(نوٹ: اِس مقالہ میں زیادہ تر بحث ہندوستانی مدارس کے تناظر میں کی گئی ہے۔ غ)
تمہید
برصغیر کے دینی مدارس نے صدیوں سے امتِ مسلمہ کی فکری، علمی اور روحانی قیادت کا فریضہ انجام دیا ہے۔ اِن مدارس نے اسلامی تہذیب کے تسلسل، مسلمانوں کی مذہبی و ثقافتی شناخت کی بقا، دین کے تحفظ، اور قرآنی و حدیثی علوم کے فروغ میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے1۔ پہلے فارغین مدارس کے سامنے اتنے معاشی چیلنج نہیں ہوتے تھے اور مسلم معاشرہ میں ان کی کھپت کسی نہ کسی طرح ہو جاتی تھی۔ تاہم عصرِ حاضر میں جب دنیا کی معیشت، تعلیم، اور روزگار کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں آ چکی ہیں، تو مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ ایک نئے بحران سے دوچار ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مدارس سے فارغ ہونے کے بعد اکثریت کو آگے کے لیے گائیڈ کرنے والا کوئی نہیں ہوتا اس لیے فارغین کی اکثریت پریشان رہتی ہے۔ ان میں سے چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو جدید تعلیم کا رخ کر پاتے ہیں، زیادہ تر نئے مکتب و مدرسے کھول لیتے ہیں یا مساجد میں مؤذنی و امامت کے مناصب سنبھال لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مساجد و مکاتب معاشرہ کی ضرورت سے کہیں زیادہ تناسب میں وجود پذیر ہو جاتے ہیں اور معاشرہ ان کی اچھی طرح کفالت کرنے میں ناکام ہے۔ اس مقالہ میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ فارغینِ مدارس کی اصل صورت حال کیا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے کن واقعی اقدامات کی ضرورت ہے جن سے مستقبل میں خوش آئند نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔
فارغین کے اس معاشی بحران پر بات کرنے سے پہلے مناسب ہو گا کہ ہم یہ جائزہ لیں کہ مدرسہ کے فارغین سماج میں کیا کردار کرتے رہے ہیں اور اب کیا کر سکتے ہیں۔
فارغینِ مدرسہ کا سماج کی تعمیر و ترقی میں کردار
مختصر تاریخی جائزہ
مدارسِ اسلامیہ کا تعلق محض مذہبی تعلیم یا عبادتی زندگی تک محدود نہیں رہا، بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ ان اداروں کے فارغ التحصیل علما نے ہر دور میں علمی، فکری، سماجی اور سیاسی سطح پر امتِ مسلمہ اور انسانی معاشرے کی رہنمائی میں فعال کردار ادا کیا۔
ابتدائی دور: علم و تہذیب کی بنیاد
اسلام کے ابتدائی صدیوں میں جب بغداد، نیشاپور، قرطبہ، قاہرہ، دہلی، سمرقند و بخارا جیسے علمی مراکز وجود میں آئے، تو یہ ہی "مدارس" تھے جنہوں نے انسانی فکر و علم کو سمت دی۔ امام غزالی، امام رازی، ابن تیمیہ، ابن خلدون، نظام الملک طوسی اور دیگر مفکرین انہی دینی مدارس کے تربیت یافتہ تھے۔ ان کی علمی و فکری خدمات نے اسلامی تہذیب کو ایک مضبوط فکری بنیاد فراہم کی۔
برصغیر میں مدارس کا احیائی کردار
برصغیر ہند میں مدارس نے صرف دینی تعلیم ہی نہیں دی بلکہ قوم کی فکری اور سیاسی بیداری میں بھی مرکزی کردار ادا کیا2:
- ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند (1866ء) نے انگریز سامراج کے خلاف فکری و سیاسی مزاحمت کی قیادت کی۔ اس کے نمایاں فارغین میں مولانا محمود حسن (شیخ الہند)، مولانا عبیداللہ سندھی، اور مولانا حسین احمد مدنی جیسے رہنما شامل ہیں جنہوں نے آزادی کی تحریک میں عملی حصہ لیا3۔
- دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ (1894ء) نے دین و دنیا کے امتزاج اور جدید تعلیم کے ساتھ دینی فہم کو ہم آہنگ کرنے کی تحریک اٹھائی، جس کے نتیجے میں مولانا شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، ابوالحسن علی ندوی وغیرہ نیز اسی دبستانِ فکر کے گلِ سرسبد ابوالکلام آزاد وغیرہ جیسے علماء و مفکرین سامنے آئے جنہوں نے مسلم سماج کی فکری تشکیل نو میں نمایاں کردار ادا کیا۔
سماجی و اصلاحی خدمات
مدرسہ کے علماء نے تعلیم، اصلاحِ معاشرہ، اور خدمتِ خلق کے میدان میں بھی نمایاں کام کیے:
- مولانا اشرف علی تھانوی نے اصلاحِ نفس اور اخلاقی تربیت کی تحریک چلائی4۔
- مولانا ابوالکلام آزاد نے تعلیمِ عامہ اور آزادی کی جدوجہد میں رہنمائی کی5۔
- مولانا شبلی نے مدارس کے نظام و نصاب میں جدید مناہج داخل کیے اور سیرت و تاریخ اسلام کو جدید انداز میں پیش کیا6۔
اور بہت سے علماء و مفکرین نے فکری و سیاسی میدان میں اسلامی نظام کے عملی تصور کو پیش کیا۔ بعض نے نئے تعلیمی افکار پیش کیے اور بعض نے سماجی خدمات انجام دیں:
- اپنی تعلیم کے لحاظ سے علی گڑھ تحریک اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان بھی ایک مولوی ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف بڑے پیمانہ پر راغب کیا7۔
- موجودہ دور میں دین اور سائنس، اسلام کی پُر امن دعوت اور امنِ عالم کے سلسلہ میں سب سے زیادہ کام کرنے والے مولانا وحید الدین خاں بھی اپنی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے صرف ایک مولوی تھے جنہوں نے مدرسۃ الاصلاح سے تقریباً فضیلت کے درجہ تک تعلیم پائی تھی، اس کے بعد انہوں نے خود مطالعہ کیا اور سیلف میڈ مصنف و مفکر بنے8۔
جدید دور: سماجی تنظیمات اور رفاہی کام
آج کے دور میں بھی مدرسہ کے فارغین صرف مساجد یا مدارس تک محدود نہیں رہے، بلکہ وہ تعلیمی، سماجی، رفاہی اور بین المذاہب مکالمے کے میدانوں میں سرگرم ہیں۔
- کئی مدارس نے سوشل ورک، صحت، تعلیمِ عامہ، اور امن کے فروغ کے پروجیکٹس شروع کیے۔ پاکستان میں جامعۃ الرشید کراچی اس سلسلہ میں بہت ممتاز ہے۔ ہندوستان میں اکل کوا (مہاراشٹر) کے جامعہ اشاعۃ العلوم کو مثال میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
- جدید تعلیم یافتہ علماء نے میڈیا، اکیڈمک ریسرچ، اور پالیسی سازی میں بھی قدم رکھا اور بہت سوں نے مختلف تنظیمات کے ذریعے علمی مکالمہ فروغ دیا۔ مثلاً جماعت اسلامی ہند کے تعلیمی و رفاہی اداروں میں، یا جمعیۃ علماء ہند کی شاخوں میں، یا دہلی کے آئی او ایس اور اسلامی فقہ اکیڈمی، اور دوسرے مقامی علمی اداروں کے ذریعہ بہت سے علماء متحرک ہیں اور مختلف میدانوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
یعنی کل ملا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ کا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ مدارس کے فارغین نے ہمیشہ حالات کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا اور سماج کے ارتقا میں فعال کردار ادا کیا۔ وہ صرف پیشوا ہی نہیں بلکہ اصلاحی، تعلیمی، اور فکری رہنما بھی رہے ہیں۔ آج کے نوجوان علماء کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسی روایت کو جدید تقاضوں کے ساتھ آگے بڑھائیں تاکہ مدرسہ، ماضی کی طرح مستقبل میں بھی سماجی ترقی کا محور بن سکے۔
موجودہ دور کی معاشی صورتحال: وجوہات اور ممکنہ حل
موجودہ صورتِ حال بہت مخدوش ہے کہ مدارس کے ہزاروں فارغین ہر سال میدانِ عمل میں آتے ہیں لیکن ان کے لیے خاص طور پر ہندوستان میں معاشی امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مدارس کے نصاب میں چونکہ عصری تعلیم، سائنسی علوم، یا جدید اقتصادی نظام کے تقاضے شامل نہیں ہوتے، اس لیے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے روزگار کے دروازے محدود ہو جاتے ہیں۔
فارغین کے لیے میسر شعبے
چنانچہ موجودہ وقت میں اکثر فارغین درج ذیل شعبوں تک محدود رہتے ہیں:
- امامت و خطابت۔
- تدریس (مدارس یا مساجد کے ذیلی اداروں یعنی مکاتبِ دینیہ میں)۔ اس کا ایک سائیڈ ایفیکٹ یہ ہے کہ ہر سال بہت سے چھوٹے مدارس کھل جاتے ہیں جن کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، ان کی وجہ سے جو مدارس مختلف علاقوں میں مرکزیت رکھتے ہیں وہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی فنڈنگ بٹ جاتی ہے، مختلف گروہی اور شخصی نزاعات الگ جنم لیتے ہیں کیونکہ یہ شخصی مدرسے ذاتی مسابقت کی دوڑ کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
- فتویٰ نویسی یا دینی تصنیف۔
- محدود دینی تنظیمی خدمات۔ یعنی مسلمانوں میں جو فرقہ وارانہ یا علمی و تبلیغی تنظیمیں و تحریکیں موجود ہیں، ان کو افراد کار اِنہی مدارس سے ملتے ہیں۔
یہ شعبے نہ صرف محدود ہیں بلکہ معاشی طور پر بھی غیر مستحکم۔ چنانچہ فارغ التحصیل عالم کو اکثر معمولی تنخواہ پر گزارہ کرنا پڑتا ہے، جو کہ جدید معاشی تقاضوں کے مقابلے میں بالکل ناکافی ہے۔
بنیادی معاشی مسائل
کم آمدنی اور عدمِ استحکام
اکثر مدارس میں اساتذہ کی تنخواہیں 15 / 20 اور حد سے حد 25 ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ نہیں ہوتیں۔ بعض علاقوں میں اس سے بھی کم۔ اس صورتحال میں فارغین کے لیے شادی، رہائش، علاج، یا بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرنا ایک مسلسل جدوجہد بن جاتا ہے۔
محدود روزگار کے مواقع
مدارس کے نصاب میں عصری مضامین کی عدم شمولیت فارغین کو دوسرے شعبوں میں مقابلہ کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ بینکنگ، معاشی مشیر، کارپوریٹ سیکٹر، یا سول سروس جیسے میدان ان کے لیے تقریباً بند ہیں۔
سماجی تفاوت
معاشرتی سطح پر بھی مدارس کے فارغ التحصیل علماء کو کمتر نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ عام معاشرہ کو تو چھوڑیے خود مسلم سماج میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ فارغینِ مدارس کے علمی سرمایہ کی قدر نہیں کرتا، اور انہیں "غیر مفید" سمجھتا ہے۔ اس ذہنی فاصلے نے بھی ان کی معاشی حیثیت کو مزید کمزور کیا ہے۔
تنظیمی و ادارہ جاتی غفلت
اکثر دینی ادارے اپنے فارغین کے لیے Career Guidance یا Placement کا کوئی نظام نہیں رکھتے۔ نہ ہی کوئی ایسا فنڈ یا اسکیم ہے جو بے روزگار علماء کو معاشی سہارا دے سکے۔
معاشی بحران کی وجوہات
نصابِ تعلیم کا جمود
مدارس کا نصاب درسِ نظامی صدیوں پرانا ہے جس میں فقہ و نحو کی بھرمار تو ہے، رٹا لگوایا جاتا ہے، اس وجہ سے عربی زبان کو دسیوں سال پڑھتے رہنے کے باوجود زیادہ تر مدارس کے فارغین آج کی اچھی عربی لکھنے، بولنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس پر مستزاد سیاسیات، معاشیات، نفسیات، تاریخ، سماجیات اور جدید زبانوں کے علم کا فقدان ہے۔ درس نظامی کی تاریخ دیکھیں تو پہلے یہ درس بہت متحرک اور فعال تھا۔ خود دارالعلوم دیوبند میں باقاعدہ طب پڑھائی جاتی تھی9۔ قدیم قاسمی لوگوں میں بہت سے اطباء اور حکیم ملتے ہیں۔ ان سب نے یہیں طب پڑھی تھی۔ اس کے علاوہ دارالعلوم میں دارالصنائع بھی قائم کیا گیا تھا جس کی تفصیل تاریخ دارالعلوم از محبوب رضوی ص ۳۱۲ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ بعد میں اس پہلو میں زبردست زوال آیا اور درس نظامی خود ایک جامد اور غیر مفید منہج تعلیم بن کر رہ گیا۔
نظامِ فنڈنگ کی کمزوری
مدارس عوامی عطیات و صدقات پر چلتے ہیں۔ اس غیر مستحکم نظام کے باعث وہ اپنے اساتذہ اور عملے کو معقول اجرت دینے سے قاصر رہتے ہیں۔
ذہنی اور فکری تنہائی
مدارس نے خود کو معاشرے کے عمومی دھارے سے الگ کر رکھا ہے۔ اس علیحدگی نے ان کے طلبہ کو عملی زندگی کی مشکلات کے لیے غیر تیار رکھا ہے۔
ریاستی عدمِ توجہ
حکومتیں مدارس کو قومی ترقی کے منصوبوں میں شامل نہیں کرتیں۔ نتیجتاً مدارس کے فارغین کے لیے روزگار کے سرکاری مواقع ناپید ہیں۔ اس وجہ سے خاص طور پر ہندوستان میں فارغین مدارس کو بڑے معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ بنگلادیش اور پاکستان میں غالباً صورتِ حال کچھ بہتر ہو۔ اس کی ایک وجہ اہل ِمدارس اور ملی قیادت کی عمومی زود حسی ہے، وہ گورنمنٹ سے کوئی مراعات لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ اس طرح سے ان کے نزدیک حکومت مدارس کے معاملات میں دخیل ہو جائے گی اور ان کے نصاب و نظام میں مداخلت کرے گی۔ اسی لیے حکومتِ ہند نے ابھی تک جتنے بھی مرکزی یا ریاستی مدرسہ بورڈ بنائے ان کی ملت کی طرف سے شدید مزاحمت ہوئی۔ اس کے باوجود چھوٹے مدارس کی ایک معتد بہ تعداد ان سرکاری مدرسہ بورڈوں سے جڑ گئی ہے اور سرکاری مراعات سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ البتہ ان میں تعلیمی معیار یقیناً بہت سطحی ہے۔
ممکنہ حل اور تجاویز
نصابِ تعلیم میں اصلاح
جدید تعلیم (انگلش، کمپیوٹر، سیاسیات، اکنامکس، سوشیالوجی) کو دینی تعلیم کے ساتھ شامل کیا جائے۔ آج دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، جامعۃ الفلاح و مدرسۃ الاصلاح، جامعہ سلفیہ و جامعہ اشرفیہ مبارکپور اور جامعۃ الہدایہ وغیرہ نے ان میں سے بعض مضامین کو کسی نہ کسی حد تک اپنے نصابوں میں جگہ دے دی ہے۔ لیکن ان بڑے اداروں کی ہزاروں شاخوں میں ابھی ان کا بندوبست کرنا باقی ہے۔ فارغ علماء کو عصری دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ وہ میدانِ عمل میں باعزت طور پر داخل ہو سکیں۔
تربیتی و پیشہ ورانہ کورسز
فارغین کے لیے ایک یا دو سالہ Skill Development کورسز متعارف کرائے جائیں جیسے: ترجمہ و تفسیر، میڈیا ورک، صحافت، تدریس، اور آن لائن فتویٰ سروسز۔
مالیاتی تعاون و مائیکرو فنانس
زکوٰۃ و وقف فنڈز کے ذریعے علماء کے لیے چھوٹے کاروبار یا اسٹارٹ اَپس کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ "علماء ویلفیئر فنڈ" کے تحت ان کے لیے بلاسود قرضے فراہم کیے جائیں۔
ادارہ جاتی سطح پر اقدامات
- بڑے مدارس اپنے فارغین کے لیے Alumni Networks بنائیں جو ایک دوسرے کو روزگار اور مواقع فراہم کریں۔ اس کے لیے رابطۃ المدارس الاسلامیہ، جمیعۃ علماء ہند کی جمعیۃ اسکولنگ اسکیم اور بعض اور دوسری جماعتوں کی کوششیں کافی نہیں ہیں۔
- مدارس کو "دینی و عصری" ماڈل پر اپ گریڈ کیا جائے۔ جیسا کہ بنگلہ دیش کے بعض مدارس نے اس کا تجربہ کیا ہے اور ہندوستان میں کیرالا کے مدارس کر رہے ہیں مثلاً جامعہ الثقافہ السنیہ، جامعہ اسلامیہ ملاپورم اور دارالہدیٰ اسلامک یونیورسٹی کیرالہ۔ اور وہ تجربہ اچھا ثابت ہوا ہے۔ جامعہ دارالہدیٰ جو پہلے ایک مدرسہ تھا، نے اپنے آپ کو ایک منی یونیورسٹی میں ڈھال دیا ہے جس میں اپنے کور اسلامی اور عربی علوم کو باقی رکھتے ہوئے بی اے تک نئے علوم کی فیکلٹیاں قائم کر دی ہیں۔ اور وہاں سے فارغ ہو کر طلبہ اب مختلف عام یونیورسٹیوں سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ راقم نے کئی سال پہلے اس پر ایک انگریزی مضمون لکھا تھا جو مسلم مرر میں شایع ہوا تھا10۔ جنوبی ہند کے اس تجربہ کو شمالی ہند کے بڑے مدارس دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، جامعۃ الفلاح و مدرسۃ الاصلاح، جامعہ سلفیہ و جامعہ اشرفیہ مبارکپور اور جامعۃ الہدایہ جے پور بھی اپنا سکتے ہیں۔ ان کے پاس اس کے لیے زمین بھی ہے اور مالی وسائل بھی، بس قوتِ ارادہ کی کمی ہے۔
ذہنی و سماجی تبدیلی
علماء کو خود بھی پیشہ ورانہ کام کو عیب سمجھنے کی ذہنیت بدلنی ہو گی۔ انہیں یہ احساس پیدا کرنا ہو گا کہ خدمتِ دین صرف مدرسے یا مسجد میں نہیں، بلکہ میڈیا، علمی و تحقیقی اور سماجی میدانوں میں بھی ممکن ہے۔ مدرسہ فارغین کا معاشی بحران صرف ان کا ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی و فکری چیلنج ہے۔ اگر مدارس اصلاحِ نصاب، تربیت، اور مالیاتی منصوبہ بندی کی سمت میں قدم نہیں اٹھاتے تو آنے والے وقت میں یہ طبقہ علمی وقار کے باوجود معاشی غلامی کا شکار ہو جائے گا۔ اسلامی معاشرت کی تعمیر میں علماء کا کردار کلیدی ہے، اس لیے ان کی معاشی آزادی اور وقار کی بحالی دراصل امت کے فکری احیاء کی بنیاد ہے۔
فارغینِ مدارس کے لیے برج کورس کے فوائد
مدارسِ اسلامیہ نے صدیوں سے امتِ مسلمہ کے علمی و دینی تشخص کو محفوظ رکھا ہے۔ تاہم آج کے جدید دور میں جہاں سائنس، ٹیکنالوجی، سوشل سائنسز، اور لسانیات جیسے مضامین کی اہمیت بڑھ گئی ہے، وہاں مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کو عصری میدانوں میں قدم رکھنے کے لیے ایک پل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے "برج کورس" (Bridge Course) کا تصور سامنے آیا، یعنی ایک ایسا تربیتی و تعلیمی پروگرام جو دینی تعلیم اور عصری علوم کے درمیان رابطہ کا کام کرے۔
برج کورس کے بنیادی اہداف
- مدرسہ اور یونیورسٹی کے تعلیمی نظاموں کے درمیان فاصلہ کم کرنا۔
- فارغین مدارس کو عصری زبانوں (انگریزی، ہندی وغیرہ) میں مہارت دینا۔
- کمپیوٹر، ابلاغیات، اور سوشل میڈیا کے استعمال کی عملی تربیت فراہم کرنا۔
- فارغین کو اعلیٰ تعلیم (بی اے، بی یو ایم ایس، ایل ایل بی، ایم اے، پی ایچ ڈی) میں داخلے کے قابل بنانا۔
- پیشہ ورانہ میدان میں داخل ہونے کے لیے اعتماد اور فکری وسعت پیدا کرنا۔
علمی و فکری فوائد
- علمی وسعت: برج کورس فارغین کو جدید علوم جیسے سوشیالوجی، پولیٹیکل سائنس، اکنامکس، اور تاریخ سے روشناس کراتا ہے، جس سے اُن کی سوچ محدود نہیں رہتی بلکہ ہمہ گیر بنتی ہے۔
- تحقیقی شعور: تحقیق کے اصول، ریفرنس لکھنے کا طریقہ، اور جدید علمی اصطلاحات کی سمجھ پیدا ہوتی ہے، جو آگے چل کر یونیورسٹی یا ریسرچ کیریئر میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے۔
- زبان و بیان کی بہتری: انگریزی، ہندی اور اردو تحریر و تقریر دونوں میں بہتری آتی ہے، جس سے طلبہ علمی و صحافتی دنیا میں اعتماد کے ساتھ اظہار کر سکتے ہیں۔
معاشی و پیشہ ورانہ فوائد
- روزگار کے نئے مواقع: برج کورس مکمل کرنے والے طلبہ مختلف پیشوں میں جا سکتے ہیں، جیسے:
- قانون و وکالت
- ترجمہ و تحقیق (خاص کر فارن لینگویجز فرنچ، اسپانوی، چائنیز وغیرہ میں)
- میڈیا، صحافت، اور تدریس
- این جی اوز اور سماجی ادارے
- بین الاقوامی اداروں میں مذہبی و ثقافتی مشیر بن سکتے ہیں۔
- اے آئی (AI) یا مصنوعی ذہانت نے بھی بہت سے مواقع پیدا کر دیے ہیں، ان سے استفادہ کی ضرورت ہے۔
- خود روزگاری کا رجحان: فارغین کو فری لانسنگ، آن لائن تدریس، اور تحریری و تحقیقی کاموں کے ذریعے خود کفیل بننے کا موقع ملتا ہے۔
- اعتماد اور پیشکش کی صلاحیت: کورس کے دوران سیمینارز، پریزنٹیشنز اور مکالماتی سیشنز طلبہ میں اعتماد، قیادت، اور پبلک اسپیکنگ کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔
سماجی و فکری انضمام
- بین المذاہب و بین الثقافتی مکالمہ: برج کورس طلبہ کو مختلف معاشرتی اور فکری گروہوں کے ساتھ مکالمہ کرنے کی تربیت دیتا ہے تاکہ وہ تعصب سے بالاتر ہو کر مؤثر انداز میں اسلام کا پیغام پیش کر سکیں۔
- قوم و ملت کی رہنمائی: فارغینِ مدارس میں جدید دنیا کے مسائل جیسے معیشت، سیاست، ماحولیاتی بحران، اور سماجیات کے بارے میں شعور بیدار کیا جاتا ہے تاکہ وہ صرف مساجد کے نہیں بلکہ معاشرت کے بھی رہنما بن سکیں۔
- تعلیمی نظام میں شمولیت: برج کورس کے بعد فارغین آسانی سے اوپن یونیورسٹیوں یا عام یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکتے ہیں (جیسے IGNOU، Jamia Millia Islamia، AMU، مولانا آزاد قومی اردو یونیورسٹی وغیرہ)۔
مثالیں اور کامیاب ماڈلز
برج کورس کی سب سے بڑی مثال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے پیش کی جہاں یہ کورس سنہ 2013ء میں اس وقت کے وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ کی سرپرستی اور پروفیسر راشد شاز کی رہنمائی میں شروع ہوا تھا اور اب تک اس نے کوئی دس بیچ فارغ کر دیے ہیں۔ اور اس کے فارغین انگریزی، لا، سوشل سائنسز کے علاوہ فارن لینگویجز میں بھی گئے ہیں11۔
اس کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ (Jamia Millia Islamia) نے مدرسہ فارغ التحصیل طلبہ کے لیے "بیسک برج کورس" کا آغاز کیا، جس سے ہر سال سینکڑوں طلبہ یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں داخلہ لیتے ہیں۔ اور مولانا آزاد اردو قومی یونیورسٹی، حیدرآباد میں بھی ایسے کورسز کامیابی سے چل رہے ہیں جن میں ذریعۂ تعلیم بھی اردو ہے۔
مدرسہ فارغ التحصیل طلبہ کے لیے برج کورس دراصل ایک علمی و فکری انقلاب کا دروازہ ہے۔ یہ کورس اُنہیں ماضی کی روایتی فضا سے نکال کر جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ یوں وہ صرف عالمِ دین نہیں بلکہ فکر و سماجی ترقی و تعلیم کے جدید نمائندے بن کر ابھرتے ہیں جو امت کی فکری و معاشی تعمیر میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
فارغینِ مدرسہ کے لیے لائحہ عمل
یہ جتنی معروضات پیش کی گئی ہیں ان کا انطباق کیسے ہو گا یہ ایک نہایت اہم اور دور اندیشانہ سوال ہے۔ کیونکہ آج کے دور میں مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ (Madrasa Passouts) امتِ مسلمہ ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک قیمتی سرمایہ بن سکتے ہیں، اگر اُن کی صلاحیتوں کو صحیح سمت میں ترقی دی جائے۔ ذیل میں ایک جامع، عملی اور دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق تفصیلی خاکہ پیش کیا جا رہا ہے۔
اپنی شناخت کو مسجد سے آگے بڑھانا
مدارس کا بنیادی مقصد علما، خطبا اور ائمہ، دین کے معلم اور مدرس تیار کرنا تھا، جو آج بھی نہایت اہم ہے۔ لیکن آج کے زمانے میں فارغین مدارس کو اپنی خدمت کے دائرے کو وسعت دینی چاہیے:
- روحانی و اخلاقی مشیر (Counsellor) بن کر نوجوان نسل کو ذہنی و اخلاقی راہنمائی دیں۔ آج عملاً بہت سے علماء اپنے یوٹیوب چینلوں کے ذریعہ یہ کام کر رہے ہیں خاص طور پر مغربی معاشروں میں۔ جبکہ برصغیر کے علماء یوٹیوبرز کے مضامین اور مواد بہت تنگ نظری اور محدود افق لیے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ زیادہ تر فروعی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔ اگر ان کی اپروچ امتی ہو اور بین الاقوامی ہو تو اس سے وہ اپنے سماج اور معاشرہ کے لیے زیادہ مفید بن سکیں گے۔
- سماجی مصلح اور ثالث بن کر کمیونٹی کے جھگڑے انصاف سے حل کریں۔
- اخلاقی رہنما اور اثر انگیز شخصیت بن کر سوشل میڈیا پر دین کی خوبصورت تصویر پیش کریں۔
یعنی "میں صرف تفسیر پڑھاتا ہوں"، "میں صرف فقہ پڑھاتا ہوں" یا "صرف حدیث پڑھاتا ہوں" کے بجائے "میں تفسیر، حدیث یا فقہ کے ذریعے انسانیت کی خدمت کرتا ہوں" کا مطمحِ نظر اپنائیں۔
عصری علوم اور جدید مہارتوں کا حصول
دین کے ساتھ دنیا کی زبان بھی آنی چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ فارغین:
- عالمی زبانیں سیکھیں: انگلش، عربی (یعنی ماڈرن عربی)، ہندی یا فرنچ، جرمن، اسپانوی وغیرہ اور مقامی زبانیں بھی۔
- کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا بنیادی استعمال سیکھیں: تحقیق، تحریر، ڈیجیٹل کمیونیکیشن وغیرہ۔
- سوشیالوجی، سائیکالوجی اور ایجوکیشن جیسے مضامین کا مطالعہ کریں تاکہ انسان، اس کی نفسیات اور معاشرے کی سمجھ پیدا ہو۔
- پبلک اسپیکنگ اور کمیونیکیشن اسکلز سیکھیں تاکہ وہ مؤثر انداز میں پیغام پہنچا سکیں۔
ایک ایسا عالم جو نوجوانوں کے لیے ذہنی صحت یا تعلیم پر ورکشاپس کرے، وہی آج کا مؤثر داعی ہے۔
موجودہ دور میں برصغیر کے مسلمانوں نے درس نظامی اور ندوۃ العلماء یا سلفی مدارس کے منہاجِ درس کے پہلو بہ پہلو ایک اور تجربہ مختلف اوقات میں اور مختلف پیرایوں میں کیا۔ جو گرچہ بڑے چھوٹے پیمانے پر ہوا مگر اس کے نتائج حیرت انگیز طور پر بڑے مثبت نکلے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ ابتداء میں عصری تعلیم دینے کے بعد ذہین طلبہ و نوجوانوں کو دین کی اعلیٰ تعلیم دی جائے، عربی زبان کی بنیادی تعلیم اور قرآن و حدیث و فقہ وغیرہ کی تحقیقی تعلیم۔ اس میدان میں کہیں تو بعض اداروں اور جماعتوں نے یہ تجربہ کیا اور کہیں پر بعض طلبہ و نوجوان خود اپنے شوق سے اس تجربہ سے گذرے۔ اس تجربہ سے گذر کر جن لوگوں نے خدمتِ دین کو اپنا مطمح نظر بنایا وہ روایتی فارغینِ مدارس کے مقابلہ میں زیادہ کارگر ثابت ہوئے، اور عصر حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر انہوں نے کہیں زیادہ بہتر طور پر دین کی خدمت انجام دی ہے۔ اس تجربہ سے بڑے اچھے رجال کار پیدا ہوئے اور مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ اس میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ، ڈاکٹر عبدالحق انصاری، استاد جاوید احمد غامدی، مولانا طارق جمیل، ڈاکٹر ذاکر نائک، ڈاکٹر اسرار احمد، جناب خالد مسعود مرحوم و شہزاد سلیم غیر ہم کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں16۔
فکر و تحقیق کے میدان میں جدت
مدارس کو علم و تحقیق کے مراکز ہونا چاہیے، المیہ یہ ہے کہ ان کے اکثر فارغین اور طلبہ تقلیدِ جامد کے دائرے سے باہر نہیں نکل پاتے۔ ضرورت ہے کہ وہ:
- قدیم متون کو جدید تناظر میں سمجھیں۔
- بین المذاہب اور بین المسالک مکالمہ (Interfaith and Intra-faith) کا سلیقہ سیکھیں۔
- تحقیق و تحریر کے میدان میں آئیں۔ مضامین، بلاگز یا ویڈیوز کے ذریعے عصری مسائل (ماحولیاتی بحران، ڈیجیٹل اخلاقیات، انسانی حقوق وغیرہ) پر اسلامی زاویہ نظر پیش کریں۔
امت کو ایسے علماء کی ضرورت ہے جو "مسائلِ زمانہ" پر دینی بصیرت کے ساتھ بات کریں۔ آج کل مغرب میں ایسے بہت سے علماء اور یوٹیوبرز موجود ہیں جو اس بصیرت کے ساتھ اپنے سننے والوں کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر شیخ حمزہ یوسف، شیخ یاسر قاضی، جاوید احمد غامدی اور استاد نعمان علی خاں وغیرہ۔
سماجی خدمت اور عملی اصلاح
ایمان کا اصل مظہر خدمت ہے۔ مدرسہ فارغین ان کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں:
- غریب بچوں کے لیے مفت ٹیوشن یا خواندگی مراکز قائم کریں۔
- ماحولیاتی مہمات (درخت لگانا، صفائی مہم، پانی بچاؤ) کو دینی جذبے سے چلائیں۔
- فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر تعلیم، صحت، اور معاشی مدد کے منصوبے شروع کریں۔
- خواتین اور نوجوانوں کے لیے اخلاقی و تعلیمی آگاہی پروگرامز چلائیں۔
جب لوگ علماء کو سماج کی بھلائی کے لیے متحرک دیکھیں گے تو دین پر ان کا اعتماد بڑھے گا۔
عالمی فہم اور بین المذاہب ہم آہنگی
دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے، لہٰذا مفتیان و علماء اور نئے فارغین کو چاہیے کہ وہ:
- بین المذاہب مکالمے میں حصہ لیں اور اسلام کی امن و انصاف کی تعلیمات کو عام کریں۔
- دیگر مذاہب و نظریات کے لوگوں کے ساتھ انسانی بنیادوں پر تعاون کریں۔
- اسلامی اخلاقیات کو ایسی زبان میں پیش کریں جو عالمگیر ہو۔ جس میں محبت، انصاف، اور ماحولیات جیسے پہلو شامل ہوں۔
- اور عالمِ دین کو "اسلامی امن کا سفیر" بننا چاہیے، نہ کہ صرف مناظرے کا ماہر۔
معاشی خودمختاری اور کاروباری شعور
علماء کی خدمت کا دائرہ تبھی پھیل سکتا ہے جب وہ معاشی طور پر خودمختار ہوں۔ اس کے لیے:
- کاروبار اور انٹرپرینیورشپ کی بنیادی تعلیم حاصل کریں۔ بڑے مدارس اس کے لیے کچھ ماڈل قائم کر سکتے ہیں۔
- اسلامی مالیات (Islamic Finance) کے اصول سیکھ کر مائیکرو بزنسز کی راہ دکھائیں۔
- آن لائن تدریس، ترجمہ، تحریر یا مشاورت کے ذریعے آمدنی کے ذرائع پیدا کریں۔
- ڈیجیٹل پلیٹ فارمز (یوٹیوب، پوڈکاسٹ، بلاگ) کے ذریعے علمی و دعوتی خدمات انجام دیں۔
خودکفیل عالم زیادہ با اعتماد اور آزاد ہوتا ہے۔ اور مصنوعی ذہانت سے استفادہ کے ذریعہ آج کے علماء خودکفیل بن سکتے ہیں۔
سیرتِ نبوی سے عملی رہنمائی
نبی اکرم ﷺ صرف مذہبی رہنما نہیں بلکہ معلم، مصلح، سیاستدان، تاجر، اور انسان دوست بھی تھے17۔ فارغینِ مدارس کو چاہیے کہ اسی ہمہ گیر سیرت کو اپنا ماڈل بنائیں۔
عملی منصوبے جنہیں مدارس کے فارغین شروع کر سکتے ہیں
- کمیونٹی اسٹڈی سرکلز : نوجوانوں کے لیے دین و عصری علوم پر گفتگو۔
- سائنس و ایمان فورمز : قرآن و سائنس کے ربط پر مباحثے۔
- ڈیجیٹل دعوتی پلیٹ فارم: شارٹ ویڈیوز، پوڈکاسٹس، بلاگز۔
- اسلامی اخلاقیات پر سیمینارز: ٹیکنالوجی، انسانی حقوق، ماحولیات جیسے موضوعات پر۔
- انسانی فلاح کے منصوبے: تعلیم، صحت یا قدرتی آفات کے موقع پر امدادی سرگرمیاں۔
ذہنیت کی تبدیلی — "فارغ التحصیل" سے "تبدیلی لانے والا"
سب سے بڑی تبدیلی سوچ میں لانے کی ضرورت ہے: "میں نے تعلیم مکمل کر لی" کے بجائے "میں معاشرے میں علم و اخلاق سے انقلاب لانے جا رہا ہوں" کا شعور پیدا ہو۔
اکیسویں صدی کا مثالی عالم
ایسا عالمِ دین جو: قرآن و سنت کا عمیق فہم رکھتا ہو۔ دنیا اور زمانے کی نبض پہچانتا ہو۔ مصنوعی ذہانت اور کمیونیکیشن ٹولز کی جانکاری رکھتا ہو۔ نرمی، محبت، اور بصیرت سے بات کرتا ہو۔ عدل و خیر کے لیے کام کرتا ہو۔ اپنی زندگی سے دوسروں کو امید دیتا ہو۔ فرقہ وارانہ اور محدود سوچ سے اوپراٹھ گیا ہو۔
خلاصہ
مدرسہ کے فارغین کے معاشی مسائل کا حل محض نوکری یا مالی امداد سے نہیں نکل سکتا، بلکہ اس کے لیے خود اہلِ مدارس کو سوچ کے ایک نئے زاویے سے کام لینا ہو گا۔ آج کے زمانے میں معیشت تیزی سے بدل رہی ہے۔ ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل اکانومی، اسٹارٹ اَپس، فری لانسنگ، اور سماجی کاروبار جیسے نئے میدان سامنے آ چکے ہیں۔ اگر مدرسہ کے فارغین اپنی علمی اور فکری قوت کو ان جدید میدانوں سے جوڑ لیں تو وہ نہ صرف اپنے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کر سکتے ہیں بلکہ امت کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔
اہلِ مدارس کو چاہیے کہ وہ محض روایتی تدریسی یا خطابت کے دائرے میں محدود نہ رہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اختراع (Innovation) کا راستہ اختیار کریں یعنی اپنے علمِ دین کو عصرِ حاضر کی ضروریات کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کریں۔ مثال کے طور پر اسلامی تعلیمات پر مبنی جدید آن لائن پلیٹ فارم بنائے جائیں جو نوجوان نسل کو دین سے جوڑیں۔ اسلامی فنانس، حلال بزنس، اور ایتھیکل انویسٹمنٹ جیسے موضوعات پر ریسرچ سینٹرز قائم کریں۔
نئے فارغین اکیسویں صدی کے مثالی عالم بننے کی کوشش کریں۔ فارغینِ مدارس نبی ﷺ کی ہمہ گیر سیرت کو اپنا ماڈل بنائیں۔ وہ خود کفیل عالم اور یوں با اعتماد اور آزاد ہونے کی کوشش کریں۔ دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے۔
نئے فارغین کو چاہیے کہ وہ بین المذاہب مکالمے میں حصہ لیں اور اسلام کی امن و انصاف کی تعلیمات کو عام کریں۔ نیز دیگر مذاہب و نظریات کے لوگوں کے ساتھ انسانی بنیادوں پر تعاون کریں۔
وہ عالمی زبانیں سیکھیں: انگلش، عربی (ماڈرن عربی)، ہندی یا فرنچ، جرمن، اسپانوی وغیرہ اور مقامی زبانیں بھی۔ وہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا بنیادی استعمال سیکھیں: تحقیق، تحریر، ڈیجیٹل کمیونیکیشن، مصنوعی ذہانت سے کام لینا وغیرہ۔ اسی طرح سوشیالوجی، سائیکالوجی اور ایجوکیشن جیسے مضامین کا مطالعہ کریں تاکہ انسان اور معاشرے کی سمجھ پیدا ہو۔ انہیں یہ احساس پیدا کرنا ہو گا کہ خدمتِ دین صرف مدرسے یا مسجد میں نہیں، بلکہ میڈیا، علمی و تحقیقی اور سماجی میدانوں میں بھی ممکن ہے۔
حواشی
- وارث مظہری ، مدارس کا آغاز و ارتقا اور ان کی معنویت مشمولہ جے ایس راجپوت ، ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم (Education of Indian Muslims) (ترجمہ غطریف شہباز ندوی شایع شدہ قومی کونسل ) ص 149
- مظفر عالم ، جدید دور میں مدرسوں کی معنویت ایضاً مشمولہ جے ایس راجپوت ، ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم، (Education of Indian Muslims) صفحہ 187
- ملاحظہ ہو محبوب رضوی ، تاریخ دارالعلوم دیوبند شایع کردہ المیزان لاہور اشاعت 2005ء
- مولانا اشرف علی تھانوی کی خدمات کے لیے دیکھیں: عبدالماجد دریابادی ، حکیم الامت نقوش و تاثرات ایم شمس الدین تاجرانِ کتب مسلم مسجد لاہور
- مولانا ابوالکلام آزاد کی خدمات کے لیے دیکھیے: غطریف شہباز ندوی ، عالم اسلام کے مشاہیر شایع کردہ فاؤنڈیشن فار اسلامک اسٹڈیز نئی دہلی طبع مارچ 2014 ص 276
- وارث مظہری ؛ مدارس کا آغاز و ارتقا اور ان کی معنویت مشمولہ جے ایس راجپوت، ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم صفحہ 175-174
- دیکھیے غطریف شہباز ندوی، سر سید کے تعلیمی و تہذیبی افکار شایع شدہ فاؤنڈیشن فار اسلامک اسٹڈیز نئی دہلی اشاعت 2023
- تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو شاہ عمران حسن ، اوراق حیات (مولانا وحید الدین خان کی تحریروں پر مشتمل سوانح حیات) رہبر سروس نئی دہلی ۔
- دیکھیے محبوب رضوی ، تاریخ دارالعلوم دیوبند، المیزان لاہور ص ۱۸۸
- تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: Could Darul Huda Islamic University be a model for other big Madrasas in India? https://muslimmirror.com/could-darul-huda-islamic-university-be-a-model-for-other-big-madrasas-in-india/
- اس کی مفصل رپورٹ کے لیے دیکھیے : دستک، مرتب غطریف شہباز ندوی شایع کردہ مرکز فروغ تعلیم و ثقافت مسلمانان ہند علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)
- Ismail Raji al-Faruqi, Islam and Other Faiths (Islamic Foundation, 1998).
- محمد ارشد، ہندوستان میں صوفی خانقاہیں اور جدید تعلیم، مشمولہ جے ایس راجپوت، (Education of Indian Muslims ) ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم، ترجمہ غطریف شہباز ندوی شایع شدہ قومی کونسل ص 397)
- بین المذاہب اور بین المسالک مذاکرات کا موضوع آج نہ صرف علمی سطح پر دنیا بھر میں پڑھا پڑھایا جاتا ہے اور یونیورسٹیوں میں اس پر کورس کیے جاتے ہیں بلکہ عملی سطح پر بھی مختلف الخیال انسانوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں اس کا بڑا رول ہے۔
- ملاحظہ ہو راقم کا مقالہ ، اسلامی تہذیب مذاکرات کی داعی ہے ۔ مطالعات ، انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز نئی دہلی جلد ششم (مشترکہ شمارہ بر ہند اسلامی تہذیب و ثقافت ص 75 )
- ملاحظہ ہو اشراق اردو امریکہ شمارہ ستمبر 2025
- دیکھیے سیرت کی کتابیں، خاص کر غطریف شہباز ندوی، محمد ﷺ سب کے لیے (انگریزی کتاب : Follow Me God Will Love You: by Hamid Muhsin کا اردو ترجمہ شایع کردہ مکتبہ قاسم العلوم اردو بازار لاہور پاکستان)

