صحابہ کرام کی جس بڑی جماعت سے کتابتِ وحی کا کام لیا گیا تھا، علامہ عراقی اور علامہ محمد عبد الحی الکتانی نے ان کی تعداد بیالیس لکھی ہے، چنانچہ ’’التراتیب الإداریۃ‘‘ میں مذکور ہے:
وکتابہ اثنان وأربعون۔(1)
ترجمہ:- اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین (لکھنے والے) بیالیس ہیں۔
اور علامہ الکتانی کی کتاب ’’التراتیب الإداریۃ‘‘ میں ان بیالیس کاتبوں کے نام بھی درج ہیں۔ جبکہ ’’المصباح المضیء فی کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ میں دو شخصیتوں کے اضافہ کے ساتھ چوالیس مذکور ہیں۔
چنانچہ ’’المصباح المضیء فی کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کی ترتیب کے مطابق ان حضرات کا مختصر سوانحی خاکہ (اسی مأخذ (2) سے) درج ذیل ہے۔
ا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
زمانۂ جاہلیت میں آپ (رضی اللہ عنہ) کا نام ’’عبد الکعبۃ‘‘ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام تبدیل کر کے ’’عبد اللہ بن ابی قحافہ‘‘ رکھا، آپ مَردوں میں سب سے پہلے اسلام لائے، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ سے مدینہ ہجرت کی اور غارِ ثور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے۔ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد خلیفہ بنے، اور آپ وہ واحد خلیفہ ہیں جنہیں ’’خلیفۃ الرسول‘‘ کا لقب ملا، آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اڑھائی سال زندہ رہے، تریسٹھ (۶۳) برس عمر پائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔
۲۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
آپ (رضی اللہ عنہ) کا نام عمر بن خطاب بن نفیل ہے، ’’ابو حفص‘‘ آپ کی کنیت ہے، آپ قریش کے سرداروں میں سے تھے اور چالیسویں نمبر پر ایمان لائے، آپ کے اسلام لانے کے بعد اسلام کو قوت ملی اور مسلمانوں نے کھل کر عبادت کرنی شروع کی، حضرت ابوبکر صدیق کے اس دارِ فانی سے رخصت ہونے کے بعد آپ مسلمانوں کے خلیفہ بنے، آپ کی خلافت دس سال اور چھ ماہ تک رہی، آپ نے بھی تریسٹھ (۶۳) سال کی عمر پائی اور آپ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے میں آرام فرما ہیں۔
۳۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ
آپ کا نام عثمان بن عفان بن ابی العاص ہے، آپ قدیم الاسلام ہیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت پر اسلام لائے، آپ نے دو ہجرتیں کیں، ایک حبشہ کی طرف اور دوسری مدینہ منورہ کی طرف، آپ کے نکاح میں یکے بعد دیگرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو لختِ جگر آئیں: (۱) حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا (۲) حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا۔ اسی وجہ سے انہیں ’’ذوالنورین‘‘ کہا جاتا ہے، اور آپ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین میں سے تھے، آپ کا شمار مالدار صحابہ کرام میں سے ہوتا ہے اور آپ نے اپنے مال کے ذریعے اسلام کی بے مثال خدمت کی۔ آپ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے تین دن بعد مسلمانوں کے خلیفہ نامزد ہوئے اور دس دن کم بارہ سال آپ کی خلافت رہی، آپ کو جمعہ کے دن مدینہ منورہ میں شہید کیا گیا اور آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
۴۔ حضرت علی بن اَبی طالب رضی اللہ عنہ
آپ کا نام علی بن اَبی طالب ہے اور کنیت ’’ابو الحسن‘‘ اور ’’ابو تراب‘‘ ہے، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی اور داماد ہیں، آپ بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے ہیں، حدیبیہ کے موقع پر صلح کا معاہدہ تحریر کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کو حکم فرمایا، چنانچہ مسند احمد کی روایت ہے:
عن عبد اللہ بن مغفل المزنی، قال: کنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالحدیبیۃ فی أصل الشجرۃ التی قال اللہ تعالی: فی القرآن، وکان یقع من أغصان تلک الشجرۃ علی ظہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و علی بن أبی طالب و سہیل بن عمرو بین یدیہ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعلی رضی اللہ عنہ: ’’اکتب بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ فأخذ سہیل بن عمرو بیدہ، فقال: ما نعرف الرحمٰن الرحیم، اکتب فی قضیتنا ما نعرف، قال: ’’اکتب باسمک اللہم‘‘ … الخ) (3)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں اس درخت کی جڑ میں تھے، جس کا (تذکرہ) اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا ہے، اس درخت کی کچھ ٹہنیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک سے لگ رہی تھیں، اور حضرت علیؓ بن ابی طالب اور سہیل بن عمرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا: لکھو! بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ تو سہیل بن عمرو نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا، پھر کہا: ہم رحمٰن اور رحیم کو نہیں جانتے، ہمارے معاملے میں وہی لکھو جو ہم جانتے ہیں، لکھو! باسمک اللہم (آپ کے نام سے اے اللہ!) …… الخ۔
۵۔ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ
آپ کا نام اُبی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی کنیت ’’ابو منذر‘‘ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ کی کنیت ’’ابو الطفیل‘‘ رکھی، آپ فقہاء صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ قرآن پاک جاننے والے ہیں، آپ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
۶۔ حضرت اَبان بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ
آپ کا نام اَبان ہے اور آپ اپنے دو بھائیوں حضرت خالد رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کے بعد اسلام لائے، جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حدیبیہ کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مشرکین کے ساتھ بات کرنے کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو حضرت اَبان رضی اللہ عنہ نے ہی ان کو پناہ دی تھی۔ آپ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں وفات پائی۔
۷۔ حضرت اَرقم بن اَبی اَرقم رضی اللہ عنہ
آپ قدیم الاسلام ہیں، اور مہاجرین اوّلین میں سے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر مسلمان ابتدائے اسلام میں انہیں کے مکان میں جمع ہو کر پوشیدہ طور پر تعلیم و تعلّم اور عبادت کیا کرتے تھے اور انہیں کے مکان میں لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیتے تھے، یہاں تک کہ چالیس آدمی ان کے گھر میں اسلام لائے اور ان میں سب سے آخر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے، آپ ۵۵ھ میں مدینہ منورہ میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
۸۔ حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ
آپ کا نام بریدۃ بن حصیب بن عبد اللہ ہے، آپ کی کنیت ’’ابو عبد اللہ‘‘، ’’ابو سہل‘‘، ’’ابو حصیب‘‘ اور ’’ابو ساسان‘‘ روایات میں آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے موقع پر آپ اسلام لائے، آپ کے صاحبزادے عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میرے والد مقامِ مرو پر اس دارِفانی سے رخصت ہوئے۔
۹۔ حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ
حضرت ثابت رضی اللہ عنہ انصاری صحابی ہیں، اور آپ انصار کے خطیب تھے، آپ اُحد میں شریک ہوئے، اور اس کے بعد کئی غزوات اور معرکوں میں شرکت کی، آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں یمامہ کے دن شہید ہوئے۔
۱۰۔ حضرت جہیم بن صلت رضی اللہ عنہ
آپ کا نام جہیم بن صلت بن مخرمۃ ابن المطلب بن عبد مناف ہے، آپ خیبر کے دن اسلام لائے۔
۱۱۔ حضرت حنظلہ بن ربیع رضی اللہ عنہ
آپ (رضی اللہ عنہ) کا نام حنظلہ بن ربیع بن صیفی ہے، آپ (رضی اللہ عنہ) کا تعلق بنو تمیم سے تھا۔
۱۲۔ حضرت حویطب بن عبد العزیٰ رضی اللہ عنہ
آپ کا نام حویطب بن عبد العزیٰ ابن اَبی قیس ہے، آپ فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے اور مؤلفہ قلوب میں سے تھے، آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تدفین میں شامل تھے، آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے آخری دنوں میں مدینہ منورہ میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
۱۳۔ حضرت حاطب بن عمرو رضی اللہ عنہ
آپ کا نام حاطب بن عمرو بن عبد شمس ہے، آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دارِ اَرقم میں تشریف آوری سے پہلے اسلام لے آئے تھے اور آپ نے حبشہ کی طرف دو ہجرتیں کیں اور آپ حبشہ ہجرت کر کے آنے والوں میں سب سے پہلے شخص ہیں۔
۱۴۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کبار صحابہ کرام میں سے ہیں، آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز دان تھے، آپ کو ہی خندق کے دن قریش کی طرف، خفیہ طور پر بھیجا گیا تھا، آپ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی ایام میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
۱۵۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ
آپ کا نام خالد بن زید بن کلیب بن ثعلبہ ہے، آپ کی کنیت ’’ابو ایوب‘‘ ہے جو آپ کے نام پر غالب آگئی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے ہاں ہی ٹھہرے تھے، آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں قسطنطنیہ میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
۱۶۔ حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ
آپ کا نام خالد بن سعید بن العاص بن امیہ بن عبد شمس ہے اور آپ کی کنیت ’’ابو سعید‘‘ ہے، آپ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد ایمان لائے اور آپ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کتابت کا فریضہ سرانجام دیا، آپ، قدیم الاسلام ہیں، آپ نے حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیبر میں آکر ملے، آپ، اجنادین کے مقام پر ہفتے کے دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات سے چوبیس (۲۴) دن پہلے شہید ہوئے۔
۱۷۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
آپ کا نام خالد بن ولید بن عبد اللہ بن عمر بن مخزومی القرشی ہے، آپ کی کنیت ’’ابو سلیمان‘‘ اور ’’ابو الولید‘‘ آتی ہے۔ آپ زمانۂ جاہلیت میں قریش کے سرداروں میں سے تھے، آپ، اسلام لانے کے بعد مسلسل جہاد میں شریک رہے، آپ کو ’’سیف اللہ‘‘ کا لقب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عنایت فرمایا، آپ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں مقامِ حمص پر اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔
۱۸۔ حضرت زید بن ثابت الانصاری رضی اللہ عنہ
آپ کا نام زید بن ثابت الانصاری النجاری بن الضحاک بن زید بن لوذان ہے، آپ کی کنیت ’’ابو سعید، ابو عبد الرحمٰن اور ابو خارجۃ‘‘ آتی ہے، آپ فقہائے صحابہ میں سے تھے، آپ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جمع قرآن کا حکم دیا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب لوگوں کا قراآت میں اختلاف ہوا، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ امت کو ایک مصحف پر جمع کیا جائے، تو یہ ذمہ داری بھی حضرت زید رضی اللہ عنہ کے سپرد کی گئی اور آپ نے یہ عظیم خدمت سر انجام دی، آپ نے ۴۵ھ میں اس دارِ فانی کو الوداع کہا۔
۱۹۔ حضرت زبیر بن عوّام رضی اللہ عنہ
آپ کا نام زبیر بن عوّام بن خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی القرشی الاسدی ہے، آپ کی کنیت ’’ابو عبد اللہ‘‘ ہے، آپ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آٹھ سال کی عمر میں ایمان لائے، آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔
۲۰۔ حضرت جہم بن سعد رضی اللہ عنہ
حضرت جہم بن سعد رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر بن العوّام رضی اللہ عنہ، اموالِ صدقہ لکھا کرتے تھے۔
۲۱۔ حضرت سعید بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ
آپ فتح مکہ سے قبل اسلام لائے اور یوم الطائف میں حاضر ہوئے، آپ، قریش کے فصیح اور سخی سرداروں میں سے ایک تھے، آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے مصحفِ عثمانی کی کتابت کے سلسلے میں خدمات سر انجام دیں۔ آپ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں وفات پائی۔
۲۲۔ حضرت السجل رضی اللہ عنہ
حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کاتب تھے جن کو ’’السجل‘‘ کہا جاتا تھا۔
۲۳۔ حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ
آپ کے والد کا نام عبداللہ بن المطاع بن عبد اللہ ہے اور آپ کی کنیت ’’ابو عبد الرحمٰن‘‘ ہے، آپ، حبشہ کے مہاجرین میں سے ہیں، آپ کا طاعون کے مرض میں وصال ہوا۔
۲۴۔ حضرت ابو سفیان صخر بن حرب رضی اللہ عنہ
آپ کا نام صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف القرشی ہے، آپ کی کنیت ’’ابوسفیان‘‘ ہے جو نام پر غالب آگئی ہے، آپ زمانۂ جاہلیت میں قریش کے سرداروں میں سے تھے اور تاجر تھے، آپ، فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین میں شامل ہوئے، آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اٹھاسی (۸۸) سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔
۲۵۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ
آپ کا نام طلحہ بن عبید اللہ بن عثمان بن عمرو ہے، آپ کی کنیت ’’ابو محمد‘‘ ہے، آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر سمیت کئی معرکوں میں شریک ہوئے اور احد میں آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی بے نظیر مثال قائم کی، آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھال بن کر دفاع کرتے رہے اور آنے والے تیروں کو اپنے ہاتھوں سے روکتے رہے حتیٰ کہ آپ کا ہاتھ مبارک شل ہو گیا اور موقع ملتے ہی آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پیٹھ پر اٹھا کر ایک چٹان پر چڑھ گئے اور وہاں ایک محفوظ جگہ پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منتقل کر دیا، آپ کی وفات جنگِ جمل میں، جنگ سے ایک طرف ہو جانے کے بعد ایک تیر پاؤں میں لگنے سے ہوئی، اس وقت آپ کی عمر ساٹھ (۶۰) سال تھی۔
۲۶۔ حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ
آپ کا نام عامر بن فہیرہ ہے، آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے، آپ کی کنیت ’’ابو عمر‘‘ ہے، آپ قدیم الاسلام ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دارارقم میں تشریف آوری سے پہلے ہی ایمان لے آئے تھے، آپ ہجرت کے چوتھے سال بئر معونہ کے موقع پر شہادت سے سرفراز ہوئے، اس وقت آپ کی عمر مبارک چالیس (۴۰) سال تھی۔
۲۷۔ حضرت عبد اللہ بن اَرقم رضی اللہ عنہ
آپ کا نام عبد اللہ بن اَرقم بن عبد یغوث بن وہب بن عبد مناف بن زہرہ ہے، آپ فتح مکہ والے سال ایمان لائے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے بھی آپ نے کتابت کی ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بیت المال پر عامل بنایا تھا۔
۲۸۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ
آپ کا نام ’’حباب‘‘ تھا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام ’’عبد اللہ‘‘ رکھا، آپ کا والد عبد اللہ بن ابی منافقین کا سردار تھا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی (جو سچے مومن تھے) تعریف فرمایا کرتے تھے۔ آپ یمامہ کے دن شہید ہوئے۔
۲۹۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ
آپ کا اسم گرامی عبد اللہ بن رواحۃ بن ثعلبۃ بن امرئ القیس بن عمرو ہے، آپ کی کنیت ’’ابومحمد‘‘ ہے، آپ فتح مکہ سے پہلے کے تمام معرکوں غزوۂ بدر، احد، خندق، حدیبیہ، عمرۃ القضاء وغیرہ میں شریک ہوئے، آپ مؤتہ کے دن شہید ہوئے، آپ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب ہونے کے علاوہ ان شعراء میں سے بھی ایک تھے جو کفار کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اشعار کے ذریعہ دفاع کیا کرتے تھے۔
۳۰۔ حضرت عبد اللہ بن سعد رضی اللہ عنہ
آپ کا نام عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح بن حارث بن حبیب بن جذیمۃ بن مالک بن حسل بن عامر بن لؤی ہے، آپ کی کنیت ’’ابو یحیٰی‘‘ ہے۔ آپ فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے اور ہجرت کی، آپ وحی لکھا کرتے تھے، پھر یہ —العیاذ باللہ— مرتد ہو گئے اور مکہ کی طرف لوٹ گئے، فتح مکہ کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قتل کا حکم دیا کہ اگر یہ کعبہ کے غلاف میں بھی چھپیں تو انہیں قتل کر دیا جائے، تو یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف دوڑے، کیونکہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے رضاعی بھائی تھے، بہرحال انہیں پناہ دی گئی، پھر بعد میں یہ دوبارہ مسلمان ہوئے اور ان کا اسلام خالص رہا۔
۳۱۔ حضرت عبد اللہ بن عبد الاسد رضی اللہ عنہ
آپ کا نام عبد اللہ بن عبد الاسد بن ہلال بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم بن یقظۃ بن مرۃ ہے، آپ کی کنیت ’’ابو سلمۃ‘‘ ہے اور آپ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر تھے، آپ، دس آدمیوں کے بعد ایمان لے آئے تھے اور اپنی اہلیہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی اور آپ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے پہلے شخص ہیں، آپ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ آپ نے دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی طرف کی اور آپ بدر میں بھی شریک ہوئے، احد میں آپ زخمی ہوئے اور پھر اسی زخم کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
۳۲۔ حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ
آپ کا نام عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ بن زید ہے، آپ کی کنیت ’’ابو محمد‘‘ تھی، آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقبہ، بدر اور دوسرے غزوات میں شریک ہوئے، آپ کو ہی خواب میں اذان کا طریقہ کار بتلایا گیا تھا اور آپ کے خواب کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ان کے خواب کے مطابق تعمیل کا حکم دیا، آپ ۳۲ھ میں ۶۴ سال کی عمر میں داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔
۳۳۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ
آپ کا نام عمرو بن العاص بن وائل بن ہاشم بن سعید بن سہم بن عمرو ہے، آپ کی کنیت ’’ابو عبد اللہ‘‘ اور ’’ابو محمد‘‘ ہے، آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمان پر والی مقرر فرمایا تھا اور پھر آپ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے تشریف لے جانے تک عمان کے والی رہے، آپ نے حضرات خلفائے راشدین اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کا زمانہ پایا۔
۳۴۔ حضرت العلاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہ
آپ کا نام عبد اللہ بن عماد ہے، آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین کا والی مقرر کیا تھا، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اسی ولایت پر برقرار رکھا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو بصرہ کا عامل بنایا۔
۳۵۔ حضرت العلاء بن عقبۃ رضی اللہ عنہ
’’ابنِ عبد الکریم الحلبی‘‘ نے ’’شرح السیرۃ‘‘ اور ’’ابن الاثیر‘‘ نے آپ کے احوال میں لکھا ہے کہ آپ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین میں سے تھے۔
۳۶۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ
ابنِ سعدؒ نے آپ کا ذکر تو کیا ہے، لیکن نسب و حالات بیان نہیں کئے۔
۳۷۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ
آپ کا نام محمد بن مسلمہ بن سلمہ بن خالد بن عدی ہے، آپ کی کنیت ’’ابو عبد الرحمٰن‘‘ ہے، آپ بدر اور دیگر تمام غزوات میں شریک ہوئے، آپ نے ۴۳ھ میں ۷۷ سال کی عمر میں وفات پائی۔
۳۸۔ حضرت معاویہ بن اَبی سفیان رضی اللہ عنہ
آپ کا نام ’’معاویہ‘‘ تھا اور آپ کی کنیت ’’ابو عبد الرحمٰن‘‘ ہے۔ آپ، ابنِ خطل کے مرتد ہونے کے بعد کتابت کیا کرتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو شام کا والی مقرر کیا، آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے خلافت سے دستبردار ہونے کے بعد خلیفہ مقرر ہوئے اور آپ کی وفات جمعرات کے دن دمشق میں ۵۹ھ میں ۸۲ سال کی عمر میں ہوئی۔
۳۹۔ حضرت معیقیب بن اَبی فاطمہ رضی اللہ عنہ
آپ کا نام معیقیب بن اَبی فاطمہ ہے، آپ، قدیم الاسلام ہیں، آپ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو بیت المال پر عامل مقرر کیا تھا، آپ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری سالوں میں فوت ہوئے۔
۴۰۔ حضرت المغیرۃ بن شعبہ رضی اللہ عنہ
آپ کا نام المغیرۃ بن شعبۃ الثقفی بن اَبی عامر بن مسعود ہے، آپ کی کنیت ’’ابو عبد اللہ‘‘ ہے، آپ خندق والے سال (۶ ہجری) میں ایمان لائے اور ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ گئے، آپ، ۵۰ھ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
۴۱۔ حضرت حصین بن نمیر رضی اللہ عنہ
آپ اور حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہما، دونوں دیون اور معاملات لکھا کرتے تھے۔
۴۲۔ حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ
آپ کا نام یزید بن ابی سفیان ہے، آپ کو ’’یزید الخیر‘‘ بھی کہا جاتا ہے، آپ فتح مکہ کے دن ایمان لائے اور حنین میں شریک ہوئے، آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے غنائم میں سے ۱۰۰ اونٹ عطا فرمائے، آپ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فلسطین اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں عامل مقرر کیا، آپ، ۱۸ھ میں طاعون عمواس میں اس دارِفانی سے رخصت ہوئے۔
۴۳۔ رجل من بنی النجار رضی اللہ عنہ
کاتبانِ وحی کی کتابوں میں ’’رجل من بنی نجار‘‘ کا ذکر ملتا ہے، لیکن ان کے نام اور حالاتِ زندگی سے کتابیں خاموش ہیں۔
نوٹ:- کتابوں میں، ابنِ خطل کا نام بھی کاتبین میں ذکر کیا گیا ہے، لیکن اس کے عمداً کتابت میں غلطی کرنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہٹا دیا تھا اور بعد میں وہ مرتد ہو گیا پھر فتح مکہ کے موقع پر قتل ہوا۔
حواشی
(1) التراتیب الإداریۃ والعمالات والصناعات والمتاجر والحالۃ العلمیۃ التی کانت علی عہد تأسیس المدنیۃ الإسلامیۃ فی المدینۃ المنورۃ العلمیۃ، للکتانی، دار الأرقم۔ بیروت، الطبعۃ الثانیۃ، ج: ۱، ص: ۱۵۲
(2) المصباح المضی فی کتاب النبی الأمی ورسلہ صلی اللہ علیہ وسلم إلی ملوک الأرض من عربی و عجمی، للشیخ جمال الدین ابن حدیدۃ، عالم الکتب۔ بیروت، ص ۲۹ تا ۱۶۷
(3) مسند أحمد، ج: ۲۷، ص: ۳۵۴
(’’کتابت قرآن کریم کے مختلف مراحل اور ان کا تاریخی پس منظر‘‘ ص ۱۴۶ تا ۱۵۴ مطبوعہ ’’ادارۃ المعارف کراچی ۱۴‘‘ طبع جنوری ۲۰۲۴ء)