پاکستان کے دینی حلقے اور مغربی ذرائع ابلاغ
بی بی سی ۲ سے نشر کیے جانے والے ایک پروگرام کی تفصیل

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مغربی ذرائع ابلاغ ان دنوں عالم اسلام اور مسلمانوں کی جو تصویر دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ ملت اسلامیہ کے اہل علم و دانش کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ بالخصوص پاکستان کے دینی حلقوں کو جس انداز میں عالمی رائے عامہ کے سامنے متعارف کرایا جا رہا ہے اس کا پوری سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلہ میں ہم قارئین کی خدمت میں معروف برطانوی نشریاتی ادارے ’’بی بی سی ۲‘‘ کے نشر کردہ ایک پروگرام کا خاکہ پیش کر رہے ہیں جس میں مختلف مذہبی پہلوؤں کے حوالے سے پاکستان کے دینی حلقوں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ یہ پروگرام سال رواں کے دوران ’’ایسٹ‘‘ کے نام سے کئی حصوں میں نشر ہوا ہے اور لندن میں ہمارے ایک محترم دوست نے اس کے پہلے دو حصے ریکارڈ کر رکھے ہیں اور انہی کے ہاں ہم نے یہ پروگرام دیکھے ہیں۔ پروگرام کے پہلے حصہ کے نشر ہونے کی تاریخ ریکارڈ میں نہیں آسکی البتہ دوسرے حصہ کے نشر ہونے کی تاریخ ۱۸ اپریل ریکارڈ پر موجود ہے۔

پروگرام کا آغاز جھنگ سے کیا گیا ہے جس میں بعض عورتوں کو گندم کی کٹائی اور چھٹائی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جھنگ ایک پسماندہ علاقہ ہے جہاں شیعہ سنی کشیدگی کا ایک طویل پس منظر موجود ہے۔ اس کے بعد بی بی سی کا کیمرہ مین ہمیں سیدھا مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ اور مولانا ایثار القاسمی شہیدؒ کی قبروں پر لے جاتا ہے، ان کی قبروں کی تختیوں کو نمایاں کر کے دکھایا گیا ہے، پھر اچانک ایک جلسہ کا منظر سامنے آجاتا ہے جس سے مولانا اعظم طارق خطاب کر رہے ہیں۔ پروگرام پیش کرنے والا مولانا موصوف کا بحیثیت ایم این اے تعارف کراتا ہے اور مولانا کے خطاب کے بعض حصے سنائے جاتے ہیں جن میں جناب آیت اللہ خمینی کی بعض عبارات کا حوالہ دے کر شیعہ کی تکفیر پر زور دیا گیا ہے اور ’’کافر کافر شیعہ کافر‘‘ کے پرجوش نعرے سنائے جاتے ہیں۔

اس کے بعد کیمرہ مین ہمیں ایک دینی درسگاہ میں لے گیا ہے جو اپنی عمارت اور گرد و پیش کے پس منظر میں کسی پسماندہ علاقے کی درسگاہ نظر آرہی ہے۔ درسگاہ کے ایک کمرے میں بہت سے چھوٹے بڑے طالب علم سوئے ہوئے ہیں جو اذان کی آواز سن کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور وضو خانہ کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ ان میں سے متعدد طلبہ کے پاؤں میں زنجیریں ہیں اور وہ اسی حالت میں زنجیریں سنبھالتے ہوئے وضو کر رہے ہیں۔ پھر انہیں نماز پڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے، اتنے میں ایک غریب خاتون کیمرے کے سامنے آجاتی ہے جو اس مدرسہ میں پڑھنے والے بچے کو ملنے آئی ہے۔ اس بچے کو اپنی ماں سے مدرسہ سے باہر ایک کھلی جگہ میں ملتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ماں سے پوچھا گیا ہے کہ اس نے اپنے بچے کو اس مدرسہ میں کیوں بھیجا ہے؟ وہ جواب دیتی ہے کہ قرآن کریم حفظ کرانے کے لیے۔ دوسرا سوال ہوا کہ بچے کو کسی سکول میں کیوں نہیں بھیجا؟ ماں حسرت سے جواب دیتی ہے کہ مجبوری ہے کیونکہ اس کا باپ بیکار ہے اور گیارہ سال سے بیمار ہے اس لیے مجبوراً بچے کو اس درسگاہ میں بھیجا گیا ہے۔

اب کیمرہ مین ہمیں پھر درسگاہ کے اندر لے جاتا ہے جہاں بہت سے بچے استاذ کے سامنے بیٹھے سبق یاد کر رہے ہیں اور ایک بچہ بلند آواز سے سورۃ الرحمان کی تلاوت کر رہا ہے۔ پروگرام ریکارڈ کرنے والا بی بی سی کا نمائندہ مدرسہ کے منتظم سے انٹرویو کر رہا ہے اور اس بات کی وضاحت چاہتا ہے کہ بچوں کو زنجیروں سے کیوں باندھا گیا ہے؟ مدرسہ کے منتظم کا جواب یہ ہے کہ درجہ کتب میں تو ہمارے ہاں اس طرح کی سختی نہیں ہے وہاں طلبہ آزادی کے ساتھ پڑھتے ہیں لیکن حفظ قرآن کے شعبہ میں ہمیں سختی کرنا پڑتی ہے کیونکہ سختی کے بغیر بچے قرآن کریم یاد نہیں کر سکتے۔ زنجیروں سے باندھنے کے بارے میں درسگاہ کے منتظم کا کہنا ہے کہ ہم نے گزشتہ سال اساتذہ کی میٹنگ میں طے کیا تھا کہ کسی طالب علم کو زنجیر سے نہیں باندھا جائے گا لیکن جو بچے بھاگ جاتے ہیں اور والدین انہیں زبردستی پڑھانا چاہتے ہیں وہ اپنے بچوں کو زنجیروں کے ساتھ باندھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مدرسہ کے منتظم سے اس انٹرویو کے بعد درسگاہ کے طلبہ کو ایک ساتھ زمین پر بیٹھے کھانا کھاتے دکھایا گیا ہے اور وہ منظر بلاشبہ ایسا ہے جسے دیکھ کر مغربی دنیا کا کوئی شخص نفرت سے منہ پھیر لینے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔

اب یہاں سے اچانک ہم ایسی جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں دینی مدرسہ کے طلبہ کو اسلحہ کی ٹریننگ لیتے دکھایا گیا ہے۔ ایک طالب علم کے ہاتھ میں رائفل ہے جسے وہ صاف کر رہا ہے۔ پروگرام پیش کرنے والا بتاتا ہے کہ ان طلبہ نے افغانستان میں اسلحہ کی ٹریننگ حاصل کی ہے اور کشمیر میں بھی اب یہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اب سپاہ صحابہؓ کا ایک دفتر سامنے آجاتا ہے جس کے باہر مسلح گن مینوں کا پہرہ ہے اور اندر مولانا اعظم طارق اپنے رفقاء سمیت بیٹھے ہیں جن سے بی بی سی کا نمائندہ انٹرویو کر رہا ہے۔ انٹرویو کا بنیادی سوال یہ ہے کہ سپاہ صحابہؓ کے لیڈر شیعہ کے خلاف اس قدر اشتعال انگیز تقریریں کیوں کرتے ہیں؟ مولانا کا جواب یہ ہے کہ ہمارے اشتعال کے نتیجے میں دشمن اب دفاع پر مجبور ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش یہ ہے کہ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں شیعہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ اس کے بعد مولانا اعظم طارق کو پھر ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے دکھایا گیا، پھر ایک جھلک زنجیروں سے جکڑے ہوئے طلبہ کی سامنے آتی ہے اور کسی ہسپتال میں شیعہ سنی تصادم کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کے زخم دکھا کر پروگرام کا پہلا حصہ ختم ہو جاتا ہے۔

