وفیات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شہیدِ راہِ وفا محمد صلاح الدینؒ

وہ دن بلاشبہ پاکستان کی صحافتی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب ہفت روزہ تکبیر کراچی کے مدیر اعلیٰ محمد صلاح الدینؒ سفاک قاتلوں کی دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ محمد صلاح الدینؒ بے لاگ تجزیہ نگار اور بے باک قلمکار ہی نہیں بلکہ معاشرہ میں شر کی قوتوں کو چیلنج کرنے اور ظلم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارنے والے بے خوف راہنما بھی تھے۔ انہوں نے لفافے، بریف کیس اور کلاشنکوف کے اس دور میں صحافت اور سچائی کے رشتے کو قائم کیا اور اسلام و پاکستان کے پرچم کو سربلند رکھا اور بالآخر اسی راہِ وفا میں اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا۔

راقم الحروف محمد صلاح الدین شہیدؒ کا پرانا قاری اور ان کی حق گوئی کا معترف رہا ہے۔ مختلف مجالس میں ان سے ملاقات بھی ہوتی رہی ہے مگر اسی سال اگست میں ان کے ساتھ چند روز کی رفاقت کا موقع ملا تو یہ بات مشاہدہ کا حصہ بنی کہ قلم کا محمد صلاح الدینؒ اور عمل کا محمد صلاح الدینؒ دونوں ایک ہی شخصیت ہیں۔ وہ اگست ۱۹۹۴ء میں ورلڈ اسلامک فورم کی دعوت پر چند روز کے لیے لندن تشریف لے گئے، فورم کے سالانہ تعلیمی سیمینار میں ’’اسلامی نظام تعلیم و تربیت میں ذرائع ابلاغ کا کردار‘‘ کے موضوع پر پرمغز مقالہ پیش کیا جو الشریعہ کے گزشتہ شمارے میں شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ نوٹنگھم اور لیسٹر میں فورم کے زیراہتمام مختلف اجتماعات سے خطاب کیا۔ جنوبی افریقہ سے پروفیسر ڈاکٹر سید سلمان ندوی اور اسلام آباد سے ڈاکٹر محمود احمد غازی کے علاوہ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا مفتی برکت اللہ اور راقم الحروف بھی ان نشستوں میں شریک رہے۔ کسے خبر تھی کہ یہ یادگار ملاقاتیں زندگی کی آخری ملاقاتیں ثابت ہوں گی۔

آج کے دور میں جبکہ معاشرہ کے ہر طبقہ میں بھرم قائم رکھنے کے لیے ریڈی میڈ میک اپ کا سامان ہر وقت جیب میں رکھنا ضروری سمجھا جا رہا ہے اور شخصی زندگی اور قومی زندگی کے درمیان تفاوت کی دیوار کلچر کا حصہ بنتی جا رہی ہے، ایک ہی چہرے کے ساتھ سب سے نباہ کرنے والا ’’محمد صلاح الدین‘‘ یقیناً پرانے دور کی شرافت، وضع داری اور سچائی کی علامت بن گیا تھا جو بے قید امنگوں کے ساتھ اکیسویں صدی کی طرف بڑھنے والے مادر پدر آزاد جذبوں کے لیے ناقابل برداشت ہوگئی تھی۔

محمد صلاح الدین نے اسلامی اقدار کی سربلندی اور ملکی سالمیت اور قومی خودمختاری کی جنگ میں بے دلیل دشمن کو گولی کا سہارا لینے پر مجبور کر دیا جو ان کی اخلاقی فتح ہے۔ اور اگر راہِ وفا کے راہرو ’’اخلاقی فتح‘‘ کا یہ پرچم تھامے حوصلہ اور جرأت کے ساتھ آگے بڑھتے رہے تو اسے عملی فتح کی منزل سے ہمکنار کرنا بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائیں اور اہل قلم کو ان کی طرح قلم کی آبرو کا تحفظ کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ

برصغیر کے نامور فقیہ حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ گزشتہ دنوں ۹۲ برس کی عمر میں انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حضرت مفتی صاحب مرحوم، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے تربیت یافتہ اور ان کے عزیز تھے۔ افتاء میں انہیں بلند مقام حاصل تھا اور اہلِ علم مشکل امور میں ان سے رجوع کرتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے جامعہ اشرفیہ لاہور کے شعبہ افتاء کے سربراہ تھے اور اپنے وقت کے اہل اللہ میں سے تھے۔

حضرت مولانا عبد الرؤفؒ

مدرسہ مفتاح العلوم (گھاس مارکیٹ، حیدر آباد، سندھ) کے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرؤف بھی گزشتہ دنوں طویل علالت کے بعد انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حضرت مرحوم حافظ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے تھے اور انتہائی نیک دل، متواضع اور خدا ترس بزرگ تھے۔ انہیں دیکھ کر پرانے دور کے اہلِ علم و فضل کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔

ڈاکٹر عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ

ملک کے معروف دانشور اور طبیب ڈاکٹر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ بھی گزشتہ ماہ کے دوران انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم امام الہندؒ مولانا ابو الکلام آزادؒ اور بابائے صحافت مولانا ظفر علی خانؒ کے خوشہ چینوں میں سے تھے اور خود بھی ممتاز اصحابِ قلم میں شمار ہوتے تھے۔ اسلام دوست اور محبِ وطن دانشور تھے اور باعمل اور باکردار شخصیت کے حامل تھے۔

اللہ تعالیٰ مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

اخبار و آثار

(جنوری ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter