مولانا مشرف بيگ اشرف
كليۃ العلوم الإسلاميۃ، سوان گارڈن، بلاک سی، إسلام آباد۔
کل مضامین:
5
صنف وجنس اور اس میں تغیر (۳)
اب تک کی گفتگو سے یہ واضح ہو گیا کہ اسلامی شریعت کا تصور جنس وصنف کیا ہے۔ نیز علم جینیات میں ان تصورات کو کیسے دیکھا جاتا ہے۔ نیز نفسیات کی بنیاد پر اس قضیے کی کیا حیثیت ہے۔ نیز فقہا نے جس علمیت پر جنس کا تصور کھڑا کیا تھا، وہ آج بھی بالکل متعلق اور زندہ ہے۔ جینیات کے علم نے کچھ ایسا ثابت نہیں کیا کہ وہ بدل جائے۔ بس اس نے ظاہری اعضا کے پیچھے جینز کا تصور کھڑا کیا ہے۔ بلاشبہ، یہ ایک بہت بڑی کاوش ہے اور اس سے کئی بیماریوں کے علاج میں مدد ملی۔ لیکن انسان اب بھی وہی ہے۔ اس لیے، ہم اب ہم خنثی سے متعلق شرعی احکام کی طرف لوٹتے...
صنف وجنس اور اس میں تغیر (۲)
جنس کی تعیین کا پیمانہ: علم جینیات کی روشنی میں: ہماری موجود ہ گفتگو میں کلیدی کردار اس بحث کا ہے کہ کسی جنس کا تعین کیسے ہوتا ہے؟ظاہر ہے کہ ہم یہاں شرعی نقطہ نگاہ سے بات کر رہے ہیں، اس لیے ہمیں کتاب وسنت اور فقہا کے اجتہاد کی روشنی میں چیزوں کو دیکھنا ہے۔ تاہم اس سارے عمل میں موجودہ انسانی علم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جنس کے تعین کے حوالے سےچار امکانات ہیں: ۱: جنسی اعضا ووظائف،۲: کروموسومز اور ۳: ہارمونز ۴: نفسیاتی کیفیت۔یہاں پہلے تینوں امور کا تعلق انسان کی عضویاتی ووظائفی جہت (فیزیولوجی اورآنٹولوجی)سے ہے اور آخری کا تعلق نفسیاتی جہت...
صنف و جنس اور اس میں تغیر (۱)
آپ فیروز اللغات کھول کے"جنس" کے مادے کے تحت دیے گئے معانی شمار کیجیے تو اس میں آپ کو یہ الفاظ ملیں گے: "ذات، نوع، صنف، جماعت" اور اگر آپ صفحے پلٹاتے ہوئے "صنف" کے مادے کے تحت مذکور الفاظ تک پہنچیں تو آپ کو یہ الفاظ ملیں گے: "نوع، جنس، قسم"۔ جنس، نوع وصنف یہ سب الفاظ ہماری زبان میں ایک ہی معنے کے لیے برتے گئے ہیں۔ اس میں آپ کو کوئی ایسا فرق نہیں ملے گا کہ ان میں سے ایک انسانی کی جسمانی خصائص کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا اس کے سماجی مظاہر کی طرف۔ اسی طرح، انگریزی زبان میں gender and sex دو نوں کلمات کو ۱۹۵۰ تک ایک ہی شمار کیا جاتاتھا۔ لیکن اسی صدی میں جنسی انقلا...
حکم عقلی، غزالی اور علم کلام
اشعری علم کلام کا مشہور متن "ام البراہین" کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے: اعلم أن الحكم العقلي ينحصر في ثلاثة أقسام: الوجوب والاستحالة والجواز. فالواجب ما لايتصور في العقل عدمه، والمستحيل مالايتصور في العقل وجوده، والجائز ما يتصور في العقل وجوده وعدمه. ترجمہ: "جان لو کہ حکم عقلی تین ہی طرح کا ہے: وجوب، عدم امکان اور جواز۔ پس واجب وہ ہے کہ عقل کے لیے اسے معدوم فرض کرنا ناممکن ہو، ناممکن وہ ہے کہ عقل کے لیے اسے موجود ماننا ممتنع ہو اور جائز وہ ہے کہ عقل اس کے وجود وعدم دونوں کا تصور کر سکتی ہو۔" یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب علم الکلام ایک شرعی علم...
فری لینسنگ: تعارف، اخلاقیات اور احکام
باسم ربي الأكرم الذي علم بالقلم علم الإنسان ما لم يعلم، وصلى الله على نبيه الأكرم! أما بعد! فری لینسر کی اصطلاح والٹر سکاٹ (1771–1832) کی طبع زاد ہے انہوں نے ایک کہانی " ايفانہو" لکھی (اس کہانی کےسورما کے نام سے اسے موسوم کیا)۔ انہوں نے یہ اصطلاح قرون میانہ کے ایسے جنگجوکے لیے استعمال کی جس نے باقاعدہ فوج کا حصہ بن کر حلف نہیں لیا ہوتا تھا۔ چناچہ یہ اصطلاح دو الفاظ کا مرکب ہے: ۱: فری (Free) یعنی آزاد (اس لیے فری لینسنگ کا تعلق "مفت" سے نہیں بلکہ "آزادی" سے ہے۔) ۲: لینس (Lance)۔ یہ لفظ دراصل لاتینی زبان کے لفظ Lancea سے بنا ہے جس کا مطلب چھوٹا نیزہ ہے۔ موجودہ...
1-5 (5) |