پروگرام کے دوسرے حصے کا آغاز سلامت مسیح اور رحمت مسیح سے ہوتا ہے جو ضلع گوجرانوالہ کے مشہور زمانہ توہین رسالتؐ کیس کے ملزم ہیں۔ انہیں حوالات میں دکھایا گیا ہے اور وہیں ان سے انٹرویو ہوتا ہے۔ رحمت مسیح کہتا ہے کہ عدالت میں گواہوں نے اس کے بارے میں جھوٹ بولا ہے، اصل قصہ یہ ہے کہ ماسٹر عنایت اللہ جو قریب کے اسکول میں پڑھاتا ہے اس نے مسیحی بچوں کو اپنی کلاس میں پڑھانے سے انکار کر دیا تھا جس پر میں نے اسے وہاں سے تبدیل کرانے کی کوشش کی۔ اس پر ماسٹر عنایت نے مجھے دھمکی دی کہ میں تم سے نمٹوں گا اور یہ کیس ماسٹر عنایت نے اسی دشمنی میں ہمارے خلاف بنوایا ہے۔ اس کے نزدیک اصل کہانی یہ ہے کہ ہم گاؤں کے چودھریوں کے ماتحت نہیں رہتے تھے اور ان کے لڑکوں کے کام نہیں کرتے تھے اس لیے ہمیں اس جھوٹے کیس میں پھنسایا گیا ہے۔

اس انٹرویو کے بعد تحریک تحفظ ناموس رسالتؐ کے کارکنوں کو سروں پر پٹیاں باندھے مظاہرہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اسی دوران سلامت مسیح اور رحمت مسیح کو سیشن کورٹ میں پیش ہونے کے لیے جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے، عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ مسلح پولیس کے پہرے میں ان ملزموں کو عدالت کی طرف لے جا رہی ہیں۔ دونوں ملزم ایک دوسرے کو صبر اور حوصلہ کی تلقین کر رہے ہیں۔ دوسرے منظر میں سیشن کورٹ سے سزائے موت کا فیصلہ سن کر ملزم باہر آرہے ہیں، ایک دوسرے سے گلے لگ کر رو رہے ہیں اور پھر انہیں پولیس کی بند گاڑی میں سوار کر کے روانہ کر دیا گیا ہے۔

اب بی بی سی کا نمائندہ ہمیں ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس دراب پٹیل کے ہاں لے گیا ہے جنہوں نے اپنے مخصوص انداز میں توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ اس کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کو ایک طیارے سے اترتے دکھایا گیا ہے اور تبصرہ کرنے والا کہتا ہے کہ پاکستان میں مذہبی قوانین کا سلسلہ جنرل محمد ضیاء الحق نے شروع کیا تھا۔ پھر ہم ہیومن رائٹس کمیشن کی سیکرٹری جنرل عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کے دفتر میں پہنچ جاتے ہیں جو عملہ سمیت سلامت مسیح کیس میں سیشن کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی تیاری میں لگی ہوئی ہیں۔ اس دوران ان سے انٹرویو بھی ہوتا ہے اور وہ توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون کے خلاف اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کرتی ہیں۔

اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں اسلام آباد میں سلمان رشدی کے خلاف ہونے والے مظاہرہ کی جھلکیاں سامنے آجاتی ہیں۔ پھر وفاقی شرعی عدالت کا صدر دروازہ اور اس کے باہر لگا ہوا بورڈ دکھایا جاتا ہے، اس تبصرہ کے ساتھ کہ توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کے نفاذ کا فیصلہ اسی شرعی عدالت نے کیا تھا۔ اس کے بعد اسلام آباد میں ہونے والے ایک اور مظاہرہ کی جھلکی دکھائی دیتی ہے جو غالباً جماعت اہل سنت کی طرف سے راولپنڈی میں کیا جانے والا مظاہرہ ہے۔ پھر ہم عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کے آفس میں پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کی رفیقہ کار حنا جیلانی ایڈووکیٹ سے انٹرویو ہوتا ہے۔ اس کے بعد نشریہ کے مطابق کیمرہ مین سیدھا جھنگ پہنچ جاتا ہے اور مسجد حق نواز شہیدؒ کے باہر گن مینوں کو پہرہ دیتے ہوئے دکھاتا ہے اور پھر مولانا اعظم طارق سے انٹرویو لیا جاتا ہے جس میں وہ توہین رسالت کیس میں سلامت مسیح اور رحمت مسیح کو سیشن کورٹ کی طرف سے دیے جانے والی سزائے موت کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر یہ سزا نہ دی جاتی تو لوگ ملزموں کے گھروں کو جلا دیتے اور ساری بستی نذر آتش کر دیتے۔

پھر ہم سیدھے رتہ دوہتڑ گاؤں میں پہنچتے ہیں جہاں سلامت مسیح اور رحمت مسیح کے گھروں کو تالے لگے ہوئے نظر آتے ہیں، بستی ویرانی کا منظر پیش کر رہی ہے، اس کی دیواروں پر ’’گستاخ نبیؐ کو پھانسی دو‘‘ کے نعرے درج ہیں۔ ایک طرف کچھ مکان آباد ہیں جن سے باہر کچھ عورتیں جمع ہیں جو مسلمانوں کے مطالبات اور سیشن کورٹ کے فیصلے کے خلاف مخصوص انداز میں اظہار جذبات کر رہی ہیں۔ ایک عورت مسلمانوں کو خوب جلی کٹی سنا رہی ہے، ایک بوڑھا خدا کی مرضی کہہ کر خاموش ہو جاتا ہے، پھر بتاتا ہے کہ رحمت مسیح اور سلامت مسیح کے خاندان اس بستی سے جا چکے ہیں مگر لوگ اب بھی ان کا پتہ معلوم کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں تاکہ انہیں تلاش کر کے خاندان کے افراد کو مار سکیں۔

اب عیسائیوں کا ایک مذہبی جلوس سامنے آجاتا ہے جو ایک پادری کی قیادت میں مقامی گرجا گھر کی طرف جا رہا ہے اور پھر پروگرام پیش کرنے والے صاحب ہمیں یہ کہتے ہوئے ربوہ لے جاتے ہیں کہ توہین رسالتؐ کے سلسلہ میں زیادہ مقدمات احمدیوں کے خلاف ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی تصویر دکھائی جاتی ہے اور ان کے ایک قول کا بینر سامنے آتا ہے جس میں انہوں نے اس جملہ کو الہامی قرار دیا ہے کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچا دوں گا‘‘۔ ربوہ کی ایک عبادت گاہ میں ان کا مربی تقریر کر رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ مسیح بن مریمؑ فوت ہو چکے ہیں۔ پھر ۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے اور ۱۹۸۴ء کے صدارتی آرڈیننس کا ذکر ہوتا ہے جس کے تحت اسلام کا نام اور اس کے شعائر کے استعمال سے قادیانیوں کو قانوناً روک دیا گیا ہے۔ پھر ہمیں قادیانیوں کے آرگن ’’الفضل‘‘ کے دفتر لے جایا گیا ہے جہاں اس کے ایڈیٹر نسیم سیفی ’’الفضل‘‘ کی کاپیاں جوڑتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ پھر وہ انٹرویو دیتے نظر آتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ تم مسلمان نہیں ہو، ہم اگر مسلمان نہیں تو پھر اور کیا ہیں؟ اب قادیانیوں کو ایک عبادت گاہ میں نماز پڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

اس کے بعد ہم تحریک تحفظ ناموس رسالتؐ کے ایک اجلاس میں پہنچ جاتے ہیں جس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء بیٹھے ہیں، پھر ایک قادیانی وکیل دکھایا جاتا ہے اور چند قادیانیوں کو کمرہ کے سامنے لایا جاتا ہے جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کے خلاف مقدمات درج ہیں۔ اب ہم سیدھے سندھ پہنچتے ہیں جہاں ایک بستی میں قادیانیوں کے خلاف کام کرنے والے مقامی علماء سے سوال و جواب ہوتے ہیں۔ اس کے بعد مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہنما مولانا احمد میاں حمادی سے ایک مجلس میں انٹرویو ہوتا ہے جو بتاتے ہیں کہ ہم قادیانیوں کو آئین و قانون کا پابند دیکھنا چاہتے ہیں اور اسی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اگر وہ آئین و قانون کے مطابق رہیں تو ہمارا ان سے کوئی جھگڑا نہیں۔ اب ایک دفعہ پھر ہم ربوہ میں ہیں، وہی نسیم سیفی صاحب کا دفتر ہے وہ الفضل کی کاپی جوڑ رہے ہیں اور الفضل پر حکومت کی طرف سے پابندی کا ذکر کرتے ہوئے امتناع قادیانیت کے صدارتی آرڈیننس کا حوالہ دیتے ہیں۔ ربوہ کا ایک بازار دکھایا جاتا ہے جہاں لوگوں کی آمد و رفت ہے، تانگے چل رہے ہیں اور ایک مسجد سے باہر نسیم سیفی اپنے ہاتھ میں ایک آیف آئی آر لہرا کر بتا رہے ہیں کہ اس میں ربوہ کی پوری آبادی کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے تحت پولیس کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت گرفتار کر سکتی ہے۔ اس کے بعد ربوہ کے قبرستان میں ہمیں لے جایا جاتا ہے جس میں قادیانی امت کے تیسرے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کی قبر کی لوح دکھائی جاتی ہے اور نسیم سیفی صاحب قبروں پر کچھ پڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

اب ہمیں اسکرین پر پاکستان کے پاسپورٹ کے فارم کا ایک حصہ دکھایا جاتا ہے جس میں مسلمانوں کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹا قرار دینے کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ربوہ سے ہم گوجرانوالہ پہنچتے ہیں جہاں کے ایک محلہ کھیالی میں گزشتہ سال ایک حافظ قرآن فاروق کو چند شرپسندوں کی شرارت پر قرآن کریم کا گستاخ قرار دے کر شہید کر دیا گیا تھا۔ کیمرہ مین حافظ فاروق کا گھر دکھاتا ہے، پولیس چوکی کی حوالات کو سامنے لاتا ہے جہاں سے مشتعل ہجوم حافظ فاروق کو پولیس سے چھڑا کر لے گیا تھا، وہ روڈ دکھایا گیا ہے جہاں حافظ فاروق کو گھسیٹا گیا اور پھر سنگسار کر دیا گیا۔ حافظ فاروق کی اہلیہ اور خواہر نسبتی کا انٹرویو نشر کیا گیا ہے اور خواتین کو ان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

اب ہم پھر سپاہ صحابہؓ کے گیسٹ ہاؤس کے سامنے ہیں جہاں گن مین کھڑے ہیں اور اندر مولانا اعظم طارق قومی اسمبلی میں پیش کردہ ناموس صحابہؓ بل کی وضاحت کر رہے ہیں۔ اس کے بعد کیمرہ مین ہمیں جلی ہوئی گاڑی دکھاتا ہے، ہسپتال میں زخمیوں کے پاس لے جاتا ہے اور مسجد میں بم پھٹنے کے بعد کا منظر پیش کرتا ہے اور پھر ہم ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس دراب پٹیل کے دفتر میں پہنچ جاتے ہیں جو اپنی گفتگو میں مسلمانوں کو تحمل اور بردباری سے کام کرنے کی تلقین کر رہے ہیں اور توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون کے خلاف اپنے موقف اور جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔

اب ہم لاہور ہائیکورٹ کے سامنے ہیں جہاں رحمت مسیح اور سلامت مسیح کو سیشن کورٹ کی طرف سے دی جانے والی سزائے موت کے فیصلہ کے خلاف اپیل کی سماعت ہو رہی ہے۔ کورٹ سے باہر نوجوانوں کا مشتعل ہجوم ہے جو ’’عشق رسولؐ میں موت بھی قبول ہے‘‘ کے پرجوش نعروں کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کر رہا ہے۔ ان نوجوانوں کو کھلے روڈ پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے اور جناب رشید مرتضیٰ ایڈووکیٹ کو نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے سامنے لایا گیا ہے۔ اتنے میں کورٹ کا فیصلہ سامنے آجاتا ہے، رحمت مسیح اور سلامت مسیح کو بری کر دیا گیا ہے اور کورٹ سے باہر نوجوانوں کا مشتعل ہجوم فیصلہ کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔ پھر ہم لاہور کے مرکز ختم نبوت مسجد عائشہؓ مسلم ٹاؤن میں پہنچ جاتے ہیں جہاں ایک اجلاس کا منظر دکھایا گیا ہے اور صوبائی اسمبلی کے رکن پیر سید عارف حسین شاہ آف حافظ آباد بی بی سی کی ٹیم کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہم ناموس رسالتؐ پر حملہ کسی صورت میں برداشت نہیں کر سکتے اور نہ ہی گستاخی کو انسانی حقوق میں شمار کرتے ہیں۔

اس کے بعد احتجاجی جلوس کی ایک جھلک دیکھ کر ہم پھر عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کا انٹرویو سن رہے ہیں جو مظاہرہ کرنے والوں کو بنیاد پرست اور دہشت گرد قرار دے کر بتا رہی ہیں کہ ان کی طرف سے اسلام کے نام پر ہمیں دھمکایا جا رہا ہے۔ پھر سلامت مسیح اور رحمت مسیح کو ایک گاڑی میں لے جایا جا رہا ہے اس کیفیت کے ساتھ کہ وہ گاڑی کے شیشوں کے پردے آگے کر کے اپنے اور اپنے چہروں پر پردہ ڈال کر باہر کے لوگوں سے چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پروگرام پیش کرنے والا بتا رہا ہے کہ ان کے قتل کا فتویٰ صادر ہو چکا ہے اس لیے انہیں چھپا کر لے جایا جا رہا ہے اور پھر یہ کہہ کر پروگرام کا یہ حصہ مکمل کر دیا جاتا ہے کہ ’’اور قانون میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔‘‘

قارئین محترم! یہ ہے اس سال بی بی سی ۲ سے ’’ایسٹ‘‘ کے عنوان سے نشر ہونے والے پروگرام کے پہلے دو حصوں کا خاکہ جس میں پاکستان کے دینی حلقوں، مدارس اور جماعتوں کی تصویر عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش کی گئی ہے۔ اس میں حقیقت اور افسانے کا تناسب کیا ہے اور مختلف واقعات کے حصے بخرے کر کے انہیں ازسرنو ایک خاص ترتیب کے ساتھ سامنے لانے کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہیں؟ اس کا فیصلہ آپ خود کر لیں لیکن ایک بات ہم اس موقع پر عرض کرنا چاہیں گے کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اصل حالات سے بے خبر مغربی رائے عامہ اس نوعیت کے مسلسل پروگرام دیکھ کر اگر مسلمانوں کے دینی حلقوں کے بارے میں منفی تاثرات قائم کرتی ہے تو اس میں اس کا کچھ زیادہ قصور بھی نہیں ہے۔ یہ منظر جو شخص بھی خالی الذہن ہو کر دیکھے گا وہ منفی تاثرات سے خود کو نہیں بچا سکے گا۔ یہ صورتحال دینی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہی نہیں ایک کھلا چیلنج بھی ہے۔ خدا کرے کہ ہمارے مذہبی راہنما اس چیلنج کا صحیح طور پر ادراک کرتے ہوئے عملی میدان میں اس کا سامنا کر سکیں۔

حالات و واقعات

(اگست ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter