’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۵)

اسلامی متون اور نظریہ ارتقا

تعارف

بہت سے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے دو بنیادی مآخذ ہیں۔ پہلا مآخذ قرآن مجید ہے، جو اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے، نہ کہ پیغمبر محمدﷺکا ذاتی اظہار یا الہامی تاثر۔ دوسرا مآخذ احادیثِ نبویؐ ہیں، جو رسول اکرم ﷺ کے اقوال، افعال اور تصویبات پر مشتمل روایتوں کا مجموعہ ہے۔ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کے نزدیک نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ سند حاصل ہے، جو ان کے قول و فعل کو دینی حجت بناتی ہے۔ اسی بنیاد پر احادیث کو اسلامی شریعت اور دینی فہم میں نہایت اہم مقام حاصل ہے۔ متعدد موضوعات ایسے ہیں جو قرآن و حدیث دونوں میں مشترکہ طور پر پائے جاتے ہیں، جیسے فقہی احکام، عقائد، انبیاء کے قصص، اور اخلاقی تعلیمات۔ اگرچہ دونوں مآخذ اپنی نوعیت اور دائرہ کار میں مختلف ہیں، لیکن دینی فہم و عمل کی تشکیل میں یہ ایک دوسرے کے معاون و مکمل حیثیت رکھتے ہیں (Totolli 2020)۔مثال کے طور پر، قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کو نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، تاہم نماز کی عملی تفصیلات جیسے رکعات کی تعداد، قراءت کا طریقہ، قیام و سجدہ کی ترتیب، احادیثِ نبوی ﷺ کے ذریعے معلوم ہوتی ہیں، جن کی تعبیر و تفہیم مختلف اصولِ تفسیر کی روشنی میں کی جاتی ہے۔ اسی طرح، بعض قرآنی آیات کا ایک مجموعہ رسول اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے کسی اہم تاریخی واقعے سے مربوط ہوتا ہے، جس کا مکمل پسِ منظر اور سیاق و سباق صرف احادیثِ نبوی ﷺ سے واضح ہوتا ہے (Gorke 2020)۔ قرآن اور حدیث کے مابین ایک اور اہم اور بنیادی فرق یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت عبادت کا درجہ رکھتی ہے، جبکہ احادیث کی تلاوت بذاتِ خود عبادت نہیں سمجھی جاتی (Michot 2009; Graham 2020)۔ حدیث کی ساخت کے عمومی طور پر دو اجزاء ہوتے ہیں: پہلا "سند" یعنی وہ سلسلہ روایت جس میں تمام راویوں کے نام شامل ہوتے ہیں، اور دوسرا "متن" یعنی اصل حدیث یا روایت کا مضمون۔ چونکہ سند ایک تاریخی زنجیر ہے، اس لیے اسے بطور عبادت تلاوت نہیں کیا جاتا، جب کہ متن میں بعض اوقات دعائیہ کلمات شامل ہوتے ہیں اور بعض اوقات نہیں بھی۔ اسی بنا پر بہت سے مسلمان احادیث کو ایک تاریخی و سوانحی ذخیرے کے طور پر دیکھتے ہیں، جس میں رسول اکرم ﷺ  کی زندگی کے مختلف پہلو محفوظ ہیں۔ البتہ وہ احادیث جن میں دعائیں شامل ہوتی ہیں، انہیں انفرادی یا اجتماعی دعا کے مواقع پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بالآخر، ان مصادر کے مابین ایک نمایاں امتیاز ان کی تاریخی صحت و وثوق (historical integrity) کا ہے۔ جمہور مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن مجید وہی خالص وحی الٰہی ہے جو آغازِ اسلام میں نبی کریم ﷺ پر نازل ہوئی، اور جو صدیوں کے دوران اس قدر کثیر و متواتر ذرائع اور افراد کے ذریعے منقول ہوئی ہے کہ اسے کسی گٹھ جوڑ یا جعل سازی کا نتیجہ قرار دینا علمی اور عقلی طور پر محلِ نظر ہے۔ یہی سبب ہے کہ قرآن کی تاریخی صداقت پر مسلم علمی روایت میں شاذ و نادر ہی سوال اٹھایا گیا ہے (Graham 2020

البتہ احادیث کا معاملہ قرآن سے یکسر مختلف ہے۔ نبی کریم ﷺ کے اقوال و افعال کو ان کے بعد آنے والے راویوں (محدثین) نے قلمبند کیا اور روایت کے ذریعے منتقل کیا۔ تاہم، بہت سے مسلمانوں کے نزدیک احادیث کی تاریخی سالمیت اور صداقت ایک متنوع اور پیچیدہ موضوع ہے۔ مسلم علما نے ابتدا ہی میں یہ تسلیم کیا کہ بعض افراد نے ذاتی، سماجی یا سیاسی مفادات کے لیے احادیث گھڑنے کی کوشش کی (Brown 2009, 1–66)۔ یہی سبب تھا کہ علمِ حدیث کی تنقیدی روایت نے جنم لیا، جسے تجزیہ احادیث کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔ اس علم میں محدثین نے نہ صرف روایت کے اصول و ضوابط مرتب کیے، بلکہ احادیث کی درجہ بندی اور صحیح و ضعیف روایات کے درمیان امتیاز کے معیارات بھی طے کیے (Abdul-Jabbar, 2020a)۔ ان تفصیلات پر باب 9 میں مزید گفتگو کی جائے گی، تاہم یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ اگرچہ قرآن کی تاریخی ترسیل پر عام طور پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا، مگر احادیث کی جامعیت اور درجہ بندی پر ہمیشہ بحث موجود رہی ہے، اور اسی لیے ان کے مختلف مدارج متعین کیے گئے ہیں (Brown 2009

احادیث سے متعلق ایک اہم پہلو توحید کے تصور سے متعلق ہے (Abdul-Jabbar, 2020b)۔ وقت کے ساتھ جب حدیث کی تصدیق اور تنقید کا عمل زیادہ مربوط و مستحکم ہوتا گیا، تو محدثین  نے ان احادیث کو باقاعدہ طور پر مجموعوں کی صورت میں مرتب کرنا شروع کیا۔ ان مجموعوں نے حدیث پر کام کرنے والے علما کے لیے ایک عملی فہرست کا کام دیا، جس کی مدد سے وہ ازسرِنو تحقیق کے بجائے مستند اور مصدقہ احادیث پر اپنی فکری و فقہی کاوشوں کی بنیاد رکھ سکیں۔  یہ بات بھی اہم ہے کہ اہلِ سنّت اور اہلِ تشیّع کے ہاں حدیث کی ساخت، متن اور اسناد کے اصولوں میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ چونکہ اس تحقیق کا مرکز امام غزالی کی فکر ہے، جو ایک سنّی عالم تھے، اس لیے یہاں بحث کا دائرہ صرف سنّی احادیث تک محدود رکھا جائے گا۔

سنّی مکتبِ فکر میں چھ مجموعوں کو سب سے زیادہ معتبر تصور کیا گیا ہے، جنہیں صحاحِ ستہ کہا جاتا ہے۔ ان مجموعوں کو عموماً ان کے مرتبین کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے (Abdul-Jabbar, 2020b

سنّی مسلمانوں کے ہاں جن چھ مجموعوں کو حدیث کی سب سے معتبر کتابیں سمجھا جاتا ہے، وہ درج ذیل ہیں، جنہیں صحاحِ ستہ (چھ مستند کتبِ حدیث) کہا جاتا ہے:

  1. صحیح بخاری — امام محمد بن اسماعیل البخاری کی مرتب کردہ، جو صحتِ حدیث کے حوالے سے سب سے معتبر سمجھی جاتی ہے۔
  2. صحیح مسلم — امام مسلم بن الحجاج کی تالیف، جو بخاری کے بعد سب سے مستند سمجھی جاتی ہے۔
  3. سنن النسائی (السنن الصغری) — امام احمد بن شعیب النسائی کی تالیف۔
  4. سنن ابی داؤد — امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث کی مرتب کردہ کتاب۔
  5. جامع الترمذی — امام محمد بن عیسیٰ الترمذی کی تالیف، جس میں فقہی آرا کے ساتھ تبصرے بھی شامل ہیں۔
  6. سنن ابن ماجہ — امام ابن ماجہ کی تالیف، جسے بعض علما صحاحِ ستہ میں شامل کرتے ہیں، جبکہ کچھ اس کی جگہ مؤطا امام مالک کو ترجیح دیتے ہیں، جو امام مالک بن انس کی تالیف ہے۔

بعض محدثین مؤطا امام مالک کو صحاحِ ستہ میں شامل کرتے ہیں اور ابن ماجہ کو اس فہرست سے خارج کرتے ہیں، لیکن عام طور پر مذکورہ بالا چھ کتابیں ہی صحاحِ ستہ کے طور پر معروف ہیں۔

یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ مذکورہ چھ کتب احادیث کی تمام تالیفات کی نمائندگی نہیں کرتیں، بلکہ یہ ان میں سے سب سے زیادہ مقبول اور معتبر سمجھی جانے والی مجموعات ہیں۔ صحاحِ ستہ میں بالخصوص صحیح بخاری اور صحیح مسلم—جنہیں مجموعی طور پر صحیحین (دو مستند مجموعے) کہا جاتا ہے—کو اعلیٰ ترین سند کا درجہ حاصل ہے، اور ان میں سے بھی صحیح بخاری کو سب سے زیادہ قبولِ عام حاصل ہے (Brown 2009, 31–32

جیسا کہ آگے واضح ہوگا، حضرت آدم  کی تخلیق اور اس سے متعلقہ روایات (جن کا تعلق براہِ راست نظریہ ارتقا سے بنتا ہے) زیادہ تر انہی دو مجموعوں یعنی صحیحین میں مذکور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان احادیث کی صداقت کو چیلنج کرنا یا ان کا انکار کرنا ایک نہایت نازک اور سنجیدہ مسئلہ بن جاتا ہے۔ اختصار کے پیشِ نظر، احادیث کی درجہ بندی اور اس پر ہونے والے مباحث کو باب 9 میں تفصیل سے بیان کیا جائے گا۔ یہ باب بنیادی طور پر ان تمام متعلّقہ صحیفائی نکات کو سادہ اور قابلِ فہم انداز میں، بغیر تکنیکی اصطلاحات کے، قارئین کے سامنے رکھنے پر مرکوز ہوگا۔

