اتحادِ مذاہب کی دعوت اور سعودی علماء کا فتویٰ

تمام تعریفیں صرف اللہ کے لیے ہیں، اور درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپؐ کے اہل و عیال، صحابہ اور ان لوگوں پر جو قیامت تک آپؐ کی راستبازی سے پیروی کرتے ہیں۔

’’مستقل کمیٹی برائے اسلامی تحقیق و افتاء‘‘ نے ان استفسارات، آراء اور مضامین کا جائزہ لیا ہے جو ذرائع ابلاغ میں ’’مذاہب کے اتحاد کی دعوت‘‘ یعنی اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے حوالے سے پھیلائے جا رہے ہیں؛ اور اس بات کا مطالعہ کیا ہے کہ اس دعوت سے کیا مطلب لیا جا رہا ہے:

  • ایک ہی جگہ پر مسجد، چرچ اور یہودی عبادت گاہ کی تعمیر کرنا خاص طور پر یونیورسٹیوں، ہوائی اڈوں اور عوامی مقامات وغیرہ میں، 
  • قرآن مجید، تورات اور بائبل کو ایک کتاب میں چھاپنا، 
  • کانفرنسوں، اجتماعات اور مشرق و مغرب میں ہونے والے مطالبات کی صورت میں ایسی دعوت کے دیگر نتائج۔

جامع مطالعہ کے بعد کمیٹی مندرجہ ذیل موقف پیش کرتی ہے: 

اسلام میں ایمان کے بنیادی اصولوں میں سے ایک، جو دین کے ایک لازمی حصے کے طور پر جانا جاتا ہے اور جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے، یہ ہے کہ زمین پر اسلام کے سوا کوئی سچا دین نہیں ہے، اور یہ آخری دین ہے جس نے تمام سابقہ ​​مذاہب اور عقائد کو منسوخ کر دیا ہے۔ لہٰذا زمین پر اسلام کے سوا کوئی دوسرا مذہب باقی نہیں ہے جس کے ذریعے اللہ کی عبادت کی جا سکے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔‘‘ (آل عمران ۸۵)

اسلام میں ایمان کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ کی کتاب (قرآن مجید) آخری کتاب ہے جو رب العالمین نے نازل فرمائی ہے۔ اس نے ان تمام کتابوں کو منسوخ کر دیا جو اللہ نے اس سے پہلے نازل کی تھیں، جیسے کہ تورات، زبور اور انجیل۔ اور اس طرح کوئی دوسری کتاب باقی نہیں رہی جس کے ذریعے اللہ کی عبادت کی جا سکے سوائے قرآن کے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’اور ہم نے تم پر (اے محمد!) کتاب (القرآن) حق کے ساتھ نازل کی ہے، جو اس سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور ان پر نگہبان ہے۔ پس تم ان کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے، اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔‘‘ (المائدۃ ۴۸)

ہمارا عقیدہ ہے کہ تورات اور انجیل دونوں کو قرآن نے منسوخ کر دیا ہے، اور یہ کہ ان کے پیروکاروں نے ان میں اضافے یا حذف کے ذریعے تبدیلیاں کی ہیں۔ اس کا ذکر اللہ کی کتاب قرآن مجید کی بعض آیات میں ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے قرآن میں فرماتا ہے:

’’تو ان کے عہد کو توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کر دیے۔ وہ کلام کو اس کی جگہ سے بدل دیتے ہیں اور اس نصیحت کا ایک بڑا حصہ بھول گئے ہیں جو انہیں بھیجی گئی تھی۔ اور تم ان میں ہمیشہ دھوکہ بازی پاتے رہو گے، سوائے ان میں سے تھوڑے سے لوگوں کے۔‘‘ (المائدۃ ۱۳)
’’پس ان لوگوں پر افسوس ہے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعے کچھ قیمت حاصل کریں۔ ان کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی چیز کے لیے ان پر افسوس ہے اور جو کچھ وہ کماتے ہیں اس کے لیے ان پر افسوس ہے۔‘‘
’’اور بے شک ان میں سے ایک جماعت ایسی ہے جو کتاب کو اپنی زبان سے مروڑتے ہیں (جب وہ پڑھتے ہیں)، تاکہ تم سمجھو کہ یہ کتاب میں سے ہے، لیکن وہ کتاب میں سے نہیں ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، لیکن یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے، اور وہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں۔‘‘ (آل عمران ۷۸)

