مغربی تہذیب کی یلغار

محمد شمیم اختر قاسمی

مسلمانوں کے ساتھ میڈیا کا معاندانہ رویہ

عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ اور وسائل نے اتنی ترقی کی ہے کہ اور اس کا دائرۂ عمل اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ دنیا کا ہر گوشہ اس پر عیاں اور ہر جگہ اس کی پہنچ ہے۔ وہ جس واقعے کو جب اور جس وقت چاہے، اس کا واقعی یا خیالی پس منظر پیش کر سکتا ہے اور جس پر چاہے، پردہ ڈال سکتا ہے اگرچہ وہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو۔ بالخصوص امریکیوں کے پاس مسلمانوں کے خلاف میڈیا اور ذرائع ابلاغ کو چالاکی کے ساتھ پیش کرنے کے ایسے تمام نسخے موجود ہیں جس سے وہ مثلا اسامہ بن لادن کا سر کسی اور کے سر پر دکھا سکتے ہیں اور یہ ظاہر کر سکتے ہیں کہ اسامہ کسی عورت وغیرہ کو قتل کر رہا ہے۔ ان ذرائع کے اجارہ داروں کا یہ دعوی ہے کہ یہ سیکولرازم، آزادی رائے اور زندگی کے میدان میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے علم بردار ہیں۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کا یہ دعوی واقعہ کے بالکل خلاف ہے، کیونکہ ان کے علمی اور تہذیبی کردار سے وہی قدیم صلیبی ذہنیت اور اسلام دشمنی اور مغربیت کی برتری کے تصور کی جھلک نظر آتی ہے۔ ایسا ہی رویہ مسلمانوں کے ساتھ ملکی میڈیا کا بھی ہے اگرچہ اس کا تعلق صلیبی ذہنیت سے نہیں بلکہ سیاسی وسماجی اقدار سے ہے۔

اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور ان کے مابین انتشار پیدا کرنے کی جتنی بھی ترکیبیں ہو سکتی ہیں، وہ مغربی اور دیسی میڈیا استعمال کرتا ہے اور حقیقت واقعہ کو اس طرح سے توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے جس سے عوام بلکہ اسلامی ذہن رکھنے والے افراد بھی بلا چوں چرا اسے تسلیم کر لیتے ہیں اور بلا اختیار سر ہلاتے ہوئے ان کی زبان سے یہ جملہ نکل جاتا ہے کہ ’’ایسا ہی ہوگا’’۔ ایسی صورت میں اسلام اور مسلمانوں سے بد ظن ہونے میں کیا چیز مانع ہو سکتی ہے؟ درج ذیل واقعات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ میڈیا مسلمانوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے:

’’نیو یارک ٹائمز‘‘ نے ایسے اڑتالیس مقامات کی نشان دہی کی جن میں ۱۹۹۳ء میں انسٹھ نسلی تصادم ہوئے اور یہ بتایا کہ ان میں سے آدھے تصادم وہ ہیں جو مسلمانوں نے غیر مسلموں کے ساتھ کیے۔ (۱) یعنی مسلمانوں پر جو مظالم ہوئے، وہ بھی مسلمانوں ہی کے نامہ اعمال میں شمار کیے گئے۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ ایک رات ٹیلی وژن پر اسلامی حکومت یمن کے حالات، وہاں کی مساجد، طرز تعلیم، نماز ودیگر عبادات اسلامی کے طریقے دکھا ئے جا رہے تھے۔ ٹیلی وژن سرزمین یمن کے باشندوں کی محرومیت کا تفصیل سے ذکر کرتے کرتے اسلام کی طرف متوجہ ہوا اور بڑی چالاکی سے اسلام پر رقیق حملے شروع کر دیے کہ اس ملک کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑا روڑا اسلام ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کے قافلہ تمدن کو دو سو سال پیچھے کر دیا۔ ابتدائی مراحل میں توقف ، عقب نشینی یہ اسلام کا پروگرام ہے۔ آج کی دنیا میں پیدا ہونے والے مختلف انقلابات سے محرومی اسلام کی پیروی اور اس کے دستور کی پابندی کی وجہ سے ہے۔ (۲) ابھی چند دن قبل کی بات ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو پولیس نے راستے میں اٹھا لیا اور اس پر وہ تمام الزامات لگائے جو حال میں قرب وجوار میں بم بلاسٹ ہوئے جس کو ملکی میڈیا نے خوب اچھالا اور بڑھا چڑھا کر بیان کیا یہاں تک کہ یونیورسٹی کو دہشت گردی کا سب سے بڑا اڈہ قرار دیا۔ ایک سرکاری افسر نے اپنے تحریری بیان میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مبین نامی طالب علم بے گناہ ہے، ایک سوچھی سمجھی پالیسی کے تحت طالب علم کو گرفتار کیا گیا ہے اور اس طرح یونیورسٹی کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سرکاری افسر نے ان تمام ارکان کے اوپر سے نیچے تک نام گنوائے ہیں جو یہ سازش کر رہے ہیں۔ مگر میڈیا اس تمام تحریری بیان کو ہضم کر گیا۔

بی بی سی ورلڈ سروس واحد نشریاتی ادارہ ہے جو ۲۴ گھنٹے مختلف زبانوں اور موضوعات پر خبریں اور معلوماتی پروگرام نشر کرتا رہتا ہے۔ شائقین قبل از وقت ہاتھ میں ریڈیو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور ا س کی گوشمالی کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اس وقت تک نہیں چھوڑتے جب تک اس کی کان لال نہ ہو جائے کیونکہ وہاں سے نشر ہونے والی زیادہ تر چیزیں مبنی بر حقائق ہوتی ہیں۔ مگر وہ بھی جب اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے گفتگو کرتا ہے تو غیر منصفانہ رویہ اختیار کرتا ہے اور جہاں کہیں بھی کوئی واقعی یا محض خیالی کوئی ایسی بات نظر آتی ہے جس پر اعتراض کیا جا سکے، وہاں ان کے دل میں بد نیتی کی پر مسرت گدگدی ہونے لگتی ہے۔

