قرآن / علوم القرآن

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(218) اذا الفجائیۃ والے جملے کا ترجمہ: اذا کی ایک قسم وہ ہے جسے اذا فجائیہ کہا جاتا ہے، یہ درست ہے کہ اس کا نام فجائیہ ہے، اذا میں ایک طرح کا تحیر کا عنصر تو پایا جاتا ہے، لیکن اس کے مفہوم میں ضروری نہیں ہے کہ اچانک واقع ہوجانے کا مفہوم بھی ہو۔ شاعر کہتا ہے: ’’کم تمنیت لی صدیقا صدوقا، فاذا انت ذلک المتمنی‘‘ (میں نے ایک سچے دوست کی کتنی تمنا کی تھی، تو ایسا ہوا کہ تم وہ ہوئے جس کی میں نے تمنا کی تھی)۔ یہاں تحیر آمیز مسرت ہے تو ہے، مگر یکایک ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ کبھی اذا کے بعد مذکور بات یکایک اور فورا پیش آنے والی بات بھی ہوسکتی ہے، ایسی صورت...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(214) زاد کے ایک خاص اسلوب کا ترجمہ۔ زاد کا ایک خاص اسلوب یہ ہے کہ اس کا مفعول آتا ہے اور اس کے بعد تمیز مذکور ہوتی ہے، زاد کا مطلب اضافہ کرنا ہوتا ہے مگر اس اسلوب میں زاد کے مفعول بہ میں اضافہ کرنا مراد نہیں ہوتا ہے بلکہ تمیز میں اضافہ کرنا مراد ہوتا ہے۔ جب کسی کے بارے میں کہا جاتا ہے زادہ اللہ علما ومالا، تو اس کا مطلب اس فرد کی ذات میں کوئی اضافہ یا ترقی نہیں بلکہ اس کے علم اور مال میں اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی اللہ اس کے علم اور مال میں اضافہ کرے، نہ کہ خود اس شخص میں اضافہ کرے، اگرچہ زاد کا مفعول بہ وہ شخص ہوتا ہے، لیکن اس سے مراد اس چیز میں اضافہ ہوتا...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(213) لو کے بعد فعل مضارع کا ترجمہ۔ لو کبھی مصدریہ بن کر آتا ہے جیسے ودوا لو تدہن فیدہنون، یہ عام طور سے فعل ود کے بعد آتا ہے، یہ ابھی ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ لو کی مشہور قسم وہ ہے جسے حرف امتناع کہتے ہیں۔ لو برائے امتناع اور ان شرطیہ میں فرق یہ ہے کہ ان مستقبل کے لیے ہوتا ہے، خواہ اس کے بعد فعل ماضی آئے یا فعل مضارع، اور لو ماضی کے لیے ہوتا ہے خواہ اس کے بعد فعل ماضی آئے یا فعل مضارع۔ ابن ہشام نے لکھا ہے: ویتلخص علی ہذا ان یقال ان لو تدل علی ثلاثة امور عقد السببیة والمسببیة وکونہما فی الماضی وامتناع السبب۔(مغنی اللبیب عن کتب الاعاریب،...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

سورة سبا کے بعض مقامات کا ترجمہ۔ (۲٠۳) یُخلِفُہُ کا ترجمہ۔ اخلف کا ایک مطلب ہوتا ہے کوئی چیز ختم ہوگئی ہو تو اس کی جگہ دوسری چیز لے آنا، امام لغت جوہری کے الفاظ میں: واَخلَفَ فلان لنفسہ، اذا کان قد ذھب لہ شیءفجعل مکانَہ آخر(الصحاح) اس معنی میں یہ لفظ قرآن مجید میں ایک آیت میں آیا ہے، لیکن بہت سے مترجمین سے یہاں غلطی ہوئی اور انھوں نے بدل کے بجائے بدلے کا ترجمہ کردیا۔ اس غلطی کی وجہ غالبا یہ ہوئی کہ اسی جملے میں انفاق کا ذکر آیا ہے جس سے انھوں نے راہ خدا میں خرچ کرنا سمجھ لیا۔ دراصل جیسا کہ سیاق سے صاف معلوم ہوتا ہے یہ آیت راہ خدا میں خرچ کرنے...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

سورة الاحزاب کے کچھ مقامات۔ (۱۹۷) صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا کا ترجمہ۔ درج ذیل آیت میں صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا کا ترجمہ عام طور لوگوں نے ”عہد کو سچا کردکھایا ہے“ کیا ہے، اور اس کے بعد قَضَی نَحبَہُ کا ترجمہ بھی ”عہد یا نذر کو پورا کردیا“ کیا ہے۔ اس سے عبارت میں اشکال پیدا ہوجاتا ہے، کہ ایک ہی بات کو دو بار کیوں کہا گیا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا کا ترجمہ کرتے ہیں ”جنھوں نے سچا عہد کیا“ اس طرح مفہوم یہ بنتا ہے کہ اہل ایمان نے جب عہد کیا تو سچے دل سے عہد کیا، اور پھر کچھ نے موقع آنے پر عہد پورا کردکھایا اور کچھ موقع کے منتظر...

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۶)

محمد عمار خان ناصر

قرآن کی روشنی میں احادیث کی توجیہ وتعبیر۔ قرآن کے ساتھ احادیث کے تعلق کو متعین کرنے کا دوسرا طریقہ جو غامدی صاحب کے علمی منہج میں اختیار کیا گیا ہے، یہ ہے کہ روایات کو ان کے ظاہری مفہوم یا عموم پر محمول کرنے کے بجائے ان کی مراد ان تخصیصات کے ساتھ متعین کی جائے جو انھیں قرآن میں ان کی اصل کے ساتھ متعلق کرنے سے پیدا ہوتی ہیں۔اس اصول کی وضاحت میں وہ لکھتے ہیں: ”دوسری چیز یہ ہے کہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے۔ دین میں قرآن کا جو مقام ہے، وہ ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیثیت نبوت ورسالت میں جو کچھ کیا، اس کی...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۹۲) اسبغ کا ترجمہ۔ لفظ اسبغ قرآن مجید میں ایک جگہ آیا ہے، جب کہ اسی مادے سے ایک جگہ سابغات کا لفظ آیا ہے، اسبغ کا مطلب ہوتا ہے اتنی فراوانی جس سے ساری ضرورتیں پوری ہوجائیں۔ جس طرح درع سابغة کا مطلب ہوتا ہے اتنی کشادہ زرہ کہ پورے جسم پر آجائے۔ یعنی اس میں کشادگی اور فراوانی کا مفہوم ہوتا ہے، نہ کہ تمام کرنے اور پوری کرنے کا، جیسا کہ ذیل میں بعض ترجموں میں ملتا ہے۔ علامہ طاہر بن عاشور کے الفاظ میں: اسباغ النعم: اکثارہا. (تفسیر التحریر والتنویر)، یہ درست ہے کہ اہل لغت اسباغ کے معنی اتمام کے بھی ذکر کرتے ہیں، لیکن یہاں منکرین سے خطاب ہے، اور اس...