اس باب کا مقصد دو پہلوؤں کا احاطہ کرنا ہے۔ اولاً، ہم ان قرآنی آیات اور احادیث کا جائزہ لیں گے جو اسلام اور نظریۂ ارتقاء کے مابین بحث سے متعلق ہیں۔ یہ بحث باب چہارم کے لیے ایک تمہیدی کردار ادا کرے گی، جہاں ہم اُن مختلف طریقوں کا تجزیہ کریں گے جن کے ذریعے مسلمان مفکرین نے ارتقائی نظریات کے ساتھ اسلامی عقائد میں تطبیق یا عدم تطبیق کی کوشش کی ہے۔ یوں باب سوم اور باب چہارم کے مابین یہ فکری ربط، باب نہم کے لیے ایک علمی پس منظر فراہم کرے گا، جہاں امام غزالی کے منطقی طریقۂ کار کو زیربحث لایا جائے گا۔ وہ طریقہ  کار جس کی روشنی میں اسلامی روایت میں مصالحت کی گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بعدازاں، باب دہم میں اسلام اور ارتقاء کے باہمی تعلق کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جائے گا۔ ثانیاً، اس باب کا مقصد یہ بھی ہے کہ متعلقہ اسلامی صحیفوں کا تقابلی مطالعہ ان عیسائی مفاہیم سے کیا جائے جنہیں باب دوم میں نمایاں کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ہم آگے دیکھیں گے، بعض مسائل عیسائی مذہبی روایت میں نہایت اہمیت رکھتے ہیں، لیکن اسلامی متون اور فکری روایت میں ان کا کوئی صریح یا مضبوط حوالہ موجود نہیں ہے۔ یہ دونوں اہداف، اپنی بیان کردہ ترتیب کے ساتھ، اس باب کی ساخت اور مباحث کا تعین کرتے ہیں۔

اسلامی متون میں تخلیق کا تصور

اس حصے میں ہم تخلیق سے متعلق قرآنی آیات اور احادیث کا جائزہ لیں گے۔ وضاحت اور ترتیب کے لیے اس بحث کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

  1. آسمانوں اور زمین کی تخلیق
  2. غیر انسانی حیات کی تخلیق
  3. آدمؑ کی تخلیق

ہم ان تینوں موضوعات کے تحت متعلقہ آیات اور احادیث کو اسی ترتیب سے زیرِ بحث لائیں گے۔

 زمین وآسمان کی تخلیق

قرآن مجید، بائبل کی طرح اس بات کا ذکر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا۔ درج ذیل دو مثالیں اس کی وضاحت کرتی ہیں:

  1. تمہارا رب اللہ ہی ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں (ستہ أیام) میں پیدا کیا، پھر عرش پر جلوہ‌گر ہوا؛ وہی رات کو دن پر اس طرح لپیٹ دیتا ہے کہ وہ تیزی سے اس کے پیچھے دوڑتا ہے؛ اس نے سورج، چاند اور ستاروں کو اپنے حکم کے تابع بنایا؛ ساری تخلیق اور حکم اسی کا ہے۔ اللہ، جو تمام جہانوں کا رب ہے، بہت بلند و بالا ہے! (القرآن 7:54)
  2. تمہارا رب اللہ ہی ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں (ستہ أیام) میں پیدا کیا، پھر عرش پر جلوہ‌گر ہوا، وہی تمام امور کی تدبیر کرتا ہے؛ کوئی اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کر سکتا: یہی اللہ تمہارا رب ہے، پس اسی کی عبادت کرو۔ آخر تم نصیحت کیوں نہیں پکڑتے؟ (القرآن 10:3) 

یہ آیات بظاہر یہ بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ تاہم کلاسیکی عربی زبان میں "ایام" کا مفہوم لسانی طور پر وسعت رکھتا ہے۔ اس سے مراد چوبیس گھنٹے والے دن بھی ہو سکتے ہیں، یا یہ کسی بھی مدت کے چھ اَدوار یا مرحلے بھی ہو سکتے ہیں جن کی کوئی معیّن طوالت نہیں (Mabud 1991, 54–57; Jalajel 2009, 36)۔ خود قرآن مجید میں بھی اس لسانی وسعت کا استعمال دیگر مقامات پر کیا گیا ہے: 

وہ آپ (نبی ﷺ) سے عذاب کو جلد لانے کا مطالبہ کریں گے۔ حالانکہ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا – آپ کے رب کے ہاں ایک دن تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ (القرآن 22:47)

ایام (یعنی دنوں) کے مفہوم میں پائے جانے والے ابہام کے علاوہ، ان چھ دنوں کی مدت کے بارے میں بھی غیر یقینی صورتحال پائی جاتی ہے۔ یہ دن مساوی طوالت کے ہو سکتے ہیں، یا ایک دوسرے سے بالکل مختلف مدت کے حامل بھی ہو سکتے ہیں۔ اسلامی متون میں ایسی کوئی صراحت موجود نہیں جو کسی ایک مفروضے کو حتمی طور پر درست قرار دے (Jalajel 2009, 36)۔ آخر میں، یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا تخلیق کے عمل کی کوئی ترتیب قرآن میں بیان ہوئی ہے؟ ابتدائی دو آیات اس معاملے میں غیر جانب دار معلوم ہوتی ہیں کیونکہ وہ آسمان و زمین کو ایک ساتھ ذکر کرتی ہیں، یعنی یہ بیان کرتی ہیں کہ آسمان اور زمین چھ دنوں میں تخلیق کیے گئے۔ اس لیے یہ آیات کسی واضح زمانی ترتیب کی طرف اشارہ نہیں کرتیں۔ تاہم، قرآن کے ایک اور مقام پر بظاہر ایک زمانی ترتیب نظر آتی ہے:

اِن سے پوچھو، کیا تم اُس ہستی کا انکار کر رہے ہوجس نے دو دنوں میں زمین بنائی، اور اُس کے شریک ٹھیراتے ہو؟ یہ ہے جہانوں کا پروردگار۔  اور اُس نے زمین کے اندر اُس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیے اور اُس میں برکتیں رکھ دیں اور سب ضرورت مندوں کے لیے یکساں، اُس کی غذائیں اُس میں ودیعت کر دیں۔ یہ سب ملا کر چار دنوں میں۔ پھر اُس نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی جو (زمین کے ساتھ ہی وجود میں آچکا تھا اور) اُس وقت دھوئیں کی صورت میں تھا۔ سو اُس کو اور زمین کو حکم دیا کہ حاضر ہو جاؤ، خوشی سے یا نا خوشی سے۔ دونوں نے کہا: ہم خوشی سے حاضر ہیں۔ پھر دو دنوں میں اُنھیں سات آسمان بنا دیا اور ہر آسمان میں اُس کا قانون وحی کر دیا اور تمھارے اِس قریبی آسمان کو ہم نے چراغوں سے رونق دی اور اُسے خوب محفوظ بنا دیا۔ یہ خداے عزیز و علیم کا منصوبہ ہے۔(القرآن 41: 9-12)

ان آیات میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ زمین اور اس کے اجزا کی تخلیق پہلے ہوئی، اور اس کے بعد آسمانوں کی تخلیق کا ذکر آیا ہے۔  "پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا"۔۔۔اسی ترتیب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس ترتیب کو زمانی معنوں میں بھی سمجھا جا سکتا ہے، اور فضیلت یا درجہ بندی کے طور پر بھی۔اگر دوسرے مفہوم کو اختیار کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آسمان زمین سے زیادہ اہم یا برتر ہیں (Maaboud 1991, 58; Jalajel 2009, 38)۔ اسی طرح قرآن میں بھی ثم کا استعمال ہمیشہ زمانی ترتیب کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ بعض اوقات یہ کسی چیز کی اہمیت، تدریج یا توجہ کی منتقلی کو ظاہر کرنے کے لیے بھی آتا ہے۔

اسی اصول پر قاضی  بیضاوی، جو ایک معروف مفسر ہیں سورۃ البقرۃ کی  آیت 29کی تفسیر میں لکھتے ہیں:  "لفظ ثم یہاں بظاہر مخلوقات کے درمیان فرق اور آسمان کی تخلیق کو زمین پر فضیلت دینے کے لیے ہے" ۔ لہٰذا، یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ قرآن کسی حتمی تاریخی تسلسل کو بیان کرتا ہے۔ ایک حدیث جو صحیح مسلم کے باب  "ابتداء الخلق وخلق آدم عليه السلام" میں روایت ہوئی ہے ، بظاہر ایک حتمی ترتیب فراہم کرتی ہے اور بعض پہلوؤں سے قرآن کے بیانیے سے متصادم معلوم ہوتی ہے:

اللہ تعالیٰ نے مٹی کو ہفتے کے دن پیدا کیا، اتوار کے دن پہاڑ بنائے، پیر کے دن درخت پیدا کیے، منگل کے دن ناپسندیدہ چیزیں (یعنی تکلیف دہ اور ضرر رساں چیزیں) پیدا کیں، بدھ کے دن نور پیدا کیا، جمعرات کے دن زمین میں جانور پھیلائے، اور جمعہ کے دن عصر کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، تمام مخلوقات کے بعد، دن کے آخری حصے اور رات کے آغاز کے درمیان۔

یہ روایت اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ تخلیق سات دنوں میں مکمل ہوئی، جبکہ قرآن میں چھ دنوں کا ذکر ہے۔ تاہم، جیسا کہ جلاجل (2009, 38–42) نے مناسب طور پر نشاندہی کی ہے، اس حدیث کے حوالے سے چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