قرآن وسنت، تاریخ اسلامی اور مسلمانوں کو ہدف بنا کر بے سروپا الزام عائد کیے جاتے ہیں۔ اسی دوران دوسرے سماج میں عورتوں اور نچلے طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد پر کتنا ہی ظلم ہو، وہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یورپ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں کھلے عام عورتوں کی عصمت دری کی جاتی ہے اور ہزاروں ناقابل رحم واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ بھارت میں ہر روز تین دلت عورتوں کی روزانہ عصمت دری کی جا تی ہے۔ اس پر کسی میڈیا کی انگلی نہیں اٹھتی۔ مگر جہاں کہیں مسلمان زوجین اور مسلم معاشرہ میں کوئی ناخوشگواری کی باتیں پیش آجاتی ہیں تو میڈیا لے اڑتا ہے اور غیر اسلامی افکار کے حامل اہل قلم حضرات اس پر اپنی قلمی توانائیاں صرف کرنے لگتے ہیں اور بغیر کسی رعایت اور پاسداری کے مسلمانوں کے مقدسات پر ان کے قلموں کی نوک کھل جاتی ہے۔ مشرق ومغرب کی ساری زیادتیاں خوبیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں، عورتوں کے استحصال کے واقعات اور زوجین کی کش مکش کی داستانیں خیالی معلوم ہونے لگتی ہیں۔ اس طرح کے جارحانہ ویک طرفہ معاندانہ اقدامات سے مسلمانوں کے جذبات کو کچلا جاتا ہے۔ اگر مسلمان ان کے خلا ف آواز بلند اور جہدوجہد کرتے ہیں تو ان پر سختی کی جاتی ہے اور انہیں دہشت گرد کے القاب سے نوازا جاتا ہے، یہاں تک کہ ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے اور طرح طرح کی دردناک سزائیں تجویز کی جاتی ہیں۔ ان کی آزائ رائے پر قدغن لگایا جاتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مغربی میڈیا اور مغربی حکومتیں اپنی تابع دار حکومتوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ مسلم عوام کو سختی سے کچل دیا جائے۔

جب کوئی بے ضمیر شخص اپنی شہرت یا مادی مفاد کی بنا پر کوئی ایسی بات کہتا ہے جو دشمنان اسلام کے فکر وخیال سے ہم آہنگ ہوتی ہے تو اسے غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ (اس کی بہترین مثال سلمان رشدی کی کتاب شیطانی آیات ہے) اور ساری دنیا کے مسلمانوں کو خاموش رہنے بلکہ اس کے پراگندہ خیالات کو قبول کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس کے خیالات کو اکتشافات کا درجہ دے کر ان کی عالمگیر تشہیر کی جاتی ہے اور اس کو دنیا کا اتنا بڑا ہیرو قرار دیا جاتا ہے کہ اس کے آگے عالمی فٹ بال اور کرکٹ کپ کا ہیرو بے وزن معلوم ہونے لگتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے دروازے ان کی حفاظت اور دفاع کے لیے کھل جاتے ہیں۔ (۳)

مشہور امریکی نقاد ایڈورڈ ڈبلو ساد اپنی کتاب ’’ذرائع ابلاغ اور اسلام‘‘ میں مغربی میڈیا کے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ معاندانہ رویہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:

’’آج کل امریکہ اور یورپ میں عام لوگوں کے لیے اسلام کا مطلب ایسی چیزیں ہیں جو خاص طور پر ناگوار خاطر ہیں۔ ذرائع ابلاغ، کومتیں اور دانش ور سب اس پر متفق ہیں کہ اسلام مغربی تمدن کے لیے خطرہ ہے۔ اسلام کی منفی باتیں دوسری باتوں کے مقابلے میں زیادہ رائج ہیں۔ اس لیے نہیں کہ اسلام سے ان کا کوئی واسطہ ہے بلکہ اس لیے کہ سوسائٹی کا ایک مقتدر طبقہ ان کو ایسا ہی گردانتا ہے۔ یہ طبقہ بڑا بااثر ہے اور اس نے اسلام کے اس منفی تصور کو پھیلانے کا ارادہ کر رکھا ہے۔‘‘ (۴)

’’میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ امریکہ میں ٹیلی وژن پر مقبول ترین اوقات میں شاید ہی کوئی پروگرام ہو جس میں نسلی عداوت شامل نہ ہو اور جہاں مسلمانوں کا مذاق نہ اڑایا گیا ہو اور جہاں مسلمانوں کو ’’جزک‘‘ کا نام دے کر برا بھلا نہ کہا گیا ہو۔ اسلام کے مقابلے میں امریکہ کی رائے عام یہ ہے کہ جو چیزیں انہیں ناپسند ہیں، وہ اسلامی ہیں۔‘‘ (۵)

ذرائع ابلاغ کی تباہ کاریاں

مغربی ذرائع ابلاغ نے انسانی دنیا کو کیا دیا، کیا سکھایا اور کن امور کے بجا لانے پر زور دیا؟ اس کی گہرائی میں ہم پہنچتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے دنیا کو جو کچھ ملا، ان میں سب سے زیادہ نقصان دہ چیز بے حیائی، عریانیت اور فحاشی ہے جس کے تباہ کن اثرات سے پوری دنیا دوچار ہے، یہاں تک کہ مغرب کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔

اسٹار، زی، سونی اور دیگر ٹی وی چینل ۲۴ گھنٹے دلربا منظر پیش کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ایجاد نے ہر گھر کو وہ سینما ہال بنا دیا ہے جہاں زیادہ تر گندی اور عریاں فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ اس کے دیکھنے میں بڑے اور بچے ، مرد اورعورتیں ، یہاں تک کہ باپ بیٹی، بھائی بہن سب برابر کے شریک اور ایک ساتھ بیٹھ کر مزے لے لے کر دیکھتے ہیں جس کے گندے مناظر سے روح کانپ جاتی ہے۔خوبصورت عورت کو منظر عام پر لاکر دعوت نظارہ دی جاتی ہے۔ اشتہار کے نام پر بڑی بے ہودگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ سیریل ایسے کہ عشق کی داستان اور تشدد کے واقعات سے اخلاقی حس مردہ ہو جائے۔ غرض کہ اخلاق سوز اور مجرمانہ ذہنیت پیدا کرنے والی چیزیں پیش کر کے بڑے پیمانے پر بگاڑ کا سامان کیا جاتا ہے۔ اس طرح سے ٹی وی، ریڈیو کانوں اور آنکھوں دونوں کے لیے لذت کا سامان بن گیا ہے۔ شوق کا یہ عالم کہ گھر میں بیوی سے پہلے ٹی وی آ جاتا ہے۔ مغرب کی بات تو چھوڑ دیجیے کیونکہ وہ اخلاقی جذام میں مبتلا ہے۔ اس وقت مسلم معاشرہ اور اسلامی مملکتیں بھی اس بیماری کا پوری طرح شکار ہو گئی ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ وہاں یہ وبا پھیل رہی ہے جس کی بنا پر نوجوانوں پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں جو محتاج بیان نہیں۔ کیا اس برائی کے ذمہ دار ہم خود نہیں ہیں؟ کم از کم مسلمانوں کو اس بات کی آزادی حاصل ہے کہ وہ ایسے گندے وسائل کو اپنے گھروں اور معاشرے میں داخل نہ ہونے دیں۔ اگر مسلمانوں کو اپنا تشخص برقرار رکھنا ہے تو چاہئے کہ وہ مغرب کی تقلید کرنا ترک کر دیں۔

تفریح کے لیے ہم سرحد پار کی اخلاق دشمن فلموں، گانوں اور عریاں ویڈیو پروگراموں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں اور خود ہمارا ٹی وی احساس کمتری کا شکار ہونے کے سبب سرحد پار کے پروگراموں کی نقل کو اپنی فن کاری سمجھتا ہے۔ اس صورت حال میں ایک حل تو یہ ہے کہ اگر آپ کے گھر میں ٹی وی یا ویڈیو ہے تو آپ دونوں کو زمین میں دفن کر دیں اور خود کو یہ سمجھا لیں کہ آپ نے میڈیا کے شیطان کے خلاف جہاد کا ثبوت پیش کر دیا ہے۔ لیکن ایسا کرنے کے باوجود آپ کے پڑوس میں ڈش پروہ سب کچھ آتا رہے گا جس سے بچنے کے لیے آپ نے اپنا ٹی وی اور ریڈیو زمین میں دفن کیا ہے اور خود آپ کے اپنے بچے اور پڑوس کے بچے شیطانی میڈیا سے متاثر ہوتے رہیں گے۔ دوسری شکل یہ ہے کہ آپ فنی کمال کے ساتھ متبادل پروگرام بنائیں جس میں ڈرامے بھی ہوں ،نغمے بھی ہوں، دستاویزی پروگرام بھی ہوں، گویا تعلیم وتفریح اور معلومات کو تعمیری اور اخلاقی نقطہ نظر سے ٹی وی اور ریڈیو پرنشر کیا جائے ، اور ایسا کرنا مسلمانوں کے لیے ناممکن نہیں ہے۔ یہ وہ طریقہ وہ ہوگا جسے قرآن کریم نے یوں کہا ہے کہ ’’بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں‘‘ (۶)

جنسی بے راہ روی کی تباہ کاریاں

عفت وپاک دامنی کسی بھی قوم اور معاشرے کا طرۂ امتیاز ہے۔ ہر شخص کا اس بات پر یقین ہے کہ عصمت ایک انمول موتی ہے جسے کبھی ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دفعتا اس حقیقت کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ یا پھر آزادئ نسواں کے علم بردار کارل مارکس اور اینجلز (۷) جیسے گمراہ کرنے والے انسانی درندے اسے رفتہ رفتہ ختم کر دیتے ہیں۔ اس دور میں عفت وپاک دامنی اپنی قدر وقیمت کھو چکی ہے۔ ہر جگہ اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ بالخصوص مغرب اس حریم سے بہت زیادہ تجاوز کر گیا ہے۔ ان میں سے اکثر اس نظریہ کے حامی ہو گئے ہیں کہ عورت اور مرد آخر حیوان ہی تو ہیں۔ کیا حیوانوں کے جوڑوں میں نکاح اور وہ بھی دائمی نکاح کا کوئی سوال پیدا ہو سکتا ہے؟ (۸) سڑکیں رنڈیوں سے خالی دکھائی دینے لگیں، اس خوف سے نہیں کہ پولیس کے ڈنڈے سے دوچار ہونا پڑے گا بلکہ آزاد خیال بے پردہ گھومنے والی لڑکیوں نے ان کے بازار کو ٹھنڈا کر دیا ہے۔ نشریاتی نظام ہر ملک کا ترجمان ہوتا ہے لیکن جب یورپ میں ایک ستم رسیدہ خاتون اپنے شوہر کی زیادتیوں سے تنگ آ کر وہاں سے حل تلاش کرنے کے لیے مشورہ طلب کرتی ہے تو اس سے یہ کہا جاتا ہے کہ ۲۸ سال سے قبل تم ایک یا کئی مردوں سے تعلقات قائم کر سکتی ہو۔ کیا اس طرح کے مشورے سے پریشانیوں کا حل نکل سکتا ہے؟

