تقسیمِ میراث کی بعض صورتوں میں بالاتفاق یہ صورتحال پیش آتی ہے کہ جب ورثاء کے حصے (shares) ان کے مجموعی مفروضِ نصیب سے بڑھ جاتے ہیں تو ایسی صورتحال تزاحم کی صورتحال ہے يعنی ایسے میں تمام ورثاء کو اپنے مقررہ حصے دینا ممکن نہیں رہتا۔
جیسے ایک عورت نے اپنے پیچھے شوہر ماں باپ اور دو بیٹیاں چھوڑی تو اگر ہر حصے کا فیصدی تناسب دیکھا جائے تو وہ کچھ اس طرح ہے۔ 25 فیصد شوہر کے لیے، 16.6 فیصد باپ کے لیے، 16.6 فیصد ماں کے لیے، 66.6 فیصد بیٹیوں کے لیے۔ لہٰذا اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو حاصل 124.8 فیصد ٹھہرتا ہے جو کہ 100 فیصد سے زیادہ ہے یعنی عملاً ورثاء کو ان کے حصے بغیر کمی بیشی دینا ممکن نہیں۔
جس کا حل مذاہبِ اربعہ کے ہاں یہ تجویز کیا گیا کہ تمام حصوں میں برابر نقص داخل کر دیا جائے جسے عول سے تعبیر کیا جاتا ہے (شوہر = 20، باپ = 13.3، ماں= 13.3، بیٹیوں = 53.3) اور یہ مسلک جمہور صحابہ سے مروی ہے۔ جبکہ ظاہريہ اور شیعہ امامیہ کے ہاں اس کا حل یہ ہے کہ تمام ورثاء کے حصوں پر نقص داخل کرنے کی بجائے متعین طبقے پر نقص داخل کیا جائے جیسے بیٹیاں بہنیں، اور یہ مسلک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے (شوہر = 25، باپ =16.6، ماں= 16.6، بیٹیوں = 41.8)۔
اور ایک طریقہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے بھی ایجاد کیا جس کے نتیجے میں نصوص کو اپنی مرضی سے کچھ ایسے تاویل دی گئی کہ حصوں اور مفروضِ نصیب کے مابين تزاحم سرے سے وجود میں ہی نہیں آتا لیکن ان كی ساری ریاضت کا حاصل یہ ہے کہ کسی بھی طور اپنی دانست میں ریاضی کو درست کر لیا جائے چاہے اس کے نتیجے میں قرآن کے منطوق سے روگردانی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ قرآن اپنے الفاظ میں بالکل واضح ہے ثلثا ما ترك (جو میت نے چھوڑا) یعنی کل مال کا دو تہائی نہ کہ بچے ہوئے مال کا دو تہائی۔
چنانچہ غامدی صاحب کے نزدیک بیٹیوں کو ہر صورت (زیر نظر مثال سے قطع نظر) ترکے کے فاضل حصے (ما بقی) میں سے دو تہائی دیا جائے گا نہ کہ کل ترکے کا دو تہائی۔ لیکن زیر نظر مثال میں ان کی ریاضی سے گزر کر بھی کچھ فیصد حصہ (14) تقسیم ہونے سے بچ جاتا ہے (شوہر = 25، باپ =16.6، ماں= 16.6، بیٹیوں= 27.7) اس سے بڑھ کے یہ انہوں نے مرنے والے (مورث) کے لیے یہ اختیار بھی مانا ہے کہ وہ کسی وارث کے حق میں اس زائد حصے کی وصیت کر دے۔
اسی طرح تقسیمِ میراث کی بعض دیگر صورتیں جن میں امت 1400 سال سے تزاحم کے وجود کا اقرار کرتی چلی آئی ہے اسے اپنے تئیں ختم کرنے کے لیے غامدی صاحب نے سورۃ النساء 12 اور آیت 176 كی من مانی تفسیر کی حالانکہ بالاتفاق سورۃ النساء کی آیت 12 ماں شریک بہن بھائیوں کے حصے سے متعلق ہے اور اسی سورت کی آیت 176 باپ شریک اور حقیقی بہن بھائیوں کے حصے سے متعلق۔ اس تقيید (ماں شریک باپ شریک حقیقی بہن بھائی) کو قراءات میں سے مانا جائے یا وہ تفسیری اضافے جو کہ قراءات میں درج ہوئے، دونوں صورتوں (اطلاق کی یہ تقيید اصلاً ہو یا الحاقاً) میں اس کا منقول ہونا ایک طے شدہ اور مسلّم امر ہے۔ لہٰذا اہلِ تشیع جو کہ حفص کے علاوہ دیگر قراءات کے قرآن ہونے کے قائل نہیں ان کے نزدیک بھی اس کا منقول ہونا ایک مسلّم امر ہے۔ لہٰذا اگر اسے محض قراءات کا مسئلہ بنا کر رد کرنا ہوتا تو غامدی صاحب سے بہت پہلے یہ کام اہلِ تشیع کر چکے ہوتے۔
چنانچہ وراثت سے متعلق آیات کا مجمع علیہ فہم (جس کی بابت سنی شیعہ سب متفق ہیں) اس بات پر منتج ہے کہ تقسیمِ وراثت كی بعض صورتوں میں حصوں اور مفروضِ نصیب کے مابين تزاحم كا واقعہ ہونا ناگزیر ہے۔ رہی بات اب اس تزاحم کو دور کیسے کیا جائے تو یہ محلِ اجتہاد تھا جس میں ایک طریقہ تو یہ اختیار کیا گیا کہ سب ورثاء کے حصے میں برابر تناسب کے ساتھ کمی کی جائے اور دوسرا طریقہ یہ کہ متعین ورثاء کے تناسب میں کمی کی جائے۔ لیکن سرے سے تزاحم واقع ہی نہ ہو تو زبان و بیان کو جاننے والوں (سلفاً و خلفاً) کو تو یہ سمجھ میں نہیں آیا لیکن یہ غامدی صاحب ہی ہیں جن کے نزدیک تزاحم کی عدمِ موجودگی بغیر تکلف دیکھی جا سکتی ہے.
واضح رہے کہ دو چیزوں میں فرق ہے، ایک تزاحم کا وجود تو یہ محلِ اجتہاد نہیں، اور دوسرا تزاحم کا حل تو یہ بے شک محلِ اجتہاد رہا ہے اور فریقین (سنی اور اماميۃ) كا اس کی بابت مختلف زاویہ نظر رہا ہے لیکن غامدی صاحب نے وہاں جا کے اجتہاد کیا جہاں تو سرے سے اجتہاد کا سوال ہی نہیں جہاں زبان و بیان کے حوالے سے سرے سے كوئی اشكال موجود ہی نہیں چنانچہ متعدد روایات اس تزاحم کی موجودگی پر دال ہیں۔
غامدی صاحب کی اس ایجاد کے پیچھے جو سبب کار فرما ہے وہ انہی کے نزدیک یہ ہے کہ جب قرآن نے ورثاء کے حصے مقرر کر دیے تو ان میں کمی بیشی کا کوئی جواز نہیں لیکن کوئی ان سے یہ پوچھے کہ کیا قرآن کے الفاظ اور اس کے متفقہ مدلول کے بارے میں انسانی کمی بیشی روا ہے؟ اور جہاں تک ان کا یہ اشکال ہے کہ قرآن کے مقرر کردہ حصوں میں کمی بیشی درست نہیں، تو جاننا چاہیے کہ (فردًا فردًا) ورثاء سے متعلق قرآن کے مقرر کردہ حصے دوسرے ورثاء کے ساتھ مل کر اپنا تعین حاصل کرتے ہیں۔ لہٰذا کبھی تو حجبِ حرمان کی صورت پیش آتی ہے تو کبھی حجبِ نقصان کی (اور یہ امر خود قرآن کے بیان سے واضح ہے) اور بسا اوقات ایسی صورتحال کا بھی سامنا ہوتا ہے جس میں سہام اور نصيب کے مابين تزاحم واقعہ ہوتا ہے تو ایسی صورت میں ورثاء کے حصے برابر تناسب کی کمی (يا کسی مخصوص وارث کے حجبِ نقصان) کے ساتھ اپنا تعین حاصل کرتے ہیں۔ جیسے بالاتفاق ایسی صورت بھی پیش آتی ہے جس میں ورثاء کے حصے مفروضِ نصیب سے کم ہو جاتے ہیں تو ایسی صورت میں مقرر کردہ حصے اضافے کے ساتھ اپنا تعین حاصل کرتے ہیں (يعنی رد کے قانون کا اطلاق کیا جاتا ہے)
اسی طرح تقسیمِ میراث کے دوران مسئلہ مشرکہ (حماریہ یا ہجریہ) کا وجود مسلّم حقيقت ہے جس کے شواہد روایتوں میں موجود ہیں لیکن غامدی صاحب کی سورۃ النساء آيت 12 اور آیت 176 كی خود ساختہ تفسیر کے نتیجے میں یہ مسئلہ سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ مرنے والی نے شوہر، ماں شریك بھائی اور حقیقی بھائی چھوڑے (شوہر = 50، ماں = 16.6، ماں شریک بھائی = 33.3، حقیقی بھائی = بچا ہوا حصہ) اب شوہر، ماں، ماں شریک بھائیوں کے حصوں کو جمع کیا جائے تو 100 فیصد بنتا ہے لہٰذا حقیقی بھائیوں کے لیے کچھ نہیں بچا۔ اس کا حل یہ نہیں کہ قرآن میں ماں شریک بھائیوں کے حصے کی موجودگی کا انکار کر دیا جائے جیسا کہ غامدی صاحب نے سورۃ النساء 12 میں کیا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں اس مسئلہ كا المجتہد فيہا ہونا واضح ہو چکا تھا اور اس کے مختلف حل تجویز کیے گئے۔ ایک اجتہاد یہ ٹھہرا کہ اس صورت میں حقیقی بھائیوں کو وراثت سے محروم ركھا جائے کیونکہ جو حصہ انہیں ملنا تھا وہ بطور عصبہ ملنا تھا، اور دوسرا حل بعض نے یہ دیا کہ حقیقی بھائیوں کو ماں شریک بھائیوں کے ساتھ ثلث میں شریک کر لیا جائے۔ واضح رہے کہ غامدی صاحب بخلاف دیگر فقہاء اس مسئلے کا حل نہیں بتا رہے بلکہ ان کے نزدیک یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوتا اور دوسرے لفظوں میں سلف نے اسے خود سے ایک مسئلہ بنایا اور پھر اس کے مختلف حل تجویز کیے۔
جاننا چاہیے کہ ’’کلالہ‘‘ کا لفظ جیسے وارث کے لیے استعمال ہوتا ہے اسی طرح مورث اس کے لیے بھی جس کا اقرار غامدی صاحب بھی کرتے ہیں ليكن ان کے نزدیک سورۃ النساء کی آیت 12 ميں لفظ کلالہ بمعنی وارث يعنی مرنے والے کے قریبی رشتہ داروں (ما سوى الوالد والولد) کے لیے آيا ہے نہ کہ اس مورث کے لیے جس کے نہ اصول میں کوئی ہو نہ فروع میں (من لا والد لہ ولا ولد) اور غامدی صاحب كی دليل یہ ہے کہ چونکہ ’’یوصی‘‘ کا فعل مجہول ہے لہٰذا یہ امر اس میں مانع ہے کہ آیت 12 میں کلالہ کو مورث کے لیے مانا جائے۔
اولاً: اس پر عرض یہ ہے کہ کلالہ کو بطور وارث لیے جانے کی صورت میں یہ کہیں لازم نہیں آتا کہ ’’رجل‘‘ بھی وارث ہی ٹھہرے بلکہ ’’رجل‘‘ پھر بھی مورث ہو سکتا ہے۔ جيسے آیت کی نحوى ترکیب يوں بھی ہو سکتی ہے: كان كو تامہ مانا جائے، رجل كان کا فعل ہے، یورث رجل کی صفت ہے، كلالۃ محذوف مصدر كی صفت ہو (إرث الكلالۃ أو وراثۃ الكلالۃ) اگر ایسا مرد ہو یا ايسی عورت ہو جس سے وارث ہو كلالۃ وارث۔ یہاں رجل مورث ہے اور کلالہ وارث ہے نہ کہ مورث۔ اسی طرح نحوی ترکیب يوں بھی ہو سکتی ہے: رجل كان کا اسم ہو، یورث رجل کی صفت ہو، كلالۃ کان کی خبر ہے۔ آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہوگا اگر مرد یا عورت جس سے جو وارث ہو وہ کلالہ ہو۔ لہٰذا کلالہ کو قریبی رشتہ دار (ما سوى الوالد ولولد) ماننے کی صورت میں بھی رجل مورث كی صورت برقرار رہ سکتا ہے۔ لہٰذا جن مفسرین (جيسے امام طبری) نے کلالہ کو بمعنی میت کے قریبی رشتہ دار لیا بھی ہے ان کے نزدیک بھی ’’ولہ اخ او اخت‘‘ سے مراد میت (مورث) کا بھائی اور میت کی بہن ہے نہ کہ وارث کی۔
غامدی صاحب کی اختیار كردہ تركيب کچھ اس طرح ہے: رجل كان کا اسم ہے، یورث کان کی خبر ہے، كلالۃ مفعول لہ ہے۔ آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہے، اگر مرد یا عورت وارث بنايا جائے کلالہ ہونے کی وجہ سے (اس کے علاوہ آیت کا ترجمہ یوں بھی درست ہے: وہ مرد اور عورت جس سے وارث ہو اس کے کلالہ ہونے کی وجہ سے۔ اس صورت میں بھی رجل مورث ٹھہرتا ہے لیکن غامدی صاحب کا اختیار أول الذكر ہے) عربیت کی رو سے غامدی صاحب کی اختیار كردہ تركيب اور ترجمہ (جس کے نتیجے میں رجل وارث بنتا ہے نہ کہ مورث) بھی درست ہے (اگر فعل يورث ورث ثلاثی کی بجائے أورث رباعی سے ہو) ليكن تمام دیگر نحوی تراکیب کو چھوڑ کر محض اس نحوى ترکیب اور ترجمہ کو اختیار کرنا جو کہ نہ صرف آیت کے متفقہ مفہوم سے ہم آہنگ نہ ہو بلکہ اس سے اپنی مرضی کا اپنا مفہوم برآمد کرنے میں تکلف بھی برتا گیا ہو جبکہ متعدد نحوی تراكیب موجود ہوں جس میں کلالہ کو وارث ماننے کے باوجود بھی رجل مورث ہی ٹھہرتا ہو۔
ثانياً: واضح رہے کہ غامدی صاحب نے باقی ديگر نحوى تراکیب کو ذکر کیے بغیر محض اس بنا پر رد کر دیا کہ اس جملے کے ما بعد یوصی کا فعل مجہول (المبنی للمفعول) آیا ہے۔ حالانکہ اگر ’’رجل‘‘ کو وارث مانا جائے تو يوصی کے فعل مجہول پر تو اشکال کیا جا سکتا ہے لیکن رجل کو مورث ماننے کی صورت میں ہرگز نہیں، جیسا کہ زمخشری نے رجل کو وارث ماننے کی صورت میں تو فعل مجہول کے اشکال کا جواب دیا ہے لا عكسہا۔ کیونکہ وصیت تو مرنے والے کا فعل تھا اب اگر مورث پیچھے موجود ہی نہیں تو اس کو وارث کے ساتھ کیسے جوڑا جائے، لہٰذا زمخشری کے نزدیک یہ امر لائقِ اشکال ہو سکتا تھا۔ یعنی جو اشکال غامدی صاحب نے کیا زمخشری کے نزدیک یہ اشکال بنتا ہی نہیں بلکہ زمخشری کے نزدیک غامدی صاحب کا یہ اختیار کہ رجل كو وارث لیا جائے لائقِ اشکال ہو سکتا تھا جس کا زمخشری نے جواب دیا۔
ثالثاً: یوصی کے فعل کو خارجی يا اضافی قرینہ تو کہا جا سکتا ہے لیکن اس سے پہلے کلالہ کے لفظ کی مختلف اعرابی صورتیں اس کے معنی کا تعین کریں گی اور غامدی صاحب کے نزدیک بھی اصول یہی ہے کہ لفظ کا معنی جملے کی تالیف سے طے کیا جائے گا لیکن یہاں انہوں نے اپنے اصول کو پوری طرح برتنا ضروری نہ سمجھا جيسے وہ پہلے سے ہی کسی خاص معنی کا ارادہ کر چکے تھے۔
رابعاً: یہ کہ یوصی کے اس فعل کی معروف انداز (المبنی للفاعل) میں متواتر قراءات بھی موجود ہے (قرأ بہا سبعۃ من عشرۃ القراء) اور حفص (عن عاصم) کی قراءات کی پابندی کو غامدی صاحب نے خود پر لازم کیا ہے جبکہ دیگر جو حفص کے علاوہ بھی متواتر قراءات کے قرآن ہونے کے قائل ہیں تو ان پر غامدی صاحب کی دلیل کیسے حجت بن سکتی ہے؟ لہٰذا اتفاقی موقف کہ کلالہ کو یہاں بطور مورث لیا جائے نہ کہ وارث مزيد قوی ہو جاتا ہے۔
خامساً: آیت کا سیاق اس چیز کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ آیت بہن بھائیوں کے حصوں سے متعلق ہو کیونکہ شروع میں بیٹوں کے حصے بیان ہوئے، اس کے بعد ماں باپ کے، اس کے بعد زوجین کے، اس کے بعد بہن بھائی ہی آتے ہیں۔ اب یہ بہن بھائی کون سے ہیں اس اطلاق میں تقيید حدیث اور اجماع سے ثابت ہے کہ یہ ماں شریک بہن بھائی ہیں۔ رہی سورۃ النساء کی آیت 176، تو وہ حقیقی اور باپ شریک بہن بھائیوں سے متعلق ہے۔ اگر بات کریں آیتوں کی ترتیب میں موجود حکمت كی کہ ماں شریک بہن بھائیوں کے حصے کو مقدم ذکر کیا گیا (سورۃ کے شروع میں باقی حصوں کے ساتھ ذکر کرنا) جبکہ حقیقی بہن بھائی اور باپ شریک بہن بھائیوں کے حصے کو مؤخر ذکر (سورۃ کے آخری حصے میں ذکر کرنا) تو اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ عرب ماں شریک بہن بھائی کے حصے میں کوتاہی کرتے تھے اور سورۃ النساء کے نام النساء سے واضح ہے کہ اس سورۃ میں اہلِ عرب عورتوں کے حقوق کے معاملے میں جن کوتاہیوں کے مرتکب تھے اسے نہ صرف بخوبی واضح کیا گیا ہے بلکہ اس کے تدارک کے لیے احکام دیے گئے ہیں۔ جبکہ غامدی صاحب کے اختیار کردہ مفہوم کی روشنی میں زیر نظر آیت میں ماموں اور پھوپھی کے بہن بھائی مراد ہیں نہ کہ مرنے والے کے بہن بھائی اور يہ بات آیات کے سیاق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ رہی بات حقیقی بہن بھائیوں کے حصے کو سورۃ کے آخر میں علیحدہ سے ذکر کرنے کی تو وہ بھی سورۃ کے نظم میں جمال لیے ہوئے ہیں، وہ اس طرح کہ سورۃ النساء کے شروع میں نسلِ انسانی کی ابتدا کی بات تھی (يا أيہا الناس اتقوا ربكم الذی خلقكم من نفس واحدۃ وخلق منہا زوجہا وبث منہما رجالا كثيرا ونساء) اور سورت کے آخر میں نسلِ انسانی کے اختتام کی طرف اشارہ ان الفاظ میں موجود ہے: إن امرؤ ہلك ليس لہ ولد۔
بات یہ ہے کہ جس چیز کا وہ اپنے علم کے ذریعے احاطہ نہیں کر سکے اسے انہوں نے جھٹلا دیا بل كذبوا بما لم يحيطوا بعلمہ (يونس 39)۔