  1. اس حدیث کی سند میں اشکالات موجود ہیں، جن کی طرف علمائے حدیث نے اشارہ کیا ہے۔
  2. احادیث کی دیگر کتب میں اس حدیث کے مختلف نسخے موجود ہیں، جن میں ترتیب یا تفصیلات کا اختلاف پایا جاتا ہے، جو اس روایت کی قطعیت کو مشکوک بنا دیتا ہے۔
  3. حتیٰ کہ اگر اس حدیث کو ظاہر پر لیا جائے، تب بھی قرآن کی بیان کردہ چھ دنوں کی مدت سے متصادم نہیں، کیونکہ قرآن کی "چھ  ایام"  کی اصطلاح لچکدار مفہوم رکھتی ہے اور مختلف ادوار کو ظاہر کر سکتی ہے۔
  4. اس حدیث کا براہِ راست آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے تعلق نہیں۔ اس میں صرف مٹی، روشنی اور جانوروں جیسے عناصر کا ذکر ہے، مگر سیاروں، کہکشاؤں یا زمین کی ساخت کی تخلیق کو حتمی طور پر بیان نہیں کرتی۔

درج بالا نکات کی روشنی میں یہ حدیث کسی قطعی زمانی ترتیب کی بنیاد فراہم نہیں کرتی۔ اسلامی متون کائنات اور زمین کی تخلیق کو  24 گھنٹوں پر مشتمل چھ دنوں میں مکمل کرنے کا کوئی حتمی نظریہ پیش نہیں کرتے، اور نہ ہی ان چھ دنوں یا ادوار کی یکسانیت یا ترتیب کے بارے میں کوئی قطعی تفصیل موجود ہے۔ نتیجتاً، کوئی واضح تاریخی تسلسل سامنے نہیں آتا۔ تخلیق سے متعلق دیگر آیات بھی موجود ہیں، لیکن اس بحث کا مرکزی نکتہ تخلیق کا دورانیہ تھا۔ باقی تفصیلات کا ارتقائی مباحث سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔

غیر انسانی مخلوقات کی تخلیق

قرآنِ مجید میں بارہا یہ ذکر آیا ہے کہ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے۔ تاہم، اسلامی متون میں جاندار مخلوقات کی تخلیق کی تفصیلات (فی الحال حضرت آدمؑ یا انسان کی تخلیق کو چھوڑ کر) کچھ مبہم سی معلوم ہوتی ہیں۔ اس میں زندگی کی ابتدا اور انواع (species) کی ابتدا دونوں شامل ہیں۔ قرآن کی ایک آیت اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ زندگی کا آغاز پانی سے ہوا:

کیا منکر لوگ نہیں دیکھتے کہ آسمان اور زمین (پہلے) جُڑے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں پھاڑ کر جدا کیا؟ اور ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا۔

کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے؟(القرآن،  21:30)

ایک دوسری آیت میں بھی یہی تذکرہ ملتا ہے:

اور اللہ نے ہر جان دار کو پانی (یعنی مخصوص سیال مادے) سے پیدا کیا،پھر ان میں سے کوئی اپنے پیٹ کے بل چلتا ہے، کوئی دو پاؤں پر، اور کوئی چار پر چلتا ہے۔ اللہ جو چاہے پیدا کرتا ہے،یقیناً اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ (القرآن،  24:45)

اگرچہ یہ دونوں آیات جانداروں کی تخلیق کو پانی سے جوڑتی ہیں، لیکن اس عمل کی تفصیل بیان نہیں کی گئی کہ یہ تخلیق پانی سے کس طریقے سے واقع ہوئی۔

قرآن مجید میں پودوں کا بھی ذکر آتا ہے:

اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تم زمین کو خشک و سنّاٹا دیکھتے ہو، پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ جنبش کرنے لگتی ہے اور پھولنے لگتی ہے۔ یقیناً وہ ذات جو اس کو زندگی بخشتی ہے، وہ مردوں کو بھی زندگی دے گی۔ بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔(القرآن،  41:39)

اس آیت میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خدا  اپنی تخلیقی قوتوں کا ذکر کر رہا ہے کہ جب بنجر زمین پر بارش برسائی جاتی ہے تو یہ زندگی ، یعنی پودوں کے ساتھ نشوونما پا سکتی ہے۔ ایک اور آیت ہے جہاں زندگی اور موت کا موضوع پودوں کے بیجوں سے منسلک ہے:

اللہ ہی ہے جو دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر اس میں سے (نیا) اگاتا ہے؛ وہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے پیدا کرتا ہے— یہی اللہ ہے، پھر تم کہاں بھٹکائے جا رہے ہو؟(القرآن 6:95)۔

قرآن مجید میں جانوروں کا بھی کثرت سے ذکر آیا ہے، جیسے کہ چیونٹیاں (سورۃ النمل 27:18)، کتے (سورۃ الاعراف 7:176)، پرندے (سورۃ الانعام 6:38؛ سورۃ النحل 16:79)، مکڑی (سورۃ العنکبوت 29:41)، گدھے (سورۃ النحل 16:8؛ سورۃ لقمان 31:19)، اور دیگر بہت سے جانور۔ ان کا ذکر بعض اوقات مثال (تمثیل) کے طور پر کیا گیا ہے یا کسی واقعے میں بطور کردارذکر کیا گیا ہے، خواہ وہ کسی نبی سے متعلق ہو یا عام انسانوں سے۔قرآن میں ایک خاص حوالہ مویشیوں (چوپایوں) کے بارے میں بھی آیا ہے، جن کا ذکر اللہ کے ہاتھوں کی تخلیق کے ساتھ کیا گیا ہے:

اور مویشیوں کو بھی اللہ ہی نے پیدا کیا، ان میں تمہارے لیے گرمی کا سامان ہے اور دیگر فائدے بھی، اور ان میں سے کچھ کو تم کھاتے ہو۔ (القرآن، 16:5)

ایک اور آیت میں قرآن مجید بیان کرتا ہے کہ مویشی (چوپائے) اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لیے نازل کیے گئے:

اس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا، اور تمہارے لیے آٹھ قسم کے مویشی نازل کیے۔ وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ میں ایک مرحلے کے بعد دوسرے مرحلے میں تین اندھیروں کے اندر تخلیق کرتا ہے۔  یہی اللہ تمہارا رب ہے، بادشاہی اسی کی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں،پھر تم کدھر بھٹکائے جا رہے ہو؟ (القرآن، 39:6)

تاہم، جب ان باتوں کونظریہ  ارتقاکے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ان میں کوئی ایسا پہلو نہیں جو اس نظریے سے واضح طور پر ٹکراتا ہو۔ جیسا کہ ہم اگلے حصے میں بھی دیکھیں گے، قرآن کی ایک آیت میں یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا۔ بعض افراد نے اس بات کو بنیاد بنا کر یہ کہا ہے کہ حضرت آدمؑ ارتقائی عمل کا حصہ نہیں تھے، بلکہ یہ ایک خصوصی تخلیق (special creation) کی طرف اشارہ ہے (Keller 2011, 350–364)۔ تاہم، اللہ کے "ہاتھوں" کا ذکر صرف آدمؑ کے بارے میں ہی نہیں آیا۔ ایک اور مقام پر قرآن بیعت کے واقعے کے دوران بھی اللہ کے "ہاتھ" کا ذکر کرتا ہے۔(القرآن،  48،10)

ان تمام حوالوں سے اگر کچھ ظاہر ہوتا ہے تو وہ یہ ہے کہ ان امور کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ لیکن ان سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ لازمی طور پر فوری تخلیق (instantaneous creation) کو بیان کر رہے ہیں یا نظریہ ارتقا کا قطعی انکار کر رہے ہیں، درست نہیں ہے۔

جہاں تک مویشیوں سے متعلق دوسری آیت کا تعلق ہے (القرآن 39:6)، جلاجل (2009, 44–47) اس آیت میں استعمال ہونے والے لفظ "نَزَّلَ"کے مفہوم پر مفسرین کے درمیان اختلاف کی نشاندہی کرتے ہیں۔ لغوی طور پر "نَزَّلَ" کا مطلب آسمان سے اتارنا ہوتا ہے۔ اگر اسے اسی طرح لیا جائے تو اس سے یہ مفہوم نکل سکتا ہے کہ مویشی آسمان سے نازل ہوئے، جو کہ نظریہ ارتقا  کے نظریے سے ایک ممکنہ تضاد پیدا کر سکتا ہے۔تاہم، جیسا کہ جلاجل  (2009, 45) واضح کرتے ہیں کہ: مفسرین مختلف لسانی روایات  کی بنیاد پر متعدد تجاویز پیش کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی تجویز قطعی نہیں ہے۔ ان کی بعض تجاویز کا مطلب یہ ہے کہ جس تخلیق کا حوالہ دیا جا رہا ہے وہ ابتدائی تخلیق ہے۔ ان مویشیوں میں سے دوسری تشریحات ان کی مسلسل تخلیق اور رزق کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ 

ان مختلف آرا کو مد نظر رکھتے ہوئے، مویشیوں سے متعلق  دوسری آیت ارتقائی عمل کے ذریعے مویشیوں کے پیدا ہونے کے امکان کی نفی نہیں کرتی۔ قرآن میں ایسی آیات بھی موجود ہیں جن میں ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو جوڑوں (pairs) کی صورت میں پیدا کیا:

پاک ہے وہ (اللہ) جس نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کیے، خواہ وہ زمین کی پیداوار ہو، یا خود ان کے (انسانوں کے) اپنے وجود سے، یا وہ چیزیں جنہیں وہ جانتے ہی نہیں۔ (القرآن 36:36) اور ہم نے ہر چیز کو جوڑوں کی صورت میں پیدا کیا تاکہ تم غور و فکر کرو۔ (القرآن 51:49)

