ملی مجلس شرعی، جو سارے دینی مکاتب فکر کا ایک مشترکہ علمی پلیٹ فارم ہے، اس کے صدر مولانا زاہد الراشدی صاحب نے لاہور ہائی کورٹ کے ناجائز بچی کے نان و نفقہ کے حوالے سے متنازعہ فیصلہ کا جائزہ لینے کے لیے مفتی ڈاکٹر کریم خاں صاحب (جامعہ علمیہ، درس نظامی و پی ایچ ڈی علوم اسلامیہ)، مولانا حافظ ڈاکٹر حسن مدنی صاحب (جامعہ لاہور الاسلامیہ، درس نظامی و پی ایچ ڈی علوم اسلامیہ)، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (جماعت اسلامی، ایل ایل بی و پی ایچ ڈی علوم اسلامیہ)، مولانا مفتی شاہد عبید صاحب (جامعہ اشرفیہ، درس نظامی)، مولانا حافظ محمد عمران طحاوی صاحب (درس نظامی و پی ایچ ڈی سکالر علومِ اسلامیہ)، اور سیدہ عظمیٰ گیلانی صاحبہ (ایل ایل ایم، وکیل ہائی کورٹ لاہور) پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی اور پروفیسر ڈاکٹر محمد امین (پی ایچ ڈی علوم اسلامیہ [فقہ و اصول فقہ]) کو اس کا کنوینر مقرر کیا۔
کمیٹی کا اجلاس بروز ہفتہ ۲۲ مارچ ۲۰۲۵ء صبح ۱۱ بجے مجلس کے کیمپ آفس علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں ہوا جس میں حاضر ارکان کے علاوہ مفتی شاہد عبید صاحب اور سید عظمیٰ گیلانی صاحبہ نے آن لائن شرکت کی۔ لاہور ہائی کورٹ کے مجوزہ فیصلے کا جائزہ لینے کے بعد کمیٹی نے اتفاق رائے سے مندرجہ ذیل اعلامیہ جاری کیا:
لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ مندرجہ ذیل حقائق کی بناء پر خلافِ شریعت ہے:
۱۔ ایف آئی آر مدعیہ کی طرف سے دفعہ 376 و 109 کے تحت کٹوائی گئی تھی یعنی یہ زنا بالجبر و دہشت گردی کا کیس تھا۔ زنا بالجبر آئینِ پاکستان کی رو سے حد ہے لہٰذا ایف آئی آر کا اندراج حدود قوانین کے تحت ہونا چاہیے تھا اور کیس وفاقی شرعی عدالت کو سننا چاہیے تھا لیکن پولیس نے اسے زنا بالجبر و دہشت گردی کی دفعات کے تحت رجسٹر کیا جس کی رو سے یہ کیس سیشن عدالت یا دہشت گردی کی عدالت میں سنا جانا چاہیے تھا لیکن خاتون کے وکلاء نے غلطی سے یا عمداً اسے مدعیہ کی ناجائز بیٹی کی طرف سے نان و نفقہ کا کیس بنا کر فیملی کورٹ میں پیش کر دیا کہ مدعا علیہ بچی کا ’’بایولاجیکل فادر‘‘ ہے لہٰذا وہ بچی کے نان و نفقہ کا پابند ہے۔ ’’بایو لوجیکل فادر‘‘ کی اصطلاح کا استعمال یہاں غلط تھا کیونکہ بچی کا باپ یا تو نکاح ہونے کی صورت میں بچی کا جائز اور قانونی باپ ہو سکتا ہے یا نکاح نہ ہونے کی صورت میں زانی، ناجائز اور غیر قانونی باپ۔ اور اس صورت میں شرع اسلامی کی رو سے ناجائز بچی نہ اس زانی باپ سے نان و نفقہ کی مستحق ہے {FR 338} اور نہ وراثت کی بلکہ اس کی پرورش ریاست کی ذمہ داری ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے بحیثیت سربراہ ریاست اُس وقت ناجائز بچی کی پرورش ایک ایسے مسلمان کو سونپ دی تھی جو اس پر راضی تھا۔ {FR 339}
۲۔ نیز اگر بچی نکاح کے بغیر پیدا ہوئی تھی تو زنا کے ثابت ہونے کے بعد زانی والد کو زنا بالجبر یا دہشت گردی (جسے شرع اسلامی میں ’حرابہ‘ {FR 340} کہا جاتا ہے) کی سزا ملنی چاہیے تھی لیکن یہ ثابت کرنا فیملی کورٹ کا دائرۂ اختیار ہی نہیں تھا: اس کے باوجود فیملی کورٹ نے بغیر کسی ثبوت کے اور باپ کے اس مؤقف کے باوجود کہ وہ اس بچی کا نہ شرعی والد ہے اور نہ غیر شرعی، اسے بچی کا ’’بایولاجیکل فادر‘‘ قرار دے کر اسے تین ہزارر وپے خرچہ/نان و نفقہ قرار دینے کا فیصلہ سنا دیا۔
فیملی کورٹ کے اختیارات میں قانون شہادت کا اطلاق نہیں ہوتا اس لیے فیملی کورٹ ایکٹ کے سیکشن 17A کے تحت یا علاوہ ازیں مکمل فیملی ٹرائل کے تحت اس کیس یا اس جیسے کسی بھی کیس میں فیصلہ دینا ممکن نہیں جب تک حدود آرڈیننس کے تحت تفصیلی شہادت کے ساتھ مدعیہ / مدعا علیہ کا موقف ثابت نہ ہو جائے۔
نیز فیملی کورٹ ایکٹ کے شیڈول I (ایک) کے تحت صرف قانونی و شرعی شادی سے ثابت شدہ رشتے ہی ماں اور ماں کے ساتھ رہنے والے بچے شمار ہو سکتے ہیں۔ نیز عدالت نے فیملی کورٹ سے اگر ولدیت کا تعین کروانا تھا تو 2020ء سے دائر ایف آئی آر کی مستغیثہ کو کیوں واضح دادرسی نہیں دلائی؟
اسلامی شریعت کے تحت پہلے یہ معاملہ طے کرنا ضروری ہے کہ نو مولود / نابالغہ جائز اولاد ہے یا ناجائز؟ نیز یہ کہ مسئلہ صرف نان و نفقہ کا نہیں بلکہ ناجائز اولاد کا دھبہ لگ جانا نومولود کا اصل مسئلہ ہے؟ اس لیے لازم ہے کہ ہر پاکستانی عدالت مکمل اختیارات کے تحت شرعی طریقے سے جڑنے والے رشتوں (والدین اور بچے) کو تحفظ دے اور ’’غیر قانونی تعلقات قائم کرنے اور ان ناجائز تعلقات کے تحت ناجائز بچوں کی پیدائش‘‘ کی قطعاً سرپرستی نہ کرے۔ جبکہ المیہ یہ ہے کہ ہمارے بے راہ روی کے شکار معاشرے میں مرد و زن سبھی مسلم خاندانی نظام کو ناکام بنانے میں مغربی طرز پر عدالتی کاروائیوں کے ذریعے ’’بائیولوجیکل باپ‘‘ یا ’’بائیولوجیکل ماں‘‘ یا ’’بایولاجیکل بیٹی یا بیٹا‘‘ جیسی اصطلاحات سے ناجائز رشتوں کی نئی تشریح کر کے اس بے راہ روی کو فروغ دے رہے ہیں۔ یوں وہ مغربی قانون کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی بجائے اسلامی قانون کو مغربی تہذیب کے مطابق ڈھالنے (یعنی Westernization of Islamic Law) پر عمل کر رہے ہیں۔
۳۔ فیملی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ملزم نے بنیادی انسانی حقوق کی آئینی خلاف ورزی کی بنیاد پر ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ لاہور ہائی کورٹ کے فاضل جج جناب جسٹس احمد ندیم ارشد نے بجائے اس کے کہ مدعی کو ایف آئی آر کی دفعات کے مطابق زنا بالجبر کا ملزم قرار دیتے اور معاملہ دہشت گردی کی عدالت یا سیشن کورٹ بھجواتے یا اسے حدود کیس سمجھتے ہوئے معاملہ وفاقی شرعی عدالت کو ریفر کر دیتے لیکن انہوں نے معاملہ فیملی کورٹ کو واپس بھجوا دیا اور اسے حکم دیا کہ پہلے طے کیا جائے کہ ملزم مذکورہ لڑکی کا ’’بایولاجیکل فادر‘‘ ہے یا نہیں اور اگر وہ ایسا ثابت ہو تو وہ اسے بچی کے نان و نفقہ کا حکم دے۔
ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ شخص ’’بایولاجیکل فادر‘‘ ثابت ہو بھی جائے تو بھی شرعاً زانی ہونے کی وجہ سے اس سے خرچہ / نان نفقہ نہیں لیا جا سکتا بلکہ اُسے زنا کی سزا ملے گی اور بچی کا خرچہ / نان و نفقہ ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔
۴۔ نیز فیملی کورٹ میں اس کیس کی طرز کے جو دیگر معاملات آتے ہیں ان میں دوسری شادی کو مخفی رکھنے یا کسی بے نامی بچے کو متبنیٰ بنانے کا معاملہ بھی اہم ہے جس پر قانون سازی ہونی چاہیے اور مجرموں کو سخت سزائیں دی جانی چاہئیں۔