یوں تو عریانیت کے پھیلنے اور زناکاری کے عام ہونے کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان سب کا احصا طوالت سے خالی نہیں۔ مگر ان میں گندے فوٹو گراف، مخلوط تعلیم، فلم، تھیٹر اور ٹی وی کا اہم رول ہے۔ تعلیمی مراکز جہاں انسانیت کی ذہن سازی کی جاتی ہے، وہیں اس قسم کے جرائم روز افزوں ہیں اور اس کام کے لیے مستقل ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اس قسم کی تعلیم گاہوں، کالجوں، فرموں کے ٹریننگ اسکول اور مذہبی مدرسوں میں ہمیشہ اس قسم کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن میں ایک ہی صنف کے دو افراد آپس میں شہوانی تعلق رکھتے ہیں۔ (۹) اور جہاں مخلوط تعلیم کا انتظام ہے، وہاں اشتعال اور تسکین قلب دونوں کے اسباب موجود ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ مغربی ممالک کے اسکولوں اور دفاتر کے باتھ رومز میں مانع حمل آلات پہلے سے موجود ہوتے ہیں تاکہ تعلیم حاصل کرتے وقت یا کام کرنے کے دوران جنسی جذبات پیدا ہو جائیں تو خواتین وحضرات اور طلبہ وطالبات محفوظ طریقے سے اپنی سفلی خواہشات کی تکمیل کر سکیں۔

جج بن لنڈسے (Ben Lindsey) جنہیں ڈنور کی عدالت جرائم اطفال (Juvenile Court)کے صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے، انہیں امریکہ کے نوجوانوں کے اخلاقی حالات سے واقف ہونے کا بہت زیادہ موقع ملا۔ انہوں نے اپنی کتاب Revolt of Modern Youth (نوجوان نسل کی بغاوت) میں ایسی بہت ساری چیزوں کا ذکر کیا ہے جس سے مغربی نوجوانوں کے اندر سے اخلاقی حس مردہ ہو جانے کا ثبوتملتا ہے۔

امریکہ میں بچے قبل از وقت بالغ ہونے لگے ہیں اور بہت کچی عمر میں ان کے اندر منفی احساسات پیدا ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے نمونہ کے طور پر ۳۱۲ لڑکیوں کے حالات کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ان میں ۲۵۵ ایسی تھیں جو گیارہ اور تیرہ برس کے درمیان میں بالغ ہو چکی تھیں اور ان کے اندر ایسی منفی خواہشات اور ایسے جسمانی مطالبات کے آثار پائے جاتے تھے جو ایک ۱۸ برس اور اس سے بھی زیادہ عمر کی لڑکیوں میں ہونے چاہئیں۔ (۱۰) وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہائی اسکول کی کم عمر لڑکیاں جنہوں نے خود مجھ سے اقرار کیا کہ ان کو لڑکوں سے صنفی تعلقات کا تجربہ ہو چکا ہے، ان میں صرف ۲۵ ایسی تھیں جن کو حمل ٹھہر گیا تھا۔ باقی میں سے بعض تو اتفاقا بچ گئی تھیں لیکن اکثر کو منع حمل کی موثر تدابیر کا کافی علم تھا۔ یہ واقفیت ان میں اتنی عام ہو چکی ہے کہ لوگوں کو اس کا صحیح اندازہ نہیں۔ (۱۱) اس کے بعد فاضل مصنف لڑکے اور لڑکیوں کے مابین جنسی خواہشات کا تقابل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ہائی اسکول کا لڑکا بمقابلہ ہائی اسکول کی لڑکی کے جذبات کی شدت میں بہت پیچھے ہے۔ عموما لڑکی ہی کسی نہ کسی طرح پیش قدمی کرتی ہے اور لڑکا اس کے اشاروں پر ناچتا ہے۔ (۱۲)

۱۹۹۳ء میں امریکی حکومت کے ایک سروے کے مطابق امریکہ میں ایک سال کے اندر ۱۴ لاکھ بارہ ہزار شادیاں قانونی طور پر منعقد ہوئیں۔ ۳ ماہ بعد ہی ان میں سے ۲ لاکھ ۹۲ ہزار کا انجام طلاق پر ہوا۔ تقریبا ۷۵ فی صد شادی شدہ مرد اور خواتین اپنے شریک حیات کے ساتھ بے وفائی کے مرتکب ہوتے ہیں جو ان شادیوں کی ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔ امریکہ کی آبادی میں تقریبا دو کروڑ افراد ہم جنس پرستی کی لعنت میں مبتلا ہیں۔ ۱۶ برس سے لے کر ۱۹ برس تک کی لڑکیاں جنسی حملوں کا نشانہ بنتی ہیں جن میں اکثر اپنے انتہائی قریبی رشتہ داروں یعنی باپ، بھائی وغیرہ کی ہوس کا شکار بنتی ہیں۔ امریکی ہفت روزہ انکوائرز کی ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۹۹ء میں تقریبا ۹ لاکھ خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں جبکہ ان وارداتوں کے ۶۰ فی صد ملزمان گرفتار بھی نہ ہو سکے۔ (۱۳) روزنامہ جنگ کی اطلاع کے مطابق ہر ۲۷ ویں سیکنڈ میں ایک کم عمر لڑکی ماں بن جاتی ہے۔ ہر ۴۷ویں سیکنڈ میں ایک بچی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔ (۱۴) مسز بل کلنٹن نے ۱۹۹۵ء میں اسلام آباد میں ایک کالج کی طالبات سے گفتگو کے دوران بڑی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی نوجوان لڑکیوں کا سب سے بڑا مسئلہ قانونی طور پر منعقد شادی سے قبل ہی ماں بن جانا ہے۔ (۱۵)

امریکہ کے علاوہ دیگر مغربی ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ مثلا برطانیہ میں دس فیصد خاندان بغیر باپ کے پائے جاتے ہیں۔ ۷۰ فی صدلڑکے اور لڑکیاں ایسے ہیں جن کو ان کے محبوب یا منگیتر نے موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ یہاں میاں بیوی کے تعلقات کچے دھاگوں میں بندھے ہوتے ہیں جو ذرا سی بات پر طلاق پر منتج ہوتے ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے ۷۶ فی صد طلبہ وطالبات شادی کے بغیر جنسی تعلقات قائم کرنے کے حق میں ہیں۔ ۲۴ فی صد طالبات نے تسلیم کیا ہے کہ وہ یہاں آنے کے بعد کنواری نہیں رہتیں اور اب بھی ان کے باقاعدہ جنسی تعلقات ہیں۔ ۲۵ فی صد طالبات مانع حمل گولیاں استعمال کرتی ہیں۔ ۲۱ فی صد طلبہ وطالبات فحش وعریاں جرائد خریدتے ہیں۔ ۳۸ فی صد طلبہ وطالبات ہم جنسی کے قائل ہیں۔ (۱۶)

ایک جامعہ کی سروے رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا میں ۶ ہزار سے زائد بچے جن کی عمر ۱۸ برس سے کم ہے، اپنے علاج، خوراک، رہائش، شراب اور سگریٹ کے حصول کے لیے اپنا جسم فروخت کرتے ہیں جبکہ وہاں کی حکومت ان کو اس حالت زار سے نکالنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ (۱۷)

ایک امریکی جریدہ مغربی ممالک میں اخلاقی حس کے مردہ ہو جانے اور بے حیائی وزنا کاری کے عام ہونے کی وجوہات پر ماتم کرتے ہوئے لکھتا ہے

’’تین شیطانی قوتیں ہیں جن کی تثلیث آج ہماری دنیاپر چھا گئی ہے اور یہ تینوں ایک جہنم تیار کرنے میں مشغول ہیں۔ فحش لٹریچر جو جنگ عظیم کے بعد سے حیرت انگیز رفتار کے ساتھ اپنی بے شرمی اور کثرت اشاعت میں بڑھتا جا رہا ہے۔ متحرک تصویریں جو شہوانی محبت کے جذبات کو نہ صرف بھڑکاتی ہیں بلکہ عملی سبق دیتی ہیں۔ عورتوں کا گرا ہو ااخلاقی معیار جو ان کے لباس اور بسا اوقات ان کی برہنگی اور سگریٹ کے روز افزوں استعمال اور مردوں کے ساتھ ان کے ہر قید وامتیاز سے ناآشنا اختلاط کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ تین چیزیں ہمارے یہاں بڑھتی جا رہی ہیں اور ان کا نتیجہ مسیحی تہذیب ومعاشرت کا زوال اور آخر کار تباہی ہے۔‘‘ (۱۸)

اسی اخلاقی بگاڑ کو دیکھ کر سیوا سماجی رہنما پاول کہتا ہے: اگر یورپ صرف زنا سے بچ جائے تو اس کے سارے مسائل میں حل کر دوں گا۔ اس سلسلے میں یورپ کے عوام اقدام بھی کر رہے ہیں کہ کسی طرح اس اخلاقی بگاڑ کا سد باب ہو سکے مگر اب تک خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ مثلا فرانس کی راج دھانی پیرس کے دی پوائنٹ نے ایک سروے کیا تھا جس کی رو سے ۶۸ فی صد شہریوں نے امریکی کلچر کے بڑھتے ہوئے اثرات پر تشویش ظاہر کی تھی اور اسے روکنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ چائنا نے جو امریکہ کی نگاہ میں اسلام کے بعد دوسرا بڑا دشمن ہے، ۱۹۹۷ء میں اپنے مشرقی صوبہ گوانگ ڈونگ میں مغربی فحاشی کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم چلائی۔ بیس ہزار فحش رسائل اور ۵۶ ہزار گندے کیسٹ ضبط کیے۔ (۱۹)

بے حیائی کی یہ دنیا ہے جہاں کسی کی عزت محفوظ نہیں اور مغرب سے بے حیائی کی ہوا جب چلتی ہے تو سیدھے اسلامی معاشرہ پر آکر تھمتی ہے۔ ان کے اصول زندگی اور عادات واطوار کو قبول کر لینا مسلم معاشرہ میں امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ عمومالڑکیوں کی آخری خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ فلم، تھیٹر اور فلم کی زندگی اختیار کر لیں۔ ا س امنگ کی تکمیل کے لیے وہ ہر قربانی دینے کو تیار رہتی ہیں۔ ان کی ایک خا ص تعداد اپنے آپ کو فلم پروڈیوسرز اور ڈائریکٹروں کی ہوس رانیوں کے حوالے کر کے بے نیل مرام ختم ہو جاتی ہیں۔ یہ ابتدائی مرحلہ ہے۔ اس کے بعد وہ کیا کچھ نہیں کرتیں ،آپ سوچ سکتے ہیں۔ جبکہ قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولا معروفا (الاحزاب ۳۲) (نرمی سے بات نہ کرو، کہیں وہ لوگ کسی توقع میں مبتلا نہ ہو جائیں جن کے دلوں میں بیماری ہے۔ بھلے طریقے سے بات کیا کرو) کیا اسلام اس بات کو پسند کر سکتا ہے کہ لڑکیاں بینکوں کی کلرک، فضائی میزبان، ریستوران میں خدمت گار، مغنیات، رقاصائیں ،فلم، ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر اداکار بنی ہوئی نظر آئیں؟ ہرگز نہیں۔