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۵)

محمد عمار خان ناصر

اسلوب عموم اور تخصیص و زیادت۔ غامدی صاحب، جیسا کہ واضح کیا گیا، امام شافعی کے اس موقف سے متفق ہیں کہ حدیث، قرآن کی صرف تبیین کر سکتی ہے، اس کے حکم میں تبدیلی نہیں کر سکتی۔ البتہ اس اصول کے انطباق اور تفصیل میں ان کا منہج امام شافعی سے مختلف ہے اور یہ اختلاف بظاہر جزوی ہونے کے باوجود نتائج کے اعتبار سے بہت اہم اور بنیادی ہے۔ امام شافعی کے منہج میں قرآن مجید میں اسلوب عموم کو تخصیص پر محمول کرنے کی درج ذیل تین صورتیں جائز مانی جاتی ہیں: پہلی یہ کہ کلام کے سیاق وسباق سے تخصیص واضح ہو رہی ہو۔ دوسری یہ کہ حکم کی علت اور معنوی اشارات سے تخصیص اخذ کی...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۹٠) سورة الحشر کے بعض مقامات۔ (۱) لِلفُقَرَاء المُہَاجِرِینَ الَّذِینَ اخرِجُوا مِن دِیَارِہِم وَاَموَالِہِم۔(الحشر: 8)۔ اس آیت میں فقراءموصوف ہے اور مہاجرین صفت ہے، اس لحاظ سے ترجمہ ہوگا: مہاجر فقراء، نہ کہ فقیر مہاجرین۔ ایک تو یہ زبان کے قواعد کا تقاضا ہے، دوسرے معنوی لحاظ سے بھی مہاجرین کی تقسیم مقصود نہیں ہے کہ فقیر مہاجرین کو حصہ دیا جائے اور غیر فقیر مہاجرین کا حصہ نہیں لگایا جائے۔ بلکہ یہ فقر سے دوچار لوگوں کی ایک خاص قسم یعنی مہاجرین اور گویا تمام مہاجرین پر مشتمل ہے، کیوں کہ تمام ہی مہاجرین گھر اور دولت چھوڑ کر آئے تھے۔ اس کا...

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۴)

محمد عمار خان ناصر

جاوید احمد غامدی کا نقطۂ نظر۔ شاہ ولی اللہ پر قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے اصول فقہ کی کلاسیکی بحث ایک طرح سے اپنے منتہا کو پہنچ جاتی ہے اور ان کے بعد کلاسیکی تناظر میں اس بحث میں کوئی خاص اضافہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ تیرھویں اور چودھویں صدی ہجری میں سنت کی تشریعی حیثیت اور قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث ایک نئے فکری تناظر میں ازسرنو اہل علم کے غور وخوض اور مباحثہ ومناقشہ کا موضوع بنی ہے۔ اس نئے فکری تناظر کی تشکیل میں جدید سائنس اور جدید تاریخی وسماجی علوم کے پیدا کردہ سوالات نیز ذخیرۂ حدیث کے تاریخی استناد کے حوالے سے مستشرقین...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۸۸) شقاق کاترجمہ۔ قرآن مجید میں شقاق کا لفظ اور اس سے مشتق فعل متعدد مقامات پر ذکر ہوئے ہیں۔ اہل لغت کی صراحت کے مطابق شقاق کا مطلب ہے، مخالف ہوجانا، دشمنی اختیار کرلینا۔ خلیل فراہیدی کے الفاظ میں: والشِّقَاقُ: الخلاف۔ (العین)۔ فیروزابادی لکھتے ہیں: والمُشَاقَّةُ والشِّقاقُ: الخِلافُ، والعَدَاوَةُ۔ (القاموس المحیط)۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: والشِّقَاقُ: المخالفة، وکونک فی شِقٍّ غیر شِقِ صاحبک۔(المفردات فی غریب القرآن)۔ تراجم قرآن کا جائزہ بتاتا ہے کہ اکثر جگہ اکثر مترجمین نے یہی مذکورہ مفہوم اختیار کیا، لیکن کچھ مترجمین نے کچھ مقامات...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

قرآن مجید میں استجاب کا لفظ مختلف صیغوں کے ساتھ آیا ہے، جہاں یہ بندوں کے لیے آیا ہے، وہاں اس لفظ سے مراد ہوتی ہے پکار پر لبیک کہنا، اور جہاں یہ اللہ کے لیے آیا ہے، وہاں مراد ہوتی ہے دعا قبول کرنا، مراد بر لانا اور داد رسی کرنا۔ جھوٹے معبودوں کے سلسلے یہ لفظ یہ بتانے کے لیے آتا ہے کہ یہ معبودان باطل پکارنے والوں کی کچھ بھی داد رسی نہیں کرسکتے۔ پہلے مفہوم کی وضاحت علامہ ابن عاشور اس طرح کرتے ہیں: والاستجابة: مبالغة فی الاجابة، وخصت الاستجابة فی الاستعمال بامتثال الدعوة او الامر۔ (التحریر والتنویر: 25/ 90)۔ دوسرے معنی کی وضاحت علامہ ابن عاشور اس...

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۳)

محمد عمار خان ناصر

شاہ ولی اللہ کا زاویۂ نظر۔ سابقہ فصل میں ہم نے امام شاطبی کے نظریے کا تفصیلی مطالعہ کیا جس کے مطابق تشریع میں مخصوص مقاصد اور مصالح کی رعایت کی گئی ہے جن کا بنیادی ڈھانچا قرآن مجید نے وضع کیا ہے، جب کہ سنت انھی کے حوالے سے کتاب اللہ کے احکام کی توضیح وتفصیل اور ان پر تفریع کرتی ہے۔ شاطبی نے تشریع کے عمل کو ایک منضبط اور مربوط پراسس کے طور پر دیکھتے ہوئے، جس کے واضح مقاصد اور متعین اصول کلیہ اپنی جگہ ثابت ہیں ، قرآن اور سنت، دونوں کا کردار اس طرح واضح کیا ہے کہ یہ دونوں مآخذ ایک ہی طرح کے مقاصد کے لیے اور ایک جیسے اصولوں کے تحت تشریع کے عمل کو مکمل...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶٠)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۳۸۱) ارسال کا ایک مفہوم۔ ارسال کے ایک سے زیادہ معنی آتے ہیں، فیروزابادی لکھتے ہیں: والارسالُ: التَّسلیطُ، والطلاقُ، والاِہمالُ، والتَّوجِیہُ۔(القاموس المحیط)۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: وقد یکون ذلک بالتّخلیة، وترک المنع۔ (المفردات فی غریب القرآن، ص: 353)۔ گویا ارسال کے معنی بھیجنے کے تو آتے ہی ہیں، آزاد کردینے، پابندی ہٹانے اور چھوڑ دینے کے بھی آتے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ بھیجنے کے معنی میں تو بہت استعمال ہوا ہے، عام طور سے اس وقت اس کے ساتھ الی لگتا ہے، سیاق کلام سے بھی وہ مطلب واضح ہوتا ہے۔ تاہم بعض مقامات پر سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ...

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۲)

محمد عمار خان ناصر

مصالح شرعیہ کی روشنی میں تشریع کی تکمیل۔ شاطبی کہتے ہیں کہ تشریع میں مصالح شرعیہ کے جو تین مراتب، یعنی ضروریات، حاجیات اور تحسینیات ملحوظ ہوتے ہیں، ان تینوں کا بنیادی ڈھانچا قرآن مجید نے وضع کیا ہے، جب کہ سنت انھی کے حوالے سے کتاب اللہ کے احکام کی توضیح وتفصیل اور ان پر تفریع کرتی ہے اور سنت میں کوئی حکم اس دائرے سے باہر وارد نہیں ہوا۔ اس لحاظ سے کتاب اللہ کی حیثیت تشریع میں اصل کی ہے اور سنت اپنی تمام تر تفصیلات میں کتاب اللہ کی طرف راجع ہے۔ مثال کے طور پر ضروریات خمسہ میں سے دین کی حفاظت شریعت کا سب سے پہلا مقصد ہے۔ اس ضمن میں اسلام، ایمان...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۸۱) انذار کا ترجمہ۔ قرآن مجید میں نذر کے مادے سے انذار منذر اور نذیر کا کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ انذار تبشیر کے ساتھ اور منذر مبشر کے ساتھ کئی مقامات پر آیا ہے۔ جب کہ نذیر کا ذکر کئی جگہ بشیر کے ساتھ ہوا ہے۔ انذار اور تبشیر میں قدر مشترک خبر دینا ہے، جس طرح تبشیر کا مطلب ایسی خبر دینا ہے جس میں خوشی موجود ہو، اسی طرح انذار کا مطلب بھی خبر دینا ہے، لیکن ایسی خبر جس میں ڈراوا موجود ہو۔ گویا دونوں الفاظ اصل میں خبر دینے کے لیے آتے ہیں، البتہ دونوں خبروں کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے۔ عربی لغت کی مستند ترین کتابوں کی تصریحات ملاحظہ ہوں: ونَذَر القومُ...

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۱)

محمد عمار خان ناصر

امام شاطبی کا نظریہ۔ اب تک کی بحث کی روشنی میں ہمارے سامنے سنت کی تشریعی حیثیت اور قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے علمائے اصول کے اتفاقات اور اختلافات کی ایک واضح تصویر آ چکی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ سنت کا ایک مستقل ماخذ تشریع ہونا فقہاءواصولیین کے ہاں ایک مسلم اصول ہے اور وہ ماخذ تشریع کو صرف قرآن تک محدود رکھنے کو ایمان بالرسالة کے منافی تصور کرتے ہیں۔ اس ساری بحث میں ایک بہت بنیادی مفروضہ جو جمہور علمائے اصول کے ہاں مسلم ہے، یہ ہے کہ شرعی احکام کا ماخذ بننے والے نصوص کو قطعی اور ظنی میں تقسیم کرنا لازم ہے، کیونکہ ایک مستقل ماخذ تشریع ہونے...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۷۷) لعل برائے علت۔ لعل عام طور سے توقع یعنی اچھی امید یا ناخواہی اندیشے کا مفہوم ادا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ البتہ کیا وہ تعلیل کے مفہوم میں بھی ہوتا ہے؟ اس امر میں اختلاف ہے ۔ ابن ھشام کے الفاظ ہیں: الثانی التعلیل اثبتہ جماعة منہم الاخفش والکسائی وحملوا علیہ (فقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر او یخشی) ومن لم یثبت ذلک یحملہ علی الرجاء ویصرفہ للمخاطبین ای اذھبا علی رجائکما. (مغنی اللبیب)۔ تاہم قرآن مجید کے بعض مواقع پر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں لعل تعلیل کے لیے ہی ہے، اور اگر تعلیل کے بجائے توقع کا ترجمہ کریں، تو بات غیر موزوں سی لگتی ہے، اور اس کی...

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱٠)

محمد عمار خان ناصر

نسخ القرآن بالسنة کے حوالے سے جمہور اصولیین کا موقف۔ امام شافعی کے موقف کا محوری نکتہ یہ تھا کہ سنت کا وظیفہ چونکہ قرآن مجید کی تبیین ہے اور اس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی راہ نمائی میسر تھی، اس لیے مراد الٰہی کے فہم میں سنت میں وارد توضیحات نہ صرف حتمی اور فیصلہ کن ہیں، بلکہ قرآن اور سنت کی دلالت میں کسی ظاہری تفاوت کی صور ت میں انھیں قرآن کی تبیین ہی تصور کرنا ضروری ہے، یعنی انھیں اصل حکم میں تغییر یا اس کا نسخ نہیں مانا جائے گا، بلکہ قرآن کی ظاہری دلالت کو اسی مفہوم پر محمول کرنا ضروری ہوگا جو احادیث میں...

امام طحاوی کا مقدمہ احکام القرآن

مولانا محمد رفیق شنواری

شریعت کے احکام کا ماخذ و مصدر قرآن و سنت ہیں۔ عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ قرآنِ کریم احکام کا سب سے اعلی و برتر اور تنہاماخذ ہے۔ پھر اس مفروضے کا تمام مسائل پر یکساں اطلاق کردیاجاتا ہے۔ حالانکہ فقہا اور اصولیین اس بارے میں مختلف رجحانات رکھتے ہیں۔ اور ہر ایک کے یہاں ایک مستقل موقف ، جو فروع اور احکامِ شریعت پر دور رس فقہی و قانونی اثرات مرتب کرتا ہے، پایا جاتا ہے۔ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پر گذشتہ کئی ماہ سے قارئین کی خدمت میں قرآن و سنت کے درمیان تعلق کے حوالے سے اس مؤقر جریدہ کے ایڈیٹر مولانا ڈاکٹر عمار خان ناصر ایک مکمل پروجیکٹ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۷۶) ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا کا ترجمہ: قرآن مجید میں سورة المجادلة میں ایک جگہ ظہار کے بیان میں ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا آیا ہے، اور اسی سورت میں ایک دوسری جگہ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ آیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ دونوں باتیں ایک ہی اسلوب کلام میں کہی گئی ہیں، اور اس کا تقاضا ہے کہ اگر کوئی مانع نہ ہو تو دونوں کا ایک ہی طرح سے مفہوم سمجھا جائے۔ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا کا مفہوم متعین کرنے میں مفسرین میں بہت زیادہ اختلاف ہوا ہے، جب کہ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ کا مفہوم متعین کرنے میں کوئی اختلاف نہیں...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(169) فتحا قریبا سے مراد۔ سورة الفتح میں ایک بار فتحا مبینا اور دو بار فتحا قریبا آیا ہے، عام طور سے لوگوں نے اس فتح سے صلح حدیبیہ کو مراد لیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ تینوں جگہ فتح مکہ مراد ہے۔ فتحا قریبا کا مطلب وہ فتح نہیں ہے جو حاصل ہوگئی ہے، بلکہ وہ فتح ہے جو قریب ہے یعنی جلد ہی حاصل ہوگی۔ رہی صلح حدیبیہ تو وہ فتح نہیں بلکہ فتح مکہ کا پیش خیمہ تھی۔ اس وضاحت کی رو سے آیت نمبر (1)، آیت نمبر (18) اور آیت نمبر (27) تینوں آیتوں میں فتح مکہ کی بشارت دی گئی ہے۔ واثابھم فتحا قریبا (18)کا ایک ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے: “اور ان کو ایک لگے ہاتھ...

قرآن وسنت کا باہمی تعلق اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۸)

محمد عمار خان ناصر

امام ابن حزم الاندلسی کا زاویۂ نظر۔ ابن حزم کے انداز فکر اور اصولی آرا کے بغور مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے قرآن کے عموم میں سنت کے ذریعے سے تخصیص یا زیادت کی توجیہ کے لیے دلالت کلام کے محتمل ہونے کے نکتے کو ناکافی اور غیرتشفی بخش پا کر استدلال کو دوبارہ کلیتاً اعتقادی مقدمے پر استوار کرنے اور یوں اس الجھن کو دور کرنے کی کوشش کی جو امام شافعی کے طرز استدلال میں پائی جاتی تھی۔ اس حوالے سے ابن حزم کے اصولی نقطۂ نظر کے اہم نکات حسب ذیل ہیں: نصوص میں درجہ بندی کے تصور کی نفی۔ ۱۔ قرآن اور سنت میں بیان کیے جانے والے تمام شرعی احکام اللہ تعالیٰ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(165) جواب امر پر عطف یا مستقل جملہ؟ درج ذیل دونوں آیتوں پر غور کریں، قَاتِلُوہُم یُعَذِّبہُمُ اللَّہُ بِایدِیکُم وَیُخزِھِم وَیَنصُرکُم عَلَیھم وَیَشفِ صُدُورَ قَومٍ مُومِنِینَ۔ وَیُذہِب غَیظَ قُلُوبِہِم وَیَتُوبُ اللَّہُ عَلَی مَن یَشَاء وَاللَّہُ عَلِیم حَکِیم۔(التوبة: 14، 15) قَاتِلُوھُم کے بعد جواب امر ہے، اور اس کے بعد چار جملے ہیں جو جواب امر پر معطوف ہیں، ان کی ہیئت ان کی اعرابی حالت پر واضح دلالت کررہی ہے۔ ان پانچ جملوں کے بعد ایک اور جملہ آتا ہے، وَیَتُوبُ اللَّہُ عَلَی مَن یَشَاء ، اس کے ساتھ بھی واو لگا ہوا ہے، لیکن اس کی ہیئت...

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۷)

محمد عمار خان ناصر

امام شافعیؒ کے موقف کی الجھنیں اور اصولی فکر کا ارتقا۔ امام شافعی کے موقف کی وضاحت میں یہ عرض کیا گیا تھا کہ ان سے پہلے کتاب وسنت کے باہمی تعلق کی بحث میں جمہور اہل علم کے استدلال کا محوری نکتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع واطاعت کا مطلق اور حتمی ہونا تھا اور وہ قرآن اور حدیث میں کسی ظاہری مخالفت کی صورت میں حدیث کو قرآن کی تشریح میں فیصلہ کن حیثیت دینے کو اس اتباع واطاعت کے ایک تقاضے کے طور پر پیش کرتے تھے۔ امام شافعی نے اس بحث میں ایک نہایت اہم نکتے کا اضافہ کیا کہ قرآن میں اسلوب عموم میں بیان کیے جانے والے ہر حکم کا ہر ہر فرد اور ہر ہر صورت...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

یعظکم بہ کا اسلوب۔ یہ جملہ ملتے جلتے اسلوب اور سیاق کلام میں دو مرتبہ آیا ہے، دونوں مرتبہ اللہ کی نصیحت ہے ، اور نصیحت کے اختتام پر اس جملے کا تذکرہ ہے، ایک جگہ صرف یَعِظُکُم بِہِ ہے، اور دوسری جگہ ان اللہ نعما یعظکم بہ ہے۔ درج ذیل آیت میں صرف یَعِظُکُم بِہِ ہے: وَاذکُرُوا نِعمَتَ اللّہِ عَلَیکُم وَمَا انزَلَ عَلَیکُم مِّنَ الکِتَابِ وَالحِکمَةِ یَعِظُکُم بِہِ۔(البقرة: 231) اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے عام طور سے مترجمین نے یَعِظُکُم بِہِ کو صفت یا علت مان کر ترجمہ کیا ہے، اور بہ میں ضمیر کا مرجع وَمَا انزَلَ عَلَیکُم مِّنَ الکِتَابِ وَالحِکمَةِ...

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۶)

محمد عمار خان ناصر

امام ابو جعفر الطحاوی کا زاویہ نظر ائمہ احناف کے رجحانات کو باقاعدہ ایک اصولی منہج کے طور پر متعین قواعد کی صورت میں منضبط کرنے کی کوشش کا آغاز امام محمد بن الحسن کے شاگرد عیسیٰ بن ابان سے شروع ہوتا ہے۔ عیسیٰ بن ابان کی اصولی فکر ابو الحسن کرخی سے ہوتی ہوئی چوتھی صدی میں ابوبکر الجصاص تک پہنچی اور جصاص کے قلم سے ہمیں حنفی اصول فقہ پر پہلی مرتب اور مفصل کتاب ملتی ہے۔ البتہ عیسیٰ بن ابان اور جصاص کے درمیان حنفی روایت میں ایک اور شخصیت جو اس حوالے سے بنیادی اہمیت رکھتی ہے، امام ابو جعفر الطحاوی کی ہے جو ابوبکر الجصاص کے استاذ بھی تھے۔ اصولی مباحث...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

لغت میں کلا کا مشہور مفہوم تو شدید نفی اور زجر وردع کا ہے، اردو میں اس کے لیے ہرگز نہیں اور نہیں نہیں کی تعبیر استعمال کی جاتی ہے۔ عام طور سے اس سے پہلے ایسی کوئی بات سیاق کلام میں موجود ہوتی ہے جس کی شدت کے ساتھ نفی کی جاتی ہے۔ تاہم قرآن مجید میں بہت سے مواقع ایسے ہیں جہاں موقع کلام’’ ہرگز نہیں‘‘ کے بجائے کسی دیگر مفہوم کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ سیاق کلام میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی ہے جس کی نفی کرنے کا محل ہو۔ اس دیگر مفہوم کے بارے میں بعض ائمہ نحو کا خیال ہے کہ حقا یعنی بیشک کا مفہوم ہے، بعض کا خیال ہے کہ ای ونعم یعنی ہاں ہاں کا مفہوم ہے، اور...

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۵)

محمد عمار خان ناصر

حنفی اصولیین کا موقف۔ قرآن وسنت کے باہمی تعلق اور اس کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے ائمہ احناف کے نظریے پر خود ان کی زبانی کوئی تفصیلی بحث دستیاب ذخیرے میں امام ابوبکر الجصاص کی ’’الفصول فی الاصول‘‘ اور ’’احکام القرآن‘‘ سے پہلے نہیں ملتی۔ ائمہ احناف سے اس موضوع پر حنفی مآخذ میں جو کچھ منقول ہے، ان کی نوعیت متفرق اقوال یا مختصر تبصروں کی ہے جن سے ان کا پورا اصولی تصور اور اس کا استدلال واضح نہیں ہوتا۔ تاہم تاریخی اہمیت کے پہلو سے ان کا ذکر یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ابو مقاتل حفص بن سلم السمرقندی نے امام ابو حنیفہ کا یہ قول روایت کیا ہے کہ:...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

”استکبر عن“ کا ترجمہ۔ لفظ استکبر کا اصل استعمال عن کے بغیر ہوتا ہے، اس کے ساتھ عن آنے سے اعراض کے مفہوم کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح دو مفہوم جمع ہوجاتے ہیں، ایک تکبر کرنا اور دوسرا اعراض کرنا۔ تکبر کرنے اور اعراض کرنے میں باہمی تعلق یہ ہے کہ تکبر کرنے کی وجہ سے انسان کسی چیز سے اعراض کرتا ہے، یعنی تکبر اعراض کا سبب ہوتا ہے۔ غرض استکبر عن کا مکمل ترجمہ وہ ہے جس میں یہ دونوں مفہوم ادا ہورہے ہوں۔اس کی روشنی میں جب ہم درج ذیل آیتوں کے ترجموں کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر ترجمے اس لفظ کا مکمل مفہوم ادا نہیں کررہے ہیں۔ (۱) وَکُنتُم...

”سورۃ البینۃ“ ۔ اصحابِ تشکیک کے لیے نسخہ شفاء

مولانا محمد عبد اللہ شارق

“سورۃ البینہ” کی تفسیری مشکلات۔ متاخرین اہلِ تفسیر میں سے بعض حضرات کو “سورۃ البینہ” کی ابتدائی چند آیات کے ایک “منظم ومربوط معنی” کا تعین کرنے میں کچھ ابہامات اور اشکالات پیدا ہوئے ہیں اور علامہ آلوسی نے امام واحدی سے نقل کیا ہے کہ یہ مقام قرآن کے “اصعب” (نسبتا مشکل) مقامات میں سے ایک ہے (1)، نیز خود راقم کو بھی اس مقام پر کسی منظم، بے تکلف اوربے ساختہ مفہوم ومراد کا تعین کرنے اور اس کی سبق آموزی کو سمجھنے میں دقت پیش آتی رہی۔امام رازی سے لے کر اردو کے معاصر مفسرین تک بعض حضرات نے گو خود ابہامات کا اظہار کرنے والوں پر حیرت کا اظہار کیا اور...

قرآن و سنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۴)

محمد عمار خان ناصر

اب دوسری قسم سے تعلق رکھنے والی بعض مثالیں ملاحظہ کیجیے: ۹۔ قرآن مجید میں مال کی زکوٰة کا ذکر اسلوب عموم میں کیا گیا ہے: خذ من اموالھم صدقۃ (التوبہ ۱٠۳:۹)۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی تفصیلات کے ذریعے سے واضح فرمایا کہ کون سے اموال میں زکوٰة عائد ہوگی اور کون سے اموال اس سے مستثنیٰ ہوں گے، کن صورتوں میں زکوٰة ساقط ہو جائے گی ، زکوٰة کی مقدار کیا ہوگی اور کتنی مدت کے بعد زکوٰة وصول کی جائے گی، وغیرہ۔ گویا آپ نے بتایا کہ زکوٰة ہر مال میں نہیں، بلکہ چند مخصوص اموال میں مخصوص شرائط کے ساتھ عائد ہوتی ہے۔ امام شافعی لکھتے ہیں کہ اگر سنت کی...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

تعجیل اور استعجال میں فرق۔ وَلَو یُعَجِّلُ اللّہُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ استِعجَالَہُم بِالخَیرِ لَقُضِیَ الَییہِم اَجَلُہُم۔ [یونس: 11] ’’اگر اللہ لوگوں کے لیے عذاب کے معاملے میں ویسی ہی سبقت کرنے والا ہوتا جس طرح وہ ان کے ساتھ رحمت میں سبقت کرتا ہے تو ان کی مدت تمام کردی گئی ہوتی”۔ (امین احسن اصلاحی) آیت مذکورہ کے اس ترجمے میں صاحب تدبر نے تعجیل اور استعجال دونوں کا ایک ہی ترجمہ کردیا ہے۔ جبکہ قرآن مجید کے دیگر تمام مقامات پر انہوں نے دونوں کے درمیان فرق کا پورا لحاظ کیا ہے۔ قرآنی استعمالات کے مطابق تعجیل کا مطلب کام کو جلدی کرنا اور استعجال...

قرآن و سنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۳)

محمد عمار خان ناصر

قرآن اور اخبار آحاد میں تعارض کی بحث۔ قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے اہم ترین سوال جس پر امام شافعی نے داد تحقیق دی ہے، بعض احادیث کے، بظاہر قرآن کے حکم سے متعارض یا اس سے متجاوز ہونے کا سوال ہے۔ اس ضمن میں عہد صحابہ وتابعین میں جو مختلف زاویہ ہائے نظر پائے جاتے تھے، ان کی وضاحت پچھلی فصل میں کی جا چکی ہے۔ جمہور فقہاءومحدثین ایسی صورت میں قرآن مجید کی مراد کی تعیین میں احادیث کو فیصلہ کن حیثیت دیتے تھے اور ظاہری تعارض کو، کسی قابل اعتماد روایت کو رد کرنے کی درست بنیاد تصور نہیں کرتے تھے۔ امام شافعی نے بھی اس بحث میں جمہور اہل علم کے موقف...

قرآنی اُسلوب دعوت کی باز یافت

سید مطیع الرحمٰن مشہدی

عزیز دوست محترم میاں انعام الرحمٰن کو جب بھی بتا یا کہ میں آج کل فلاں کتاب یا فلاں موضوع کا مطالعہ کر رہاہوں تو ایک بات وہ ہمیشہ دہراتے ہیں کہ جب کتاب یا مذکورہ مضمون کامطالعہ مکمل کرلیں تو اس کے حاصلِ مطالعہ پر ایک ڈیڑھ صفحہ ضرور لکھ دیا کریں کہ اس سے نثر نگار ی شستہ ،رواں اور بہترین ہو گی ۔پھر جب کبھی آپ اس کتاب یا موضوع پر برسوں بعد بھی کوئی تبصرہ یا کوئی تحقیقی کام کر نا چاہیں گے تو بجائے پوری کتاب پڑھنے کے یہ ایک ڈیڑھ صفحہ کفایت کرے گا ۔ آپ کے حاصل مطالعہ سے کئی اور لوگ بھی مستفید ہو ں گے ،کچھ عرصہ بعد اس طرح کے شذرات سے ایک کتاب بھی بن...

انسانی شعور، ایمان اور قرآن مجید کا اسلوب استدلال

محمد عمار خان ناصر

ایمان والحاد اور فلسفہ ومذہب کی باہمی گفتگو میں عام طور پر ایمان کا تقابل عقل سے کیا جاتا ہے، اور یہ دونوں فریقوں کی جانب سے ہوتا ہے۔ تاہم ذرا غور سے واضح ہو جاتا ہے کہ عقل اور ایمان کے تقابل کا مفروضہ منطقی طور پر غلط ہے، اس لیے کہ یہ دونوں انسانی شعور کے دو الگ الگ مراتب سے تعلق رکھتے ہیں۔ الحاد یا ایمان کا تعلق انسانی شعور کے اولین مرتبے یعنی اپنی وجودی حالت کے تصور سے ہے، جبکہ عقل کی فعلیت اس کے بعد شروع ہوتی ہے اور سرتاسر وجودی مفروضات کے تابع ہوتی ہے۔ وجودی مفروضات کے لحاظ سے ایمان یا الحاد میں سے کوئی بھی پوزیشن عقلی سطح پر قابل توجیہ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۰)

ڈاکٹر محی الدین غازی

ایک جملہ یا دو جملے؟ شَرَعَ لَکُم مِّنَ الدِّینِ مَا وَصَّی بِہِ نُوحاً وَالَّذِی اوحَینَا اِلَیکَ وَمَا وَصَّینَا بِہِ ابرَاہِیمَ وَمُوسَی وَعِیسَی ان اَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیہِ۔[الشوری: 13] اس آیت کا ترجمہ عام طور سے اس طرح کیا گیا ہے گویا کہ یہ ایک ہی جملہ ہے جس میں والذی اوحینا الیک معطوف ہے ما وصی بہ نوحا پر جو مفعول بہ ہے۔ اور ان اقیموا الدین بیان یا تفسیر ہے۔اس ترجمے میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ شرع لکم کہنے کے بعد والذی اوحینا الیک کہنے کی کیا ضرورت تھی، ذیل میں مذکور ترجمے ملاحظہ ہوں: ’’اسی نے تمہارے لیے دین کا...

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۲)

محمد عمار خان ناصر

منحرف گروہوں کے فکری رجحانات اور فقہائے صحابہ۔ قرآن وسنت کے باہمی تعلق اور قرآن مجید کے عمومات سے استدلال کے ضمن میں بحث ومباحثہ کا دوسرا دائرہ وہ تھا جس میں فقہائے صحابہ کا سامنا بعض منحرف گروہوں کے اس فکری رجحان سے تھا کہ دینی احکام اور پابندیوں کا ماخذ قرآن مجید میں تلاش کرنے پر اصرار کیا جائے اور اصولاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل تشریعی حیثیت پر سوال نہ اٹھاتے ہوئے بھی عملاً احادیث میں منقول احکام وہدایات کو زیادہ اہم نہ سمجھا جائے۔ اس رجحان کی پیشین گوئی اور اس کے حوالے سے تنبیہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پر فرمائی...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

اھتدی کا ترجمہ۔ اھتدی کا لفظ مختلف صیغوں کے ساتھ قرآن مجید میں بار بار آیا ہے، ماہرین لغت کی تشریح کے مطابق اس لفظ میں ہدایت کو طلب کرنا، ہدایت کو اختیار کرنا، اور ہدایت پر قائم رہنا شامل ہے۔ اس لفظ کے مفہوم میں ارادے اور اقدام کا ہونا موجود ہے۔ لفظ اھتدی کی اس روح اور اس کی اس معنوی خصوصیت کا سامنے رہنا بہت اہم اور ضروری ہے۔ یہ لفظ یاد دلاتا ہے کہ اس امتحان گاہ میں ہدایت از خود حاصل ہوجانے کے بجائے اختیار کی جانے والی چیز ہے۔ ہدایت اختیار کرنے کا یہ مفہوم ان مقامات پر اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے ، جہاں ایسا کرنے پر ایسا کرنے کے نتائج مرتب ہونے...

قرآن و سنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱)

محمد عمار خان ناصر

ساتویں صدی عیسوی میں جزیرہ عرب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کی فراہمی کا جو طریقہ اختیار کیا گیا، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتاب کے ساتھ ساتھ اللہ کے رسول بھی اپنے قول وعمل کے ذریعے سے اہل ایمان کی راہ نمائی فرما رہے تھے۔ اپنی اس منصبی حیثیت میں آپ کو اہل ایمان کے لیے دینی ہدایات واحکام مقرر کرنے کا مستقل اختیار حاصل تھا اور اہل ایمان سے کتاب الٰہی اور پیغمبر، دونوں کی اطاعت کسی امتیاز کے بغیر یکساں مطلوب تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اَطِیعُوا اللّٰہَ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

بلاء کا ترجمہ۔ بلا یبلو، اور أبلی یبلی کابنیادی مطلب تو ہوتا ہے کسی کو آزمائش میں ڈالنا، صلہ اور باب فعل کے اختلاف سے آزمائش کی نوعیت بدلتی رہتی ہے، یہ آزمائش خیر سے بھی ہوتی ہے اور شر سے بھی ہوتی ہے۔فرمایا: (ونبلوکم بالشر والخیر )، یہیں سے اس کا ایک مطلب خیر سے نوازنا بھی ہے۔ ابن قتیبہ ادب الکاتب میں لکھتے ہیں ۔۔۔ قرآن مجید میں چھ مقامات پر لفظ بلاء آیا ہے، یہ چھ مقامات وہ ہیں جہاں کسی بڑی مصیبت یا آزمائش سے بچالیے جانے کا تذکرہ ہے۔ ان میں سے چار مقامات پر بنی اسرائیل کو فرعون اور آل فرعون کے ظلم سے نجات دلانے کے بعد اس کا ذکر ہے، اور ان چار میں...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

بظاہر تفضیل مگر حقیقت میں مبالغہ۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ اسم تفضیل جمع مذکرسالم کی طرف مضاف ہوکر آیا ہے، جیسے خیر الرازقین اور احسن الخالقین، ایسے تمام ہی مقامات پر تفضیل مقصود نہیں ہوتی ہے، بلکہ صفت میں مبالغہ اور کمال مقصود ہوتا ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ تفضیل کے مفہوم میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ دوسروں میں بھی وہ صفت موجود ہے، البتہ کسی میں دوسروں سے زیادہ ہے، جبکہ مبالغہ میں یہ لازم نہیں آتا ہے کہ دوسروں میں بھی وہ صفت موجود ہے، بلکہ کلام کا سارا زور موصوف پر ہوتا ہے، کہ یہ صفت موصوف میں اعلی درجے میں پائی جاتی ہے۔ خیر الرازقین کا مطلب یہ نہیں...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۴۹) کن فیکون کا ترجمہ۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں کہیں ’’کن فکان‘‘ نہیں آیا ہے، جبکہ آٹھ مقامات پر کن فیکون کی تعبیر آئی ہے۔ یہ تعبیر ایک بار زمانہ ماضی کے سلسلے میں آئی ہے، ایک بار زمانہ مستقبل کے سلسلے میں اور باقی مقامات پر ہر زمانے پر محیط عام اصول بتانے کے لیے آئی ہے۔ عام طور سے کن فیکون کا ترجمہ اس طرح کیا جاتا ہے:’’ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے‘‘ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ کن فیکون کا مناسب ترجمہ نہیں ہے، بلکہ دراصل ’’کن فکان‘‘کا ترجمہ ہے۔ کن فیکون کا ترجمہ ہوگا ’’ہوجا تو وہ ہونے لگتی ہے یا ہورہی ہوتی ہے‘‘۔ترجمے...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۴۶) من دون اللہ کا ایک ترجمہ۔ لفظ ’’دون‘‘ عربی کے ان الفاظ میں سے ہے جن کے متعدد معانی ہوتے ہیں، اور سیاق وسباق کی روشنی میں مناسب ترین معنی اختیار کیا جاتا ہے۔ دون کا ایک معنی ’’سوا‘‘ ہوتا ہے، مندرجہ ذیل آیتوں میں مِن دُونِ اللّہ کاترجمہ کرتے ہوئے دون کا یہی معنی زیادہ تر مترجمین نے اختیار کیا ہے، البتہ کچھ مترجمین نے ’’سوا‘‘ کے بجائے ’’چھوڑ کر‘‘ ترجمہ کیا۔ اول الذکر تعبیر زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس میں وسعت زیادہ ہے، اس میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو اللہ کو معبود مانتے ہیں، اور اللہ کے سوا دوسرے معبود بھی بناتے ہیں، اور وہ لوگ بھی...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۴۳) اسلوب متعین کرنے کی ایک غلطی۔ درج ذیل آیت پر غور کریں: وَإِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَیى (طہ: 7)۔ اس آیت کا ترجمہ عام طور سے اس طرح کیا گیا ہے: ”تم چاہے اپنی بات پکار کر کہو، وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی تر بات بھی جانتا ہے“ (سید مودودی)۔ ”اور اگر تو بات پکار کر کہے تو وہ تو بھید کو جانتا ہے اور اسے جو اس سے بھی زیادہ چھپا ہے“ (احمد رضا خان)۔ صاحب تدبر نے یہاں عام مترجمین سے مختلف ترجمہ کیا ہے۔ ”خواہ تم علانیہ بات کہو (یا چپکے سے) وہ علانیہ اور پوشیدہ سب کو جانتا ہے“ (امین احسن اصلاحی)۔ صاحب تدبر...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۴۲) انتصر کا ترجمہ۔ انتصر کے لغت میں دو مفہوم ملتے ہیں: ایک انتقام لینا، اور دوسرا ظالم کا مقابلہ کرنا۔ وانتَصَرَ منہ: انتَقَمَ (القاموس المحیط) وانتصر الرجل اذا امتنع من ظالمہ، قال الازھری: یکون الانتصار من الظالم الانتصاف والانتقام، وانتصر منہ: انتقم۔ والانتصار: الانتقام (لسان العرب) وانتَصَرَ منہ: انتقم۔ (الصحاح)۔ جدید لغت المعجم الوسیط میں اس کی اچھی تفصیل ملتی ہے کہ جب یہ فعل من کے ساتھ ہو تو انتقام لینا، علی کے ساتھ ہو تو غلبہ حاصل کرنا اور بغیر صلے کے عام معنی ظالم کا مقابلہ کرنا اور اس کے ظلم کو روکنا ہوتا ہے۔ انتصر: امتنع من ظالمہ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۴۱) القول اور کلمۃ فیصلے کے معنی میں۔ قرآن مجید میں القول کا لفظ ایک خاص اسلوب میں استعمال ہوا ہے، اس اسلوب کے لیے القول کے ساتھ تین مختلف افعال استعمال ہوئے ہیں، جیسے حق علیہ القول، اور وقع علیہ القول، اور سبق علیہ القول۔ القول کی طرح کلمة کا لفظ بھی اسی خاص اسلوب میں استعمال میں ہوتا ہے، جیسے حقت علیہ کلمة، اور سبقت کلمة۔ مترجمین قرآن کے یہاں ایسے مقامات کا ترجمہ دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ترجمہ کرنے والوں کو ان کا مفہوم متعین کرنے میں دشواری ہوئی ہے، اور وہ مختلف مقامات پر مختلف ترجمے کرتے ہیں، بسا اوقات ان ترجموں کو سمجھنا بھی دشوار...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۳۹) باء کا ایک خاص استعمال۔ علمائے لغت کے قول کے مطابق حرف باء کم وبیش چودہ معنوں میں استعمال ہوتا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کے نزدیک ان مفہوموں کے علاوہ قرآن مجید میں کچھ مقامات پر حرف باء مزید ایک خاص مفہوم میں استعمال ہوا ہے، ذیل میں مثالوں کے ذریعہ اسے واضح کیا جائے گا ۔۔۔۔ آیت کے اس ٹکڑے کا ترجمہ حسب ذیل کیا گیا ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے، آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے، عورت عورت کے بدلے‘‘(محمد جوناگڑھی) ’’ا ے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۰)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۳۵) فھم یوزعون کا ترجمہ۔ یوزعون کا لفظ قرآن مجید میں تین مقامات پر آیا ہے، یہ فعل مضارع ہے، لفظی لحاظ سے اس کا ماضی وزع بھی ہوسکتا ہے اور أوزع بھی ہوسکتا ہے، گو کہ معنوی پہلو سے وزع ہی درست لگتا ہے جس کے معنی روکنے کے ہیں، اور لشکر کو قابو میں رکھنے کے بھی ہیں، جبکہ أوزع کے معنی ترغیب وتوفیق دینے کے ہیں ، اہل لغت کے مطابق ایزاع توزیع کے ہم معنی ہوکرتقسیم کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے،بہرحال یہ مفہوم اگر ہو بھی تو استعمال میں رائج نہیں ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ تینوں مقامات پر اس لفظ کے مختلف ترجمے کئے گئے ہیں: (۱) وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ جُنُودُہُ...

قرآن مجید میں خدا کے وعدوں کو سمجھنے میں غلطی

محمد ندیم پشاوری

اسلام کے دشمنوں نے مختلف زمانوں میں اسلام کو ناقص بنانے اور اس کے اجزاء میں کتر بیونت پیدا کرنے اور پیوند کاری کی کوششیں کی ہیں جس میں وہ ہمیشہ ناکام ہوتے رہے ہیں کیونکہ دین کی حفاظت کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیشہ اہل علم پیدا فرمائے جو دین کو اس کی مکمل شکل میں باقی رکھنے کے لئے جدوجہد کرتے رہے کیونکہ اسلام مکمل اور آخری دین کی صورت میں آیا ہے اور اس کو قیامت تک اسی طرح مکمل طریقہ سے باقی رہنا ہے۔ اس وقت بھی دین کو اس کی مکمل شکل سے ہٹا کر پیش کرنے کی کوششیں وقتاً فوقتاً ہوتی نظر آتی ہیں اور بعض اوقات غلط فہمی، کم علمی یا کسی شخصیت کی حاضر...
< 51-100 (190) >

Flag Counter