یہ آیات بظاہر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ جانوروں اور/یا پودوں کو جوڑوں (یعنی نر و مادہ) کی صورت میں پیدا کیا گیا ہے۔ اس تعبیر کو بعض اوقات دو صنفی ساخت (binary gender) کے طور پر لیا جا سکتا ہے، یعنی صرف نر یا مادہ۔ تاہم، پہلی آیت (القرآن 36:36) اس مفہوم کو محض جنسی دوگانگی تک محدود نہیں کرتی۔ آیت میں یہ بھی فرمایا گیا ہے:"اور ان چیزوں کے بھی، جنہیں وہ جانتے ہی نہیں" جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نر و مادہ کی تقسیم سے ماورا مخلوقات بھی ہو سکتی ہیں۔

جہاں تک دوسری آیت (القرآن 51:49) کا تعلق ہے، تو مفسرین نے بھی اس آیت کی تفسیر صرف جنس تک محدود نہیں کی۔ کیونکہ آیت میں کوئی مخصوص قید نہیں، اس لیے انہوں نے اسے دیگر متضاد جوڑوں پر بھی منطبق کیا جیسے کہ: گرمی و سردی، خشکی و تری، رات و دن، کڑواہٹ و مٹھاس وغیرہ (Shafi 2008a, 385–386; Nasr 2015, 1076, 1278)۔  اگرچہ صنفی جوڑوں کا مفہوم ان آیات میں شامل ہو سکتا ہے، لیکن ان کا مفہوم صرف اسی تک محدود نہیں۔ اس وضاحت کی اہمیت اس لیے ہے کہ بعض لوگ ان آیات کو بنیاد بنا کر یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی متون صرف صنفی دوگانگی کو تسلیم کرتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بعض جانداروں (مثلاً کچھ قسم کی چھپکلیاں) میں واحد جنسی (unisexual) تولیدی نظام پایا جاتا ہے جو اس تقسیم سے باہر ہے۔ مگر چونکہ ان آیات کے کئی ممکنہ اور قابلِ قبول معانی موجود ہیں، اس لیے یہ تضاد ضروری نہیں کہ واقع ہو۔ اس مختصر جائزے کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی متون میں ایسا کوئی قطعی بیان موجود نہیں جو پودوں یا جانوروں کی ارتقائی تخلیق کی تردید کرتا ہو۔

بعض معاصر مسلم مفکرین نے غیر انسانی ارتقا (non-human evolution) کو انسانی ارتقا  سے الگ تسلیم کیا ہے اور ان کے نزدیک اس میں کوئی دینی یا فکری قباحت نہیں،  مثلاً Keller (2011, 350–364) اور Qadhi and Khan (2018)، جن کا تفصیلی جائزہ ہم باب 4 میں پیش کریں گے۔

حضرت آدمؑ کی تخلیق

آدمؑ کی تخلیق سے متعلق عناصر کا ذکر قرآنِ مجید میں مختلف جگہوں پر آیا ہے۔ یہ بیانات کسی زمانی ترتیب کی پیروی نہیں کرتے (کیونکہ قرآن خود زمانی ترتیب کے مطابق مرتب نہیں کیا گیا اور نہ ہی وہ تاریخ کو زمانی تسلسل سے بیان کرتا ہے)۔ سب سے پہلے، قرآن انسان کی تخلیق سے متعلق عمومی دعویٰ کرتا ہے کہ اسے ابتدائی مادی عناصر جیسے کہ مٹی، زمین، مختلف اقسام کی مٹی (مثلاً خشک یا چکنی)، سیاہ گارا، اور نطفہ سے پیدا کیا گیا:

لوگو! اگر تمہیں دوبارہ جی اٹھنے (قیامت) میں شک ہے، تو (یاد رکھو) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر لوتھڑے سے جو چمٹنے والا ہوتا ہے، پھر گوشت کے لوتھڑے سے، جو کبھی مکمل صورت والا ہوتا ہے اور کبھی نامکمل۔ ہم یہ (سب) اس لیے کرتے ہیں تاکہ تم پر اپنی قدرت واضح کر دیں۔(القرآن، 22:5)

اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح کو بھیجا۔ اس نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور تمہیں اس میں بسایا، لہٰذا اسی سے معافی مانگو اور اسی کی طرف رجوع کرو۔

یقیناً میرا رب قریب ہے، دعاؤں کا جواب دینے والا ہے۔ (القرآن، 11:61)

وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک مدت مقرر کی، اور ایک اور وقت مقرر ہے جو صرف اسی کو معلوم ہے؛

پھر تم شک کرتے ہو۔ (القرآن، 6:2)

پس (اے نبی!) ان منکروں سے پوچھو: کیا ان کا پیدا کیا جانا زیادہ مشکل ہے یا ہماری دیگر مخلوقات کا؟

ہم نے انہیں چپکنے والی مٹی سے پیدا کیا۔(القرآن، 37:11)

ہم نے انسان کو سیاہ بدبودار گارے سے بنی ہوئی خشک مٹی سے پیدا کیا۔(القرآن، 15:26)

انسان کو چاہیے کہ وہ غور کرے کہ اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا۔ اسے ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا،

جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔ (القرآن، 86:5–8)

ایک حدیث میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی بھر لی اور اس سے حضرت آدمؑ کا بے جان جسم بنایا (صحیح مسلم 2611)۔ یہ روایت اُن آیات سے مطابقت رکھتی ہے جن میں ذکر ہے کہ اللہ نے آدم کو ان بنیادی مادی عناصر سے پیدا کیا اور پھر اس میں روح (رُوح) پھونکی۔:

ایسا ہی ہے وہ (اللہ) جو ہر پوشیدہ اور ظاہر چیز کو جانتا ہے، وہی زبردست، رحم فرمانے والا ہے، جس نے ہر چیز کو اس کی بہترین صورت عطا کی۔ اُس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا، پھر اس کی نسل کو ایک حقیر پانی کے نچوڑ سے بنایا۔ پھر اُس نے اُسے درست شکل دی، اور اُس میں اپنی روح  پھونکی، اور تمہیں سماعت، بصارت، اور عقل عطا کی—مگر تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔ (القرآن، 32:6–9)

اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا: میں سیاہ بدبودار گارے سے بنی ہوئی خشک مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ پھر جب میں اسے ٹھیک صورت میں بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو تم سب اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا۔ (القرآن، 15:28–29)

اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا: میں مٹی سے ایک انسان پیدا کرنے والا ہوں، پھر جب میں اسے درست شکل دے دوں اور اس میں اپنی روح  پھونک دوں، تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔(القرآن، 38:71–72)

ایک اور حدیث میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں، جبکہ خود آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے: تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں، اور آدم مٹی سے [پیدا کیے گئے] تھے۔ (ترمذی 3955) اسی طرح بنی آدم  (آدم کی اولاد) کا تصور قرآن میں بھی ملتا ہے،

جیسے کہ سورۃ الاعراف 7:27 اور سورۃ یٰسین 36:60 میں۔مزید یہ کہ بعض احادیث میں حضرت آدمؑ کو انسانیت کا باپ قرار دیا گیا ہے:

قیامت کے دن مؤمنین جمع ہو کر کہیں گےکہ آؤ، کسی کو تلاش کریں جو ہمارے لیے ہمارے رب کے حضور سفارش کرے۔ پھر وہ آدمؑ کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: آپ تمام انسانوں کے والد ہیں، اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا، فرشتوں کو حکم دیا کہ آپ کو سجدہ کریں، اور آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے؛ لہٰذا، ہمارے رب کے حضور ہماری سفارش کیجیے تاکہ وہ ہمیں اس حال سے نجات دے۔ تو آدمؑ جواب دیں گے، میں اس (یعنی تمہاری سفارش) کے لائق نہیں ہوں۔ (بخاری 4476)

لوگو! تمہارا رب ایک ہے، اور تمہارا باپ (آدم) بھی ایک ہے۔ یقیناً کسی عربی کو کسی عجمی پر، اور نہ کسی عجمی کو کسی عرب پر، اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر، اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل ہے، سوائے تقویٰ کے۔(احمد 23479)

یہ آیات و روایات اُن احادیث کے ساتھ مربوط ہوتی ہیں جو اگرچہ کم واضح ہیں، لیکن بالواسطہ طور پر انسانیت کے لیے آدمؑ کی اہمیت کو قائم رکھتی ہیں۔ وہ حدیث جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا، جس میں بیان ہوا ہے کہ آدمؑ کو جمعہ کے دن پیدا کیا گیا، اسی روایت کی تائید کرتی ہے۔

قرآن مجید میں بعض ایسی آیات بھی ہیں جو واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ انسانیت کا نسب ایک ہی جوڑے یعنی حضرت آدمؑ اور حضرت حوّاؑ سے ملتا ہے:

لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان (نَفْسٍ وَاحِدَةٍ) سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پھیلا دیے۔ اللہ سے ڈرو، جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اور رشتے ناتوں کو توڑنے سے بچو۔ بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے۔ (القرآن، 4:1)

وہی ہے جس نے تم سب کو ایک جان (نَفْسٍ وَاحِدَةٍ) سے پیدا کیا، اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس کے پاس سکون پائے۔ (القرآن، 7:189)

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، باخبر ہے۔ (القرآن، 49:13)

یقیناً، پہلی دو آیات میں "اُس کا جوڑا" سے مراد حضرت حوّا ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلی آیت (القرآن 4:1) کی دو تفسیریں پائی جاتی ہیں۔

یہ فرق اس بات پر مبنی ہے کہ "اس سے" (یعنی مِنْهَا) کا مفہوم کس طرح لیا جائے، جس کے نتیجے میں حضرت حوّا کی تخلیق سے متعلق دو قدرے مختلف تصورات سامنے آتے ہیں۔ Haleem (2011, 135) نے ان دونوں آرا  کا فرق نہایت خوبی سے یوں بیان کیا ہے۔ اس سے" (مِنْهَا) عربی زبان میں ایک غیر واضح تعبیر ہے، جس کی بنا پر اس کے دو تفسیری مفاہیم سامنے آتے ہیں، اور دونوں کی تائید میں دلائل موجود ہیں۔

پہلی تفسیر کے مطابق، حضرت آدمؑ کے جسم کا ایک حصہ لے کر حضرت حوّا کو پیدا کیا گیا۔ یہ رائے اُس مشہور روایت سے مطابقت رکھتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت حوّا کو آدمؑ کی پسلی سے پیدا کیا گیا تھا۔ دوسری تفسیر کے مطابق، حضرت حوّا کو حضرت آدمؑ کی ہی نوع یا اصل سے پیدا کیا گیا۔ یہ جسمانی تعبیر نہیں، بلکہ ایک ماورائی (metaphysical) نکتہ ہے، جس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ دونوں کی تخلیق ایک جیسی حقیقت پر مبنی ہے۔دونوں آرا  اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت حوّا کی تخلیق کسی نہ کسی تعلق سے حضرت آدمؑ کے ساتھ معجزانہ طور پر ہوئی۔ عام طور پر ان دونوں تفسیروں کو ہی اس آیت کی قابلِ قبول ممکنہ تعبیرات کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ (امام فخر الدین رازی، 2000، ص 131؛ ابن الجوزی، 2002، ص 253؛ سید حسین نصر، 2015، ص 189)

مزید برآں،  آدمؑؑ اور حواؑ کا دنیا میں اتارے جانے کا واقعہ  قرآن مجید میں متعدد مقامات پر واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ مندرجہ ذیل آیات اسی  واقعہ کو بیان کرتی ہیں:

(اے نبی!) جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا: "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں،" تو انہوں نے کہا: "کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو رکھیں گے جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا، حالانکہ ہم آپ کی حمدوثنا کرتے ہیں اور آپ کی پاکی بیان کرتے ہیں؟" اللہ نے فرمایا: "میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔" پھر اللہ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھائے، پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: "اگر تم سچے ہو تو ان کے نام مجھے بتاؤ۔"  انہوں نے کہا: "آپ پاک ہیں! ہم تو صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں سکھایا ہے، بے شک آپ ہی علم والے، حکمت والے ہیں۔" پھر اللہ نے فرمایا: "اے آدم! تم ان کے نام انہیں بتاؤ۔" جب آدم نے انہیں ان کے نام بتائے تو اللہ نے فرمایا: "کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں جانتا ہوں، اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو؟" اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا: "آدم کو سجدہ کرو،" تو انہوں نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے؛ اُس نے انکار کیا، تکبر کیا اور نافرمانوں میں سے ہو گیا۔ اور ہم نے کہا: "اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو، اور جہاں سے چاہو، بے روک ٹوک کھاؤ، مگر اس درخت کے قریب نہ جانا، ورنہ تم دونوں ظالموں میں شمار ہو گے۔" پھر شیطان نے ان دونوں کو پھسلا دیا اور انہیں اُس حالت سے نکال دیا جس میں وہ تھے۔ ہم نے فرمایا: "تم سب یہاں سے نیچے اُتر جاؤ! تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور زمین میں تمہارے لیے ایک وقت تک رہائش اور سامانِ زیست ہوگا۔" پھر آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے، تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی، بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ ہم نے فرمایا: "تم سب یہاں سے نیچے اُتر جاؤ، پھر جب میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے گی (اور وہ ضرور آئے گی)، تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا، ان کے لیے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اور جو لوگ کفر کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ دوزخ والے ہوں گے، اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔" (القرآن، 2:31–39)

یہ حضرت آدمؑ کے جنت سے زمین پر نزول کا ایک عمومی خاکہ ہے۔ اس واقعے کا آغاز اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت آدمؑ کی تخلیق سے ہوتا ہے، جس نے انہیں زمین پر اپنا نائب (خلیفہ) بنا کر بھیجا۔ (یہاں ان آیات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے جن میں ذکر آیا تھا کہ آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا،اور پھر ان میں روح پھونکی گئی۔) فرشتے، جب یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ ایک ایسی مخلوق پیدا کر رہا ہے، تو سوال کرتے ہیں کہ اسے کیوں پیدا کیا جا رہا ہے، کیونکہ وہ (یعنی انسان) زمین پر فساد کرے گا اور خون بہائے گا۔ اللہ تعالیٰ ان پر واضح کرتے ہیں  کہ وہ ایسی چیزیں جانتا ہے، جو فرشتے نہیں جانتے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت آدمؑ کو تمام اشیا  کے نام سکھاتے ہیں، اور فرشتوں سے مطالبہ کرتے ہیں  کہ وہ ان کے نام بتائیں، جو وہ ظاہر ہے نہیں بتا پاتے۔ پھر فرشتوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ آدمؑ کو سجدہ کریں، جسے سب فرشتے بجا لاتے ہیں، سوائے ابلیس کے، جو تکبر کی وجہ سے انکار کر دیتا ہے۔ پھر آدمؑ اور ان کی بیوی کو جنت میں رہنے کی اجازت دی جاتی ہے مگر ایک درخت کے قریب جانے سے منع کیا جاتا ہے۔

تاہم، شیطان ان کو بہکاتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ دونوں اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھتے ہیں۔

اس نافرمانی کے بعد اللہ تعالیٰ انہیں جنت سے زمین پر اتار دیتے ہیں۔ (Wheeler 2002, 15–35; Shafi 2008b, 159–187; Mikulicová 2014; Kaltner and Mirza 2018, 16–20)

اس واقعے کے حوالے سے قرآنِ مجید میں ایک ایسی آیت بھی ہے جس میں حضرت آدمؑ کو اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیے جانے کا ذکر خاص طور پر موجود ہے۔ یہ حوالہ اس تناظر میں آتا ہے جب ابلیس (شیطان) نے اللہ کے حکم کے باوجود حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا: 

اللہ نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے کس چیز نے روکا کہ تُو اُس کو سجدہ نہ کرے جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا؟ کیا تُو تکبر کر رہا ہے یا تُو بلند مرتبہ لوگوں میں سے ہے؟ (القرآن، 38:75)

جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے، بعض مفکرین اس آیت کو حضرت آدمؑ کی خصوصی تخلیق پر دلالت کے طور پر لیتے ہیں (Keller 2011, 350–364; Qadhi and Khan 2018)۔ یقینی طور پر، صرف "اللہ کے ہاتھوں" کا ذکر بذاتِ خود خصوصیت کی قطعی دلیل نہیں ہے،لیکن یہ بات اہم ہے کہ اس آیت میں اللہ کے "دو ہاتھوں" کا ذکر آیا ہے، بالمقابل واحد  یا جمع  کے۔ اور یہ انداز صرف حضرت آدمؑ کے لیے مخصوص ہے۔

کلاسیکی مفکرین جیسے ابن تیمیہ، ابیہقی، اور بیضاوی اس بات پر متفق ہیں کہ یہ اسلوب آدمؑ کی تخلیق کی انفرادیت کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے  (Jalajel 2009, 150–152)۔ البتہ، اس انفرادیت کی حقیقی نوعیت  کیا ہے،یہ امر واضح نہیں ہو سکا ، اور اس نکتے پر باب 10 میں مزید گفتگو کی جائے گی۔سورۃ آلِ عمران کی آیت 59 حضرت آدمؑ کے والدین کے امکان کو چیلنج کرتی ہے۔ اگرچہ یہ آیت بظاہر کسی اشکال کا باعث نہیں بنتی، تاہم اس کا سیاق و سباق اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حضرت آدمؑ کی تخلیق ماں باپ کے بغیر ایک معجزانہ انداز میں ہوئی تھی۔ یہ آیت اس سورۃ میں واقع ہے جو مجموعی طور پر مسیحی عقائد، بالخصوص حضرت عیسیٰؑ کی الوہیت کے تصور، پر تنقید کرتی ہے۔ سورہ آلِ عمران کے مختلف مقامات پر حضرت عیسیٰؑ کو خدائی درجہ دینے کی واضح تردید کی گئی ہے (Ayoub 1992)۔ مذکورہ آیت میں حضرت عیسیٰؑ اور حضرت آدمؑ کے درمیان جس مشابہت کو بیان کیا گیا ہے، وہ یہی غیر معمولی اور معجزانہ تخلیق ہے (القرطبی 2019، 243–244)۔ جب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "کہا ہو جا، تو وہ ہو گیا"، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ فطری قوانین سے ماورا ہو کر بھی کسی چیز کو وجود میں لا سکتا ہے، اور یہ بات قرآن میں کئی مقامات پر آتی ہے۔ قرآن کے دوسرے مقام (سورہ مریم 19:16–21) میں حضرت مریمؑ کی معجزانہ حمل کی تفصیل بھی موجود ہے، جہاں جبرائیلؑ ان کو بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں، اور وہ حیرت سے جواب دیتی ہیں: "میرے ہاں بچہ کیسے ہو سکتا ہے، جب کہ مجھے کسی مرد نے چھوا تک نہیں؟" (القرآن 19:20) چونکہ مسلمان حضرت مریمؑ کو سچا مانتے ہیں، اس لیے یہ آیت حضرت عیسیٰؑ کی معجزانہ پیدائش پر ایک مضبوط دلیل سمجھی جاتی ہے۔ تاہم، اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت عیسیٰؑ اور حضرت آدمؑ مکمل طور پر ایک جیسے ہیں۔ قرآن نے حضرت آدمؑ کے بارے میں خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا کیا اور پچھلی آیات میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں۔ لہٰذا، ان تمام آیات کو یکجا کر کے دیکھا جائے تو حضرت عیسیٰؑ اور حضرت آدمؑ کے درمیان بنیادی مشابہت یہ ہے کہ دونوں کے والد نہیں تھے۔ البتہ حضرت عیسیٰؑ کی ماں (حضرت مریمؑ) موجود تھیں،

جبکہ حضرت آدمؑ کو ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا کیا گیا۔

