کے مصالح میں ان کی رہنمائی کی جائے، اور ان کو دین و دنیا کے امور کی تعلیم دی جائے، اور ان کی پردہ پوشی کی جائے، اور ان کی حاجت براری کی جائے، اور ان کی دشمنوں کے مقابلہ میں امداد و مدافعت کی جائے، اور ان کے ساتھ مکر و حسد سے اجتناب کیا جائے، اور ان کے لیے وہی کچھ پسند کیا جائے جو اپنے لیے پسند کیا جاتا ہے، اور وہی کچھ ان کے لیے ناپسند کیا جائے جو اپنے لیے ناپسند کیا جاتا ہے، اور جو دیگر امور اس طرح کے ہوں۔‘‘

(جامع العلوم والحکم ص ۷۰ طبع مصر)

اس تفصیلی عبارت میں بھی نصیحت کا مطلب و مفہوم خوب آشکارا کیا گیا ہے اور اعلٰی ذات سے لے کر ادنٰی مخلوق تک کی ہمدردی اور بہی خواہی کا طریقہ بتلایا گیا ہے۔ امام محی السنۃ ابو زکریا یحیٰی بن شرف النووی الشافعیؒ (المتوفٰی ۲۷۶ھ) ’’النصیحۃ لکتابہ‘‘ کی شرح میں یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ

’’اور تلاوت میں اس کے حرفوں کو درستی کرنا، اور محرفین کی تاویل کی اس سے مدافعت کرنا، اور اس پر طعن کرنے والوں کے طعن کا رد کرنا، اور جو کچھ اس میں ہے اس کی تصدیق کرنا، اور اس کے احکام پر وقوف حاصل کرنا، اور اس کے علوم کو سمجھنا۔‘‘

اور ’’النصیحۃ لرسولہ‘‘ کی شرح میں ارقام فرماتے ہیں کہ

’’آپ کی رسالت کی تصدیق کرنا، اور تمام ان احکام پر ایمان لانا جو آپ (منجانب اللہ) لائے ہیں، اور آپ کے امر و نہی میں آپ کی اطاعت کرنا، اور آپ کی زندگی میں اور بعد از وفات مدد کرنا، اور آپ کے دشمنوں سے دشمنی کرنا، اور آپ کے دوستوں سے دوستی کرنا، اور آپ کے حق کو بڑا سمجھنا، اور آپ کی توقیر کرنا، اور آپ کے طریقہ اور سنت کو زندہ کرنا، اور آپ کی دعوت کو پھیلانا، اور آپ کی شریعت کی نشرواشاعت کرنا، اور آپ کی شریعت پر (ملحدین) کی تہمت کو دور کرنا۔‘‘

(نووی شرح مسلم جلد ۱ ص ۵۴)

ان اقتباسات کے پیشِ نظر دیگر امور کے علاوہ عامۃ المسلمین کی خیر خواہی اور ان کے رشد و ہدایت کی فکر دین ہے۔ کیونکہ جب صحیح دین اور قرآن و سنت کے مطابق اعمال ان کے سامنے پیش کیے جائیں گے اور غلط اور باطل امور کی نشاندہی کی جائے گی تو عوام کے حق میں یہ نصیحت اور خیرخواہی ہو گی۔ کیونکہ وہ اپنے عقائد و اعمال کو درست کریں گے اور راہ راست پر گامزن ہو کر تقرب خداوندی حاصل کریں گے اور عذابِ الٰہی سے نجات پائیں گے، اور ان کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر عمل پیرا ہو کر دنیا و آخرت کی خوشیاں نصیب ہوں گی اور آپ کی مخالفت سے بچ کر آتش دوزخ سے رستگاری ملے گی، اور حضراتِ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کا یہی محبوب مشغلہ تھا کہ وہ ہر وقت مخلوقِ خدا کی بھلائی اور ان کی خیرخواہی کو ملحوظ رکھتے تھے، اور ہر دور کے علمائے حق کا یہی فریضہ رہا ہے۔

دین اور معاشرہ

(جنوری ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter