حضرت عمرؓ کا زمانۂ خلافت ہے اور ابو سفیان، عکرمہ بن ابی جہل، حارث بن ہشام، سہیل بن عمرو، صفوان بن امیہ (رضی اللہ عنہم) یہ سارے سردار مکے کے، آپؓ کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں۔ اتنے میں حضرت بلالؓ آئے، تو آپؓ نے کہا آپ لوگ تھوڑا پیچھے ہو جاؤ۔ پھر حضرت سلمانؓ آ گئے، آپؓ نے کہا آپ لوگ تھوڑا پیچھے ہو جاؤ۔ پھر مقدادؓ آ گئے، آپؓ نے کہا آپ لوگ تھوڑا پیچھے ہو جاؤ۔ پھر ابو ہریرہؓ آئے، آپ نے کہا آپ لوگ تھوڑا پیچھے ہو جاؤ۔ حضرت سلمان فارسیؓ آ گئے، آپؓ نے کہا آپ لوگ تھوڑا پیچھے ہو جاؤ۔ جیسے جیسے پرانے صحابہؓ آتے گئے، اُن کو ہٹاتے ہٹاتے جوتیوں تک پہنچا دیا۔
تو وہ غصے سے اٹھ کر باہر نکل گئے، اور ابو سفیانؓ کہنے لگے، یہ کِیا کیا ہے عمرؓ نے ہمارے ساتھ؟ غلاموں کو آگے بٹھایا ہے اور ہمیں جوتوں پر بٹھا دیا۔ تو سہیل بن عمروؓ کہنے لگے، ابو سفیان! عمرؓ کا قصور نہیں، ہمارا قصور ہے۔ ہم نے اسلام لانے میں دیر کی، انہوں نے جلدی کی، وہ آگے نکل گئے۔
ا ب یہ سردارانِ مکہ ہیں اور یہ فتحِ مکہ پہ ایمان لائے ہیں، لمبا زمانۂ صحبت بھی نہیں ہے، قربان جاؤں۔ سارے آپس میں کہنے لگے، اگر جنت میں بھی پیچھے رہ گئے تو کیا بنے گا؟ سبحان اللہ۔ تو سارے واپس آ گئے۔ کہنے لگے عمرؓ! جو تو نے کیا ہمارے ساتھ، ٹھیک ہے۔ لیکن ہمیں فکر یہ ہے کہ اگر ہم جنت میں بھی ایسے ہی اس طرح تمہارے پیچھے رہ گئے تو ہمارا کیا بنے گا؟ کوئی راستہ بتاؤ کہ ہم تم سے آگے تو نہیں نکل سکتے، برابر تو ہو جائیں۔ (اللہ کے نبیؐ نے) افراد تیار کیے، افراد۔
آپؓ نے فرمایا کہ تم اللہ کے راستے میں نکل جاؤ، جس طرح وہ نکلے تھے، تم بھی نکل جاؤ، اپنی جانوں کے نذرانے دو تو ان شاء اللہ ہمارے ساتھ ہو جاؤ گے۔ انہوں نے کہا، ٹھیک ہے۔
تو یہ سارے حضرات مکہ آئے اور انہوں نے مکہ چھوڑا۔ اور چار سو قریشی نوجوان، انہوں نے ہجرت کی، ملکِ شام میں جہاد ہو رہا تھا۔ حارث بن ہشامؓ کون ہیں؟ یہ ابو جہل کے چھوٹے بھائی ہیں، یہ ایمان لے آئے تھے فتح مکہ پر۔ ان کو چھوڑنے کے لیے مکے کا بچہ بچہ باہر نکلا۔ اور جب وہ مکے سے باہر آگئے تو سب رونے لگے کہ یہ تو اب واپس نہیں آئیں گے۔ تو حضرت حارثؓ کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ میں تمہارا رونا دیکھ رہا ہوں، اللہ کی قسم! مکے سے محبوب کوئی جگہ نہیں ہے، لیکن اللہ کے نبی کی آواز پر ہمارے نوکروں نے لبیک کہا اور وہ اتنا آگے جا چکے ہیں کہ اگر مکہ کے پہاڑ سونا بن جائیں اور میں سارے خرچ کر دوں تو میں ان کے ایک مٹھی جَو، جو انہوں نے اُس وقت اللہ کے نام پر خرچ کیا تھا، میں اس کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا، ہم اپنی جانیں دے کر شاید وہاں تک چلے جائیں۔
جب یہ لوگ پہنچے تو اجنادین کی جنگ ہو رہی تھی، اس میں اللہ تعالیٰ نے آسانی سے فتح دے دی۔ آگے یرموک کی جنگ آ گئی۔ یرموک کی جنگ میں عیسائیوں کا سردار تھا باہان اور تین لاکھ کا لشکر تھا۔ اور صحابہؓ چھتیس ہزار تھے۔ او ران کے امیر تھے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ نو دن یہ جنگ چلتی رہی، اور اس میں ایک دن ایسا ہوا کہ صحابہؓ کو رومی ہٹاتے ہٹاتے خیموں تک لے آئے۔ تو ایک دم حضرت عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے سر سے لوہے کی ٹوپی اتار کر پھینک دی۔ اور اپنی تلوار کا جو کور تھا، اس کو توڑ دیا۔ اور کہا کون ہے جو میرے ہاتھ پر موت کی بیعت کرتا ہے؟ حضرت خالدؓ اور حضرت عکرمہؓ ایک ہی قبیلہ بنو مخزوم کے ہیں۔ تو خالدؓ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا نہیں نہیں، ایسا نہ کرو، ابھی تیری ضرورت ہے۔ تو انہوں نے جھٹکا دے کر ہاتھ چھڑا کر کہا ’’الیک عنی‘‘۔ میں اس کا ادب والا ترجمہ ہی کروں گا کہ مجھ سے دور ہو جاؤ۔ لیکن انہوں نے بہت سخت لفظ استعمال کیا ’’الیک عنی‘‘ ہٹ جا پرے۔ میں وہ ترجمہ نہیں کر رہا ہوں، مقامِ ادب کی وجہ سے ۔ ’’انی و ابی کان من اشد الناس عداوۃ لرسول اللہ وافر منکم الیوم‘‘۔ ساری زندگی میں اور میرے باپ نے اللہ کے نبی کی دشمنی میں گزار دی ،اور آج جب اس داغ کو دھونے کا وقت آیا تو میں بھاگ جاؤں گا؟ میں نہیں ٹلوں گا۔
تو سب سے پہلے کس نے بیعت کی؟ ان کے بیٹے عمرو بن عکرمہؓ نے۔ اور وہ جو چار سو قریشی تھے، ان سب نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اپنی تلواروں کے کور توڑ دیے، اپنی ٹوپیاں اتار کر پھینک دیں، اور گھوڑوں سے اتر گئے، اور سینہ سپر ہو گئے، اور لڑتے لڑتے رومیوں کو پیچھے دھکیلا، اور رومیوں میں بھگدڑ مچ گئی، جونہی بھگدڑ مچی تو حضرت خالد بن ولیدؓ دوڑے دوڑے واپس آئے، عکرمہؓ کدھر ہے؟ عکرمہؓ کدھر ہے؟ کہا جی وہ پڑے ہیں۔ دیکھا تو وہ آخری سانسوں میں تھے۔ اور ان کے بیٹے عمروؓ، وہ شہید ہو چکے تھے۔ دونوں باپ بیٹا قریب قریب تھے۔ حضرت عمروؓ کو انہوں نے یہاں اپنی پنڈلی پر رکھا، اور حضرت عکرمہؓ کو گود میں لے لیا اور پانی لے کر منہ میں ٹپکایا۔
حضرت عکرمہؓ نے آنکھیں کھولیں، کہا، کون؟ کہا، میں خالد۔ کہا، کیا ہوا؟ کہا، اللہ نے آنکھیں ٹھنڈی کیں، مسلمانوں کو فتح دی۔ کہنے لگے، عمرؓ کو کہہ دینا، جو تو نے کہا تھا وہ ہم نے کر دیا، اب آگے اللہ کی مرضی، جو تو نے کہا تھا وہ ہم نے کر دیا۔ اور ان کی جان نکل گئی۔ جو تو نے کہا تھا وہ ہم نے کر دیا۔ اے عمرؓ ! جو تو نے کہا تھا وہ ہم نے کر دیا۔
اب خالد بن ولیدؓ کو غصہ آگیا، غصہ نہیں جوش آگیا۔ عرب جب خوش ہوتے تھے تو باپ کے نام سے پکارتے تھے، جب غصے ہوتے تھے تو ماں کے نام سے پکارتے تھے۔ حضرت عمرؓ کے باپ کا نام خطاب ہے اور ماں کا نام ہے حنطمہ ۔ تو حضرت خالد بن ولیدؓ نے کہا، اب حنطمہ کا بیٹا یہ نہیں کہہ سکتا کہ سرداروں نے قربانیاں نہیں دیں۔
میرے نبیؐ نے ایک نسل تیار کی۔ یہ نبیوں کے کام کا مقصد تھا کہ انسانوں کو ایسا بنانا کہ وہ اللہ کو راضی کرنے والے بنیں۔ اور اللہ کی محبوب زندگی اپنائیں۔ نکلنے کا پہلا مقصد ہی یہ ہے کہ میری ذات بنے۔ سارے جنت میں چلے جائیں اور میں جہنم میں چلا جاؤں تو مجھے کیا فائدہ ہوا؟
جنگ جاری تھی، تو اگلے دن باہان نے جبلہ بن الایہم غسانی کو بلایا۔ عرب میں دو قبیلے بدنصیب نکلے جو ایمان نہ لا سکے۔ ایک بنو غسان، ایک بنو تغلب۔ یہ دونوں عیسائی رہے، ایمان نہیں لائے۔ بنو غسان اردن میں آج بھی آباد ہیں۔ وہاں بھی ایک شہر کرک، وہاں ہماری جماعت گئی تھی، وہاں وہ کافی آباد ہیں۔ تو باہان نے اسے بلایا کہ تم ایسا کرو، تم آج اپنے عرب لشکر کو لے کر ان پر اٹیک کرو۔ عرب لوہا لوہے کو کاٹے گا۔ پھر جب تم شکست دو گے، پیچھے ہم آجائیں گے۔ تو ساٹھ ہزار تھے عرب اس میں، غسانی اور باقی ملے ہوئے۔
چونکہ آمنے سامنے لشکر تھے، تو خالد بن ولیدؓ تک یہ خبر پہنچ گئی، ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک۔ ابوعبیدہؓ اس وقت امیر بن چکے تھے، حضرت خالدؓ کو حضرت عمرؓ نے ہٹا دیا تھا۔ تو حضرت خالدؓ نے ابوعبیدہؓ سے کہا مجھے تیس آدمی دے دو، میں ان ساٹھ ہزار کا مقابلہ کروں گا۔ تو ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے، مذاق کر رہے ہو یا سنجیدہ ہو؟ کہنے لگے، تو کفر میں تو بڑا دلیر بنتا تھا، اب بزدل بنتا ہے؟ کہنے لگے کہ بزدلی کی بات نہیں ہے، انصاف کی بات ہے، اگر تم نے کوئی جوہر دکھانا ہے تو ساٹھ تو کرو، ایک کے مقابلے میں ایک ہزار۔ ابو عبیدہؓ کہنے لگے، یہ ٹھیک ہے۔ خالد! ساٹھ لے جاؤ۔
میں نے بہت تاریخ پڑھی ہے اللہ کے فضل سے، آپ نے بھی سنی ہو گی یا پڑھی ہو گی۔ کبھی دنیا میں دیکھا ہے کوئی ایسے انسانوں کا مجمع جو ساٹھ کو لے کر ساٹھ ہزار پر حملہ کرنے چل پڑے؟
تو ابو عبیدہؓ کہنے لگے خالد! تو ہی چناؤ کر لے پھر، کس کو لے جائے گا؟ کہنے لگے ابو عبیدہؓ! میں ایسے لوگوں کو اس لشکر میں جانتا ہوں کہ جب وہ کسی بات کے لیے یوں ہاتھ اٹھاتے ہیں، تو ان کے ہاتھ کبھی اللہ خالی نہیں لوٹاتا۔
یہ نبی کی محنت ہے۔ بڑے بڑے مرکز بنانا تو ضروریات میں سے ہے، کام میں سے نہیں، کام کی ضروریات میں سے ہے۔
کہا، تو بلا جس کو بلانا ہے۔ تو پہلا نام لیا این عمرو بن تمیم؟ ان فضل بن عباس؟ این زبیر بن العوام؟ این رافع بن عمیرہ الطائی؟ این عبد اللہ بن عمر؟ این عبد الرحمٰن بن ابی بکر؟ این ضرار بن الازور؟ این مقداد بن الاسود؟ این ابو ایوب الانصاری؟ این ہاشم مرقال؟ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم)۔ ساٹھ آدمیوں کے نام لیے۔ ان میں چوالیس انصاری تھے اور سولہ مہاجر تھے۔ تو ایک انصاری کہنے لگا، ہمیں مرواتے ہو، اپنوں کو بچاتے ہو؟ تو خالدؓ کہنے لگے، اللہ کی قسم، ہرگز نہیں! میں نے یہ دیکھا نبی کریمؐ کے ساتھ کہ مشکل وقت میں انصار کو آگے کرتے تھے۔ تو آج اس مشکل گھڑی میں، میں نے انہیں آگے کیا ہے۔ سب کو اکٹھا کیا اور فرمایا جاؤ آج رات تیاری کرو۔ کیا تیاری تھی؟ ساری رات یہ نفلوں میں اور رونے میں، نفلوں میں اور رونے میں۔
جب صبح ہوئی تو سب سے پہلے خالد بن ولیدؓ زرہ پہن کر باہر نکلے، تو انہوں نے دیکھا حضرت زبیر بن العوامؓ کو، ان کی بیوی حضرت اسماءؓ، ابوبکرؓ کی بیٹی، انہوں نے اپنے خاوند کے گھوڑے کی لگام پکڑی ہوئی۔ کیا عورتیں تھیں اور کیا مرد تھے۔ گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے لائیں اور زبیرؓ کو لا کر حضرت خالدؓ کے برابر کھڑا کر دیا۔ ضرار بن ازورؓ جو تھے، وہ جب لڑتے تھے تو ننگے بدن لڑتے تھے، صرف تہبند ہوتا تھا، اور کرتا بھی نہیں، بنیان بھی نہیں، اور زرہ بھی نہیں۔ کہتے، میں تو شہادت کے لیے نکلتا ہوں، میں کیوں زرہ پہنوں؟ مجھے تو شہادت چاہیے۔ اور نیزے سے لڑتے تھے، تلوار سے نہیں۔ تو وہ اسی طرح آ گئے نیزہ لیے اور ننگے بدن۔ آپؓ نے کہا، واپس جاؤ، زرہ پہنو، تلوار لے کر آؤ، آج نیزہ کام نہیں آئے گا، آج تلوار کام آئے گی۔
اور یہ ساٹھ آدمی! زمین آسمان نے آج تک ایسا منظر نہ دیکھا نہ دیکھے گی۔ جب جبلہ نے دیکھا کہ ساٹھ آدمی آ رہے ہیں۔ کہنے لگا، دیکھا ڈر گئے ہیں نا۔ اب آ رہے ہیں میرے ساتھ منتیں کرنے کہ صلح کر لو، ہم لڑنے کے قابل نہیں رہ گئے، مہربانی کرو، ہمارے ساتھ صلح کرو۔ میں بھی آج ان کو قابو کروں گا۔ اتنی بڑی شرطیں میں رکھوں گا کہ ان کے ناک زمین پر جا لگیں گے۔ جب آمنے سامنے ہو گئے، آوازیں پہنچ لگیں تو جبلہ کہنے لگا، آ گئے ہو صلح کے لیے؟ کہا، صلح، یہ کس نے کہا؟ ہم تو تمہارے سر کاٹنے آئے ہیں۔ اس نے کہا، تیرا دماغ ٹھیک ہے، تیری عقل سلامت ہے؟ تمہارے اوپر سے ہم ویسے ہی گزر جائیں تو تم ختم ہو جاؤ گے۔ کہنے لگے، شکاری جب چڑیاں پکڑتا ہے تو ایک ہوتا ہے اور ہزاروں چڑیاں پکڑ لیتا ہے، تم ہمارے لیے چڑیوں کی طرح ہو، جس کو پکڑ لیں جس کو چھوڑ دیں۔ تو اس کو بڑا طیش آیا، کہنے لگا، آخر میری رگوں میں بھی عرب کا خون ہے، میں نہیں چاہتا کہ تاریخ طعنہ دے کہ جبلہ نے ساٹھ ہزار کے ساٹھ پر حملہ کر دیا۔ کہا، پتر آؤ تو سہی پھر تمہیں پتہ چلے گا۔ تو اس کو غصہ چڑھا، کہا اٹیک کرو۔
پہلا حملہ ساٹھ پر، پیچھے ساٹھ ہزار، صف ٹوٹ نہیں سکی، صف نہیں توڑ سکے۔ پھر دوسرا حملہ ہوا، صف نہیں ٹوٹی۔ کیا لوگ تیار کیے میرے نبیؐ نے۔ اصل تو انسان سازی ہے تبلیغ کا کام۔ نبیوں کا کام انسان سازی ہے۔ ایسا انسان بنے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی نظر اس پر پڑتی رہے۔ تیسرا حملہ کیا تو صف ٹوٹ گئی۔ خالد بن ولیدؓ نے اعلان کیا کہ چھ چھ ہو جاؤ۔ اپنی کمر ملا لو اور چھ چھ کی ٹولی بنا لو۔ دس چھ، ساٹھ۔ دس ٹولیاں بن گئیں۔ خالد بن ولیدؓ کے ساتھ تھے فضل بن عباسؓ، زبیر بن العوامؓ، عبد الرحمٰن بن ابو بکرؓ، ضرار بن ازورؓ اور رافع بن عمیرہ الطائیؓ۔ یہ چھ آدمی حضرت خالدؓ کے ٹولے میں تھے۔ اور پورا زور لگا رہے تھے عیسائی عرب خالدؓ کو قتل کرنے کے لیے، کہ یہ مارا گیا تو پھر کام بن جائے گا۔
تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ صدقے جاؤں میں ان چھ آدمیوں کے، اور خاص طور پر فضل بن عباسؓ اور زبیر بن العوامؓ پر، کہ بیس دفعہ حملہ کیا عرب عیسائیوں نے خالدؓ کو قتل کرنے کے لیے، اور صرف فضل بن عباسؓ اور زبیرؓ بن العوامؓ نے ان ہزاروں کا منہ پھیر دیا۔ اور فضل بن عباسؓ کہتے تھے ’’یامعاشر الکلاب‘‘ … اصحابِ رسول سے ہٹ جاؤ، اصحابِ رسول سے ہٹ جاؤ۔ اور شرحبیل بن حسنہؓ زو رزور سے قرآن (پڑھ رہے تھے)۔ کہاں پڑھا جاتا تھا اور کہاں پڑھا جا رہا ہے۔ ختموں پر قرآن پڑھو، میت پر قرآن پڑھو۔ وہ زور زور سے تلاوت کر رہے تھے:
ان اللہ اشتریٰ من المؤمنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ یقاتلون فی سبیل اللہ فیقتلون ویقتلون وعدا علیہ حقا فی التوراۃ والانجیل والقرآن ومن اوفیٰ بعھدہ من اللہ فاستبشروا ببیعکم الذی بایعتم بہ وذالک ھو الفوز العظیم۔ (التوبۃ ۱۱۱)
قرآن پڑھنے کا بھی مزا آئے اور سننے کا بھی مزا آئے۔ عصر قریب ہوئی تو ابو عبیدہؓ کہنے لگے، خالدؓ نے ہلاک کر دیا، خالدؓ نے صحابہؓ کو ہلاک کر دیا، میں عمرؓ کو کیا جواب دوں گا، نکلو سب۔ ابو سفیانؓ کہنے لگے، ابو عبیدہؓ! اب نہیں نکلنا۔ ان کی موت بھی کامیابی ہے۔ اب یہ بزدلی ہے، صبر کرو، انتظار کرو۔ عصر ڈھلی تو ایک خوفناک چیخ کی آواز آئی اور عرب عیسائیوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بھاگ نکلے۔ اور سورج ڈوب چکا تھا۔ وہ بھاگ نکلے تو آپؓ نے اعلان کیا کہ کوئی بھاگنے والوں کے پیچھے نہ جائے۔
تو جب کھڑے ہوئے تو دیکھا بیس آدمی۔ تو حضرت خالد بن ولیدؓ ایسے اپنا ماتھا پیٹنے لگے کہ ہائے ہائے، میں نے اصحابِ رسول کو ہلاک کر دیا، اب میں عمرؓ کو کیا جواب دوں گا۔ تو حضرت رافعؓ نے کہا کہ ایسا کرو کہ دیکھو یہ جو میتیں ہیں ان میں ہمارے آدمی کتنے مرے ہیں؟ تو مشعلیں لے کر آئے اور سارے مرے ہوؤں کا جائزہ لیا تو ٹوٹل دس صحابہؓ شہید ہوئے تھے، اور ان کے پانچ ہزار مرے پڑے تھے۔ وہ کہنے لگے بیس اور دس (ہوئے) تیس۔ باقی تیس کہاں گئے؟ تو حضرت مقدادؓ کہنے لگے کہ لگتا ہے وہ ان کے تعاقب میں پیچھے چلے گئے ہیں۔ تو ابو عبیدہؓ کہنے لگے، کون جائے گا ان کے لیے؟ خالدؓ کہنے لگے، میں جاؤں گا۔ کہنے لگے، تو بہت تھک گیا ہے، آرام کر لے۔ کہنے لگے، آرام تو اکٹھا جنت میں ہی ہو گا۔ میں جاؤں گا۔ تھوڑی دور گئے تو سامنے سے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی تو خالد بن ولیدؓ نے تکبیر پڑھی، اللہ اکبر! تو ادھر سے تکبیر کی آواز آئی، فضل بن عباسؓ کی آواز تھی، اللہ اکبر! تو دیکھا کہ وہ وہاں سے واپس آ رہے تھے۔ کہا، تم لوگوں نے میری آواز نہیں سنی کہ پیچھے نہیں جانا۔ کہا، نہیں ہم نے نہیں سنی، ہم نے کہا (بس) دھکیل دیں ان کو۔
آئے عشاق، گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
تھے ہمیں ایک تیرے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے، کبھی دریاؤں میں
دی اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیرِ خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
ایک امت تیار کی، ہم اسی امت کا حصہ ہیں، اسی امت کا حصہ ہیں، ہم بھول گئے کہ ہم نے اچھا انسان بننا ہے، ہم نے عالم تک پیغام پہنچانا ہے، ان کو بھی اچھا انسان بننے پہ لانا ہے۔