لڑکیوں کے سر سے پردہ غائب ہوئے عرصہ ہو گیا۔ اگر کسی کے سر پر دوپٹہ نظر آتا ہے تو بس گلے کی ٹائی کی حد تک۔ جسم پر کپڑے اتنے باریک اور چست ہوتے ہیں کہ جیسے کسی نے تھرمامیٹر سیٹ کر دیا ہو جو جسم کے ہر ظاہری ومخفی حصے کی حرکات وسکنات کا پتہ دیتا ہو۔ یہ اس لیے ہو رہا ہے کہ مغربی ڈرامے کا سین ہمارے سامنے ہے۔ نئے کلچر کے نام پر وحشت کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ گھروں کے خیمے اکھڑ رہے ہیں، بازاروں کی رونق بڑھ رہی ہے، پارک آباد ہو رہے ہیں، ہوٹل گھر بن رہے ہیں۔ اکبر کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہو رہی ہے۔ اپ ٹو ڈیٹ اور ماڈرن شرفا کی عمریں ترقی یافتہ ممالک اور ہوٹلوں میں کٹ رہی ہیں۔ وہ مرتے ہیں ہسپتالوں کے بستروں پر، دریا کے کنارے صحت افزا جھونپڑیوں میں اور ریٹ کے بستروں پر بحر محبت موجیں مار رہا ہے اور ساحلوں سے انسانیت کے بکھرے ہوئے اور بچے ہوئے خس وخاشاک بہائے لیے جا رہا ہے۔ یہ صرف آزادئ نسواں کا کرشمہ ہے۔ اب Women's Empowerment کا ہائیڈروجن بم پھٹے گا تو انسانیت کے ذرات فضاؤں میں اڑیں گے جیسا کہ مغربی تہذیب کے تنکے مشرق کے سمعی وبصری ذرائع (Audio Visual Media) پر ٹیلی ویژن اور بھیانک وی سی آر کے ہاتھوں گھر گھر میں اڑ رہے ہیں اور گویا پورا گھر خواب گاہ (Bed Room) بنا ہوا ہے۔ (۲۰)

اجتماع ومعاشرت اور سوشل زندگی میں مغربی طریقوں کی پیروی اور ان کے اصول زندگی اور طرز معاشرت کو قبول کر لینا اسلامی معاشرے میں بڑے دور رس نتائج رکھتا ہے۔ اس وقت مغرب ایک اخلاقی جذام میں مبتلا ہے جس سے اس کا جسم برابر کٹتا اور جلتا چلا جا رہا ہے اور اب اس کا تعفن پورے ماحول میں پھیل چکا ہے۔ اس مرض جذام کا سبب اس کی جنسی بے راہ روی اور اخلاقی انارکی ہے جو بہیمیت وحیوانیت کے حدود تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن اس کیفیت کا بھی حقیقی اور اولین سبب عورتوں کی حد سے بڑھی ہوئی آزادی، مکمل بے پردگی، مرد وزن کا غیر محدود اختلاط اور شراب نوشی ہے۔ کسی اسلامی ملک میں اگر عورتوں کو ویسی ہی آزادی دی گئی، پردہ یکسر اٹھایا گیا، دونوں صنفوں کے اختلاط کے آزادانہ مواقع فراہم کیے گئے، مخلوط تعلیم جاری کی گئی تو اس کا نتیجہ اخلاقی انتشار اور جنسی انارکی، سول میرج، تمام اخلاقی ودینی حدود واصول سے بغاوت اور بالآخر اس اخلاقی جذام کے سوا کچھ نہیں جو مغرب کو ٹھیک انہی اسباب کی بنا پر لاحق ہو چکا ہے۔ ان اسلامی ملکوں میں جہاں مغربی تہذیب کی پرجوش نقل کی جا رہی ہے اور جہاں پردہ بالکل اٹھ گیا ہے اور مرد وزن کے اختلاط کے آزادانہ مواقع حاصل ہیں، پھر صحافت، سینما، ٹیلی ویژن، لٹریچر اور حکمران طبقہ کی زندگی اس کی ہمت افزائی بلکہ رہنمائی کر رہی ہے، وہاں اس جذام کے آثار وعلامات پوری طرح ظاہر ہونے لگے ہیں اور یہ قانون قدرت ہے جس سے کہیں مفر نہیں۔ (۲۱)

جس معاشرے میں اخلاقی اور سماجی برائیاں ہوں گی، وہ خواہ کتنا ہی دولت مند اور با اثر ہو، اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے۔ اس میں پائیداری نہیں ہوتی کیونکہ معاشرتی اصول ناپید ہوتے ہیں۔ آج کل کے مغربی معاشرے اور سوسائٹی میں اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے اور معاشرتی وسماجی اصول جو روندے جا رہے ہیں، اس کی وجہ سے اس قوم کا اخلاق بہت بگڑ چکا ہے۔ اسلام نے چند بنیادی اصول مقرر کر دیے ہیں جن کے اندر رہ کر معاشرہ ترقی پذیر ہو سکتا ہے۔ ان سے باہر نکلنا اخلاق وانسانیت کی موت کے مترادف ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، زناکار مرد اور زناکار عورتوں کے لیے پتھر ہے۔ عورتوں کے بارے میں خدا سے ڈرو، تمہارے حق عورتوں پر ہے اور عورتوں کے تم پر ۔ اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیونکہ وہ بھی تمہاری طرح خدا کی بندیاں ہیں۔ لڑکا اس کا جس کے بستر پر پیدا ہو۔ جو لڑکا اپنے باپ کے علاوہ کسی اور سے نسبت کرے، اس پر خدا اور رسول اور فرشتوں کی لعنت ہے۔

