وطنِ عزیز میں مدارسِ دینیہ فی الحقیقت اسلام کا قلعہ اور مصالحِ امتِ مسلمہ کے تحفظ کی آخری امید ہیں، اور ضروری وسائل کی شدید کمی اور حکومت کی بے توجہی کے باعث یہ مدارس انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ہیں۔ ان مدارس کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے اور مدارس کے مجموعی نظام کو ترقی دینے کی غرض سے متحدہ علماء کونسل پاکستان اور ’’ہیئۃ الاغاثہ الاسلامیہ العالمیہ‘‘ کے تعاون سے ایک ادارہ یعنی ’’ہیئۃ تنسیق المدارس الدینیہ باکستان‘‘ تشکیل دیا گیا ہے جس کے تحت ایک منصوبہ پر کام کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
مدارس کے مسائل کا جائزہ لینے، نصاب، نظام اور معیارِ تعلیم بہتر بنانے اور مدارس کے مہتمین حضرات سے اس ضمن میں تجاویز اور سفارشات کے حصول کے لیے دو روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا۔ ۲، ۳ نومبر ۱۹۹۴ء کو اسلام آباد میں مولانا مفتی ظفر علی نعمانی امیر متحدہ علماء کونسل پاکستان کی زیر صدارت یہ ورکشاپ منعقد ہوئی۔ جس میں تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے وفاقات یعنی تنظیم المدارس (بریلوی)، وفاق المدارس (دیوبندی)، وفاق المدارس السلفیہ (اہل حدیث)، رابطۃ المدارس (جماعتِ اسلامی)، اور متحدہ علماء کونسل پاکستان کے اعلیٰ عہدیداران شریک ہوئے۔ یہ ورکشاپ دو روز تک اسلام آباد کے ایک خوبصورت ہوٹل میں نہایت خوشگوار فضا میں جاری رہی۔ پاکستان بھر سے آئے ہوئے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام نہایت ہم آہنگی اور اعتماد سے اپنے اپنے مسائل اور تجاویز پیش کرتے رہے۔
اجلاس میں دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب، تعلیمی معیار اور نظامِ امتحانات کو بہتر بنانے کے بارے میں تجاویز اور سفارشات پیش کی گئیں۔ دو دن کے غور و فکر کے دوران تین کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، جن میں نصاب کمیٹی، امتحانات کمیٹی اور کمیٹی برائے غیر نصابی سرگرمیاں شامل تھیں۔ ان کمیٹیوں نے درج ذیل سفارشات پیش کیں جو متفقہ طور پر منظور کر لی گئیں:
نصاب کمیٹی
کمیٹی کا اجلاس جناب ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر کی زیرصدارت مورخہ ۳ نومبر ۱۹۹۴ء کو منعقد ہوا۔ آغاز مولانا حافظ فضل رحیم کی تلاوت سے ہوا۔ شرکاء درج ذیل تھے:
۱۔ سید مظفر حسین ندوی
۲۔ مولانا رفیق اثری (دارالحدیث محمدیہ، جلال پور بیروالہ، ملتان)
۳۔ مولانا حافظ فضل رحیم (جامعہ اشرفیہ، لاہور)
۴۔ مولانا حبیب الرحمٰن بخاری (جامعہ سلفیہ، اسلام آباد)
۵۔ جناب زاہد اشرف (جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ، فیصل آباد)
۶۔ ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی (جامعہ نعیمیہ، لاہور)
۷۔ مولانا مختار احمد ضیاء
۸۔ الشیخ ابوعمار محمد غسان (ہیئۃ الاغاثہ الاسلامیہ العالمیہ، اسلام آباد)
