جغرافیائی سیاست کی پیچیدگیاں
کیا آپ کو پتہ ہے کہ دنیا میں پچھلے پانچ سال میں ایک ایسی جنگ ہو چکی ہے جس میں پاکستان نے اور اسرائیل نے مل کر لڑا ہے۔ ہے نا حیرانگی کی بات! کیا کہانی ہے؟ آئیے سمجھتے ہیں۔
اگر آپ روسی ریاستوں کی طرف دیکھیں گے تو آپ کو آرمینیا کی ریاست نظر آئے گی۔ اور آرمینیا کا اگلا ہمسایہ ہے آذربائیجان۔ ان دونوں کے درمیان ایک خاص علاقے کے حوالے سے بہت زیادہ کشیدگی پائی جاتی ہے، جس کا نام ہے نوگورنوکاراباخ (Nagorno-Karabakh)۔ آذربائیجان میں موجود اس علاقے پر آرمینیا اکثر حملے کرتا رہتا ہے۔ 2020ء میں آذربائیجان اور آرمینیا کے بیچ میں ایک جنگ چھڑی جس میں آذربائیجان کی مدد پاکستان، ترکی اور اسرائیل نے کی۔ انہوں نے مل کر مدد بھی کی، فنڈنگ بھی دی، ہتھیار بھی دیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آذربائیجان یہ جنگ آرمینیا کے خلاف جیت چکا ہے۔
اب یہاں پر ایک سوال بنتا ہے کہ پاکستان کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ پاکستان بھائی چارے میں مدد کر رہا ہے، لیکن اسرائیل کو کیا ضرورت تھی آذربائیجان کے مسلمانوں کی مدد کرنے کی؟ تو اس کی چند وجوہات ہیں انہیں سمجھ لیجیے:
- اسرائیل اپنے تیل کی ضرورت کو بہت حد تک آذربائیجان سے پورا کرتا ہے۔
- آذربائیجان باقاعدہ طور پر اسرائیل سے جنگی طیارے، جنگی ہتیھار، فوجی سازوسامان خریدتا رہتا ہے۔
- تیس ہزار یہودی آج بھی آذربائیجان میں آباد ہیں۔
- آذربائیجان کی سرحد ایران کے ساتھ ملتی ہے، یعنی اسرائیل کو جب ضرورت ہو تو اس کو جاسوسی نیٹ ورک قائم کرنے کے لیے ایران کے خلاف مدد بھی مل سکتی ہے۔
پاکستان اور اسرائیل نے آذربائیجان کی مدد بے شک کی ہے، لیکن آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ دونوں اتحادی تھے۔ اس لیے اس غلط فہمی کو دور کر لیں کہ دونوں ایک طرف تھے یا اتحادی تھے۔ انہوں نے آذربائیجان کو اپنے اپنے نقطۂ نظر سے مدد فراہم کی۔
یہاں پر ایک سوال بنتا ہے کہ آرمینیا کی سائیڈ پر کون تھا؟ آرمینیا کی کھل کر مدد کی ہے انڈیا نے۔ انڈیا نے فوجی سازوسامان بھی دیا ہے اور آرمینیا کی فنڈنگ بھی کی ہے، لیکن انڈیا کو کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوا۔ 2020ء کی لڑائی میں، 2023ء میں، اور حتیٰ کہ 2025ء کی پاکستان انڈیا جنگ میں، جس میں آذربائیجان نے پاکستان کی مدد کی ہے، اور آرمینیا نے سپورٹ دی ہے انڈیا کو۔ اب آپ کو سمجھ میں آ رہا ہے کہ یہ جغرافیائی سیاست کتنی پیچیدہ ہے کہ
- پاکستان اور انڈیا آپس میں دشمن ہیں، پاکستان کی مدد کرتے ہیں ترکی اور آذربائیجان۔
- آذربائیجان دشمن ہے آرمینیا کا، آرمینیا کی مدد کرتا ہے انڈیا۔
- انڈیا دوست ہے اسرائیل کا، اور اسرائیل مدد کرتا ہے آذربائیجان کی۔
یہ اس قدر پیچیدہ ہے، لیکن یہاں پر آپ کو ایک محاورہ ضرور سمجھ میں آ گیا ہو گا جو کہ اردو کا ایک معروف محاورہ ہے کہ ’’دشمن کا دشمن ہمیشہ دوست ہوتا ہے‘‘۔
www.youtube.com/shorts/nB086vihnfM
وہ شخص جس نے مغرب کا تفاخر توڑ ڈالا
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آج امتِ مسلمہ اتنی دبی ہوئی ہے کہ ہم غزہ کے مسلمانوں کے لیے آواز تک نہیں اٹھا پاتے۔ کیا کبھی تاریخ میں ہم اس قابل رہے ہیں کہ ہم نے مغرب کو جواب دیا ہو؟ اور کیا کبھی اس قابل ہوں گے کہ ہم ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں؟
اگر آپ نے یہ بات سمجھنی ہے تو آپ کو تھوڑا سا تاریخ میں جانا پڑے گا اور یہ سمجھنا پڑے گا کہ مسلمانوں کی تاریخ میں پچھلے ساٹھ سال میں ایک ایسا لیڈر آ چکا ہے کہ جس نے مغرب کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، اسرائیل کی سفاکیت پر کھل کر بات کی، اور مسلم دنیا کا بینک بنانے کو سپورٹ کیا۔ آج اسلام آباد کی فیصل مسجد تو ہمیں یاد ہے لیکن آج ہم سعودی عرب کے شاہ فیصل کو بھول گئے ہیں، اور شاہ فیصل کے Oil Embargo (تیل کی پابندی) کو بھی بھول گئے ہیں۔ کہانی کیا ہے، آئیے سمجھتے ہیں۔
یہ کہانی شروع ہوتی ہے 1967ء میں جب اسرائیل نے عرب کے ساتھ ’’چھ دن کی جنگ‘‘ لڑی۔ اور جنگ میں اسرائیل نے (۱) مصر سے صحرائے سینا، (۲) شام سے گولان پہاڑیاں، (۳) اور اردن سے مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم چھین لیا۔ بات اقوام متحدہ میں گئی، جس نے اسرائیل کو مجبور کیا علاقے واپس کرنے کے لیے، لیکن اسرائیل نے بات ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ اس کو امریکہ کی آشیرباد حاصل تھی۔
عرب لیڈرز میں غصہ بھرا پڑا تھا، تو پھر 1973ء میں شام اور مصر نے اسرائیل پر حملہ کر دیا اور یوں ’’یوم کپور جنگ‘‘ شروع ہو گئی۔ اس جنگ میں اسرائیل کی مدد امریکہ، مغربی جرمنی، پرتگال، برطانیہ، فرانس اور ایران نے بھی کی۔ ایران تب شاہِ ایران کے کنٹرول میں تھا۔ شاہ فیصل نے کھل کر مصر اور شام کی مدد کی، اور تیل کی پابندی لگا دی، جس کا مطلب تھا کہ امریکہ اور مغربی ممالک کو کوئی تیل نہیں بیچا جائے گا۔ اور یہ طاقت کا ایک ٹھوس مظاہرہ تھا، کیونکہ کسی بھی ملک کے پاس ایک مخصوص مقدار میں تیل کا ذخیرہ ہوتا ہے، تو تیل کی پابندی کا اثر یہ ہوا کہ امریکہ کی معیشت دیوالیہ ہونے پر آ گئی، مہنگائی بڑھ گئی، فیول اسٹیشن بند ہو گئے، اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی، اور 3 ڈالرز کا بیرل 12 ڈالرز پر جا پہنچا۔
اس تیل کی پابندی سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی رستہ نہیں ہے، کوئی آپشن موجود نہیں ہے، تب ہم جذباتیت سے سوچ رہے ہوتے ہیں، لیکن جس لمحے ہم جذباتیت سے سوچنا بند کرتے ہیں اور منطقی انداز سے سوچنا شروع کرتے ہیں تب مزید آپشنز نکلتے ہیں، اپنی بات پہنچانے کے لیے بھی، ظلم کو روکنے کے لیے بھی، اور اپنی آواز اٹھانے کے لیے بھی۔ آج ہماری جتنی نوجوان نسل ہے، اس سے تیل کی پابندی جیسی یہ کہانیاں چھپائی جاتی ہیں، اس کو یہ سارا سچ نہیں بتایا جاتا کہ ان کو نہ پتہ چلے کہ کیا کیا آپشنز آج آپ کے پاس موجود ہیں۔ اگر مسلمان ایک ہو جائیں تو آج اتنی بڑی طاقت بن سکتے ہیں کہ پوری دنیا کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔ اس لیے اقبال نے کہا تھا ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
www.youtube.com/shorts/7rLF3xpWVFc
وہ باتیں جو اسرائیل چھپا رہا ہے
اسرائیل اگر فلسطین کا اتنا ہی دشمن ہے تو فلسطین پر اتنا حملہ کیوں نہیں کرتا جتنا حملہ وہ غزہ پر کرتا ہے۔ غزہ بھی فلسطین کا حصہ ہے لیکن فلسطین سے تھوڑا سا دور (مرکزی فلسطین سے غیر منسلک) ہے۔ تو اسرائیل غزہ پر ہی کیوں، اور شمالی غزہ پر ہی خاص طور پر اتنا حملہ کیوں کرتا ہے؟ یہی سوال ہے نا، آئیے سمجھتے ہیں۔
کہانی شروع ہوتی ہے 1956ء میں کہ جب مصر کے اس وقت کے صدر جمال عبدالناصر نے نہر سوئز کو نیشنلائز کر لیا۔ نہر سوئز عالمی تجارت کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ بحیرۂ روم کو بحیرۂ احمر سے ملاتی ہے۔ دنیا میں تجارت نہر سوئز کے بغیر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ سے تیل اور تجارتی سامان لے کر پوری دنیا کا چکر لگانا پڑے گا۔ کیپ آف گُڈ ہوپ (جنوبی افریقہ) سے گزرنا پڑے گا۔ لاگت زیادہ آئے گی، وقت زیادہ صَرف ہو گا، تجارت نہیں ہو پائے گی۔ یہی چیز نہر سوئز ممکن بناتی ہے اور عالمی تجارت کا 12 فیصد نہر سوئز سے گزرتا ہے۔ اور مصر اپنی معیشت میں سالانہ 9 ارب ڈالرز کی آمدنی صرف نہر سوئز سے کماتا ہے۔
1948ء سے لے کر 1950ء تک مصر نے اسرائیل کے جہازوں کو گزرنے نہیں دیا اور اسرائیل کی تجارت کو مشکل بنا دیا۔ 1960ء کی دہائی میں پھر آٹھ سال کے لیے نہر سوئز کو بند کر دیا، پھر اسرائیل کے لیے مصیبت کھڑی کر دی۔ اگر نہر سوئز سے اسرائیل کا راستہ روک دیں تو اس کی تجارت رک جاتی ہے اور راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے۔
1960ء کی دہائی میں اسرائیل نے اپنی نہر ’’بین گورئین کینال‘‘ بنانے کا خواب دیکھا۔ (بحریۂ احمر کو اسرائیل کے اندر سے گزر کر بحیرۂ روم سے ملانے کے لیے) اس نہر کا گھومتا ہوا نقشہ ہے۔ اس نقشہ پر اگر یہ نہر بنے تو فلسطین کی آبادی کو متاثر کیے بغیر بنائی جا سکتی ہے لیکن اس پر اربوں ڈالرز کی لاگت آئے گی اور تقریباً 300 کلومیٹر لمبی نہر بنے گی۔ چنانچہ اسرائیل نے اپنا خرچہ اور وقت بچانے کے لیے ایک نیا ڈیزائن بنایا کہ اس نہر کو سیدھا بناتے ہیں اور غزہ کی پٹی سے گزار کر سمندر میں پہنچاتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب تو یہ ہے کہ غزہ کے لوگوں کو وہاں سے نکالنا پڑے گا، شمالی غزہ پر بمباریاں کرنی پڑیں گی، نسل کشی کرنی پڑے گی، معصوموں کا قتل کرنا پڑے گا۔ اور اسرائیل اسی پر تلا بیٹھا ہے۔
کچھ لوگ شاید یہ بات نہ جانتے ہوں کہ اسی طرح کی ایک اور نہر ’’پاناما کینال‘‘ ہے جس پر اس سال کے آغاز میں بلیک راک نے قبضہ کر لیا ہے۔ پاناما کینال سے عالمی تجارت کا 5 فیصد گزرتا ہے، جبکہ سوئز کینال سے عالمی تجارت کا 12 فیصد گزرتا ہے، یوں سمجھ لیں کہ یہ دو نہریں یہود کے ہاتھ میں آ گئیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی 17 فیصد تجارت پر ان کا قبضہ ہو جائے گا۔
یہ سب باتیں میں آپ کو اس لیے بتا رہا ہوں کہ جب کبھی یہ مہم چلے گی اور آپ کے ملک میں اسرائیل کو ماننے کی آوازیں تیز ہو جائیں گی، میں آپ کو پکا کر رہا ہوں کہ تب آپ نے اپنی آواز اٹھانی ہے کہ اس جابر کو، اس ظالم کو، اس فاسق کو ہم نہیں مانتے۔