مغربی علوم و فنون اور مسلمان

صلیبی جنگوں میں شکست کھانے کے بعد انگریزوں نے اسلامی مصادر کی جڑوں کو متزلزل کرنے کا منصوبہ بنایا اور مسلمانوں کو دین حنیف سے گمراہ کرنے کی بڑے پیمانے پر سازش کی۔ حصول تعلیم کے سلسلے میں ضرورت سے زیادہ سہولت فراہم کر کے مسلم طلبہ کو غلط کیریکٹر اور غیر اسلامی افکار کے حامل بنانے پر زور دیا۔ چنانچہ جو مسلم طلبہ انگریزی جامعات سے تعلیم حاصل کر کے نکلے، ان کے اندر ایمانی بصیرت اور خوف آخرت کا فقدان ہوتا ہے۔ مغربی جامعات میں حصول تعلیم کے بعد جو طلبہ اپنے دین پر اسی طرح قائم رہے جیسا کہ اس دین کا تقاضا ہے تو ان کی تعداد بہت ہی کم ہوتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب صورت حال ایسی ہو تو اس ترقی کے دور میں جہاں ہر جگہ مغربی طرز تعلیم اور سائنسی اکتشافات کا استقبال کیا جا رہا ہے، ہر جگہ اس کا جال پھیلا ہوا ہے، ہر میدان میں انہی علوم وفنون کو برتری حاصل ہے، اس کی سائنس نے اتنی ترقی کی ہے کہ گھنٹوں کے مشکل کام کو منٹوں میں آسان بنا دیا ہے۔ تو مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟ ان علوم وفنون اور سہولیات سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانا چاہئے کہ نہیں؟ ایک صورت تو یہ ہے کہ مسلمان ابھی مغربی تعلیم ونظریات کو جوں کا توں قبول کر لے، اس صورت میں اس تعلیم کے جو نتائج اذہان وقلوب اور معاشرے پر منتج ہوں گے، وہ محتاج بیان نہیں۔ سابقہ بیان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مغربی طرز تعلیم اور سائنسی اکتشافات وایجادات کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے۔ اس صورت میں مسلمان اپنے منصب پر قائم نہیں رہ سکتے کیونکہ اللہ تعالی نے اسے خیر امت کے نام سے خطاب کیا ہے اور پھر مسلمان ایسی صورت میں اپنی ضرورت کو حل کیسے کریں گے؟ جبکہ ہمارے دینی جامعات میں ان علوم وفنون کے حصول کا انتظام کالعدم ہے۔ وہاں جن علوم پر زور دیاجاتا ہے، معاصرزمانہ کے تحت ہمارے ضرورت کے حل کے لیے ناکافی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک پیچیدگی کا حل مفتی محمد ظفیر الدین صاحب مفتی دار العلوم دیوبند کے اس بیان سے نکالا جا سکتا ہے۔

’’اگر مدارس دینیہ میں نئے اکتشافات اور جدید ایجادات کی تعلیم نہیں دی جاتی، اگر سائنس نہیں پڑھائی جاتی، یا سرمایہ کی کمی کی وجہ سے اس طرح کے دوسرے کام نہیں ہو سکتے تو اتنا تو ہو سکتا ہے کہ یہاں جو مضامین پڑھائے جاتے ہیں، ان میں ہمارے نوجوان علما باکمال ہوں۔ اسی کے ساتھ مدارس کو جس حد تک حالات وزمانہ کے مطابق آگے لے جایا جا سکتا ہے، لے جانا چاہئے۔ نئے زمانہ کی اچھی چیزوں کو خوش آمدید کہنا اور اپنانا گناہ نہیں، کار ثواب ہے۔ یہ مسلمانوں کی گم شدہ متاع ہے، جہاں بھی مل جائے لے لینی چاہئے۔ ا س پر بدعت کا حکم لگا کر کنارہ کش ہونا دانش مندی نہیں۔ خوب یاد رکھا جائے اچھی چیزوں کو اپنانا ترکہ ہے، سرقہ نہیں۔‘‘ (۲۲)

یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ سائنسی علوم وفنون اور ایجادات کو مغربی اثاثہ قرار دیتے ہیں جب کہ یہ مسلم دانش وروں اور سائنس دانوں کی میراث ہے جس سے مسلمانوں نے مدت العمر تک لاپروائی برتی، خالی میدان دیکھ کر اہل مغرب آ دھمکے اور اسے اچک لیا اور مسلمانوں کو اپنا دست نگر بنا دیا۔ اگر ہم اسلام کے اصول پر قائم رہ کر حصول علم اور تحقیق کا فریضہ ادا کرتے تو آج ہمیں جدید علوم وفنون کے لیے یورپ کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہ پڑتی حالانکہ قرآن نے لعکم تعقلون، لعلکم تتفکرون، لعلکم تشعرونکے الفاظ استعمال کر کے مسلمانوں کو سائنسی علوم کے حصول کی طرف ابھارا ہے، جیسا کہ علامہ اسد لکھتے ہیں

’’تاریخ سے بلا کسی اشتباہ کے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے سائنسی ترقی کو جتنا ابھارا ہے، اتنا کبھی کسی اور مذہب نے نہیں کیا۔ اسلامی دینیات سے علوم وفنون اور سائنسی تحقیق کی جو ہمت افزائی ہوئی، اس کا نتیجہ بنو امیہ اور بنو عباس اور ہسپانیہ کی عرب حکومت کے دور کی شاندار تہذیبی ترقیوں کی شکل میں ظاہر ہوا۔‘‘ (۲۳)

دوسری شق کا جواب ہمیں حضور ﷺ کے اس حکم سے مل جاتا ہے کہ آپ نے کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ کو کسی خاص مقصد کے تحت یہودیوں کی زبان سیکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ دینی جامعات میں بھی دیگر فنون کی طرح ایک شعبہ انگریزی زبان وادب کی افہام وتفہیم کے لیے قائم کر کے مسلم طلبا کو انگریزی زبان وادب کا ماہر بنایا جائے۔ اس طرح ضرورت کی تکمیل ہو سکتی ہے اور خیر امت کا فریضہ بھی انجام پا سکتا ہے۔ بقول سرسید

’’مسلمانوں کی تعلیم کا طریقہ دو قسم کا ہونا چاہئے۔ ایک وہ جس کو مسلمان خود قائم کریں جس سے ان کے تمام دینی ودنیاوی مقاصد انجام پائیں۔ دوسرے وہ جس سے مسلمان ان اصول سے جو گورنمنٹ نے قائم کیے ، فائدہ اٹھائیں‘‘ (۲۴)

اب رہا مسئلہ عام اسکولوں کی تعلیم کا جو مسلمانوں کی نگرانی میں چلتے ہیں، جہاں دینیات کی تعلیم کا فقدان اور تربیت اسلامی کا معقول انتظام نہیں ہے اور سارا زور معاصر زمانہ علوم پر ہی دیا جاتا ہے تو یہ ہماری کمزوری ہے نہ کہ معاصر زمانہ تعلیم کی خرابی۔ اس سلسلے میں یہ حدیث پیش کرنے کے علاوہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ وینصرانہ ویمجسانہ (۲۵) (ہر بچہ خالص فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ اس کے والدین ہوتے ہیں جو اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں) اس حدیث کو ذہن میں رکھ کر انگریزی تعلیم کے فوائد ونقصانات سے متعلق مزید باتیں سوچی جا سکتی ہیں۔


حواشی

(۱) اسلام اکیسویں صدی میں‘ ص ۳۳

(۲) مغربی تمدن کی جھلک‘ ص ۴۴

(۳) ماہنامہ الحق‘ اکوڑہ خٹک

(۴ و۵) ذرائع ابلاغ اور اسلام‘ بحوالہ معرکہ اسلام اور جاہلیت‘ مولانا صدر الدین اصلاحی‘ ص ۲۰۳

(۶) ماہنامہ ترجمان القرآن‘ لاہور‘ اگست ۲۰۰۰‘ ص ۶۸

(۷) اسلام ایک نظریہ ایک تحریک‘ مریم جمیلہ۔ مترجم‘ آماد شاہ پوری‘ ص ۳۰۷

(۸ و۹) پردہ‘ سید ابو الاعلی مودودی‘ ص ۴۷

(۱۰) سنت نبوی اور جدید سائنس‘ حکیم طارق محمود چغتائی‘ ج ۱‘ ص ۳۰۷

(۱۱) پردہ ‘ سید مودودی

(۱۲) سنت نبوی اور جدید سائنس‘ ج ۱ ‘ ص ۳۰۱

(۱۳) ہفت روزہ اکانومسٹ‘ اکتوبر ۱۹۹۴ء‘ بحوالہ ترجمان القرآن‘ مئی ۲۰۰۰ء

(۱۴) رو زنامہ جنگ لندن‘ ۲۸ اپریل ۱۹۸۷ء۔ بحوالہ سنت نبوی اور جدید سائنس ج ۲‘ ص ۶۵

(۱۵)ایضا‘ ۲۵ مارچ ۱۹۹۵ء‘ بحوالہ ترجمان القرآن لاہور‘ مئی ۲۰۰۰ء

(۱۶) ایضا‘ ۵ مارچ ۱۹۹۰ء‘ بحوالہ سنت نبوی اور جدید سائنس‘ ج ۲‘ ص ۶۴

(۱۷) روزنامہ نوائے وقت‘ ۴ جنوری ۲۰۰۰ء

(۱۸) پردہ‘ سید مودودی

(۱۹) اسلام اکیسویں صدی میں‘ ص ۳۷‘ ۳۸

(۲۰) ترجمان القرآن‘ اپریل ۲۰۰۰‘ ص ۴۹

(۲۱) مسلم ممالک میں اسلام اور مغربیت کی کشمکش‘ ابو الحسن علی ندوی‘ ص ۲۳۹

(۲۲) ماہنامہ ارمغان‘ دعوت اسلام نمبر‘ جنوری فروری مارچ ۱۹۹۸ء‘ ص ۱۱۹

(۲۳) اسلام دوراہے پر‘ ص ۶۳

(۲۴) حیات جاوید‘ الطاف حسین حالی

(۲۵) بخاری شریف‘ باب ما قیل فی اولاد المسلمین‘ ص ۱۸۵‘ کتب خانہ رشیدیہ دہلی

(بشکریہ ماہنامہ دار العلوم دیوبند، انڈیا)

عالم اسلام اور مغرب

(اپریل ۲۰۰۱ء)

اپریل ۲۰۰۱ء

جلد ۱۲ ۔ شمارہ ۴

تلاش

Flag Counter