۹۔ مولانا پیر سیف اللہ خالد، لاہور
۱۰۔ مولانا عبد الغفار حسن، اسلام آباد
سفارشات
۱۔ تمام وفاقوں پر مشتمل ایک وفاق قائم کیا جائے۔
۲۔ مدارس میں درجہ بندی قائم کی جائے۔
۳۔ ذی استعداد اصحابِ علم پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دیا جائے جو مروجہ دینی نصاب سے غیر ضروری کتب کے اخراج اور جدید مفید کتب کے اضافے کی نشاندہی کرے اور مطلوبہ کتب کی تدوین کرے۔
۴۔ معہد تدریب المعلمین کا قیام عمل میں لایا جائے۔
۵۔ عصری علوم کو مناسب مراحلِ تعلیم میں پڑھایا جائے۔
۶۔ شہادۃ عالمیہ کے لیے تحقیقی مقالے کو عربی زبان میں لازمی قرار دیا جائے۔
۷۔ عربی، اردو اور تحریر و تقریر کی مشق کا خصوصی اہتمام کیا جائے اور اس مقصد کے لیے جدید ذرائع سے استفادہ کیا جائے۔ بالخصوص جدید صحافت کے اصول طالب علم کو ذہن نشین کرائے جائیں۔ اس مقصد کے لیے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے ایک سالہ نصاب تشکیل دیا جائے۔
۸۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی دینی تربیت کا ٹھوس نظام وضع کیا جائے۔
امتحانات کمیٹی
اجلاس کی کارروائی مورخہ ۳ نومبر ۱۹۹۴ء کو ۱۱.۳۰ بجے ہوئی۔ تلاوتِ کلامِ پاک کے ساتھ باقاعدہ آغاز ہوا۔ شرکاء درج ذیل تھے:
۱۔ مولانا مفتی عبد القیوم ہزاروی (ناظمِ اعلیٰ تنظیم المدارس البریلویہ)
۲۔ مولانا غلام محمد سیالوی (کراچی)
۳۔ مولانا حافظ محمد امین (گوجرانوالہ)
۴۔ حافظ مسعود عالم (جامعہ سلفیہ، فیصل آباد)
۵۔ مولانا خورشید احمد گنگوہی (لاہور)
۶۔ مولانا محمد بن عبد اللہ (جامعہ سلفیہ، اسلام آباد)
۷۔ مولانا قاری محمد طاہر
۸۔ حافظ محمد منیب (اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد)
۹۔ مصباح الرحمٰن یوسفی (دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد)
تلاوتِ کلام پاک کے بعد چاروں مسلّمہ وفاقات کے امتحانی نظام کا جائزہ لیا گیا اور متفقہ طور پر طے کیا گیا کہ یہ نظام واقعی مثالی اور قابلِ عمل ہیں۔ ان نظاموں کو سراہا گیا۔ البتہ مزید اصلاح اور بہتری کے لیے درج ذیل سفارشات تجویز کی گئیں:
سفارشات
۱۔ شہادۃ عالمیہ کے تحریری امتحان کے بعد ایک منتخب ثقہ اور متبحر عالمِ دین طالب علم کا باقاعدہ انٹرویو اور اس کی علمی استعداد اور شخصی تعارف کے بارے میں جانچ پڑتال کرے۔ اور کامیابی یا سفارش کیے جانے کی صورت میں ہی سند جاری کی جائے۔
۲۔ عالمیہ کے امتحان میں مقالہ نویسی لازمی قرار دی جائے اور ایک ماہر استاذ کی نگرانی میں اس کو تیار کرایا جائے۔
۳۔ ثانویہ عامہ، خاصہ، عالیہ اور عالمیہ کے امتحانات مسلسل ہوں اور ہر زیریں امتحان میں کامیابی کے بعد ہی قریبی بالا امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے اور کامیابی کے بعد وفاق سند جاری کرے۔
۴۔ امتحانات کے بارے میں جو قواعد و ضوابط وفاقات کے ہاں طے شدہ ہیں ان کی سختی سے پابندی کروائی جائے۔ اور نقل، دھوکہ، ناجائز سفارشات، پرچے آوٹ ہونے یا غلط مارکنگ کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جائے اور مرتکبین کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