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ جسٹس صاحب نے ایف آئی آر اور ٹرائل کورٹ کی تفصیلات کو غالباً اس لیے بیان نہیں کیا کہ اس سے ان کا مؤقف کمزور پڑتا تھا۔ نیز انہوں نے قرآن و سنت کے جو حوالے دیے ہیں، ان سے بھی ان کا مؤقف ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ ان کے خلاف جاتے ہیں۔
۵۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ ہر سطح پر پہلے پولیس نے، پھر فیملی کورٹ نے اور پھر لاہور ہائی کورٹ نے مذکورہ ملزم کو زنا بالجبر کے مرتکب ہونے کی شرعی سزا سے بچانے کی کوشش کی۔ پولیس کو حدود کا پرچہ کاٹنا چاہیے تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ فیملی کورٹ صرف نکاحی ماں اور جائز اور قانونی اولاد کے نان و نفقہ کا حکم دے سکتی ہے لیکن اس معاملے میں اس نے ملزم کو ’’بایولاجیکل فادر‘‘ تصور کر کے اس کی ناجائز بیٹی کو نان و نفقہ کا حق دار قرار دے دیا اور یہ بھی نہیں دیکھا کہ ایف آئی آر کی رو سے کیس زنا بالجبر اور دہشت گردی کا ہے نہ کہ نان و نفقہ کا۔ اور آخر میں ہائی کورٹ کے جسٹس صاحب نے بھی ایف آئی آر کو نظر انداز کیا اور ملزم کو زنا بالجبر اور دہشت گردی کی سزا کے لیے کیس سیشن کورٹ یا دہشت گردی کورٹ کو بھجوانے کی بجائے اُسے فیملی کورٹ کو ریمانڈ کر دیا اور فیملی کورٹ کے دائرہ اختیار کو خوامخواہ وسیع کر دیا کہ پہلے وہ یہ طے کرے کہ مذکورہ شخص اس لڑکی کا ’’بایو لاجیکل فادر‘‘ ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اسے نان و نفقہ کا حکم دے۔
۶۔ کمیٹی نے اس رائے کا بھی اظہار کیا کہ مذکور خاتون نے حمل کے ساتویں ماہ مذکورہ شخص کے خلاف زنا بالجبر کا مقدمہ درج کرایا جو اس بات کا قرینہ ہو سکتا ہے کہ یہ زنا بالجبر نہ ہو بلکہ حقائق مختلف ہوں اور مذکورہ خاتون اور اس کے گھر والے مذکورہ شخص سے کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر مک مکا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہوں اور اس میں ناکام ہو کر انہوں نے ایف آئی آر کٹوا دی ۔ اگر یہ زنا بالجبر کا حقیقی واقعہ ہوتا تو اس کی ایف آئی آر حادثے کے فورًا بعد درج ہونی چاہیے تھی لہٰذا ٹرائل عدالت کو چاہیے کہ وہ معاملے کی اس پہلو سے بھی تحقیق کرے اور اگر یہ زنا بالرضا ثابت ہو تو مرد و خاتون دونوں کو شرعی اور قرار واقعی سزا دی جائے۔
۷۔ کیس کی ان تفصیلات کے پیش نظر کمیٹی یہ سمجھتی ہے کہ فیملی کورٹ کے علاوہ، لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ بھی غیر شرعی اور غیر آئینی ہے۔
۸۔ کمیٹی نے دینی جماعتوں اور اسلام پسند وکلاء سے اپیل کی کہ وہ اس تفصیل کی روشنی میں لاہور ہائی کورٹ کے اس سنگل بنچ کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں۔ ملزم کو’’ بایو لاجیکل فادر‘‘ کی اس متنازعہ، مغرب سے درآمدہ اور فتنہ پرور اصطلاح کے پیچھے نہ چھپنے دیں بلکہ جب مختلف ثبوتوں اور قرائن سے ثابت ہو جائے کہ وہ اس لڑکی کا باپ ہے تو دہشت گردی کی عدالت یا سیشن کورٹ اسے قانون کے مطابق سخت ترین سزا دے۔ یا اگر کیس وفاقی شرعی عدالت کو بھیجا جائے تو وہ اسے بطور حد یا تعزیر سخت سزا دے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد امین، کنوینر کمیٹی برائے جائزہ فیصلہ ہائی کورٹ و جنرل سیکٹری ملی مجلس شرعی
(۲۶ مارچ ۲۰۲۵ء)