چنانچہ ان کتابوں میں جو کچھ صحیح بھی سمجھا جاتا ہے وہ بھی اسلام نے منسوخ کر دیا ہے۔ باقی حصے تبدیل شدہ ہیں۔ یہ مندرجہ ذیل واقعہ سے ثابت ہوتا ہے:

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت غصے میں آگئے جب انہوں نے (حضرت) عمر بن الخطابؓ کو ایک ورق پکڑے ہوئے دیکھا جس میں تورات کی کچھ آیات تھیں۔ آپؐ نے ان سے فرمایا: اے عمر! کیا تم شک میں ہو؟ کیا میں (وحی) سفیدی کی طرح واضح نہیں لے کر آیا؟ اگر میرا بھائی موسٰیؑ زندہ ہوتا تو وہ بھی میری پیروی کرتا۔‘‘ (احمد، الدارمی اور دیگر سے مروی)

اسلام میں ایمان کا ایک اور بنیادی اصول یہ ہے کہ ہمارے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء اور رسولوں کے خاتَم ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے آخر (خاتَم) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔‘‘ (الاحزاب ۴۰)

اس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور رسول کی پیروی نہیں کی جا سکتی۔ اگر اللہ کے کوئی نبی اور رسول زندہ ہوتے تو وہ بھی اپنے پیروکاروں سمیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’اور (یاد کرو) جب اللہ نے انبیاء سے عہد لیا کہ ’جو کچھ میں نے تمہیں کتاب اور حکمت (اللہ کے قوانین کی سمجھ وغیرہ) سے دیا ہے، پھر تمہارے پاس ایک رسول (محمدؐ) آئے جو تمہارے پاس جو کچھ ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہو، تم ضرور اس پر ایمان لاؤ اور ضرور اس کی مدد کرو ۔‘ اللہ نے فرمایا، ’کیا تم (اس کا) اقرار کرتے ہو اور میرا عہد قبول کرتے ہو (جو میں نے تم سے کیا ہے)؟‘ انہوں نے کہا، ’ہم نے اقرار کیا۔‘ فرمایا، ’پھر گواہ رہو اور میں بھی (اس پر) تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔‘ ‘‘ (آل عمران ۸۱)

جب اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام بعد کے زمانے میں آئیں گے تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق حکومت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’جو لوگ رسول کی پیروی کرتے ہیں، جو اُمی نبی ہے، جسے وہ اپنے پاس تورات (Deut. XVIII, 15) اور انجیل (Gospel of John XIV, 16) میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔‘‘ (الاعراف ۱۵۷)

اس کے علاوہ اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے ایک یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لیے بھیجے گئے تھے، اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’(اے محمد!) کہہ دیجیے کہ اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ (الاعراف ۱۵۸)

اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ جو یہودی یا عیسائی اسلام قبول نہیں کرتا اسے کافر (ماننے) کے ساتھ ساتھ اللہ، اس کے رسولوں اور مومنین کا دشمن سمجھا اور قرار دیا جانا چاہیے، اور ایسے لوگ اللہ کے فرمان کے مطابق جہنم والے ہوں گے:

’’جنہوں نے کفر کیا اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) اور مشرکین میں سے، تب تک (کفر سے) باز نہ آنے والے تھے جب تک ان کے پاس واضح دلیل نہ آجائے۔‘‘ (البینۃ ۱)

اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’بے شک جنہوں نے کفر کیا اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) اور مشرکین میں سے، جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے، وہ بدترین مخلوق ہیں۔‘‘ (البینۃ ۶)

صحیح مسلم میں مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اس امت کا کوئی بھی فرد، خواہ یہودی ہو یا عیسائی، جس نے میرے بارے میں سنا اور مجھ پر جو نازل ہوا اس پر ایمان لائے بغیر مر گیا، وہ جہنم والوں میں سے ہو گا۔‘‘