مزید یہ کہ اس آیت کا ایک تاریخی پس منظر (اسبابِ نزول) بھی ہے۔ اس واقعے کی ایک روایت درج ذیل ہے ۔

نجْران سے دو راہب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا: "اسلام قبول کرو۔" انہوں نے جواب دیا: "ہم تو آپ سے پہلے ہی اسلام قبول کر چکے ہیں۔" آپ ﷺ نے فرمایا: "تم جھوٹ کہتے ہو۔ تین چیزیں ہیں جو تمہیں اسلام قبول کرنے سے روکتی ہیں۔تمہارا صلیب کے سامنے سجدہ کرنا، تمہارا یہ کہنا کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے، اور تمہارا شراب پینا۔" انہوں نے پوچھا: "آپ حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟" نبی کریم ﷺ خاموش رہے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: "اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے (نیشاپوری 2010،  139)۔

اس واقعے کا مرکزی نکتہ رسول اللہ ﷺ اور کچھ عیسائی راہبوں کے درمیان ہونے والی گفتگو ہے۔ یہ راہب اسلام قبول نہیں کر رہے تھے، کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰؑ بغیر والد کے معجزانہ طور پر پیدا ہوئے، لہٰذا وہ ایک الٰہی ہستی ہیں۔ اسی پس منظر میں یہ آیت نازل ہوئی۔اگر اس آیت کے تاریخی و موضوعی سیاق کو یکجا کیا جائے،تو اس میں حضرت عیسیٰؑ اور حضرت آدمؑ کے درمیان تقابلی استدلال پیش کیا گیا ہے،اور وہ کچھ یوں ہے: اگر عیسائی یہ دلیل دیتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ معجزانہ طور پر پیدا ہوئے اور اس وجہ سے وہ خدائی حیثیت رکھتے ہیں، تو پھر حضرت آدمؑ تو حضرت عیسیٰؑ سے بھی زیادہ معجزانہ طور پر پیدا کیے گئے،کیونکہ ان کے نہ ماں تھی نہ باپ۔ اسی وجہ سے اکثر مفسرین اور مسلم علماء نے اس آیت سے یہی نتیجہ اخذ کیا ہےکہ حضرت آدمؑ کے ماں باپ نہیں تھے (Ayoub 1992, 183–188; Jalajel 2009, 48–52; Seoharvi 2009a, 316–317; Haleem 2011, 135; Nasr 2015, 147; Al-Qurṭubī 2019, 243–244)۔ 

ہم نے پہلے جن قرآنی آیات اور احادیث کا جائزہ لیا، وہ حضرت آدمؑ کی تخلیق کو عمومی انداز میں بیان کرتی ہیں، مثلاً: مٹی، گارا، یا انسانیت کے باپ کے طور پر، لیکن ان میں کسی جگہ صراحت کے ساتھ ماں باپ کی عدم موجودگی کا ذکر نہیں ملتا، جس کی وجہ سے انہیں مختلف زاویوں سے بھی سمجھا جا سکتا ہے، جیسے کہ: حضرت آدمؑ کی تخلیق جنت میں ہوئی، یا ان کے جسم کی مادی ترکیب کے حوالے سے گفتگو ہے۔ لیکن سورہ آلِ عمران کی یہ آیت اس پوری بحث کا مرکزی نکتہ معلوم ہوتی ہے، کیونکہ یہ براہِ راست حضرت عیسیٰؑ کی الوہیت کے انکار کے لیے حضرت آدمؑ کی معجزانہ تخلیق کو بنیاد بناتی ہے، یعنی کہ حضرت آدمؑ کے ماں باپ نہیں تھے۔ اسی وجہ سے، اسلامی نقطۂ نظر اور نظریہ ارتقا  کے مباحث میں یہ آیت غالباً سب سے اہم آیت شمار کی جا سکتی ہے۔

آخر میں، ایک اور حدیث کا ذکر ضروری ہے جو اس بحث سے متعلق ہے۔ یہ حدیث حضرت آدمؑ کے جسمانی وصف سے متعلق ہے، اور خاص طور پر ان کے قد کا ذکر کرتی ہے۔ اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ: "آدمؑ کا قد ساٹھ ہاتھ (تقریباً 30 میٹر) تھا" (بخاری 6277)۔ اگرچہ اس حدیث کا ارتقا (evolution) یا مشترک نسب (common descent) سے براہِ راست تعلق نہیں ہے،لیکن چونکہ یہ موضوع اسلام اور ارتقا  کی علمی گفتگو میں زیر بحث آیا ہے، اس لیے اس کا ذکر ضروری ہے (Mabud 1991, 91; Guessoum 2010, 829; Majid 2015, 104–105

یہ حدیث ارتقا کی صداقت سے قطع نظر خود اپنے اندر بھی ایک مسئلہ رکھتی ہے، کیونکہ یہ فزکس اور حیاتیات جیسے سائنسی علوم سے متصادم ہے۔یعنی انسانی جسم جس ساخت پر ہے، اس کے ساتھ اتنا طویل قد عملی طور پر ممکن نہیں (Zaman 2020)۔ یہ حدیث ایک اہم case study ہوگی، جب ہم باب 10 میں اس بات کا تنقیدی جائزہ لیں گے کہ مختلف علمی تجاویز اسلام اور ارتقاء میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کیا طریقے اپناتی ہیں۔ 

مختصراًیہ کہ ، جب ان تمام آیات اور احادیث کو ایک ساتھ دیکھا جائے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمان علماء نے عام طور پر حضرت آدمؑ کی معجزانہ تخلیق کو تسلیم کیا ہے اور یہ بھی مانا ہے کہ انسانیت کی نسل انہی سے شروع ہوئی۔ البتہ یہ تفصیلات کہ آدمؑ کی تخلیق کا عمل کیسے ہوا، اور اس کے بعد انسانوں کا زمین پر پھیلاؤ کن مراحل سے گزرا، یہ سب باتیں قرآن و حدیث میں مکمل وضاحت کے ساتھ بیان نہیں ہوئیں، جس پر ہم آئندہ ابواب میں مزید بات کریں گے۔ اسلامی تعلیمات کو ارتقا کے سائنسی نظریے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک ایسا تسلسل پر مبنی اور منظم تفسیری طریقہ کار درکار ہے، جس کے ذریعے ان آیات و احادیث کو  کسی من مانی تعبیر یا وقتی تاویلات کے بغیر سمجھا جا سکے۔ ہم باب 4 میں یہ جائزہ لیں گے کہ مختلف مفکرین نے یہ توازن قائم کرنے کے لیے کیا کوششیں کی ہیں۔

عیسائی اور اسلامی بیانیوں میں  کلیدی فرق

متعلقہ قرآنی آیات اور احادیث کا مختصر جائزہ لینے کے بعد،  عیسائی اور اسلامی بیانیوں کے درمیان فرق کو  واضح کرنے کا اب مناسب موقعہ ہے۔باب 2 میں ہم نے ان چند حساس نکات کا ذکر کیا تھا جو بعض عیسائی مفکرین (خصوصاً Young-Earth Creationism - YEC کے پیروکاروں) کو ارتقا  کے موضوع پر پریشان کرتے ہیں۔  جس میں اصل گناہ (Original Sin)، کائنات/زمین کی عمر، انبیائی نسب اورحضرت نوحؑ کا طوفان شامل ہیں۔   اب ہم ان نکات کا جائزہ اسی ترتیب سے لیں گے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ اسلامی بیانیہ ان مسائل پر کس زاویے سے گفتگو کرتا ہے اور یہ ارتقا  کے نظریے سے کس حد تک مطابقت رکھتا ہے۔

 اصل گناہ  (Original Sin)

باب دوم میں ہم نے یہ جانا کہ عیسائی بیانیے کے مطابق جب حضرت آدمؑ نے درخت کا پھل کھایا، تو اس سے پہلے دنیا نیکی اور خیر کی حالت میں تھی۔ لیکن جب انہوں نے نافرمانی کی اور جنت سے محروم ہوئے، تو شر، مصیبت اور موت دنیا میں وارد ہوئیں۔ یہی تصور "اصل گناہ" (Original Sin) کہلاتا ہے۔ تاہم، یہ نظریہ اسلامی بیانیے میں موجود نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا، جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا، تو ابلیس نے انکار کر دیا اور نافرمان ٹھہرا۔ اس نے اللہ کے ایک واضح حکم کو رد کیا۔ لہٰذا اسلام کے مطابق پہلا گناہ حضرت آدمؑ نے نہیں، ابلیس نے کیا۔ ایک اور نکتہ جو اس فرق کو مزید واضح کرتا ہے وہ فرشتوں کا سوال ہے جو حضرت آدمؑ کی تخلیق کے وقت انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا: "کیا تو زمین میں ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا،حالانکہ ہم تیری حمدوثنا کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں؟" (القرآن 2:30) یہ سوال خود ایک دلچسپ پہلو رکھتا ہےکہ فرشتوں نے یہ سوال کیوں کیا؟کچھ روایات کے مطابق،

یہ سوال ان مخلوقات کے پس منظر میں کیا گیا جو حضرت آدمؑ سے پہلے زمین پر موجود تھیں اور جنہوں نے فساد اور خونریزی کی تھی۔ بعض مفسرین کے مطابق یہ مخلوق ابلیس اور اس کے ساتھی تھے، جو حضرت انسان سے پہلے زمین پر بستے تھے۔ دوسروں کے نزدیک یہ ماقبلِ آدمی مخلوقات (pre-Adamic entities) تھیں، شاید وہ نیم انسانی (pseudo-human) مخلوقات ہوں۔ جبکہ بعض کہتے ہیں کہ یہ صرف فرشتوں کی فطری جستجو تھی،جس کا جواب اللہ تعالیٰ نے انہیں آگے چل کر دیا (ایوب 1984، ص 71–92؛ ندوی 1998، ص 29–74؛ نصر 2015، ص 21–22؛ البیضاوی 2016؛ القرطبی 2018، ص 117–118)۔

حقیقت جو بھی ہو، یہ بات واضح ہے کہ اسلامی بیانیہ آدم کے درخت کھانے کو دنیا میں شر و فساد کی ابتدا قرار نہیں دیتا۔ یقیناً، دونوں مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت آدمؑ اور حضرت حوّاؑ کو جنت سے نکالا گیا، لیکن "اصل گناہ" کا تصور ایک بنیادی الہیاتی فرق ہے جس پر اسلام اور عیسائیت الگ الگ موقف رکھتے ہیں(Ayoub 1984, 71–92; Burrel 2011; Khalil 2012; Winter 2017

کائنات / زمین کی عمر

Young-Earth Creationism (YEC) کے لیے کائنات اور زمین کی عمر ایک اہم اختلافی نکتہ ہے۔ YECکے پیروکاروں کا ماننا ہے کہ بائبل کو لفظ بہ لفظ (literal) طور پر لیا جائے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ زمین کی عمر صرف 6,000 سے 10,000 سال ہے۔ وہ اس تعبیر کو کسی اور معنوی یا تمثیلی زاویے سے سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔جبکہ قرآن مجید میں بعض آیات میں آسمان و زمین کی تخلیق چھ دنوں میں ہونے کا ذکر ضرور آیا ہے،لیکن یہاں دن کے لیے استعمال ہونے والا لفظ "یوم" لغوی طور پر مختلف ادوار اور مدتوں پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی "یوم" صرف 24 گھنٹے کا دن نہیں، بلکہ یہ کسی بھی دورانیہ یا وقت کے وقفے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ اسی لسانی لچک (semantic flexibility) کی وجہ سے اسلامی متون قدیم کائنات یا اربوں سال پرانی زمین کے تصور سے کسی قسم کا تصادم نہیں رکھتے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ اسلامی دنیا میں YEC جیسا سخت موقف شاذ و نادر ہی پایا جاتا ہے (اگرچہ یہ بات احتیاط کے ساتھ بیان کی جانی چاہیے)۔

نسب نبوی (Prophetic Lineage)

کائنات کی عمر سے متعلق بحث میں انبیا  کے نسب (genealogy) کا بھی اہم کردار ہے، جیسا کہ ہم نے باب 2 میں دیکھا تھا۔ YECکے پیروکاروں کا ماننا ہے کہ تمام انبیا  کا سلسلہ نسب حضرت آدمؑ تک جا پہنچتا ہے، جنہیں وہ زمین پر اُس وقت آنے والا پہلا انسان مانتے ہیں جب زمین ابھی نئی نئی وجود میں آئی تھی۔ اسلامی متون میں بلاشبہ انبیا  کا ذکر موجود ہے، کچھ انبیا  کا تفصیلی ذکر ہے، کچھ کا اجمالی۔لیکن قرآن مجید انبیا کے نسب اور ان کی تاریخی ترتیب کے بارے میں بہت محدود معلومات فراہم کرتا ہے۔ چند احادیث میں نبی کریم ﷺ اور ان سے پہلے عرب قبائل کا نسب ضرور بیان ہوا ہے،کیونکہ یہ عرب ثقافت میں اہمیت رکھتا تھا۔لیکن جب نسب کا سلسلہ حضرت نوحؑ سے آگے حضرت آدمؑ تک لے جایا جاتا ہے تو اس کی تاریخی صحت کمزور ہو جاتی ہے (Jalajel 2009, 54،ابن کثیر 2010، ص 34)۔ اسلامی روایت اور بائبل بعض درمیانی شخصیات پر متفق ہو سکتے ہیں، لیکن ایسا کوئی مستند و متفقہ مآخذ موجود نہیں جس پر مسلمان یہ یقین رکھیں کہ وہ نسبی سلسلہ حضرت آدمؑ تک درست طور پر پہنچاتا ہے (Varisco 1995

طوفانِ نوحؑ   

بائبل سے جُڑی حساسیتوں میں ایک اہم مسئلہ حضرت نوحؑ کا طوفان بھی تھا۔ قرآنِ مجید میں بھی حضرت نوحؑ کا ذکر متعدد مقامات پر آیا ہے، اور مجموعی خاکہ بائبل سے مماثلت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت نوحؑ کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ایک کشتی بنائیں اور اپنی قوم کو اللہ کا پیغام پہنچائیں۔ کچھ لوگ ایمان لے آتے ہیں، لیکن اکثریت انکار کر دیتی ہے۔ اللہ نوحؑ کو یہ بھی ہدایت دیتے ہیں کہ وہ ہر قسم کے جانوروں کا ایک جوڑا کشتی میں سوار کریں (Wheeler 2002, 49–62; Kaltner and Mirza 2018, 36–140)۔ لیکن ارتقا سے متعلق بحث کے تناظر میں اہم نکتہ یہ ہے کہ آیا یہ طوفان مقامی تھا یا عالمی؟ باب 2 میں ہم نے دیکھا تھا کہ عیسائی مفکرین اس مسئلے پر مختلف آرا رکھتے ہیں۔ اسلامی متون میں اس بارے میں کوئی قطعی اور حتمی بیان موجود نہیں۔ 

مفسرین میں بھی اس پر اختلاف پایا جاتا ہے: کچھ اسے مقامی طوفان قرار دیتے ہیں، جبکہ کچھ عالمی طوفان کے قائل ہیں(Seoharvi 2009b, 70)۔ لیکن جیسا کہ ابن عطیہ (2002، ص 946) نے واضح کیا ہے، قرآن یا حدیث میں اس مسئلے پر کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ اسی لیے، اسلامی متون کی تعبیر مقامی اور عالمی دونوں امکانات کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔

خلاصہ

اس باب میں ارتقا  سے متعلق اسلامی تعلیمات اور قرآن و حدیث کے بیانات کا جائزہ لیا گیا، جنہیں مجموعی طور پر تین تخلیقی مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:  پہلا، کائنات اور زمین کی تخلیق، جس کے بارے میں قرآن میں چھ دن کا ذکر تو ہے، مگر ان دنوں کی مدت یا نوعیت کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں، یوں قرآن کی زبان سائنسی نظریے سے متصادم نظر نہیں آتی۔ دوسرا مرحلہ غیر انسانی زندگی کی تخلیق کا ہے، جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ زندگی کا آغاز پانی سے ہوا، مگر یہ بیان نہیں کیا گیا کہ پودوں اور جانوروں کی تخلیق کا عمل کیسے وقوع پذیر ہوا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں بھی کوئی سائنسی رکاوٹ موجود نہیں ہے۔ تیسرا اور سب سے اہم مرحلہ حضرت آدمؑ کی تخلیق کا ہے، جسے قرآن و حدیث میں ایک خاص اور معجزانہ واقعہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے؛ انہیں انسانیت کا باپ قرار دیا گیا ہے اور انسانوں کو ان کی اولاد کہا گیا ہے، جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسانی نسب حضرت آدمؑ تک جا پہنچتا ہے۔ اگر اسلامی تعلیمات کو ارتقا  کے نظریے کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے تو ضروری ہے کہ ان نصوص کی تفہیم ایک مربوط، منضبط اور غیر جانب دار طریقے سے کی جائے، تاکہ اس میں کسی بھی قسم کی من چاہی تاویلات یا زبردستی کے معانی شامل نہ کیے جائیں۔ اس کے ساتھ بائبل اور قرآن کے بیانیے کا تقابلی مطالعہ بھی پیش کیا گیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں "اصل گناہ" (Original Sin) کا کوئی تصور نہیں، بلکہ حضرت آدمؑ اور حواؑ کی لغزش کو ذاتی عمل کے طور پر بیان کیا گیا ہے، نہ کہ پوری انسانیت کے لیے اخلاقی گناہ کی بنیاد کے طور پر۔ اسی طرح کائنات کی عمر، انبیا  کی نسلوں کا تسلسل، اور  طوفان نوح ؑکے بارے میں بھی قرآن کوئی ایسا قطعی بیان نہیں دیتا جو سائنسی دریافتوں سے متصادم ہو۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اسلام، جب تک اسے تنگ نظری یا انتہا پسندی سے نہ سمجھا جائے، ارتقا  جیسے سائنسی نظریات کے ساتھ کسی ٹکراؤ کا سبب نہیں بنتا، بشرطیکہ اس کے متون کی تعبیر میں علمی دیانت اور توازن اختیار کیا جائے۔


حوالہ جات

  1. Abdul-Jabbar, Ghassan. 2020a. “The Classical Tradition.” In Daniel W Brown, ed. The Wiley Blackwell Concise Companion to the Ḥadīth. West Sussex: Wiley Blackwell, 15–38. 
  2. Abdul-Jabbar, Ghassan. 2020b. “Collections.” In Daniel W Brown, ed. The Wiley Blackwell Concise Companion to the Ḥadīth. West Sussex: Wiley Blackwell, 137–158. 
  3. Al-Arnaʾūṭ, Shoʿayb, and ʿĀdil Murshid, eds. 2001. Musnad al-Imām Aḥmad Ibn Ḥanbal. Volume 38. Beirut: Muʾassasat al-Risāla. 
  4. Al-Bayḍāwī, ʿAbdullah Ibn ʿUmar. 2016. The Lights of Revelation and the Secrets of Interpretation: Hizb One of the Commentary on the Qurʾān. trans. by Gibril Fouad Haddad. Manchester: Beacon Books. 
  5. Al-Gharnāṭī, Abū Ḥayyān Athīr ad-Dīn, 2002a. “Tafsīr al-Baḥr al-Muḥīṭ.” Al-Tafāsīr. Accessed 15th of June 2025. Available at: https://www.altafsir.com/Tafasir.asp?tMadhNo=0&tTafsirNo=19&tSoraNo=3&tAyahNo=59&tDisplay=yes&Page=%2010&Size=1&LanguageId=1.
  6. Al-Qurṭubi, Abū ʿAbdullah Muhammad. 2018. Tafsīr al-Qurṭubi. Volume 1. trans. by Aisha Bewley. Bradford: Diwan Press. 
  7. Al-Qurṭubī, Abū ʿAbdullah Muhammad. 2019. Tafsīr al-Qurṭubī. Volume 2. trans. by Aisha Bewley. Bradford: Diwan Press. 
  8. Al-Rāzī, Muḥammad Ibn ʿUmar (Fakhr al-Dīn). 2000. Mafātīḥ al-Ghayb. Volume 9. Beirut: Dār al-Kutub al-ʿIlmiyya. 
  9. An-Naisaburi, Abdul Hassan. 2010. Reasons of Revelation of the Noble Qurʾān. trans. by Aiman Saleh Sha’aban and Muhammad Ismail. Selangor Darul Ehsan: Dakwah Corner Bookstore. Ayoub, Mahmoud M. 1984. The Qurʾān and Its Interpreters. Volume 1. New York, NY: The State University of New York Press.
  10. Ayoub, Mahmoud M. 1992. The Qurʾān and Its Interpreters. Volume 2. New York, NY: The State University of New York Press. 
  11. Brown, Raymond E. 1973. The Virginal Conception and Bodily Resurrection of Jesus. New York, NY: Paulist Press. 
  12. Brown, Raymond E. 1993. The Birth of the Messiah: A Commentary on the Infancy Narratives in the Gospels of Matthew and Luke. New York, NY: Doubleday. 
  13. Brown, Jonathon A. C. 2009. Hadīth: Muhammad’s Legacy in the Medieval and Modern World. New York, NY: Oneworld Publications. 
  14. Burrel, David B. Towards a Jewish-Christian-Muslim Theology. West Sussex: Wiley-Blackwell. 
  15. Graham, William A. 2020. “Revelation.” In Daniel W Brown, ed. The Wiley Blackwell Concise Companion to the Ḥadīth. West Sussex: Wiley Blackwell, 59–74. 
  16. Görke, Andreas. 2020. “Muhammad.” In Daniel W. Brown, ed. The Wiley Blackwell Concise Companion to the Ḥadīth. West Sussex: Wiley Blackwell, 75–90. 
  17. Guessoum, Nidhal. 2010. “Religion Literalism and Science-Related Issues in Contemporary Islam.” Zygon, 45(4): 817–840. 
  18. Haleem, Muhammad Abdel. 2011. Understanding the Qurʾān: Themes and Style. London: I.B. Tauris. 
  19. Ibn al-Jawzī, ʿAbdur Rahmān. 2002. Zād al-Masīr fī ʿIlm al-Tafsīr. Beirut: Dār Ibn Ḥazm. 
  20. Ibn ʿAṭiyya, ʿAbd al-Ḥaqq. 2002. Al-Muḥarrar al-Wajīz fī Tafsīr al-Kitāb al-Azīz. Beirut: Dār Ibn Ḥazm. 
  21. Ibn Kathīr, Abū l-Fidāʾ Ismā ʿīl Ibn ʿ Umar. 2010. The Life of Prophet Muhammad. Trans. by Rafiq Abdur Rehman. Karachi: Darul-Ishaat. 
  22. Jalajel, David Solomon. 2009. Islam and Biological Evolution: Exploring Classical Sources and Methodologies. Western Cape: University of the Western Cape. 
  23. Kaltner, John, and Younus Mirza. 2018. The Bible and the Qurʾān: Biblical Figures in the Islamic Tradition. London: Bloomsbury. 
  24. Keller, Nuh Ha Mim. 2011. Sea Without Shore: A Manual of the Sufi Path. Amman: Sunna Books. 
  25. Khalil, Mohammad Hassan. 2012. Islam and the Fate of Others. Oxford: Oxford University Press. 
  26. Mabud, Shaik Abdul. 1991. Theory of Evolution: An Assessment from the Islamic Point of View. Cambridge: The Islamic Academy. 
  27. Majid, DS Adnan. 2015. “Qurʾānic Interpretative Latitude and Human Evolution: A Case Study.” Al-Bayan – Journal of Qurʾān and Ḥadīth Studies, 12: 95–114. 
  28. Michot, Yahya. 2009. “Revelation.” In Tim Winter, ed. The Cambridge Companion to Classical Islamic Theology. Cambridge: Cambridge University Press, 180–196. 
  29. Mikulicová, Mlada. 2014. “Adam’s Story in the Qurʾān.” Theologica, 4(2): 277–296. 
  30. Nadvi, Khurshid. 1993. Darwinism on Trial. London: Ta-Ha Publishers. 
  31. ندوی، محمد شہاب الدین۔ 1998۔ تخلیقِ آدم اور نظریہ ارتقا۔ بنگلور: فرقانی اکیڈمی ٹرسٹ۔
  32. Seyyed Hossein. ed. 2015. The Study Qurʾān: A New Translation and Commentary. New York, NY: Harper   One. 
  33. Qadhi, Yasir, and Nazir Khan. 2018. “Human Origins: Theological Conclusions and Empirical Limitations.” Yaqeen Institute. Accessed 15th of June 2025. Available at: https://yaqeeninstitute.org/read/paper/human-origins-part-1-theological-conclusions-and-empirical-limitations
  34. Seoharvi, Muhammad Hifzur Rehman. 2009a. Stories from the Qurʾān. Volume 2. trans. by Rafiq Abdur Rahman and Muhammad Saeed. Karachi: Darul-Ishaat. 
  35. Seoharvi, Muhammad Hifzur Rehman. 2009b. Stories from the Qurʾān. Volume 1. trans. by Rafiq Abdur Rahman and Muhammad Saeed. Karachi: Darul-Ishaat. 
  36. Shafi, Muhammad. 2008a. Ma’ariful Qurʾān: A Comprehensive Commentary on the Holy Qurʾān. Volume 7. trans. by Muhammad Taqi Usmani. Karachi: Maktaba-e-Darul-Uloom. 
  37. Shafi, Muhammad. 2008b. Ma’ariful Qurʾān: A Comprehensive Commentary on the Holy Qurʾān. Volume 1. trans. by Muhammad Taqi Usmani. Karachi: Maktaba-e-Darul-Uloom. 
  38. Totolli, Robert. 2020. “Genres.” In Daniel W. Brown, ed. The Wiley Blackwell Concise Companion to the Ḥadīth. West Sussex: Wiley Blackwell, 187–202. 
  39. Varisco, Daniel Martin. 1995. “Metaphors and Sacred History: The Genealogy of Muhammad and the Arab ‘Tribe.’ Anthropological Quarterly, 68(3): 139–156.
  40. Wheeler, Brannon M. 2002. Prophets in the Qurʾān: An Introduction to the Qurʾān and Muslim Exegesis. New York, NY: Continuum. 
  41. Wilkinson, David. 2017. Science, Religion, and the Search for Extraterrestrial Intelligence. Oxford: Oxford University Press. 
  42. Winter, Timothy. 2017. “Islam and the Problem of Evil.” In Chad Meister, and Paul K Moser, eds. The Cambridge Companion to the Problem of Evil. Cambridge: Cambridge University Press, 230–248. 
  43. Zaman, Muntasir. 2020. At the Crossroads of Science and Scripture: An Analysis of the Ḥadīth on Prophet Adam’s Height (Unpublished manuscript).

(جاری)

اسلام اور عصر حاضر

(الشریعہ — جولائی ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جولائی ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۷

اسلامی نظام اور آج کے دور میں اس کی عملداری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اہلِ کتاب کی بخشش کا مسئلہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

سوشل میڈیائی ’’آدابِ‘‘ اختلاف اور روایتی مراسلت
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

مسئلہ ختم نبوت اور مرزائیت
شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ
مولانا حافظ خرم شہزاد

بیوہ خواتین اور معاشرتی ذمہ داریاں
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

پاکستان شریعت کونسل اور الشریعہ اکادمی کے اجتماعات
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ
مولانا محمد اسامہ قاسم

Britain`s Long-Standing Role in Palestine`s Transformation into Israel
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۶)
ڈاکٹر محی الدین غازی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۱)
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف
حافظ میاں محمد نعمان

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۲)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۵)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۲)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۴)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

ماہانہ بلاگ

مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کا تاریخی پس منظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امیر خان متقی کا اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس ۵۱ سے خطاب
جسارت نیوز
طلوع نیوز

مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کے چند اہم پہلو
امتنان احمد

بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور اس کے رکن ممالک
الجزیرہ

سیاحتی علاقوں میں حفاظتی تدابیر اور ایمرجنسی سروسز کی ضرورت
مولانا عبد الرؤف محمدی

’’سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟ کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا؟‘‘
مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی

پاک بھارت کشیدگی میں اطراف کے مسلمانوں کا لائحۂ عمل
مولانا مفتی عبد الرحیم
مفتی عبد المنعم فائز

پاک بھارت حالیہ کشیدگی: بین الاقوامی قانون کے تناظر میں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ایران کے رہبرِمعظم اور پاکستان میں ایرانی سفیر کے پیغامات
سید علی خامنہ ای
رضا امیری مقدم

ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملے: دینی قائدین کے بیانات
میڈیا

سنی شیعہ تقسیم اور اسرائیل ایران تصادم
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال

امریکہ اسرائیل کی سپورٹ کیوں کرتا ہے اور ایران کتنا بڑا خطرہ ہے؟
نوم چومسکی

اسرائیل ایران جنگ: تاریخی حقائق اور آئندہ خدشات کے تناظر میں
حامد میر

اسرائیل کا ایران پر حملہ اور پاکستان کے لیے ممکنہ خطرہ
خورشید محمود قصوری
علی طارق

ایران پر اسرائیل اور امریکہ کا حملہ اور خطہ پر اس کے ممکنہ عواقب
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ایران کی دفاعی جنگی حکمتِ عملی
سید محمد علی
سید طلعت حسین

اسرائیل کے حملے، ایران کا جواب، امریکہ کی دھمکیاں
پونیا پرسون واجپائی

’’بارہ روزہ جنگ‘‘ میں اسرائیل اور ایران کے نقصانات
ادارہ

اسرائیل ایران کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter