فہم قرآن کے ذرائع ووسائل

محمد عمار خان ناصر

قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا، اس لیے اس کے فہم کی اولین شرط عربی زبان کا مناسب علم ہے۔ لیکن محض عربی زبان کا علم فہم قرآن کے لیے کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ قرآن کے نظم، اس کے زمانہ نزول کے حالات، کتب سابقہ اور حدیث وسنت کا علم بھی فہم قرآن کے لیے لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ ذیل میں ہم فہم قرآن کے ان ذرائع کی تفصیل پیش کرتے ہیں۔

قرآن کا نظم

کسی بھی کلام کے صحیح مفہوم کی تعیین میں اس کے نظم اور سیاق وسباق کی رعایت ایک بنیادی شرط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی متکلم جب کلام کرتا ہے تو وہ بات کے تمام اجزا کو الفاظ میں بیان نہیں کرتا بلکہ ایسی بیشتر باتوں کو حذف کر دیتا ہے جن کو اس کا مخاطب اپنے سابق علم، متکلم کے ساتھ اپنے تعلقات ، اس کے لہجے، کلام کی ترتیب اور اس ماحول کی روشنی میں سمجھ سکتا ہے جس میں کلام کیا جا رہا ہے۔ یہ تمام لواحق کلام کے صحیح فہم کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور کسی بھی کلام کو اگر اس کے ان لواحق سے ہٹا کر پیش کیا جائے تو اس بات کا غالب امکان ہے کہ نہ صرف متکلم کی منشا کا درست ابلاغ نہ ہو پائے گا بلکہ بعض صورتوں میں کلام کا مفہوم متکلم کی مراد کے بالکل الٹ لے لیا جائے گا۔

اس عام عقلی اصول کا اطلاق کتاب اللہ پر بھی ہوتا ہے۔چنانچہ دیکھئے:

صحیح مفہوم کی تعیین

قرآن مجید میں بہت سے مقامات ایسے ہیں کہ جن میں اگر سیاق وسباق کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو آیات کا انفرادی مفہوم خبط ہو کر رہ جاتا ہے۔ گمراہ فرقوں نے بیشتر اسی طریقے سے اپنی گمراہیوں کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

مثلا سورۃ البقرہ میں ارشاد ہے :

ان الذین آمنوا والذین ھادوا والنصاری والصابئین من آمن باللہ والیوم الاخر وعمل صالحا فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔

بے شک جو لوگ ایمان لائے اور یہود ونصاری اور صابئین، ان میں جو بھی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، ان کو ان کے رب کے ہاں اپنا اجر ملے گا اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (۱)

ملحدین نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ نجات کے لیے رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا ضروری نہیں بلکہ اس کا مدار ایمان باللہ ، ایمان بالآخرۃ اور اعمال صالحہ پر ہے ۔ لیکن اگر اس آیت کے سیاق کو دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوگا کہ یہ ان عقائد کی تفصیل بیان کرنے کے لیے نہیں آئی جو نجات کے لیے ضروری ہیں بلکہ یہود کے اس عقیدہ کی تردید کے لیے آئی ہے کہ وہ نسلی اعتبار سے خدا کی منتخب قوم ہیں اور محض اس بنا پر آخرت میں خدا کی نعمتوں اور رحمتوں کے مستحق ہوں گے۔ اس کا جواب اللہ نے یہ دیا ہے کہ اللہ کے ہاں کسی خاص گروہ یا قوم سے متعلق ہونا نجات کے لیے معتبر نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ایمان اور عمل صالح کی شرط ہے۔ چونکہ یہ بات ایک عام قاعدہ کی حیثیت سے بیان کی گئی ہے اور اس کا اطلاق رسول اللہ ﷺ سے پہلے گزر جانے والے لوگوں پر بھی ہوتا ہے، اس لیے اس میں رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا ذکر ناموزوں تھا۔ چنانچہ صرف وہ باتیں ذکر کی گئی ہیں جو آیت میں مذکور تمام گروہوں میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی تھیں۔

اسی طرح سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہے :

ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین۔

محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔ وہ تو اللہ کے رسول اور سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں۔(۲)

منکرین ختم نبوت نے اس آیت میں خاتم النبیین کے لفظ کے قطعی مفہوم میں تحریف کرتے ہوئے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے :’’نبیوں پر مہر لگانے والا یعنی ان کی تصدیق کرنے والا‘‘ اور اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ اگرچہ حسی لحاظ سے آپ کی کو ئی نرینہ اولاد نہیں ہے لیکن آپ اللہ کے رسول ہیں اور آپ کی تصدیق سے آپ کی امت میں اور بھی نبی ہوں گے جو آپ کی روحانی اولاد ہوں گے۔

آیت کے مفہوم میں یہ تحریف اس کے سیاق کو نظر انداز کیے بغیر ممکن نہیں، کیونکہ یہ آیت رسول اللہ ﷺ کے متبنی حضرت زید بن حارثہؓ اور آپ کی پھوپھی زاد بہن حضرت زینبؓ کے نکاح اور پھر جدائی کے واقعہ کے ضمن میں آئی ہے۔ عرب کے معاشرے میں متبنی کو حقیقی بیٹے ہی کا مقام دیا جاتا تھا۔ چنانچہ جب اللہ تعالی کے حکم سے حضرت زیدؓ کے طلاق دینے کے بعد رسو ل اللہ ﷺ نے حضرت زینبؓ سے خود نکاح کر لیا تو منافقین نے اس کو غوغا آرائی اور فتنہ انگیزی کا سامان بنا لیا۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیات نازل فرمائیں کہ یہ نکاح اللہ کے حکم سے ہوا ہے اور اس کی حکمت ہی یہ ہے کہ عرب معاشرہ کی اس غلط رسم کو ختم کر دیا جائے۔ اس کے بعد مذکورہ آیت ہے جس کا مقصد، ا س تناظر میں، اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتاکہ چونکہ محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ آپ ان تمام بد رسوم کا خاتمہ اپنی زندگی ہی میں کر جائیں۔

اس کی ایک اور مثال سورۃ الجن میں اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے :

عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا ۔ الا من ارتضی من رسول فانہ یسلک من بین یدیہ ومن خلفہ رصدا۔

اللہ غیب کا جاننے والا ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ رہے وہ جن کو وہ رسول کی حیثیت سے منتخب فرماتا ہے تو وہ ان کے آگے اور پیچھے پہرہ رکھتا ہے۔(۳)


اس آیت میں مفسرین نے بالعموم الا کو استثنا کے مفہوم میں لیا ہے جس سے بعض گمراہ فرقوں کو یہ استدلال کرنے کا موقع مل گیا کہ اللہ تعالی انبیاء کو بھی علم غیب عطا کرتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ علم الغیب اور اطلاع علی الغیب میں کیا فرق ہے، اگر ان آیات کے سیاق کو ملحوظ رکھا جائے تو اس استدلال کی بالکل نفی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس آیت سے متصل پچھلی آیت یہ ہے :

قل ان ادری اقریب ما توعدون ام یجعل لہ ربی امدا۔ عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا۔

اعلان کر دیں کہ مجھے کچھ پتا نہیں کہ جس عذاب کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے، وہ قریب ہی ہے یا ابھی اللہ اس کو کچھ دیر اور ٹالے گا۔

یہ آیات دراصل مشرکین کے مطالبہ عذاب کے جواب میں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے کہ عذاب کے وقت کا مجھے کوئی علم نہیں کیونکہ عالم الغیب صرف اللہ ہے اور وہ اپنے غیب کی اطلاع کسی کو نہیں دیتا۔ اب اگر اگلی آیت میں الا کو استثنا کے معنی میں لے کر انبیاء کے لیے علم غیب کا اثبات کیا جائے تو پچھلے استدلال کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہتا، کیونکہ اس کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ پیغمبر کو عذاب کے وقت کا علم نہیں اس لیے کہ اس کا تعلق غیب کے ان معاملات سے ہے جن کی اطلاع اللہ تعالی کسی کو نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ محقق مفسرین نے یہاں الا کو استثنا کے بجائے لکن کے معنی میں لیاہے۔ (۴)

حکمت قرآن

معرفت نظم کی دوسری اہمیت حکمت قرآن کے استنباط کے حوالے سے ہے۔ قرآن کی حکمت ، فی الواقع، اس کے نظم میں پوشیدہ ہے اور نظم کی معرفت ہی وہ کنجی ہے جس کے ذریعے سے اس لازوال خزانے تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں :

’’نظم کے متعلق یہ خیال بالکل غلط ہے کہ وہ محض علمی لطائف کے قسم کی ایک چیز ہے جس کی قرآن کے اصل مقصد کے نقطہ نظر سے کوئی خاص قدر وقیمت نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک تو اس کی اصل قدر وقیمت یہی ہے کہ قرآن کے علوم اور اس کی حکمت تک رسائی اگر ہو سکتی ہے تو اسی کے واسطے سے ہو سکتی ہے۔ جو شخص نظم کی رہنمائی کے بغیر قرآن کو پڑھے گا، وہ زیادہ سے زیادہ جو حاصل کر سکے گا وہ کچھ منفرد احکام اور مفرد قسم کی ہدایات ہیں۔

اگرچہ ایک اعلی کتاب کے منفرد احکام اور اس کی مفرد ہدایات کی بھی بڑی قدر وقیمت ہے لیکن آسمان وزمین کا فرق ہے اس بات میں کہ آپ طب کی کسی کتاب المفردات سے چند جڑی بوٹیوں کے کچھ اثرات وخواص معلوم کر لیں اور اس بات میں کہ ایک حاذق طبیب ان اجزا سے کوئی کیمیا اثر نسخہ ترتیب دے دے۔ تاج محل کی تعمیر میں جو مسالا استعمال ہوا ہے، وہ الگ الگ دنیا کی بہت سی عمارتوں میں استعمال ہوا ہوگا لیکن اس کے باوجود تاج محل دنیا میں ایک ہی ہے۔ میں بلا تشبیہ یہ بات عرض کرتا ہوں کہ قرآن حکیم بھی جن الفاظ اور فقروں سے ترکیب پایا ہے، وہ بہرحال عربی لغت اور عربی زبان ہی سے تعلق رکھنے والے ہیں لیکن قرآن کی لاہوتی ترتیب نے ان کو وہ جمال وکمال بخش دیا ہے کہ اس زمین کی کوئی چیز بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

جس طرح خاندانوں کے شجرے ہوتے ہیں، اسی طرح نیکیوں اور بدیوں کے بھی شجرے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایک نیکی کو ہم معمولی نیکی سمجھتے ہیں حالانکہ اس نیکی کا تعلق نیکیوں کے اس خاندان سے ہوتا ہے جس سے تمام بڑی نیکیوں کی شاخیں پھوٹی ہیں۔ اسی طرح بسا اوقات ایک برائی کو ہم معمولی برائی سمجھتے ہیں لیکن وہ برائیوں کے اس کنبے سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہے جو تمام مہلک بیماریوں کو جنم دینے والا کنبہ ہے۔ جو شخص دین کی حکمت سمجھنا چاہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خیر وشر کے ان تمام مراحل ومراتب سے اچھی طرح واقف ہو۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ وہ دق کا پتہ دینے والی بیماری کو نزلے کا پیش خیمہ سمجھ بیٹھے اور نزلے کی آمد آمد کو دق کا مقدمۃ الجیش قرار دے دے۔ قرآن کی یہ حکمت اجزائے کلام سے نہیں بلکہ تمام تر نظم کلام سے واضح ہوتی ہے۔ اگر ایک شخص ایک سورہ کی الگ الگ آیتوں سے تو واقف ہو لیکن سورہ کے اندر ان آیتوں کے باہمی حکیمانہ نظم سے واقف نہ ہو تو اس حکمت سے وہ کبھی آشنا نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح قرآن نے مختلف سورتوں میں مختلف اصولی باتوں پر آفاقی وانفسی یا تاریخی دلائل بیان کیے ہیں۔ یہ دلائل نہایت حکیمانہ ترتیب کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ جس شخص پر یہ ترتیب واضح ہو، وہ جب اس سورہ کی تدبر کے ساتھ تلاوت کرتا ہے تو وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ زیر بحث موضوع پر اس نے ایک نہایت جامع، مدلل اور شرح صدر بخشنے والا خطبہ پڑھا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اس ترتیب سے بے خبر ہو، وہ اجزا سے اگرچہ واقف ہوتا ہے لیکن اس حکمت سے وہ بالکل ہی محروم رہتا ہے جو اس سورہ میں بیان ہوئی ہوتی ہے۔‘‘ (۵)

اس کی ایک مثال سورہ بقرہ کے اس حصے میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں شریعت کے احکام وقوانین بیان ہوئے ہیں۔ اس باب کے مضامین کی ترتیب یہ ہے :

توحید اور اس کے متعلقات (آیات ۱۶۳ تا ۱۷۶)

توحید کے ثمرات مثلا ایمان، انفاق، اقامت صلوۃ، ادائے زکوۃ، ایفائے عہد اور حق پر استقامت (۱۷۷)

قصاص کے احکام (۱۷۸، ۱۷۹)

وصیت اور اس میں تبدیلی کے احکام (۱۸۰، ۱۸۲)

روزے کے احکام (۱۸۳ تا ۱۸۷)

رشوت خوری کی ممانعت (۱۸۸)

جہا،د حج اور انفاق کے متعلق ہدایات (۱۸۹ تا ۲۲۱)

حیض، طلاق اور رضاعت کے مسائل (۲۲۲ تا ۲۳۷)

نماز پر محافظت کی تاکید (۲۳۸)

اس حصے کا آغاز توحید کے بیان سے ہوا ہے کیونکہ تمام دین کی بنیاد اسی پر ہے۔ اس کے بعد توحید کے ثمرات بیان ہوئے ہیں اور مختلف معاملات میں شریعت کے احکام بیان کرنے سے پہلے مسلمانوں کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ دین محض چند رسوم وظواہر کا نام نہیں ہے بلکہ زندگی سے نہایت گہرا تعلق رکھنے والے اعمال واخلاق کا مجموعہ ہے، لہذا وہ اگلی امتوں کی طرح صرف رسوم کے بندے بن کر نہ رہ جائیں بلکہ دین کی اصلی حقیقتوں کو اپنائیں۔ نیکی اور تقوی کی اصل حقیقت واضح کرنے کے بعد ان معاملات کی طرف توجہ فرمائی جو تقوی پر مبنی ہیں اور جن پر معاشرہ کے امن اور بقا کا مدار ہے۔ اس ضمن میں حرمت جان کے حوالے سے قصاص اور حرمت مال کے حوالے سے وصیت کے احکام بیان فرمائے ہیں۔ اس کے بعد روزے کے احکام کا ذکر ہے جن کے متصل بعد رشوت اور حرام خوری کی حرمت بیان کی گئی ہے۔ جان ومال کے احترام اور حرمت رشوت کے احکام کے درمیان میں روزے کے احکام کے ذکر سے مقصد روزے کے اغراض ومقاصد اور اس کے فوائد کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ گویا روزہ جس طرح دوسروں کی جان ومال کے احترام کے حوالے سے نفس کی تربیت کرتا ہے، اسی طرح رشوت اور حرام خوری سے بچنے کے لیے بھی صبر کی اساس فراہم کرتا ہے۔ اسی صبر واستقامت کی اساس پر دین کی دو بڑی عبادتیں حج اور جہاد قائم ہیں، چنانچہ اس کے بعد ان کا ذکر کیا گیا ہے ۔ جہاد کے ساتھ انفاق کی خاص مناسبت ہے، اس لیے اس کے متعلق بھی بعض ہدایات ذکر کی گئی ہیں۔ اسی انفاق کے ضمن میں یتیم عورتوں کے ساتھ نکاح کا مسئلہ بیان ہوا جس سے نکاح وطلاق اور رضاعت کے متعلق شریعت کی عمومی ہدایات بیان کرنے کے لیے بھی ایک مناسب موقع پیدا ہو گیا۔ اس باب کا اختتام نماز پر محافظت کی تاکید سے ہوا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اس باب کے آغاز پرنظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ اس کے آغاز میں توحید کے ذکر کے بعد احکام شریعت کے سلسلہ میں سب سے پہلے آیت ۱۷۷ میں نماز اور ساتھ ہی زکوۃ کا ذکر آتا ہے۔ یہاں دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ اس باب کا خاتمہ بھی نماز ہی کے ذکر پر ہوا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس دین میں جو اہمیت نماز کی ہے وہ دوسری کسی چیز کی بھی نہیں ہے۔ ساری شریعت کا قیام وبقا اسی کے قیام وبقا پر منحصر ہے۔ اللہ تعالی نے اس کو شریعت کی اقامت اور اس کی محافظت کے لیے ایک حصار اور ایک باڑھ کی حیثیت دی ہے۔ جو شخص اس کی حفاظت کرتا ہے وہ گویا پوری شریعت کی حفاظت کرتا ہے اور جو شخص اس میں رخنے پیدا کرتا ہے وہ ، جیسا کہ حضرت عمرؓ سے منقول ہے، باقی دین کو بدرجہ اولی ضائع کر دیتا ہے۔‘‘ (۶)

مولانا ؒ نے ربط کلام کی اس وجہ کی تائید میں سورۂ مومنون اور سورۂ معارج کی آیات بطور نظیر نقل کی ہیں جن میں اسی اسلوب پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ نماز دین کے لیے بمنزلہ حصار کے ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے :

قد افلح المومنون ۔ الذین ھم فی صلاتھم خاشعون۔

ایمان لانے والے یقیناًکامیاب ہیں، وہ جو اپنی نمازیں عاجزی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔

اس کے بعد دین واخلاق کی چند بنیادی باتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد آخر میں پھر فرمایا ہے :

والذین ھم علی صلواتھم یحافظون۔

اور وہ جو اپنی نمازوں کی مکمل پابندی کرتے ہیں۔ (۷)

بعینہ یہی اسلوب سورۂ معارج کی آیات ۱۹۔۳۴ میں پایا جاتا ہے۔

زمانہ نزول کے حالات

قرآن مجید اپنے پیغام اور تعلیمات کے لحاظ سے اگرچہ ایک آفاقی کلام ہے لیکن اپنے نزول کے لحاظ سے ایک خاص پس منظر رکھتا ہے۔ اس کے مخاطب ایک خاص سرزمین اور خاص زمانہ میں رہنے والے لوگ تھے جن کے عقائد واعمال اور معاشرت کی اصلاح کو اس نے اپنا موضوع بنایا۔ اس کا نزول رسول اللہ ﷺ کی تیئیس سالہ مدت دعوت میں مکمل ہوا اور اس کی ہدایات کا اس عرصہ میں پیش آنے والے مختلف حالات اور مراحل کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ چنانچہ قرآن مجید، اصلا، رسول اللہ ﷺ کی اس دعوت کی تاریخ ہے ۔ اس لحاظ سے اس کے مندرجات کو سمجھنے کے لیے ان خاص حالات سے عمومی طور پر واقفیت ضروری ہے جو اس کے تدریجی نزول کے پس منظر میں موجود تھے، اس لیے کہ قرآن اس خاص زمانہ کے مختلف گروہوں اور ان کے حالات کے متعلق جو اشارات کرتا ہے، اس کے مخاطبین کے لیے تو ان کو سمجھنا آسان تھا لیکن ہمارے لیے یہ اشارات بالعموم اس قدر مجمل اور مبہم ہیں کہ ان کا صحیح تصور ذہن میں قائم ہونا اس وقت تک مشکل ہے جب تک اس زمانے کی تاریخ سے واقفیت نہ ہو۔

اس واقفیت کے دو پہلو ہیں : ایک تو قرآن کے زمانہ نزول کے حالات اور اس کے مخاطب گروہوں کے معتقدات وخیالات اور ان کے معاشرتی حالات کا عمومی علم، اور دوسرا ان خاص جزوی واقعات سے آگاہی جو قرآن مجید کی بعض آیات کے نزول کا سبب بنیں۔

عمومی پس منظر

عمومی حالات سے آگاہی میں، مولانا حمید الدین فراہیؒ کے الفاظ میں، مندرجہ ذیل باتیں شامل ہیں:

(۱) ہم کو اس وقت کے یہود ونصاری ومشرکین وصابئین وغیرہ کے مذاہب ومعتقدات سے واقف ہونا چاہئے۔

(۲) ہم کو عرب کے عام توہمات کو دریافت کرنا چاہئے۔

(۳) ہم کو جاننا چاہئے کہ نزول قرآن کی مدت میں کیا کیا واقعات نئے پیدا ہوئے اور ان سے عرب کی مختلف جماعتوں میں کیا کیا مختلف باتیں زیر بحث آ گئیں، کیا کیا ملکی وتمدنی جھگڑے چھڑ گئے اور تمام عرب میں کیا شور ش پیدا ہو گئی؟

(۴) ہم کو یہ بھی جاننا چاہئے کہ عرب کس قدر وحشی اور تند مزاج تھے اور اس لیے کس قسم کے کلام سے متاثر ہو سکتے تھے۔

(۵) ہم کو یہ بھی جاننا چاہئے کہ عرب کا مذاق سخن کیا تھا، کس قسم کے کلام کے سننے اور بولنے کے وہ عادی تھے، رزم وبزم میں ان کا خطیب کس روش پر چلتا تھا، ایجاز واطناب، ترصیع وترکیب اور دیگر اسالیب خطابت وہ کیوں کر استعمال کرتے تھے۔

(۶) اور بالاخر ہم کو یہ بھی جاننا چاہئے کہ عرب کے ذہن میں اخلاق کے مدارج نیک وبد کیا تھے۔ (۸)

مشرکین عرب

۱۔ سورۃ البقرۃ میں جوئے اور شراب کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے : فیھما اثم کبیر ومنافع للناس۔ ’’ان میں گناہ بہت بڑا ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں‘‘ ۔ (۹)

اس آیت کے متعلق بالعموم یہ سمجھا گیا ہے کہ اس میں اللہ تعالی نے جوئے او رشراب کی طبی اور ذاتی منفعت کا اعتراف کیا ہے جس کی بنیاد پر بعض ملحدین نے اس آیت سے شراب اور جوئے کا جواز کشید کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اگر عرب کے تمدنی حالات پر نظر ہو تو معلوم ہوگا کہ اس سے مراد ان کی تمدنی اور معاشرتی منفعت ہے۔ عرب کے فیاض او رسخی طبیعت کے لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ قحط کے موسم میں اکٹھے ہو کر شراب نوشی کی مجلسیں بپا کرتے تھے اور نشے میں مست ہو کر اپنے اونٹوں کو ذبح کر ڈالتے تھے ۔ پھر ان کے گوشت کی ڈھیریاں لگا کر ان پر جوا کھیلتے اور جو گوشت جیتتے، اس کو غریبوں اور محتاجوں میں بانٹ دیتے تھے۔ جوئے اور شراب سے حاصل ہونے والی یہی وہ معاشرتی منفعت تھی جس کی بنا پر جب قرآن مجید نے ان کی حرمت کا اعلان کیا تو بعض لوگوں کو اشکال ہوا کہ یہ مفید چیزیں کیوں حرام کر دی گئی ہیں۔ چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالی نے اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگرچہ ان میں بعض تمدنی فوائد ضرور ہیں لیکن ان کے نقصانات کا پہلو ان فوائد کے مقابلے میں غالب ہے، اس لیے ان کو حرام ٹھہرایا گیا ہے۔ (۱۰)

۲۔ سورۃ النساء میں محرمات کے بیان میں ارشاد ہے : وحلائل ابنائکم الذین من اصلابکم ’’تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی تم پر حرام ہیں‘‘ (۱۱)

صلبی کی قید سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ رضاعی بیٹوں کی بیویاں حرام نہیں ہیں لیکن اگر اس کے پس منظر میں موجود حالات کو پیش نظر رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس قید سے مقصود، درحقیقت، لے پالک بیٹوں کو خارج کرنا ہے کیونکہ اہل عرب کے ہاں ان کو حقیقی بیٹوں کا مقام حاصل تھا جس کی اللہ تعالی نے سورۃ الاحزاب میں مفصل تردید کی ہے۔ چنانچہ مفسرین نے بالاتفاق اس آیت کا یہی مفہوم مراد لیا ہے۔

۳۔ اسی طرح سورۃ الانعام کی آیات ۱۳۶ تا ۱۴۰ میں چوپایوں کی حلت وحرمت کے متعلق عرب کے بہت سے توہمات کا ذکر ہوا اور انداز بیان اجمالی اشارات کا ہے۔ مخاطبین چونکہ ان رسوم سے پوری طرح باخبر تھے ، اس لیے ان کے لیے تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن جب آج ان آیات کو ہم پڑھتے ہیں تو ان رسوم کے متعلق بہت سے سوال ذہن میں آتے ہیں جن کا جواب ظاہر ہے کہ اس دور کی عرب معاشرت کے مطالعہ ہی سے مل سکتا ہے۔

اہل کتاب

قرآن کے مخاطب گروہوں میں مشرکین مکہ کے بعد دوسرا بڑا گروہ یہود کا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے انکار اور مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کرنے کے لیے انہوں نے جو جو جتن کیے اور کتمان حق کے لیے جو جو حیلے اختیار کیے، قرآن اسی اجمالی انداز میں ان کا ذکر کرتا اور ان کی چالاکیوں کا پردہ چاک کرتا ہے۔ ان اشارات کی تفصیل اور یہودیوں کی خباثتوں سے پوری طرح آگاہی حاصل کرنے کے لیے بھی دور نبوت کے حالات کا مطالعہ ضروری ہے۔

حکمت قرآن

آیات کے نفس مفہوم کی تعیین کے علاوہ ، زمانہ نزول کے حالات سے واقفیت کا نہایت گہرا تعلق قرآن مجید کی بعض ہدایات واحکامات کی حکمت سمجھنے سے بھی ہے۔مدینہ منورہ میں کچھ عرصہ کے لیے مسلمانوں کو بیت الحرام کے بجائے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم کیوں دیا گیا، رسول اللہ ﷺ کو چار سے زیادہ شادیوں کی اجازت کیوں دی گئی، حضرت زید کے ساتھ حضرت زینب کے نکاح اور پھر ان سے جدائی کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان سے کیوں نکاح کیا، قرآن مجید نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین کیوں قرار دیا، یہ اور اس طرح کے دوسرے سوالوں کا جواب پانے اور اس باب میں قرآن کی ہدایات کی معنویت اور مناسبت سمجھنے کے لیے دور نبوت کی تاریخ کا تفصیلی مطالعہ ازبس ضروری ہے۔

خاص آیات کا شان نزول

قرآن مجید میںآیات کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کے نزول کا سبب کوئی خاص واقعہ یا حالت تھی جو اگر پیش نظر نہ ہو تو نہ صرف یہ کہ متعلقہ آیتوں کے اشارات صحیح طور پر سمجھے نہیں جا سکتے بلکہ بعض صورتوں میں نفس مفہوم کے اخذ کرنے میں بھی غلطی کا امکان غالب ہے۔ ایسے مواقع پر شان نزول سے واقفیت اس قدر اہم ہے کہ بعض صحابہ بھی عربی زبان سے براہ راست واقفیت اور زمانہ نزول کے عمومی حالات سے باخبر ہونے کے باوجود بعض آیات کا مفہوم نہ سمجھ سکے۔

۱۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ عروہ بن زبیرؓ نے عرض کیا کہ اللہ تعالی نے صفا ومروہ کی سعی کے بارے میں فرمایا ہے:

فمن حج البیت او اعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بھما۔

جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے، اس پر کوئی گناہ کہ وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے۔

اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر کوئی سعی نہ بھی کرے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا : بھتیجے، تم غلط کہتے ہو۔ اگر یہ بات ہوتی تو اللہ تعالی یوں فرماتے : لا جناح علیہ ان لا یطوف بھما۔ (اس پر کوئی گناہ نہیں اگر وہ ان کے درمیان سعی نہ کرے) یہ آیت درحقیقت انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ اسلام لانے سے پہلے مشلل کے مقام پر منات کا طواف کیا کرتے تھے اور صفا ومروہ کے مابین سعی کرنے سے گریز کرتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق سوال کیا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (۱۲)

۲۔ سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہے :

نساؤکم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شئتم۔

تمہاری بیویاں تمہارے لیے کھیتیاں ہیں تو اپنی کھیتیوں میں آؤ جیسے چاہو۔ (۱۳)

اس آیت کی بنیاد پر حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فتوی دے دیا کہ آدمی اپنی بیوی سے اس کی دبر میں بھی مجامعت کر سکتا ہے۔ (۱۴) سنن ابی داؤد میں روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کو علم ہوا تو انہوں نے فرمایا: اللہ ابن عمر کو معاف کرے، بخدا ان سے غلطی ہوئی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مدینہ میں انصار کے ساتھ یہود بھی رہتے تھے اور انصار ان کو علمی لحاظ سے برتر سمجھتے اور بہت سی باتوں میں ان کے طریقے پر چلتے تھے۔ یہود کے ہاں عورتوں سے صرف ایک ہی طریقے پر (یعنی سیدھا لٹا کر) مجامعت کرنا جائز تھا اور انصار نے بھی ان کی پیروی میں یہی طریقہ اختیار کر لیا تھا۔ اس کے برخلاف قریش کے لوگوں میں عورتوں سے مختلف طریقوں سے (مثلا لٹا کر، آگے کی طرف سے، پیچھے کی طرف سے ) جماع کرنے کا طریقہ رائج تھا۔ جب مہاجرین مدینہ آئے تو ان میں سے ایک آدمی نے انصار میں سے ایک عورت کے ساتھ نکاح کیا اور اس کے ساتھ قریش کے طریقے پر جماع کرنا چاہا لیکن اس عورت نے انکار کر دیا۔ ان کے درمیان بات بڑھ گئی اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گئی۔ اس پر اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہ آیت نازل کی جس کا مطلب یہ ہے کہ جماع کا محل تو ایک ہی ہے لیکن اس کے لیے تم طریقہ کوئی بھی اختیار کر سکتے ہو۔ (۱۵)

اس باب میں یہ بات، البتہ، ملحوظ رہنی چاہئے کہ اگرچہ کسی واقعہ کی بنیادی تصویر معلوم کرنے کے لیے شان نزول کی روایات کی طرف رجوع کرنا ناگزیر ہے لیکن اس کی تفصیلات بہرحال قرآن کی داخلی شہادت کی کسوٹی پر پرکھ کر ہی قبول کی جائیں گی۔ روایات کو کسی بھی صورت میں قرآن پر حکم نہیں بنایا جا سکتا۔ درج ذیل دو مثالوں سے یہ بات واضح ہو جائے گی۔

۱۔ غزوۂ بدر کی تفصیلات میں وارد روایات میں بالعموم یہ ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے لشکر کو لے کر مدینے سے نکلے تو مسلمانوں کے سامنے اصل ہدف قریش کے تجارتی قافلے کو لوٹنا تھا، مکے سے آنے والے لشکر کے ساتھ جنگ کا ان کو گمان بھی نہیں تھا۔ لیکن علامہ شبلی نعمانی ؒ نے ان روایات کو قرآن مجید کی حسب ذیل آیات کی روشنی میں رد کر دیا ہے :

کما اخرجک ربک من بیتک بالحق وان فریقا من المومنین لکارھون۔

جیسا کہ تمہارے رب نے تمہیں تمہارے گھر سے نکالا حق کے ساتھ جبکہ مومنوں کا ایک گروہ اس کو ناپسند کرتا تھا۔ (۱۶)

شبلیؒ کہتے ہیں کہ وان میں واؤ حالیہ ہے جس کی رو سے مدینہ سے نکلنے اور ایک گروہ کے لڑائی سے جی چرانے کا زمانہ ایک ہونا چاہئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ موقع عین وہ موقع تھا جب آپ مدینہ سے نکل رہے تھے، نہ کہ مدینہ سے نکل کر جب آپ آگے بڑھے۔ (۱۷)

۲۔ غزوۂ بدر ہی کے حوالے سے ایک اور غلط فہمی جو شان نزول کی روایات سے پیدا ہوتی ہے، یہ ہے کہ قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں رسول اللہ ﷺاور مسلمانوں کو مشرکین کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنے پر عتاب کیا گیا ہے :

ما کان لنبی ان یکون لہ اسری حتی یثخن فی الارض تریدون عرض الدنیا واللہ یرید الاخرۃ واللہ عزیز حکیم ۔ لولا کتب من اللہ سبق لمسکم فی ما اخذتم عذاب عظیم۔

کوئی نبی اس بات کا روادار نہیں ہوتا کہ اس کو قید ی ہاتھ آئیں یہاں تک کہ وہ اس کے لیے ملک میں خونریزی برپا کر دے۔ یہ تم ہو جو دنیا کے سروسامان کے طالب ہو۔ اللہ تو آخرت چاہتا ہے اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے سے موجود نہ ہوتا تو جو روش تم نے اختیار کی ہے‘ اس کے باعث تم پر ایک عذاب عظیم آ پڑتا۔(۱۸)

مولانا امین احسن اصلا حیؒ اس کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فدیہ لے کر چھوڑنا سرے سے کوئی غلطی ہی نہ تھی کیونکہ اس کی اجازت اس سے پہلے سورہ محمد میں دی جا چکی تھی اوریہاں بھی اللہ تعالی نے اس کے معا بعد اس عمل کی تصدیق فرمائی ہے :

فکلوا مما غنمتم حلالا طیبا۔

تو وہ حلال وطیب مال کھاؤ جو تمہیں غنیمت میں ملا ہے (۱۹)

اور اگر بالفرض یہ غلطی بھی تھی تو اس کی نوعیت کسی سابق ممانعت کی خلاف ورزی کی نہیں تھی جس پر ایسی سخت وعید وارد ہو، کیونکہ اس قدر سخت الفاظ میں قرآن مجید نے کٹر کفار اور منافقین کے سوا اور کسی کو عتاب نہیں کیا۔ ان وجوہ کی بنا پر مولانا فرماتے ہیں کہ اس وعید کے مخاطب کفار ہیں جنہوں نے بدر میں شکست کے بعد یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا تھا کہ یہ نبی معاذ اللہ ہوس اقتدار میں مبتلا ہیں، انہوں نے اپنی ہی قوم میں خونریزی کرائی ، اپنے بھائیوں کو قید کیا ، ان کا مال لوٹااور ان سے فدیہ وصول کیا ہے۔ اللہ تعالی نے اس کا جواب دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی تنزیہ کی ہے اور کفار کو عتاب کیا ہے کہ یہ تو تمہیں صرف ایک چرکا لگا ہے جس پر تم اس قدر واویلا کر رہے ہو، اگر اللہ نے ہر بات کے لیے ایک وقت مقرر نہ کر رکھا ہوتا تو تمہیں اسی موقع پرا یک عذاب عظیم آپکڑتا۔ (۲۰)

سابقہ آسمانی کتب

قرآن مجید کے مطالعہ میں کتب سابقہ کا علم مختلف پہلوؤں سے مددگارہے۔

اہل کتاب پر اتمام حجت

قرآن مجید نے سورہ بقرہ اور سورۃ المائدہ میں یہود کی سابقہ تاریخ کے حوالے سے ان کے مذہبی جرائم کا تذکرہ بالتفصیل کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہود نے کس کس طرح اللہ کے رسولوں کو ستایا اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں ہٹ دھرمی اور ضد کا رویہ اختیار کیا۔ اسی طرح اللہ تعالی نے ان کے جرائم کی پاداش میں ان پر بحیثیت قوم جو ذلت مسلط کی، اس کا بھی جگہ جگہ ذکر کیا گیا ہے۔ کتب سابقہ کے مطالعہ سے یہود کے اس رویے کی تائید وتفصیل بھی مہیا ہو سکتی ہے اور اہل کتاب پر خود انہی کی کتاب کی روشنی میں اتمام حجت بھی کی جا سکتی ہے۔

اہل کتاب کی تحریفات کی اصلاح

قرآن مجید نے سوۃ المائدہ میں خود کو سابقہ کتابوں کا مہیمن یعنی نگران قرار دیا ہے۔ اسی سورہ میں دوسری جگہ ارشاد ہے :

یبین لکم کثیرا مما کنتم تخفون من الکتاب۔

یہ رسول تمہارے سامنے تورات کی بہت سی وہ باتیں بیان کرتے ہیں جن کو تم چھپاتے رہے۔ (۲۱)

گویا قرآن کے نزول کا ایک بنیادی مقصد اہل کتاب کی تحریفات کی اصلاح ہے۔ انبیاء سابقین نے رسول اللہ ﷺ کے حق میں جو بشارتیں دی تھیں، یہود نے ان میں تحریف کر کے ان کو چھپانے کی کوشش کی ۔ خود انبیاء سابقین کے متعلق انہوں نے بے بنیاد قصے گھڑ کر ان کی شخصیات پر کیچڑ اچھالا۔ اسی طرح نصاری حضرت عیسی علیہ السلام کی ذات کے متعلق طرح طرح کی غلط فہمیوں میں مبتلا تھے اور رسول اللہ ﷺ کے حق میں حضرت مسیح علیہ السلام کی واضح بشارت میں تحریف کر چکے تھے۔ قرآن مجید نے اس طرح کی تمام تحریفات کا پردہ چاک کیا اور تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے۔ سورۃ الاعراف میں فرمایا:

یجدونہ عندھم مکتوبا فی التوراۃ والانجیل۔

یہ اس پیغمبر کو اپنے ہاں تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں (۲۲)

سورۃ البقرۃ میں فرمایا:

وما کفر سلیمان ولکن الشیاطین کفروا۔

سلیمان نے بالکل کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین نے کفر کیا۔ (۲۳)

سورۃ النساء میں فرمایا:

وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم۔

وہ مسیح کو نہ قتل کر سکے اور نہ سولی دے سکے بلکہ ان پر معاملہ مشتبہ کر دیا گیا۔ (۲۴)

سورۃ الصف میں فرمایا:

ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد۔

(عیسی علیہ السلام نے کہا ) اور میں ایک رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا۔ (۲۵)

ہمارے اہل علم میں سے جن لوگوں نے کتب سابقہ اور ان سے متعلق لٹریچر کاگہرا مطالعہ کیا ہے، انہوں نے ان امور کی تحقیق میں گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔ برصغیر میں مولانا حمید الدین فراہیؒ کا رسالہ ’’ذبیح کون ہے؟‘‘ ، سورۃ الصف میں بشارت عیسی علیہ السلام کے تحت مولانا سید ابو الاعلی مودددیؒ کی اور ولکن شبہ لہم کی تفسیر میں مولانا عبد الماجد دریابادیؒ کی تحقیقات اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔

اسی طرح یہود کی تاریخ کے بہت سے واقعات کے بارے میں قرآن کا بیان بائبل کے بیان سے مختلف ہے۔ اس حوالے سے بھی قرآن کے بیانات کی معنویت اس کے بغیر واضح نہیں ہو سکتی کہ ان کا موازنہ کتب سابقہ کے بیانات سے کر کے دیکھا جائے۔

انبیاء کی تاریخ اور دین کی حکمت

قرآن مجید نے بعض مقامات پر کتب سابقہ کا ذکر اس انداز میں کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید اپنے قارئین سے یہ چاہتا ہے کہ ان کتابوں کا مطالعہ کرے۔ سورۃ الاعلی کے آخر میں فرمایا:

ان ھذا لفی الصحف الاولی۔ صحف ابراھیم وموسی۔

یہی تعلیم اگلے صحیفوں میں بھی ہے، موسی اور ابراہیم کے صحیفوں میں۔ (۲۶)

واقعہ یہ ہے کہ بے شمار تحریفات کے باوجود آج بھی ان صحائف میں اصل آسمانی تعلیمات کے اجزاء موجود ہیں اور دین کی حکمت سمجھنے میں ان سے بیش بہا مدد مل سکتی ہے۔

سنت اور امت کا تواترعملی

سنت سے مراد دین کے وہ عملی احکام ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے اس امت میں جاری فرمایا اور جنہیں امت مسلمہ کی ہر نسل اپنے تواتر عملی کے ذریعے سے اگلی نسل تک منتقل کرتی چلی آ رہی ہے۔

قرآن کی بنیادی اصطلاحات

رسول اللہ ﷺ درحقیقت کوئی نیا دین نہیں لے کر آئے تھے بلکہ آپ نے ملت ابراہیمی ہی کی ان تعلیمات وشعائر کا احیا کیا جو مرور زمانہ اور اہل عرب کی تحریفات کے نتیجے میں مسخ ہو چکی تھیں۔ اس دین میں صلوۃ، صوم، حج، نسک، نذراور اس طرح کے دوسرے احکام ایک معروف حقیقت کی حیثیت رکھتے تھے اور، تحریفات کے باوجود، ان کا بنیادی تصور بالکل مٹ نہیں گیا تھا۔ قرآن ان کا ذکر کسی نئے حکم کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت کے طور پر کرتا ہے جو اس کے مخاطبین کے نزدیک ثابت شدہ اور مانی ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ملت ابراہیمی کے انہی ثابت شدہ شعائر کو لے کر ان میں در آنے والی تحریفات کو دور کیا اور مناسب ترمیم واضافہ کے ساتھ انہیں امت مسلمہ میں ایک سنت کی حیثیت سے جاری کر دیا۔ یہ ملت ابراہیمی کی اصطلاحات ہیں جن کا مفہوم نسل در نسل تواتر کے ساتھ نقل ہوا ہے اور ان کے ثبوت یا ان کی بنیادی شکل وصورت کی تعیین میں ذرہ برابر بھی شبہے کی گنجائش نہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی سنت اور امت مسلمہ کا تواتر عملی، قرآن کے ان بنیادی حقائق کی تفصیل کے لیے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

حدیث

حدیث رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات واقوال کا نام ہے جو آپ کے صحابہ نے انفرادی طور پر آپ سے سنے اور اسی طرح ان کو آگے نقل کر دیا۔ فہم قرآن میں حدیث کی اہمیت مختلف پہلوؤں سے ہے:

حکمت قرآن

رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر قرآن کا رمز شناس اور اس کے اسرا ر ومعانی سے آگاہ کون ہو سکتا ہے؟ قرآن کے بعض احکام کی ظاہری تشریح وتعبیر میں بھی بلا شبہ رسول اللہ ﷺ کا ہمسر کوئی نہیں ہو سکتا لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ کے خداداد علم وفہم اور پیغمبرانہ نکتہ شناسی کا اصل مظہر آپ کے ارشادات کا وہ حصہ ہے جس میں آپ نے قرآنی تعلیمات کے مغز کو پا کران کی توسیع بے شمار فروع کی طرف کی ہے اور اس طرح دین کو ایک مفصل ومرتب ضابطہ کی صورت میں مشکل کر دیا ہے ۔ آپ کے یہ ارشادات واقوال دین کے تمام شعبوں کو محیط ہیں اور حکمت دین کے سمجھنے میں جو رہنمائی ان سے ملتی ہے، اور کسی ذریعہ سے میسر نہیں ہو سکتی۔

قرآن کے مجمل کی تفصیل

قرآن مجید بالعموم کسی مسئلے کے بارے میں ایک حکم اصولی طور پر بیان فرما دیتا ہے لیکن اس سے متعلقہ جزوی امورکو مجمل چھوڑ دیتا ہے جن کی تفصیل رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں ملتی ہے۔ درج ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیے :

۱۔ سورۃ النساء میں اللہ تعالی نے محرمات کے ضمن میں ایسی عورت کو بھی شامل کیا ہے جس نے کسی بچے کو جنم تو نہیں دیا لیکن اس کو دودھ پلایا ہے۔ لیکن اس دودھ پلانے کی مقدار کیا ہو ؟ نیز کیا عمر کے کسی بھی حصے میں کسی عورت کا دودھ پینے سے وہ ماں بن جاتی ہے؟ اس معاملے میں قرآن خاموش ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

لا تحرم المصۃ ولا المصتان۔

ایک یا دو مرتبہ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی (۲۷)

انما الرضاعۃ من المجاعۃ۔

رضاعت کا اعتبار بچے کی دودھ پینے کی عمر میں ہے۔ (۲۸)

۲۔ سورۃ النساء میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ سفر کی حالت میں ہوں تو نماز کو قصر کر کے پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن قصر نماز میں کتنی رکعتیں کم پڑھی جائیں، اس کی کوئی تفصیل قرآن میں نہیں ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو واضح فرمایا ہے۔

۳۔ اسی کے متصل بعد اللہ تعالی نے یہ اجازت دی ہے کہ اگر مسلمان حالت جنگ میں ہوں اور نماز کا وقت آ جائے تو ان کو اجازت ہے کہ ان میں سے ایک گروہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز کا کچھ حصہ پڑھ کر دشمن کے سامنے چلا جائے اور اس کی جگہ دوسرا گروہ آ جائے اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز ادا کرے۔

یہ محض ایک اصولی حکم ہے جس کی عملی صورت قرآن میں بیان نہیں ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کی اس کی تفصیل فرمائی ہے اور آپ سے صلاۃ الخوف پڑھنے کے مختلف طریقے کتب احادیث میں نقل ہوئے ہیں ۔ (۲۹)

قرآن کے محتمل کی تعیین

قرآن مجید میں متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں کہ اللہ تعالی نے کسی مسئلے میں ایک حکم بیان فرمایا ہے جس کا اطلاق بعض صورتوں میں تو واضح ہے لیکن بعض صورتوں میں واضح نہیں بلکہ احتمال کے پہلو رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں حدیث دو یا زیادہ محتمل معنوں میں سے ایک کو متعین کر دیتی ہے۔ اس کی مثالیں حسب ذیل ہیں:

۱۔ سورۃ المائدہ میں اللہ تعالی نے مردار جانور کو حرام اور ذبح کیے ہوئے جانور کو حلال قرار دیا ہے۔ لیکن اگر ذبح کیے ہوئے جانور کے پیٹ میں سے مردہ بچہ نکل آئے تو آیا وہ ایک مستقل وجود ہونے کے لحاظ سے مردار شمار ہوگا یا ماں کا جز ہونے کے اعتبار سے مذبوح؟ قرآن کی منشا اس معاملے میں غیر واضح ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

ذکاتہ ذکاۃ امہ۔

اس کی ماں کا ذبح کرنا ہی اس کے لیے کافی ہے۔ (۳۰)

۲۔ سورہ مائدہ ہی میں اللہ تعالی نے سدھائے ہوئے شکاری کتوں کے شکار کے بارے میں فرمایا ہے : فکلوا مما امسکن علیکم واذکروا اسم اللہ علیہ ’’جس جانور کو وہ تمہارے لیے شکار کریں، اس کو تم کھا سکتے ہو اور ان کو (شکار پر چھوڑتے ہوئے) اللہ کا نام لیا کرو‘‘ اس حکم کا اطلاق بعض صورتوں میں غیر واضح ہے۔ مثلااگر سدھایا ہوا کتا جانور کو شکار کر کے اس کا کچھ گوشت خود بھی کھالے یا اس کتے کے ساتھ کوئی اور کتا بھی شکار کرنے میں شامل ہو گیا ہو تو کیا حکم ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

اذا ارسلت کلبک فاذکر اسم اللہ علیہ، فان امسک علیک فادرکتہ حیا فاذبحہ، وان ادرکتہ قد قتل ولم یاکل منہ فکلہ، وان وجدت مع کلبک کلبا غیرہ وقد قتل فلا تاکل فانک لا تدری ایھما قتلہ۔

اپنے کتے کو چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیا کرو۔ اگر وہ تمہارے لیے شکار کو پکڑے اور تم اس کو زندہ پا لو تو اس کو ذبح کر لو۔ اگر تمہارے پہنچنے سے قبل مر جائے اور تمہارے کتے نے اس کا گوشت نہ کھایا ہو تو تم اس کو کھا سکتے ہو۔ اگر تمہارے کتے کے ساتھ کوئی اور کتا بھی شامل ہو گیا ہو اور شکار مر چکا ہو تو اسے مت کھاؤ، کیونکہ معلوم نہیں ان میں سے کس کتے نے اسے شکار کیا ہے۔ (۳۱)

۳۔ سورۃ البقرہ میں ایسی عورتوں کوجن کے خاوند فوت ہو گئے ہوں، چار ماہ دس دن تک عدت گزارنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ سورۃ الطلاق میں حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل بتائی گئی ہے۔ لیکن اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور اس کا خاوند فوت ہو جائے تو وہ کون سی عدت گزارے گی؟ اس میں عقلی لحاظ سے دونوں احتمال ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی تعیین کرتے ہوئے ایسی صورت میں وضع حمل کو عدت قرار دیا ہے۔ (۳۲)

بعض اشکالات کا حل

فہم قرآن سے متعلق بعض اشکالات کا حل بھی رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں ملتا ہے۔

۱۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : الذین آمنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم اولئک لھم الامن وھم مھتدون (جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم کے شائبے سے بھی پاک رکھا، انہی کو امن حاصل ہوگا اور وہی ہدایت یافتہ ہیں) تو صحابہؓ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اشکال پیش کیا کہ ہم میں سے کون آدمی ہے جس نے کچھ نہ کچھ ظلم نہ کیا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے مراد شرک ہے: ان الشرک لظلم عظیم (۳۳)

۲۔ جامع ترمذی میں روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ قرآن میں تو نماز قصر کر کے پڑھنے کی اجازت حالت خوف میں دی گئی ہے، جبکہ اب لوگ امن میں ہیں (پھر یہ رخصت کیوں ہے؟) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے رخصت ہے، سو اللہ کی دی ہوئی رخصت کو قبول کرو۔ (۳۴) گویا آپ نے واضح فرمایا کہ قرآن میں حالت خوف کا ذکر بطور ایک لازمی شرط کے نہیں ہے۔

۳۔ جامع ترمذی میں ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت اتری : من یعمل سوءًا یجز بہ (جو شخص جو بھی برائی کرے گا، اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا) توصحابہؓ نے اشکال پیش کیا کہ یا رسول اللہ ہم سب سے گناہ سرزد ہو تے ہیں تو کیا ہمیں ان سب کی سزا ملے گی؟ آپ نے فرمایا: مومن کو دنیا میں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے یہاں تک کہ ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتا ہے۔ (۳۵)


حوالہ جات

(۱) البقرہ، آیت ۶۲

(۲) الاحزاب، آیت ۴۰

(۳) الجن، آیت ۲۶، ۲۷

(۴) الآلوسی، سید محمود: روح المعانی،

(۵) اصلاحی، امین احسن: تدبر قرآن، دہلی: تاج کمپنی، ۱۹۹۹ء، جلد اول، ص ۲۰، ۲۱

(۶) المرجع السابق: ج ۱، ص ۵۴۹

(۷) المومنون، آیت ۱، ۲

(۸) فراہی، حمید الدین: ترتیب ونظام قرآن، مشمولہ قرآنی مقالات، لاہور: دار التذکیر، ۱۹۹۳ء، ص ۱۳

(۹) البقرہ، آیت ۲۱۹

(۱۰) تدبر قرآن، جلد اول، ص ۵۰۵

(۱۱) النساء، آیت ۲۳

(۱۲) البخاری، محمد بن اسماعیل: الجامع الصحیح، المملکۃ العربیۃ السعودیہ: دار السلام، ۲۰۰۰، کتاب الحج، باب وجوب الصفا والمروۃ، حدیث نمبر ۱۶۴۳

(۱۳) البقرہ، آیت ۲۲۳

(۱۴) صحیح البخاری، کتاب التفسیر، سورۃ البقرۃ ، حدیث نمبر ۴۵۲۷

(۱۵) ابو داؤد ، سلیمان بن اشعث السجستانی: سنن ابی داؤد، المملکۃ العربیۃ السعودیہ: دار السلام، ۲۰۰۰، کتاب النکاح، باب فی جامع النکاح، حدیث نمبر ۲۱۶۴

(۱۶) الانفال، آیت ۵

(۱۷) شبلی نعمانی: سیرت النبی، لاہور : مکتبہ تعمیر انسانیت، ۱۹۷۵ء، ج ۱، ص ۳۲۵

(۱۸) الانفال، آیت ۶۷

(۱۹) الانفال، آیت ۶۹

(۲۰) تدبر قرآن، ج ۳، ص ۵۱۲، ۵۱۳

(۲۱) المائدہ، آیت ۱۵

(۲۲) الاعراف، آیت ۱۵۷

(۲۳) البقرہ، آیت ۱۰۲

(۲۴) النساء، آیت ۱۵۷

(۲۵) الصف، آیت ۶

(۲۶) الاعلی، آیت ۱۹، ۲۰

(۲۷) مسلم بن الحجاج: صحیح مسلم، المملکۃ العربیۃ السعودیہ: دار السلام، ۲۰۰۰، کتاب الرضاع، باب فی المصۃ والمصتان، حدیث ۳۵۹۰

(۲۸) صحیح البخاری : کتاب النکاح، باب من قال لا رضاع بعد الحولین، حدیث نمبر ۵۱۰۲

(۲۹) سنن ابی داؤد: دار السلام، ۲۰۰۰، کتاب الصلاۃ، باب صلوۃ الخوف، احادیث ۱۲۳۶ تا ۱۲۴۸

(۳۰) المرجع السابق، کتاب الضحایا، باب ما جاء فی ذکاۃ الجنین، حدیث نمبر ۲۸۲۷

(۳۱) صحیح مسلم، کتاب الصید والذبائح، باب الصید بالکلاب المعلمۃ والرمی، حدیث نمبر ۴۹۸۱

(۳۲) سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق، باب فی عدۃ الحامل، حدیث نمبر ۲۳۰۶

(۳۳) صحیح البخاری : کتاب التفسیر، سورۃ الانعام، حدیث ۴۶۲۹

(۳۴) الترمذی، ابو عیسی محمد بن عیسی: جامع الترمذی، المملکۃ العربیۃ السعودیہ: دار السلام، ۲۰۰۰، کتاب التفسیر، سورۃ النساء، حدیث ۳۰۳۴

(۳۵) جامع الترمذی، کتاب التفسیر، سورۃ النساء، حدیث نمبر ۳۰۳۸

قرآن / علوم القرآن

(اپریل ۲۰۰۱ء)

اپریل ۲۰۰۱ء

جلد ۱۲ ۔ شمارہ ۴

تلاش

Flag Counter