پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل
اسلامی نظام کی جدوجہد اور اس کی حکمت عملی
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ہمارے ہاں پاکستان کی معروضی صورت حال میں نفاذِ اسلام کے حوالہ سے دو ذہن پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ سیاسی عمل اور پارلیمانی قوت کے ذریعہ اسلام نافذ ہو جائے گا اور دوسرا یہ کہ ہتھیار اٹھائے بغیر اور مقتدر قوتوں سے جنگ لڑے بغیر اسلام کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔ ایک طرف صرف پارلیمانی قوت پر انحصار کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف ہتھیار اٹھا کر عسکری قوت کے ذریعہ مقتدر قوتوں سے جنگ لڑنے کو ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔ میری طالب علمانہ رائے میں یہ دونوں طریقے ٹھیک نہیں ہیں۔ صرف الیکشن، جمہوریت اور پارلیمانی قوت کے ذریعہ نفاذ اسلام اس ملک میں موجودہ حالات میں...
نفاذ اسلام کے سلسلے میں فکری کنفیوژن اور اعتدال کی راہ
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
روزنامہ ایکسپریس گوجرانوالہ میں ۱۲؍ نومبر ۲۰۱۲ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق: ’’القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کے چھوٹے بھائی محمد الظواہری نے کہا ہے کہ سینا میں اسلامی حکومت قائم کرنے کی خبریں گمراہ کن ہیں۔ ہماری جماعت دوسروں کو کافر قرار نہیں دیتی، اس لیے ہم پر تکفیری فرقے کے الزامات بے سروپا ہیں۔ ان اطلاعات میں بھی کوئی صداقت نہیں کہ ’’اسلامی جہاد‘‘ قاہرہ میں دہشت گرد بم حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ایسی خبریں اسلامی جہاد کے خلاف میڈیا میں ہونے والے منفی پراپیگنڈے کا حصہ ہیں۔ مصری میڈیا اور سیکورٹی اداروں کو سابق...
پاکستان میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد ۔ قرآنی نظریہ تاریخ کی روشنی میں ایک عمرانی مطالعہ
― پروفیسر میاں انعام الرحمن
قیامِ پاکستان کے بعد سے اس ملک میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد بجائے خود، ایک اجتماعی معاشرتی خواہش (collective social will) کی مظہر رہی ہے کہ اسلام نافذ کیا جائے اور مملکت کے تینوں دساتیر (۵۶، ۶۲، ۷۳) کے بنیادی ڈھانچے ایک حد تک اسی معاشرتی خواہش کے سیاسی نتائج (political output) دیتے چلے آئے ہیں۔ ۱۹۷۳ کے آئین میں تو خیر سے ریاست کو بھی کلمہ پڑھوا دیا گیا ہے کہ اسلام، مملکت کا سرکاری مذہب قرار پایا ہے۔ اس لیے جہاں تک آئین و قوانین کی بات ہے، معاشرتی خواہشات کے سیاسی ثمرات میں ڈھلنے کا تعلق ہے، حالات و واقعات بہت زیادہ سنگین اور تشویش انگیز نہیں ہیں۔ایسے میں سوال پیدا...
تکفیر اور خروج : دستورِ پاکستان کے تناظر میں
― محمد مشتاق احمد
موضوعِ زیر بحث کے کئی گوشے ہیں ۔ جو لوگ خروج کے قائل ہیں ان میں سے بعض تو حکمرانوں کے بعض اقوال یا افعال کی بنا پر ان کی تکفیر کرکے ان کی معزولی کو واجب قرار دیتے ہیں جبکہ بعض کا استدلال یہ ہے کہ پاکستان کا دستور ’ کفریہ ‘ ہے اور اس ’کفریہ نظام ‘ میں کہیں کہیں اگر اسلام کی پیوند کاری کی بھی گئی ہے تو اس کے باوجود اسے اسلامی نہیں مانا جاسکتا ۔ پھر بسا اوقات بحث میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کا حوالہ بھی آجاتا ہے ۔ یہ بحث بھی چھڑ جاتی ہے کہ پاکستان دار الاسلام ہے یا نہیں ؟ دستور نے اگر پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیا ہے تو کیا...
کیا دستور پاکستان ایک ’کفریہ‘ دستور ہے؟ ایمن الظواہری کے موقف کا تنقیدی جائزہ
― محمد عمار خان ناصر
القاعدہ کے راہنما شیخ ایمن الظواہری نے کچھ عرصہ پہلے ’’الصبح والقندیل‘‘ کے زیر عنوان اپنی ایک کتاب میں دستور پاکستان کی اسلامی حیثیت کو موضوع بنایا ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ’’سپیدۂ سحر اور ٹمٹماتا چراغ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ ظواہری دستور پاکستان کے مطالعہ کے بعد ’’پوری بصیرت‘‘ کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’پاکستان ایک غیر اسلامی مملکت ہے اور اس کا دستور بھی غیر اسلامی ہے، بلکہ اسلامی شریعت کے ساتھ کئی اساسی اور خطرناک تناقضات پر مبنی ہے۔ نیز مجھ پر یہ بھی واضح ہوا کہ پاکستانی دستور بھی اسی مغربی ذہنیت کی پیداوار ہے جو عوام...
قومی خودمختاری کا سوال اور ہماری سیاسی قیادت
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مسلسل ڈرون حملوں نے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی خود مختاری پر پہلے ہی سوالیہ نشان لگا رکھا تھا، مگر شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ کے حوالہ سے ’’ایبٹ آباد آپریشن‘‘ نے اس سوال کے سوالیہ پہلو کو اور زیادہ تاریک کر دیا ہے اور پوری قوم وطن عزیز کی خود مختاری کی اس شرم ناک پامالی پر چیخ اٹھی ہے۔ پوری قوم مضطرب ہے، بے چین ہے اور ایک ’’اتحادی‘‘ کی اس حرکت پر تلملا رہی ہے، مگر حکومتی پالیسیوں کے تسلسل میں کوئی فرق دیکھنے میں نہیں آ رہا اور وہ پالیسیاں جن کو ملک کے عوام نے گزشتہ الیکشن میں کھلے بندوں اپنے ووٹوں کے ذریعے مسترد کر دیا تھا او رمنتخب...