۵۔ چاروں تسلیم شدہ وفاقات میں سے معتمد نمائندہ افراد پر مشتمل ایک مشترکہ بورڈ تشکیل دیا جائے جو جملہ امتحانات کی نگرانی کا فریضہ انجام دے۔
کمیٹی برائے غیر نصابی سرگرمیاں
کمیٹی کا اجلاس مولانا عبد المالک کی سربراہی میں منعقد ہوا جس میں درج ذیل علماء کرام نے شرکت فرمائی:
۱۔ مولانا فضل سبحان
۲۔ مولانا عبد الرحمٰن سلفی (جامعہ ستاریہ، کراچی)
۳۔ مولانا نعیم احمد (جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ، فیصل آباد)
۴۔ مولانا فضل ربی
۵۔ مولانا عبد الرحمٰن راشد
۶۔ مولانا فضل ربی درانی
۷۔ مولانا عبد القیوم
۸۔ مولانا عبد الہادی (جامعہ اثریہ، پشاور)
۹۔ مولانا عبد الحئی ابڑو (اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد)
۱۰۔ الشیخ ابو الجود
۱۱۔ الشیخ محمد شکری الفیومی (المدرسۃ الاسلامیہ، دوبئی)
۱۲۔ پروفیسر عبد اللطیف انصاری نے سیکرٹری کے فرائض انجام دیے۔
مدارسِ علومِ دینیہ کے لیے قرار پایا کہ طلباء کو اپنی جملہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے پورے پورے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر ادارے میں مختلف النوع مجالس اور سرگرمیوں کا اس طرح اہتمام کیا جائے کہ ہر طالب علم اپنی پسند اور فطری میلان و رجحان کے مطابق ان میں حصہ لے کر اپنی صلاحیتوں اور جذبوں کا اظہار کر سکے۔ ان سرگرمیوں کے انعقاد میں نظم و ضبط اور باقاعدہ کو پیش نظر رکھا جائے۔
سفارشات
۱۔ مدرسہ کے درس و تدریس کے نظامِ اوقات میں سب سے پہلے صبحی اجتماع کا انعقاد عمل میں لایا جائے جس کا دورانیہ ۱۵ منٹ سے ۳۰ منٹ ہو۔ اس اجتماع (مارننگ اسمبلی) میں مدرسہ کے تمام طلباء اور اساتذہ شامل ہوں گے۔ تلاوتِ قرآن پاک کے بعد حالاتِ حاضرہ، ملکی مسائل، شخصی حفظانِ صحت، اور دیگر موضوعات پر مشتمل باہمی مشاورت سے پورے سال کے لیے مستقل نصاب مرتب کیا جائے۔ اس اجتماع میں ملکی، عالمی حالات، حالاتِ حاضرہ، اسلامی تعلیمات، نظریہ پاکستان، اور اسلامی نظامِ حیات کے مختلف عنوانات پر اساتذہ کرام باری باری تقریر کریں اور وقتاً فوقتاً ممتاز علماء اور اکابرینِ ملت اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بھی خطاب کی دعوت دی جائے۔
۲۔ ہر جمعرات کو درس و تدریس کے اوقات کے بعد بزمِ ادب کا اجلاس منعقد ہونا چاہیے، جس میں تمام طلبہ کی شرکت لازمی قرار دی جائے۔ اساتذہ میں سے ایک دو کو اس کا ذمہ دار نگران بنایا جائے۔
۳۔ پورے سال کے لیے موضوعات کی فہرست مرتب کی جائے۔
۴۔ ہر طالب علم کو بزم ادب کے پروگرام میں حصہ لینے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
۵۔ بزمِ ادب میں حالاتِ حاضرہ، عالمِ اسلام کے مسائل، ملکی حالات اور اسلامی نظامِ حیات سے متعلقہ عنوانات پر طلبہ تقریر کریں یا مضامین پڑھیں۔ اور کم از کم ایک طالب علم عربی زبان میں ضرور تقریر کرے۔
۶۔ مہینہ میں کم از کم ایک اجلاس مدرسہ کے اساتذہ کا بھی ہونا چاہیے، جس میں گزشتہ ماہ کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے۔
۷۔ مدرسہ کی تعمیر و ترقی کے امور پر تبادلہ خیالات کیا جائے۔ مختلف موضوعات پر تحقیق کے بارے میں مشاورت کی جائے۔
۸۔ مدرسہ کے تمام طلباء کو کم از کم چار ہاؤسز میں تقسیم کر دیا جائے۔ کسی استاد کو ہر ہاؤس کا انچارج بنا دیا جائے۔ ان ہاؤسز کے لیے ہر سال حسنِ قراءت، خطابت، تقریر مقابلے، سیمینارز، مباحثوں اور کھیلوں میں مقابلوں کا اہتمام کیا جائے۔ ہاؤسز کے درمیان دینی عنوانات پر ذہنی آزمائش، شعر و شاعری، بیت بازی کے مقابلے بھی منعقد کیے جائیں۔ ہر ہاؤس کا انچارج اپنے اپنے ہاؤس کے طلبہ کے حالات و کوائف کا ریکارڈ بھی رکھے۔
۹۔ روزانہ کم از کم ایک نماز کے بعد مختصر خطاب ہو۔ ایک طالب علم کے لیے تمام حاضرین کو خطاب کرنا ضروری قرار دیا جائے تاکہ کسی اجتماع سے خطاب کرنے کی جھجھک دور ہو جائے۔ یہ خطاب بھی روزانہ کسی نہ کسی استاد کی نگرانی میں ہو اور اس کے لیے موضوع کا تعین کیا جائے۔
۱۰۔ مہینے میں ایک نفلی روزہ رکھنے اور شب بیداری کا بھی گاہے بگاہے اہتمام ہونا چاہیے۔
۱۱۔ مدرسہ کی اعلیٰ جماعتوں کے طلباء پر مشتمل گروپ تشکیل دیے جائیں جن کو فقہ، حدیث اور تفسیر میں تحقیق کی تربیت دی جائے۔ تاکہ دن میں وہ لائبریری سے حوالہ جات تلاش کر کے متفقہ حل پیش کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکیں۔
۱۲۔ تمام طلباء کو خوش نویسی اور کچھ طلبہ کو خطاطی اور کتابت کی تربیت بھی دی جائے تاکہ وہ اچھا لکھنے کی صلاحیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ضرورت پڑنے پر مدرسہ کے لیے بینرز لکھ سکیں اور چاکنگ بھی کر سکیں۔
۱۳۔ وقتاً فوقتاً طلباء کے تعلیمی دوروں کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔ ملک کی مشہور جامعات کے حالات و کوائف رکھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
نماز کے بعد چند منٹ کے لیے اورادِ مسنونہ کا اہتمام کیا جائے۔
۱۴۔ عصر سے مغرب کے دوران تمام مدارس میں کھیلوں، ریاضتِ جسمانیہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تمام مدارس اپنے اپنے حالات کے مطابق کھیلوں میں جن کا چاہیں انتظام کریں لیکن اس امر کا خیال رکھیں کہ تمام طلباء ریاضتِ جسمانی اور کھیلوں میں حصہ لیں۔ مثلاً فٹ بال، والی بال، جوڈو کراٹے، کشتی، باڈی بلڈنگ، جمناسٹک، اتھلیٹکس، تیراکی، بنوٹ، نیزہ بازی، گھوڑ سواری وغیرہ۔ عصر سے مغرب کے دوران سول ڈیفنس، فائر فائٹنگ (آگ پر قابو پانا)، فرسٹ ایڈ، عسکری تربیت اور فنونِ حرب کی تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے۔ اساتذہ کرام کی مشاورت سے ہم نصابی سرگرمیاں منظم کی جائیں اور علمی تبادلۂ خیالات کا اہتمام کیا جائے۔ علومِ دینیہ کے طلباء کے لیے لباس، یونیفارم مقرر ہونا چاہیے۔
اجتماع کے آخر میں ایک خصوصی قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں حکومت کی طرف سے دینی مدارس کی رجسٹریشن پر پابندی عائد کرنے اور سکولوں میں عربی مضمون کی لازمی حیثیت ختم کرنے کی پرزور مذمت کی گئی اور حکومت سے ان اقدامات کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔
دو روزہ ورکشاپ میں جن علماء کرام اور اسکالر حضرات نے شرکت فرمائی، ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
مولانا مفتی ظفر علی نعمانی (امیر متحدہ علماء کونسل پاکستان)
مولانا مفتی عبد القیوم ہزاروی (لاہور)
مولانا فضل الرحیم (جامعہ اشرفیہ، لاہور)
مولانا حبیب الرحمٰن شاہ بخاری (جامعہ سلفیہ، اسلام آباد)
مولانا محمد حنیف جالندھری (جامعہ خیر المدارس، ملتان)
مولانا غلام محمد سیالوی (کراچی)
ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر (جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹاؤن، کراچی)
ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی (لاہور)
حافظ مسعود عالم (جامعہ سلفیہ، فیصل آباد)
مولانا زاہد الراشدی (شاہ ولی اللہ یونیورسٹی، گوجرانوالہ)
جناب زاہد اشرف (جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ، فیصل آباد)
مولانا عبد المالک (دارالعلوم منصورہ، لاہور)
مولانا عبد الغفار حسن (سابق رکن اسلامی نظریاتی کونسل، اسلام آباد)
مولانا محمد عبد اللہ (جامعہ فریدیہ، اسلام آباد)
مولانا مظفر حسین ندوی (مظفر آباد)
پروفیسر عبد اللطیف انصاری (مظفر آباد)
پیر سیف اللہ خالد (لاہور)
مولانا عبد الرحمٰن سلفی (جامعہ ستاریہ، کراچی)
مولانا محمد رفیق اثری (دارالحدیث محمدیہ، ملتان)
مولانا عبد الہادی (پشاور)
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری (ڈائریکٹر جنرل ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد)
مولانا عبد الرؤف ملک (سیکرٹری جنرل متحدہ علماء کونسل پاکستان)
پروفیسر محمد یحییٰ (ناظم ہیئۃ تنسیق مدارس دینیہ پاکستان)
مولانا نعیم احمد (فیصل آباد)
جناب سردار شاہ (کیبنٹ ڈویژن، اسلام آباد)
حافظ محمد عمار خان ناصر (الشریعہ اکیڈمی، گوجرانوالہ)
جناب محمد شکری احمد الفیومی (مدرسہ اسلامیہ، دوبئی)
الشیخ محمد غسان ابو عمار (مندوب ہیئۃ الاغاثہ الاسلامیہ العالمیہ، اسلام آباد)
اور متعدد علماء کرام۔
ورکشاپ کو کامیاب بنانے میں جن کارکنان اور حضرات کا بھرپور تعاون حاصل رہا ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:
جناب علی احمد مہر۔ جناب مصباح الرحمٰن یوسفی۔ جناب عبد الحئی ابڑو۔ جناب محمود مہدی۔ جناب ایاد عدنان۔ جناب شبیر حسین۔ مولانا خورشید احمد گنگوہی۔ جناب احمد حسن۔ عبد الستار۔ محمد احسن۔ محمد عبد اللہ الغنی۔ اور محمد عارف۔
مولانا مفتی ظفر علی نعمانی (امیر متحدہ علماء کونسل پاکستان) کی دعا پر یہ دو روزہ ورکشاپ اختتام کو پہنچی۔