(579) العفو کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں العفو کا ترجمہ کیا گیا ہے وہ مال جو ضرورت اور حاجت سے فاضل بچ رہے۔ اس مفہوم پر عمل کرنا عام انسان کے لیے ناممکن محسوس ہوتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ بڑی عزیمت والوں کا کام ہے۔ کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:
وَیَسْأَلُونَکَ مَاذَا یُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ۔ (البقرۃ: 219)
’’تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں تم فرماؤ جو فاضل بچے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کون سا مال خرچ کریں۔ کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’ آپ سے یہ بھی دریافت کرتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ تو آپ کہہ دیجیے حاجت سے زائد چیز‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’پوچھتے ہیں: ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو‘‘۔ (سید مودودی، یہاں ’’راہ خدا میں‘‘ میں مترجم کا اضافہ ہے۔ یہ مفہوم الفاظ میں موجود نہیں ہے۔)
لیکن العفو کے لفظ کے حقیقی معنی کو سامنے رکھیں تو دوسری بات سامنے آتی ہے۔ العفو کا لغوی معنی فاضل از ضرورت نہیں ہے۔ لفظ العفو کا مفہوم بتاتے ہوئے زمخشری لکھتے ہیں:
الْعَفْوَ نقیض الجہد وہو أن ینفق ما لا یبلغ إنفاقہ منہ الجہد واستفراغ الوسع، قال: خُذِی الْعَفْوَ مِنِّی تَسْتَدِیمِی مَوَدَّتِی، ویقال للأرض السہلۃ: العفو۔
یعنی عفو مشقت کی ضد ہے۔ مطلب یہ کہ وہ اتنا خرچ کرے کہ اس خرچ کی وجہ سے وہ خود مشقت میں نہ پڑجائے۔
درج ذیل ترجمے میں لفظ کی کسی قدر رعایت ہے:
’’اور لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ (خیر خیرات میں) کتنا خرچ کیا کریں آپ فرمادیجیے کہ جتنا آسان ہو‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’پوچھتے ہیں: ہم کیا خرچ کریں؟ کہو: بلا تکلف جو بھی دے سکتے ہو‘‘۔
گویا انسان کے اندر جذبہ انفاق بھی ہو اور وہ خود کو مشقت میں بھی نہ ڈالے۔ نیکی اور آسانی میں توازن قائم رکھنے کے حوالے سے العفو کا یہ لفظ معنی خیز ہے۔
ضرورت سے زائد تمام مال کو خرچ کردینا انسان کو مشقت اور تنگی میں ڈال سکتا ہے، جب کہ انسان خود کو مشقت سے بچاتے ہوئے خرچ کرے، اس میں وسعت ہے۔
(580) سَتَذْکُرُونَہُنَّ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں سَتَذْکُرُونَہُنَّ آیا ہے۔ ذَکَرَہُ کا مطلب اس کا ذکر کرنا ہے نہ کہ اس سے ذکر کرنا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں ذکر یاد اور خیال کے معنی میں ہے نہ کہ بیان وتذکرے کے معنی میں۔ کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:
عَلِمَ اللَّہُ أَنَّکُمْ سَتَذْکُرُونَہُنَّ۔ (البقرۃ: 235)
’’اللہ کو معلوم ہے کہ تم ان سے ذکر کرو گے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’خدا کو معلوم ہے کہ تم ان سے (نکاح کا) ذکر کرو گے‘‘۔(فتح محمد جالندھری)
’’خدا کو معلوم ہے کہ تم بعد میں ان سے تذکرہ کرو گے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
درج ذیل ترجمے مذکورہ بالا غلطی سے خالی ہیں:
’’اللہ جانتا ہے کہ اُن کا خیال تو تمہارے دل میں آئے گا ہی‘‘۔ (سید مودودی)
’’ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ تم ضرور ان کو یاد کرو گے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اللہ کو معلوم ہے کہ تم جلد ان کو یاد کروگے‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
(581) لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں بعض مترجمین نے جناح کا درست ترجمہ نہیں کیا ہے:
لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَائَ مَا لَمْ تَمَسُّوہُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَہُنَّ فَرِیضَۃً۔ (البقرۃ: 236)
’’تم پر کچھ مطالبہ نہیں تم عورتوں کو طلاق دو جب تک تم نے ان کو ہاتھ نہ لگایا ہو یا کوئی مہر مقرر کرلیا ہو‘‘۔ (احمد رضا خان)
جناح کا مطلب مطالبہ نہیں ہے۔
’’اور تم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے اگر تم نے عورتوں کو اس وقت طلاق دے دی جب کہ ان کو چھوا بھی نہیں ہے اور ان کے لیے کوئی مہر بھی معین نہیں کیا ہے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
جناح کا مطلب ذمے داری نہیں ہے۔
’’اور اگر تم عورتوں کو اس صورت میں طلاق دو کہ نہ ان کو ہاتھ لگایا ہو اور نہ ان کے لیے متعین مہر مقرر کیا ہو تو ان کے مہر کے باب میں تم پر کوئی گناہ نہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
اس ترجمے میں ’’ان کے مہر کے باب میں‘‘ بے مطلب کا اضافہ ہے۔
’’اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کیے طلاق دے دو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
یہاں ’بھی‘ کا کوئی محل نہیں ہے۔
’’تم پر (مہر کا) کچھ مواخذہ نہیں اگر بیبیوں کو ایسی حالت میں طلاق دے دو کہ نہ ان کو تم نے ہاتھ لگایا ہے اور نہ ان کے لیے کچھ مہر مقرر کیا ہے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
مہر کے مواخذے تک بات کو محدود کرنا عبارت کے مطابق نہیں ہے۔
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
’’گناہ نہیں تم پر اگر طلاق دو تم عورتوں کو جب تک یہ نہیں کہ ان کو ہاتھ لگایا ہو یا مقرر کیا ہو ان کا کچھ حق‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(582) یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ کا ترجمہ
درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
أُولَئِکَ یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ وَاللَّہُ یَدْعُو إِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِإِذْنِہِ۔ (البقرۃ: 221)
’’ یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’یہ مشرکین تمہیں جہّنم کی دعوت دیتے ہیں اور خدا اپنے حکم سے جنّت اورمغفرت کی دعوت دیتا ہے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
’’یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور خدا اپنے حکم سے (تمہیں) جنت اور مغفرت (بخشش) کی طرف بلاتا ہے‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
درج بالا ترجموں میں ’’تمھیں‘‘ اور ’’تم کو‘‘کے اضافے غیر ضروری ہیں۔ یہ کہنا مقصود نہیں ہے کہ وہ تمھیں آگ کی طرف بلاتے اور اللہ تمھیں جنت کی طرف بلاتا ہے، بلکہ عمومی بات بتائی جارہی ہے کہ مشرکین جس راستے کے داعی ہیں وہ جہنم کی طرف جاتا ہے اور اللہ جنت کی طرف بلاتا ہے۔ درج ذیل ترجمہ بجا طور پر ان اضافوں سے خالی ہے:
’’وہ لوگ بلاتے ہیں دوزخ کی طرف اور اللہ بلاتا ہے جنت کی طرف اور بخشش کی طرف اپنے حکم سے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(583) مِنْ مُشْرِکَۃٍ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں مشرکۃ کے لفظ میں عموم ہے، اسے آزاد یا شریف زادی سے متصف بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔
وَلَأَمَۃٌ مُؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِنْ مُشْرِکَۃٍ۔ (البقرۃ: 221)
’’ ایک مومنہ کنیز مشرکہ (آزاد عورت) سے اچھی ہے‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
’’ ایک مومن کنیز مشرک آزاد عورت سے بہتر ہے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
’’ایمان والی لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہت بہتر ہے‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
’’ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے‘‘۔ (سید مودودی)
مذکورہ بالا ترجموں میں آزاد اور شریف وغیرہ کی صفت غیر ضروری طور پر ذکر کی گئی ہے، الفاظ میں ان کا ذکر نہیں ہے۔ درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’اور البتہ لونڈی مسلمان بہتر ہے کسی شرک والی سے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’کوئی بھی مسلمان لونڈی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے‘‘۔
(584) خَیْرٌ مِنْ مُشْرِکٍ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں مشرک کے لفظ میں عموم ہے، اسے آزاد یا شریف سے متصف بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔
وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَیْرٌ مِنْ مُشْرِکٍ۔ (البقرۃ: 221)
’’بے شک مسلمان غلام مشرک (آزاد شوہر) سے بہتر ہے‘‘۔(محمد حسین نجفی)
’’مسلمان غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے‘‘۔(ذیشان جوادی)
’’ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’ایک مومن غلام مشرک شریف سے بہتر ہے‘‘۔(سید مودودی)
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
’’اور البتہ غلام مسلمان بہتر ہے کسی شرک والے سے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’کوئی بھی مسلمان غلام کسی بھی مشرک سے بہتر ہے‘‘۔
(585) إِثْمٌ کا ترجمہ
إِثْمٌ کا معنی گناہ ہے۔ بعض لوگوں نے اس کے مقابلے میں منافع اور نفع کے الفاظ دیکھ کر إِثْمٌ کا ترجمہ نقصان کردیا۔
یَسْأَلُونَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیہِمَا إِثْمٌ کَبِیرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُہُمَا أَکْبَرُ مِنْ نَفْعِہِمَا۔ (البقرۃ: 219)
’’ لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’کہو: ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ اُن کے فائدے سے بہت زیادہ ہے‘‘۔ (سید مودودی)
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’تو کہہ ان میں گناہ بڑا ہے اور فائدے بھی ہیں لوگوں کو اور ان کا گناہ فائدے سے بڑا‘‘۔(شاہ عبدالقادر)
گویا شراب اور جوئے میں اصل مسئلہ نقصان کا ہونا نہیں بلکہ گناہ کا ہونا ہے۔ ان کا گناہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے آگے ان کے تمام فائدے ہیچ ہیں۔
(586) تَوَلَّی کا ترجمہ
قرآن مجید میں تَوَلَّی کئی جگہ آیا ہے۔ عام طور سے وہ پیٹھ پھیرنے کے معنی میں آیا ہے اور یہی ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔ البتہ درج ذیل دو آیتوں میں بعض لوگوں نے اقتدار حاصل کرنا ترجمہ کیا ہے:
(۱) وَإِذَا تَوَلَّی سَعَی فِی الْأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیہَا۔ (البقرۃ: 205)
’’اور جب حاکم ہوتا ہے کوشش کرتا ہے بیچ زمین کے تو کہ فساد کرے بیچ اس کے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
’’جب اُسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے، تو زمین میں اُس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور جب پیٹھ پھیرے تو زمین میں فساد ڈالتا پھرے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے تاکہ اس میں فتنہ انگیزی کرے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور جب پیٹھ پھیرے دوڑتا پھرے ملک میں کہ اس میں ویرانی کرے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۲) فَہَلْ عَسَیْتُمْ إِنْ تَوَلَّیْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَکُمْ۔ (محمد: 22)
’’پھر تم سے یہ ہی توقع ہے کہ اگر تم کو حکومت ہو کہ خرابی ڈالو ملک میں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’تو کیا تمہارے یہ لچھن نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے کاٹ دو‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’(اے منافقو!) تم سے عجب نہیں کہ اگر تم حاکم ہو جاؤ تو ملک میں خرابی کرنے لگو اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اب کیا تم لوگوں سے اِس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم الٹے منھ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟‘‘۔ (سید مودودی، َتُقَطِّعُوا أَرْحَامَکُمْ کا ترجمہ گلے کاٹنا غور طلب ہے۔ اصل معنی تو رشتے کاٹنا ہے، اس کے نتیجے میں باہم خون خرابے تک بات پہنچتی ہے۔)
’’سو اگر تم کنارہ کش رہو تو آیا تم کو یہ احتمال بھی ہے کہ تم دنیا میں فساد مچادو اور آپس میں قطع قرابت کرو‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلی آیت میں بیشتر لوگوں نے پیٹھ پھیرنا ترجمہ کیا ہے، بہت کم لوگوں نے اقتدار حاصل کرنا کیا ہے، جب کہ دوسری آیت میں بیشتر لوگوں نے اقتدار حاصل کرنا ترجمہ کیا ہے، بہت کم لوگوں نے دوسرا ترجمہ کیا ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ دونوں مقامات پر تولّی کا ترجمہ پیٹھ پھیرنا ہوگا۔ تَوَلَّی جب بغیر مفعول کے آتا ہے تو پیٹھ پھیرنے کے معنی میں ہوتا ہے، کیوں کہ اسی کے لیے اسے شہرت حاصل ہوگئی ہے۔ تَوَلَّی اقتدار کے معنی میں جب آتا ہے تو اس کے بعد مفعول بہ کا ذکر ہوتا ہے جیسے تَوَلَّی فلان الحکم وغیرہ۔
دونوں آیتوں کے سیاق پر غور کریں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خاص ایسے لوگوں کے بارے میں گفتگو نہیں ہورہی ہے جنھیں اقتدار حاصل ہو، گفتگو عمومی طور پر فساد پسند لوگوں کے بارے میں ہورہی ہے جن کے دل ایمان سے خالی ہیں۔
(587) آتِنَا فِی الدُّنْیَا کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں صرف آتِنَا فِی الدُّنْیَا ہے، جب کہ اس کے بعد والی آیت میں آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً ہے۔ بعض لوگوں نے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھا اور پہلی آیت میں بھی حَسَنَۃً کا مفہوم بڑھادیا۔
فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا۔ (البقرۃ: 200)
’’اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جن کی دعا یہ ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں کامیابی دے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ پروردگار ہمیں دنیا ہی میں نیکی دے دے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
’’اب بعض لوگ تو وہ ہیں جو (دعا میں بس) یہ کہتے ہیں کہ: اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما ‘‘۔(محمد تقی عثمانی)
درج ذیل ترجمے درست ہیں:
’’بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں دے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’پھر کوئی آدمی کہتا ہے اے رب ہمارے دے ہم کو دنیا میں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
اس کی معنویت یہ ہے کہ جو ظاہر پسند اور دنیا طلب ہوتے ہیں وہ بھلائی برائی سے قطع نظر دنیا کی ہر چیز کے طلب گار ہوتے ہیں جب کہ جوحقیقت آگاہ ہوتے ہیں وہ دنیا و آخرت ہر جگہ بھلائی کے طلب گار ہوتے ہیں۔