توہین رسالت پر سزا کا قانون
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
توہین رسالت کی سزا کے قانون کے خلاف ملک میں مختلف حلقے سرگرم عمل ہیں۔ ایک طبقہ ان لوگوں کا ہے جو سرے سے توہین رسالت کو جرم ہی نہیں سمجھتے اور اس پر کسی سزا کو آزادئ رائے، آزادئ ضمیر اور آزادئ مذہب کے منافی تصور کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کے مغربی معیار کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں، بلکہ اس پر ظالمانہ قانون اور کالا قانون ہونے کی پھبتی بھی کستے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس طرز فکر کے نمائندہ دانش ور سیکولر جمہوریت کو عدل وانصاف کا واحد معیار تصور کرتے ہوئے سوسائٹی کے اجتماعی معاملات اور ریاست وحکومت کی پالیسیوں میں مذہب کا کوئی حوالہ قبول کرنے...
۲۹۵ سی : اقلیتوں کا نقطہ نظر
― ڈاکٹر کنول فیروز
یادش بخیر! ۲۹۵۔سی کے حوالے سے ہم پہلے بھی اپنی نپی تلی رائے دے چکے ہیں کہ پاکستان کی اقلیتیں خصوصاً مسیحی اس کی روح اور نفاذکے قطعی خلاف نہیں کیونکہ اس قانون کا نفاذ واطلاق اہل اسلام کے دینی اور قلبی جذبات واحساسات کا انتہائی حساس مسئلہ ہے اور شایدا سی لیے جب پہلے پہلے قومی اسمبلی نے اس کی منظوری دی اور پھر بعدا زاں شریعت کورٹ نے اس جرم کی کم از کم سزا موت قرار دی تو اقلیتی حلقوں نے اس سے کوئی تعرض نہ کیا بلکہ اس وقت کے اقلیتی ایم این اے عمانوئیل ظفر نے کریمنل لاء امینڈمینٹ بل ۱۹۸۶ء کی منظوری کے دوران جو وزیرمملکت برائے عدل وپارلیمانی امور میر...
نفاذ شریعت کی جدوجہد: ایک علمی مباحثہ کی ضرورت
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پر جہاد کی شرعی حیثیت، موجودہ معروضی حالات میں اس کی عملی صورتوں اور دنیا کے مختلف حصوں میں جہادی تحریکات کے طریق کار کے حوالے سے مباحثہ کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے اور کم وبیش اس سلسلے میں رائے رکھنے والے اکثر دوستوں کا نقطہ نظر کسی نہ کسی پہلو سے سامنے آ چکا ہے۔ ہمارا مقصد اس قسم کے مباحث سے یہی ہوتا ہے کہ ملی اور قومی سطح کے مسائل میں علمی اور فکری طور پر رائے رکھنے والے حضرات کا نقطہ نظر قارئین کے سامنے آئے تاکہ انھیں کھلے ماحول میں مسئلہ کے تمام پہلووں کو ملحوظ رکھتے ہوئے رائے قائم کرنے میں آسانی ہو۔ اس کے ساتھ ہی...
قرار داد مقاصد کا متن
― ادارہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ’’اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے۔ اس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے، وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ مجلس دستور ساز نے جو جمہور پاکستان کی نمائندہ ہے، آزاد و خود مختار پاکستان کے لیے ایک دستور مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
جس کی رو سے اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، روا داری اور عدل عمرانی کے اصولوں کا پورا تباع کیا جائے گا۔ جس کی رو سے...
تمام مکاتب فکر کے ۳۱ اکابر علماء کرام کے طے کردہ متفقہ ۲۲ دستوری نکات
― ادارہ
مدت دراز سے اسلامی دستور مملکت کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں لوگوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اسلام کا کوئی دستور مملکت ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کے اصول کیا ہیں اور اس کی عملی شکل کیا ہو سکتی ہے؟ اور کیا اصول اور عملی تفصیلات میں کوئی چیز بھی ایسی ہے جس پر مختلف اسلامی فرقوں کے علماء متفق ہو سکیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے متعلق عام طور پر ایک ذہنی پریشانی پائی جاتی ہے اور اس ذہنی پریشانی میں ان مختلف دستوری تجویزوں نے اور بھی اضافہ کر دیا ہے جو مختلف حلقوں کی طرف سے اسلام کے نام پر وقتاً فوقتاً پیش کی گئیں۔ اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسوس...
قادیانی مسئلہ
― خورشید احمد ندیم
مجلس تحفظ ختم نبوت نے سانحہ لاہور پر جوبیان جاری کیا ہے،اس میں کہی گئی ایک بات بطور خاص اہلِ مذہب اور ریا ست کی تو جہ چا ہتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ قادیانیت کے خلاف ہیں،قادیانیوں کے نہیں۔یہ جملہ اگر ہماری سمجھ میں آجا ئے تو شاید ہم اس آزمائش سے بخیر نکل سکیں،جس کا بطور قوم ہمیں اس وقت سامنا ہے۔ ۱۹۷۴ء سے پہلے قادیانیت ایک سماجی مسئلہ تھا۔جب ریاست نے اس گروہ کو غیر مسلم قرار دیا تواس کے بعد یہ ایک ریا ستی مسئلہ بھی ہے۔گویا اب اس کا ایک پہلو قا نو نی بھی ہے۔ضروری ہے کہ اس معا ملے کی ان دو جہتوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے سمجھاجا ئے۔جہاں اس کا تعلق...
قرآن کریم اور دستور پاکستان
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں اس وقت حکومت اور حکمرانوں کے حوالے سے بہت سے مقدمات زیر سماعت ہیں اور اس سلسلے میں عدالت میں پیشی سے صدر اور وزیر اعظم کی استثنا پر ملک بھر میں بحث وتمحیص جاری ہے۔ ایک جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اسلامی روایات وتعلیمات کے مطابق حاکم وقت بھی اسی طرح عدالت کے سامنے پیش ہونے کا پابند ہے جس طرح رعیت کے دوسرے لوگ پابند ہیں، جیساکہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مقدمے میں عدالت کے سامنے پیش ہو کر اس کا اظہار کیا تھا، جبکہ دوسری طرف سے اس بات پر دلائل دیے جا رہے ہیں کہ حاکم اعلیٰ کی عدالت میں پیشی...
دستوری ترامیم اور حکمران طبقے کا رویہ
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دستور پاکستان ایک بار پھر ترامیم کا سامنا کر رہا ہے اور ان سطور کی اشاعت تک دستور پر نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کی قائم کردہ کمیٹی کی سفارشات منظر عام پر آ چکی ہوں گی۔ ۱۹۷۳ء میں منتخب دستور ساز اسمبلی نے یہ دستور منظور کیا تھا اور اس وقت کی پارلیمنٹ کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ اس نے قیام پاکستان کے ربع صدی بعد ملک کو ایک ایسا متفقہ دستور دیا جو قوم کے تمام طبقوں اور علاقوں کے لیے قابل قبول تھا اور پوری قوم نے اس پر اتفاق کرتے ہوئے ایک نئی دستوری زندگی کا آغاز کیا تھا۔ اس دستور کی بنیاد تین امور پر تھی: اسلام، جمہوریت اور وفاق۔ یہی تین دستوری بنیادیں...
پاکستانی عدلیہ: ماضی کا کردار اور آئندہ توقعات
― چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
پاکستان کی دستوری تاریخ میں، مولوی تمیزالدین کیس پہلا اہم کیس ہے۔ اس کیس کے پس منظر میں اختیار کی وہی لڑائی موجود ہے جو آج تک جاری ہے۔ دستور اور مقننہ توڑنے کے شوق کا اظہار ۲۴؍اکتوبر ۱۹۵۴ کو ہوا اور پھر ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء، ۲۵؍ مارچ ۱۹۶۹ء، ۵؍جولائی ۱۹۷۷ء اور ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کی تاریخوں کو بھی سپہ سالاران فوج نے اسی ہوسِ غصب کا مظاہرہ کیا۔ البتہ ۹؍مارچ ۲۰۰۷ء اور ۳؍نومبر ۲۰۰۸ء کے مشرفی اقدام کا نشانہ ، مقننہ کے بجائے بالترتیب چیف جسٹس اور پھر سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس تھے۔ پہلے اقدامات میں مقننہ اور حکومت نشانہ بنتی تھی،...
سزائے موت کے خاتمے کی بحث
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کی سالگرہ کے موقع پر وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی طرف سے سزاے موت کے قیدیوں کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا اعلان ملک بھر کے دینی حلقوں میں زیر بحث ہے اور اس کے مختلف پہلووں پر اظہار خیال کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کے قانونی نظام میں سزاے موت کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی مطالبہ اور دباؤ بھی موجود ہے، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی بھی کچھ عرصہ قبل یہ قرارداد منظور کر چکی ہے جس میں تمام ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے قانونی نظاموں میں سزاے موت ختم کر دیں اور آئندہ کسی شخص کو کسی ملک میں کسی بھی جرم کے تحت...
بجلی کا بحران ۔ چند تجاویز
― پروفیسر محمد شفیق ملک
اس وقت ملک عزیز میں جمہوری حکومت کی تشکیل مکمل ہوچکی ہے اور وزیراعظم پاکستان جناب یوسف رضاگیلانی نے مسائل اورپریشانیوں میں مبتلاپاکستان کے شہریوں کے لیے کچھ فوری اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ٹریڈیونین اور طلبہ یونین کی بحالی کے ساتھ ساتھ ورکرز کی بنیادی تنخواہ چھ ہزار روپے ماہانہ کرنے کااعلان کیا ہے۔ وزیراعظم نے وعدہ کیا ہے کہ ان کی حکومت عوام کی توقعات پر پوری اترے گی اور قوم کو خوشحالی کی طرف لے جائے گی۔ انہوں نے توانائی کی بحران پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کااعلان کیا ہے۔ وزیراعظم کی نیک نیتی شک سے بالاتر ہے، ہماری دعا...
اردو زبان کی ضرورت و اہمیت اور دینی مدارس کے طلبہ
― مولانا مفتی محمد اصغر
ملک کے معروف معیاری جرائد ورسائل میں ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں مختلف الخیال لوگوں کے آرا وافکار اورجدید افکار ونظریات رکھنے والے ارباب علم ودانش اور مفکرین کے مضامین ومقالات شائع ہوتے ہیں جس سے ان کے خیالات سے آگاہی ہوتی ہے اورغور وفکر کاموقع ملتا ہے۔ دوسروں کا نقطہ نظر سامنے آتاہے اور ان کے موقف کی کمزوری یابرتری ثابت ہوتی ہے۔ علمی دنیا میں اس کی جتنی ضرورت ہے، شاید ہی کسی صاحب علم کواس سے اختلاف ہو۔ ’’الشریعہ ‘‘میں وقتاً فوقتاً دینی مدارس کے مسائل کوزیر بحث لایاجاتاہے اور نظام تعلیم، اساتذہ اور طلبہ کی تعلیم...
پاکستان میں تاریخ نویسی کے ابتدائی رجحانات
― پروفیسر شیخ عبد الرشید
علمِ تاریخ انسانی معاشرے کے انفرادی اور اجتماعی افعال کا آئینہ دار ہے۔ اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین اور مفید علوم میں ہوتا ہے۔ یہ محض ماضی کے دلچسپ اور یادگار واقعات کی جستجو ہی کا نام نہیں جیسا کہ ہیروڈوٹس نے کہا تھا، بلکہ یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم انسانی تہذیب کے عہد بہ عہد ارتقا کی تصویر دیکھتے ہیں۔ یہ انسانی جدوجہد کی داستان پیش کرتی ہے۔ اگر تاریخ انسانی ز ندگی کے مختلف شعبوں میں گزشتہ نسلوں کے بیش بہا تجربات آئندہ نسلوں تک نہ پہنچاتی تو انسانی تمدن کا کارواں کبھی رواں دواں نہ ہو پاتا اور زمانہ قبل از تاریخ کی تاریک اور کٹھن منزل پر...
پاکستان میں فوج کا سیاسی کردار ۔ وزیر اعظم لیاقت علی خاں سے جنرل ایوب خاں تک
― پروفیسر شیخ عبد الرشید
بیسویں صدی کے وسط میں بہت سے ممالک نے طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی مگر کچھ ریاستوں کی جھولی میں یہ آزادی پکے ہوئے پھل کی طرح آ گری جس کی وجہ سے ان ریاستوں میں سیاسی خلا پیدا ہوا۔ایسی ریاستوں میں کمزور ادارہ سازی کے ماحول میں شروع ہونے والے سیاسی عمل میں سول قیادتیں قومی ضرورتوں کو پورا کرنے میں نا کام رہیں اور سیاسی رہنماؤں کو status quo بدلنے کے لیے طاقت پر انحصار کرنا پڑا ۔مثال کے طور پر پاکستان میں سیاسی اداروں کے بر عکس فوج مربوط، منظم اور طاقتور ادارے کے طور پر طاقت کی علامت بن کر ابھری۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد کے عشرے میں...
’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کا ایک جائزہ
― مفتی محمد تقی عثمانی
حال ہی میں ’’تحفظ خواتین‘‘ کے نام سے قومی اسمبلی میں جو بل منظور کرایا گیاہے، اس کے قانونی مضمرات سے تو وہی لوگ واقف ہوسکتے ہیں جو قانونی باریکیوں کا فہم رکھتے ہوں، لیکن عوام کے سامنے اس کی جو تصویر پیش کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ حدود آرڈیننس نے خواتین پر جو بے پناہ مظالم توڑ رکھے تھے، اس بل نے ان کا مداواکیاہے اور اس سے نہ جانے کتنی ستم رسیدہ خواتین کو سکھ چین نصیب ہوگا۔ یہ دعویٰ بھی کیا جارہاہے کہ اس بل میں کوئی بات قرآن وسنت کے خلاف نہیں ہے۔ آئیے ذرا سنجیدگی اور حقیقت پسندی کے ساتھ یہ دیکھیں کہ اس بل کی بنیادی باتیں کیا ہیں؟ وہ کس حد تک ان...
حدود آرڈیننس اور تحفظ حقوق نسواں بل
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حدود شرعیہ کا نفاذ ایک اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور مسلم معاشرہ میں جرائم کا تعین اور روک تھام انھی حدود کے حوالے سے ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے دینی حلقوں کا یہ مطالبہ چلا آ رہا تھا کہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں اسلامی قوانین واحکام کے نفاذ کے ساتھ ساتھ معاشرتی جرائم کی روک تھام کے لیے ان شرعی حدود کا نفاذ بھی عمل میں لایا جائے جو قرآن وسنت میں بعض سنگین جرائم کے لیے متعین صورت میں بیان کی گئی ہیں، مگر اس کی نوبت اس وقت آئی جب ۱۹۷۷ کی تحریک نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں عوام کی بے پناہ قربانیوں کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق...
حدود آرڈیننس اور اس پر اعتراضات
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
’’حدود آرڈنینس‘‘ ایک بار پھر ملک بھر میں موضوع بحث ہے اور وہ لابیاں از سر نو متحرک نظر آرہی ہیں جو اس کے نفاذ کے ساتھ ہی ا س کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئی تھیں اور قومی اور عالمی سطح پر حدود آرڈنینس کے خلاف فضا گرم کرنے میں مسلسل مصروف چلی آرہی ہیں۔ اس سے قبل ہم متعدد بار اس مسئلے کے بارے میں معروضات پیش کرچکے ہیں، لیکن موجودہ معروضی صورت حال میں ایک بار پھر اس سوال کا جائزہ لینا ضروری ہو گیاہے کہ ’’حدود آرڈنینس ‘‘کیاہے ؟ اس کے نفاذ کی مخالفت میں کون کون سے طبقے پیش پیش ہیں اور وہ اس کے خاتمہ کے لیے کیوں سرگرم عمل ہیں؟ ’’حدود‘‘ اسلامی فقہ...
اسلام، جمہوریت اور پاکستانی سیاست
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو صاحب کے درمیان طے پانے والا ’’میثاق جمہوریت‘‘ اس وقت نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی حلقوں میں زیر بحث ہے اور اس کے مثبت اور منفی پہلووں پر مسلسل اظہار خیال کیا جا رہا ہے، توقعات کا اظہار بھی ہو رہا ہے اور خدشات کا تذکرہ بھی جاری ہے۔ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو دو دفعہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ ہر بار ایسا ہوا ہے کہ ایک نے دوسرے کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے ہر ممکن جتن کیا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں، جس کا بڑا حصہ فوج ہے، اپنے حریف کی اقتدار سے محرومی پر خوشی منائی...
مسئلہ کشمیر: تازہ صورت حال اور کشمیری رائے عامہ
― ہمایوں خان
۱۹۸۰ء کی دہائی کے وسط میں، جب میں بھارت میں پاکستان کا سفیر تھا، میرے لیے جموں اور کشمیر جانے کا کوئی موقع نہیں تھا۔ دہلی یا اسلام آباد میں سے کوئی بھی اس کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ تقریباً ۲۰ سال کے بعد مجھے واہگہ سے جموں تک زمینی اور وہاں سے سری نگر تک فضائی سفر کا موقع ملا، اور کسی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ میرا یہ سفر دہلی کے مرکز برائے مکالمہ ومصالحت (Centre for Dialogue and Reconciliation) کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ایک سیمینار کے سلسلے میں تھا جس میں لائن...
پاکستان میں اسلامی نظام کی جدوجہد اور اس سے وابستہ اصولی اور اخلاقی تصورات
― مولانا عتیق الرحمن سنبھلی
پاکستان کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ یہ بنا اسلام کے نام پہ۔ پر پہلے دن سے وہاں اسلامی نظامِ حکومت کے لیے اس انداز کی جدوجہد چل رہی ہے جیسے حکمرانوں کے لیے یہ نظام ایک ناقابلِ قبول چیز ہو! ابتدائی دنوں کی سخت جد و جہد کے بعد اتنی کامیابی اس سلسلہ میں ملی کہ دستور ساز اسمبلی نے’’قراردادِ مقاصد‘‘ نام کی ایک قرارداد پاس کردی۔ یہ گویا ملک کے لیے اسلامی دستور کا سنگِ بنیاد ہوا۔ مگر پھر دستور بننے میں وہ لوہے لگے کہ کہیں ۱۹۷۳ء میں جا کے یہ ہو سکا۔یعنی پاکستان کے قیام پر ایک چوتھائی صدی گزرنے کے بعد۔ یہ دستور بہر حال ایسا بن گیا کہ جو طبقہ اسلامی نظامِ...
پاکستان کا سیاسی کلچر ۔ ایک جائزہ
― پروفیسر شیخ عبد الرشید
سیاسی کلچر کا مطالعہ کسی خاص قوم کے عمومی مزاج اور سیاسی رویوں کا مطالعہ ہے۔ سیاسی کلچر ان قواعد، تصورات، عقائد اور اجتماعی رویوں سے عبارت ہوتا ہے جن کا تعلق سیاسی طرز عمل سے ہو۔ اس میں ایسے تمام ادارے، طور طریقے، طرز عمل، رسوم ورواجات، عقائد واقدار اور اجتماعی تاثرات شامل ہیں جو کسی مخصوص معاشرے کی شناخت ہوں۔ ممتاز ماہرین سیاست گبریل آلمنڈ (Gabriel A. Almond) اور سڈنی وربا (Sidney Verba) سیاسی ثقافت کی تین جہتوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ اول، مسلمہ ثقافت جو سیاسی نظام سے متعلق علم اور احساسات کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ دوم، موثر ثقافت جو سیاسی نظام، مقاصد...
قومی نصاب تعلیم کے فکری اور نظریاتی خلا
― ڈاکٹر خورشید حسنین
تعلیمی عمل، ایک لحاظ سے دیکھیے تو انفرادی اور اجتماعی شناخت کی تعیین اور تشکیل کا عمل ہے۔ جیسے جیسے یہ عمل آگے بڑھتا ہے، شعوری یا غیر شعوری طور پر فرد کے بعض بنیادی نفسیاتی اور سماجی مسائل اس کا موضوع بنتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً میں کون ہوں؟ ماضی اور مستقبل سے میرا تعلق کیا ہے؟ دوسرے انسانوں کے ساتھ میرا واسطہ کس نوعیت کا ہے؟ میری زندگی کا مقصد اور مصرف کیا ہے؟ ایک فرد جب اپنے گھر کے قریبی ماحول کی حدود سے باہر نکلتا ہے تو اس کی شخصیت (فکری اعتبار سے) وسعت پذیر ہو جاتی ہے اور وہ بالعموم اپنے قرب وجوار، شہر، ملک اور خطے سے ماورا ہو کر (دوسرے انسانوں...
نظام جیل خانہ جات پر ایک نظر اور اصلاح کی چند تدابیر وتجاویز
― الحاج میاں محمد رفیق
انسانی زندگی کا اصل تقاضا تو یہ ہے کہ وہ امن وعافیت سے گزرے، صلاح وفلاح غالب ہوں اور نیکیاں رواج پائیں لیکن کیا کیا جائے انسان کے شرور نفسی کا کہ وہ موقع بموقع بے لگام ہوتے ہیں اور امن وسلامتی کو تباہ کر دیتے ہیں۔ جرم وسزا کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔ جب سے انسان نے شعور کی آنکھ کھولی، جزاوسزا کا دنیوی تصور بھی پیدا ہوگیا۔ اچھے کام پر انعام سے نوازا جانے لگا اور برے کاموں پر سزا دی جانے لگی۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دوررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی بعض جرائم پر مختلف لوگوں کو سزا ئیں دی گئیں۔ انسانی سرشت کی انہیں کمزوریوں...
نفاذ اسلام میں نظام تعلیم کا کردار
― ڈاکٹر محمد امین
پیشتر اس کے کہ ہم صلب موضوع کو زیر بحث لائیں، دو ضروری باتیں بطور تمہید کہنا چاہتے ہیں۔ ایک کا تعلق پاکستان میں نفاذ اسلام کے حوالے سے دینی عناصر کی غلط فہمی سے ہے اور دوسری کا ان کی خوش فہمی سے۔ غلط فہمی اس بات کی کہ ایک طویل عرصے تک پاکستان کے دینی عناصر یہ سمجھتے رہے ہیں اور عوام کو بھی یہ باور کراتے رہے ہیں کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کا مطلب ہے اسلامی قانون کا اجرا یعنی جب پاکستان کا قانون، اسلام کے مطابق بن جائے گا تو گویا شریعت نافذ ہو جائے گی۔ چنانچہ دینی عناصر کے مشورے سے صدر ضیاء الحق نے ۱۹۷۹ء میں حدود کے قوانین پاکستان میں نافذ کر دیے۔...
نظام حکومت کی اصلاح کے چند اہم پہلو
― جسٹس (ر) عبد الحفیظ چیمہ
(۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء کو ہمدرد سنٹر لاہور میں مجلس فکر ونظر کے زیر اہتمام ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں پیش کیا گیا۔) معزز ومحترم حاضرین۔ آج جس موضوع پر ہم غور وفکر (Deliberations) کرنے چلے ہیں، وہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آئیں، کچھ زمینی حقائق کا ذکر ضروری ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے لیے بڑا نازک اور کڑا وقت ہے۔ دنیا کی واحد سپر پاور نے باقاعدہ ایک سوچے سمجھے اور طویل منصوبے کے تحت مسلمانوں کو کچل کر ان کے وسائل دولت بالخصوص تیل پر ہاتھ صاف کرنے کا پروگرام...
پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء کو ہمدرد سنٹر لٹن روڈ لاہور میں ’’مجلس فکر و نظر‘‘ کے زیر اہتمام ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار منعقد ہوا جس کی صدارت ’’الشریعۃ‘‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی نے کی۔ سیمینار میں جسٹس (ر) عبد الحفیظ چیمہ‘ حکیم محمود احمد سرو سہارنپوری‘ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ‘ پروفیسر عبد الجبار شاکر‘ ڈاکٹر محمود الحسن عارف‘ جناب کے ایم اعظم اور پروفیسر ڈاکٹر محمدامین نے مختلف متعلقہ عنوانات پر مقالات پیش کیے اور متحدہ مجلس عمل کے مرکزی راہ نما حافظ حسین احمد ایم این اے اور صوبہ سرحد کے راہ نما...
’دہشت گردی‘ کے حوالے سے چند معروضات
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلامی نظریاتی کونسل کا سوال نامہ: اسلام امن وآشتی اور صلح وسلامتی کا مذہب ہے، اس نے انسانی زندگی کی حرمت کو اتنی اہمیت دی ہے کہ ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے اور اگر کسی مسلمان ملک میں غیر مسلم اقلیت آباد ہو تو اس کی جان ومال اور عزت وآبرو کے تحفظ کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے، نیز نجی زندگی سے متعلق معاملات میں انہیں اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی دی گئی ہے۔ اس نے نہ صرف ظلم وتعدی سے روکا ہے بلکہ ظلم کے جواب میں بھی دوسرے فریق کے بارے میں حد انصاف سے متجاوز ہو جانے کو ناپسند کیا ہے اور انتقام کے لیے بھی مہذب اور عادلانہ اصول...
ہندوستان اور پاکستان کے مشترکہ دشمن
― پروفیسر میاں انعام الرحمن
کہتے ہیں جب بہت بڑا خطرہ سامنے ہو تو دو شدید دشمن بھی، باہمی دشمنی بھلا کر اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ مثلاً سیلاب کے بہت بڑے ریلے میں بہتا ہوا درخت، سانپ، نیولے اور بندر وغیرہ کے لیے یکساں حفاظت کا سبب بن سکتا ہے۔ ایک دوسرے کے جانی دشمن مختلف جانور سیلاب تھمنے تک ایک دوسرے پر حملہ نہیں کرتے۔ بڑی حیرت کی بات ہے کہ برصغیر پاکستان وہند میں ایک نہیں کئی بڑے مشترکہ خطرات موجود ہیں مثلاً غربت، افلاس، پس ماندگی، مغربی ممالک کی اجارہ داری وغیرہ لیکن یہ دونوں ممالک مشترکہ مہیب خطرات کے باوجود ایک دوسرے پر غرا رہے ہیں۔ بھارت کا طرز عمل دیکھتے ہوئے...
وفاقی شرعی عدالت کے قیام کا پس منظر اور ضروریات
― جسٹس (ر) تنزیل الرحمن
روزنامہ جنگ لاہور ۲۳۔ اگست ۲۰۰۲ کی خبر کے مطابق صوبائی وزیر قانون رانا اعجاز احمد خان نے لاہور میں اقلیتوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہیں بتایا ہے کہ انہوں نے وفاقی وزارت قانون کو لکھ کر بھیج دیا ہے کہ ہائی کورٹ کے ہوتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لیے اسے ختم کر دیا جائے۔ صوبائی وزیر قانون کا کہنا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت تعصب کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے اس لیے اسے باقی رکھنا ضروری نہیں ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے بارے میں ایک عرصے سے بین الاقوامی حلقوں اور پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ یہ چونکہ...
دینی قوتیں: نئی حکمت عملی کی ضرورت
― ڈاکٹر محمد امین
افغانستان میں جو کچھ ہوا‘ وہ ایک عظیم المیہ تھا۔ پاکستان میں اب جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ بھی ایک المیے سے کم نہیں لیکن اگر پاکستان کی دینی قوتوں نے ہوش مندی سے کام نہ لیا تو خدا نخواستہ ایک عظیم تر المیہ ہم سے بہت دور نہیں۔ غلطی کسی فردسے بھی ہو سکتی ہے اور کسی جماعت سے بھی اور یہ کوئی قابل طعن بات نہیں کیونکہ گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں۔ لیکن شکست کے بعد اختیار کی گئی حکمت عملی کا تجزیہ نہ کرنا‘ اگر غلطی نظر آئے تو اسے غلطی تسلیم نہ کرنا یا غلطی سے پہنچنے والے نقصان کی تاویلیں کرنے لگ جانا گویا دوسرے لفظوں میں احساس زیاں کھو دینا ہے۔ یہ غلطی...
دستور سے کمٹمنٹ کی ضرورت
― پروفیسر میاں انعام الرحمن
۱۹۴۷ء سے لے کر اب تک وطن عزیز کو کئی مسائل سے سابقہ رہا ہے۔ ان میں سے سرفہرست تین کی ترتیب یوں بیان کی جاتی ہے: ۱۔ ملکی سلامتی کا تحفظ ۲۔ معیشت کی بحالی اور مضبوطی ۳۔ عوامی امنگوں کے مطابق دستوری نظام- حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں آپس میں باہم مربوط ہیں لیکن ان کی ترتیب ٹھیک نہیں رکھی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسائل کے انبار تلے دبتے چلے جارہے ہیں کیونکہ مسائل کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ ان کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے دی گئی ترتیب بھی کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ترتیب اس طرح ہونی چاہیے تھی: ۱۔ عوامی امنگوں کے مطابق دستوری نظام ۲۔ معیشت کی بحالی اور مضبوطی...
امریکی مطالبات اور پاکستان کی پوزیشن
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
امریکی ایوان نمائندگان نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ دستور پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی شق اور توہین رسالت پر موت کی سزا کا قانون ختم کیا جائے۔ یہ مطالبہ ایک قرارداد کی صورت میں کیا گیا ہے جو صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے حالیہ دورۂ امریکہ کے موقع پر امریکی ایوان نمائندگان نے منظور کی اور قرارداد کی منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد کے اہتمام کے لیے اسے متعلقہ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ امریکہ کا یہ مطالبہ نیا نہیں بلکہ کافی عرصہ سے چلا آ رہا ہے۔ ۱۹۸۷ء میں امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پاکستان کی امداد...
صدر پاکستان کی خدمت میں ایک ضروری عرض داشت
― ادارہ
۱۸۔۱۹ جنوری ۲۰۰۲ء کو وفاقی وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقدہ علماء ومشائخ کانفرنس کے موقع پر مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کر کے انہیں اہم معاملات میں دینی حلقوں کے جذبات سے آگاہ کیا اور مندرجہ ذیل تحریری عرض داشت پیش کی۔ بخدمت محترم جناب جنرل پرویز مشرف صاحب چیف ایگزیکٹو وصدر پاکستان۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ۱۶ جنوری ۲۰۰۲ء کو حکومت کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا کہ آئندہ ہونے والے قومی‘ صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے انتخابات مخلوط بنیادوں پر...
مغربی طاقتیں اور پاکستان کی سلامتی
― پروفیسر میاں انعام الرحمن
مغربی طاقتوں کے موجودہ رویے کی بنیاد دوسری جنگ عظیم کے دوران میں ایٹم بم کے استعمال میں ٹریس کی جا سکتی ہے۔ بہ نظر غائر معلوم ہو جاتا ہے کہ ان طاقتوں کا مقصد دنیا میں امن کا قیام اور لوگوں کی عمومی خوش حالی نہیں بلکہ طاقت کے بل بوتے پر اپنی برتری قائم کرنا ہے۔ایٹم بم کی تباہی کے پیش نظر چاہیے تو یہ تھا کہ اس کی روک تھام اور خاتمے کے لیے موثر اقدامات کیے جاتے لیکن مغربی طاقتوں نے اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر اس کو ایک موثر ہتھیار کے طور پر اپنا لیا۔ اس طرح بعد از جنگ کا عہد ایٹمی دوڑ کا عہد بن گیا۔ اس ایٹمی دوڑ کے جنگ جویانہ اثرات فلموں کے ذریعے سے...
پاکستان کے نظامِ حکومت میں خرابی کی چند وجوہات
― ڈاکٹر زاہد عطا
یوں تو قیامِ پاکستان سے ہی اس مملکتِ خداداد کے نظامِ حکومت کے بارے میں بحث و مباحثہ ہوتا رہا ہے۔ بڑے بڑے علماء اور فضلاء اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی ایک کمیشن نظامِ حکومت کے خدوخال طے کرنے کے لیے بنایا تھا لیکن بدقسمتی سے اس کمیشن کی اکثر سفارشات پر تو عمل نہ کیا گیا، صرف ایک سفارش یعنی غیر جمعتی نتخابات کو ۱۹۸۵ء میں اختیار کیا گیا اور اسی غیر جماعتی اسمبلی نے فورًا جماعت سازی کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسلم لیگ (جونیجو) کے تحت منظم کر لیا جس سے اس سفارش کی بھی نفی ہو گئی۔ جنرل ضیاء کی وفات کے بعد چار انتخابات جماعتی بنیادوں...
’’دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا‘‘
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ملٹی نیشنل کمپنیاں جس طرح پاکستان میں تجارت، صنعت اور زراعت کے شعبہ میں آگے بڑھ رہی ہیں اور ملکی معیشت بتدریج ان کے قبضے میں جا رہی ہے، اس سے ہر باشعور شہری پریشان ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ جیسے ہر قسم کی پریشانی اور اضطراب کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو آگے بڑھنے اور بڑھتے چلے جانے کا گرین سگنل دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارت اور محصولات کے نظام میں شرکت کے ذریعہ کنٹرول حاصل کیا تھا اور فلسطین میں یہودیوں نے زمینوں کی وسیع پیمانے پر خریداری کے ذریعے سے قبضے کی راہ...
آزادیٔ کشمیر کے لیے اعلانِ جہاد کی ایک تاریخی دستاویز
― ادارہ
۱۹۴۷ء میں برصغیر کی تقسیم ہوئی اور پاکستان کے نام سے ایک الگ مسلم ریاست وجود میں آئی تو غالب مسلم اکثریت کے علاقے ریاست جموں و کشمیر کے ہندو مہاراجا ہری سنگھ نے کشمیری عوام کی خواہش کے علی الرغم بھارت کے ساتھ ریاست کے الحاق کا اعلان کر دیا۔ جس کے خلاف کشمیری مسلمانوں نے عَلمِ بغاوت بلند کیا اور قبائلی مسلمانوں اور پاکستانی فوج کی مدد سے مسلح جنگ لڑ کر ہری سنگھ کی فوجوں سے جموں و کشمیر کا وہ خطہ آزاد کرایا جہاں آج آزاد ریاست جموں و کشمیر کے نام سے ایک الگ حکومت قائم...
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو قائد اعظمؒ کی ہدایت
― ادارہ
۱۵ جولائی ۱۹۴۸ء کو کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے خطاب میں فرمایا: ’’میں اشتیاق اور دلچسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ’’مجلسِ تحقیق‘‘ بینکاری کے ایسے طریقے کیونکر وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دیے ہیں اور اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ مغربی نظام افرادِ انسانی کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش...
اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات
― ادارہ
اسلام آباد (خبر نگار) اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر شیر محمد زمان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جمعہ کی چھٹی کو ختم کرنے کا غلط فیصلہ واپس لیا جائے۔ مقام حیرت ہے کہ جمعۃ الوداع کی تعطیل قیام پاکستان سے لے کر میاں نواز شریف کے دوسرے دور اقتدار تک ہوتی رہی مگر حکومت نے اس زیادتی کی تلافی بھی ضروری نہیں سمجھی۔ انہوں نے یہ بات اسلامی نظریاتی کونسل کے ۱۴۱ ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ۴ جولائی ۱۹۷۷ء کے بعد نافذ ہونے والے قوانین کا جائزہ لیا جا...
بسنت کا تاریخی پس مظر
― حکیم افتخار یوسف زئی
بسنت منانے والے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ جب موسم سرما رخصت ہوتا ہے اور بہا ر کی آمد آمد ہوتی ہے تو یہ تہوار منایا جاتا ہے جبکہ تاریخی حقائق اس کے خلاف ہیں۔ سکھ مورخ ڈاکٹر بی ایس نجار نے اپنی کتاب پنجاب میں آخری مغل دور حکومت میں لکھا ہے کہ ۱۷۰۷ء تا ۱۷۵۹ء زکریاخان پنجاب کا گورنر تھا۔ حقیقت رائے سیالکوٹ کے ایک کھتری باکھ مل پوری کا بیٹا تھا۔ اس نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نازیبا الفاظ استعمال...
حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ پر ایک نظر
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حکومت نے آخر کار "حمود الرحمن کمیشن" کی رپورٹ کا ایک اہم حصہ عوام کی معلومات کے لیے کیبنٹ ڈویژن کی لائبریری میں رکھ دیا ہے اور اس کے اقتباسات قومی اخبارات میں شائع ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ۱۹۷۱ء میں ملک سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مغربی پاکستان کے باقی ماندہ حصے میں قائم ہونے والی بھٹو حکومت نے عوامی مطالبہ پر اس وقت کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سربراہ جسٹس حمود الرحمن مرحوم کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کیا تھا جس میں پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس انوا ر الحق مرحوم اور سندھ بلوچستان ہائی کورٹ...
غیر ملکی قرضوں کا جال اور پاکستان کی آزادی
― لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل
عالمی سود خوروں نے قرضے کا قطرہ ایک بار پھر ہمارے خشک منہ میں ٹپکا دیا۔ ۱۹۷ ملین ڈالر کی حقیر رقم ہماری آزادی‘ معیشت اور مستقبل کی قیمت ٹھہرائی گئی ہے۔ ایک بار پھر ہماری تمام اقتصادی ‘ معاشی اور سیاسی پالیسی پر آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی اداروں کے ذریعے امریکہ کو تسلط کا حق حاصل ہوگیا ہے۔ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے بعد آزادی کے حصول کے جو امکانات روشن ہوگئے تھے ختم ہو کر رہ گئے ہیں چنانچہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو جس طرح بیرونی قوتوں کے حکم پر قانون و آئین کے منافی جیل سے نکال کر سعودی عرب پہنچایا...
کشمیر کی آزادی کا واحد راستہ - جہاد
― الشیخ عمر بکری محمد
اسلام کو کشمیر میں سن ۵۰۰ ہجری (۱۲۰۰ عیسوی) میں نافذ کیا گیا۔ برطانیہ کے مداخلت کرنے اور سکھوں کے کشمیر پر (۱۸۱۹) میں قبضہ کرلینے سے پہلے تک اسلام وہاں غالب رہا۔ ۱۸۴۶ء سے یہ ہندوؤں کے ہاتھوں میں ہے جب گلاب سنگھ نے اسے برطانیہ کو صرف ساڑھے سات ملین روپے میں بیچ دیا۔ یہ برطانیہ ہی تھا جو انڈین برصغیر کو تین واضح خطوں میں تقسیم کرنے کا ذمہ دار تھا جبکہ انہوں نے عرب جزیرہ نما کو کئی مزید حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اسلام کی غیر موجودگی سے قتل و غارت اور تشدد آئے ہیں کیونکہ ہندوؤں کے مذہب میں ایسا کوئی ہمدردی اور رحم کا عنصر نہیں...
سرکاری حج پالیسی اور حجاج کو درپیش مشکلات ۔ چیف ایگزیکٹو کے نام ایک مکتوب
― مولانا محمد عبد العزیز محمدی
بخدمت جناب عزت مآب جنرل پرویز مشرف ‘ چیف ایگزیکٹو پاکستان (اسلام آباد)۔ بخدمت جناب وزیر حج و امور مذہبیہ پاکستان(اسلام آباد)۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ مزاج گرامی ؟ ۔ امید ہے طبیعت بعافیت ہوگی۔ چند ایک معروضات پیش خدمت ہیں۔ حجاج کرام کو ہر سال پیش آمدہ مشکلات و مسائل وقتاً فوقتاً اخبارات اور قومی جرائد میں آتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں روزنامہ جنگ کی طرف سے جنگ فورم میں منعقدہ مذاکرہ کے مطالعہ کے بعد میں ضروری سمجھتا ہوں کہ جناب کی توجہ چند ایک تجاویز کی طرف خصوصیت سے مبذول کرائی جائے جن پر سنجیدگی سے غور کر کے انہیں قابل عمل بنا دیا...
< | 51-100 (126) | > |