مندرجہ بالا کی بنیاد پر، جو شخص یہودیوں اور عیسائیوں کے کفر کو نہیں مانتا وہ خود شرعی اصول کے مطابق کافر ہو گا۔ مذاہب کے اتحاد کی دعوت کی غرض سے اسلامی عقیدے کے بنیادی اصولوں اور اسلامی قانون (شریعت) کے حقائق کو مسخ کرتے ہوئے انہیں آپس میں ملانا اور ایک سانچے میں ڈھالنا ایک بری دعوت ہے۔ اس کا مقصد حق کو باطل کے ساتھ ملانا، اسلام کو تباہ کرنا، اس کی بنیادوں کو ڈھانا، اور تمام مسلمانوں کو واضح ارتداد (رِدَّہ) کی طرف لے جانا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول میں دیکھا جا سکتا ہے:

’’اور وہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ تمہیں تمہارے دین (اسلامی توحید) سے پھیر دیں اگر ان کا بس چلے۔‘‘ (البقرۃ ۲۱۷)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’وہ چاہتے ہیں کہ تم کفر کرو جیسا کہ وہ کر چکے ہیں، تو تم برابر ہو جاؤ (ایک دوسرے کی طرح)۔‘‘ (النساء ۸۹)

ایسی بری دعوتوں کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اسلام اور کفر، حق اور باطل کے درمیان اختلافات کو ختم کرنا، اور نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کی مکمل نفی۔ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان فرق کی حدود کو مٹانا تاکہ نہ کوئی وفاداری ہو، نہ جہاد ہو، نہ اللہ کے کلام کو زمین پر بلند کرنے کے لیے کوئی جدوجہد ہو۔ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے:

’’ان لوگوں سے لڑو جو (۱) اللہ پر ایمان نہیں لاتے، (۲) نہ یوم آخرت پر، (۳) نہ اس چیز کو حرام مانتے ہیں جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے، (۴) جو اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) میں سے سچے دین (یعنی اسلام) کو نہیں مانتے، یہاں تک کہ وہ جزیہ ادا کرنا قبول کریں اور محکوم ہو جائیں۔‘‘ (التوبۃ ۲۹)
’’اور مشرکین سے اجتماعی طور پر لڑو جس طرح وہ تم سے اجتماعی طور پر لڑتے ہیں۔ لیکن جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔‘‘ (التوبۃ ۳۶)

اگر یہ (اتحاد کی) دعوت کسی مسلمان سے صادر ہوتی تو اسے اسلام سے صریح ارتداد سمجھا جاتا، کیونکہ یہ اسلامی عقیدے کے اصولوں سے متصادم ہے، اور اللہ کے بارے میں کفر کو قبول کرنا ہے۔ یہ دعوت اس چیز کو منسوخ کرتی ہے جو قرآن سے سچ ثابت ہوئی ہے، اور اس بات سے انکار کرتی ہے کہ قرآن نے اس سے پہلے کی تمام کتابوں کو منسوخ کر دیا ہے، اور اس بات کی بھی نفی کرتی ہے کہ اسلام نے تمام سابقہ ​​مذاہب کو منسوخ کر دیا ہے۔ 

اس بنیاد پر اتحاد کی دعوت کو شریعت کے مطابق مسترد کر دیا گیا ہے اور قرآن، سنت اور اجماع میں اسلام کے تمام شواہد کی رو سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا کی بنیاد پر کسی مسلمان کے لیے جو اللہ کو رب (خالق،رازق،مالک) کے طور پر، اسلام کو دین کے طور پر، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور رسول کے طور پر مانتا ہے، اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اس مکروہ عقیدے کی دعوت دے، یا دوسروں کو اس میں شامل ہونے کی ترغیب دے، یا اسے دوسرے مسلمانوں میں پھیلائے، چہ جائیکہ اسے قبول کرنا، اس کی کانفرنسوں یا اجتماعات میں شرکت کرنا اور اس کی مجالس سے وابستہ ہونا۔ کسی مسلمان کے لیے تورات اور انجیل کو آزادانہ طور پر چھاپنا بھی منع ہے۔ تو یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ انہیں قرآن کے ساتھ ایک کتاب میں چھاپا جائے؟

چنانچہ جو شخص ایسا کرتا ہے یا اس کی دعوت دیتا ہے، وہ (راہ راست سے) بہت دور بھٹک گیا ہے، کیونکہ یہ حق (قرآن مجید) کو تورات اور انجیل کی تبدیل شدہ یا منسوخ شدہ کتابوں کے ساتھ ملانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کسی مسلمان کے لیے ایک عمارت کے اندر (مسجد، چرچ اور مندر کی) تعمیر کی اس دعوت کا (مثبت) جواب دینا جائز نہیں، کیونکہ اس کا مطلب یہ اعتراف کرنا ہے کہ اسلام کے علاوہ بھی ایسے مذاہب ہیں جن کے ذریعے اللہ کی عبادت کی جا سکتی ہے۔ اس میں اس بات کا انکار بھی شامل ہو گا کہ اسلام دوسرے تمام مذاہب سے پاکیزہ ترین ہے۔ اس کا مطلب یہ سنگین اعتراف ہو گا کہ مذاہب تین ہیں اور زمین پر لوگ ان میں سے جو چاہیں یکساں طور پر اختیار کر سکتے ہیں، اور یہ کہ اسلام نے ان مذاہب کو منسوخ نہیں کیا جو اس سے پہلے تھے۔

بلاشبہ اس دعوت کی منظوری، اس پر یقین، یا اسے قبول کرنا کفر اور صریح غلطی سمجھی جائے گی کیونکہ یہ قرآن مجید، سنت طیبہ اور مسلم اجماع سے واضح طور پر متصادم ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو گا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی جانب سے کی گئی تبدیلیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ مزید یہ کہ گرجا گھروں کو  اللہ کے گھر کہنا جائز نہیں کیونکہ عیسائی ایسی صحیح عبادت نہیں کرتے جو اللہ کے ہاں قبول ہو، اور یہ ایسی عبادت ہے جو اسلام پر مبنی نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔‘‘ (آل عمران ۸۵)

بلکہ وہ (گرجا گھر) ایسے گھر ہیں جہاں اللہ کے ساتھ کفر کیا جاتا ہے۔ ہم کفر اور اس سے تعلق رکھنے والوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجموع الفتاویٰ ۱۶۲/۲۲ میں اس طرح بیان کیا ہے:

’’گرجا گھر اور یہودی عبادت گاہیں اللہ کے گھر نہیں ہیں بلکہ اللہ کے گھر مساجد ہیں۔ بلکہ وہ (گرجا گھر اور یہودی عبادت گاہیں) کفر کے گھر ہیں اگرچہ ان میں اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ گھر لوگوں کے عقیدے کے مطابق سمجھے جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسترد کر دیا اور اس طرح وہ کافر ہیں، لہٰذا ان کے گھر صرف کافروں کی عبادت کے لیے مخصوص گھر ہیں۔‘‘

یہ بات قابل ذکر ہے کہ عمومی طور پر کفار اور خاص طور پر اہل کتاب کو اسلام کی دعوت دینا تمام مسلمانوں پر فرض ہے جیسا کہ ہماری عظیم کتاب  قرآن اور سنت کے واضح نصوص میں ہے۔ تاہم صرف نرم الفاظ اور ٹھوس دلائل کے ذریعے ہی مائل کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال یہ اس شرط پر کیا جانا چاہیے کہ اسلام کے کسی حکم کو نہ چھوڑا جائے، تاکہ وہ یا تو اسلام سے قائل ہو کر اسے قبول کر لیں، یا اسے رد کر دیں اور واضح انتباہ کے بعد (کفر پر) مر جائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’(اے محمد!) کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب! (یہود و نصاریٰ) ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہم میں اور تم میں یکساں ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اور نہ ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں، اور نہ ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا دوسروں کو رب بنائے۔ پھر اگر وہ منہ پھیر لیں تو کہہ دیجیے کہ ’گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔‘‘‘ (آل عمران ۶۴)

تاہم، ان کے ساتھ مباحثے، ملاقاتیں اور بات چیت، جو انہیں ان کی خواہشات کو حاصل کرنے، ان کے مقاصد کو پورا کرنے، اسلام کے بندھنوں کو توڑنے، اور اسلامی عقیدے کے بنیادی اصولوں کو کمزور کرنے کی غرض سے منعقد کیے جاتے ہیں، سب باطل قرار دیے جاتے ہیں، جو کہ اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اور تمام مومنین کے نزدیک مردود ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو اور ان سے بچو کہ کہیں وہ تمہیں (اے محمد!) اللہ کے نازل کردہ میں سے بعض سے دور نہ کر دیں۔‘‘ (المائدۃ ۴۹)

کمیٹی (اس مسئلہ کا) حل پیش کرتے ہوئے اور فیصلے کو سب کے لیے جاری کرتے ہوئے، تمام مسلمانوں سے بالعموم اور علماء سے بالخصوص، اللہ سے ڈرنے، اسلام کی حفاظت کرنے، مسلم عقیدے کو غلطی سے بچانے، اور اس کی دعوت دینے والوں کو غلطی اور کفر سے بچانے کا تقاضہ کرتی ہے۔ اور ان سے اس (مذاہب کے اتحاد کی) واضح دعوت برائے کفر اور اس کے جال میں پھنسنے سے بچنے کے لیے احتیاط برتنے کی بھی تاکید کرتی ہے۔

ہم ہر مسلمان کے لیے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ وہ ایسی غلطی کو مسلم اقوام تک پہنچانے اور ان میں پھیلانے کا سبب بنے۔ ہم اللہ سے اس کے اعلیٰ ناموں اور صفات کے ذریعے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ان گمراہ کن آفتوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں ہدایت یافتہ بنائے اور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والا بنائے، اور ہمیں ہمارے رب سے (ملنے والی) روشنی اور رہنمائی سے اسلام کے محافظ بنائے یہاں تک کہ ہم اس سے جا ملیں اور وہ ہم سے راضی ہو۔

وہ کامیابی عطا کرنے والا ہے، اور اس کا سلام ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ان کے اہل و عیال اور ان کے تمام صحابہ پر ہو۔


صدارت اسلامی تحقیق و افتاء، ریاض، مملکت سعودی عرب — علماء کی اعلیٰ کونسل کی نگرانی میں — جو (اُس وقت) عبدالعزیز بن باز (صدر)، عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ عبداللہ (نائب صدر)، صالح بن فوزان الفوزان (رکن) اور بکر بن عبد اللہ ابو زید (رکن) تھے۔ فتویٰ نمبر: 19402، تاریخ: 25 محرم 1418ھ۔

https://sunnahonline.com


مذاہب عالم

(الشریعہ — اپریل ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اپریل ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۴

انبیاء کی اہانت کا جرم اور عالمی برادری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ خلافِ شریعت ہے
ڈاکٹر محمد امین

تحکیم سے متعلق حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ کے مواقف کا مطالعہ اور خوارج کا قصہ
علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھیؒ
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

مذہبی شناختیں: تاریخی صورتحال اور درپیش چیلنجز
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

اقبال: پاکستانی جوہری توانائی منصوبے کا معمارِ اوّل
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

عید کا تہوار اور شوال کے روزے
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

موجودہ عرف و حالات کے تناظر میں نمازِ جمعہ کیلئے شہر کی شرط
مفتی سید انور شاہ

وطن کا ہر جواں فولاد کی دیوار ہو جائے
سید سلمان گیلانی

بین الاقوامی معیارات اور توہینِ مذہب کے قوانین پر رپورٹ
انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن ہیومن رائٹس انسٹیٹیوٹ

Blasphemy Against Prophets and the International Community
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۳)
ڈاکٹر محی الدین غازی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۲)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۳)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

ماہانہ بلاگ

’’نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے‘‘
مولانا طارق جمیل

اتحادِ مذاہب کی دعوت اور سعودی علماء کا فتویٰ
سنہ آن لائن

امام ترمذیؒ، ایک منفرد محدث و محقق
ایم ایم ادیب

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

فقہی منہاج میں استدلال کے سقم اور اہلِ فلسطین کے لیے استطاعت کی شرط
ڈاکٹر عرفان شہزاد

تراث، وراثت اور غامدی صاحب
حسان بن علی

غزہ کے لیے عرب منصوبہ: رکاوٹیں اور امکانات
عرب سینٹر ڈی سی

غزہ کی خاموش وبا
الجزیرہ
حدیل عواد

حافظ حسین احمد بھی چل بسے
سید علی محی الدین شاہ

حافظ حسین احمد، صدیوں تجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
مولانا حافظ خرم شہزاد

دارالعلوم جامعہ حقانیہ کا دورہ / یومِ تکمیلِ نظریہ پاکستان
پاکستان شریعت کونسل

ماہنامہ ’’الحق‘‘ کا مولانا عبد القیوم حقانی نمبر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہنامہ ’’الحق‘‘ کا خصوصی نمبر دو جلدوں میں
ڈاکٹر محمد امین

ماہنامہ نصرۃ العلوم کا فکرِ شاہ ولی اللہؒ نمبر
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

مولانا عبد القیوم حقانی کی تصانیف
ادارہ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter